بدھ، 17 جون، 2020

عربی اردو گرائمر کے بنیادی قواعد02

pdf file book
---------------- کلمہ ------------------
کلمہ کی چھ قسمیں ہیں
اسم
فعل
حرف
صفت
متعلق فعل
ضمیر
(١) اسم
اسم وہ کلمہ ہے جو کسی شخص،جگہہ ،یا چیز کا نام ہو ۔

مثلاً۔: استاد شاگرد کو پڑھاتا ہے،حمید کے ہاتھ سے پرندہ اڑ گیا،ذاکر ہندوستان کا بادشاہ ہے۔

اُوپر کی مِثالوں میں اُستاد، شاگِرد، حمید، ہاتھ پرندہ ،ذاکر، ہندُوستان اور بادشاہ ناموں کو ظاہر کرتے ہیں۔یہ سبھی اِسم ہیں۔

(٢ )فعل
فعل وہ کلمہ ہے جس سے کسی کام کا ہونا یا کرنا پایا جائے۔
فعل کی دوقسمیں ہیں۔

١ فعل ناقص:-وہ فعل ہے جس سے صرف کسی شخص کی خالت کا پتہ چلے۔ اس کا کوئی کام ظاہر نہ ہو۔
مثلاً:-وہ بیمار تھا، میں خوش ہوں، ہم اگلے اتوار کو یہاں ھونگے. ان جملوں میں تھا، ہوں اور ہونگے فعل ناقص ہیں۔
٢ فعل تام:-وہ فعل ہے جس سے کسی اسم کے کام کرنے کا پتہ لگے.
مثلا:-شام اسکول گیا تھا،ہم رات کو سوتے ہیں،وہ تھوڑی دیر کے بعد کھانا کھائے گا۔

(٣) حرف
حرف وہ کلمہ ہے جو جملے میں دوسرے کلمات کو باہم ملانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے.

مثلا:-خدا نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کیا، اس آم کا ذائقہ کھٹا ہے،اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو،اس نے بڑی محنت کی لیکن کامیاب نہ ہوا،
ان اوپر کی مثالوں میں اور ،کو ،کا ،کے ساتھ، لیکن، ایسے کلمات ہیں جو نہ اسم ہیں، نہ صفت، نہ ضمیر ،نہ فعل بلکہ ایسے کلمات ہیں جو اجزائے کلام کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاتے ہیں ایسے کلمات کو حرف کہتے ہیں۔
(٤) صفت
صفت وہ کلمہ ہے جس سے ظاہر ہو کہ کوئی چیز یا شخص کس طرح کا ہے۔یہ ظاہر نہ ہو کہ وہ کام کیا کرتا ہے۔یعنی صفت کسی اسم کی صرف خوبی یا بدی بیان کرتی ہے۔
مثلا:-عقلمند آدمی وقت ضائع نہیں کرتا،محنتی شخص بھوکا نہیں مرتا،مجھے ہرا رنگ پسند ہے۔
اوپر کے جملوں میں۔عقلمند،محنتی،ہراایسے کلمے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ آدمی ،شخص ،اور رنگ کس طرح کے ہیں۔اس قسم کے کلموں کو صفت کہتے ہیں۔اور جس کی صفت کی جائے اسے موصوف کہتے ہیں ۔
(٥) متعلق فعل
متعلق فعل وہ کلمہ ہے جو فعل یا کام کرنے سے متعلق کچھ بتائے۔
مثلا:-اچھا لڑکا خوب کام کرتا ہے،اشرف اچانک راستہ بھول گیا،
ان جملوں میںخوب اور اچانکایسے کلمے ہیں جو فعل یا کام کرنے سے متعلق کچھ بتاتے ہیں یعنی کام کیسے ہوا ۔ایسے کلموں کو متعلق فعل کہتے ہیں۔
(٦) ضمیر
ضمیر وہ کلمہ ہے جو کسی اسم کی جگہ استعمال کیا جائے.
مثلا:– شام نے علی کو دیکھا کہ وہ دھوپ میں بیٹھا ہے ۔شام آگے بڑھا اور اس سے کہا کہ میں آ گیا ہوں۔کوئی خدمت فرمائیں۔علی نے جواب دیا۔تو میرے آگے سے ہٹ جا”.
اوپر کے جملوں میں وہ، اسے ،میں، اور میرے، ایسے کلمے ہیں جو کسی اسم کی بجائے استعمال کیے گئے ہیں۔وہعلی کی جگہ، "اسے"بھی علی کی بجائے "میں شام کی جگہ ، "میرے بھی علی کی جگہ استعمال ہوئے ہیں. جو کسی اسم کی جگہ استعمال کیا جائے اسے ضمیر کہتے ہیں. اور جس اسم کی بجاۓ ضمیر استعمال کی جائے اسے مرجع کہتے ہیں۔
------------------------------------
وہ لفظ جس کے کچھ معنی ہوں اسے کیا کہتے ہیں؟{ کسی  ایک کو   ٹک دے دو}
کلمہ
اسم
مہمل

ہفتہ، 13 جون، 2020

عربی اردو گرائمر کے بنیادی قواعد 01


یہ نصاب عربی اردو گرائمر کے متعلق ہے۔اس کورس میں ہم عربی  اردو گرائمر کے بنیادی قواعد کو نہایت ہی آسان زبان میں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لئے اس کی گرائمر و قواعد کا جاننا نہایت ضروری ہوتا ہے اسی طرح  عربی یا اردو زبان کو سیکھنے کے لئے عربی  اردو گرائمر کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ذیل میں دیئے گے نصاب میں ہم نے ‘حرف کا بیان’ سے لے کر ‘ترکیب نحوی’ تک تمام اسباق کو نہایت ہی آسان زبان میں لکھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کو اس نصاب سے عربی اردو گرامر کے متعلق بہت سی نئی معلومات حاصل ہوگی۔
نوٹ : یہ پہلا پاٹ ہے باقی آرہے ہے ؟ 
----------------لفظ------------------
بہت سے حروف تہجی مل کر ایک لفظ بناتے ہیں۔لفظ کی دو قسمیں ہیں۔
(١)کلمہ اور (٢) مہمل
(١) کلمہ
‍‌‌ کلمہ وہ منفرد لفظ ھے جسکے کچھ معنی ہوں۔یعنی حروف کے ایک ایسے مجموعے کو کلمہ کہا جاتا ہے جس سے کسی بات کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آئے۔
جیسے:
١-حامد ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے
٢- مودی جی ترقی کر رہے ہیں۔
(٢)مہمل
مہمل الفاظ کے ایسے مجموعے کو کہا جاتا ہے جس کے کچھ معنی نہ ہوں.
جیسے:
١ کھانا وانہ کھایا ہوگا
٢آپ نے پانی وانی پی لیا؟
ان دو جملوں میں "وانہ” اور "وانی” مہمل ہیں
لفظ کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟ { کسی  ایک کو   ٹک دے دو}
تین
دو
چار

قصص قرآنی


اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

میں عبدالمومن سلفی  معلم  دارلھدی کنزر ا ور محمدیہ ہای اسکول کنزر گلمرگ ۔

قصص القرآن آج کا نیا موضوع ۔۔

قصص قرآنی

قصص جمع ہے قصہ کا۔ جس سے مراد قرآن مجید کے وہ عبرت انگیز قصے ہیں جو قرآن میں اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بیان فرمائے۔ پہلی امتوں کے احوا ل،انبیائے سابقین، حادثات اقوام ذکر فرمائے پھر قوموں، قبیلوں، شہروں اور بستیوں کے احوال بھی تاریخی طور پر بیان کیے جنہیں قصص القرآن کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کا اہم موضوع قصص اور واقعات ہیں ،قرآن کریم میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں انھیں دو قسموں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ واقعات جو ماضی سے متعلق ہیں اور دوسرے جو مستقبل سے متعلق ہیں۔

ماضی کے واقعات

ماضی کے واقعات میں زیادہ تر اللہ تعالی نے انبیا علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں اور ان کے علاوہ بعض نیک یا نافرمان افراد واقوام کے واقعات بھی مختلف جگہوں پر ذکر فرمائے گئے ہیں ،قرآن کریم میں کل ستائیس(27) انبیا علیہم السلام کے واقعات ذکر فرمائے گئے ہیں، ان قصوں کو بیان کرنے سے قرآن کریم کا مقصود تاریخ نگاری نہیں بلکہ وہ ان قصوں کو یاد دلاکر ایک طرف تو تذکیر وموعظت کا سامان مہیا فرماتا ہے اور مسلمانوں کو انبیا کرام کی دعوت سے سبق لینے پر مجبور کرتا ہے اور دوسری طرف یہ واضح کردینا چاہتا ہے کہ سابقہ قوموں اور امتوں کے یہ بصیرت افروز سچے واقعات اس ذات گرامی کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں جو بالکل امی ہیں اور اس نے آج تک کسی کے پاس رہ کر اس قسم کا کوئی علم حاصل نہیں کیا اس لیے یقیناً اسے اللہ تعالی کی طرف سے باخبر کیا جاتا ہے اور جو وہ کلام تلاوت فرماتے ہیں وہ کوئی انسانی کلام نہیں خدائی کلام ہے ،پھر ان قصوں کے درمیان علم وحکمت کے بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں اور ان کی ہر آیت انسانی زندگی کے ان گنت مسائل پر صحیح اور بہترین رہنمائی عطا کرتی ہے۔

مستقبل کے واقعات

قرآن کریم نے پیش گوئی کے طور پر مستقبل کے واقعات بھی ذکر فرمائے ہیں اس قسم کے واقعات میں قیامت کی نشانیاں، قیامت کے احوال ،حشر ونشر کا منظر، دوزخ کی ہولناکیاں، جنت کی دل فریبیاں بیان کی گئی ہیں؛ چنانچہ قیامت سے پہلے زمین سے ایک جانور کا نمودار ہونا، یاجوج ماجوج کا خروج،صورِ اسرافیل ،سوال وجواب ،جہنمیوں کے باہمی مکالمے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر موجود ہیں۔

قصص قرآنی

قصص جمع ہے قصہ کا۔ جس سے مراد قرآن مجید کے وہ عبرت انگیز قصے ہیں جو قرآن میں اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بیان فرمائے۔ پہلی امتوں کے احوا ل،انبیائے سابقین، حادثات اقوام ذکر فرمائے پھر قوموں، قبیلوں، شہروں اور بستیوں کے احوال بھی تاریخی طور پر بیان کیے جنہیں قصص القرآن کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کا اہم موضوع قصص اور واقعات ہیں ،قرآن کریم میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں انھیں دو قسموں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ واقعات جو ماضی سے متعلق ہیں اور دوسرے جو مستقبل سے متعلق ہیں۔

ماضی کے واقعات

ماضی کے واقعات میں زیادہ تر اللہ تعالی نے انبیا علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں اور ان کے علاوہ بعض نیک یا نافرمان افراد واقوام کے واقعات بھی مختلف جگہوں پر ذکر فرمائے گئے ہیں ،قرآن کریم میں کل ستائیس(27) انبیا علیہم السلام کے واقعات ذکر فرمائے گئے ہیں، ان قصوں کو بیان کرنے سے قرآن کریم کا مقصود تاریخ نگاری نہیں بلکہ وہ ان قصوں کو یاد دلاکر ایک طرف تو تذکیر وموعظت کا سامان مہیا فرماتا ہے اور مسلمانوں کو انبیا کرام کی دعوت سے سبق لینے پر مجبور کرتا ہے اور دوسری طرف یہ واضح کردینا چاہتا ہے کہ سابقہ قوموں اور امتوں کے یہ بصیرت افروز سچے واقعات اس ذات گرامی کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں جو بالکل امی ہیں اور اس نے آج تک کسی کے پاس رہ کر اس قسم کا کوئی علم حاصل نہیں کیا اس لیے یقیناً اسے اللہ تعالی کی طرف سے باخبر کیا جاتا ہے اور جو وہ کلام تلاوت فرماتے ہیں وہ کوئی انسانی کلام نہیں خدائی کلام ہے ،پھر ان قصوں کے درمیان علم وحکمت کے بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں اور ان کی ہر آیت انسانی زندگی کے ان گنت مسائل پر صحیح اور بہترین رہنمائی عطا کرتی ہے۔مستقبل کے واقعات[رآن کریم نے پیش گوئی کے طور پر مستقبل کے واقعات بھی ذکر فرمائے ہیں اس قسم کے واقعات میں قیامت کی نشانیاں، قیامت کے احوال ،حشر ونشر کا منظر، دوزخ کی ہولناکیاں، جنت کی دل فریبیاں بیان کی گئی ہیں؛ چنانچہ قیامت سے پہلے زمین سے ایک جانور کا نمودار ہونا، یاجوج ماجوج کا خروج،صورِ اسرافیل ،سوال وجواب ،جہنمیوں کے باہمی مکالمے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر موجود ہیں۔


Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...