منگل، 24 مئی، 2016

شب برات اور معراج كا روزہ ركھنا

كيا درج ذيل امور بدعت شمار ہوتے ہيں
1 ـ آٹھ ركعت سے زيادہ تراويح ادا كرنا
2 ـ معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دن روزہ ركھنا ( جو شخص يہ اعتقاد ركھتا ہو كہ متعين تاريخ معراج كا دن ہے، اور جو شخص يہ جانتا ہو كہ احاديث ميں اس كى كوئى متعين تاريخ نہيں، ليكن وہ اللہ كى رضا كے ليے اس دن روزہ ركھے ). 
3 ـ شب برات كا روزہ ركھنا
4 ـ كيا يہ بدعت نہيں كہ كوئى شخص يہ كہے كہ شب برات كا روزہ ركھنا نفلى روزہ ہے ؟ 
بعض مسلمان كہتے ہيں كہ اگر ہم آٹھ تروايح سے زيادہ ادا كريں اور مختلف ايام مثلا " شب برات " اور معراج النبى اور ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا روزہ ركھيں تو يہ بدعت نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ عبادات سكھائى ہيں، تو يہ بتائيں كہ نماز كى ادائيگى اور ( حرام كردہ ايام كے علاوہ ) كسى بھى دن روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے، اور اس كا حكم كيا ہے ؟ 
5 ـ نماز تسبيح ادا كرنا ( كہ ہر ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جائے ) كيسا ہے ؟

الحمد للہ:

1 ـ آٹھ ركعت سے زيادہ تروايح ادا كرنا اس وقت بدعت شمار نہيں ہو گى جب كچھ راتوں كو زيادہ ركعات كے ساتھ مخصوص نہ كيا جائے مثلا آخرى عشرہ، كيونكہ ان راتوں ميں بھى اتنى ہى ركعات ادا كى جائيں جتنى پہلى راتوں ميں ادا كى جاتى ہيں، بلكہ آخرى عشرہ ميں تو ركعات لمبى كرنا مخصوص ہے، ليكن سنت يہى ہے كہ آٹھ ركعات كى جائيں يہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ثابت ہے.

2 ـ جس دن معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا اعتقاد ركھا جاتا ہے اس دن كا روزہ ركھنا جائز نہيں، بلكہ يہ بدعت ميں شامل ہو گا, لہذا جس نے بھى اس دن كا روزہ ركھا چاہے بطور احتياط ہى يعنى وہ يہ كہے كہ اگر يہ حقيقتا معراج والا دن ہے تو ميں نے اس كا روزہ ركھا، اور اگر نہيں تو يہ خير و بھلائى كا عمل ہے اگر اجر نہيں ملے گا تو سز بھى نہيں ملى گى، تو ايسا كرنے والا شخص بدعت ميں داخل ہو گا اور وہ اس عمل كى بنا پر گنہگار اور سزا كا مستحق ٹھريگا.

ليكن اگر اس نے اس دن كا روزہ تو ركھا ليكن اس ليے نہيں كہ وہ معراج كا دن ہے بلكہ اپنى عادت كے مطابق ايك دن روزہ ركھتا اور ايك دن نہيں، يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھتا تھا اور يہ اس كى عادت كے موافق آ گيا تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ اس نيت يعنى سوموار يا جمعرات يا جس دن كا روزہ ركھتا تھا سے روزہ ركھ لے.

3 ـ 4 ـ معراج كے دن روزہ ركھنے كے بارہ ميں كلام بھى شب برات كا روزہ ركھنے كى كلام جيسى ہى ہے، اور جو مسلمان يہ كہتا ہے كہ معراج يا شب برات كا روزہ بدعت نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں عبادات سكھائى ہيں تو حرام كردہ ايام كے علاوہ ميں روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے ؟

ہم اس كے جواب ميں يہ كہيں گے:

جب ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ عبادات سكھائى ہيں تو معراج وغيرہ كے روزے كى تخصيص كى دليل كہاں ہے، اگر ان دونوں ايام كے روزے ركھنے كى مشروعيت كى دليل ہے تو پھر كوئى شخص بھى ان كو بدعت كہنے كى جرات اور استطاعت نہيں ركھتا.

ليكن ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ بات كہنے والے كا مقصد يہ ہے كہ روزہ مجمل طور پر عبادت ہے اس ليے اگر كوئى شخص روزہ ركھتا ہے تو اس نے عبادت سرانجام دى اور جب يہ ممنوعہ ايام مثلا عيد الفطر اور عيد الاضحى كے علاوہ ميں ہو تو اسے اس كا ثواب حاصل ہو گا، اس كى يہ كلام اس وقت صحيح ہو گى جب روزہ ركھنے والا كسى دن كو روزہ كى فضيلت كے ساتھ مخصوص نہ كرے مثلا معراج يا شب برات، يہاں اس روزے كو بدعت بنانے والى چيز اس دن كے ساتھ روزہ مخصوص كرنا ہے كيونكہ اگر ان دو ايام ميں اگر روزہ ركھنا افضل ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى ان ايام كے روزے ركھتے، يا پھر ان ايام كا روزہ ركھنے كى ترغيب دلاتے.

اور يہ معلوم ہے كہ صحابہ كرام ہم سے خير و بھلائى ميں آگے تھے، اگر انہيں ان ايام كے روزہ كى فضيلت كا علم ہوتا تو وہ بھى ان ايام كا روزہ ركھتے، ليكن ہميں اس كے متعلق صحابہ كرام سے كچھ نہيں ملتا، اس سے معلوم ہوا كہ يہ بدعت اور نئى ايجاد كردہ چيز ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

يعنى وہ عمل اس پر رد كر ديا جائيگا، اور ان دو ايام كا روزہ ركھنا ايك علم ہے، اور ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس پر كوئى حكم اور امر نہيں ملتا تو پھر يہ مردود ہے.

5 - نماز تسبيح نفل ہے: اس پر كلام بھى بالكل پہلى كلام كى طرح ہى ہے، كہ جس عبادت پر كوئى شرعى دليل نہيں ملتى تو وہ مردود ہے، اور اس ليے كہ نہ تو كتاب اللہ ميں اور نہ ہى سنت رسول صلى اللہ ميں كوئى ايسى نماز ملتى ہے جس كى ايك ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جاتى ہو تو پھر يہ نماز بدعت ہوئى اور ايسا كرنے والے پر اس كا وبال ہو گا .

 

پیر، 16 مئی، 2016

 

سوال: میں اور میرا دوست یونیورسٹی کی جائے نماز میں ظہر کے وقت داخل ہو ئے تو ہمیں ایک شخص پہلے سے نماز پڑھتا ہوا دکھائی دیا تو ہم اس کے ساتھ با جماعت کی نیت سے نماز ظہر پڑھنے کیلیے داخل ہو گئے، لیکن اس بھائی نے امام کی طرح تکبیرات اور سلام کیلیے اپنی آواز بلند نہیں کی، ہم نے نماز میں اٹھتے بیٹھتے اس کی اقتدا کرنے کی کوشش کی ، اور جس وقت اس نے اپنی نماز مکمل کر لی تو ہم نے اپنی بقیہ نماز پوری کر لی، لیکن افسوس کہ ہم اس بھائی سے ایسا کرنے پر استفسار نہیں کر سکے، تو کیا ہماری وہ نماز درست تھی؟


الحمد للہ:


علمائے کرام نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ امام کا تکبیرات اور سلام کو بلند آواز سے کہنا سنت ہے یعنی: واجب یا رکن نہیں ہے۔


چنانچہ اس بنا پر ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہو گی جو نماز میں تکبیرات یا سلام بلند آواز سے نہیں کہتا۔


ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:


 "امام کیلیے "سمع اللہ لمن حمدہ"جہری کہنا سنت ہے  اسی طرح تکبیرات کو بلندی آواز سے کہنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ یہ ایک رکن سے دوسرے رکن میں جاتے وقت کا ذکر ہے ؛ چنانچہ تکبیرات کی طرح جہری "سمع اللہ لمن حمدہ" کہنا بھی شرعی عمل ہے" انتہی


 " المغنی " (1/301)


اسی طرح شیخ مصطفی رحیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:


 "امام کیلیے تکبیرات جہری یعنی بلند آواز سے کہنا مسنون ہے، تا کہ مقتدی امام کی اقتدا آسانی سے کر سکے؛ دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان ہے کہ: (جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو) اسی طرح "سمع اللہ لمن حمدہ" اور دائیں جانب سلام کہنا بھی مسنون ہے؛ تا کہ مقتدی امام کی اقتدا کر سکے۔۔۔ اسی طرح جہری نماز میں بلند آواز کے ساتھ قراءت کرنا بھی مسنون ہے اس کیلیے امام تکبیرات، تسمیع [یعنی: سمع اللہ لمن حمدہ کہنا] دائیں جانب سلام، اور قراءت کی آواز اپنے مقتدیوں کو سنائے ؛ تا کہ مقتدی اس کی اقتدا کر سکیں، اور امام کی قراءت سنیں" انتہی


 " مطالب اولی النهى " (1/420)


اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ جس شخص کے پیچھے آپ نے نماز ادا کی ہے اس نے آپ کی امامت کی نیت ہی نہیں کی ؛ اسی لیے اس نے تکبیرات اور سلام بلند آواز سے نہیں کہے تو پھر بھی راجح موقف کے مطابق اس کے پیچھے نماز درست ہوگی؛ کیونکہ امامت کروانے کی نیت کرنا واجب نہیں ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:


 "چوتھی صورت یہ ہے کہ: مقتدی اقتدا کرنے کی نیت تو کرے لیکن امام امامت کروانے کی نیت نہ کرے تو صرف امام کی نماز صحیح ہوگی  لیکن مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی۔


 اس کی مثال یہ ہے کہ:


 ایک شخص مسجد میں آئے اور کسی شخص کے پیچھے اس نیت سے کھڑا ہو جائے کہ وہ امام ہے لیکن پہلا شخص امامت کی نیت نہ کرے تو پہلے شخص کی نماز تو درست ہوگی لیکن دوسرے شخص کی نماز درست نہیں ہوگی ؛ کیونکہ دوسرے شخص نے ایسے شخص کو اپنا امام بنایا جو اس کا امام تھا ہی نہیں ، حنبلی مذہب میں یہی موقف ہے، نیز یہ حنبلی مذہب کا انفرادی مسئلہ ہے جیسے کہ الانصاف میں ہے


اس مسئلہ میں دوسرا موقف یہ ہے کہ: اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اپنا امام بنا لیتا ہے جس نے امامت کی نیت ہی نہیں کی تو ایسا کرنا صحیح ہے۔


اس موقف کےقائلین دلیل یہ دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کی کسی رات میں قیام فرما رہے تھے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے جمع ہو کر نماز ادا کرنے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس بات کا ادراک نہیں تھا، پھر آپ نے دوسری اور تیسری رات بھی انہیں نماز پڑھائی اور آپ کو ان کے بارے میں علم ہو چکا تھا، لیکن آپ چوتھے دن امام سے پیچھے ہی رہے مبادا یہ نماز ان پر فرض ہی نہ ہو جائے، یہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ مقصود یہ ہے کہ امام کی اتباع اور اقتدا ہو اور اس صورت میں اس کی اقتدا  موجود ہے۔۔۔" انتہی


 " الشرح الممتع " (2/306)


 


واللہ اعلم.


 


Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...