گیارہویں کی رسم
ہر قمری مہینہ کی گیارہویں رات کو حضرت محبوب سبحانی شیخ المشائخ شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ " گیارہویں شریف " کے نام سے مشہور ہے ۔ خاص کر ربیع الآخر کی گیارہویں شب کو اسے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ اس سلسلہ میں چند امور لائق توجہ ہیں ۔
اول : گیارہویں کا رواج کب سے شروع ہوا ہے ؟ بڑی تحقیق کے باوجود اس کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی ۔ تاہم اتنی بات تو معلوم ہے کہ سیدنا شاہ عبد القادر جیلانی {نور اللہ مرقدہ}جن کے نام کی گیارہویں دی جاتی ہے ، انکی ولادت 470ھ میں ہوئی اور نوے سال کی عمر میں ان کا انتقال 561ھ میں ہوا ، ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، تابعین ، آئمہ دین ، خصوصاّ امام ابوحنیفہ اور خود حضرت پیران پیر اپنی گیارہویں نہیں دیتے ہوں گے ؟ اور یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ہندو پاک کے علاوہ کسی اورخصوصا عرب دنیا میں یہ بدعت نہیں پائی جاتی، اب آپ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں جس عمل سے اسلام کی کم از کم چھ صدیاں خالی ہوں کیا اسے اسلام کا جزء تصور کرنا اور اسے ایک اہم ترین عبادت کا درجہ دے ڈالنا صحیح ہوگا ؟ اور آپ اس بات پر بھی غور فرماسکتے ہیں کہ جو لوگ گیارہویں نہیں دیتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، وتابعین ، ائمہ دین ، اور خود حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اور کے نقش قدم پہ چل رہے ہیں یا وہ لوگ جو ان اکابر کے عمل کے خلاف کررہے ہیں ؟ بعض گیارہویں دینے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ شیخ عبد لقادر جیلانی رحمہ اللہ ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو عرس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ، لیکن یہ بات قطعا غلط اور بے ثبوت ہے شیخ عبد القادر جیلانی کی سیرت اور آپ کی کسی کتاب میں اسکا ذکر نہیں ملتا ، یہی وجہ ہے کہ شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ نے اسے بعد کے مشائخ کی ایجاد کرار دیا ہےچنانچہ ماثبت بالسنہ {اردو} ص168پرلکھتے ہیں اگر یہ دریافت کیا جائے کہ ہمارے ملک میں مشائخ عظام کی وفات کی تاریخ پر جو عرس کیاجاتا ہے اس کی اصلیت کیا ہے ؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ میں نے بھی یہی سوال اپنے پیر ومرشد امام عبد الوہاب متقی مکی سے کیا تھا جس کے جواب میں فرما یا تھا کہ ہمارے مشائخ کے طور طریقے عادات و رواج اور نیت ہی گیارہویں کی ہے ،اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ دوسری تواریخ کو ترک کرتے ہوئے گیارہویں ہی کو کیوں خاص کر لیا ہے ؟ جواب سرفراز فرمایا مہمان نوازی مطلق سنت ہے اس لئے تاریخ سے قطع نظر کرتے ہوئے غرباء کو دعوت دوا ور کھانا کھلائو ، نیز شریعت اسلامیہ میں اس کے نظائر بھی موجود ہیں یہ عام طور پر مطلق حیثیت سے سنت ہے اور کسی خاص وجہ سے خصوصیت کی بناء پر ان کا بروے کار لانا بدعت ہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بعض متاخرین نے بعض مغربی مشائخ کی زبانی بیان کیا کہ جس دن آپ نے وصال الہی کیا اس دن کولوگوں نے از خود دوسرے دنوں کہ بہ نسبت زیادہ خیروبرکت کا منوردرخشاں دن بنادیا ہے ۔ پھر تھوڑی دیر تک سرنگوں رہ کر سر اٹھایا اور فرمایا زمانہ ماضی میں یہ سب کچھ نہ تھا یہ تو صرف متاخرین کی خوشیاں اور خود کاریا ں ہیں ۔ اور اللہ تعالی ہی زیادہ جاناتا ہے ۔
دوم : اگرگیارہویں دینے سے حضرت شیخ عبد القادر جیالانی کی روح کو ثواب پہنچانا مقصود ہے تو بلا شبہ یہ مقصد بہت ہی مبارک ہے ، لیکن جس طرح یہ ایصال ثواب کیا جاتا ہے اس میں چند خرابیاں ہیں ۔
ایک ۔ یہ کہ ثواب پہنچانے کیلئے شریعت نے کوئی دن اور وقت مقرر نہیں فرمایا ، مگر یہ حضرات گیارہویں رات کی پابندی کو کچھ ایسا ضروری سمجھتے ہیں گویا یہی خدائی شریعت ہے ۔ اور اگر اسکے بجائے کسی اور دن ایصال ثواب کرنے کو کہا جائے تو یہ حضرات اس پر کسی طرح راضی نہیں ہوں گے ۔ ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایصال ثواب مقصود نہیں ، بلکہ انکے نزدیک یہ ایک عبادت ہے جو صرف اسی تاریخ کو اداکی جاسکتی ہے ۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔ اسلئے اسے ضروری سمجھ لینا اللہ اور رسول کے مقابلے میں گویا اپنی شریعت بنانا ہے ۔
دوسرے ۔ گیارہویں میں اس بات کا خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا ہے کہ کھیر ہی پکائی جائے حلانکہ اگر ایصال ثواب مقصود ہو تا تو اتنی رقم بھی صدقہ کی جاسکتی تھی ۔ اور اتنی مالیت کا غلہ یا کپڑا کسی مسکین کو چپکے سے اسطرح دیا جاسکتا تھا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو تی ۔ اور یہ عمل نمود ونمائش اور ریا سے پاک ہونے کی وجہ سے مقبول بارگاہ الہی بھی ہوتا ، کھیر پکانے یا کھانا پکانے ہی کو ایصال ثواب کے لئے ضروری سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اس کے بغیر ایصال ثواب ہی نہیں ہوگا ۔ یہ بھی مستقل شریعت سازی ہے ۔
تیسرے ۔ ایصال ثواب کیلئے دیا گیا کھانا وغلہ ایک قسم کا صدقہ ہے جو فقراء ومساکین کا حق ہے ۔ مگر گیارہویں کا کھانا پکاکر لوگ زیادہ تر خود ہی کھا پی لیتے ہیں یا اپنے عزیز و اقارب اور احباب کو کھلادیتے ہیں ، فقراء ومساکین کا حصہ اسمیں بہت کم ہوتا ہے اس کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنا کھانا پکایا گیا پورے کا ثواب پیران پیر کو پہنچ جاتا ہے ۔ یہ بھی قاعدۃ شریعت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ شرعا ثواب تو اس چیز کا ملتا ہے جو بطور صدقہ کسی کو دے دی جائے ۔
چوتھے ۔ بہت سے لوگ گیارہویں کے کھا نے کوتبرک سمجھتے ہیں ، حلانکہ ابھی معلوم ہوچکا کہ جو کھا نا خود کھا لیا گیا وہ اگر ایصال ثواب تھا تو وہ صدقہ تھا جسکا کھا نا بنانے والوں کےلئے جائز نہ تھا لہذا حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہے ۔
پانچویں ۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گیارہویں نہ دینے سے ان کے جان ومال کا {خدانخواستہ } نقصان ہوجاتا ہے یا مال میں بےبرکتی ہوجاتی ہے ، گویا نماز ،روزہ ، حج ،زکاۃ، قطعی فرائض میں کوتاہی کرنے سے کچھ نہیں بگڑتا ، مگر گیارہویں میں ذراکوتاہی ہوجائےتو جان ومال کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ایک ایسی چیز جس کا شرع شریف میں اور ائمہ کے اقوال میں کوئی ثبوت نہ ہو، جب اسکا التزام فرائض شرعیہ سے بھی بڑھ کر کیا جائے اور اسکے ساتھ ایسا اعتقاد جم جائے کہ خدا تعالی کے مقرر کردہ فرائض کے ساتھ بھی ایسا اعتقاد نہ ہو تو اس کے مستقل شریعت ہونے میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون ،
اور پھر اس پر بھی غور فرمایئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام ، ائمہ مجتہدین اور بڑے بڑے اکا بر اولیاء اللہ میں سے کسی کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ اگر ان اکابر کیلئے ایصال ثواب نہ کیا جائے تو جان ومال کا نقصان ہو جاتاہے ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر حضرت پیران پیر کی گیارہویں نہ دنے ہی سے کیوں جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ، ہمارے ان بھائیوں نے اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا ہوتا تو ان کیلئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنے اس غلو سے حضرت پیران پیر کی توہیں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
سوم : ۔ ممکن ہے عام لوگ ایصال ثواب کی نیت ہی سے گیارہویں دیتے ہوں مگر مشاہدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ گیارہویں حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب کیلئے نہیں دیتے ، بلکہ اسکے پیچھے کچھ اور جذبات وعقیدے ہوتے ہیں چنانچہ ایک بزگ نے اپنے علاقہ کے گوالوں کو ایک دفعہ وعظ میں کہا کہ دیکھو بھئی ؟ گیارہویں شریف تو خیر دیا کرو ، مگر نیت یوں کیا کرو کہ ہم یہ چیز اللہ تعالی کے نام پر صدقہ کرتے ہیں اور اسکا جوثواب ہمیں ملے گا وہ حضرت پیران پیر کی روح کو پہنچانا چاہتے ہیں ، اس تلقین کا جواب انکی طرف سے یہ تھا کہ " مولوی جی ؟ اللہ تعالی کے کی چیز تو ہم نے پرسوں دی تھی ، یہ اللہ کے نام کی نہیں ، بلکہ حضرت پیران پیر کے نام کی ہے ۔
انکے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گیارہویں ، حضرت شیخ کے ایصال ثواب کیلئے نہیں دے رہےہیں بلکہ جسطرح صدقہ وخیرات کے ذریعہ حق تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح وہ خود گیارہویں کو حضرت کے دربار میں پیش کرکے آپکا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہی راز ہے کہ وہ لوگ گیارہویں دینے نہ دینے کو مال وجان کی برکت اور بے برکتی میں داخل سمجھتے ہیں ،اسطرح یہ وہ عبادت ہے جو غیر اللہ کے لئے کی جارہی ہے ،
چہارم : ۔ جن لوگوں نے حضرت غوث اعظم کی غنیۃ الطالبین اور آپکے مواعظ شریفہ {فتوح الغیب }وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت شیخ ، امام احمد بن حنبل " کے پیرو تھے ۔ گویا آپکا فقہی مسلک ٹھیک وہی تھا جو آج سعودی حضرات کا ہے جن کو لوگ " نجدی اور وہابی " کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، حضرت شیخ اور انکے مقتدا حضرت امام احمدبن حنبل کے نزدیک جو شخص نماز کاتارک ہو وہ مسلمان نہیں رہتا اور یہی چیز حضرت پیران پیر نے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین میں لکھی ہےچناچہ وہ لکھتے ہیں: جو شخص نماز کو فرض جانتا ہے ، مگر سستی اور غفلت کے باعث اسے ادا نہیں کرتا ، اسے نماز کے لئے بلایاجائے پھر بھی نہ آئے تو اسے تلوار سے قتل کرنا جائز ہے ، ایسا شخص ان دونوں حالتوں میں مرتد ہے ، مسلمانوں کو ایسے شخص کا مال لوٹ لینا جائز ہے ، اسے بیت المال میں داخل کریں ، اسکے جنازے پر نماز نہ پڑھیں ، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں {ص538}
خلاصہ یہ کہ حضرت پیران پیر یا دوسرے اکابر کے لئے ایصال ثواب کرنا سعادت مندی ہے مگر گیارہویں کے نام سے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ مذکورہ بالاوجوہ سے صحیح نہیں، بغیر تخصیص وقت کے جو کچھ میسر آئے اس کا صدقہ کر کے بزرگوں کو ایصال ثواب کردے
www.mominsalafi.blogspot.com
ہر قمری مہینہ کی گیارہویں رات کو حضرت محبوب سبحانی شیخ المشائخ شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ " گیارہویں شریف " کے نام سے مشہور ہے ۔ خاص کر ربیع الآخر کی گیارہویں شب کو اسے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ اس سلسلہ میں چند امور لائق توجہ ہیں ۔
اول : گیارہویں کا رواج کب سے شروع ہوا ہے ؟ بڑی تحقیق کے باوجود اس کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی ۔ تاہم اتنی بات تو معلوم ہے کہ سیدنا شاہ عبد القادر جیلانی {نور اللہ مرقدہ}جن کے نام کی گیارہویں دی جاتی ہے ، انکی ولادت 470ھ میں ہوئی اور نوے سال کی عمر میں ان کا انتقال 561ھ میں ہوا ، ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، تابعین ، آئمہ دین ، خصوصاّ امام ابوحنیفہ اور خود حضرت پیران پیر اپنی گیارہویں نہیں دیتے ہوں گے ؟ اور یہ بات بھی محل نظر ہے کہ ہندو پاک کے علاوہ کسی اورخصوصا عرب دنیا میں یہ بدعت نہیں پائی جاتی، اب آپ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں جس عمل سے اسلام کی کم از کم چھ صدیاں خالی ہوں کیا اسے اسلام کا جزء تصور کرنا اور اسے ایک اہم ترین عبادت کا درجہ دے ڈالنا صحیح ہوگا ؟ اور آپ اس بات پر بھی غور فرماسکتے ہیں کہ جو لوگ گیارہویں نہیں دیتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، وتابعین ، ائمہ دین ، اور خود حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اور کے نقش قدم پہ چل رہے ہیں یا وہ لوگ جو ان اکابر کے عمل کے خلاف کررہے ہیں ؟ بعض گیارہویں دینے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ شیخ عبد لقادر جیلانی رحمہ اللہ ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو عرس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ، لیکن یہ بات قطعا غلط اور بے ثبوت ہے شیخ عبد القادر جیلانی کی سیرت اور آپ کی کسی کتاب میں اسکا ذکر نہیں ملتا ، یہی وجہ ہے کہ شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ نے اسے بعد کے مشائخ کی ایجاد کرار دیا ہےچنانچہ ماثبت بالسنہ {اردو} ص168پرلکھتے ہیں اگر یہ دریافت کیا جائے کہ ہمارے ملک میں مشائخ عظام کی وفات کی تاریخ پر جو عرس کیاجاتا ہے اس کی اصلیت کیا ہے ؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ میں نے بھی یہی سوال اپنے پیر ومرشد امام عبد الوہاب متقی مکی سے کیا تھا جس کے جواب میں فرما یا تھا کہ ہمارے مشائخ کے طور طریقے عادات و رواج اور نیت ہی گیارہویں کی ہے ،اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ دوسری تواریخ کو ترک کرتے ہوئے گیارہویں ہی کو کیوں خاص کر لیا ہے ؟ جواب سرفراز فرمایا مہمان نوازی مطلق سنت ہے اس لئے تاریخ سے قطع نظر کرتے ہوئے غرباء کو دعوت دوا ور کھانا کھلائو ، نیز شریعت اسلامیہ میں اس کے نظائر بھی موجود ہیں یہ عام طور پر مطلق حیثیت سے سنت ہے اور کسی خاص وجہ سے خصوصیت کی بناء پر ان کا بروے کار لانا بدعت ہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بعض متاخرین نے بعض مغربی مشائخ کی زبانی بیان کیا کہ جس دن آپ نے وصال الہی کیا اس دن کولوگوں نے از خود دوسرے دنوں کہ بہ نسبت زیادہ خیروبرکت کا منوردرخشاں دن بنادیا ہے ۔ پھر تھوڑی دیر تک سرنگوں رہ کر سر اٹھایا اور فرمایا زمانہ ماضی میں یہ سب کچھ نہ تھا یہ تو صرف متاخرین کی خوشیاں اور خود کاریا ں ہیں ۔ اور اللہ تعالی ہی زیادہ جاناتا ہے ۔
دوم : اگرگیارہویں دینے سے حضرت شیخ عبد القادر جیالانی کی روح کو ثواب پہنچانا مقصود ہے تو بلا شبہ یہ مقصد بہت ہی مبارک ہے ، لیکن جس طرح یہ ایصال ثواب کیا جاتا ہے اس میں چند خرابیاں ہیں ۔
ایک ۔ یہ کہ ثواب پہنچانے کیلئے شریعت نے کوئی دن اور وقت مقرر نہیں فرمایا ، مگر یہ حضرات گیارہویں رات کی پابندی کو کچھ ایسا ضروری سمجھتے ہیں گویا یہی خدائی شریعت ہے ۔ اور اگر اسکے بجائے کسی اور دن ایصال ثواب کرنے کو کہا جائے تو یہ حضرات اس پر کسی طرح راضی نہیں ہوں گے ۔ ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایصال ثواب مقصود نہیں ، بلکہ انکے نزدیک یہ ایک عبادت ہے جو صرف اسی تاریخ کو اداکی جاسکتی ہے ۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔ اسلئے اسے ضروری سمجھ لینا اللہ اور رسول کے مقابلے میں گویا اپنی شریعت بنانا ہے ۔
دوسرے ۔ گیارہویں میں اس بات کا خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا ہے کہ کھیر ہی پکائی جائے حلانکہ اگر ایصال ثواب مقصود ہو تا تو اتنی رقم بھی صدقہ کی جاسکتی تھی ۔ اور اتنی مالیت کا غلہ یا کپڑا کسی مسکین کو چپکے سے اسطرح دیا جاسکتا تھا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو تی ۔ اور یہ عمل نمود ونمائش اور ریا سے پاک ہونے کی وجہ سے مقبول بارگاہ الہی بھی ہوتا ، کھیر پکانے یا کھانا پکانے ہی کو ایصال ثواب کے لئے ضروری سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اس کے بغیر ایصال ثواب ہی نہیں ہوگا ۔ یہ بھی مستقل شریعت سازی ہے ۔
تیسرے ۔ ایصال ثواب کیلئے دیا گیا کھانا وغلہ ایک قسم کا صدقہ ہے جو فقراء ومساکین کا حق ہے ۔ مگر گیارہویں کا کھانا پکاکر لوگ زیادہ تر خود ہی کھا پی لیتے ہیں یا اپنے عزیز و اقارب اور احباب کو کھلادیتے ہیں ، فقراء ومساکین کا حصہ اسمیں بہت کم ہوتا ہے اس کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنا کھانا پکایا گیا پورے کا ثواب پیران پیر کو پہنچ جاتا ہے ۔ یہ بھی قاعدۃ شریعت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ شرعا ثواب تو اس چیز کا ملتا ہے جو بطور صدقہ کسی کو دے دی جائے ۔
چوتھے ۔ بہت سے لوگ گیارہویں کے کھا نے کوتبرک سمجھتے ہیں ، حلانکہ ابھی معلوم ہوچکا کہ جو کھا نا خود کھا لیا گیا وہ اگر ایصال ثواب تھا تو وہ صدقہ تھا جسکا کھا نا بنانے والوں کےلئے جائز نہ تھا لہذا حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہے ۔
پانچویں ۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گیارہویں نہ دینے سے ان کے جان ومال کا {خدانخواستہ } نقصان ہوجاتا ہے یا مال میں بےبرکتی ہوجاتی ہے ، گویا نماز ،روزہ ، حج ،زکاۃ، قطعی فرائض میں کوتاہی کرنے سے کچھ نہیں بگڑتا ، مگر گیارہویں میں ذراکوتاہی ہوجائےتو جان ومال کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ایک ایسی چیز جس کا شرع شریف میں اور ائمہ کے اقوال میں کوئی ثبوت نہ ہو، جب اسکا التزام فرائض شرعیہ سے بھی بڑھ کر کیا جائے اور اسکے ساتھ ایسا اعتقاد جم جائے کہ خدا تعالی کے مقرر کردہ فرائض کے ساتھ بھی ایسا اعتقاد نہ ہو تو اس کے مستقل شریعت ہونے میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون ،
اور پھر اس پر بھی غور فرمایئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام ، ائمہ مجتہدین اور بڑے بڑے اکا بر اولیاء اللہ میں سے کسی کے بارے میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں کہ اگر ان اکابر کیلئے ایصال ثواب نہ کیا جائے تو جان ومال کا نقصان ہو جاتاہے ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر حضرت پیران پیر کی گیارہویں نہ دنے ہی سے کیوں جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ، ہمارے ان بھائیوں نے اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا ہوتا تو ان کیلئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنے اس غلو سے حضرت پیران پیر کی توہیں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
سوم : ۔ ممکن ہے عام لوگ ایصال ثواب کی نیت ہی سے گیارہویں دیتے ہوں مگر مشاہدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ گیارہویں حضرت پیران پیر کے ایصال ثواب کیلئے نہیں دیتے ، بلکہ اسکے پیچھے کچھ اور جذبات وعقیدے ہوتے ہیں چنانچہ ایک بزگ نے اپنے علاقہ کے گوالوں کو ایک دفعہ وعظ میں کہا کہ دیکھو بھئی ؟ گیارہویں شریف تو خیر دیا کرو ، مگر نیت یوں کیا کرو کہ ہم یہ چیز اللہ تعالی کے نام پر صدقہ کرتے ہیں اور اسکا جوثواب ہمیں ملے گا وہ حضرت پیران پیر کی روح کو پہنچانا چاہتے ہیں ، اس تلقین کا جواب انکی طرف سے یہ تھا کہ " مولوی جی ؟ اللہ تعالی کے کی چیز تو ہم نے پرسوں دی تھی ، یہ اللہ کے نام کی نہیں ، بلکہ حضرت پیران پیر کے نام کی ہے ۔
انکے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گیارہویں ، حضرت شیخ کے ایصال ثواب کیلئے نہیں دے رہےہیں بلکہ جسطرح صدقہ وخیرات کے ذریعہ حق تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح وہ خود گیارہویں کو حضرت کے دربار میں پیش کرکے آپکا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہی راز ہے کہ وہ لوگ گیارہویں دینے نہ دینے کو مال وجان کی برکت اور بے برکتی میں داخل سمجھتے ہیں ،اسطرح یہ وہ عبادت ہے جو غیر اللہ کے لئے کی جارہی ہے ،
چہارم : ۔ جن لوگوں نے حضرت غوث اعظم کی غنیۃ الطالبین اور آپکے مواعظ شریفہ {فتوح الغیب }وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت شیخ ، امام احمد بن حنبل " کے پیرو تھے ۔ گویا آپکا فقہی مسلک ٹھیک وہی تھا جو آج سعودی حضرات کا ہے جن کو لوگ " نجدی اور وہابی " کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، حضرت شیخ اور انکے مقتدا حضرت امام احمدبن حنبل کے نزدیک جو شخص نماز کاتارک ہو وہ مسلمان نہیں رہتا اور یہی چیز حضرت پیران پیر نے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین میں لکھی ہےچناچہ وہ لکھتے ہیں: جو شخص نماز کو فرض جانتا ہے ، مگر سستی اور غفلت کے باعث اسے ادا نہیں کرتا ، اسے نماز کے لئے بلایاجائے پھر بھی نہ آئے تو اسے تلوار سے قتل کرنا جائز ہے ، ایسا شخص ان دونوں حالتوں میں مرتد ہے ، مسلمانوں کو ایسے شخص کا مال لوٹ لینا جائز ہے ، اسے بیت المال میں داخل کریں ، اسکے جنازے پر نماز نہ پڑھیں ، نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں {ص538}
خلاصہ یہ کہ حضرت پیران پیر یا دوسرے اکابر کے لئے ایصال ثواب کرنا سعادت مندی ہے مگر گیارہویں کے نام سے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ مذکورہ بالاوجوہ سے صحیح نہیں، بغیر تخصیص وقت کے جو کچھ میسر آئے اس کا صدقہ کر کے بزرگوں کو ایصال ثواب کردے
www.mominsalafi.blogspot.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں