اپنی زبان منتخب کریں

منگل، 31 جنوری، 2017

ضعیف احادیث. اور سوره یسین

ضعیف احادیث.   اور سوره یسین  ()()()()()()()(()()()()()()()()(()()()()()().         روایت سنن الدارمی(ج۲ص۴۵۷ح۳۴۲۱وطبعۃ محققۃ ح ۳۴۶۱) میں ‘‘عطاء بن ابی رباح ( تابعی) قال: بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال’’ کی سند سے موجود ہے اور دارمی ہی سے صاحبِ مشکوۃ نے (ح ۲۱۷۷ بتحقیقی) نقل کی ہے۔


یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور ‘‘بلغني’’ کا فاعل نامعلوم ہے۔


سورۃ یٰس کی فضیلت میں درج زیل مرفوع روایات بھی ضعیف و مردود ہیں۔

۱: ‘‘إن لکل شئ قلباً و قلب القرآن یٰس و من قرأ یٰس کتب اللہ لہ بقرأ تھا قراء ۃ القرآن عشر مرات’’ (جامع ترمذی ح ۲۸۸۷من حدیث قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ و تبلیغی نصاب ص ۲۹۲ فضائل قرآن ص ۵۸)امام ترمذی  اس روایت کے ایک راوی ہارون  ابو محمد کے بارے  میں فرماتے ہیں‘‘شیخ مجہول’’ لہذا یہ روایت ہارون مزکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا  ہے۔ (الضعیفۃ ج ۱ص۲۰۲ح ۱۶۹)
امام ابو حاتم الرازی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی: مقاتل بن سلیمان (کذاب) ہے (علل الحدیث ج۲ص ۵۶ح ۱۶۵۲)جبکہ سنن ترمذی و سنن الدارمی(ج۲ص۴۵۶ح۳۴۱۹) تاریخ بغداد(ج۴ص۱۶۷)میں مقاتل بن حیان (صدوق) ہے۔ واللہ اعلم درج بالا روایت کا ترجمہ جناب زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے۔

‘‘ہر چیز کے لئے ایک دل ہوا کرتا ہے۔ قرآن شریف کا دل سورۃ یٰس ہے جو شخص سورۃ یٰس پڑھتا ہے حق تعالیٰ شانہ، اس کے لئے دس قرآنوں کا ثواب لکھتا ہے’’۔

۲:اس باب میں سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ والی روایت کے بارے میں امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ‘‘ ولا یصح من قبل إسنادہ و إسنادہ ضعیف’’[ترمذی:۲۲۸۸۷]

۳: ‘‘إن لکل شئي قلباً و قلب القرآن یٰس’’ (کشف الاستار عن زوائد البزارج ۳ص۸۷ح۲۳۰۴من حدیث عطاء عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ)
اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

‘‘وحمید ھذا مجھول کما قال الحافظ فی التقریب و عبدالرحمن بن الفضل شیخ البزارلم أعرفہ ’’ (الضعیفہ ج۱ص۲۰۴)
یعنی اس کا (بنیادی) راوی حمید( المکی مولیٰ آل علقمۃ /تفسیر ابن کثیر ۳؍۵۷۰) مجہول ہے جیسا کہ حافظ (ابن حجر) نے تقریب التھذیب میں کہا ہے اور بزار کے استاد: عبدالرحمن بن الفضل کو میں نے نہیں پہچانا۔

۴: ‘‘ من قرأ یٰس فی لیلۃ أصبح مغفوراًلہ۔۔’’ الخ
(مسند ابی یعلی ج ۱۱ص ۹۳ ، ۹۴ح ۶۳۲۴وغیرہ من طریق ھشام بن زیاد عن الحسن قال: سمعت اباھریرۃ بہ)
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ ہشام بن زیاد متروک ہے (تقریب ص ۳۶۴ت:۷۲۹۲)


۵:‘‘من قرأ یٰس فی لیلۃ ابتغاء وجہ اللہ غفر لہ فی تلک اللیلۃ’’ (الدارمی ح ۳۴۲۰وغیرہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حسن بصری کی سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔


۶۔‘‘من قرأ یٰس فی لیلۃ ابتغاء وجہ اللہ غفر لہ’’
(صحیح ابن حبان: موارد الظمآن ح ۶۶۵وغیرہ عن الحسن (البصری) عن جندب رضی اللہ عنہ بہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو حاتم رازی نے کہا:‘‘ لم یصح للحسن سماع من جندب’’ (المراسیل ص۴۲) نیز دیکھئے حدیث سابق:۵


۷۔‘‘من قرأیٰس ابتغاء وجہ اللہ تعالیٰ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ فاقرؤ و ھا عند موتاکم ’’ (البیہقی فی شعب الایمان ح ۲۴۵۸من حدیث معقل بن یسار رضی اللہ عنہ)
اس کی سند ایک مجہول راوی: ابو عثمان غیر النہدی اور اس کے باپ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یہ روایت مختصراً مسند احمد(۵؍۲۶ ، ۲۷) مستدرک الحاکم ۱؍۵۶۵) اور صحیح ابن حبان(الاحسان۷؍۲۶۹ح ۲۹۹۱ و نسخہ محققہ ح ۳۰۰۲) و سنن ابی داؤد(۳۱۲۱)و سنن ابن ماجہ (۱۴۴۸) میں موجود ہے، اس حدیث کو امام دار قطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسند احمد (۴؍۱۰۵) میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔


     ۸۔‘‘من قرأیٰس فی لیلۃ أصبح مغفوراً لہ’’ (حلیۃ الاولیاء۴/۱۳۰من حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کی سند ابو مریم عبدالغفار بن القاسم الکوفی کی وجہ سے موضوع ہے۔ ابو مریم مذکور کذاب وضاع تھا۔ دیکھئے لسان المیزان(ج۴ص۵۰ ، ۵۱)


۹۔‘‘من قرأ یٰس عدلت لہ عشرین حجۃ ومن کتابھا ثم شربھا أدخلت جوفہ ألف یقین و ألف رحمۃ و نزعت منہ کل غل    وداء’’ (حلیۃ الاولیاءج۷ص۱۳۶) من حدیث الحارث(الأعور) عن علي بہ’’ یہ روایت حارث اعور کے شدید ضعف (مع تدلیس أبی اسحاق) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔


۱۰۔‘‘لوددت إنھا في قلب کل إنسان من أمتي یعنی یٰس’’
(البزار: کشف الاستار۳؍۸۷ح۲۳۰۵من حدیث ابن عباس)
اس کا راوی ابراھیم بن الحکم بن ابان ضعیف ہے۔ (تقریب:۱۶۶(


۱۱۔ ‘‘من قرأ سورۃ یس وھو فی سکرات الموت أو قریب عندہ جاء ہ خازن الجنۃ بشربۃ من شراب الجنۃ فسقاھا إیاہ وھو علی فراشہ فیشرب فیموت ریان ویبعث ریان ولا یحتاج إلی حوض من حیاض الأنبیاء’’ (الوسیط للواحدی۳؍۵۰۹)
یہ روایت موضوع ہے۔ یوسف بن عطیہ الصفار متروک (دیکھئے تقریب التہذیب:۷۸۷۲) اور ہارون بن کثیر مجہول ہے دیکھئے لسان المیزان(ج۶ص۲۱۸)


۱۲:‘‘من قرأیس فکأنما قرأ القرآن عشر مرات’’ (شعب الایمان للبیھقی ح۲۴۵۹)
یہ روایت حسان بن عطیہ کی وجہ سے مرسل ہے، اسماعیل بن عیاش مدلس ہے۔ (طبقات المدلسین:۶۸ ؍۳)


۱۳:‘‘سورۃ یٰس تدعی فی التوراۃ المنعمۃ۔۔۔’’ الخ
(شعب الایمان ح۲۴۶۵ و الضعفاء للعقیلی ج ۲ص۱۴۳، الامالی للشجری ج ۱ص۱۱۸تاریخ بغداد للخطیب ج ۲ص۳۸۷ ، ۳۸۸و الموضوعات لابن الجوزی ص۳۴۷ج او تبلیغی نصاب ص۲۹۲ ، ۲۹۳ فضائل قرآن ص ۵۸ ، ۵۹)
اس روایت کی سند موضوع ہے محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر الجد عانی متروک الحدیث ہے اور دوسرے کئی راوی مجہول ہیں امام بیہقی فرماتے ہیں‘‘ وھو منکر’’ امام عقیلی نے بھی اسے منکر قرار دیا ہے۔ اس کی ایک دوسری سند تاریخ بغداد اور الموضوعات لابن الجوزی میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن عبد بن عامر السمر قندی کذاب اور چور تھا۔


۱۴:‘‘إنی فرضت علی أمتی قراء ۃ یس کل لیلۃ فمن دام علی قراء تھا کل لیلۃ ثم مات مات شھیداً’’ (الأ مالی للشجری ج ۱ص۱۱۸)
یہ روایت موضوع ہے۔ اس کے کئی راویوں  مثلاً عمر بن سعد الوقاصی ، ابو حمض بن عمر بن حفص اور ابو عا مر محمد بن عبدالرحیم کی عدالت نامعلوم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سورت یا سین کی فضیلت کی تمام مرفوع روایات ضعیف و مردود ہیں۔


 امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘حدثنا عمر و بن زرارۃ : حدثنا عبدالوھاب: حدثنا راشد أبو محمد الحماني عن شھر  بن حوشب قال: قال ابن عباس: من قرأ یٰس حین یصبح، أعطي یسر یومہ حتی یمسي، ومن قرأھا فی صدر لیلۃ أعطي یسر لیلتہ حتی یصبح’’
ہمیں عمر و بن زرارہ نے حدیث بیان کی: ہمیں عبدالوہاب الثقفی نے حدیث بیان کی: ہمیں راشد ابو محمد الحمانی نے حدیث بیان کی، وہ شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ (سیدنا) ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت یاسین پڑھے تو اسے شام تک آسانی عطا ہو گی اور جو شخص رات کے وقت یاسین پرھے تو اسے صبح تک آسانی عطا ہو گی۔ (یعنی اس کے دن و رات آرام و راحت سے گزریں گے) [سنن الدارمی۱؍۴۵۷ح ۳۴۲۲دوسرا نسخہ: ۳۴۶۲و سندہ حسن]


اس روایت کے راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔


۱: عمر و بن زرارہ: ثقۃ ثبت [تقریب التہزیب : ۵۰۳۲]
۲: عبدالوھاب الثقفی: ثقۃ تغیر قبل موتہ بثلاث سنین[التقریب:۴۲۶۱]لکنہ ما ضر تغیرہ حدیثہ فإنہ ماحدث بحدیث فی زمن التغیر[میزان الاعتدال ۲؍۶۸۱]
۳:راشد بن نجیح الحمانی: صدوق ربما أخطأ[تقریب التہذیب: ۱۸۵۷]وحسن لہ البوصیري [زوائد ابن ماجہ:۳۳۷۱]یہ حسن الحدیث راوی ہے۔

۴:شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے(کما حققتہ في کتابي:تخریج النھایۃ فی الفتن و الملاحمص۱۱۹ ، ۱۲۰) حافظ ابن کثیر اس کی ایک روایت کو حسن کہتے ہیں(مسند الفاروق ج ۱ص ۲۲۸لہذا ہماری تحقیق کے مطابق یہ راوی حسن الحدیث ہے۔ واللہ اعلم خلاصہ یہ کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ مزید  تحقیقی   مقلاا ت             www.mominsalafi.blogspot.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں