منگل، 31 جنوری، 2017

ضعیف احادیث. اور سوره یسین

ضعیف احادیث.   اور سوره یسین  ()()()()()()()(()()()()()()()()(()()()()()().         روایت سنن الدارمی(ج۲ص۴۵۷ح۳۴۲۱وطبعۃ محققۃ ح ۳۴۶۱) میں ‘‘عطاء بن ابی رباح ( تابعی) قال: بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال’’ کی سند سے موجود ہے اور دارمی ہی سے صاحبِ مشکوۃ نے (ح ۲۱۷۷ بتحقیقی) نقل کی ہے۔


یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور ‘‘بلغني’’ کا فاعل نامعلوم ہے۔


سورۃ یٰس کی فضیلت میں درج زیل مرفوع روایات بھی ضعیف و مردود ہیں۔

۱: ‘‘إن لکل شئ قلباً و قلب القرآن یٰس و من قرأ یٰس کتب اللہ لہ بقرأ تھا قراء ۃ القرآن عشر مرات’’ (جامع ترمذی ح ۲۸۸۷من حدیث قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ و تبلیغی نصاب ص ۲۹۲ فضائل قرآن ص ۵۸)امام ترمذی  اس روایت کے ایک راوی ہارون  ابو محمد کے بارے  میں فرماتے ہیں‘‘شیخ مجہول’’ لہذا یہ روایت ہارون مزکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا  ہے۔ (الضعیفۃ ج ۱ص۲۰۲ح ۱۶۹)
امام ابو حاتم الرازی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی: مقاتل بن سلیمان (کذاب) ہے (علل الحدیث ج۲ص ۵۶ح ۱۶۵۲)جبکہ سنن ترمذی و سنن الدارمی(ج۲ص۴۵۶ح۳۴۱۹) تاریخ بغداد(ج۴ص۱۶۷)میں مقاتل بن حیان (صدوق) ہے۔ واللہ اعلم درج بالا روایت کا ترجمہ جناب زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے۔

‘‘ہر چیز کے لئے ایک دل ہوا کرتا ہے۔ قرآن شریف کا دل سورۃ یٰس ہے جو شخص سورۃ یٰس پڑھتا ہے حق تعالیٰ شانہ، اس کے لئے دس قرآنوں کا ثواب لکھتا ہے’’۔

۲:اس باب میں سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ والی روایت کے بارے میں امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ‘‘ ولا یصح من قبل إسنادہ و إسنادہ ضعیف’’[ترمذی:۲۲۸۸۷]

۳: ‘‘إن لکل شئي قلباً و قلب القرآن یٰس’’ (کشف الاستار عن زوائد البزارج ۳ص۸۷ح۲۳۰۴من حدیث عطاء عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)
اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

‘‘وحمید ھذا مجھول کما قال الحافظ فی التقریب و عبدالرحمن بن الفضل شیخ البزارلم أعرفہ ’’ (الضعیفہ ج۱ص۲۰۴)
یعنی اس کا (بنیادی) راوی حمید( المکی مولیٰ آل علقمۃ /تفسیر ابن کثیر ۳؍۵۷۰) مجہول ہے جیسا کہ حافظ (ابن حجر) نے تقریب التھذیب میں کہا ہے اور بزار کے استاد: عبدالرحمن بن الفضل کو میں نے نہیں پہچانا۔

۴: ‘‘ من قرأ یٰس فی لیلۃ أصبح مغفوراًلہ۔۔’’ الخ
(مسند ابی یعلی ج ۱۱ص ۹۳ ، ۹۴ح ۶۳۲۴وغیرہ من طریق ھشام بن زیاد عن الحسن قال: سمعت اباھریرۃ بہ)
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ ہشام بن زیاد متروک ہے (تقریب ص ۳۶۴ت:۷۲۹۲)


۵:‘‘من قرأ یٰس فی لیلۃ ابتغاء وجہ اللہ غفر لہ فی تلک اللیلۃ’’ (الدارمی ح ۳۴۲۰وغیرہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حسن بصری کی سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔


۶۔‘‘من قرأ یٰس فی لیلۃ ابتغاء وجہ اللہ غفر لہ’’
(صحیح ابن حبان: موارد الظمآن ح ۶۶۵وغیرہ عن الحسن (البصری) عن جندب رضی اللہ عنہ بہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو حاتم رازی نے کہا:‘‘ لم یصح للحسن سماع من جندب’’ (المراسیل ص۴۲) نیز دیکھئے حدیث سابق:۵


۷۔‘‘من قرأیٰس ابتغاء وجہ اللہ تعالیٰ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ فاقرؤ و ھا عند موتاکم ’’ (البیہقی فی شعب الایمان ح ۲۴۵۸من حدیث معقل بن یسار رضی اللہ عنہ)
اس کی سند ایک مجہول راوی: ابو عثمان غیر النہدی اور اس کے باپ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یہ روایت مختصراً مسند احمد(۵؍۲۶ ، ۲۷) مستدرک الحاکم ۱؍۵۶۵) اور صحیح ابن حبان(الاحسان۷؍۲۶۹ح ۲۹۹۱ و نسخہ محققہ ح ۳۰۰۲) و سنن ابی داؤد(۳۱۲۱)و سنن ابن ماجہ (۱۴۴۸) میں موجود ہے، اس حدیث کو امام دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسند احمد (۴؍۱۰۵) میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔


     ۸۔‘‘من قرأیٰس فی لیلۃ أصبح مغفوراً لہ’’ (حلیۃ الاولیاء۴/۱۳۰من حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کی سند ابو مریم عبدالغفار بن القاسم الکوفی کی وجہ سے موضوع ہے۔ ابو مریم مذکور کذاب وضاع تھا۔ دیکھئے لسان المیزان(ج۴ص۵۰ ، ۵۱)


۹۔‘‘من قرأ یٰس عدلت لہ عشرین حجۃ ومن کتابھا ثم شربھا أدخلت جوفہ ألف یقین و ألف رحمۃ و نزعت منہ کل غل    وداء’’ (حلیۃ الاولیاءج۷ص۱۳۶) من حدیث الحارث(الأعور) عن علي بہ’’ یہ روایت حارث اعور کے شدید ضعف (مع تدلیس أبی اسحاق) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔


۱۰۔‘‘لوددت إنھا في قلب کل إنسان من أمتي یعنی یٰس’’
(البزار: کشف الاستار۳؍۸۷ح۲۳۰۵من حدیث ابن عباس)
اس کا راوی ابراھیم بن الحکم بن ابان ضعیف ہے۔ (تقریب:۱۶۶(


۱۱۔ ‘‘من قرأ سورۃ یس وھو فی سکرات الموت أو قریب عندہ جاء ہ خازن الجنۃ بشربۃ من شراب الجنۃ فسقاھا إیاہ وھو علی فراشہ فیشرب فیموت ریان ویبعث ریان ولا یحتاج إلی حوض من حیاض الأنبیاء’’ (الوسیط للواحدی۳؍۵۰۹)
یہ روایت موضوع ہے۔ یوسف بن عطیہ الصفار متروک (دیکھئے تقریب التہذیب:۷۸۷۲) اور ہارون بن کثیر مجہول ہے دیکھئے لسان المیزان(ج۶ص۲۱۸)


۱۲:‘‘من قرأیس فکأنما قرأ القرآن عشر مرات’’ (شعب الایمان للبیھقی ح۲۴۵۹)
یہ روایت حسان بن عطیہ کی وجہ سے مرسل ہے، اسماعیل بن عیاش مدلس ہے۔ (طبقات المدلسین:۶۸ ؍۳)


۱۳:‘‘سورۃ یٰس تدعی فی التوراۃ المنعمۃ۔۔۔’’ الخ
(شعب الایمان ح۲۴۶۵ و الضعفاء للعقیلی ج ۲ص۱۴۳، الامالی للشجری ج ۱ص۱۱۸تاریخ بغداد للخطیب ج ۲ص۳۸۷ ، ۳۸۸و الموضوعات لابن الجوزی ص۳۴۷ج او تبلیغی نصاب ص۲۹۲ ، ۲۹۳ فضائل قرآن ص ۵۸ ، ۵۹)
اس روایت کی سند موضوع ہے محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر الجد عانی متروک الحدیث ہے اور دوسرے کئی راوی مجہول ہیں امام بیہقی فرماتے ہیں‘‘ وھو منکر’’ امام عقیلی نے بھی اسے منکر قرار دیا ہے۔ اس کی ایک دوسری سند تاریخ بغداد اور الموضوعات لابن الجوزی میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن عبد بن عامر السمر قندی کذاب اور چور تھا۔


۱۴:‘‘إنی فرضت علی أمتی قراء ۃ یس کل لیلۃ فمن دام علی قراء تھا کل لیلۃ ثم مات مات شھیداً’’ (الأ مالی للشجری ج ۱ص۱۱۸)
یہ روایت موضوع ہے۔ اس کے کئی راویوں  مثلاً عمر بن سعد الوقاصی ، ابو حمض بن عمر بن حفص اور ابو عا مر محمد بن عبدالرحیم کی عدالت نامعلوم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سورت یا سین کی فضیلت کی تمام مرفوع روایات ضعیف و مردود ہیں۔


 امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘حدثنا عمر و بن زرارۃ : حدثنا عبدالوھاب: حدثنا راشد أبو محمد الحماني عن شھر  بن حوشب قال: قال ابن عباس: من قرأ یٰس حین یصبح، أعطي یسر یومہ حتی یمسي، ومن قرأھا فی صدر لیلۃ أعطي یسر لیلتہ حتی یصبح’’
ہمیں عمر و بن زرارہ نے حدیث بیان کی: ہمیں عبدالوہاب الثقفی نے حدیث بیان کی: ہمیں راشد ابو محمد الحمانی نے حدیث بیان کی، وہ شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ (سیدنا) ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت یاسین پڑھے تو اسے شام تک آسانی عطا ہو گی اور جو شخص رات کے وقت یاسین پرھے تو اسے صبح تک آسانی عطا ہو گی۔ (یعنی اس کے دن و رات آرام و راحت سے گزریں گے) [سنن الدارمی۱؍۴۵۷ح ۳۴۲۲دوسرا نسخہ: ۳۴۶۲و سندہ حسن]


اس روایت کے راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔


۱: عمر و بن زرارہ: ثقۃ ثبت [تقریب التہزیب : ۵۰۳۲]
۲: عبدالوھاب الثقفی: ثقۃ تغیر قبل موتہ بثلاث سنین[التقریب:۴۲۶۱]لکنہ ما ضر تغیرہ حدیثہ فإنہ ماحدث بحدیث فی زمن التغیر[میزان الاعتدال ۲؍۶۸۱]
۳:راشد بن نجیح الحمانی: صدوق ربما أخطأ[تقریب التہذیب: ۱۸۵۷]وحسن لہ البوصیري [زوائد ابن ماجہ:۳۳۷۱]یہ حسن الحدیث راوی ہے۔

۴:شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے(کما حققتہ في کتابي:تخریج النھایۃ فی الفتن و الملاحمص۱۱۹ ، ۱۲۰) حافظ ابن کثیر اس کی ایک روایت کو حسن کہتے ہیں(مسند الفاروق ج ۱ص ۲۲۸لہذا ہماری تحقیق کے مطابق یہ راوی حسن الحدیث ہے۔ واللہ اعلم خلاصہ یہ کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ مزید  تحقیقی   مقلاا ت             www.mominsalafi.blogspot.com

ہفتہ، 28 جنوری، 2017

Asalamu alykum bhai mujhe umer radeyallahu tala anhu k barea mea note chaheyea plz bhai

سرخی شامل کریں
سلامی سال کا قربانیوں والا مہینہ آیا تو فورا خیال آیا کہ اسلام سال تو شروع ہی شہادتوں سے ہوتا جن میں سے ایک سرکارِ دو عالم محمد مصطفیٰ ﷺ کے ایک انتہائی  پیارے، عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی اور اسلام کے جاہ و جلال سے دنیا کے22/25 لاکھ مربع میل کے رقبے پہ حکومت کرنے والے  خلیفہ دوم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ جنکی حکومت، عدل وانصاف، جاہ و جلال،سادہ طبیعت، پرہیزگاری کو نا صرف مسلمانوں نے مانا بلکہ کفار اور یہاں تک کے دریاؤں تک نے مانا ہے ،انکی شہادت سے ہی اسلام کا سال شروع ہوتا۔ سوچا کہ ایسے جلیل القدر صحابی کا تھوڑا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کروں۔۔لہذا اس سلسلے میں کافی کتب کو پڑھا اور سب کو ملا کہ جو اخذ کیا وہ بیان کروں گا انشااللہ۔ لبیک!

نام و نسب:

آپ کا نام عمر کنیت ابو حفص اور لقب آپکو سرورِ کائنات محمد ﷺ سے ملا جو کے فاروقِ ہے۔اسی نسبت سے آپکو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جسکے معنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے:
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی
کعب کے دو بیٹے تھے ایک عدی دوسرا مرہ، اور مرہ  نبی کریم ﷺ کے آباؤ اجداد میں سے ہیں لہذا اسطرح آپکا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ ہجرتِ نبوی سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئے۔
اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ اشرافِ قریش میں سے تھے اور آپکا خاندان سفارت سے منسوب تھا جب بھی قریش کی کسی قبیلے سے لڑائی ہوتی آپ کے قبیلے کے بزرگوں کو معاملات سنبھالنے کے لئیے بھیجا جاتا تھا۔
آپکی والدہ ابوجہل کی بہن تھیں اس طرح ابوجہل آپکے ماموں تھے۔

علم ، پیشہ ،شوق و شجاعت:
آپ رضی اللہ عنہ کو لڑکپن میں اونٹوں کے چرانے کا شوق تھا۔جوان ہوئے تو عرب کے دستور کے مطابق سپہ سالاری، شہسواری، نسب کی تعلیم، پہلوانی کی تعلیم حاصل کی۔ نبی کریم کی بعثت کے وقت قریش میں صرف سترہ آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے جن میں سے ایک آپ تھے۔ پہلوانی کا شوق تھا اور اتنی مہارت تھی کے آپ عرب کے بڑے پہلوانوں میں سے تھے۔ پورے عرب میں آپکا رعب اور دبدبا اتنا تھا کے بڑے بڑے دلیر انسان کانپنے لگتے تھے آپکے ساتھ مقابلے پہ آنے پہ ۔ گھڑ سواری میں بھی کمال حاصل تھا۔ جاہلیت کے دور میں اور اس کے بعد بھی تجارت کا پیشہ جاری رکھا۔539 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔

حلیہ اور فضائل:
آپکی رنگت سفید تھی لیکن سرخی اس پہ غالب تھی۔ قد نہایت لمبا تھا۔رخساروں پہ گوشت کم تھا داڑھی گھنی تھی۔ اور صحت ماشااللہ بہت بہترین تھی۔

آپ رضی اللہ عنہ بعض روایات کے مطابق چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے بعض کے مطابق انتالیس مردوں اور تینتیس عورتوں اور بعض کے مطابق پینتالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایمان لائے (واللہ علم) آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جسکی حدیث روایت کا آگے آحادیث کے حصے میں بیان کروں گا (انشااللہ) ۔آپ نبی کریم ﷺ کے خسر ہیں آپکا شمار نبی کریم  ﷺ کے زمانے سے ہی نہایت جید علما میں ہوتا تھا۔ قرآ ن میں پردہ کا حکم بھی آیا تو اس پہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی تھی۔ آپ نہایت غیرت  مند اور دلیر تھے۔ اسلام پہ سختی سے خود عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے آپ کے دبدبے کے بارے میں صحیح بخاری میں حدیث نقل کی ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے کہا کے آپکو دیکھ کے تو شیطان بھی رستہ بدل لیتا ہے (آگے تفصیلا ذکر آئے گا انشا اللہ)۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اس لئیے بھی فضیلت حاصل کہ آپکی ہدایت کے لئے رسول اکرم ﷺ نے خود خاص الخاص دعا فرمائی کہ دونوں عمر (ابوجہل اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)میں سے ایک کو ہدایت دے اور آپ کے حق میں اللہ نے دعا قبول کی اور آپکو مشرف بااسلام کیا ۔ ابن مسعود روایت کرتے کہ آپکا اسلام لانا تھا کہ اس کے بعد اسلام عزت ہی پاتا گیا۔ گویا کے آپکا اسلام فتح تھی آپ کی ہجرت نصرت تھی اور آپ کی امامت رحمت۔ جب آپ رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنا شروع کیا اور کسی کفارِ مکہ میں اتنی جرائت نا تھی کہ کچھ کہتا۔ اس لئیے کہتے آپ کے ایمان لانے پہ کفار نہ کہا کے مسلمانوں نے ہم سے سارا بدلہ لے لیا۔ ایک آپ کے دبدے کی جھللک پیشِ خدمت کے جب عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا قصد کیا تو آپ برہنہ تلوار لائے دوسرے ہاتھ میں تیر اور پشت پہ کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں آئے تلوار کو زمیں میں گاڑا سات مر تبہ طواف کیا اور دو رکعت مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کے پڑھیں ، بھر قریش کے سرداروں کو  (ابو سفیان اور ابو جہل خصوصاً)مخاطب کر کے کہا جو قرب و جوار میں تھے کہ جو شخص اپنی ماں کو بے فرزند اور بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہو، جسکو میری عبادت کرنے پہ اعتراض ہو وہ مجھ سے آکے مدمقابل ہو۔ لیکن ان شیطان کے چیلوں کو کیا ہمت ہوتی جو جذبہ ایمان سے خالی تھے کسی میں چوں چراں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ ہیی نہیں آپ رضی اللہ عنہ کا مشرکین پہ اتنا رعب و دبدبا تھا کہ مسلمانوں تک کو مشرکین کو نماز پڑھنے کی اجازت دینا پڑی۔

احادیث میں فضائل:
مندرجہ بالہ حصہ میں صحیح بخاری اردو ترجمعہ از مولانا محمد داؤد راز سے آحادیث نقل کی جا رہی ہیں باب ہے فضائلِ اصحاب النبی ، بیان حضرت ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان صفحہ 140 سے اور آگے۔


 جنت اور شہادت کی بشا رتیں:

حدیث 3679:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ میں نے (خواب میں) دیکھا کہ میں جنت میں گیا ہوں، کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ابوطلحہ کی بیوی رمیصاء (ام سلیم سیدنا انس کی والدہ) موجود ہیں اور میں نے پاؤں کی آہٹ سنی تو پوچھا کہ کون ہے؟ کسی نے کہا کہ یہ بلال ہیں اور میں نے ایک محل دیکھا اور اس کے ایک طرف ایک لڑکی وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ کس کا محل ہے؟ کسی نے کہا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کا۔ میں نے چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوں اور اسے دیکھوں لیکن (اے عمر!) تمہاری غیرت مجھے یاد آ گئی۔” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟

حدیث 3686:
انس بن مالک نے بیان کیا کہ نبی کریم احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابو بکر، عمر اور عثمان بھی تھے۔پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضرت نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا احد! ٹھہر رہ کہ تجھ پر  ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔(مراد عمر اور عثمان)

حدیث 3693:
حضرت ابو موسیٰ اشعری نے بیاں کیا کہ میں مدینہ کے ایک باغ میں رسول اللہ کے ساتھ تھاایک صاحب نے آکر دروازہ کھلوایا۔آنحضرت نے ان کے آنے پہ فرمایا کہ ان کے لئیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو حضرت ابو بکر تھے۔میں نے انہیں نبی کریم کے فرمانے کے مطابق جنت کی خوشخبری سنائی تو انہوں نے اس پہ اللہ کی حمد کی بھر ایک اور صاحب آئے اور دروازہ کھلوایا۔حضور نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ دروازہ ان کے لئیے کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو میں نے دروازہ کھولا تو عمر تھے انہیں بھی جب حضور کے ارشاد کی اطلاع سنائی تو انہوں نے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر تیسرے اور صاحب نے دروازہ کھلوایا۔ ان کے لئیے بھی حضور اکرم نے  فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو ان مصائب اور آزمائشوں کے بعد جن سے انہیں واسطہ پڑے گا۔ وہ حضرت عثمان تھے۔ جب میں نے انکو حضور کے ارشاد کی اطلاع دی تو آپ نے حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔

تقویٰ، زہد، علم اور نبی پاک کے خواب:

حدیث 3681:
عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی تازگی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پہ بہ رہی ہے۔پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا' صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ نے فرمایا اسکی تعبیر علم ہے۔ (مطلب عمر کا علم کا بیان جو اللہ نے نبی پاک کی بدولت انہیں عطا کیا)

حدیث 3682:

 ‏
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے  فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک کنویں سے ایک اچھا بڑا ڈول کھینچ رہا ہوں ، جس پر ” لکڑی کا چرخ “ لگا ہوا ہے ، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول کھینچے مگر کمزوری کے ساتھ اور اللہ ان کی مغفرت کرے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہاتھ میں وہ ڈول ایک بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کرگیا ۔ میں نے ان جیسا مضبوط اور باعظمت شخص نہیں دیکھا جو اتنی مضبوطی کے ساتھ کام کرسکتاہو ۔ انہوں نے اتنا کھینچا کہ لوگ سیراب ہوگئے اور اپنے اونٹوں کو پلاکر ان کے ٹھکانوں پر لے گئے ۔ ابن جبیر نے کہا کہ عبقری کا معنی عمدہ اور زرابی اور عبقری سردار کو بھی کہتے ہیں ( حدیث میں عبقری سے یہی مراد ہے ) یحییٰ بن زیاد فری نے کہا ، زرابی ان بچھونوں کوکہتے ہیں جن کے حاشیے باریک ، پھیلے ہوئے بہت کثرت سے ہوتے ہیں ۔

(یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب حدیث میں لفظ ” بکرۃ “ بفتح با اور کاف ہو یعنی وہ گول لکڑی جس سے ڈول لٹکادیتے ہیں ، اگر ” بکرۃ “ سکون کاف کے ساتھ ہوتو ترجمہ یوں ہوگا، وہ ڈول جس سے جو ان اونٹنی کو پانی پلاتے ہیں۔)
حدیث 3683:
محمد بن سعدبن ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں ( امہات المومین میں سے ) بیٹھی باتیں کررہی تھیں اور آپ کی آوازپر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان ونفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کررہی تھیں ، جوں ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہوکر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں ۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اوروہ داخل ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرارہے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔ آپ نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پرہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ، لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ گئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ڈرناتو انہیں آپ سے چاہیے تھا ۔ پھرانہوں نے ( عورتوں سے ) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو ! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں ، عورتوں نے کہاکہ ہاں ، آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔
حدیث 3687:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا ، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے ، جو میں نے انہیں بتادیئے تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی شخص کودین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل حضرت عمر بن خطاب پر ختم ہوگئے ۔
حدیث 3689:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں ۔
حدیث 3691:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیص پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی ، صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی تعبیر کیالی ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے ۔

(معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دین وایمان بہت قوی تھا۔ اس سے ان کی فضیلت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پرلازم نہیں آتی کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں ہے۔)


فاروقی دور کی خدمات اور فتوحات:
حضرتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات اور خلافت میں آنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے دو سال کہ عرصے میں ہی اپنی قابلیت کا سکہ جمادیا حالانکہ پہلے آپ ایک انتہائی رعب و دبدبا اور عضے کے تیز شخص مانے جاتے  تھے ۔ابو بکر نے اپنی وفات سے پہلے ہی انکے ہاتھ پہ بیعت لے لی تھی عمر پہ محمد حسین ہیکل کی کتاب عم فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ میں نقل کرتے ہیں باب چہارم صفحہ 112-113:
اسکی (عمر) سختی میری نرمی کی بدولت تھی جب خلافت کا بوجھ ان کے کندھوں پہ پڑے گا وہ سخت نہیں رہیں گے۔اگر اللہ پاک مجھ سے پوچھتے کہ میں کس کو اپنا جانشین مقرر کیا، تو میں انہیں بتاتا کہ آپ میں سے بہترین آدمی کو مقرر کیا۔
اور یارِ نبی رضی اللہ عنہ کا اندازہ بلکل درست رہا۔ عمر رضی اللہ عنہ خلافت میں آتے ہی وہ نرم رویہ اختیار کیا کہ جسکی بدولت نا صرف مسلمان بلکہ کافر آج تک داد و تحسین پیش کرتے ہیں۔
آپ کہ عہد فاروقی نے دین و دنیا میں جو جو خدمات پیش کی اسکی مثال آج تک نہیں مل پائے چند ایک کا تذکرہ مندرجہ بالا نقات میں لکھ دیتا کیوں کہ بیان کرنے پے تو ہر ایک پہ کتب کی کتب بھی کم پڑیں گی۔

  • بیت المال کا قیام
  • مالی تجاویز و ایجاد
  • معاشرتی نظام کی تجاویز
  • سیاسی کابینہ کا قیام
  • سنہ ہجری کا قیام
  • امیرالمومنین کا لقب
  • فوج کے اور مختلف حکومتی شعبہ جات کے با قاعدہ دفاتر کا قیام
  • رضا کاروں کی تنخواؤں کا تقرر
  • ملک کی حدود کا قاعدہ۔
  • مردم شماری
  • نہریں کھدوانا
  • راستے میں مسافروں کے لئیے کنوئیں اور سرائے کا انتظام
  • راستوں کو ڈاکوؤں سے محفوظ کروانا
  • رات کو  رعایا کی خبر گیری اور حفاظتی گشت کا قیام
  • شہر آباد کروانا مثلا کوفہ، بصرہ، جزیرہ فساط (قاہرہ)،رصا مشررک
  • خانہ کعبہ کے صحن کی توسیع
  • صوبہ داری کا نظام اور اسکے حکام کا تقرر
  • جیل خانہ کا قیام
  • پولیس کا باقاعدہ محکمہ
  • مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودئیوں کے روزینے کا تقرر
  • نماز تراویح با جماعت پڑھانے کا اہتمام
  • تجارت کے گھوڑوں پہ زکواۃ کا تقرر
  • نمازِ جنازہ میں چار تکبیروں کا اجماع
  • بیرونی تجارت کی اجازت (جسے امپورٹ ایکسپوٹ کہتے آجکل)
  • پرچہ اور قانونی دستاویزات کے نویس مقرر کرنا
  • درہ کا استعمال

یہ چند ایک خصوصیات بتائیں ساروں کا آحاطہ کرنا بہت مشکل ہے یہی نہیں آپ ک دور میں فتوحات کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ 22 لاکھ اور کچھ کے مطابق 25 لاکھ مربع میل تک اسلام کی دعوت اور آپ کی خلافت پہنچی۔ ان میں فارس و عراق جزیرہ خراسان و بلوچستان و شام و فلسطین و مصر و آرمینیا۔ پھر آپ نے 220 ہجری میں اسلامی سلطنت کے جو صوبے بنائے تھے و کچھ یوں تھے، مکہ ،مدینہ،شام ،مصر(بالائی مصر ،زیریں مصر)،فلسطین(ایلیا و رملا)،خراسان،آذربئجان،فارس،عراق(،بصرہ،کوفہ)،دجلہ کا بالائی حصہ (جزیرہ ،فرات)۔ ان میں بعض ایسے صوبے تھے جو دو دو صوبوں کے برابر سمجھے جاتے اور دو دو صدرمقام تھے ۔ ہر صوبے میں ایک کاتب، منشی،صاحب الخراج یا کلیکٹر،ایک پولیس کا افسر،افسر خزانہ اور ایک قاضی ضرور ہوتا۔

طرزِ زندگی:
جب اس عظیم سلطنت اور جاہ و جلال کا تذکرہ آتا ہے تو ایک لمحے کو سوچ آتی انسانی فطرت میں کے ایسے بندے کی تو زندگی انتہائی شاہانہ ہوگی۔ جسکو دین میں بھی ذہد حاصل، جنت کی بشارت، محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت اور خدا کا راضی نامہ بھی ملا ہو تو وہ شخص تو شاید خوابوں کی شاہانہ زندگی کا نمونہ ہو۔۔۔ایسی ہی سوچ لے کے دوسری سلطنتوں کے ایلچی بھی آیا کرتے تھے کے شاید وہ عالیشان دربار میں بٹھائے جائیں گے لیکن سب کا سب دھرا رہ جاتا جب وہ اس جاہ و جلال کے پیکر کو درخت کے نیچے بلا خوف و خطر کسی حفاظتی انتظامات کے بغیر پتھر پہ سر رکھے پھٹے پرانے اور پیوندوں سے بھرے ہوئے کپڑوں میں دیکھتے۔ اور اعلیٰ درجہ کی خوراک کا تصور بھی خاک میں مل جاتا جب انہیں انتہائی سادہ خوراک یا کئی دنوں کے فاقوں کے مارے دیکھتے۔ وہ حیران ہی نہیں مبہوت ہو کے رہ جاتے کے یہی وہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ  ہے ؟ جو اتنی وسیع سلطنت کا مالک؟۔۔۔۔اور یقینا پکار اٹھتے ہوں گے کہ جس نبی ﷺ نے ایسے جانشین چھوڑے وہ خود نبی ﷺ کی عظمت کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔ایسے خلیفہ جو راتوں کو محلوں اور گلیوں میں رعایا کی خیروخبر گیری کے لئیے گھوما کرتے اور حتیٰ امکاں مدد کرتے۔
انساں تو انساں آپ تو جانوروں کے معاملے میں بھی خدا سے ڈرا کرتے ایک دن اپنے ایک زخمی اونٹ کا وزن دھو رہے تھے اور کہتے جاتے کہ مجھے خدا کا خوف کہ کہیں قیامت کے دن اس بابت بھی سوال نا ہو جائے۔

غرضیکہ انہوں نے خلیفہ ہونے کی وہ زندہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک آباد رہے گی انشااللہ اور حکمرانوں کے لئیے ایک مشعلِ راہ رہے گی انشااللہ۔
شہادت:

مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسی علام فیروز تھا جو کے ابو لولو کی کنیت سے مشہور تھا۔ ایک دن وہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کے آیا کہ میرا مالک مجھے سے زیادہ محصول لیتا ہے آپ کم کرائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے رقم دریافت کی تو اس نے جواب دیا دو درم روزانہ۔ آپنے اسکا پیشہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آہنگری اور نقاشی کا کام کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو یہ رقم زیادہ نہیں۔ ابو لولو یہ سن کے بہت غصے میں آیا اور وہاں سے چل دیا۔
دوسرے دن جب فجر کی نماز کی امامت شروع کی آپ نے تو اس ملعون نے آگے بڑھ کے خنجر سے تابڑ توڑ 6 وار کئیے۔ جس میں سے ایک وار ناف کو چیرتا ہوا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فورا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کھینچ کے آگے امامت میں کردیا اور خود زخموں کی شدت سے بے ہوش ہو کے گر پڑے۔
ملعون ابو لولو مسجدِ نبوی سے بھاگا لوگوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی جس میں بہت صحابی زخمی اور ایک صحابی کلیب بن ابی بکیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ اس سے پہلے کے گرفتار ہوتا اس نے خود کشی کر لی اور یوں نامراد ٹھرا۔

فورا نماز ختم ہوتے ہی طبیب کو بلایا آپ رضی اللہ عنہ جیسے ہی ہوش میں آئے تھوڑے تو عظمت دیکھیں کہ یہ پوچھا کی کسی مسلمان نے تو حملہ نہیں کیا۔ بتلایا گیا نہیں ملعون مجوسی ابو لولو نے کیا تو فورا کہا الحمد اللہ مجھے کسی مسلمان نے نہیں مارا۔
زخموں کی شدت کچھ ایسی تھی کے جب کچھ کھلایا پلایا جاتا تو ناف والے زخم سے خوراک انتڑیوں سے باہر نکل جاتی اس طرح کی حالت دیکھ کے لوگ غمزدہ ہو گئے اور ساتھ ہی آپ سے اپنا جانشین مقرر کرنے کو بھی کہا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحٰمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ ، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو طلب کر کے یہ ذمہ داری ان پہ سونپی اور اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں پیغام بھجوایا کہ ان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کرو۔کیا مقام کیا عزت تھی انکی نبی پاک ﷺ کے گھرانے کے لئیے کہ اجازت مانگ رہے دفن کے لئیے بھی۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئیے رکھی تھی لیکن میں فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنی ذات پہ ترجیح دیتی ہوں ۔یہ خبر سن کے آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کے ان کی خواہش پوری ہوئی اور آخر یکم محرم الحرام اور بعض کے مطابق دوم محرم کو آپ شہادت کا جام نوش کرتے ہوے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور ہمیشہ کے لئے حیات ہو گئے۔ آپکی نمازِ جنازہ صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے قبرِ مبارک میں اتارا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ آپکے درجات کو اور بلند فرمائے جنت الفردوس میں، اور ہمارے دل میں آپکی عظمت اور آپکی سیرت پہ عمل کرنے کا بیج بو دے۔اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمائے۔اور اگر کوئی غلطی، کمی کوتاہی ہو گئی مجھ سے تو معاف فرمائے۔ اور ہمیں ایسا بنادے کے ہم اسے پسند آ جائیں۔ اور  نبی پاک روحِ مقدس پیر کامل محمد مصطفیٰ ﷺ پہ ،تمام اصحاب  پہ تمام امت پہ اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین 


جمعرات، 26 جنوری، 2017

ایک شخص حج کو جارہا ھے ۔ وہ اپنا عمرہ و حج کیساتھ اپنے والد کے نام عمرہ کرنا چاہتا ھے۔ اسی خرچہ پر کیا ایسا کرنا صحیح ھے

    سوال۔   ایک شخص حج کو جارہا ھے ۔ وہ اپنا عمرہ و حج کیساتھ اپنے والد کے نام عمرہ کرنا چاہتا ھے۔ اسی خرچہ پر کیا ایسا کرنا صحیح ھے

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

حج ميں نيابت كے معاملہ ميں لوگوں كا وسعت اختيار كرنا فى الواقع افسوسناك امر ہے، اور ہو سكتا ہے يہ شرعا بھى صحيح نہ ہو، اس ليے كہ نفلى ميں تو نيابت كرنى جائز ہے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے اس ميں دو روايتيں ملتى ہيں:

ايك روايت يہ ہے كہ: كسى شخص كے ليے كسى دوسرے كى جانب سے نفلى حج يا عمرہ كى نيابت كرنى جائز نہيں، چاہے وہ مريض ہو يا تندرست، اور يہ روايت صحت اور قوۃ كے زيادہ لائق ہے، كيونكہ مكلف سے مطلوب يہ ہے كہ عبادت بنفسہ خود سرانجام دے حتى كہ اس كى جانب سے اللہ تعالى كى عبادت اور تذلل و عاجزى حاصل ہو سكے.

آپ كو بنفسہ خود حج كرنے والے اور كسى كو پيسے ديكر حج كروانے والے شخص ميں واضح قرق نظر آتا ہے، دوسرے شخص كو عبادت ميں اپنے دل كى اصلاح اور اللہ تعالى كے ليے تذلل كى فضيلت حاصل نہيں ہوتى، گويا كہ اس نے ايك تجارتى معاہدہ كيا ہے، اور اس ميں اس نے ايسے شخص كو وكيل بنايا ہو جو اس كى جانب سے خريدوفرخت كرے.

اور اگر وہ شخص مريض ہو اور وہ نفلى ميں كسى دوسرے كو نائب بنانا چاہے تو يہ كہا جائے گا:

اس نے سنت پر عمل نہيں كيا، بلكہ سنت ميں تو صرف فرضى حج ميں نيابت كا ذكر ہے، اور فرض اور نفل ميں فرق يہ ہے كہ: فرض ايسا معاملہ ہے جو انسان پر لازم ہے، اگر وہ اس كى استطاعت نہ ركھے تو وہ اپنى جانب سے حج اور عمرہ كرنے كے ليے كسى كو وكيل بنا دے.

ليكن نفل واجب نہيں، تو اسے كہا جائيگا: جب تم مريض اور بيمار ہو اور فرضى حج كر چكے ہو تو اس پر اللہ تعالى كا شكر كرو، اور جس مال كے ساتھ كسى دوسرے كو اپنى جانب سے حج كروانا چاہتے ہو يا عمرہ كروانا چاہتے ہو اسے كسى اور مصرف ميں صرف كردو، كسى فقير اور محتاج شخص جس نے فرضى حج نہيں كيا اس مال كے ساتھ اس كى معاونت كردو تو يہ تمہارے ليے اس سے بہتر اور افضل ہے كہ اسے كہو: يہ رقم لے كر ميرى طرف سے حج كرلو، چاہے آپ مريض ہيں.

اور رہا فرض تو الحمد للہ لوگ اس ميں سستى اور كاہلى نہيں كرتے، آپ كو كوئى ايسا شخص نہيں ملے گا جو قدرت ركھنے كے باوجود كسى كو اپنى طرف سے حج كرنے ميں كسى دوسرے كو وكيل بنائے، اور سنت ميں بھى يہى آيا ہے جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ ذيل حديث ميں ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم حج كرنا اللہ تعالى كى طرف سے بندوں پر فرض ہے، ميرا والد بوڑھا ہے اور وہ سوارى پر بيٹھ نہيں سكتا تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كرلوں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جى ہاں "

خلاصہ يہ ہے كہ:

نفل ميں نيابت كى امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے دو روايتيں ہيں، ايك تو يہ ہے كہ: نيابت صحيح نہيں.

اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: قدرت ركھنے اور نہ ركھنے والے شخص كى جانب سے نيابت كرنى صحيح ہے، ميرے نزديك بلاشك اقرب الى الصواب يہ ہے كہ: نفلى حج ميں نہ تو كسى عاجز كى جانب سے نيابت ہو سكتى ہے، اور نہ ہى قدرت ركھنے والے كى جانب سے.

ليكن فرضى ميں اس عاجز شخص كى جانب سے نيابت ہو گى جس كى عاجزى ختم ہونے كى اميد نہ ہو، اور سنت بھى اس كا ذكر كرتى ہے" انتہى

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 140 ).

اور مستقل كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" مكلف اور استطاعت ركھنے والے مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ حج فورى طور پر ادا كرے، اور اس حالت ميں اس كى جانب سے نيابت كرنى جائز نہيں، اور جب وہ خود حج كرنے كى استطاعت ركھتا ہو تو اس كى جانب سے كسى دوسرے كا حج كفائت نہيں كرے گا" انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 68 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے زندہ اور عاجز شخص كى جانب سے حج اور عمرہ كرنا جائز قرار ديا ہے، چاہے يہ نفلى ہى ہو.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" جب آپ اپنى طرف سے عمرہ كر چكے ہوں تو آپ كے ليے اپنى والدہ اور والد كى جانب سے عمرہ كرنا جائز ہے، جب وہ بڑھاپے يا لا علاج مرض كى بنا پر عاجز ہوں " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللہ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 81 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى اختيار كيا ہے، ان سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميں اپنى والدہ كى طرف سے حج كرنا چاہتا ہوں، كيا ان سے اجازت لينا ضرورى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ فرضى حج كر چكى ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اگر آپ كى والدہ بڑھاپہ يا لاعلاج مريض جس سے شفا ممكن ہو كى بنا پر حج كرنے سے عاجز ہيں تو ان كى جانب سے حج كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے بغير اجازت ہى كيا جائے، كيونكہ حديث ميں ثابت ہے كہ:

جب ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت طلب كرتے ہوئے كہا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا والد بوڑھا ہے وہ حج اور عمرہ نہيں كر سكتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے والد كى جانب سے حج اور عمرہ كرو"

اور ايك عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اجازت طلب كرتے ہوئے كہا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا والد بوڑھا ہے حج اور سفر نہيں كر سكتا تو كيا ميں اس كى جانب سے حج كر لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے والد كى جانب سے حج كرو "

اور اسى طرح مندرجہ بالا دو اور دوسرى صحيح احاديث كى بنا پر ميت كى جانب سے بھى حج كيا جا سكتا ہے.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 16 / 414 ).

حاصل يہ ہوا كہ:

قدرت ركھنے والے زندہ شخص كى جانب سے حج اور عمرہ كرنا جائز نہيں ہے، ليكن عاجز شخص كے بارہ ميں يہ ہے كہ اگر اس كى جانب سے فرضى حج كيا جا سكتا ہے، ليكن نفلى حج كرنے كے متعلق علماء كرام كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے.

واللہ اعلم .

پیر، 16 جنوری، 2017

کیا موجودہ حکمرانوں کو طاغوت کہنے والے تکفیری اور خارجی ہیں{ایک چھوٹا سا سوال ہے علماء کرام رہنمائی فرمائیں }


اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ ۔ ۔ 
میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے علماء کرام رہنمائی فرمائیں !
جو مسلمان آج بھی طاغوتی لیڑروں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں , ان کی مجلسوں میں اکثر جایا کرتے ہیں اور ان کے خلافِ شریعت قانون چلانے پہ بھی ان سے محبت کرتے ہیں اور سلفیوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہمارے علماء ان کو  اس سے روکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کے ساتھ Boycott کرسکتے ہیں جس طرح مسلمانوں نے غزوہ تبوک سے آنے کے بعد  حضرت کعب بن مالک , حضرت ہلال بن امیہ اور حضرت مرارہ بن ربیع (رضی اللہ عنہم اجمعین)  سے لا تعلقی کی تھی ۔ ۔ ۔ 
جواب کا طالب ShakirParray
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جواب:آپ کے کہنے کا مطلب ہے موجودہ حکمرانوں کےساتہی جو ہے  خلافِ شریعت قانون چلانےکیا ہم  ن کے ساتھ Boycott کرسکتے ہیں  ( سب سے پہلے  بات ہم علم کی بہت ضرورت ہے 
 {2}اس فتوے کی طرف ایک نظر {سعودی علماء کے اہم فتویٰ کے ضمن میں کچھ فکر انگیز اور غور طلب نکات ہے غور فرمایے}{عالم اسلام کے اطراف واکناف میں روز بروز یہ مسئلہ الحمد ﷲ مسلمانوں خصوصانوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے کہ آج کے حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟مسلمان ان کو کیا سمجھیں اور ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں ؟شریعت میں جہاں اور حقوق وفرائض کی تفصیل ملتی ہے والدین ،زوجین ،پڑوسی ،رشتہ دار وغیرہ سب کے حقوق اورفرائض شریعت نے کھول کھول کر واضح کردئیے ہیں وہاں شریعت نے یہ رہنمائی کرنے میں بھی کمی نہیں چھوڑی کہ حکمرانوں اور رعایا میں تعلقات کی نوعیت کیا ہو اور ان دونوں کے حقوق اور فرائض کیا ہوں ۔مگر چونکہ فتوی دینے کے لئے صرف قرآن کی آیات اور سنت سے احادیث نکال لانا ہی کافی نہیں زمان اور مکان کا صحیح علم وادراک ہونا ضروری ہے اس لیے آج کے مسلمانوں کو ان کے معاشرتی حقوق وفرائض بتانے میں اور ان کے کرنے کا کام سمجھانے میں بہت سارے مخلص حضرات قرآن اور حدیث کے حوالے لے آنے کے باوجود کچھ غلطی ہائے مضامین کا شکارہوجاتے ہے۔موجودہ دور کے ان اہم مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ وقت کے حکمرانوں کا بھی ہے کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے ۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ شریعت نے جو حقوق اور فرائض بتائے ہیں وہ مطلق نہیں ۔پڑوسی یا رشتہ دار کافر ہوں تو بھی شریعت میں ان کے حقوق ضرور ہونگے مگر ظاہر ہے وہی حقوق نہیں جو کہ ایک مسلمان رشتہ دار کے ہوسکتے ہیں ۔کوئی صاحب اگر حقوق الزوجین پر طویل وعریض تقریر کریں اور قرآن وحدیث سے مسلمان خاوند بیوی کے حقوق وفرائض زوجین پر سیر حاصل بحث کریں مگر بیچ میں سے ایک بات نظر انداز کرجائیں کہ جس واقع میں وہ فتوی صادر فرمارہے ہیں وہاں شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک کفر کا ارتکاب کرچکا ہے تو ان کی عزارت علم کے باوجود آپ ان کی فقاھت کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے ؟
چنانچہ ایک عرصہ سے عالم اسلام میں جو سوال بار بار اٹھ رہا ہے اور عمومًا دین کی غیرت رکھنے والے نوجوانوں کی زبان پر رہتا ہے وہ یہ کہ موجودہ حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور مسلمانوں سے ان سے تعامل کی نوعیت کیا ہونا چاہیے۔جس کا جواب ہمارے ہاں علماء کی جانب سے عموماً یہ آتا رہا کہ مسلمان حکمرانوں کے حقوق وفرائض یہ یہ ہوا کرتے ہیں اور شریعت کی رو سے رعایا کے ان سے تعلقات ایسے ایسے ہونے چاہئیں ! یعنی سوال کچھ ہے تو جواب کچھ اور! یہی وجہ ہے کہ بار بار یہی سوال اٹھنے کے باوجود اور علماء کرام کی جانب سے باربار اس کا جواب آنے کے باوجود کسی کی تشفی نہیں ہوپارہی کیونکہ اس مسئلہ میں جتنی بھی آنکھیں چرائی جاتی رہیں یہ اپنی جگہ برقرار ہے اور علماء دین اور زعمائے امت سے جرا ء ت گفتار اور افضل الجہاد کا بدستور تقاضا کررہا ہے کہ وہ امت کے نوجوانوں کو کھل کربتائیں کہ موجودہ حکمران جو جانتے بوجھتے اور ہوش وحواس رکھتے ہوئے رب العالمین کی شریعت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرکے لاکھوں مربع میل کے ا ند ر کروڑوں انسانوں کی گردنوں پر صریحاً غیر اﷲکا حکم اور قانون چلاتے ہیں آیا مسلمان ہیں یا کافر ؟موحد ہیں یا مشرک ؟اورکیا مسلمانوں کو ان کی وفاداررعایا بن کر رہنا چاہیے اور (الدین النصیحۃ والی حدیث کے مطابق )ان کی خیر خواہی اور اعانت کرنی چاہیے(جو کہ اس حدیث کی رو سے آئمۃ المسلمین کا حق ہے )یا ان کے لیے شریعت کا کوئی اور حکم ہے؟اور کیا شرک کا ارتکاب کرنے کے باوجود بلکہ بار بار سمجھائے جانے پر بھی شرک کرتے رہنے کے باوجود کلمہ گوہونا ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے ؟ملک کے طول وعرض میں شرک کی تہذیب وثقافت ،کفر کا قانون اور استعمار کا دین پورے منظم اور باقاعدہ انداز میں رائج کرنے کے بعد بھی ان حکمرانوں کی کلمہ گوئی کا ڈھنڈورا پیٹا جانا شریعت میں کیا وقعت رکھتا ہے ؟اخباروں میں ان کے حج وعمرہ کرنے کی تصویریں چھپنے اور سیرت کانفرنسوں کے افتتاح کرنے کا امت کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟؟
یہ ہے وہ اصل سوال جس پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلا ہوا اور برسہا برس سے تہذیب کفار کے پنجوں میں گرفتار عالم اسلام چیخ چیخ کر زعمائے دین کو دعوت سخن دے رہا ہے ۔حالات کی تیزی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح اس سوال کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف جس انداز سے ابنائے اسلام میں دین کا شعور بڑھ رہا ہے ،لگتا ہے بہت دیر تک اس سوال کو سرد خانے میں پڑا رہنے دینا اب کسی کے بس میں نہ ہوگا ۔
سوال کا صحیح تعین ہوجا ئے تو شریعت میں اس کا جواب پانا کچھ مشکل نہیں ۔جو آدمی اﷲکی مخلوق پر اﷲکے حکم اور قانون کی بجائے اپنا حکم اورقانون چلائے وہ اﷲکا شریک اور ہم سر ہے ۔شریعت کی اصطلاح میں اس کو طاغوت کہا جاتا ہے ۔ایک طاغوت اور ایک مسلم حکمران میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اگرچہ مسلم حکمران ظالم اور فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ان دونوں کا حکم ایک کردینا کسی ظلم عظیم سے نہیں ۔
مگر چونکہ پاکستان میں لفظ طاغوت کا استعمال بڑی حد تک شرعی سے زیادہ سیاسی رہاہے اس لیے باوجود یہ کہ لفظ زبان زد عام ہے اس کا صحیح ادراک اور درست اطلاق بہت کم لوگ کرتے ہیں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو کسی حکمران کو ناانصافی یا بدعنوانی یا عوانی آزادیاں سلب کرنے کی وجہ سے ناپسندیدہ قرار دینے کے لیے یا اس پر اپنا احتجاج واضح کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔حالانکہ ایسی حرکت کسی ظالم یا فاسق مسلم حکمران سے بھی ہوسکتی ہے مذہب خوارج کے برعکس جبکہ دوسری جانب ایسے نکتہ درحضرات ہیں جو حکمران کو جھٹ سے طاغوت کہہ دیتے ہیں مگر اسے دائرہ اسلام میں بدستور داخل بھی سمجھتے ہیں اور اس پر کفر یا شرک کا اطلاق کرنا خلاف ادب جانتے ہیں یہ حضرات طاغوت اور مسلم کے الفاظ کو قطعی متضاد نہیں سمجھتے حالانکہ شریعت کی اصطلاح میں طاغوت کسی شخص کے کافر یامشرک ہونے کی بدترین شکل ہے ۔ایک آدمی غیر اﷲکی بندگی کرکے بھی مشرک تو کہلاسکتا ہے مگرضروری نہیں کہ وہ طاغوت کے درجے کو بھی پہنچتا ہو۔
طاغوت وہ اس صورت میں قرار پائے گا جب وہ مخلوق سے خود اپنی ہی بندگی کرائے اور س پر اپنا حکم چلانے لگے شرک کے اس آخری درجے کو پہنچنے کے بعد ہی اس پر اس گھناؤنے لفظ کا اطلاق ہوگا چنانچہ جب آپ نے کسی کو طاغوت کہہ دیا تو اسے کافر اور مشرک کہنے میںآپ نے کوئی کسر ہی نہ چھوڑی۔بلکہ ایسا ویسا مشرک ہی نہیں آپ نے اس کو بدترین مشرک کہہ دیا ہے۔بشرطیکہ آپ اس لفظ کا مطلب جانتے ہوں ۔بلکہ تو یہ کہنا بہتر ہوگا کہ آپ اس کا تاحال مسلمان ہی قرار دینا چہ معنی دارد؟
عقیدہ توحید میں یہ مسئلہ بہت واضح ہے ۔گویا یہ مسئلہ مسلمان طبقوں میں عام کرنا اشد ضروری ہے ۔امت اسلام پر وقت کے باطل نظاموں اور مشرکانہ تہذیب وتمدن کی صورت میں لگ بھگ ایک ڈیڑھ صدی سے جو بدترین آفت مسلط ہے وہ امت کی پوری تاریخ میں اس برے انداز سے اور ایک بڑی سطح پر کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ایسے میں امت کے مخلص اور سنجیدہ ذہنوں میں بار بار یہ سوال اٹھنا ایک طبعی امر تھا کہ ان نظاموں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور یہاں ارباب اختیار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟جس نے بھی دقت نظر سے شریعت میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی اسے ایک ہی واضح جواب ملا۔طاغوت ! نتیجتًا وقت کے حکمرانوں کا یہ شرعی لقب رفتہ رفتہ معروف ہوتا گیا ۔چونکہ امت کی تاریخ میں یہ مسئلہ ہی بالکل نیا تھا اس سے پہلے غیر اﷲکے حکم کو ملک کے طول وعرض میں باقاعدہ رسمی اور آئینی طور پرقانون عام کی حیثیت کبھی دی ہی نہیں گئی اور نہ کبھی تہذیب اور ثقافت میں کفار کی ایسی حرف بہ حرف اتباع کروائی گئی اس لیے حکمرانوں کا یہ لقب طاغوت سے بھی ظاہر ہے نیا ہی ہوسکتا تھا اور شریعت کی رو سے حکام وقت کی حیثیت بھی نئی ہی ہونی چاہیے تھی مگر یہ نئی بات ہوجانے پر کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہونا بھی ضروری تھے ہوتابھی کیوں نہ جہاں پڑھانے کے لیے ابھی تک فارسی کا ذریعہ استعمال ہوتاہو(حالانکہ برصغیر میں سوسال سے اس کی ضرورت مائل بہ زوال ہے)وہاں اتنی بڑی بات کو طرز کہن سے خروج کیوں نہ سمجھا جاتا !ان حضرات کو اس بات سے تو کچھ خاص غرض نہیں تھی کہ امت میں یہ مسئلہ سرے سے نیا ہے اور یہ کہ جب سے ہمارے حکمران فرنگ سے درآمد ہونے لگے ہیں یہ سوال ہی تب سے اٹھا ہے ۔البتہ احتجاج صرف اس بات پر ضروری جاناگیا کہ اس مسئلہ کا حل نیا کیوں ہے ؟یعنی اس کا بھی وہ پہلے والا حل کیوں نہیں دیا جاتا جو سلف کے دور میں رائج رہا اور بنوامیہ وبنوعباس سے لے کر سلاطین کے زمانے تک اورنیل سے لے کرکاشغر تک بھلے وقتوں میں مشاہیر اسلام کی زبان سے دیا جاتارہا!!!
رفتہ رفتہ ان معترضین نے یہ باقاعدہ مذہب اختیار کرلیا کہ وقت کے حکمرانوں کو طاغوت یا مشرک کہنا ۔حتیٰ کہ بعض کے نزدیک توان حکمرانوں کی خالی مخالفت کرنا اور اﷲکے عباد اور بلاد پر ان کی طاقت کا سکہ نہ چلنے دینا کی بات کرنا ہی ۔’سلف کے منہج کے خلاف ہے ‘!!! اور یہ کہ سلف کے منہج پر چلنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو ان حکمرانوں کے جنود میں شامل نظر آئیں !!یا کم ازکم بھی وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے نظام سے کوئی سروکار نہ رکھیں!ان میں سے ’تحقیق‘میں آگے گزرنے والے اصحاب نے تو ان غیور مسلمانوں کے تانے ‘جو باطل نظاموں اور حکمرانوں کی وفادار رعایابن کر رہنے کیلئے تیار نہیں ،سیدھے خوارج سے جا ملائے اور عوام الناس میں ان کے لیے ’تکفیری‘اور ’خارجی‘کے الفاظ عام کیے ۔
اب بھلا ’سلف کے منہج کے خلاف ‘چلنے کی جراء ت کون کرے! آخر ایمان بچانے کی فکر کسے نہ ہو !پھر ایمان کے ساتھ جان بھی بچتی ہو تو حکمرانوں سے وفاداری سے انکار کی کیا دلیل ہوسکتی ہے !! یوں توحید کی فطرت پر چلنے والے غیور مسلمانوں کو علم کی مار دینے کی ایک اسکیم تیار کرلی گئی جو کہ حکمرانوں کی ایک اہم ضرورت تھی ۔گو اغلب یہی ہے کہ یہ ’دریافت ‘پہلے پہل حکمرا نوں کی فرمائش کے بغیر وجود میں آئی البتہ ظہور میں آجانے کے بعد تو اسے پذیرائی دلانے میں کسی کو مضائقہ بھی کیا ہو سکتا تھا! یوں بھی بڑے بڑے منصوبے حکومتی سرپرستی کے بغیر چلنے نہیں ہوتے ۔چنانچہ عالم عرب کے اندر مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے کہ منہج سلف کے ’سرکاری ترجمانوں ‘نے اصلاح کیلئے میدان میں اترنے والی ہر تحریک اور ہر شخصیت کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور باغی ،بدعتی ،ایمان کیلئے خطرہ ،قابل قید ومشقت اور گردن زنی قرار دے رکھا ہے۔
یہاں ہمارے ان قارئین کو جو صرف اردو جرائد کا مطالعہ کرتے ہیں صورتحال کا اندازہ کرنے میں شاید کچھ مشکل پیش آرہی ہو۔جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کی بحثوں نے ابھی وہ زور نہیں پکڑا جو عرب ملکوں میں ایک عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے ۔خصوصاً وہ معرکہ آرائی جو پچھلے کئی سالوں سے سعودی عرب میں برپاہے اور شیخ سفر الحوالی اور شیخ ،سلمان العودۃ کی تقریر وتحریر کی محنت اور پھر آخر میں ان کی گرفتاریوں نے جو اس فضامیں مزید ارتعاش پیدا کردیا ہے اس کے تناظر میں علمی حلقوں کے اندر اس مسئلہ پر لے دے بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی باز گشت اب پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام میں سنی جانے لگی ہے۔
اﷲکی شریعت کو پس پشت ڈال کر مخلوق کی شریعت کو قانون عام کا درجہ دینے والے یہ حکمران کفر کے مرتکب کہلانے سے صرف ایک صورت میں بچ سکتے تھے ۔۔۔۔یا بچائے جاسکتے تھے اور وہ یہ کہ ’ارجاء‘کے عقیدے کو امت میں عام کردیا جائے ،جبکہ وہ پہلے ہی بہت عام ہے اور اﷲکے دشمنوں کااب تک برسراقتدار رہنا اسی کا مرہون منت ہے ۔یہ ’ارجاء ‘کیا ہے ؟امت کی تاریخ میں ایک مشہور بدعت گزری ہے ۔بلکہ گزری بھی کیا مختلف شکلوں اور صورتوں میں اب تک چل رہی ہے اس کی رو سے آدمی عملاً شرک کرتے رہنے سے مشرک نہیں ہوتا صرف اس کا اعتقاد رکھنے سے ہوتا ہے ۔چنانچہ ایک کلمہ گو شرک اور کفر کا خواہ کوئی کام کرے ۔بس دل میں اس کو صحیح نہ سمجھے اور زبان سے اس کوحلال کہنے کی بھی حماقت نہ کرے تو وہ مسلمان اورموحد ہی گنا جائے گا !یعنی کفر اور شرک کے افعال بھی عام گناہوں کی طرح ایک گناہ ہیں اور محض ان کے عملی ارتکاب سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا ۔چنانچہ خوارج جہاں ایک انتہاء پر گئے اور عام گناہوں کے کاموں کو بھی افعال شرک کے ساتھ ملادیا وہاں یہ مرجۂ دوسری انتہاء پر گئے جنہوں نے افعال شرک وکفر کو بھی عام گناہوں کے ساتھ یکجا کردیا ۔
اصولی طور پر یہ دونوں گمراہیاں اس ایک مسئلہ پر ایک ہوجاتی ہیں کہ کفریہ اعمال اور عام گناہوں میں کوئی فرق نہیں !جبکہ اہل سنت کے نزدیک ان میں واضح فرق ہے ،جن افعال کو شریعت نے صرف گناہ اور فسق کہا ہے ان پر اصرار سے آدمی فاسق ہوگا اور جن افعال کو اﷲاور رسول کفر یا شرک کہیں ان پر اصرار کرنے سے وہ کافر اور مشرک ہوسکتا ہے ۔او ر یہ تو واضح ہے کہ اﷲکے قانون کی بجائے کوئی دوسرا قانون چلانے کو اﷲاور رسول نے کفر کہا ہے ۔
چنانچہ طاغوتوں کو ’اولی الامر ‘کا درجہ دلانے کے لئے ارجاء کے اس عقیدہ کا ایک نئے زور وشور سے ڈول ڈالا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس کا یوں غلغلہ کردیا گیا کہ آدمی اس سے واقعی سمجھ لے کہ شاید سلف اور اہلسنت کا یہی عقیدہ ہے اور حاکم بغیر ماانزل اﷲکوکافر کہنا بالفعل خوارج کا ہی مذہب ہے۔پاکستان میں بھی دھیمے سروں پر یہ نغمہ سننے کو مل جاتا رہا ہے تاہم عرب میں تو اس کا آہنگ اتنا اونچا رہا کہ کان پھٹنے کو آنے لگے ۔تصنیفات اور تالیفات کی بھرمار ہوئی اور ان کی اشاعت کا تو کوئی حد وحساب ہی نہ رہا ۔کچھ عرصہ بیشتر اس سلسلہ کی ایک اہم تصنیف ’’الحکم بغیر ماانزل اﷲواصول تکفیر‘‘سعود ی عرب میں بطور خاص مقبول کروائی گئی اور حکام کے ’پکا مسلمان ‘ہونے کے کے مسئلہ میں سلف اور اہلسنت کے منہج پر اتھارٹی قرار دی گئی ۔خالد بن علی العنبری نامی ایک صاحب کی یہ کتاب ،جو حکمرانوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی تھی ،لازمی تھا کہ علمی حلقوں میں بھی موضوع بحث بنتی کیونکہ اس میں بڑی بڑی باتیں سلف سے زبردستی منسوب کردی گئی تھیں ۔اس کتاب پر بھی تفصیلی روشنی تو کسی اور مضمون میں ڈالی جاسکتی ہے یہاں ہمارے لئے صرف اس کے مرکزی خیال کا ذکر کرنا ہی ممکن ہوگا اور وہ اس لیے کہ مضمون کے اختتام پر اس کتا ب کے بارے میں سعودی علماء کا جو فتویٰ دیا جارہا ہے قارئین کو اسے سمجھنے میں آسانی رہے ۔چنانچہ اس کتاب کے بنیادی نکات یہ تھے ۔
۱۔ حکم بغیر ما انزل اﷲکا فعل کفر نہیں ،الا یہ کہ حکمران اس کو جائزاور حلا ل کہے ۔یعنی اس فعل کی فی نفسہٖ نوعیت باقی گناہوں جیسے ایک گناہ کی ہوگی۔
۲۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مصنف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی اس بات پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے!
۳ ۔ پھر اس کی اس بات سے اختلاف رکھنا اس کے خیال میں خوارج کا عقیدہ ہے ۔
۴۔ چونکہ قاضی کا کسی ایک قضیہ میں بددیانتی یا بدعنوانی کے باعث خلاف شریعت فیصلہ دینا سلف کے ہاں کفر دون کفر (وہ چھوٹا کفر جس سے آدمی ملت سے خارج نہیں ہوتا)شمار ہوتا ہے اس لیے مصنف کے نزدیک تشریع عام بھی ویسا ہی ایک گناہ ہے یعنی مصنف کے نزدیک فہم سلف کی رو سے :
اس بات میں کہ اسلامی نظام کے اندر کوئی قاضی یاحاکم کسی ایک آدھ قضیے میں کسی ایک آدھ بار بددیانتی سے شریعت کے خلاف فیصلہ دیدے اور اس بات میں کہ ملک میں ایک خلاف شریعت امر کو باقاعدہ رسمی طور پر قانون عام (پبلک لاء)کا درجہ حاصل ہو اور عدالتوں میں اسے مرجع اور سند کی حیثیت دے دی جائے کوئی فرق نہیں ۔ہردوصورت میں حکمران بدستور مسلمان رہے گا !!
اتنے بڑے بڑے اور بے بنیاد دعوے ظاہر ہے کہ دن کی روشنی میں کام نہیں دے سکتے تھے ۔گو مصنف نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں شرعی نصوص کے مفہومات اور علمائے سلف کے اقوال کو توڑمروڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی (جیسا کہ فتویٰ کی عبارت میں بھی اس کی اس حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے)مگر یہ کوشش اس کو فائدہ تو کیا دیتی الٹا اس کے لیے گلے کاپھندہ بن گئی ۔سمجھ دار لوگوں نے اس کے مدلل جواب تو لکھے ہی مگر انہوں نے اس کتاب کو سعودی کبار علماء کے سامنے رکھ کر ان سے اس پر فتویٰ کا تقاضہ بھی کیا ۔سعودی علماء کی کمیٹی برائے افتاء نے اس پر جو فتویٰ دیا وہ اردو ترجمہ سمیت یہاں دیا جارہا ہے ۔
سعودی باشاہت کے کثیر معاملات میں اسلام سے انحراف کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں کے علمی حلقوں میں بڑی حد تک شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کی دعوت کے علمی اصول اور قواعد ابھی تک مسلم ہیں ۔مذکورہ فتویٰ دینے والے علماء گو وہاں کی حکومت سے کسی نہ کسی انداز میں تعاون کرتے ہیں اور اس کیلئے جو وجوہات وہ اپنے پاس رکھتے ہونگے وہ ہمیں معلوم نہیں تاہم اس فتوی سے یہ ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ نظریاتی سطح پر ابھی تک وہاں شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کے پڑھائے ہوئے اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورت حال ہو کم ازکم علمی سطح پر ان اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورتحال ہو کم ازکم علمی سطح پر ان اصولوں سے انحراف کا چلن عام ہوجانا ہرگز اتنا آسان نہیں۔بہرحال اﷲتعالیٰ ان علماء کو اس فتویٰ پر جزائے خیر عطا فرمائے ۔
علاوہ ازیں ہمارا اس فتویٰ کو شائع اور عام کرنے کا ایک اور اہم سبب بھی ہے ۔
برصغیر میں ایک وقت تھا کہ علماء نجد کی دعو ت وفکر شدید تنقید اور مخالفت کا نشانہ بنی رہی ۔گو ایک طبقہ ابھی تک اس دشمنی پرقائم ہے مگر محمد بن عبدالوہاب ؒ کی کتابوں کی یہاں نشرواشاعت ہوجانے کے بعد اور پھر احناف اور اہلحدیث مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد کے عرب جامعات میں پڑھ کر آنے سے صورتحال میں اب بہت فرق آچکا ہے ۔اور اب نہ صرف اس کے خلاف وہ پہلے والا تعصب کم ہوگیا ہے بلکہ طلبہ اورعلماء ومشائخ کا ایک قابل لحاظ طبقہ مشائخ نجد کے علمی ورثے کو وزن بھی دینے لگا ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے اس صالح ترین طبقہ میں عقیدہ کے جدید معاشرتی پہلوؤں نے تاحال وہ مطلوبہ اہمیت حاصل نہیں کی جوان کا حق تھا ۔پھر یہاں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جانے لگے جو حاکمیت کے مسئلہ کو بڑی حد تک غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔کم از کم اس کو عقیدہ کا مسئلہ تسلیم کرنے پرتیار نہیں ۔اور چند ایک حضرات تو لاعلمی یا بے توجہی کے باعث اس بات کو خارجیت گردانتے ہیں کہ کوئی غیر اﷲکا قانون چلانے والے حکمرانوں کو طاغوت کہہ دے۔اور جو ایسا کہے اسے یہ قابل قدر حضرات ’تکفیری‘کا خطاب دیتے ہیں ۔غرض انہی باتوں کے تقریبا سوچے سمجھے بغیر قائل ہیں جو خالد العنبری کی کتاب میں سوچ سمجھ کر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔بہرحال اس صالح اورموحد طبقہ میں گو ایسے حضرات بہت زیادہ نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ ہمارے خیال میں کسی بد دیانتی کی بنا پرایسا نہیں کرتے بلکہ اس کا سبب شاید ان کی بے توجہی اور اس مسئلہ پر پوری طرح غوروخوض نہ کیا ہونا ہے ۔
غرض اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں ہیں جو حکم وقانون کے باب میں توحید کے زبردست پرچار کے قائل ہیں مگر پہلے نوجوانوں میں علمی وثوق پید اکرنے کو ضروری سمجھتے ہیں ،جو کہ ایک صالح سوچ ہے ۔
غرض اس پورے طبقہ کے لیے ہی سعودی علماء کا یہ فتویٰ یقیناًفکر انگیز ہوگا جو اس مسئلہ میں اصولی طورپر بہت واضح ہے کہ حکم بغیر ماانزل اﷲپر تکفیر کرنا دراصل خوارج کا نہیں بلکہ سلف اور اہلسنت کا منہج ہے اور یہ کہ اسے کافر قرار دینے کیلئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ کہ وہ اپنے فعل کو زبان سے جائز اور حلال بھی کہتا ہو بلکہ یہ شرط لگانا اہلسنت کے مذہب کے خلاف ہے ۔۔۔بہرحال اپنے ان سب قابل احترام اساتذ�ۂکرام ،علماء ومشائخ اور طلبہ علم کے خصوصی استفادہ کیلئے بھی ہم نے یہ فتویٰ شائع کیا ہے ۔
عوام الناس کی سہولت کیلئے اس کا اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے ۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ علماء میں اسے زیادہ عام کردیں اور ان سے اس پر رائے طلب کریں ۔
اﷲتعالیٰ جلد وہ وقت لائے کہ دین توحید کو ان ملکوں اور خطوں میں ایک بار پھر عزت وسر بلندی نصیب ہو ۔
اللھم أبرم لھذہ الأمۃ امر رشد یعز فیہ اھل طاعتک ، ویزل فیہ اھل معصیتک ،
وےؤمر فیہ بالمعروف وینھی فیہ عن المنکر ، انک علی ما تشاء قدیر ۔
وصلی اﷲ علی نبیہ محمد و آلہ ۔
مملکت سعودی عرب
سربراہی برائے علمی تحقیقات وافتاء
جنرل سکریٹریٹ ‘کمیٹی برائے اکابر علماء
(فتوی نمبر)۴۵۱۱۲
ؤرخہ ۴ ۲ شوال ۰۲۴۱ھ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء (اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمےۃ والافتاء)
کابیان بابت خالد علی العنبری کی تصنیف کردہ ایک کتاب بعنوان
’’الحکم بغیر ما انزل اﷲ واصول التکفیر‘‘
الحمد ﷲ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وعلی آلہ وصحبہ ، وبعد
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء نے خالد العنبری کی تصنیف ’’الحکم بغیر ما انزل اﷲ واصول التکفیر‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد واضح ہوا ہے کہ اس کتاب میں اہلسنت وجماعت کے علماء کے جو حوالے دئیے گئے ہیں ان (کے نقل کرنے )میں علمی دیانت سے کام نہیں لیاگیا اور دلائل کے اس مفہوم میں تحریف کی گئی ہے جس کا عربی زبان اورمقاصد شریعت دراصل تقاضا کرتے ہیں ۔ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ہے
۱۔ مصنف نے شرعی دلائل کے مفہوم اورمعانی میں تحریف کی ہے ۔اہل علم کی بعض تحریروں میں تصرف سے کام لیا ہے ۔عبارت کہیں یوں حذف کردی ہے اور کہیں انداز سے تبدیل کردی ہے کہ جس سے عبارت کی سرے سے مراد ہی اور نظر آئے ۔
۲۔ اہل علم کے بعض اقوال کی ایسی تفسیر کی ہے جو ان کا مقصود اورمراد ہی نہیں۔
۳۔ مصنف نے اہل علم پر جھوٹ بھی باندھا ہے جیسا کہ اس نے علامہ شیخ محمد ابراہیم آل شیخ رحمہ اﷲ سے وہ قول منسوب کردیا ہے جو انہوں نے کہیں نہیں کہا .
۴۔ مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل سنت کا اس بات اجماع ہے کہ ایسا آدمی کافر نہیں ہوتا جو قانون عام میں اﷲکی نازل کردہ شریعت کے بغیر حکم چلائے الا یہ کہ وہ اس عمل کو دل سے جائز سمجھتا ہو یعنی یہ کہ یہ ان باقی گناہوں جیسا ایک گناہ ہے جو کفر تک نہیں پہنچے۔ حالانکہ یہ مذہب اہل سنت پر نرا بہتان ہے جو یا تو جہالت کا شاخسانہ ہے یا بدنیتی کا ۔اﷲاپنی عافیت میں رکھے ۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر کمیٹی یہ رائے اختیار کرتی ہے کہ مذکورہ کتاب کی طباعت ،تقسیم اور فروخت ممنوعہ قرار دی جائے ۔مصنف کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ سے توبہ کرے اور معتمد اہل علم سے رجوع کرے تاکہ ان سے علم حاصل کرے اور وہ اس کی غلطیوں کی اس نشان دہی کرکے دیں۔
اﷲسے دعا ہے کہ وہ سبھی کو اسلام اورمذہب سنت پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطافرمائے اور اس پر ثابت قدم رکھے ۔
وصلی اﷲ وسلم علی نبینا وآلہ وصحبہ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء
دستخط صدر کمیٹی
عبدالعزیز بن عبداﷲبن محمد آل شیخ
دستخط رکن کمیٹی
بکر بن عبداﷲابوزید
دستخط رکن کمیٹی
عبداﷲبن عبدالرحمان الغدیان
دستخط رکن کمیٹی
صالح بن فوزان الفوزان

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

والدین سے محبت

 تعالی فرماتا ہے: وَاعبدواللہ ولا تشرکو ا بہ شیٔاً وبالوالدین احسانا
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (اپنے)والدین سے احسان (نیک سلوک) کرو(النساء:۳۶)
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: ووصیناالإنسان بوالدیہ احسانا    
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھاحسان (نیک سلوک) کا حکم دیا ہے (العنکبوت:۸)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کون سا کام سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ فرمایا: نماز اپنے (اول) وقت پر پڑھنا(میں نے)پوچھا: پھر کون سا عمل (پسندیدہ) ہے ؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا، پوچھا: پھر کیا ہے؟فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا(صحیح البخاری: ۵۲۷و صحیح مسلم:۸۵)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وسا حبھما فی الدنیا معروفا
اگر وہ(تیرے والدین) میرے ساتھ شرک کرنے کے لئے جس کا تیرے پاس علم نہیں تجھے مجبور کریں، تو ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ۔(لقمان:۱۵)

اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے:

۱: شرک کرنا حرام ہے۔
۲: اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی میں والدین کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
۳: جو بات کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے اُس میں والدین کی اطاعت کرنی چاہیئے۔

نبی ﷺ نے عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کو حکم دیا تھا کہ :
‘‘اطع أباک مادام حیاً ولا تعصہ’’
جب تک تمہارا باپ زندہ ہے اُس کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی نہ کرنا(مسند احمد ۲؍۱۲۵ح ۲۵۳۸و سندہ صحیح)  

ان تمام دلائل کے خلاف منکرِ حدیث پرویز صاحب والدین کے حقوق کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
 “تیسرا افسانہ: ماں باپ کی اطاعت فرض ہے۔اسی سلسلہ میں ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ کی اطاعت فرض ہے”(عالمگیر افسانے ص ۱۷ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام گلبرگ لاہور  )  
 پرویز کی اس بات کا باطل ہونا ہر مسلمان پر واضح ہے و الحمدللہ۔

تنبیہ: کتاب و سنت کی مخالف میں والدین ہوں یا حکمران یا کوئی بھی، کسی کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، إنما الطاعۃ فی المعروف’’
اللہ کی نافرمانی میں (کسی کی ) کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو معروف(کتاب و سنت کے مطابق) میں ہے(صحیح مسلم : ۸۴۰ادار السلام: ۴۷۶۵و صحیح البخاری: ۷۲۵۷)

ایک روایت میں آیا ہے کہ: ‘‘ رضی الرب فی رضی الوالدو وسخط الرب فی سخط الوالد’’
رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی، والد کی ناراضی میں ہے( الترمذی: ۱۸۹۹ و سندہ صحیح، ابن حبان ، الموارد: ۲۰۲۶، الحاکم فی المستدرک ۴؍۱۵۶،۱۵۱ح۷۲۴۹وصححہ علی شرط مسلم و وافقہ الذہبی)

ایک آدمی نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ: میں کس کے ساتھ اچھا برتاؤ کروں؟ فرمایا: اپنی ماں کےساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، اس نے پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ(صحیح البخاری: ۵۹۷۱و صحیح مسلم:۲۵۴۸)

جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ :‘‘فالزمھافإن الجنۃ تحت رجلیھا’’
پس اپنی ماں کی خدمت لازم پکڑو، کیونکہ جنت اُن کے قدموں کے نیچے ہے(سنن النسائی ۶؍۱۱ح۳۱۰۶و اسنادہ صحیح)

ماں باپ کی، معروف(کتاب و سنت کے مطابق باتوں) میں نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا::
‘‘الإ شراک باللہ و عقوق الوالدین و قتل النفس وشھادۃ الزور’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی (بے گناہ) انسان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا(البخاری:۲۶۵۳مسلم:۸۸)

ابی بن مالک العامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘‘من أدرک والدیہ أوأحدھما ثم دخل النار من بعد ذلک فأبعدہ اللہ وأسحقہ’’
جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے ایک (والد یا والدہ) کو (زندہ) پائے پھر اس کے بعد(ان کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے ) جہنم میں داخل ہو جائے تو اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور وہ اس پر ناراض ہے۔(مسند احمد۴؍۳۴۴ح۱۹۲۳۶وسندہ صحیح)

خلاصہ: والدین کےساتھ حسنِ سلوک اور معروف میں ان کی اطاعت فرض ہے۔ا پنے رب کو راضی کرنے کے لئے اپنے والدین سے محبت کریں، جہاد اگر فرض عین نہ ہو تو والدین کے لئے چھوڑا جا سکتا ہے۔ وما علینا إلا البلاغ

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...