اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ ۔ ۔
میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے علماء کرام رہنمائی فرمائیں !
جو مسلمان آج بھی طاغوتی لیڑروں کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں , ان کی مجلسوں میں اکثر جایا کرتے ہیں اور ان کے خلافِ شریعت قانون چلانے پہ بھی ان سے محبت کرتے ہیں اور سلفیوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہمارے علماء ان کو اس سے روکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کے ساتھ Boycott کرسکتے ہیں جس طرح مسلمانوں نے غزوہ تبوک سے آنے کے بعد حضرت کعب بن مالک , حضرت ہلال بن امیہ اور حضرت مرارہ بن ربیع (رضی اللہ عنہم اجمعین) سے لا تعلقی کی تھی ۔ ۔ ۔
جواب کا طالب ShakirParray
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جواب:آپ کے کہنے کا مطلب ہے موجودہ حکمرانوں کےساتہی جو ہے خلافِ شریعت قانون چلانےکیا ہم ن کے ساتھ Boycott کرسکتے ہیں ( سب سے پہلے بات ہم علم کی بہت ضرورت ہے
{2}اس فتوے کی طرف ایک نظر {سعودی علماء کے اہم فتویٰ کے ضمن میں کچھ فکر انگیز اور غور طلب نکات ہے غور فرمایے}{عالم اسلام کے اطراف واکناف میں روز بروز یہ مسئلہ الحمد ﷲ مسلمانوں خصوصانوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے کہ آج کے حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟مسلمان ان کو کیا سمجھیں اور ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں ؟شریعت میں جہاں اور حقوق وفرائض کی تفصیل ملتی ہے والدین ،زوجین ،پڑوسی ،رشتہ دار وغیرہ سب کے حقوق اورفرائض شریعت نے کھول کھول کر واضح کردئیے ہیں وہاں شریعت نے یہ رہنمائی کرنے میں بھی کمی نہیں چھوڑی کہ حکمرانوں اور رعایا میں تعلقات کی نوعیت کیا ہو اور ان دونوں کے حقوق اور فرائض کیا ہوں ۔مگر چونکہ فتوی دینے کے لئے صرف قرآن کی آیات اور سنت سے احادیث نکال لانا ہی کافی نہیں زمان اور مکان کا صحیح علم وادراک ہونا ضروری ہے اس لیے آج کے مسلمانوں کو ان کے معاشرتی حقوق وفرائض بتانے میں اور ان کے کرنے کا کام سمجھانے میں بہت سارے مخلص حضرات قرآن اور حدیث کے حوالے لے آنے کے باوجود کچھ غلطی ہائے مضامین کا شکارہوجاتے ہے۔موجودہ دور کے ان اہم مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ وقت کے حکمرانوں کا بھی ہے کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے ۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ شریعت نے جو حقوق اور فرائض بتائے ہیں وہ مطلق نہیں ۔پڑوسی یا رشتہ دار کافر ہوں تو بھی شریعت میں ان کے حقوق ضرور ہونگے مگر ظاہر ہے وہی حقوق نہیں جو کہ ایک مسلمان رشتہ دار کے ہوسکتے ہیں ۔کوئی صاحب اگر حقوق الزوجین پر طویل وعریض تقریر کریں اور قرآن وحدیث سے مسلمان خاوند بیوی کے حقوق وفرائض زوجین پر سیر حاصل بحث کریں مگر بیچ میں سے ایک بات نظر انداز کرجائیں کہ جس واقع میں وہ فتوی صادر فرمارہے ہیں وہاں شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک کفر کا ارتکاب کرچکا ہے تو ان کی عزارت علم کے باوجود آپ ان کی فقاھت کے بارے میں کیا رائے رکھیں گے ؟
چنانچہ ایک عرصہ سے عالم اسلام میں جو سوال بار بار اٹھ رہا ہے اور عمومًا دین کی غیرت رکھنے والے نوجوانوں کی زبان پر رہتا ہے وہ یہ کہ موجودہ حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور مسلمانوں سے ان سے تعامل کی نوعیت کیا ہونا چاہیے۔جس کا جواب ہمارے ہاں علماء کی جانب سے عموماً یہ آتا رہا کہ مسلمان حکمرانوں کے حقوق وفرائض یہ یہ ہوا کرتے ہیں اور شریعت کی رو سے رعایا کے ان سے تعلقات ایسے ایسے ہونے چاہئیں ! یعنی سوال کچھ ہے تو جواب کچھ اور! یہی وجہ ہے کہ بار بار یہی سوال اٹھنے کے باوجود اور علماء کرام کی جانب سے باربار اس کا جواب آنے کے باوجود کسی کی تشفی نہیں ہوپارہی کیونکہ اس مسئلہ میں جتنی بھی آنکھیں چرائی جاتی رہیں یہ اپنی جگہ برقرار ہے اور علماء دین اور زعمائے امت سے جرا ء ت گفتار اور افضل الجہاد کا بدستور تقاضا کررہا ہے کہ وہ امت کے نوجوانوں کو کھل کربتائیں کہ موجودہ حکمران جو جانتے بوجھتے اور ہوش وحواس رکھتے ہوئے رب العالمین کی شریعت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرکے لاکھوں مربع میل کے ا ند ر کروڑوں انسانوں کی گردنوں پر صریحاً غیر اﷲکا حکم اور قانون چلاتے ہیں آیا مسلمان ہیں یا کافر ؟موحد ہیں یا مشرک ؟اورکیا مسلمانوں کو ان کی وفاداررعایا بن کر رہنا چاہیے اور (الدین النصیحۃ والی حدیث کے مطابق )ان کی خیر خواہی اور اعانت کرنی چاہیے(جو کہ اس حدیث کی رو سے آئمۃ المسلمین کا حق ہے )یا ان کے لیے شریعت کا کوئی اور حکم ہے؟اور کیا شرک کا ارتکاب کرنے کے باوجود بلکہ بار بار سمجھائے جانے پر بھی شرک کرتے رہنے کے باوجود کلمہ گوہونا ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے ؟ملک کے طول وعرض میں شرک کی تہذیب وثقافت ،کفر کا قانون اور استعمار کا دین پورے منظم اور باقاعدہ انداز میں رائج کرنے کے بعد بھی ان حکمرانوں کی کلمہ گوئی کا ڈھنڈورا پیٹا جانا شریعت میں کیا وقعت رکھتا ہے ؟اخباروں میں ان کے حج وعمرہ کرنے کی تصویریں چھپنے اور سیرت کانفرنسوں کے افتتاح کرنے کا امت کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟؟
یہ ہے وہ اصل سوال جس پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلا ہوا اور برسہا برس سے تہذیب کفار کے پنجوں میں گرفتار عالم اسلام چیخ چیخ کر زعمائے دین کو دعوت سخن دے رہا ہے ۔حالات کی تیزی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح اس سوال کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف جس انداز سے ابنائے اسلام میں دین کا شعور بڑھ رہا ہے ،لگتا ہے بہت دیر تک اس سوال کو سرد خانے میں پڑا رہنے دینا اب کسی کے بس میں نہ ہوگا ۔
سوال کا صحیح تعین ہوجا ئے تو شریعت میں اس کا جواب پانا کچھ مشکل نہیں ۔جو آدمی اﷲکی مخلوق پر اﷲکے حکم اور قانون کی بجائے اپنا حکم اورقانون چلائے وہ اﷲکا شریک اور ہم سر ہے ۔شریعت کی اصطلاح میں اس کو طاغوت کہا جاتا ہے ۔ایک طاغوت اور ایک مسلم حکمران میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اگرچہ مسلم حکمران ظالم اور فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ان دونوں کا حکم ایک کردینا کسی ظلم عظیم سے نہیں ۔
مگر چونکہ پاکستان میں لفظ طاغوت کا استعمال بڑی حد تک شرعی سے زیادہ سیاسی رہاہے اس لیے باوجود یہ کہ لفظ زبان زد عام ہے اس کا صحیح ادراک اور درست اطلاق بہت کم لوگ کرتے ہیں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو کسی حکمران کو ناانصافی یا بدعنوانی یا عوانی آزادیاں سلب کرنے کی وجہ سے ناپسندیدہ قرار دینے کے لیے یا اس پر اپنا احتجاج واضح کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔حالانکہ ایسی حرکت کسی ظالم یا فاسق مسلم حکمران سے بھی ہوسکتی ہے مذہب خوارج کے برعکس جبکہ دوسری جانب ایسے نکتہ درحضرات ہیں جو حکمران کو جھٹ سے طاغوت کہہ دیتے ہیں مگر اسے دائرہ اسلام میں بدستور داخل بھی سمجھتے ہیں اور اس پر کفر یا شرک کا اطلاق کرنا خلاف ادب جانتے ہیں یہ حضرات طاغوت اور مسلم کے الفاظ کو قطعی متضاد نہیں سمجھتے حالانکہ شریعت کی اصطلاح میں طاغوت کسی شخص کے کافر یامشرک ہونے کی بدترین شکل ہے ۔ایک آدمی غیر اﷲکی بندگی کرکے بھی مشرک تو کہلاسکتا ہے مگرضروری نہیں کہ وہ طاغوت کے درجے کو بھی پہنچتا ہو۔
طاغوت وہ اس صورت میں قرار پائے گا جب وہ مخلوق سے خود اپنی ہی بندگی کرائے اور س پر اپنا حکم چلانے لگے شرک کے اس آخری درجے کو پہنچنے کے بعد ہی اس پر اس گھناؤنے لفظ کا اطلاق ہوگا چنانچہ جب آپ نے کسی کو طاغوت کہہ دیا تو اسے کافر اور مشرک کہنے میںآپ نے کوئی کسر ہی نہ چھوڑی۔بلکہ ایسا ویسا مشرک ہی نہیں آپ نے اس کو بدترین مشرک کہہ دیا ہے۔بشرطیکہ آپ اس لفظ کا مطلب جانتے ہوں ۔بلکہ تو یہ کہنا بہتر ہوگا کہ آپ اس کا تاحال مسلمان ہی قرار دینا چہ معنی دارد؟
عقیدہ توحید میں یہ مسئلہ بہت واضح ہے ۔گویا یہ مسئلہ مسلمان طبقوں میں عام کرنا اشد ضروری ہے ۔امت اسلام پر وقت کے باطل نظاموں اور مشرکانہ تہذیب وتمدن کی صورت میں لگ بھگ ایک ڈیڑھ صدی سے جو بدترین آفت مسلط ہے وہ امت کی پوری تاریخ میں اس برے انداز سے اور ایک بڑی سطح پر کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ایسے میں امت کے مخلص اور سنجیدہ ذہنوں میں بار بار یہ سوال اٹھنا ایک طبعی امر تھا کہ ان نظاموں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور یہاں ارباب اختیار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟جس نے بھی دقت نظر سے شریعت میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی اسے ایک ہی واضح جواب ملا۔طاغوت ! نتیجتًا وقت کے حکمرانوں کا یہ شرعی لقب رفتہ رفتہ معروف ہوتا گیا ۔چونکہ امت کی تاریخ میں یہ مسئلہ ہی بالکل نیا تھا اس سے پہلے غیر اﷲکے حکم کو ملک کے طول وعرض میں باقاعدہ رسمی اور آئینی طور پرقانون عام کی حیثیت کبھی دی ہی نہیں گئی اور نہ کبھی تہذیب اور ثقافت میں کفار کی ایسی حرف بہ حرف اتباع کروائی گئی اس لیے حکمرانوں کا یہ لقب طاغوت سے بھی ظاہر ہے نیا ہی ہوسکتا تھا اور شریعت کی رو سے حکام وقت کی حیثیت بھی نئی ہی ہونی چاہیے تھی مگر یہ نئی بات ہوجانے پر کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہونا بھی ضروری تھے ہوتابھی کیوں نہ جہاں پڑھانے کے لیے ابھی تک فارسی کا ذریعہ استعمال ہوتاہو(حالانکہ برصغیر میں سوسال سے اس کی ضرورت مائل بہ زوال ہے)وہاں اتنی بڑی بات کو طرز کہن سے خروج کیوں نہ سمجھا جاتا !ان حضرات کو اس بات سے تو کچھ خاص غرض نہیں تھی کہ امت میں یہ مسئلہ سرے سے نیا ہے اور یہ کہ جب سے ہمارے حکمران فرنگ سے درآمد ہونے لگے ہیں یہ سوال ہی تب سے اٹھا ہے ۔البتہ احتجاج صرف اس بات پر ضروری جاناگیا کہ اس مسئلہ کا حل نیا کیوں ہے ؟یعنی اس کا بھی وہ پہلے والا حل کیوں نہیں دیا جاتا جو سلف کے دور میں رائج رہا اور بنوامیہ وبنوعباس سے لے کر سلاطین کے زمانے تک اورنیل سے لے کرکاشغر تک بھلے وقتوں میں مشاہیر اسلام کی زبان سے دیا جاتارہا!!!
رفتہ رفتہ ان معترضین نے یہ باقاعدہ مذہب اختیار کرلیا کہ وقت کے حکمرانوں کو طاغوت یا مشرک کہنا ۔حتیٰ کہ بعض کے نزدیک توان حکمرانوں کی خالی مخالفت کرنا اور اﷲکے عباد اور بلاد پر ان کی طاقت کا سکہ نہ چلنے دینا کی بات کرنا ہی ۔’سلف کے منہج کے خلاف ہے ‘!!! اور یہ کہ سلف کے منہج پر چلنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو ان حکمرانوں کے جنود میں شامل نظر آئیں !!یا کم ازکم بھی وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے نظام سے کوئی سروکار نہ رکھیں!ان میں سے ’تحقیق‘میں آگے گزرنے والے اصحاب نے تو ان غیور مسلمانوں کے تانے ‘جو باطل نظاموں اور حکمرانوں کی وفادار رعایابن کر رہنے کیلئے تیار نہیں ،سیدھے خوارج سے جا ملائے اور عوام الناس میں ان کے لیے ’تکفیری‘اور ’خارجی‘کے الفاظ عام کیے ۔
اب بھلا ’سلف کے منہج کے خلاف ‘چلنے کی جراء ت کون کرے! آخر ایمان بچانے کی فکر کسے نہ ہو !پھر ایمان کے ساتھ جان بھی بچتی ہو تو حکمرانوں سے وفاداری سے انکار کی کیا دلیل ہوسکتی ہے !! یوں توحید کی فطرت پر چلنے والے غیور مسلمانوں کو علم کی مار دینے کی ایک اسکیم تیار کرلی گئی جو کہ حکمرانوں کی ایک اہم ضرورت تھی ۔گو اغلب یہی ہے کہ یہ ’دریافت ‘پہلے پہل حکمرا نوں کی فرمائش کے بغیر وجود میں آئی البتہ ظہور میں آجانے کے بعد تو اسے پذیرائی دلانے میں کسی کو مضائقہ بھی کیا ہو سکتا تھا! یوں بھی بڑے بڑے منصوبے حکومتی سرپرستی کے بغیر چلنے نہیں ہوتے ۔چنانچہ عالم عرب کے اندر مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے کہ منہج سلف کے ’سرکاری ترجمانوں ‘نے اصلاح کیلئے میدان میں اترنے والی ہر تحریک اور ہر شخصیت کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور باغی ،بدعتی ،ایمان کیلئے خطرہ ،قابل قید ومشقت اور گردن زنی قرار دے رکھا ہے۔
یہاں ہمارے ان قارئین کو جو صرف اردو جرائد کا مطالعہ کرتے ہیں صورتحال کا اندازہ کرنے میں شاید کچھ مشکل پیش آرہی ہو۔جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کی بحثوں نے ابھی وہ زور نہیں پکڑا جو عرب ملکوں میں ایک عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے ۔خصوصاً وہ معرکہ آرائی جو پچھلے کئی سالوں سے سعودی عرب میں برپاہے اور شیخ سفر الحوالی اور شیخ ،سلمان العودۃ کی تقریر وتحریر کی محنت اور پھر آخر میں ان کی گرفتاریوں نے جو اس فضامیں مزید ارتعاش پیدا کردیا ہے اس کے تناظر میں علمی حلقوں کے اندر اس مسئلہ پر لے دے بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی باز گشت اب پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام میں سنی جانے لگی ہے۔
اﷲکی شریعت کو پس پشت ڈال کر مخلوق کی شریعت کو قانون عام کا درجہ دینے والے یہ حکمران کفر کے مرتکب کہلانے سے صرف ایک صورت میں بچ سکتے تھے ۔۔۔۔یا بچائے جاسکتے تھے اور وہ یہ کہ ’ارجاء‘کے عقیدے کو امت میں عام کردیا جائے ،جبکہ وہ پہلے ہی بہت عام ہے اور اﷲکے دشمنوں کااب تک برسراقتدار رہنا اسی کا مرہون منت ہے ۔یہ ’ارجاء ‘کیا ہے ؟امت کی تاریخ میں ایک مشہور بدعت گزری ہے ۔بلکہ گزری بھی کیا مختلف شکلوں اور صورتوں میں اب تک چل رہی ہے اس کی رو سے آدمی عملاً شرک کرتے رہنے سے مشرک نہیں ہوتا صرف اس کا اعتقاد رکھنے سے ہوتا ہے ۔چنانچہ ایک کلمہ گو شرک اور کفر کا خواہ کوئی کام کرے ۔بس دل میں اس کو صحیح نہ سمجھے اور زبان سے اس کوحلال کہنے کی بھی حماقت نہ کرے تو وہ مسلمان اورموحد ہی گنا جائے گا !یعنی کفر اور شرک کے افعال بھی عام گناہوں کی طرح ایک گناہ ہیں اور محض ان کے عملی ارتکاب سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا ۔چنانچہ خوارج جہاں ایک انتہاء پر گئے اور عام گناہوں کے کاموں کو بھی افعال شرک کے ساتھ ملادیا وہاں یہ مرجۂ دوسری انتہاء پر گئے جنہوں نے افعال شرک وکفر کو بھی عام گناہوں کے ساتھ یکجا کردیا ۔
اصولی طور پر یہ دونوں گمراہیاں اس ایک مسئلہ پر ایک ہوجاتی ہیں کہ کفریہ اعمال اور عام گناہوں میں کوئی فرق نہیں !جبکہ اہل سنت کے نزدیک ان میں واضح فرق ہے ،جن افعال کو شریعت نے صرف گناہ اور فسق کہا ہے ان پر اصرار سے آدمی فاسق ہوگا اور جن افعال کو اﷲاور رسول کفر یا شرک کہیں ان پر اصرار کرنے سے وہ کافر اور مشرک ہوسکتا ہے ۔او ر یہ تو واضح ہے کہ اﷲکے قانون کی بجائے کوئی دوسرا قانون چلانے کو اﷲاور رسول نے کفر کہا ہے ۔
چنانچہ طاغوتوں کو ’اولی الامر ‘کا درجہ دلانے کے لئے ارجاء کے اس عقیدہ کا ایک نئے زور وشور سے ڈول ڈالا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس کا یوں غلغلہ کردیا گیا کہ آدمی اس سے واقعی سمجھ لے کہ شاید سلف اور اہلسنت کا یہی عقیدہ ہے اور حاکم بغیر ماانزل اﷲکوکافر کہنا بالفعل خوارج کا ہی مذہب ہے۔پاکستان میں بھی دھیمے سروں پر یہ نغمہ سننے کو مل جاتا رہا ہے تاہم عرب میں تو اس کا آہنگ اتنا اونچا رہا کہ کان پھٹنے کو آنے لگے ۔تصنیفات اور تالیفات کی بھرمار ہوئی اور ان کی اشاعت کا تو کوئی حد وحساب ہی نہ رہا ۔کچھ عرصہ بیشتر اس سلسلہ کی ایک اہم تصنیف ’’الحکم بغیر ماانزل اﷲواصول تکفیر‘‘سعود ی عرب میں بطور خاص مقبول کروائی گئی اور حکام کے ’پکا مسلمان ‘ہونے کے کے مسئلہ میں سلف اور اہلسنت کے منہج پر اتھارٹی قرار دی گئی ۔خالد بن علی العنبری نامی ایک صاحب کی یہ کتاب ،جو حکمرانوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی تھی ،لازمی تھا کہ علمی حلقوں میں بھی موضوع بحث بنتی کیونکہ اس میں بڑی بڑی باتیں سلف سے زبردستی منسوب کردی گئی تھیں ۔اس کتاب پر بھی تفصیلی روشنی تو کسی اور مضمون میں ڈالی جاسکتی ہے یہاں ہمارے لئے صرف اس کے مرکزی خیال کا ذکر کرنا ہی ممکن ہوگا اور وہ اس لیے کہ مضمون کے اختتام پر اس کتا ب کے بارے میں سعودی علماء کا جو فتویٰ دیا جارہا ہے قارئین کو اسے سمجھنے میں آسانی رہے ۔چنانچہ اس کتاب کے بنیادی نکات یہ تھے ۔
۱۔ حکم بغیر ما انزل اﷲکا فعل کفر نہیں ،الا یہ کہ حکمران اس کو جائزاور حلا ل کہے ۔یعنی اس فعل کی فی نفسہٖ نوعیت باقی گناہوں جیسے ایک گناہ کی ہوگی۔
۲۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مصنف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی اس بات پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے!
۳ ۔ پھر اس کی اس بات سے اختلاف رکھنا اس کے خیال میں خوارج کا عقیدہ ہے ۔
۴۔ چونکہ قاضی کا کسی ایک قضیہ میں بددیانتی یا بدعنوانی کے باعث خلاف شریعت فیصلہ دینا سلف کے ہاں کفر دون کفر (وہ چھوٹا کفر جس سے آدمی ملت سے خارج نہیں ہوتا)شمار ہوتا ہے اس لیے مصنف کے نزدیک تشریع عام بھی ویسا ہی ایک گناہ ہے یعنی مصنف کے نزدیک فہم سلف کی رو سے :
اس بات میں کہ اسلامی نظام کے اندر کوئی قاضی یاحاکم کسی ایک آدھ قضیے میں کسی ایک آدھ بار بددیانتی سے شریعت کے خلاف فیصلہ دیدے اور اس بات میں کہ ملک میں ایک خلاف شریعت امر کو باقاعدہ رسمی طور پر قانون عام (پبلک لاء)کا درجہ حاصل ہو اور عدالتوں میں اسے مرجع اور سند کی حیثیت دے دی جائے کوئی فرق نہیں ۔ہردوصورت میں حکمران بدستور مسلمان رہے گا !!
اتنے بڑے بڑے اور بے بنیاد دعوے ظاہر ہے کہ دن کی روشنی میں کام نہیں دے سکتے تھے ۔گو مصنف نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں شرعی نصوص کے مفہومات اور علمائے سلف کے اقوال کو توڑمروڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی (جیسا کہ فتویٰ کی عبارت میں بھی اس کی اس حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے)مگر یہ کوشش اس کو فائدہ تو کیا دیتی الٹا اس کے لیے گلے کاپھندہ بن گئی ۔سمجھ دار لوگوں نے اس کے مدلل جواب تو لکھے ہی مگر انہوں نے اس کتاب کو سعودی کبار علماء کے سامنے رکھ کر ان سے اس پر فتویٰ کا تقاضہ بھی کیا ۔سعودی علماء کی کمیٹی برائے افتاء نے اس پر جو فتویٰ دیا وہ اردو ترجمہ سمیت یہاں دیا جارہا ہے ۔
سعودی باشاہت کے کثیر معاملات میں اسلام سے انحراف کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں کے علمی حلقوں میں بڑی حد تک شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کی دعوت کے علمی اصول اور قواعد ابھی تک مسلم ہیں ۔مذکورہ فتویٰ دینے والے علماء گو وہاں کی حکومت سے کسی نہ کسی انداز میں تعاون کرتے ہیں اور اس کیلئے جو وجوہات وہ اپنے پاس رکھتے ہونگے وہ ہمیں معلوم نہیں تاہم اس فتوی سے یہ ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ نظریاتی سطح پر ابھی تک وہاں شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کے پڑھائے ہوئے اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورت حال ہو کم ازکم علمی سطح پر ان اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورتحال ہو کم ازکم علمی سطح پر ان اصولوں سے انحراف کا چلن عام ہوجانا ہرگز اتنا آسان نہیں۔بہرحال اﷲتعالیٰ ان علماء کو اس فتویٰ پر جزائے خیر عطا فرمائے ۔
علاوہ ازیں ہمارا اس فتویٰ کو شائع اور عام کرنے کا ایک اور اہم سبب بھی ہے ۔
برصغیر میں ایک وقت تھا کہ علماء نجد کی دعو ت وفکر شدید تنقید اور مخالفت کا نشانہ بنی رہی ۔گو ایک طبقہ ابھی تک اس دشمنی پرقائم ہے مگر محمد بن عبدالوہاب ؒ کی کتابوں کی یہاں نشرواشاعت ہوجانے کے بعد اور پھر احناف اور اہلحدیث مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد کے عرب جامعات میں پڑھ کر آنے سے صورتحال میں اب بہت فرق آچکا ہے ۔اور اب نہ صرف اس کے خلاف وہ پہلے والا تعصب کم ہوگیا ہے بلکہ طلبہ اورعلماء ومشائخ کا ایک قابل لحاظ طبقہ مشائخ نجد کے علمی ورثے کو وزن بھی دینے لگا ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے اس صالح ترین طبقہ میں عقیدہ کے جدید معاشرتی پہلوؤں نے تاحال وہ مطلوبہ اہمیت حاصل نہیں کی جوان کا حق تھا ۔پھر یہاں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جانے لگے جو حاکمیت کے مسئلہ کو بڑی حد تک غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔کم از کم اس کو عقیدہ کا مسئلہ تسلیم کرنے پرتیار نہیں ۔اور چند ایک حضرات تو لاعلمی یا بے توجہی کے باعث اس بات کو خارجیت گردانتے ہیں کہ کوئی غیر اﷲکا قانون چلانے والے حکمرانوں کو طاغوت کہہ دے۔اور جو ایسا کہے اسے یہ قابل قدر حضرات ’تکفیری‘کا خطاب دیتے ہیں ۔غرض انہی باتوں کے تقریبا سوچے سمجھے بغیر قائل ہیں جو خالد العنبری کی کتاب میں سوچ سمجھ کر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔بہرحال اس صالح اورموحد طبقہ میں گو ایسے حضرات بہت زیادہ نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ ہمارے خیال میں کسی بد دیانتی کی بنا پرایسا نہیں کرتے بلکہ اس کا سبب شاید ان کی بے توجہی اور اس مسئلہ پر پوری طرح غوروخوض نہ کیا ہونا ہے ۔
غرض اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں ہیں جو حکم وقانون کے باب میں توحید کے زبردست پرچار کے قائل ہیں مگر پہلے نوجوانوں میں علمی وثوق پید اکرنے کو ضروری سمجھتے ہیں ،جو کہ ایک صالح سوچ ہے ۔
غرض اس پورے طبقہ کے لیے ہی سعودی علماء کا یہ فتویٰ یقیناًفکر انگیز ہوگا جو اس مسئلہ میں اصولی طورپر بہت واضح ہے کہ حکم بغیر ماانزل اﷲپر تکفیر کرنا دراصل خوارج کا نہیں بلکہ سلف اور اہلسنت کا منہج ہے اور یہ کہ اسے کافر قرار دینے کیلئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ کہ وہ اپنے فعل کو زبان سے جائز اور حلال بھی کہتا ہو بلکہ یہ شرط لگانا اہلسنت کے مذہب کے خلاف ہے ۔۔۔بہرحال اپنے ان سب قابل احترام اساتذ�ۂکرام ،علماء ومشائخ اور طلبہ علم کے خصوصی استفادہ کیلئے بھی ہم نے یہ فتویٰ شائع کیا ہے ۔
عوام الناس کی سہولت کیلئے اس کا اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے ۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ علماء میں اسے زیادہ عام کردیں اور ان سے اس پر رائے طلب کریں ۔
اﷲتعالیٰ جلد وہ وقت لائے کہ دین توحید کو ان ملکوں اور خطوں میں ایک بار پھر عزت وسر بلندی نصیب ہو ۔
اللھم أبرم لھذہ الأمۃ امر رشد یعز فیہ اھل طاعتک ، ویزل فیہ اھل معصیتک ،
وےؤمر فیہ بالمعروف وینھی فیہ عن المنکر ، انک علی ما تشاء قدیر ۔
وصلی اﷲ علی نبیہ محمد و آلہ ۔
چنانچہ ایک عرصہ سے عالم اسلام میں جو سوال بار بار اٹھ رہا ہے اور عمومًا دین کی غیرت رکھنے والے نوجوانوں کی زبان پر رہتا ہے وہ یہ کہ موجودہ حکمرانوں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور مسلمانوں سے ان سے تعامل کی نوعیت کیا ہونا چاہیے۔جس کا جواب ہمارے ہاں علماء کی جانب سے عموماً یہ آتا رہا کہ مسلمان حکمرانوں کے حقوق وفرائض یہ یہ ہوا کرتے ہیں اور شریعت کی رو سے رعایا کے ان سے تعلقات ایسے ایسے ہونے چاہئیں ! یعنی سوال کچھ ہے تو جواب کچھ اور! یہی وجہ ہے کہ بار بار یہی سوال اٹھنے کے باوجود اور علماء کرام کی جانب سے باربار اس کا جواب آنے کے باوجود کسی کی تشفی نہیں ہوپارہی کیونکہ اس مسئلہ میں جتنی بھی آنکھیں چرائی جاتی رہیں یہ اپنی جگہ برقرار ہے اور علماء دین اور زعمائے امت سے جرا ء ت گفتار اور افضل الجہاد کا بدستور تقاضا کررہا ہے کہ وہ امت کے نوجوانوں کو کھل کربتائیں کہ موجودہ حکمران جو جانتے بوجھتے اور ہوش وحواس رکھتے ہوئے رب العالمین کی شریعت کو ایوان اقتدار سے بے دخل کرکے لاکھوں مربع میل کے ا ند ر کروڑوں انسانوں کی گردنوں پر صریحاً غیر اﷲکا حکم اور قانون چلاتے ہیں آیا مسلمان ہیں یا کافر ؟موحد ہیں یا مشرک ؟اورکیا مسلمانوں کو ان کی وفاداررعایا بن کر رہنا چاہیے اور (الدین النصیحۃ والی حدیث کے مطابق )ان کی خیر خواہی اور اعانت کرنی چاہیے(جو کہ اس حدیث کی رو سے آئمۃ المسلمین کا حق ہے )یا ان کے لیے شریعت کا کوئی اور حکم ہے؟اور کیا شرک کا ارتکاب کرنے کے باوجود بلکہ بار بار سمجھائے جانے پر بھی شرک کرتے رہنے کے باوجود کلمہ گوہونا ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے ؟ملک کے طول وعرض میں شرک کی تہذیب وثقافت ،کفر کا قانون اور استعمار کا دین پورے منظم اور باقاعدہ انداز میں رائج کرنے کے بعد بھی ان حکمرانوں کی کلمہ گوئی کا ڈھنڈورا پیٹا جانا شریعت میں کیا وقعت رکھتا ہے ؟اخباروں میں ان کے حج وعمرہ کرنے کی تصویریں چھپنے اور سیرت کانفرنسوں کے افتتاح کرنے کا امت کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟؟
یہ ہے وہ اصل سوال جس پر مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلا ہوا اور برسہا برس سے تہذیب کفار کے پنجوں میں گرفتار عالم اسلام چیخ چیخ کر زعمائے دین کو دعوت سخن دے رہا ہے ۔حالات کی تیزی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح اس سوال کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف جس انداز سے ابنائے اسلام میں دین کا شعور بڑھ رہا ہے ،لگتا ہے بہت دیر تک اس سوال کو سرد خانے میں پڑا رہنے دینا اب کسی کے بس میں نہ ہوگا ۔
سوال کا صحیح تعین ہوجا ئے تو شریعت میں اس کا جواب پانا کچھ مشکل نہیں ۔جو آدمی اﷲکی مخلوق پر اﷲکے حکم اور قانون کی بجائے اپنا حکم اورقانون چلائے وہ اﷲکا شریک اور ہم سر ہے ۔شریعت کی اصطلاح میں اس کو طاغوت کہا جاتا ہے ۔ایک طاغوت اور ایک مسلم حکمران میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اگرچہ مسلم حکمران ظالم اور فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ان دونوں کا حکم ایک کردینا کسی ظلم عظیم سے نہیں ۔
مگر چونکہ پاکستان میں لفظ طاغوت کا استعمال بڑی حد تک شرعی سے زیادہ سیاسی رہاہے اس لیے باوجود یہ کہ لفظ زبان زد عام ہے اس کا صحیح ادراک اور درست اطلاق بہت کم لوگ کرتے ہیں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو کسی حکمران کو ناانصافی یا بدعنوانی یا عوانی آزادیاں سلب کرنے کی وجہ سے ناپسندیدہ قرار دینے کے لیے یا اس پر اپنا احتجاج واضح کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔حالانکہ ایسی حرکت کسی ظالم یا فاسق مسلم حکمران سے بھی ہوسکتی ہے مذہب خوارج کے برعکس جبکہ دوسری جانب ایسے نکتہ درحضرات ہیں جو حکمران کو جھٹ سے طاغوت کہہ دیتے ہیں مگر اسے دائرہ اسلام میں بدستور داخل بھی سمجھتے ہیں اور اس پر کفر یا شرک کا اطلاق کرنا خلاف ادب جانتے ہیں یہ حضرات طاغوت اور مسلم کے الفاظ کو قطعی متضاد نہیں سمجھتے حالانکہ شریعت کی اصطلاح میں طاغوت کسی شخص کے کافر یامشرک ہونے کی بدترین شکل ہے ۔ایک آدمی غیر اﷲکی بندگی کرکے بھی مشرک تو کہلاسکتا ہے مگرضروری نہیں کہ وہ طاغوت کے درجے کو بھی پہنچتا ہو۔
طاغوت وہ اس صورت میں قرار پائے گا جب وہ مخلوق سے خود اپنی ہی بندگی کرائے اور س پر اپنا حکم چلانے لگے شرک کے اس آخری درجے کو پہنچنے کے بعد ہی اس پر اس گھناؤنے لفظ کا اطلاق ہوگا چنانچہ جب آپ نے کسی کو طاغوت کہہ دیا تو اسے کافر اور مشرک کہنے میںآپ نے کوئی کسر ہی نہ چھوڑی۔بلکہ ایسا ویسا مشرک ہی نہیں آپ نے اس کو بدترین مشرک کہہ دیا ہے۔بشرطیکہ آپ اس لفظ کا مطلب جانتے ہوں ۔بلکہ تو یہ کہنا بہتر ہوگا کہ آپ اس کا تاحال مسلمان ہی قرار دینا چہ معنی دارد؟
عقیدہ توحید میں یہ مسئلہ بہت واضح ہے ۔گویا یہ مسئلہ مسلمان طبقوں میں عام کرنا اشد ضروری ہے ۔امت اسلام پر وقت کے باطل نظاموں اور مشرکانہ تہذیب وتمدن کی صورت میں لگ بھگ ایک ڈیڑھ صدی سے جو بدترین آفت مسلط ہے وہ امت کی پوری تاریخ میں اس برے انداز سے اور ایک بڑی سطح پر کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ایسے میں امت کے مخلص اور سنجیدہ ذہنوں میں بار بار یہ سوال اٹھنا ایک طبعی امر تھا کہ ان نظاموں کا شریعت میں کیا حکم ہے اور یہاں ارباب اختیار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟جس نے بھی دقت نظر سے شریعت میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی اسے ایک ہی واضح جواب ملا۔طاغوت ! نتیجتًا وقت کے حکمرانوں کا یہ شرعی لقب رفتہ رفتہ معروف ہوتا گیا ۔چونکہ امت کی تاریخ میں یہ مسئلہ ہی بالکل نیا تھا اس سے پہلے غیر اﷲکے حکم کو ملک کے طول وعرض میں باقاعدہ رسمی اور آئینی طور پرقانون عام کی حیثیت کبھی دی ہی نہیں گئی اور نہ کبھی تہذیب اور ثقافت میں کفار کی ایسی حرف بہ حرف اتباع کروائی گئی اس لیے حکمرانوں کا یہ لقب طاغوت سے بھی ظاہر ہے نیا ہی ہوسکتا تھا اور شریعت کی رو سے حکام وقت کی حیثیت بھی نئی ہی ہونی چاہیے تھی مگر یہ نئی بات ہوجانے پر کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہونا بھی ضروری تھے ہوتابھی کیوں نہ جہاں پڑھانے کے لیے ابھی تک فارسی کا ذریعہ استعمال ہوتاہو(حالانکہ برصغیر میں سوسال سے اس کی ضرورت مائل بہ زوال ہے)وہاں اتنی بڑی بات کو طرز کہن سے خروج کیوں نہ سمجھا جاتا !ان حضرات کو اس بات سے تو کچھ خاص غرض نہیں تھی کہ امت میں یہ مسئلہ سرے سے نیا ہے اور یہ کہ جب سے ہمارے حکمران فرنگ سے درآمد ہونے لگے ہیں یہ سوال ہی تب سے اٹھا ہے ۔البتہ احتجاج صرف اس بات پر ضروری جاناگیا کہ اس مسئلہ کا حل نیا کیوں ہے ؟یعنی اس کا بھی وہ پہلے والا حل کیوں نہیں دیا جاتا جو سلف کے دور میں رائج رہا اور بنوامیہ وبنوعباس سے لے کر سلاطین کے زمانے تک اورنیل سے لے کرکاشغر تک بھلے وقتوں میں مشاہیر اسلام کی زبان سے دیا جاتارہا!!!
رفتہ رفتہ ان معترضین نے یہ باقاعدہ مذہب اختیار کرلیا کہ وقت کے حکمرانوں کو طاغوت یا مشرک کہنا ۔حتیٰ کہ بعض کے نزدیک توان حکمرانوں کی خالی مخالفت کرنا اور اﷲکے عباد اور بلاد پر ان کی طاقت کا سکہ نہ چلنے دینا کی بات کرنا ہی ۔’سلف کے منہج کے خلاف ہے ‘!!! اور یہ کہ سلف کے منہج پر چلنے والے صرف وہی لوگ ہیں جو ان حکمرانوں کے جنود میں شامل نظر آئیں !!یا کم ازکم بھی وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک کے نظام سے کوئی سروکار نہ رکھیں!ان میں سے ’تحقیق‘میں آگے گزرنے والے اصحاب نے تو ان غیور مسلمانوں کے تانے ‘جو باطل نظاموں اور حکمرانوں کی وفادار رعایابن کر رہنے کیلئے تیار نہیں ،سیدھے خوارج سے جا ملائے اور عوام الناس میں ان کے لیے ’تکفیری‘اور ’خارجی‘کے الفاظ عام کیے ۔
اب بھلا ’سلف کے منہج کے خلاف ‘چلنے کی جراء ت کون کرے! آخر ایمان بچانے کی فکر کسے نہ ہو !پھر ایمان کے ساتھ جان بھی بچتی ہو تو حکمرانوں سے وفاداری سے انکار کی کیا دلیل ہوسکتی ہے !! یوں توحید کی فطرت پر چلنے والے غیور مسلمانوں کو علم کی مار دینے کی ایک اسکیم تیار کرلی گئی جو کہ حکمرانوں کی ایک اہم ضرورت تھی ۔گو اغلب یہی ہے کہ یہ ’دریافت ‘پہلے پہل حکمرا نوں کی فرمائش کے بغیر وجود میں آئی البتہ ظہور میں آجانے کے بعد تو اسے پذیرائی دلانے میں کسی کو مضائقہ بھی کیا ہو سکتا تھا! یوں بھی بڑے بڑے منصوبے حکومتی سرپرستی کے بغیر چلنے نہیں ہوتے ۔چنانچہ عالم عرب کے اندر مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے کہ منہج سلف کے ’سرکاری ترجمانوں ‘نے اصلاح کیلئے میدان میں اترنے والی ہر تحریک اور ہر شخصیت کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور باغی ،بدعتی ،ایمان کیلئے خطرہ ،قابل قید ومشقت اور گردن زنی قرار دے رکھا ہے۔
یہاں ہمارے ان قارئین کو جو صرف اردو جرائد کا مطالعہ کرتے ہیں صورتحال کا اندازہ کرنے میں شاید کچھ مشکل پیش آرہی ہو۔جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کی بحثوں نے ابھی وہ زور نہیں پکڑا جو عرب ملکوں میں ایک عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے ۔خصوصاً وہ معرکہ آرائی جو پچھلے کئی سالوں سے سعودی عرب میں برپاہے اور شیخ سفر الحوالی اور شیخ ،سلمان العودۃ کی تقریر وتحریر کی محنت اور پھر آخر میں ان کی گرفتاریوں نے جو اس فضامیں مزید ارتعاش پیدا کردیا ہے اس کے تناظر میں علمی حلقوں کے اندر اس مسئلہ پر لے دے بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی باز گشت اب پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام میں سنی جانے لگی ہے۔
اﷲکی شریعت کو پس پشت ڈال کر مخلوق کی شریعت کو قانون عام کا درجہ دینے والے یہ حکمران کفر کے مرتکب کہلانے سے صرف ایک صورت میں بچ سکتے تھے ۔۔۔۔یا بچائے جاسکتے تھے اور وہ یہ کہ ’ارجاء‘کے عقیدے کو امت میں عام کردیا جائے ،جبکہ وہ پہلے ہی بہت عام ہے اور اﷲکے دشمنوں کااب تک برسراقتدار رہنا اسی کا مرہون منت ہے ۔یہ ’ارجاء ‘کیا ہے ؟امت کی تاریخ میں ایک مشہور بدعت گزری ہے ۔بلکہ گزری بھی کیا مختلف شکلوں اور صورتوں میں اب تک چل رہی ہے اس کی رو سے آدمی عملاً شرک کرتے رہنے سے مشرک نہیں ہوتا صرف اس کا اعتقاد رکھنے سے ہوتا ہے ۔چنانچہ ایک کلمہ گو شرک اور کفر کا خواہ کوئی کام کرے ۔بس دل میں اس کو صحیح نہ سمجھے اور زبان سے اس کوحلال کہنے کی بھی حماقت نہ کرے تو وہ مسلمان اورموحد ہی گنا جائے گا !یعنی کفر اور شرک کے افعال بھی عام گناہوں کی طرح ایک گناہ ہیں اور محض ان کے عملی ارتکاب سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا ۔چنانچہ خوارج جہاں ایک انتہاء پر گئے اور عام گناہوں کے کاموں کو بھی افعال شرک کے ساتھ ملادیا وہاں یہ مرجۂ دوسری انتہاء پر گئے جنہوں نے افعال شرک وکفر کو بھی عام گناہوں کے ساتھ یکجا کردیا ۔
اصولی طور پر یہ دونوں گمراہیاں اس ایک مسئلہ پر ایک ہوجاتی ہیں کہ کفریہ اعمال اور عام گناہوں میں کوئی فرق نہیں !جبکہ اہل سنت کے نزدیک ان میں واضح فرق ہے ،جن افعال کو شریعت نے صرف گناہ اور فسق کہا ہے ان پر اصرار سے آدمی فاسق ہوگا اور جن افعال کو اﷲاور رسول کفر یا شرک کہیں ان پر اصرار کرنے سے وہ کافر اور مشرک ہوسکتا ہے ۔او ر یہ تو واضح ہے کہ اﷲکے قانون کی بجائے کوئی دوسرا قانون چلانے کو اﷲاور رسول نے کفر کہا ہے ۔
چنانچہ طاغوتوں کو ’اولی الامر ‘کا درجہ دلانے کے لئے ارجاء کے اس عقیدہ کا ایک نئے زور وشور سے ڈول ڈالا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اس کا یوں غلغلہ کردیا گیا کہ آدمی اس سے واقعی سمجھ لے کہ شاید سلف اور اہلسنت کا یہی عقیدہ ہے اور حاکم بغیر ماانزل اﷲکوکافر کہنا بالفعل خوارج کا ہی مذہب ہے۔پاکستان میں بھی دھیمے سروں پر یہ نغمہ سننے کو مل جاتا رہا ہے تاہم عرب میں تو اس کا آہنگ اتنا اونچا رہا کہ کان پھٹنے کو آنے لگے ۔تصنیفات اور تالیفات کی بھرمار ہوئی اور ان کی اشاعت کا تو کوئی حد وحساب ہی نہ رہا ۔کچھ عرصہ بیشتر اس سلسلہ کی ایک اہم تصنیف ’’الحکم بغیر ماانزل اﷲواصول تکفیر‘‘سعود ی عرب میں بطور خاص مقبول کروائی گئی اور حکام کے ’پکا مسلمان ‘ہونے کے کے مسئلہ میں سلف اور اہلسنت کے منہج پر اتھارٹی قرار دی گئی ۔خالد بن علی العنبری نامی ایک صاحب کی یہ کتاب ،جو حکمرانوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی تھی ،لازمی تھا کہ علمی حلقوں میں بھی موضوع بحث بنتی کیونکہ اس میں بڑی بڑی باتیں سلف سے زبردستی منسوب کردی گئی تھیں ۔اس کتاب پر بھی تفصیلی روشنی تو کسی اور مضمون میں ڈالی جاسکتی ہے یہاں ہمارے لئے صرف اس کے مرکزی خیال کا ذکر کرنا ہی ممکن ہوگا اور وہ اس لیے کہ مضمون کے اختتام پر اس کتا ب کے بارے میں سعودی علماء کا جو فتویٰ دیا جارہا ہے قارئین کو اسے سمجھنے میں آسانی رہے ۔چنانچہ اس کتاب کے بنیادی نکات یہ تھے ۔
۱۔ حکم بغیر ما انزل اﷲکا فعل کفر نہیں ،الا یہ کہ حکمران اس کو جائزاور حلا ل کہے ۔یعنی اس فعل کی فی نفسہٖ نوعیت باقی گناہوں جیسے ایک گناہ کی ہوگی۔
۲۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مصنف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی اس بات پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے!
۳ ۔ پھر اس کی اس بات سے اختلاف رکھنا اس کے خیال میں خوارج کا عقیدہ ہے ۔
۴۔ چونکہ قاضی کا کسی ایک قضیہ میں بددیانتی یا بدعنوانی کے باعث خلاف شریعت فیصلہ دینا سلف کے ہاں کفر دون کفر (وہ چھوٹا کفر جس سے آدمی ملت سے خارج نہیں ہوتا)شمار ہوتا ہے اس لیے مصنف کے نزدیک تشریع عام بھی ویسا ہی ایک گناہ ہے یعنی مصنف کے نزدیک فہم سلف کی رو سے :
اس بات میں کہ اسلامی نظام کے اندر کوئی قاضی یاحاکم کسی ایک آدھ قضیے میں کسی ایک آدھ بار بددیانتی سے شریعت کے خلاف فیصلہ دیدے اور اس بات میں کہ ملک میں ایک خلاف شریعت امر کو باقاعدہ رسمی طور پر قانون عام (پبلک لاء)کا درجہ حاصل ہو اور عدالتوں میں اسے مرجع اور سند کی حیثیت دے دی جائے کوئی فرق نہیں ۔ہردوصورت میں حکمران بدستور مسلمان رہے گا !!
اتنے بڑے بڑے اور بے بنیاد دعوے ظاہر ہے کہ دن کی روشنی میں کام نہیں دے سکتے تھے ۔گو مصنف نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں شرعی نصوص کے مفہومات اور علمائے سلف کے اقوال کو توڑمروڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی (جیسا کہ فتویٰ کی عبارت میں بھی اس کی اس حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے)مگر یہ کوشش اس کو فائدہ تو کیا دیتی الٹا اس کے لیے گلے کاپھندہ بن گئی ۔سمجھ دار لوگوں نے اس کے مدلل جواب تو لکھے ہی مگر انہوں نے اس کتاب کو سعودی کبار علماء کے سامنے رکھ کر ان سے اس پر فتویٰ کا تقاضہ بھی کیا ۔سعودی علماء کی کمیٹی برائے افتاء نے اس پر جو فتویٰ دیا وہ اردو ترجمہ سمیت یہاں دیا جارہا ہے ۔
سعودی باشاہت کے کثیر معاملات میں اسلام سے انحراف کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں کے علمی حلقوں میں بڑی حد تک شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کی دعوت کے علمی اصول اور قواعد ابھی تک مسلم ہیں ۔مذکورہ فتویٰ دینے والے علماء گو وہاں کی حکومت سے کسی نہ کسی انداز میں تعاون کرتے ہیں اور اس کیلئے جو وجوہات وہ اپنے پاس رکھتے ہونگے وہ ہمیں معلوم نہیں تاہم اس فتوی سے یہ ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ نظریاتی سطح پر ابھی تک وہاں شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کے پڑھائے ہوئے اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورت حال ہو کم ازکم علمی سطح پر ان اصولوں کی دھاک سب پر کس طرح بیٹھی ہوئی ہے اور عملی سطح پر وہاں جو بھی صورتحال ہو کم ازکم علمی سطح پر ان اصولوں سے انحراف کا چلن عام ہوجانا ہرگز اتنا آسان نہیں۔بہرحال اﷲتعالیٰ ان علماء کو اس فتویٰ پر جزائے خیر عطا فرمائے ۔
علاوہ ازیں ہمارا اس فتویٰ کو شائع اور عام کرنے کا ایک اور اہم سبب بھی ہے ۔
برصغیر میں ایک وقت تھا کہ علماء نجد کی دعو ت وفکر شدید تنقید اور مخالفت کا نشانہ بنی رہی ۔گو ایک طبقہ ابھی تک اس دشمنی پرقائم ہے مگر محمد بن عبدالوہاب ؒ کی کتابوں کی یہاں نشرواشاعت ہوجانے کے بعد اور پھر احناف اور اہلحدیث مدارس کے طلبہ کی ایک معتد بہ تعداد کے عرب جامعات میں پڑھ کر آنے سے صورتحال میں اب بہت فرق آچکا ہے ۔اور اب نہ صرف اس کے خلاف وہ پہلے والا تعصب کم ہوگیا ہے بلکہ طلبہ اورعلماء ومشائخ کا ایک قابل لحاظ طبقہ مشائخ نجد کے علمی ورثے کو وزن بھی دینے لگا ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے اس صالح ترین طبقہ میں عقیدہ کے جدید معاشرتی پہلوؤں نے تاحال وہ مطلوبہ اہمیت حاصل نہیں کی جوان کا حق تھا ۔پھر یہاں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جانے لگے جو حاکمیت کے مسئلہ کو بڑی حد تک غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔کم از کم اس کو عقیدہ کا مسئلہ تسلیم کرنے پرتیار نہیں ۔اور چند ایک حضرات تو لاعلمی یا بے توجہی کے باعث اس بات کو خارجیت گردانتے ہیں کہ کوئی غیر اﷲکا قانون چلانے والے حکمرانوں کو طاغوت کہہ دے۔اور جو ایسا کہے اسے یہ قابل قدر حضرات ’تکفیری‘کا خطاب دیتے ہیں ۔غرض انہی باتوں کے تقریبا سوچے سمجھے بغیر قائل ہیں جو خالد العنبری کی کتاب میں سوچ سمجھ کر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔بہرحال اس صالح اورموحد طبقہ میں گو ایسے حضرات بہت زیادہ نہیں اور جو ہیں بھی تو وہ ہمارے خیال میں کسی بد دیانتی کی بنا پرایسا نہیں کرتے بلکہ اس کا سبب شاید ان کی بے توجہی اور اس مسئلہ پر پوری طرح غوروخوض نہ کیا ہونا ہے ۔
غرض اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں ہیں جو حکم وقانون کے باب میں توحید کے زبردست پرچار کے قائل ہیں مگر پہلے نوجوانوں میں علمی وثوق پید اکرنے کو ضروری سمجھتے ہیں ،جو کہ ایک صالح سوچ ہے ۔
غرض اس پورے طبقہ کے لیے ہی سعودی علماء کا یہ فتویٰ یقیناًفکر انگیز ہوگا جو اس مسئلہ میں اصولی طورپر بہت واضح ہے کہ حکم بغیر ماانزل اﷲپر تکفیر کرنا دراصل خوارج کا نہیں بلکہ سلف اور اہلسنت کا منہج ہے اور یہ کہ اسے کافر قرار دینے کیلئے ہرگز یہ شرط نہیں کہ کہ وہ اپنے فعل کو زبان سے جائز اور حلال بھی کہتا ہو بلکہ یہ شرط لگانا اہلسنت کے مذہب کے خلاف ہے ۔۔۔بہرحال اپنے ان سب قابل احترام اساتذ�ۂکرام ،علماء ومشائخ اور طلبہ علم کے خصوصی استفادہ کیلئے بھی ہم نے یہ فتویٰ شائع کیا ہے ۔
عوام الناس کی سہولت کیلئے اس کا اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے ۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ علماء میں اسے زیادہ عام کردیں اور ان سے اس پر رائے طلب کریں ۔
اﷲتعالیٰ جلد وہ وقت لائے کہ دین توحید کو ان ملکوں اور خطوں میں ایک بار پھر عزت وسر بلندی نصیب ہو ۔
اللھم أبرم لھذہ الأمۃ امر رشد یعز فیہ اھل طاعتک ، ویزل فیہ اھل معصیتک ،
وےؤمر فیہ بالمعروف وینھی فیہ عن المنکر ، انک علی ما تشاء قدیر ۔
وصلی اﷲ علی نبیہ محمد و آلہ ۔
مملکت سعودی عرب
سربراہی برائے علمی تحقیقات وافتاء
جنرل سکریٹریٹ ‘کمیٹی برائے اکابر علماء
(فتوی نمبر)۴۵۱۱۲
ؤرخہ ۴ ۲ شوال ۰۲۴۱ھ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء (اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمےۃ والافتاء)
کابیان بابت خالد علی العنبری کی تصنیف کردہ ایک کتاب بعنوان
’’الحکم بغیر ما انزل اﷲ واصول التکفیر‘‘
الحمد ﷲ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وعلی آلہ وصحبہ ، وبعد
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء نے خالد العنبری کی تصنیف ’’الحکم بغیر ما انزل اﷲ واصول التکفیر‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد واضح ہوا ہے کہ اس کتاب میں اہلسنت وجماعت کے علماء کے جو حوالے دئیے گئے ہیں ان (کے نقل کرنے )میں علمی دیانت سے کام نہیں لیاگیا اور دلائل کے اس مفہوم میں تحریف کی گئی ہے جس کا عربی زبان اورمقاصد شریعت دراصل تقاضا کرتے ہیں ۔ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ہے
۱۔ مصنف نے شرعی دلائل کے مفہوم اورمعانی میں تحریف کی ہے ۔اہل علم کی بعض تحریروں میں تصرف سے کام لیا ہے ۔عبارت کہیں یوں حذف کردی ہے اور کہیں انداز سے تبدیل کردی ہے کہ جس سے عبارت کی سرے سے مراد ہی اور نظر آئے ۔
۲۔ اہل علم کے بعض اقوال کی ایسی تفسیر کی ہے جو ان کا مقصود اورمراد ہی نہیں۔
۳۔ مصنف نے اہل علم پر جھوٹ بھی باندھا ہے جیسا کہ اس نے علامہ شیخ محمد ابراہیم آل شیخ رحمہ اﷲ سے وہ قول منسوب کردیا ہے جو انہوں نے کہیں نہیں کہا .
۴۔ مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل سنت کا اس بات اجماع ہے کہ ایسا آدمی کافر نہیں ہوتا جو قانون عام میں اﷲکی نازل کردہ شریعت کے بغیر حکم چلائے الا یہ کہ وہ اس عمل کو دل سے جائز سمجھتا ہو یعنی یہ کہ یہ ان باقی گناہوں جیسا ایک گناہ ہے جو کفر تک نہیں پہنچے۔ حالانکہ یہ مذہب اہل سنت پر نرا بہتان ہے جو یا تو جہالت کا شاخسانہ ہے یا بدنیتی کا ۔اﷲاپنی عافیت میں رکھے ۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر کمیٹی یہ رائے اختیار کرتی ہے کہ مذکورہ کتاب کی طباعت ،تقسیم اور فروخت ممنوعہ قرار دی جائے ۔مصنف کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ سے توبہ کرے اور معتمد اہل علم سے رجوع کرے تاکہ ان سے علم حاصل کرے اور وہ اس کی غلطیوں کی اس نشان دہی کرکے دیں۔
اﷲسے دعا ہے کہ وہ سبھی کو اسلام اورمذہب سنت پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطافرمائے اور اس پر ثابت قدم رکھے ۔
وصلی اﷲ وسلم علی نبینا وآلہ وصحبہ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء
سربراہی برائے علمی تحقیقات وافتاء
جنرل سکریٹریٹ ‘کمیٹی برائے اکابر علماء
(فتوی نمبر)۴۵۱۱۲
ؤرخہ ۴ ۲ شوال ۰۲۴۱ھ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء (اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمےۃ والافتاء)
کابیان بابت خالد علی العنبری کی تصنیف کردہ ایک کتاب بعنوان
’’الحکم بغیر ما انزل اﷲ واصول التکفیر‘‘
الحمد ﷲ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وعلی آلہ وصحبہ ، وبعد
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء نے خالد العنبری کی تصنیف ’’الحکم بغیر ما انزل اﷲ واصول التکفیر‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد واضح ہوا ہے کہ اس کتاب میں اہلسنت وجماعت کے علماء کے جو حوالے دئیے گئے ہیں ان (کے نقل کرنے )میں علمی دیانت سے کام نہیں لیاگیا اور دلائل کے اس مفہوم میں تحریف کی گئی ہے جس کا عربی زبان اورمقاصد شریعت دراصل تقاضا کرتے ہیں ۔ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ہے
۱۔ مصنف نے شرعی دلائل کے مفہوم اورمعانی میں تحریف کی ہے ۔اہل علم کی بعض تحریروں میں تصرف سے کام لیا ہے ۔عبارت کہیں یوں حذف کردی ہے اور کہیں انداز سے تبدیل کردی ہے کہ جس سے عبارت کی سرے سے مراد ہی اور نظر آئے ۔
۲۔ اہل علم کے بعض اقوال کی ایسی تفسیر کی ہے جو ان کا مقصود اورمراد ہی نہیں۔
۳۔ مصنف نے اہل علم پر جھوٹ بھی باندھا ہے جیسا کہ اس نے علامہ شیخ محمد ابراہیم آل شیخ رحمہ اﷲ سے وہ قول منسوب کردیا ہے جو انہوں نے کہیں نہیں کہا .
۴۔ مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل سنت کا اس بات اجماع ہے کہ ایسا آدمی کافر نہیں ہوتا جو قانون عام میں اﷲکی نازل کردہ شریعت کے بغیر حکم چلائے الا یہ کہ وہ اس عمل کو دل سے جائز سمجھتا ہو یعنی یہ کہ یہ ان باقی گناہوں جیسا ایک گناہ ہے جو کفر تک نہیں پہنچے۔ حالانکہ یہ مذہب اہل سنت پر نرا بہتان ہے جو یا تو جہالت کا شاخسانہ ہے یا بدنیتی کا ۔اﷲاپنی عافیت میں رکھے ۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر کمیٹی یہ رائے اختیار کرتی ہے کہ مذکورہ کتاب کی طباعت ،تقسیم اور فروخت ممنوعہ قرار دی جائے ۔مصنف کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ سے توبہ کرے اور معتمد اہل علم سے رجوع کرے تاکہ ان سے علم حاصل کرے اور وہ اس کی غلطیوں کی اس نشان دہی کرکے دیں۔
اﷲسے دعا ہے کہ وہ سبھی کو اسلام اورمذہب سنت پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطافرمائے اور اس پر ثابت قدم رکھے ۔
وصلی اﷲ وسلم علی نبینا وآلہ وصحبہ
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء
دستخط صدر کمیٹی
عبدالعزیز بن عبداﷲبن محمد آل شیخ
دستخط رکن کمیٹی
بکر بن عبداﷲابوزید
دستخط رکن کمیٹی
عبداﷲبن عبدالرحمان الغدیان
دستخط رکن کمیٹی
صالح بن فوزان الفوزان
عبدالعزیز بن عبداﷲبن محمد آل شیخ
دستخط رکن کمیٹی
بکر بن عبداﷲابوزید
دستخط رکن کمیٹی
عبداﷲبن عبدالرحمان الغدیان
دستخط رکن کمیٹی
صالح بن فوزان الفوزان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں