پیر، 25 مئی، 2020

ایک عربی نظم کا ترجمہ اردو میں ۔۔

مصطفى مصطفى

مصطفى مصطفى

منبع للصفاء

سکون کا ذریعہ ہے

سید الانبیاء

انبیاء کے سردار

مشعل فی الوفا

راہ وفا کی روشنی

کان فی عطفه

ہمدردی سے سرشار

لأيتامى دفه

حن قلبي له

میرا دل آپ کے لے ترستا ہے

فاض سوفت إليه

ہر وقت ترستا ہے

ليس ارجو سوى

اس امید پہ کہ

شربة من يديه

آپ کے ہاتھوں سے مشروب پیوں

الصلاة عليه

درود پڑھوں ان کے لے

والسلام عليه

اور سلام بھیجوں

كان فى هديه

آپ کی سیرت میں

منھجا وسطا

میانہ روی

کان تسعدہ

خوش رہنے کی عادت

بسمة البسطاء

سادگی کی مسکراہٹ

سيد فى الكرم

سخاوت کے بادشاہ

قمة فى العطاء

جود و سخا کے پہاڑ

مصطفی مصطفی

منبع للصفاء

سكون کا ذریعہ

سيد الانبياء

انبیاء کے سردار

مشعل فی الوفا

راہ وفا کی روشنی

كان فى عطفه

ہمدردی سے سرشار

لأيتامى دفه

یتیموں کی آس

 


ہفتہ، 16 مئی، 2020

رمضان سے متعلق فتاویٰ




سوال : اللہ تعالیٰ کے فرمان :
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ [2-البقرة:187]
’’ اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے “۔
کی روشنی میں اس شخص کا کیا حکم ہے جو ا ذان فجر کے وقت یا اذان کے 15 منٹ بعد سحری مکمل کرے اور پانی پیئے ؟
جواب : سوال میں مذکورشخص کو اگر یقین ہو کہ وہ صبح صادق سے پہلے کا وقت ہے تو اس پر قضا نہیں ہے اور اگر اسے معلوم ہو کہ یہ صبح صا دق کے بعد کا وقت ہے تو اس پر قضا ضروری ہے۔ اور اگر یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس کا کھانا اور پینا صبح صادق کے پہلے ہوا ہے یا بعد میں تو بھی قضا نہیں ہے، اس لئے کہ اصل رات کا بقا ہے، لیکن مسلمان کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ اپنے صوم میں محتاط رہے اور جب اذان سن لے تو صوم کو توڑ دینے والی چیزوں سے رک جائے۔ البتہ اگر اسے معلوم ہو کہ یہ اذان صبح صادق سے پہلے ہوئی ہے تو وہ کھا، پی سکتا ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : اس شخص کے صوم کا شرعی حکم کیا ہے جو فجر کی اذان سن کر برابر کھاتا پیتا رہے ؟
جواب : مومن پر واجب ہے کہ اگر اس کا صوم فرض ہو مثلاً صومِ رمضان و صومِ نذر و کفارات تو صبح صادق ظاہر ہونے کے بعد کھانے پینے سے اور دیگر تمام مفطرات سے باز رہے، اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ [2-البقرة:187]
’’ اور تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح صادق کا سفید دھاگہ سیا ہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک صوم کو پورا کرو “۔
لہٰذا جب کوئی شخص اذان سن لے اور اسے معلوم ہو کہ یہ فجر کی اذان ہے تو رک جانا ضروری ہے اور اگر موذن طلوع فجر سے پہلے اذان دے تو اس پر رکنا ضروری نہیں بلکہ کھانا جائز ہے جب تک کہ فجر ظاہر نہ ہو جائے۔ اور اگر مؤذن کا حال معلوم نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے اذان دے رہا ہے یا فجر کے بعد، تو ایسی صورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اذان سن کر کھانے پینے سے رک جا ئے۔ اور اگر اذان کے وقت تھوڑا بہت کھا پی لے تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ اسے طلوع فجر کا علم نہیں ہو سکا ہے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص ایسے شہروں میں رہتا ہو جہاں بجلی کی روشنیاں پوری رات جگمگاتی رہتی ہیں اسے صحیح طور پر طلوع فجر کا علم نہیں ہو پاتا، پھر بھی اس پر ضروری ہے کہ احتیاط سے کام لے اور اذان اور جنتریوں میں دیئے گئے وقت کا لحاظ کرے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
دع ما يريبك الي ما لا يريبك [صحيح: صحيح بخاري، البيوع 34 باب تفسير المشبهات 3]
جس بات میں شک ہو اسے چھوڑ دو اور وہ بات اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من اتقي الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه [صحيح: صحيح بخاري، الإيمان 2 باب فضل من استبرأ لدينه 39 رقم 52 بروايت نعمان بن بشير رضي الله عنه، صحيح مسلم، المساقاة 22 باب أخذ الحلال وترك الشبهات 20 رقم 107، 5991]
جو شبہا ت سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : جب صائم فجر کی اذان سننے کے بعد کوئی چیز پی لے تو کیا اس کا صوم صحیح ہو گا ؟
جواب : صائم فجر کی اذان سننے کے بعد کوئی چیز پی لے تو اس کی دو صورتیں ہیں :
(1) اگرموذن صبح صادق ظاہر ہونے کے بعد اذان دے رہا ہے تو ایسی صور ت میں اذان کے بعد صائم کے لئے کھانا پینا جائز نہیں ہے۔
(2) اور اگر وہ اذان صبح صادق سے پہلے دے رہا ہے تو کھانے اور پینے میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ [2-البقرة:187]
اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
ان بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتي تسمعوا أذان ابن أم مكتوم فإنه لا يؤذن حتي يطلع الفجر [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم لا يمنعنكم من سحوركم أذان بلا ل 17 رقم 1918۔ 1919۔ بروايت عائشه رضي الله عنها، صحيح مسلم، الصيام 13 باب أن الدخول فى الصوم يحصل بطلوع الفجر 8 رقم 36 1092 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما]
بے شک بلا ل رات میں اذان دیتے ہیں، پس کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تم ابن ام مکتوم کی اذان سنو، کیونکہ وہ طلوع فجر سے پہلے اذان نہیں دیتے ہیں۔
اس لئے مؤذنین پر ضروری ہے کہ فجر کی اذان کی اچھی طرح تحقیق کر لیں اور اسی وقت اذان دیں جب صبح صادق اچھی طرح ظاہر ہو جا ئے، یا اچھی گھڑیوں سے صبح صادق کے طلوع ہونے کا یقین ہو جائے۔ تاکہ لوگوں کو دھوکہ میں ڈال کر انہیں اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے محروم نہ کر دیں اور وقت سے پہلے لوگوں کے لئے صلاۃ فجر حلال نہ کر دیں۔ یہ بہت خطرناک چیز ہے جس سے ہر شخص واقف ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : میں آپ سے رمضان کے دن میں استمناء (مشت زنی) کے کفارہ کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ اس کے ناجائز ہونے کا علم مجھے ہے لیکن کیا اس کا کفارہ ہے ؟ اور اگر کفارہ ہے تو براہِ کرم اسے واضح طور پر بیان فرما ئیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت عطا فرمائے۔
جواب : چونکہ مشت زنی رمضان اور غیر رمضان سب میں ناجائز ہے۔ لہٰذا یہ جرم اور گناہ ہے اگر اللہ تعالیٰ آدمی کو معاف نہ کرے تو وہ گنہ گار ہو گا۔ اس کا کفارہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرے اور ایسی نیکیاں کرے جن سے برائیاں مٹ جاتی ہیں۔ اور چونکہ یہ بدعملی رمضان کے دن میں ہو ئی ہے لہٰذا اس کا گناہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے آدمی کو چاہیے کہ خالص توبہ کرے، اور عملِ صالح کرے۔ اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور قرب الٰہی کا کا م کرے اور اپنے نفس کو حرام خواہشات سے باز رکھے۔ اور مشت زنی سے جو صوم فاسد کیا ہے اس کی قضا کرے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرما تا ہے اور اس کی برائیوں کو معاف فرماتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : صائم کے لئے لعاب نگل جانے کا حکم کیا ہے ؟
جواب : لعاب صوم کے لئے مضر نہیں ہے، کیوں کہ اس کا تعلق تھوک سے ہے۔ اگر اسے نگل جائے تو بھی کوئی حرج نہیں اور تھوک دے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ بلغم جو کبھی سینہ سے نکلتا ہے اور کبھی سر سے مرد و عورت پر ضروری ہے کہ اسے نہ نگلیں، بلکہ تھوک دیں، جہاں تک معاملہ لعاب اور تھوک کا ہے تو اس کے نگلنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور صوم کے لئے یہ مضر نہیں ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : جب کلی کرتے یا ناک میں پانی ڈالتے وقت بلا قصد و ارادہ کے پانی حلق میں داخل ہو جائے تو کیا آدمی کا صوم فاسد ہو جائے گا ؟
جواب : صائم جب کلی کرے یا ناک میں پانی ڈالے اور پانی اس کے پیٹ میں چلا جائے تو اس کا صوم نہیں ٹوٹے گا۔ اس لئے کہ یہ کام بغیر قصد و ارادہ کے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَلَـكِنْ مَاتَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ [33-الأحزاب : 5]
’’ البتہ گناہ وہ ہے جس کا ارادہ تم دل سے کرو“۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
لیکن صوم کی حالت میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنے سے بچنا چاہیے تاکہ پانی کے حلق میں پہونچنے کا خطرہ نہ رہے۔ جیسا کہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
أسبغ الوضوء وخلل بين الأصابع، وبالغ فى الاستنشاق إلا أن تكون صائما [صحيح : صحيح سنن أبى داؤد، الطهارة1 باب فى الاستنثار55 رقم 142، صحيح سنن ترمذي : الصوم 6، باب ماجاء فى كراهية مبالغة الاستنشاق للصائم 69، رقم 788، صحيح سنن نسائي : الطهارة 1 باب المبالغة فى الاستنشاق 71 رقم 87، صحيح سنن ابن ماجه : الطهارة1 باب المبالغة فى الاستنشاق و الاستنشار 44 رقم 328۔ 407]
وضو کو مکمل کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی ڈالنے میں صوم کی حالت کے سوا مبالغہ کرو۔

——————

سوال : کچھ لوگ رمضان میں صوم کے فاسد ہونے کے ڈر سے مسواک نہیں کر تے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ اور رمضان میں مسواک کرنے کا افضل وقت کیا ہے ؟
جواب : رمضان کے دن میں یا رمضان کے علاوہ دیگر دنوں میں جن میں انسان صوم سے ہو مسواک نہ کر نے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیوں کہ مسواک کرنا سنت ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ مسواک منہ کی صفائی اور اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔ اور وضو اور صلاۃ کے وقت نیز نیند سے بیدار ہونے اور گھر میں داخل ہونے کے وقت اس کی بہت تاکید آئی ہے۔ خواہ صیام کی حالت میں ہو یا غیر صیام کی۔ اور یہ صوم کو فاسد کر نے والا نہیں ہے۔ البتہ اگر مسواک کا مزہ اور اس کا اثر تھوک میں پایا جائے تو اسے نہ نگلے۔ اسی طرح اگر مسواک کرتے وقت مسوڑھے سے خون نکلے تو اسے بھی نہ نگلے۔ ان باتوں کی رعایت کر تے ہو ئے اگر کوئی مسواک کرے تو اس کے صیام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کیا صبح صادق کے بعد میرے لئے منجن سے برش کرنا جائز ہے ؟ بصورت جواز برش استعمال کرنے کی حالت میں اگر دانتوں سے تھوڑا ساخون نکل آئے تو کیا اس سے صوم ٹوٹ جائے گا ؟
جواب : صبحِ صادق کے بعد دانتوں کو پانی، مسواک اور برش سے ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بعض علماء نے صائم کے لئے زوال کے بعد مسواک کرنا مکروہ قرار دیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ مسواک کرنا خواہ دن کے شروع میں ہو یا اس کے آخر میں مستحب ہے۔ اور مسواک کرنے سے منہ کی بو نہیں جاتی ہے بلکہ مسواک دانتوں اور منہ کو بدبو اور بخارات سے اور دانتوں میں کھانے کے پھنسے ہوئے حصوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔
جہاں تک منجن کے استعمال کا مسئلہ ہے تو بظاہر وہ مکروہ ہے اس لئے کہ اس کے اندر بو ہوتی ہے اور مزہ ہوتا ہے جس کے تھوک میں مل کر اندر جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر کسی کو برش استعمال کر نے کی ضرورت ہو تو وہ سحری کے بعد صبحِ صادق سے پہلے استعمال کرے۔ اور اگر دن میں استعمال کرے اور نگلنے سے بچے تو ضرورت کی بنا پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر مسواک یا برش سے تھوڑا ساخون نکل آئے تو اس سے صوم نہیں ٹوٹے گا۔ واللہ اعلم۔
’’ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ“

——————

سوال : کیا تیل جس سے چمڑا میں رطوبت آ جائے صوم کے لئے مضر ہے جبکہ اس کا تعلق ایسے نوع سے ہو جو چمڑے تک پانی پہونچنے سے مانع نہ ہو ؟
جواب : بوقت ضرورت صوم کی حالت میں تیل لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ تیل چمڑے کے باہری حصہ کو تر کرتا ہے اور جسم کے اندر نہیں گھستا ہے۔ اور اگریہ مان لیاجائے کہ وہ اجسام میں داخل ہوتا ہے تو بھی اس سے صوم نہیں ٹوٹتا ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ“

——————

سوال : کیا رمضان کے دن میں خون کا عطیہ کرنا جائز ہے یا اس سے صوم ٹوٹ جاتاہے ؟
جواب : جب کوئی شخص خون کاعطیہ کرے اور اس سے زیادہ خون نکال لیا جائے تو حجامت (پچھنا لگوانا) پر قیاس کرتے ہو ئے اس سے آدمی کا صوم فاسد ہو جائے گا۔ جیسے کسی مریض کو بچانے کے لئے، یا کسی حادثہ کے پیش نظر خون کو محفوظ رکھنے کے لئے رگوں سے خون کھینچ لیاجائے، لیکن اگر تھوڑی مقدار میں خون نکالا جائے، مثلاً ٹسٹ کرنے کے لئے سوئی یا سلائڈ سے خون لیا جائے تو اس سے صوم نہیں ٹوٹتا ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : کیا رمضان کے دن میں بطور علاج انجکشن لگوانے یاحقنہ کرانے سے صوم متاثر ہوتا ہے ؟
جواب : علاج والے انجکشن دو قسم کے ہوتے ہیں :
(1) وہ انجکشن جن سے غذا اور قوت مقصود ہو، اور اس کی وجہ سے آدمی کھانے پینے سے بے نیاز ہو جائے، تو غذا کے ہم معنی ہونے کی وجہ سے ایسا انجکشن مفطر صوم ہو گا۔ اس لئے کہ جب کسی صورت میں نصوص شرع کے وہ معنی پائے جائیں جن پر وہ مشتمل ہیں تو اس صورت پر اس نص کا حکم لاگو ہو گا۔
(2) وہ انجکشن جو غذا اور قوت کا کام نہیں دیتا یعنی آدمی اس سے کھانے اور پینے سے بے نیاز نہیں ہوتا ہے، تو ایسا انجکشن مفطر صوم نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ نص شرع اس کو لفظ اور معنی کسی صورت میں شامل نہیں ہے۔ کیوں کہ نہ تو یہ کھانا اور پانی ہے اور نہ کھانا اور پانی کے ہم معنی ہے۔ اور اصل صیام کا صحیح ہونا ہے جب تک کہ دلیل شرعی کے تقاضے سے کوئی ایسی چیز نہ ثابت ہو جو صوم کو فاسد کرنے والی ہو۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : رمضان کے دنوں میں صائم کے خوشبو استعمال کر نے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : رمضان کے دن میں خوشبو سونگھنے اور استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ ’’ بخور“ نہ ہو۔ کیونکہ بخورمیں دھوئیں کی شکل میں جرم ہوتا ہے جو معدہ تک پہونچتا ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : رمضان کے دن میں آنکھ اور کان میں دوا استعمال کرناکیا مفطر صوم ہے یا نہیں ؟
جواب : صحیح بات یہ ہے کہ آنکھ میں دوا ڈالنا مفطر صوم نہیں ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ کیوں کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ جب دوا کا مزہ حلق تک پہونچ جائے تو وہ مفطر صوم ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ مطلق طور پر مفطر نہیں ہے۔ اس لئے کہ آنکھ (منفذ) کھانے پینے کی جگہ نہیں ہے۔ پھر بھی جو شخص دوا کا مزہ حلق میں پائے اور اختلاف سے بچتے ہو ئے احتیاطاً اس دن کی قضا کر لے تو کوئی حرج نہیں، مگر صحیح بات یہی ہے کہ وہ مفطر صوم نہیں ہے، چاہے آنکھ میں دوا ڈالے یا کان میں۔ ’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کتاب ’’ الضیاء اللامع“ میں ماہ رمضان اور صیام سے متعلق ایک خطبہ کے اندر درج ذیل عبارت ہے :
ولا يفطر أيضا إذاغلبه القئ وإذاداوي عينيه أو أذنه أو قطر فيها
’’ اور جب آدمی کو خود بخود قئی ہو جائے، اور جب اپنی آنکھوں یا کانوں کا علاج کرائے یا آنکھ اور کان میں دوا ڈالے تو بھی اس کا صوم نہیں ٹوٹتا“۔
اس سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب : مذکورہ بالا عبارت میں جو یہ بات کہی گئی ہے کہ جو شخص اپنی آنکھ اور کان میں دوا ڈالے تو اس سے اس کا صوم فاسد نہیں ہو گا، وہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ عرف عام میں اور شریعت کی زبان میں اسے نہ تو کھانا کہا جاتا ہے اور نہ پینا۔ اور اس لئے بھی کہ یہ ایسے راستے سے داخل ہوتا ہے جو کھانے اور پینے کا راستہ نہیں ہے۔ اور اگر آنکھوں اور کانوں میں دوا ڈالنا رات تک مؤخر کر دے تو اختلاف سے بچنے کے لئے زیادہ محتاط بات ہے۔ اسی طرح اگر خود بخود قے ہو جائے تو اس سے بھی صوم فاسد نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ نیز شریعت اسلامیہ رفع حرج پر مبنی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [22-الحج : 78]
’’ اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی“۔
علاوہ ازیں اور بھی دلائل ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من ذرعه القئ فلاقضاء عليه، ومن استقاء فعليه القضاء [صحيح : صحيح سنن أبى داؤ د، الصوم باب الصائم يستقي عامد اً 32 رقم 2084۔ 2380 بروايت ابوهريره رضي الله عنه، صحيح سنن ترمذي، الصوم باب من استقاء عمداً 25 رقم 577۔ 723، صحيح سنن ابن ماجه، الصيام 7 باب ماجاء فى الصائم يقئي 16 رقم 1359۔ 1676، صحيح الجامع رقم 6243، الإرواء رقم 923۔ 930]
’’ جس کو خود بخود قے ہو جائے تو اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص قصداً قے کرے تو اس پر قضا ضروری ہے “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : کیا صیام و صلاۃ کے دوران بالوں میں منہدی لگانا جائز ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ منہدی لگانا مفطر صوم ہے۔
جواب : اس قول کا صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ صیام کے دوران منہدی لگانا نہ تو صوم کو توڑتا ہے اور نہ صائم پر کسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے سرمہ لگانا، کان اور آنکھ میں دوا ٹپکانا یہ سب چیزیں نہ تو صائم کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اور نہ صوم کو توڑتی ہیں۔
رہا مسئلہ اثناء صلاۃ منہدی لگانے کا تو یہ سوال میری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیوں کہ جو عورت صلاۃ ادا کر رہی ہو اس وقت وہ منہدی نہیں لگا سکتی۔ شاید کہ سوال کامقصد یہ ہو کہ عورت جب منہدی لگا لے تو کیا اس کا وضو صحیح ہو گا ؟
اس کا جو اب یہ ہے کہ منہدی صحت وضو سے مانع نہیں ہے۔ کیوں کہ منہدی جرم (جسم) والی چیز نہیں ہے جو پانی پہونچنے سے مانع ہو۔ یہ تو صرف رنگ ہے اور وضو میں موثر صرف جسم والی چیز ہوتی ہے جو پانی پہنچنے سے مانع ہو۔ وضو کے صحیح ہونے کے لئے ایسی چیز کا زائل کرنا ضروری ہے۔ ’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : بھول کر کھانے پینے والے شخص کا کیا حکم ہے ؟ اور جو شخص کسی کو بھول کر کھاتا اور پیتا دیکھے کیا اس پر اس کے صوم کو یاد دلانا واجب ہے ؟
جواب : جو شخص صوم کی حالت میں بھول کر کھا لے، یا پی لے تو اس کا صوم صحیح ہو گا۔ البتہ یاد آنے پر فوراً باز آ جانا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اگر کھانے کا لقمہ یا پانی کا گھونٹ اس کے منہ میں ہو تو اس کو تھوک دینا ضروری ہے۔ اس کے صوم کے صحیح ہونے کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : من نسي وهو صائم فأكل أو شرب فليتم صومه، فإنما أطعمه الله وسقاه [ صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب الصائم إذا أكل أو شرب ناسياً 26 رقم 1933 بروايت ابو هريره رضي الله عنه، صحيح مسلم، الصيام 13 باب أكل الناسي وشربه وجماعه لايفطر 33 رقم 171۔ 1155]
’’ جو شخص صوم کی حالت میں بھول کر کھا لے، یا پی لے، تو اسے اپنا صوم پورا کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کھلایا اور پلایا ہے “۔
نیز انسان بھول چوک کی وجہ سے کسی ممنوع چیز کو کر ڈالے تو اس پر اس کا مواخذہ نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا [2-البقرة:286]
’’ اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا“۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا قد فعلت جا میں نے ایسا کر دیا۔
اور جو شخص صائم کو کھاتے پیتے دیکھے اس پر اسے یاد دلانا ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کا شمار منکر کی تبدیلی میں ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من رأي منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه [صحيح: صحيح مسلم، الإيمان 1 باب بيان كون النهي عن المنكر عن الإيمان 20 رقم 78۔ 49]
’’ تم میں سے جو شخص کوئی غلط کام دیکھے تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر نہ طاقت رکھے تو اپنی زبان سے اصلاح کرے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے برا جانے “۔
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صائم کا حالت صوم میں کھانا اور پینا منکر میں سے ہے۔ لیکن چونکہ نسیان کی حالت میں مواخذہ نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ معاف ہے۔ مگر دیکھنے والے کے لئے انکار نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ

——————

سوال : رمضان کے دن میں ایک سے زائد مرتبہ غسل کر نے یا پورا دن ایرکنڈیشن میں بیٹھنے کا کیاحکم ہے ؟ جب کہ یہ ایرکنڈیشن رطوبت پیدا کرتا ہو ؟
جو اب : یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صوم کی حالت میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈالتے تھے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما، صوم کی حالت میں اپنا کپڑا پانی سے تر کر لیتے تھے تاکہ گرمی کی شدت اور پیاس کم ہو جائے۔ اور رطوبت صوم میں مؤثر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ یہ وہ پانی نہیں ہے جو معدہ تک پہونچتا ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : ایک شخص بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود، یا بوس وکنار کرتا ہے تو اپنے پائجامہ میں اپنے عضو تناسل سے رطوبت پاتا ہے۔ اس کا سوال یہ ہے کہ طہارت اور صوم کی صحت اور عدم صحت کے اعتبار سے اس پر کیا آثار مترتب ہوتے ہیں ؟
جواب : سائل نے اپنے سوال میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کی وجہ سے منی کا احساس کرتا ہے۔ صرف اتنا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے پائجامہ میں رطوبت پاتا ہے۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ کہ جو رطوبت وہ پاتا ہے وہ مذی ہے، منی نہیں ہے۔ اور مذی نجس ہے۔ کپڑے یا پائجامہ کے جس حصہ پر لگے اس کا دھونا ضروری ہے۔ اور اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اور ذَکر (عضو تناسل) اور خصیتین کو دھونے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے۔ تاکہ طہارت حاصل ہو جائے۔ اہل علم کے صحیح قول کی بنا پر اس سے نہ صوم فاسد ہوتا ہے اور نہ غسل ضروری ہوتا ہے۔ البتہ اگر خارج ہونے والی چیز منی ہے تو اس سے غسل واجب ہو گا اور صوم بھی فاسد ہو جائے گا۔ منی اگرچہ پاک ہے مگر طبیعت اس سے گھن محسوس کرتی ہے۔ اور کپڑے یا پائجامہ کے جس حصہ پر لگ جائے اس کا دھونا مشروع ہے۔ اور صائم کے لئے مناسب اور افضل یہ ہے کہ اپنے صوم میں ایسی چیزوں سے احتیاط برتے جو شہوت کو بھڑکانے والی ہوں۔ خواہ بیوی کے ساتھ کھیل کود ہو، یا بوس و کنا ر۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : اس شخص کا کیا حکم ہے جو رمضان کے مہینہ میں اپنی بیوی کے ساتھ حرام کام کا ارتکاب کرے ؟ صوم کی حالت میں کرے تو اور رات میں کرے تو ؟ اور اس کا کفارہ کیا ہے ؟
جواب : جو شخص رمضان کے مہینہ میں غروب آفتاب سے طلوع فجر کے درمیان اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اگر دن میں طلوع فجر سے غروب آفتاب کے درمیانی وقفہ میں بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے تو وہ گنہگار اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہو گا۔ اور اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہو گا۔ کفارہ درج ذیل ہے :
(1) ایک غلام آزاد کرنا (2) اگر غلام نہ پائے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا (3) اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلانا۔ اپنے ملک کی عام غذا میں سے جو اس کے علاقہ کے لوگ کھاتے ہوں ہر مسکین کو نصف صاع (تقریباً سوا کلو)۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : جب آدمی رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے زبردستی جماع کرے تو اس کا کیا حکم
ہے ؟ واضح رہے کہ میاں بیوی دونوں غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں اور طلب معیشت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صوم بھی نہیں رکھ سکتے۔ تو کیا صرف کھانا کھلانا کافی ہے ؟ اور اس کی مقدار اور اس کی نوعیت کیا ہے ؟
جواب : جب مرد اپنی بیوی کو جماع پر مجبور کرے اور دونوں صوم سے ہوں تو عورت کا صوم صحیح ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ البتہ مرد پر رمضان کے دن میں جماع کرنے کی وجہ سے کفارہ ضروری ہے۔ جو درج ذیل ہے :
(1) ایک غلام آزاد کرنا (2) اگر غلام نہ پائے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا (3) اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور اس پر قضا بھی ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : جب صائم کو رمضان کے دن میں احتلام ہو جائے تو کیا اس کا صوم باطل ہو جائے گا یا نہیں ؟ اور کیا اس پر فوری طور پر غسل کرنا واجب ہے ؟
جواب : احتلام صوم کو باطل نہیں کرتا۔ کیوں کہ وہ صائم کے اختیار سے نہیں ہوتا ہے۔ البتہ اس پر غسل جنابت ضروری ہے۔ اور اگر صلاۃ فجر کے بعد احتلام ہو جائے اور صلاۃ ظہر کے وقت تک غسل کو مؤخر کر دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آدمی اپنی بیوی سے رات کو جماع کرے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے :
أنه كان يصبح جنبا من جماع ثم يغتسل و يصوم [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب إذا جامع فى رمضان ولم يكن له شئي 30 رقم 1936 بروايت ابو هريره رضي الله عنه، والهبة 51 باب إذا وهب هبة 20 رقم 2600 والنفقات 69 باب نفقة المعسر على أهله 13 رقم 5368 والأدب 78 باب التبسم والضحك 68 رقم 6087، صحيح مسلم، الصيا م 13 باب تغليظ تحريم الجما ع فى نهار رمضان على الصائم 14 رقم 81، 1111 ]
’’ کہ آپ جماع کی وجہ سے جنابت کی حالت میں صبح کرتے پھر غسل کرتے اور صوم رکھتے “۔
اسی طرح حیض اور نفاس والی عورتیں اگر رات میں پاک ہو جائیں اور طلوع فجر کے بعد غسل کر یں تو ان پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور ان دونوں کا صوم صحیح ہو گا۔ لیکن ان کے لئے اور اسی طرح جنبی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ غسل یا صلاۃ کو طلوع آفتاب تک مؤخر کرے۔ بلکہ ان سب پر واجب ہے کہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کرنے میں جلدی کریں۔ تاکہ صلاۃ فجر کو اپنے وقت پر ادا کر سکیں۔
اور مرد پر لازم ہے کہ صلاۃ فجر سے پہلے غسل جنابت میں جلدی کرے تاکہ وہ صلاۃ فجر باجماعت ادا کر سکے۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : میں نے صوم رکھا تھا اور مسجد میں سو گیا۔ جب میں بیدار ہوا تو پتہ چلا کہ مجھے احتلام ہوا ہے۔ کیا احتلام صوم پر اثر انداز ہوتا ہے ؟ خیال رہے کہ میں نے غسل نہیں کیا، بلکہ بغیر غسل کے ہی میں نے صلاۃ ادا کر لی۔ ایک مرتبہ میرے سر میں ایک پتھر لگا، جس سے میر ے سر سے خون بہہ نکلا، کیا خون کی وجہ سے میرا صوم ٹو ٹ گیا ؟ اور کیا قے سے صوم فاسد ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ امید کہ مجھے مستفید فرمائیں گے۔
جو اب : احتلام سے صوم فاسد نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ بندہ کے اختیار کی چیز نہیں ہے۔ لیکن جب اس سے منی نکلے تو اس پر غسل جنابت ضروری ہے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب آدمی پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل لازم ہے۔
رہا آپ کا بغیر غسل کے صلاۃ ادا کرنا تو یہ آپ کی غلطی اور بہت بری بات ہے۔ آپ پر ضروری ہے کہ صلاۃ کو دہرائیں۔ اور اللہ۔ سبحانہ وتعالیٰ۔ سے توبہ کر یں۔ اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا اور اس سے خون بہہ نکلا تو اس سے آپ کا صوم باطل نہیں ہو گا۔ اور جو قے آپ کو بغیر آپ کے اختیا ر و ارادہ کے ہوئی اس سے بھی آپ کا صوم باطل نہیں ہو گا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من ذرعه القئ فلاقضاء عليه ومن استقاء فعليه القضاء
’’ جسے بے اختیار قے آئے تو اس پر قضا نہیں اور جس نے قصداً قے کی اس پر قضا ہے (اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے باسناد صحیح روایت کیا ہے۔ )“
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے دائیں ہاتھ سے متوسط برواز (نڈل) کی مقدار میں رمضان میں صوم کی حالت میں ٹسٹ کرنے کے لئے خون نکالا جائے ؟
جواب : اس قسم کے ٹسٹ سے صوم فاسد نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ معاف ہے، کیوں کہ یہ ضرورت کے پیش نظر ہوتا ہے اور اس کا شمار شرعی مفطرات میں سے نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کیا قے صوم کو فاسد کر دیتا ہے ؟
جواب : صائم کو بہت سے امور پیش آتے ہیں جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے مثلاً زخم، نکسیر، قے، یا اس کے اختیار کے بغیر اس کے حلق میں پانی یا پٹرول کا چلا جانا۔ یہ سب ایسے امور ہیں جو صوم کو فاسد نہیں کر تے ہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من ذرعه القئ فلاقضاء عليه ومن استقاء فعليه الصوم
جسے بے اختیار قے آئے اس پر قضا نہیں اور جو قصداً قے کرے تو اس پر قضا ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : ایک ملازم دریافت کرتا ہے کہ وہ متعدد بار اپنی ڈیوٹی کے وقت میں کام چھوڑ کر سو گیا تو کیا اس کا صوم فاسد ہو جائے گا ؟
جواب : اس کا صوم فاسد نہیں ہو گا۔ کیوں کہ کام چھوڑنے اور صوم کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جو شخص کسی کام کا ذمہ دار ہو اس پر ضروری ہے کہ وہ اپنے ذمہ سپر د کردہ کام کو پورا کرے۔ اس لئے کہ وہ اس کام پر اجرت اور تنخواہ لیتا ہے لہٰذا اس پر لازم ہے کہ جس طرح پوری تنخواہ لیتا ہے اسی طرح پورا کام کر کے اس سے بری الذمہ ہو۔ البتہ اس کے اس حرام کام یعنی ڈیوٹی کے وقت میں سونے کی وجہ سے اس کے صوم کا اجر و ثواب کم ہو جائے گا۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : ایک شخص مرض سل میں مبتلا ہے، اس پر رمضان میں صوم رکھنا دشوار ہوتا ہے۔ گزشتہ رمضان میں اس نے صوم نہیں رکھا، تو کیا اس پر کھانا کھلانا لازم ہے ؟ خیال رہے کہ اس کی شفایابی کی امید نظر نہیں آتی۔
جواب : جب یہ مریض صومِ رمضان پر قدرت نہیں رکھتا اور اس کی شفایابی کی امید بھی نہیں ہے تو اس سے صوم ساقط ہو گیا، اور اس پر چھوڑے ہو ئے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ضروری ہے۔ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو نصف صاع (تقریباً سوا کلو) گیہوں یا چاول وغیرہ جو اس کے گھر والے عام طور پر کھاتے ہیں وہ دے۔ یہ اس بوڑھے مرد اور عورت کے حکم میں ہے جس پر صوم رکھنا مشکل ہو۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : میں بیمار ہو گئی، میرا مرض بڑھ گیا تو میرے بھائی نے مجھے مکہ لیجا کر ایک اسپتال میں داخل کر دیا۔ میرے اسپتال میں داخل ہونے کے بعد بیماری نے اتنا طول پکڑا کہ دوبارہ رمضان کا مہینہ آ گیا اور میں بدستور اسی اسپتال میں داخل رہی۔ اس کے بعد مجھے ریاض منتقل کیا گیا اور دوبارہ داخل اسپتال ہونا پڑا۔ اس کے بعد پھر رمضان کا مہینہ آ گیا۔ اب میں پہلے سے بہتر تھی۔ اس لئے میں نے اس رمضان کا صوم رکھا، مگر سابقہ دونوں رمضانوں کا صوم باقی رہ گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر چھوٹے ہو ئے دونوں رمضانوں کا صوم رکھنا واجب ہے ؟ یا میرے اوپر صدقہ لازم ہے ؟ یہ خیال رہے کہ میں ہر مہینہ تین دن صوم رکھتی ہوں۔ میں کیا کروں ؟ کیا میں اپنے اکلوتے بیٹے سے صدقہ کا مطالبہ کر وں جو خوشحال ہے اگرچہ وہ کہیں ملازم نہیں ہے اور اس کے پاس کرایہ کے مکان کے علاوہ کوئی مکان بھی نہیں ہے۔ اور میری حالت بہت کمزور ہے نہ کام کر سکتی ہوں اور نہ صدقہ ادا کر سکتی ہوں۔ اس کا حل کیا ہے ؟
جواب : سوال پوچھنے والی پر مذکورہ دونوں مہینوں کے صیام کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عام ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:185]
’’ اور جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے “۔
جہاں تک سائلہ کے ہر مہینہ میں تین دن صوم رکھنے کی بات ہے تو اگر اس سے اس کی نیت دونوں مہینوں کے چھوٹے ہو ئے صیام کی قضا کی ہے تو اس کی نیت صحیح ہے۔ اور اس پر ضروری ہے کہ دونوں مہینوں کے بقیہ صیام کو رکھ لے۔ اور اگر اس کی نیت نفلی صوم کی ہے تو اس سے فرض صیام ساقط نہیں ہوں گے۔ اس پر مکمل دو مہینے کا صوم رکھنا ضروری ہے۔ البتہ صوم کے ساتھ اس پر کھانا کھلانا لازم نہیں ہے۔ کیونکہ بیماری کی وجہ سے قضاء صوم میں تاخیر کرنے میں وہ معذور تھی۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : میں ایک مریضہ ہوں، میں نے گزشتہ رمضان میں کچھ صیام چھوڑ دئے اور اپنی بیماری کی وجہ سے ان کی قضا نہیں کر سکی۔ ان کا کفارہ کیا ہے ؟ اسی طرح اس سال بھی میں رمضان کے صیام نہیں رکھ سکوں گی۔ ان کا کفارہ کیا ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
جواب : ایسا مریض جس پر صیام باعثِ مشقت ہوں اس کے لیے صوم نہ رکھنا مشروع ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دے تو وہ اپنے صیام کی قضا کر لے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:185]
’’ اور جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے “۔
لہٰذا آپ پر اس مہینہ میں صوم نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، جب تک مرض باقی ہے۔ کیوں کہ صوم نہ رکھنا مریض اور مسافر کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے۔ اور اللہ۔ سبحانہ وتعالیٰ۔ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کی رخصتوں کو قبول کیا جائے۔ جیسے اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے۔ آپ پر کوئی کفارہ نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو مرض سے نجات دے دے تو پھر ان کی قضا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر بیماری سے شفا دے اور ہماری اور آپ کی برائیاں دور کر دے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : میری ماں ماہِ رمضان سے چند ایام قبل بیمار تھیں، مرض نے انہیں کمزور کر دیا اور یہ بڑھاپے کی عمر میں ہیں۔ انہوں نے رمضان کے پندرہ دن صوم رکھے اور باقی دنوں کے صوم نہیں رکھ سکیں، اور قضا کی طاقت بھی نہیں ہے۔ تو کیا ان کے لئے صدقہ کرنا صحیح ہے ؟ اور روزانہ کتنا صدقہ کرنا کافی ہو گا ؟ یہ خیال رہے کہ ان کی معاشی کفالت میں کرتا ہوں۔ تو کیا ان کے پاس صدقہ کرنے کی کوئی چیز نہ ہونے کی صورت میں ان پر لازم ہونے والا صدقہ میں ادا کر سکتا ہوں ؟
جواب : جو شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے صوم سے عاجز ہو، اور اس کی شفایابی کی امید نہ ہو تو وہ صوم نہ رکھ کر ہر روز کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ [2-البقرة:184]
’’ اور ان لوگوں پر جو بمشقت اس کی (صوم کی) طاقت رکھنے والے ہیں فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دینا ہے “۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کو رخصت دینے کے لئے نازل ہو ئی جو صوم کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ پس انہیں روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہئے۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ آپ کی ماں پر واجب ہے کہ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ اور وہ نصف صاع اپنے وطن کی عام غذا ہے۔ اور اگر وہ اپنی طرف سے کھلانے کی طاقت نہ رکھیں تو ان پر کچھ نہیں ہے۔ اور اگر آپ ان کی طرف سے کھلانا چاہیں تو یہ بھلائی اور احسان کے قبیل سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ احسان و بھلائی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
’’ اللجنۃالدائمۃ “

——————

سوال : میری بیٹی تیس سال کی ہو چکی ہے اور اس کے پاس کئی بچے ہیں اور وہ چودہ سال سے عقلی فتور میں مبتلا ہے۔ اور اس سے پہلے کچھ مدت تک اسے یہ بیماری لاحق رہتی اور کچھ مدت تک ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن اس بار اسے یہ بیما ری خلاف عادت لاحق ہے کیوں کہ اس وقت تقریباً تین مہینے سے وہ اس میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹھیک سے نہ وضو کر سکتی ہے اور نہ صلاۃ ادا کر پاتی ہے۔ الا یہ کہ کوئی آدمی اسے یہ رہنمائی کرتا رہے کہ وہ کس طرح وضو کرے اور کتنی رکعت پڑھے۔ اس وقت ماہِ رمضان کی آمد پر اس نے صرف ایک دن صوم رکھا، وہ بھی ٹھیک سے نہیں رکھ سکی۔ باقی دنوں میں کوئی صوم نہیں رکھا۔ براہ کرم آپ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھ پر کیا لازم ہے اور اس پر کیا واجب ہے ؟ یہ خیال رہے کہ میں ہی اس کا سرپرست ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔
جواب : اگر واقعی اس کا حال وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا ہے تو اس پر صوم و صلاۃ کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ جب تک اس کی یہ حالت برقرار رہے، نہ ادا کے اعتبار سے اور نہ قضا کے اعتبار سے۔ اور بحیثیت ولی ہونے کے آپ پر بھی اس کی نگرانی کے علاوہ کچھ واجب نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے :
كلكم راع وكلكم مسؤل عن رعيته . . . . . الحديث
’’ تم میں سے ہر شخص نگراں اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے با رے میں پوچھاجائے گا “۔
افاقہ ہونے کی صورت میں اس پر صرف افاقہ کی مدت کی صلوات واجب ہوں گی، اسی طرح ماہِ رمضان میں ایک دن یا کئی دن افاقہ ہونے کی صورت میں اس پر صرف افاقہ کے ایام کے صیام واجب ہیں۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : میں اپنی عمر کے سولہویں سال میں ہوں۔ اور تقریباً پانچ سال سے مسلسل ایک اسپتال میں زیر علاج ہوں۔ گزشتہ رمضان میں، میں نے صوم رکھا تھا، ڈاکٹر نے میری گردن کی رگ میں کیمیاوی دوا دینے کا حکم دیا۔ دوا بہت سخت تھی، معدے اور پورے جسم پر اثر انداز ہوئی، جس دن میں نے یہ دوا لی اس میں مجھے بہت سخت بھوک لگی۔ صبح صادق سے بمشکل سات گھنٹے گزرے ہوں گے۔ عصر کے آنے تک میں بہت زیادہ تکلیف میں مبتلا ہو گیا اور قریب تھا کہ میں مر جاؤں۔ پھر بھی اذان مغرب تک میں نے صوم نہیں توڑا۔ اس سال بھی رمضان میں ڈاکٹر مجھے وہ دوا دینے کا حکم دے گا۔ تو کیا میں اس دن صوم توڑ دوں یا نہیں ؟ اور اگر میں صوم نہ توڑوں تو کیا مجھ پر اس دن کی قضا ضروری ہے ؟ اور کیا گردن کی رگ سے خون نکالنا، اسی طرح اس سے دوا لینا مفطر صوم ہے یا نہیں ؟
جواب : ماہ رمضان میں مریض کے لئے جب صوم مضر ہو یا دشوار ہو یا دن میں گولیوں اور مشروبات وغیرہ کے ذریعہ علاج کا محتاج ہو تو اس کے حق میں صوم نہ رکھنا مشروع ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:185 ]
’’ اور جو مریض ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے “۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
إن الله يحب إن توتي رخصه كمايكره أن توتي معصيته [صحيح : صحيح الجامع، رقم 1886 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما، صحيح الترغيب رقم 1051، الإرواء رقم 564۔ ]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتیں قبول کی جائیں، جیسا کہ اس بات کو ناپسند کر تاہے کہ اس کی معصیت کی جائے “۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے :
كمايحب أن توتي عزائمه [صحيح : صحيح الجامع، رقم 1885 بروايت ابن عمر، ابن عباس و ابن مسعود رضي الله عنهم، صحيح الترغيب، رقم 1052، الإرواء رقم 564]
’’ جیسا کہ پسند کرتا ہے کہ اس کے فرائض بجا لائے جائیں “۔
رہا گردن کی رگ سے ٹسٹ وغیرہ کرنے کے لئے خون نکالنے کا مسئلہ تو صحیح بات یہ ہے کہ اس سے صائم کا صوم نہیں ٹوٹتا۔ لیکن اگر زیادہ خون نکالنا پڑے تو اسے رات تک مؤخر کرنا افضل ہے۔ اور اگر دن میں خون نکلوائے تو احتیاطاً اسے حجامت (پچھنا لگوانے ) پر قیاس کرتے ہو ئے قضا کر لینا چاہیے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : میں نے ائمہ مساجد میں سے ایک خطیب سے رمضان کے دوسرے جمعہ کو سنا کہ انہوں نے ایسے مزدور کے لئے صوم توڑنے کی اجازت دی جو کام کرنے کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہو جائے اور اس کے پاس اس کام کے علاوہ کوئی ذریعۂ معاش نہ ہو، ایسا مزدور رمضان کے ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ انہوں نے نقدی کے اعتبار سے اس کی تحدید پندرہ درہم سے کی۔ کیا کتاب و سنت سے اس کی کوئی دلیل ہے ؟
جواب : کسی مکلف شخص کو صرف مزدور اور کاریگر ہونے کی وجہ سے رمضان کے دن میں صوم توڑنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے بہت زیادہ مشقت و تکلیف ہو جو اسے دن میں صوم توڑنے پر مجبور کرے تو اس کے لئے اس حد تک صوم توڑنا جائز ہے جس سے اس کی مشقت دور ہو جائے، پھر اسے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے رکنا ضروری ہے۔ غروب آفتاب کے بعد وہ لوگوں کے ساتھ افطار کرے۔ اور بعد میں اس دن کے صوم کی قضا کرے، آپ نے اوپر جس فتوی کا ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : جب عورت طلوع فجر کے بعد فوراً (حیض یا نفاس سے ) پاک ہو جائے تو کیا کھانے پینے سے رک جائے اور اس دن کا صوم رکھے ؟ اور اس دن کے صوم کا اعتبار کرے ؟ یا اس پر اس دن کی قضا واجب ہے ؟
جواب : جب عورت کا خون طلوع فجر کے وقت یا اس سے کچھ پہلے بند ہو جائے تو اس کا صوم صحیح ہو گا، اور فرض ادا ہو جائے گا اگرچہ وہ اچھی طرح صبح ہونے کے بعد غسل کرے۔ لیکن اگر خون اچھی طرح اجالا ہو جانے کے بعد بند ہو تو اسے اس دن کھانے پینے سے رُک جانا چاہیے۔ البتہ اس کا صوم کافی نہیں ہو گا، بلکہ اسے رمضان کے بعد اس کی قضا کرنی پڑے گی۔ واللہ اعلم۔ ’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : جب عورت حائضہ ہو جائے تو کیا اس کے لئے رمضان میں افطار کرنا جائز ہے ؟ اور کیا جن دنوں میں صوم چھوڑا ہے ان کے بدلہ دوسرے دنوں میں صوم رکھ لے ؟
جواب : حائضہ عورت کا صوم صحیح نہیں ہے۔ اور نہ اس کا صوم رکھناجائز ہے۔ لہٰذا جب عورت حائضہ ہو تو اسے صوم توڑ دینا چاہیے اور اس کے بدلے حیض سے پاک ہونے کے بعد دوسرے دنوں میں صوم رکھے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : جب نفاس والی عورت ایک ہفتہ میں پاک ہو جائے، اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ رمضان میں کچھ دن صوم رکھے، پھر اسے دوبارہ خون آ جائے، تو کیا اس حالت میں وہ صوم توڑ دے ؟ اور کیا اس پر ان دنوں کی قضا لازم ہے جن میں اس نے صوم رکھا اور جن دنوں میں اس نے صوم نہیں رکھا ؟
جواب : جب نفاس والی عورت ایک ہفتہ میں پاک ہو جائے اور کچھ دن صوم رکھے پھر اس کو چالیس دن کے اندر دوبارہ خون آ جائے تو اس کا صوم صحیح نہیں ہے۔ اور جن دنوں میں اسے دوبارہ خون آیا ہے ان میں صلاۃ اور صوم کو ترک کر دینا ضروری ہے۔ (کیونکہ وہ نفاس ہے ) جب تک کہ پاک نہ ہو جائے یا چالیس دن پورا نہ کر لے۔ چالیس دن پورا کر نے کے بعد اس پر غسل ضروری ہے۔ اگرچہ طہر نہ دیکھے (خون نہ بند ہو) کیونکہ علماء کے صحیح ترین قول کی بنا پر چالیس دن نفاس کی آخری مدت ہے۔ اس کے بعد خون بند ہونے تک اس پر ہر صلاۃ کے وقت کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت کے لئے اس کا حکم دیا ہے۔ اور چالیس دن کے بعد اس سے اس کے شوہر کا فائدہ اٹھانا (ہمبستری کرنا) جائز ہے۔ اگرچہ طہر نہ دیکھے۔ اس لئے کہ مذکورہ بالا حالت میں وہ بیماری (استحاضہ) کا خون ہے، جس میں صوم و صلاۃ اور شوہر کا اس سے ہمکنار ہونا منع نہیں ہے۔ البتہ اگر چالیس دن کے بعد والا خون اس کے حیض کی عادت والے دنوں میں آیا ہے تو وہ اسے حیض شمار کرتے ہوئے صوم و صلاۃ چھوڑ دے۔ اور توفیق دینے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : بعض عورتیں ماہ رمضان میں منتھلی کورس (حیض) کو روکنے کے لئے اس غرض سے گولیاں استعمال کرتی ہیں تاکہ انہیں بعد میں صوم کی قضا نہ کرنی پڑے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اور کیا ایساکرنے میں کچھ قیود و شروط ہیں جن پر ایسی عورتوں کو عمل پیرا ہونا ضروری ہے ؟
جواب : اس مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ عورت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں پر جو کچھ مقدر کیا ہے اس پر باقی رہنا چاہیے۔ کیونکہ اس منتھلی کورس کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت ہے۔ جو عورت کی طبیعت اور اس کی فطرت سے میل کھاتی ہے۔ لہٰذا جب عورت اس عادت کو روک دے گی تو اس سے عورت کے جسم پر مضر اثرات پیدا ہوں گے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لاضرر ولاضرار [صحيح : صحيح سنن ابن ماجه، الأحكام 13 باب من بني فى حقه مايضره بجا ره 17 رقم 1895۔ 2340 بروايت عباده بن صامت رضى الله عنه، صحيح الجامع، رقم 7517، الإرواء رقم 896، الصحيحة رقم 250]
’’ نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصان پہنچانا “۔
علاوہ ازیں ان گولیوں سے خود رِحم (بچہ دانی) پر بھی مضر اثرات پیدا ہوتے ہیں، جیسا کہ ڈاکٹروں اور حکیموں نے ذکر کیا ہے۔ اس لئے اس مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ عورتیں یہ گولیاں استعمال نہ کریں۔ اور جب حیض آئے تو صوم و صلاۃ سے رک جائیں اور جب پاک ہو جائیں تو صوم و صلاۃ کی ادائیگی کریں اور رمضان کے ختم ہونے کے بعد فوت شدہ صیام کی قضا کر لیں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کیا غسل جنابت کو طلو ع فجر تک مؤخر کرنا جائز ہے ؟ اور کیا عورتوں کے لئے غسل حیض یا غسل نفاس کو طلوع فجر تک مؤخر کرنا جائز ہے ؟
جواب : جب عورت طلوع فجر سے پہلے طہر دیکھ لے تو اس پر صوم رکھنا لازم ہے۔ اور غسل کو طلوع فجر کے بعد تک مؤخر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ طلوع آفتاب تک غسل کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ وہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کر کے صلاۃ فجر ادا کرے۔ اسی طرح جنبی کے لئے طلوع آفتاب کے بعد تک غسل کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس پر ضروری ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے غسل کرے اور صلاۃ فجر ادا کرے۔ اور مرد پر اس سے پہلے ہی غسل کرنا واجب ہے تاکہ وہ صلاۃ فجر جماعت کے ساتھ ادا کر سکے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

79۔ ماہ رمضان میں حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے صوم توڑنے کا حکم :
سوال : حاملہ یا دودھ پلانے عورتیں جب صوم توڑ دیں تو ان پر کون سی چیز واجب ہوتی ہے ؟ اور چاول کی کتنی مقدار کھلانا کافی ہے ؟
جواب : حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لئے بغیر کسی عذر کے رمضان کے دن میں صوم توڑنا حلال نہیں ہے۔ اور اگر عذر کی بنا پر صوم نہ رکھیں تو ان دونوں پر اس دن کی قضا واجب ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا مریض کے حق میں درج ذیل فرمان ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ 2-البقرة:185 ]
پس تم میں سے جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔
اور مذکورہ بالا دونوں قسم کی عورتیں مریض کے حکم میں ہیں۔ اور اگر ان عورتوں کا عذر بچہ کا خوف ہو تو ان پر قضاکے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے۔ انسانوں کی عام غذا مثلاً گیہوں، چاول، یا کھجور وغیرہ میں سے کوئی بھی چیز ہو۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر حال میں ایسی عورتوں پر صرف قضا ضروری ہے، کیوں کہ کھانا کھلانے کے سلسلہ میں کتاب و سنت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اصل ’’ براءت ذمہ “ ہے جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ۔ رحمۃاللہ علیہ۔ کا یہی مذہب ہے۔ اور یہ قوی ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : میں ماہ رمضان میں حمل سے تھی اس کی وجہ سے میں نے صوم نہیں رکھا اور اس کے بدلے ایک مہینہ کا پورا صوم ایک ایک دن ناغہ کر کے دو مہینے تک رکھا اور کوئی صدقہ نہیں دیا۔ تو کیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے مجھ پر صدقہ واجب ہے ؟
جواب : اگر حاملہ عورت کو صوم کی وجہ سے اپنے یا اپنے پیٹ کے بچہ پر کوئی خوف ہو تو وہ صوم نہ رکھے۔ بعد میں اس پر صرف ان دنوں کی قضا واجب ہے۔ اس سلسلہ میں اس کا معاملہ مریض جیسا ہے جو صوم رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ یا صوم سے اپنی ذات پر مضرت کا خوف محسوس کرتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:185]
’’ اور جو بیمار ہو یا مسافر ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : ایک عورت نے رمضان میں بچہ جنا اور رمضان کے بعد اپنے شیر خوار بچہ کی وجہ سے صوم کی قضا نہیں کی، اس اثناء میں وہ دوبارہ حاملہ ہو گئی اور دوسرے رمضان میں بچہ پیدا ہوا۔ ایسی صورت میں کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ صوم کے بدلہ نقد روپے تقسیم کر دے ؟
جواب : ایسی عورت پر چھوٹے ہوئے دنوں کے صوم کی قضا واجب ہے۔ اگرچہ دوسرے رمضان کے بعد ہو۔ کیوں کہ اس نے پہلے اور دوسرے رمضان کے درمیان عذر کی بنا پر قضا نہیں کی۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اگر وہ سردیوں کے دنوں میں بچہ کو دودھ پلاتے ہوئے ایک روز ناغہ کر کے قضا کرے تو کیا اس کے لئے دشوار ہو گا ؟ یا اللہ تعالیٰ اسے ایسی طاقت عطا فرمائے گا جس سے اس کی ذات یا اس کے دودھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ؟ پس عورت کو چاہئے کہ اپنی طاقت کے مطابق دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے گزشتہ رمضان کے صوم کی قضا کر ڈالے۔ اور اگر مجبوری کی بنا پر ایسا نہ کر سکے تو دوسرے رمضان کے آنے تک وہ صوم کو مؤخر کر سکتی ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں جب ماہ رمضان میں اپنی جان یا اپنے بچہ کے لئے خطرہ محسوس کریں تو کیا کریں ؟ کیا صوم توڑ کر کھانا کھلائیں اور قضا کریں یا صرف قضا کریں اور کھانا نہ کھلائیں ؟ یا کھانا کھلائیں اور قضا نہ کریں ؟ ان تینوں صورتوں میں سے کون سی صورت صحیح ہے ؟
جواب : جب حاملہ عورت کو رمضان کے صوم کی وجہ سے اپنی جان یا اپنے پیٹ کے بچہ کو خطرہ ہو تو وہ صوم نہ رکھے۔ اس پر صرف قضا واجب ہے۔ اس کا حال اس شخص کی طرح ہے جو صوم رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ یا اپنی ذات پر نقصان اور تکلیف کا اندیشہ محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:185]
’’ اور جو بیمار ہو یا مسافر ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے “۔
اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کو اگر رمضان میں دودھ پلانے سے اپنی جان کا خطرہ ہو یا بغیر دودھ پلائے صوم رکھنے سے اپنے بچہ کے لئے خطرہ ہو تو وہ صوم توڑ دے۔ اس پر صرف قضا واجب ہے۔ اور توفیق دینے والا تو صرف اللہ ہے۔
’’ اللجنۃالدائمۃ “

——————

سوال : کیا مسافر کو رمضان میں صوم توڑنے کی رخصت کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کا سفر پیدل یا سواری کے ذریعہ ہو ؟ یا پیدل، جانور اور گاڑی یا جہاز کے ذریعہ سفر کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے ؟ اور کیا اس بات کی بھی شرط ہے کہ سفر میں تکلیف اور مشقت ہو جس کی وجہ سے مسافر صوم رکھنے کی طاقت نہ رکھے ؟ اور کیا مسافر کے لئے طاقت رکھنے کی صورت میں صوم رکھنا افضل ہے یا نہ رکھنا ؟
جواب : جس سفر میں مسافر کے لئے قصر کرنا جائز ہے ایسے سفر میں صوم چھوڑنا بھی جائز ہے۔ خواہ پیدل ہو یا سواری کے ذریعہ۔ اور سواری میں گاڑی ہو یا جہاز، یا ان کے علاوہ کوئی اور سواری ہو۔ اور خواہ مسافر اس سفر میں ایسی تھکاوٹ محسو س کرے جس سے صوم رکھنے کی طاقت نہ ہو یا محسوس نہ کرے۔ بھوک اور پیاس سے دوچار ہو یا نہ ہو۔ اس لئے کہ شریعت نے قصر والے سفر میں مسافر کو صلاۃ کے قصر کرنے اور صوم کو چھوڑ دینے کی مطلق رخصت دی ہے۔ اور اس سفر کو کسی خاص سواری کے ساتھ اور بھوک، پیاس اور تکلیف کے ساتھ مقید نہیں کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی آپ کے ساتھ ماہ رمضان میں جنگوں کے لئے سفر کر تے تھے۔ ان میں سے بعض صحابہ صوم رکھتے اور بعض صوم چھوڑ دیتے اور کوئی شخص کسی دوسرے پر عیب نہیں لگاتا تھا۔ البتہ جب گرمی کی شدت یا کھلے راستہ یا دور دراز یا مسلسل سفر ہونے کی وجہ سے دشواری ہو تو مسافر پر ماہ رمضان میں صوم نہ رکھنا بہتر ہے۔ جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر فصام بعض وأفطر بعض فتحزم المفطرون وعملوا وضعف الصائمون عن بعض العمل، فقال النبى صلى الله عليه وسلم ذهب المفطرون اليوم بالأجر [صحيح: صحيح بخاري، الجهاد والسير 56 باب فضل الخدمة فى الغزو 71 رقم 2890، صحيح مسلم، الصيام 13 باب أجر المفطرفي السفر إذا تولي العمل 16 رقم 101 1119]
’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو بعض لوگوں نے صوم رکھا اور بعض لوگوں نے صوم نہیں رکھا۔ پس صوم نہ رکھنے والوں نے کمر کس لی اور خوب کام کیا اور صوم رکھنے والے بعض کاموں کے کرنے سے کمزور ثابت ہو ئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج صوم نہ رکھنے والے اجر حاصل کرنے میں بازی لے گئے “۔
اور کبھی سفر میں کسی ایمرجنسی معاملہ کی وجہ سے صوم نہ رکھنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں :
سافر نا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة ونحن صيام، قال : فنزلنامنزلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم دنوتم من عدوكم والفطر أقوي لكم، فكانت رخصة، فمنامن صام ومنا من أفطر، ثم نزلنامنزلا آخر فقال : إنكم مصبحواعدوكم والفطر أقوي لكم فأفطروا، وكانت عزمة، فأفطرنا، ثم قال : لقد رأيتنا نصوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم . بعد ذلك فى السفر . رواه مسلم [صحيح: صحيح مسلم، الصيام 13 باب أجر المفطر فى السفر إذا تولي العمل 16 رقم 102، 1120]
’’ ہم نے صوم کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کا سفر کیا، پس ہم ایک مقام پر اترے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے دشمن سے قریب ہو چکے ہو اور صوم نہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ قوت کا باعث ہے۔ یہاں صوم کی رخصت ملی۔ چنانچہ ہم میں سے بعض نے صوم رکھا اور بعض لوگوں نے صوم توڑ دیا۔ پھر ہم ایک دوسری منزل پر پہونچے تو آپ نے فرمایا : کہ تم اپنے دشمن کے پاس پہنچنے والے ہو اور صوم نہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ قوت کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا تم صوم نہ رکھو۔ یہاں صوم نہ رکھنا ضروری قرار دیا گیا۔ پھر انہوں نے ( ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ) کہا کہ : ہم نے جماعت صحابہ کو دیکھا کہ اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں صوم رکھتے تھے “۔
اسی طرح جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر، فرأي رجلا قد اجتمع الناس عليه، وقد ظلل عليه فقال : ماله ؟ قالوا : رجل صائم . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس من البر أن تصوموافي السفر [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب قول النبى صلى الله عليه وسلم لمن ظلل عليه …… 36 رقم 1946، صحيح مسلم، الصيام 13 باب جواز الصوم والفطر فى شهر رمضان للمسافر فى غير معصية 15 رقم 92، 1115]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے تو آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے پاس کافی لوگ اکٹھا ہیں۔ اور اس پر سایہ کر رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک صائم آدمی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم سفر میں صوم رکھو “۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : جب میں تجارتی کام کی غرض سے کسی سفر میں رہوں، اور شعبان کے اخیر میں، اس ملک میں پہنچوں جہاں کا میرا ارادہ ہے اور اس ملک میں نصف شوال مقیم رہوں تو کیا میرے لئے رمضان میں صوم توڑنا جائز ہو گا یا نہیں ؟
جواب : بغیر کسی عذر جیسے سفر کی مشقت اور بیماری وغیرہ کے رمضان میں صوم توڑنا جائز نہیں ہے۔ مسافر کے لئے بھی صوم رکھنا بہتر ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل یہی رہاہے۔ لیکن اگر مشقت اور تکلیف ہو تو اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صوم توڑنا جائز ہے۔
جہاں تک معاملہ دوسرے ملک میں مقیم شخص کا ہے تو اگر وہ پابہ رکاب ہو تو اس کے لئے قصر اور افطار دونوں جائز ہے۔ اسی طرح اگر شہر میں نہ ٹھہر ے بلکہ اپنے لئے شہر سے باہر خیمہ لگا لے، یا اپنی گاڑی میں باقی رہے تو اسے گرمی، دھوپ، ہوا اور ضروریات کی تکمیل میں بھاگ دوڑ کی وجہ سے تکلیف ہو گی۔ اور اگر اس کی نیت کسی جگہ قیام کر نے کی ہو اور وہ کسی ایرکنڈیشن ہوٹل یا عالیشان محل یا بلڈنگ میں سکونت پذیر ہو اور اس کی تمام ضرورتیں اور آسائشیں پوری ہو رہی ہوں۔ اور بستر، چارپائی، کھانا، ایرکنڈیشن اور دوسری تمام آسانیاں جن سے مقیم شخص بہرہ ور ہوتا ہے، اسے حاصل ہو رہی ہیں تو ایسی صورت میں یہ شخص مقیم کے حکم میں ہو گا۔ اور اس پر سفر جو عذاب کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے صادق نہیں آئے گا۔ ایسے شخص کے لئے میں افطارِ صوم اور قصرِ صلاۃ جائز نہیں سمجھتا ہوں۔ بلکہ ایسا شخص مقیم لوگوں کے درجہ میں ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا علم والا ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : میں ماہ رمضان میں مسافر تھا، اور سفر میں صوم نہیں رکھا۔ اور جب کسی ایسے شہر میں پہونچاجہاں مجھے کچھ دن ٹھہرنا تھا، تو اس دن کے بقیہ حصہ میں اور آئندہ دنوں میں، میں نے صوم رکھ لیا۔ کیا مجھے ان دنوں میں افطار کی رخصت ہے ؟ جب کہ میں ایسے شہر میں ہوں جو میرا اصلی وطن نہیں ہے ؟
جواب : جب مسافر اپنے شہر کے علاوہ کسی اور شہر میں داخل ہو اور وہ مسافر ہونے کی وجہ سے صوم نہ رکھے اور وہ چار دن یا اس سے کم مدت تک ٹھہرنا چاہے تو اس پر صوم رکھنا ضروری نہیں ہے اور اگر چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو وہ جس دن وہاں آیا ہے اسے صوم کی طرح پورا کرے اور بعد میں اس کی قضا کر لے۔ اور اس کے علاوہ بقیہ دنوں میں اس پر صوم رکھنا لازم ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی مذکورہ بالانیت کی وجہ سے مقیم کے حکم میں ہو گیا، مسافر وں کے حکم میں نہیں رہا۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے۔ اور توفیق دینے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : میں ایک سفر میں ہوں اور سفر کی وجہ سے میں نے صوم توڑ رکھا ہے۔ ایک روز میں عصر سے پہلے اپنے گھر پہونچ گیا۔ تو کیا اس وقت سے مجھ پر کھانے، پینے وغیرہ سے رکا رہنا ضروری ہے یا افطار کی حالت میں رہوں ؟
جواب : جس شخص نے کسی سبب سے صوم نہیں رکھا تو اس سبب کے ختم ہونے سے اس پر کھانے، پینے، اور جماع سے رکا رہنا ضروری ہے۔ پس جب سفر دن کے درمیان ختم ہو گیا تو دن کے بقیہ حصہ میں آدمی پر امساک واجب ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اَوْعَلَي سَفَرٍ یعنی ”تم سفر میں ہو۔“ اور اب سفر ختم ہو چکا ہے۔ مریض شخص کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ جب وہ مرض کی وجہ سے صوم نہ رکھے اور دن کے درمیان شفایاب ہو جائے تو عذر کے زائل ہونے کی بنا پر اس پر دن کے بقیہ حصہ میں امساک لازم ہے۔ ساتھ ہی دوسرے چھوٹے ہوئے صیام کی طرح اس دن کے صوم کی قضا بھی ضروری ہے۔
’’ شخ ابن جبرین رحمہ اللہ “

——————

سوال : کیا موٹر کاروں، بسوں اور لاریوں کے ڈرائیوروں پر ماہ رمضان میں ان کے شہر سے باہر مسلسل گاڑی چلانے کی وجہ سے مسافر کا حکم منطبق ہو گا ؟
جواب : ہاں ! ان پر مسافر کا حکم منطبق ہو گا اور ان کے لئے قصر صلاۃ، جمع بین الصلاتین اور صوم کا افطار جائز ہے۔ اگر کوئی کہے کہ جب مسلسل ان کا کام اسی طرح جا ری رہتا ہے تو پھر وہ صوم کب رکھیں ؟ تو ہم جواب دیں گے کہ وہ سردی کے موسم میں جب کہ دن چھوٹا اور ٹھنڈا رہتا ہے اپنا صوم پور اکریں گے۔
اب رہے وہ ڈرائیور جن کا کام شہر کے اندر ہے تو وہ مسافر کے حکم میں نہیں ہوں گے اور ان کے لئے صوم رکھنا واجب ہو گا۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کیا رمضان میں دشمنوں سے لڑنے والے مجاہدین کے لئے افطار کرنا جائز ہے ؟ اور کیا رمضان کے بعد وہ قضا کریں ؟
جواب : اگر کفار سے لڑنے والے ایسے سفر میں ہوں جس میں صلاۃ کے قصر کی اجازت ہے تو ان کے لئے افطار کرنا جائز ہے اور رمضان کے بعد ان پر صوم کی قضا لازم ہے۔ اور اگر وہ مسافر نہ ہوں مثلاً کفار ان پر ان کے شہر میں حملہ کر بیٹھیں تو ایسی صورت میں مجاہدین میں سے جو جہاد کے ساتھ صوم رکھ سکیں تو ان پر صوم واجب ہے اور جو بیک وقت صوم اور جہاد کی طاقت نہ رکھے اور جہاد فرض عین ہو تو اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے۔ اور رمضان کے بعد ان ایام کے صوم کی قضا واجب ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : ایک عورت ایک نفسیاتی مرض حرارت اور اعصابی اضطراب میں مبتلا ہو گئی، اس کے بعد اس نے تقریباً چار سال کی مدت تک صوم نہیں رکھا۔ ایسی صورت میں کیا وہ صوم کی قضا کرے گی یا نہیں ؟ اور اس عورت کا کیا حکم ہو گا ؟
جواب : اگر اس نے قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے صوم چھوڑا ہے تو چاروں سالوں میں رمضان کے چھوٹے ہوئے صیام کی قضا قدرت رکھنے کے وقت واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [2-البقرة:185 ]
’’ اور جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسر ے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کاشکریہ ادا کرو “۔
اور اگر ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق اس کی بیماری اور صوم سے اس کی عاجزی کے زوال کی امید نہ ہو تو اسے چھوٹے ہوئے ہر صوم کے بدلہ ایک مسکین کو آدھ صاع گیہوں یا کھجور یا چاول وغیرہ جو اس کے گھر والے عام طور پر کھاتے ہوں کھلانا چاہئے۔ اس پر قضا نہیں ہے۔ یہ اس بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے درجہ میں ہے جن پر صوم رکھنا مشکل اور دشوار ہو رہا ہو۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : میں ایک سترہ سالہ جوان لڑکی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ میں اپنے اوپر صوم فرض ہونے کے ابتدائی دو سالوں میں رمضان کے چھوٹے ہوئے صیام کی قضا نہیں کر سکی۔ اب میں کیا کروں ؟
جواب : چھوٹے ہوئے صیام کی قضا کرنے میں آپ کو جلدی کرنا لازم ہے، اگرچہ متفرق طور پر سہی۔ اور قضا کے ساتھ کفارہ یعنی ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے۔ اور یہ قضا کو ایک سال سے زائد مؤخر کرنے کی وجہ سے ہے جمہور علماء کی رائے یہی ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : ایک عورت نے رمضان 1382 ھ میں معقول عذر یعنی اپنے بچہ کو دودھ پلانے کی وجہ سے صو م نہیں رکھا۔ اب وہ بچہ بڑا ہو کر 24 سال کا ہو گیا ہے اور اس عورت نے اس مہینہ کے صوم کی قضا نہیں کی۔ اور ایسا قصد و ارادہ اور سستی و کاہلی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض لاعلمی اور نادانی کی وجہ سے ہوا ہے۔ امید کہ اس سلسلہ میں آپ رہنمائی فرمائیں گے۔
جواب : اس عورت پر قریب ترین وقت میں اس مہینہ کے صیام کی قضا ضروری ہے، اگرچہ متفرق طور پر سہی۔ اس سال مسلمانوں نے جتنے دن کا صوم رکھا تھا اتنے دن یہ صوم رکھے۔ اس پر صیام کے ساتھ صدقہ بھی ضروری ہے۔ جو ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ یہ قضا کو مؤخر کرنے کا کفارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص دوسرے رمضان تک قضا کو مؤخر کر دے اس پر قضاکے ساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔ پورے مہینہ کے بدلہ 45 کلو گرام چاول کی ایک بوری کافی ہے۔
اس عورت پر اپنے دین کے معاملہ میں بحث و تحقیق اور اہل علم سے دریافت کرنا ضروری تھا۔ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو لوگوں میں معروف و مشہور ہے کہ جو کسی عذر کی بنا پر صوم چھوڑ دے اس پر جلد سے جلد قضا کرنا لازم ہے اور بغیر کسی عذر کے اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : ایک شخص نے رمضان 1395 ھ میں دو روز صوم نہیں رکھا، رمضان 1396 ھ آ پہنچا، اس نے ان کی قضا نہیں کی۔ اسی طرح رمضان 1396ھ میں تین دن صوم چھوڑا۔ محرم 1397 ھ میں مسلسل ان پانچوں دنوں کی قضا کی۔ کیا اس پر کفارہ ادا کرنا ہے ؟
جواب : اگر آپ کا مذکورہ بالا افطار کسی عذر کی بنا پر تھا تو آپ کے ذمہ قضا کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [2-البقرة:184]
’’ تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے “۔
اور اگر آپ کا افطار بغیر کسی عذر کے تھا تو آپ پر قضا کے ساتھ توبہ کرنا ہے۔ اس لئے کہ رمضان میں بغیر عذر کے افطار کرنا جائز نہیں ہے۔ رمضان 1396ھ میں جو تین دن صوم آپ نے چھوڑا تھا اس کی وجہ سے آپ پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لیکن رمضان 1395ھ میں جو دو دن آپ نے چھوڑا تھا اگر اسے آپ نے بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان 1396ھ تک مؤخر کیا ہے تو آپ پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ اور کھانے کی مقدار ہر مسکین کو اپنے شہر کی عام غذا میں سے آدھ صاع ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ آپ کا افطار کرنا جماع کی وجہ سے نہ ہو۔ اور اگر جماع کی وجہ سے ہو تو قضا کے ساتھ چھوڑے ہوئے ہر دن کے بدلہ درج ذیل کفارہ بھی ادا کرنا ضروری ہے :
ایک مومن غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ملے تو مسلسل دو مہینے کا صوم رکھنا، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ اور توفیق دینے والاتو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : میں ایک جوان لڑکی ہوں، میں نے امتحانات کی وجہ سے رمضان میں مجبوراً چھ دن کے صیام چھوڑ دئیے۔ کیوں کہ امتحان رمضان میں شروع ہو ا اور مضامین مشکل تھے۔ اور اگر ان دنوں میں میں نے افطار نہ کیا ہوتا تو مضامین کے مشکل ہونے کی وجہ سے تیاری نہ کر سکتی۔ امید کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے کہ میں کیا کروں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
جواب : مذکورہ بالا کوتاہی کی وجہ سے آپ پر توبہ کرنا اور چھوڑے ہوئے صیام کی قضا کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کر نے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اور جس توبہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا ہے اس کی حقیقت درج ذیل ہے :
① اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کے عذاب کے خوف سے گناہوں کو مکمل طور پر چھوڑ دینا۔
② ماضی کے گناہ اور غلطی پر ندامت اور شرمندگی کا ہونا۔
③ آئندہ اس گناہ کے نہ کرنے کا پکا ارادہ کرنا۔
④ اور اگر اس معصیت کا تعلق بندوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے ہو تو اس حق سے بری الذمہ ہونا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [24-النور:31]
”اے مسلمانو ! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔“
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَصُوحًا [66-التحريم:8]
”اے ایمان والو ! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ “
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
التوبة تجب ماقبلها . [كتاب التوبة لا بن قيم الجوزية صفحه 121] یعنی ”توبہ ماضی کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔“
لأن التوبة تجب الذنب بالكلية تلاش بسیار کے بعد بھی یہ حدیث مجہے نہیں مل سکی، جن حضرات کو مل جائے وہ ناچیز کو مطلع کرنے کی زحمت فرمائیں.
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا :
من كان عنده لأخيه مظلمة من عرض أوشئ فليتحلله اليوم قبل أن لايكون دينار ولادرهم إن كان له عمل صالح أخذ من حسناته بقدر مظلمته فإن لم يكن له حسنات أخذ من سيءٰات صاحبه فحمل عليه . [صحيح: صحيح بخاري، المظالم 46 باب من كانت له مظلمة عند الرجل فحللها له هل يتبين مظلمته؟ 10 رقم 2449 بروايت ابوهريرة رضي الله عنه.]
’’ جس نے اپنے کسی بھائی کے ساتھ ظلم کیا ہو خواہ اس کی عزت و آبرو سے متعلق ہو یا کسی اور چیز سے متعلق، تو چاہیے کہ آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے حلال ہو جائے جس میں نہ کوئی دینار کام آئے گا اور نہ درہم۔ اگر اس کے پاس اچھا عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے مطابق اس کی نیکی اس سے لے لی جائے گی، اور اگر اس کے پاس نیکی نہیں ہو گی تو اس کے ساتھی کے گناہ لے کر اس ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والاہے “۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کیا صیام رمضان کی قضاء کو موسم سرما تک مؤخر کرنا جائز ہے ؟
جواب : عذر کے ختم ہونے اور قضا پر قادر ہونے کے بعد فوراً صیام رمضان کی قضا واجب ہے۔ بغیر کسی سبب کے قضا میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ مختلف قسم کے عوارض اور موانع مثلاً بیماری، سفر یا موت کا اندیشہ رہتا ہے۔ لیکن اگر سردی کے موسم تک مؤخر کر دے اور چھوٹے اور سردی کے دنوں میں قضا کر لے تو یہ جائز ہے اور اس سے قضا ساقط ہو جائے گا۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : جو شخص رمضان کا کوئی صوم کسی عذر کی بنا پر چھوڑ دے اور دوسرے رمضان کی آمد تک اس کی قضا نہ کرے اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر کوئی شخص چھوٹے ہوئے صوم کی قضا کو عذر جیسے بیماری وغیرہ کی بنا پر مؤخر کر دے تو قدرت پانے کے وقت اس پر صرف قضا ہے۔ لیکن اگر بغیر کسی عذر کے قضا میں تاخیر کرے تو اس کا یہ عمل غلط ہے اور اس پر قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے۔سوال : ایک شخص نے رمضان 92 ھ میں ایک دن صوم نہیں رکھا اور رمضان 93ھ کے آنے تک اس دن کی قضا نہیں کی، اس کا کیاحکم ہے ؟
جواب : جب انسان رمضان کے ایک دن یا کئی دنوں کے صوم کی قضا میں غفلت و لاپروائی برتے اور دوسرے رمضان کے آنے تک اس کی قضا نہ کرے، تو اسے فوت شدہ صوم یا صیام کی قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلہ ایک مسکین کو آدھ صاع (سوا کلو تقریباً) گیہوں یا اس جیسی کوئی دوسری چیز جو عام طور پر اس کے ملک میں کھائی جاتی ہے کھلانا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ قضا کو مؤخر کرنے کا کوئی معقول عذر نہ ہو، اور اگر کسی عذر جیسے بیماری یا ایسی کمزوری جس کی بنا پر قضاء صوم پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے قضا میں تاخیر کرے تو کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : ایک شخص رمضان کی پہلی یا دوسری تاریخ کو بیمار پڑ ا اور پورا رمضان گزر گیا، اس نے ایک دن بھی صوم نہیں رکھا اور عیدالفطر کے دن انتقال کر گیا۔ کیا اس کے ورثہ پر اس کے انتقال کے بعد اس کی طرف سے صیام رکھنا ہے ؟ یا کھانا کھلانا ہے ؟ یا میت اور اس کے ورثہ پر کوئی چیز نہیں ہے ؟
جواب : اگر مذکورہ بالاشخص نے صیام کی قدرت نہ رکھنے کی بنا پر صیام چھوڑا ہے اور عیدالفطر کے دن وفات پا جانے کی وجہ سے قضا نہیں کر سکا، تو اس پر نہ تو صوم کی ادائیگی واجب ہوئی اور نہ اس کی قضا۔ کیوں کہ وہ بیماری کی وجہ سے صوم کی ادائیگی پر اور عیدالفطر کے دن انتقال کر جانے کی وجہ سے قضا پر قادر نہیں ہوا۔ اس کے ورثہ پر بھی کچھ نہیں ہے۔ نہ صوم رکھنا اور نہ کھانا کھلانا۔ ’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : اس مسلمان کا کیا حکم ہے جس نے مختلف سالوں میں رمضان کے کئی مہینے بغیر صوم کے گزارے، اس اثناء میں وہ بقیہ فرائض ادا کرتا رہا۔ اور اپنے وطن سے دور مسافرت کی زندگی گزارتا رہا اور صوم رکھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ کیا توبہ کرنے پر یا اپنے وطن واپس ہونے پر اس پر قضا ضروری ہے ؟
جواب : صیامِ رمضان اسلام کا ایک اہم رکن ہے، مکلف شخص کا قصداً ان صیام کا چھوڑنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ بعض علماء کے قول کی بنا پر ایسا شخص کافر اور مرتد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص پر ضروری ہے کہ وہ خالص توبہ کرے اور نوافل وغیرہ اعمال صالحہ کثرت سے کرتا رہے اور اسلامی احکام و شرائع جیسے صلاۃ، صیام، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کرے۔ علماء کے صحیح ترین قول کی بنا پر ایسے شخص پر قضا نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کا جرم اتنا بڑا ہے کہ قضا سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ اور توفیق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وصلی اللہ وسلم علی نبینامحمد وآلہ وصحبہ۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ“

——————

سوال : کیا رمضان کے صیام کی قضا سے پہلے شوال کے چھ دنوں کے نفلی صیام رکھنا جائز ہے ؟ اور کیا قضاءِ رمضان اور سوموار کے دن کے صوم کے اجر و ثواب کی نیت سے شوال کے اندر سوموار کے صیام رکھنا جائز ہے ؟
جواب : شوال کے چھ دنوں کے صیام کا اجر و ثواب انسان کو اسی وقت ملے گا جب کہ وہ رمضان کے صیام پورے کر چکا ہو۔ لہٰذا جس شخص کے ذمہ رمضان کے صیام کی قضا ہو اس کے لئے سب سے پہلے قضا کرنا ضروری ہے، اس کے بعد شوال کے چھ دنوں کے صیام رکھے۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من صام رمضان ثم أتبعه بست من شوال . . . . . . . [صحيح مسلم: الصيام 13 باب استحباب صوم ستة أيام من شوال اتباعا لرمضان 39 رقم 204 1164 بروايت أبوايوب أنصاري رضي الله عنه.]
’’ جس شخص نے رمضان کے صیام رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ صیام رکھے “۔
اس حدیث کی بنا پر ہم اس شخص سے کہتے ہیں جس کے ذمہ رمضان کے صیام کی قضا ہے کہ وہ پہلے قضا کرے، پھر شوال کے چھ دنوں کے صیام رکھے اور اگر اتفاق سے ان چھ دنوں میں سوموار اور جمعرات کا دن پڑ جائے تو چھ دنوں کے اجر کی نیت سے اور سوموار یا جمعرات کے دن کے اجر کی نیت سے سوموار کے دن کا اجر و ثواب ملے گا۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
إنما الأعمال بالنيات وإنمالكل امرئ مانوٰي [صحيح: صحيح بخاري، بدء الوحي 1 باب كيف كا ن بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم رقم 1، بروايت عمر بن الخطاب رضى الله عنه والإيمان 2، باب ماجاء إن الأعمال بالنية والحسبة …….. 41 رقم 54 والعتق 49، باب الخطأ والنسيان فى العتاقة والطلا ق 6 رقم 2529 والنكاح 67،
باب من هاجر أو عمل خيرا لتزويج امرأة فله مانوي 5 رقم 5070، صحيح مسلم، الإمارة 33 باب قوله صلى الله عليه وسلم إنما الأعمال بالنية 45 رقم 155، 1907]

’’ تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کو وہی چیز ملے گی جس کی وہ نیت کرے گا“۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : کیا صلاۃِ تراویح اور صلاۃِ کسوف میں مصحف سے پڑھنا جائز ہے ؟ آپ ہمیں فائدہ پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو فائدہ پہنچائے گا۔
جواب : قیامِ رمضان میں مصحف سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کا مقصد مقتدیوں کو پورا قرآن سنانا ہے۔ نیز کتاب و سنت کی شرعی دلیلیں صلاۃ میں قرآن کی قرأت پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ حکم عام ہے اس میں مصحف سے پڑھنا اور زبانی پڑھنا دونوں شامل ہے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہاسے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) کو قیامِ رمضان میں اپنی امامت کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ مصحف دیکھ کر پڑھتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اپنی صحیح میں بصیغۂ جزم معلقاً ذکر کیا ہے۔ [صحيح الإسناد: صحيح بخاري، الأذان 10 باب إمامة العبد والموليٰ 54. ]
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ“

——————

سوال : بعض ائمۂ مساجد صلاۃِ تراویح میں چار یا اس سے زائد رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں اور دو رکعتوں پر بیٹھتے نہیں ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سنت نبوی سے ثابت ہے۔ کیا ہماری شریعت مطہرہ میں اس عمل کی کوئی اصل ہے ؟
جواب : یہ عمل غیر مشروع بلکہ مکروہ یا اکثر اہلِ علم کے نزدیک حرام ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
صلاة الليل مثنيٰ مثنيٰ . [صحيح: صحيح بخاري، الصلاة 8 باب الحلق والجلوس فى المسجد 84 رقم472، 473 والوتر 14 باب ماجا ء فى الوتر 1 رقم 990. 993 وباب ساعات الوتر 2 رقم 995 والتهجد 19 باب كيف صلاة النبى صلى الله عليه وسلم 10 رقم 1137، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب صلاة الليل مثنيٰ مثنيٰ …… 20 رقم 145، 146، 147، 148، 749 ]
’’ رات کی صلاۃ (تہجد) دو دو رکعت ہے “۔
اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے وہ کہتی ہیں :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل إحدي عشرة ركعة يسلم من كل اثنين ويوتر بواحدة [صحيح: صحيح بخاري، الوتر 14 باب ما جاء فى الوتر رقم 994، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى صلى الله عليه وسلم فى الليل 17 رقم 121، 122، 736]
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے “۔
اس کے ہم معنی اور بہت سی حدیثیں ہیں۔
رہی عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ مشہور حدیث :
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يصلي من الليل أربعا فلاتسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلاتسأل عن حسنهن وطولهن [صحيح: صحيح بخاري، التهجد 19 باب قيام النبى صلى الله عليه وسلم بالليل فى رمضان وغيره 19 رقم 1147 والتراويح 31 باب فضل من قام رمضان 1 رقم 2013 والمناقب 61 باب كا ن النبى صلى الله عليه وسلم تنام عينه ولا ينام قلبه 24 رقم 3569، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى صلى الله عليه وسلم فى الليل 17 رقم 125، 738.]
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو چار رکعتیں پڑھتے تھے بس مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں، پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے، بس مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں“۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دو دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ چاروں رکعتیں ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ جیسا کہ ان کی سابقہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ثابت ہے جو پہلے گزر چکا ہے :
صلاة الليل مثنيٰ مثنيٰ
’’ رات کی صلاۃ (تہجد) دو دو رکعت ہے “۔
اور بعض حدیثیں بعض حدیثوں کی تصدیق و تفسیر کرتی ہیں۔ اس لئے مسلمان پر واجب اور ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تمام صحیح حدیثوں پر عمل پیرا ہو۔ اور تفصیلی حدیث سے مجمل حدیث کی تفسیر کرے۔ اور توفیق دینے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ“

——————

سوال : ہمارے یہاں مسجد کا ایک امام ہے جو صلاۃِ تراویح میں بہت جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس عظیم فرصت میں ہم دعا پڑھ سکتے ہیں نہ تسبیح اور نہ خشوع و خضوع حاصل ہو پاتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ صرف ’’ تشہدِ اول“ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں) پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ بس یہی کافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھتا ہے اور اسے زیادتی تصور کرتا ہے۔ رہا معاملہ قرآنی آیات پڑھنے کا تو صرف ایک یا دو آیتیں پڑھتا ہے آپ سے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی گرانقدر نصیحت سے نوازیں گے۔ جزاکم اللہ خیراً۔
جواب : ائمۂ مساجد کے لئے صلاۃِ تراویح اور صلاۃِ فرض میں اطمینان و سکون، قرأت میں ترتیل، رکوع و سجود میں خشوع، رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان کامل اعتدال، فرض و نفل تمام صلوات میں مشروع ہے۔ اور اطمینان و سکون فرض ہے، اس کی پابندی ضروری ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیحین میں ثابت ہے۔
کہ آپ نے ایک آدمی کو بے اطمینانی کے ساتھ صلاۃ ادا کرتے ہوئے دیکھا تو اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا اور رکوع و سجود میں اطمینان و سکون اور رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان اعتدال کے واجب ہونے کی طرف اس کی رہنمائی کی۔
پس ائمۂ مساجد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ترتیل کے ساتھ (ٹھہر ٹھہر کر) قرآن پڑھیں اور اس میں خشوع کا لحاظ رکھیں۔ تاکہ وہ خود اور ان کے پیچھے قرأت سننے والے بھی اس سے مستفید ہوں۔ اور وہ اس سے دلوں میں حرکت پیدا کر کے انہیں جھنجھوڑ دیں۔ تاکہ دلوں میں خشوع و خشیت اور رجوع و انابت پیدا ہو جائے۔
اور اماموں اور مقتدیوں سب پر واجب ہے کہ تشہد کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودِ ابراہیمی پڑھیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے پڑھنے کا حکم ثابت ہے۔ اور اہلِ علم کی ایک جماعت اس کی فرضیت کی قائل ہے۔ لہٰذا امام اور مقتدی کسی کے لئے صلاۃ اور اس کے علاوہ دیگر مسائل حیات میں شریعت مطہرہ کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
اسی طرح ہر مصلی کے لئے خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ عذابِ جہنم، عذابِ قبر، حیات و موت کے فتنہ اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنا چاہیے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا خود کرتے تھے اور امت کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
اور سلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مشہور دعا پڑھنی چاہیے جس کی آپ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ہر صلاۃ کے بعد پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی اور وہ یہ ہے :
اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلٰي ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
’’ اے اللہ ! تو اپنے ذکر اور اپنی شکر گزار ی اور اپنی اچھی عبادت پر میری مدد فرما“۔
اور توفیق دینے والاصرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ“

——————

سوال : کیا صلاۃِ تراویح صرف سنت ہے یا سنتِ مؤکدہ ہے ؟ اس کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب : یہ سنتِ مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ماتقدم من ذنبه [صحيح: صحيح بخاري، صلاة التراويح 31 باب فضل من قام رمضان 1 رقم 2009 بروايت ابوهريره رضي الله عنه، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب الترغيب فى قيام رمضان وهو التر اويح 25 رقم 173، 174، 175، 759]
’’ جس شخص نے ایمان کے تقاضے سے اور اجر و ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے “۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صحابۂ کرام کو چند راتیں جماعت کے ساتھ صلاۃ تراویح پڑھائی، پھر اس کی فرضیت کے خوف سے آپ نے پڑھانا ترک کر دیا، لیکن صحابہ کو ترغیب دی کہ وہ خود پڑھتے رہیں۔ چنانچہ کوئی اسے تنہا پڑھتا رہا۔ کہیں دو آدمی اور کہیں تین آدمی ساتھ پڑھتے رہے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ادائیگی صلاۃ اور سماعتِ قرآن میں اجتماعیت کے پیشِ نظر انہیں ایک امام کے تابع کر دیا، جس کا سلسلہ مسلمانوں میں آج تک باقی ہے۔ ’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : رمضان کی راتوں میں صلاۃِ وتر کے اندر دعاءِ قنوت پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ اور کیا اس کا چھوڑنا جائز ہے ؟
جواب : صلاۃِ وتر کے اندر دعاءِ قنوت پڑھنا سنت ہے۔ اگر کبھی کبھی چھوڑ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ“

——————

سوال : ایک مسجد کا امام لوگوں کو صلاۃِ تراویح پڑھاتا ہے اور ہر رکعت میں پورا صفحہ یعنی تقریباً 15 آیتیں پڑھتا ہے۔ اس پر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بڑی لمبی قرأت کرتا ہے اور بعض لوگ اس کے برعکس قرأت مختصر کرنے کی شکایت کرتے ہیں۔ صلاۃِ تراویح میں سنتِ قرأت کیا ہے ؟ کیا اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حد متعین ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ کون سی قرأت لمبی اور کون سی مختصر ہے ؟
جواب : حدیثِ صحیح سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، لیکن قرأت اور ارکانِ صلاۃ خوب لمبی کرتے تھے یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ نے نہایت اطمینان اور ترتیل کے ساتھ ایک ہی رکعت میں پانچ پارے پڑھے۔
اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کو یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد بیدار ہوتے تھے اور طلوعِ صبحِ صادق کے قریب تک صلاۃ میں مشغول رہتے اور تقریباً پانچ گھنٹے میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ قرأت اور ارکانِ صلاۃ کو لمبا کر تے تھے۔ اور یہ ثابت ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو صلاۃِ تراویح باجماعت پر اکٹھا کیا تو امام ایک رکعت میں تقریباً تیس آیتیں یعنی 4 یا 5 صفحہ کے قریب پڑھتے تھے۔ اس طرح وہ آٹھ رکعتوں میں سورہ بقرہ پڑھ لیتے تھے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : جب میں صلاۃِ تراویح میں امامت کراؤں تو کیا مجھ پر ترتیب وار قرآن پڑھنا ضروری ہے ؟ یا دن میں جو کچھ یاد کروں اسے بغیر ترتیب کا لحاظ کئے ہوئے پڑھ سکتا ہوں ؟
جواب : ائمہ مساجد کے لئے مشروع ہے کہ اگر وہ قادر ہوں تو قیام رمضان میں مقتدیوں کو پورا قرآن سنائیں، پس امام کو چاہئیے کہ ہر رات وہ سورتیں اور آیتیں پڑھائے جو گزشتہ رات پڑھائی ہوئی آیتوں سے ملی ہوئی ہوں، تاکہ اس کے پیچھے پڑھنے والے قرآن کی ترتیب کے لحاظ سے تسلسل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پوری کتاب سن سکیں۔ اور اگر ایک ختم کرا سکیں تو یہ افضل ہے۔ بشرطیکہ ان پر شاق نہ گزرے اور ترتیل، خشوع اور اطمینان کی رعایت ہو۔ کیونکہ صلاۃ سے مقصود اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا اور اس کے پاس جو ثواب ہے اس کی رغبت، اور جو عذاب ہے اس سے ڈرتے ہوئے اس کے سامنے خشوع کا مظاہر ہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بغیر خشوع اور حضور قلبی کے صرف رکعات کی ادائیگی مقصود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس چیز کی توفیق دے جس میں ان کی بہتری اور دنیا و آخرت میں ان کی نجات ہو۔
”شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : اگر مسجدوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی پردہ یا دیوار حائل ہو تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل فرمان منطبق ہو گا یاوہ ختم ہو جائے گا اور عورتوں کی پہلی صف بہتر ہو گی ؟
خير صفوف الرجال أولهاوشرها آخرهاوخير صفوف النساء آخرهاوشرها أولها [صحيح: صحيح مسلم، الصلاة 4 باب تسوية الصفوف وإقا متها …… 28 رقم 132440 بروايت ابوهريره رضى الله عنه .]
”مردوں کی بہترین صف پہلی ہے اور اجر و ثواب کے لحاظ سے کم تر آخری ہے اور عورتوں کی بہتر صف آخری ہے اور ثواب میں کم پہلی ہے “۔
آپ ہمیں جواب دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔
جواب : بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی آخری صف کے بہتر ہونے کا سبب ان کا مردوں سے دور ہونا ہے، کیونکہ عورت جس قدر مردوں سے دور رہے گی اتنی ہی اس کی عزت و آبرو محفوظ رہے گی اور وہ بدکاری کی طرف مائل ہونے سے دور رہے گی۔ مگر جب عورتوں کے لئے صلاۃ کی ادائیگی کی جگہ مردوں سے دور اور ان سے الگ تھلگ ہو اور دیوار یا موٹا پردہ وغیرہ حائل ہو اور عورتیں لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے امام کی متابعت کرتی ہوں، تو راجح قول کی بنا پر قبلہ سے قریب ہونے کی وجہ سے پہلی صف افضل ہو گی۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : کیا قیام اللیل صرف رمضان المبارک کے مہینہ میں ہوتا ہے یا پور ے سال میں ؟ اور کس وقت سے شروع ہوتا ہے اور کس وقت ختم ہوتا ہے ؟ اور کیا قیام میں صرف صلاۃ ہوتی ہے یا اس میں صلاۃ اور تلاوت قرآن دونوں شامل ہیں ؟
جواب : تہجد اور قیام اللیل سنت اور افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر محافظت کی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے :
إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ [73-المزمل:20]
’’ آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے “۔
یہ قیام رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اس کا وقت صلاۃِ عشاء اور صلاۃِ فجر کے درمیان ہے۔ البتہ آخری رات میں اس صلاۃ کی ادائیگی افضل ہے۔ اور اگر درمیانی شب میں پڑھے تو بھی ثواب کا مستحق ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ سونے کے بعد یا رات کے نصف آخر میں ہو۔ واللہ اعلم۔ ’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : اس شخص کا کیا حکم ہے جو رمضان کے ایک دن کا صوم قصداً چھوڑ دے، پھر توبہ کر لے ؟ کیا اس کی توبہ قبول ہو گی ؟
جواب : جی ہاں ! اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى [20-طه:82]
’’ اور بے شک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں، ایمان لائیں، نیک عمل کریں اور راہِ راست پر بھی رہیں “۔
اس کے علاوہ کتاب و سنت کے اور بھی دلائل ہیں۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “

——————

سوال : اسکند نافیہ اور اس کے اوپر شمال کے ممالک میں مسلمانوں کو شب و روز کے چھوٹے اور لمبے ہونے کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں۔ کیونکہ کبھی دن 22 گھنٹے کا ہوتا ہے اور رات دو گھنٹے کی، جبکہ دوسرے موسم میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک سائل کو یہ دشواری پیش آئی جو رمضان میں شام کے وقت وہاں پہنچا۔ اس سائل کا یہ بھی بیان ہے کہ وہاں کے باشندوں نے اسے بتایا کہ بعض علاقوں میں رات اور دن دونوں چھ چھ مہینے کے ہوتے ہیں، تو اس قسم کے ممالک میں صیام کی مقدار کیا ہو ؟ اور وہاں کے مسلم باشندے یا ملازمت اور تعلیم و تعلم کے لئے مقیم مسلمان صوم کیسے رکھیں ؟
جواب : ان ممالک میں جو مشکل ہے وہ صرف صوم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ صلاۃ کے معاملہ میں بھی یہی دشواری ہے، پس اگر کسی ملک میں دن اور رات الگ الگ ہوتے ہیں تو اسی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، خواہ دن بڑا ہو یا چھوٹا۔ لیکن اگر وہاں دن اور رات الگ الگ نہ ہو تے ہوں۔ مثلاً خطۂ قطب شمالی اور قطبِ جنوبی جن میں دن چھ مہینے کا ہوتا ہے اور رات چھ مہینے کی۔ تو ایسے مقامات کے لوگ اپنے صیام اور صلوات کے اوقات کا اندازہ کر کے ان کی ادائیگی کریں۔ لیکن اندازہ کس چیز سے کریں ؟ اس سلسلہ میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کے اوقات کا لحاظ کر کے اندازہ کریں، کیوں کہ مکہ تمام بستیوں کی اصل اور ان کی ماں (امّ) ہے، اس اعتبار سے وہ تمام بستیوں کا مرکز ہے۔ اس لئے کہ ماں (امّ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کی پیروی کی جاتی ہے اسی سے امام ہے۔ شاعر نے کہا ہے :
علٰي رأسه أم له تقتديٰ بها
یعنی اس کے سر پر اس کی ماں ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے۔
اور بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ وہ لوگ متوسط ممالک کا اعتبار کریں پس رات کا اندازہ بارہ گھنٹے کا اور دن کا اندازہ بارہ گھنٹے کا کریں۔ کیونکہ شب و روز میں معتدل وقت یہی ہوتا ہے۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اپنے ملک سے قریب ترین ملک کا اعتبار کریں جہاں رات و دن الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہی قول راجح ہے۔ اس لئے کہ ان سے قریب ترین ملک ہی ان کی اتباع کا زیادہ حقدار ہے۔ اور جغرافیائی لحاظ سے یہی ان کے آب و ہوا سے قریب تر ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے سے قریب تر ملک کو دیکھیں جہاں شب و روز الگ ہوتے ہیں اور صیام و صلاۃ میں اس کی پابندی کریں۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

——————

سوال : ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سورج ساڑھے نو بجے یا دس بجے شام سے پہلے نہیں ڈوبتا، تو ہم افطار کب کریں ؟
جواب : آپ لوگ اس وقت افطار کریں جب سورج ڈوب جائے۔ چونکہ آپ کے یہاں 24 گھنٹے میں آفتاب کے طلو ع و غروب سے رات و دن ہو تے ہیں اس لئے سورج ڈوبنے تک صوم رکھنا لازم ہے اگرچہ دن بڑا ہو۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
تسحروا فإن فى السحور بركة [صحيح: صحيح بخاري، الصوم 30 باب بركة السحور من غيرإيجاب 20 رقم 1923 بروايت أنس بن مالك رضي الله عنه، صحيح مسلم، الصيام13 باب فضل السحور وتاكيد استحبابه …… 9 رقم 45، 1095]
’’ سحری کھاؤ، اس لئے کہ سحر ی میں برکت ہے “۔
اس حدیث میں ’’ سحری میں برکت “ سے کیا مراد ہے ؟
جواب : ’’ سحری میں برکت “ سے مراد شرعی اور بدنی دونوں طرح کی برکتیں ہیں۔ شرعی برکت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری اور آپ کی پیروی کرنا ہے۔ اور بدنی برکت میں سے بدن کو غذا پہنچانا اور اس کو صوم کے لئے قوت دینا ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث : لاصيام لمن لم يبيت النية یعنی ”جس نے رات کو صوم کی نیت نہیں کی اس کا صوم نہیں ہو گا۔“ سے کیا مراد ہے ؟ اور نیتِ صوم کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب : نیتِ صوم سے مراد صوم رکھنے کے لئے دل سے پختہ ارادہ کرنا ہے۔ اور یہ ہر مسلمان کے لئے لازم ہے جو اس بات کا علم رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کے صیام فرض کئے ہیں۔ نیت کے لئے درج ذیل امور کافی ہیں :
① آدمی کا اس کی فرضیت کو جاننا اور اس کا التزام کرنا۔
② آدمی کا اپنے دل میں یہ سوچنا کہ اگر کوئی عذر نہیں ہوا تو وہ کل صوم رکھے گا۔
③ آدمی کا صوم کی نیت سے سحری کرنا۔
صوم اور دیگر عبادات کے لئے نیت کے الفاظ کو زبان سے ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ نیت کا محل دل ہے۔
’’ شیخ ابن جبرین۔ رحمہ اللہ۔ “

——————

سوال : میرا چھوٹا بچہ رمضان کے صیام پر اصرار کرتا ہے، جبکہ بچہ ہونے اور صحت کی خرابی کی وجہ سے صوم اس کے لئے مضر ہے۔ تو کیا میں صوم توڑنے کے لئے اس کے ساتھ سختی کا معاملہ کروں ؟
جواب : اگر بچہ چھوٹا ہو اور بالغ نہ ہوا ہو تو اس پر صوم رکھنا واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر بغیر مشقت کے صوم رکھ سکے تو اسے صوم رکھنے کا حکم دینا چاہیے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں سے صوم رکھواتے تھے۔ یہاں تک کہ چھوٹا بچہ صوم رکھتے ہوئے اگر روتا تو اسے کھلونا دیکر بہلا دیتے اور وہ کھلونے سے کھیلنے لگتا۔ لیکن جب یہ ثابت ہو جائے کہ صوم اس کے لئے یقیناًً مضر ہے تو اس سے روک دیا جائے گا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں چھوٹے بچوں کے اموال ان کے حوالہ کرنے سے اس اندیشہ سے منع فرمایا ہے کہ کہیں وہ برباد نہ کر دیں تو بدن کے نقصان کے ڈر سے انہیں صوم سے روکنا بدرجۂ اولیٰ ضروری ہو گا۔ البتہ روکنے میں سختی کا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اولاد کی تربیت کے ضمن میں سختی کرنا مناسب نہیں ہے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...