ہفتہ، 26 مارچ، 2016

طلاق اور رحوع كا طريقه


الحمد للہ:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور يہ پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى ابھى عدت ميں ہى ہو اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو ( يعنى حاملہ ہو تو وضع حمل نہ ہوا ہو، يا پھر اس كے تين حيض پورے نہ ہوئے ہوں ) تو خاوند كے ليے اپنى بيوى سے رجوع كرنا جائز ہے.
اور وہ رجوع كے ليے " ميں نے تجھ سے رجوع كيا " يا پھر ميں نے تجھے ركھ ليا " كہے تو يہ رجوع صحيح ہوگا، اسے اس پر دو گواہ بھى بنانا ہونگے، يا پھر رجوع كى نيت سے بيوى سے تعلقات قائم كرے يعنى جماع كر لے تو بھى اس سے رجوع ہو جائيگا.
رجوع ميں دو گواہ بنانا سنت ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ جب وہ عورتيں اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں ت وانہيں يا تو قاعدہ كے مطابق اپنے نكاح ميں رہنے دو يا پھر دستور كے مطابق انہيں اپنے سے الگ كر دو اور آپس ميں دو عادل شخصوں كو گواہ بنا لو }الطلاق ( 2 ).
اس طرح رجوع ہو جائيگا.
ليكن اگر پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى كى عدت ختم ہو جائے تو پھر نيا عقد نكاح كرنا ضرورى ہے، تو وہ اس ميں باقى مردوں كى طرح بيوى كے ولى كو نكاح كا پيغام دے كر اس سے رشتہ طلب كريگا، اور جب ولى اور عورت رضامند ہو تو پھر نئے مہر كے ساتھ گواہوں كى موجودگى ميں رضامندى كے ساتھ عقد نكاح ہوگا.
ليكن جب اسے آخرى ( يعنى تيسرى ) طلاق ہو جائے تو وہ عورت اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے، حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے شرعى نكاح رغبت كرے يعنى وہ اس سے نكاح كر كے اس سے وطئ كرے اور پھر اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے }البقرۃ ( 230 ).
يہ حلال نہيں كہ كوئى شخص كسى آدمى كے ساتھ اتفاق كر لے كہ وہ اس سے نكاح كرے اور بعد ميں اسے چھوڑ دے بلكہ يہ نكاح حلالہ كہلاتا ہے اور كبيرہ گناہ ہے، اس نكاح سے وہ عورت اپنے سابقہ خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى، بلكہ حلالہ كرانے اور حلالہ كرنے والے پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.

ديكھيں: كتاب: فتاوى الطلاق للشيخ عبد العزيز بن باز ( 1 / 195 - 210 ).

جمعہ، 25 مارچ، 2016

لوط كي قوم كا عذاب كيا تها .

الحمد للہ:
اول:
لواطت كا جرم سب جرائم سے بڑا، اور سب گناہوں سے سب سے زيادہ قبيح گناہ ہے، اور افعال ميں سے غلط ہے، اس كے مرتكب افراد كو اللہ تعالى نے وہ سزا دى ہے جو كسى اور امت كو نہيں دى، اور يہ جرم فطرتى گراوٹ، اور بصيرت كے اندھے پن، اور عقلى كمزورى، قلت دين پر دلالت كرتا ہے، اور ذلت و پستى كى علامت، اور محرومى كا زينہ ہے، اللہ تعالى سے ہم عافيت و معافى طلب كرتے ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جب لوط ( عليہ السلام ) نے اپنى قوم كو كہا كيا تم ايسى فحاشى كرتے ہو جو تم سے قبل كسى نے بھى نہي كى، يقينا تم عورتوں كى بجائے مردوں سے شہوت والے كام كرتے ہو، بلكہ تم تو حد سے بڑھى ہوئى قوم ہو، اس كى قوم كا جواب تھا كہ اسے تم اپنى بستى سے نكال باہر كرو يہ پاكباز لوگ بنے پھرتے ہيں، تو ہم نے اسے اور اس كے گھر والوں كو نجات دى، مگر اس كى بيوى پيچھے رہ جانے والوں ميں سے تھى، اور ہم نے ان پر آسمان سے پتھروں كى بارس برسائى، تو آپ ديكھيں كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا ﴾الاعراف ( 80 - 84 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
﴿ تيرى عمر كى قسم يقينا يہ تو اپنى مدہوشى ميں حيران پھرتے ہيں تو انہيں صبح كے وقت ايك چنگاڑ نے پكڑ ليا، اور ہم نے ان كى بستى كا اوپر والا حصہ نيچے كر ديا، اور ہم نے ان پر آسمان سے كنكروں كى بارش برسائى، يقينا اس ميں عقلمندوں كے ليے نشانياں ہيں، اور يہ باقى رہنے والى راہ ہے ﴾الحجر ( 72 - 76 ).
اس كے علاوہ كئى ايك آيات اور بھى ہيں.
ترمذى، ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم جسے قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1456 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4462 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2561 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى سےمروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قوم لوط جيسا عمل كرنے والے پر اللہ تعالى لعنت فرمائے، اللہ تعالى اس شخص پر لعنت فرمائے جو قوم لوط والا عمل كرتا ہے، يہ تين بار فرمايا"
مسند احمد حديث نمبر ( 2915 ) مسند احمد كى تحقيق ميں شيخ شعيب الارناؤط نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اور صحابہ كرام كا لوطى عمل كرنے والے كو قتل كرنے پر اجماع ہے، ليكن اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف كيا ہے.
ان ميں سے بعض صحابہ كرام تو اسے جلا كر قتل كرنے كے قائل ہيں مثلا على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما، اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كا بھى يہى قول ہے، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
اور ان ميں سے بعض كى رائے ہے كہ اسے اونچى جگہ سے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائيں مثلا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى رائے يہى ہے.
اور بعض صحابہ كرام اسے پتھروں سے رجم كرنے كے قائل ہيں حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے، يہ بھى ابن عباس اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
اور ان ميں سے بعض كا قول ہے كہ اسے قتل كيا جائيگا چاہے وہ كسى بھى حالت ميں ہو، شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور كچھ كا قول ہے كہ: بلكہ زانى جيسى سزا دى جائيگى، اگر تو شادى شدہ ہے تو اسے رجم كيا جائيگا، اور اگر غير شادى شدہ ہے تو اسے كوڑے مارے جائينگے.
اور بعض كا قول ہے كہ: اسے شديد قسم كى وہ تعزير لگائى جائيگى جسے حكمران مناسب سمجھے.
اس مسئلہ ميں ابن قيم رحمہ اللہ نے تفصيل بيان كرتے ہوئے فقھاء كرام كے دلائل بيان كرنے كے بعد اس كا مناقشہ بھى كيا ہے، اور پہلے قول كى تائيد كى ہے، انہوں نے اس فاحش اور منكر كام كا علاج اپنى كتاب " الجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافي " ميں تفصيلا بيان كيا ہے، يہاں ہم ان كى كلام كا كچھ حصہ ذكر كرتے ہيں:
" اور جب لواطت سب فساد اور خرابيوں سے زيادہ بڑى تھى تو دنيا و آخرت ميں اس كى سزا بھى سب سزاؤں سے بڑى ہوئى.
اس كى سزا ميں لوگوں كا اختلاف ہے كہ آيا اس كى سزا زنا سے بڑى ہے يا كہ زنا كى سزا بڑى ہے، يا دونوں كى سزا برابر ہے ؟
اس ميں تين قول پائے جاتے ہيں:
ابو بكر صديق اور على بن ابى طالب، اور خالد بن وليد، اور عبد اللہ بن زبير، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم، اور امام مالك، اسحاق بن راہويہ، اور امام احمد اصح ترين روايت ميں، اور امام شافعى اپنے ايك قول ميں اس طرف گئے ہيں كہ اس كى سزا زنا سے زيادہ سخت ہے، اور ہر حالت ميں اس كى سزا قتل ہے، چاہے شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور امام شافعى ظاہر مذہب، اور امام احمد دوسرى روايت ميں يہ كہتے ہيں كہ: اس كى سزا اور زانى كى سزا برابر ہے.
اور امام ابو حنيفہ كا كہنا ہے كہ اس كى سزا زانى كى سزا سے كم ہے اور وہ تعزير ہے. "
ابن قيم رحمہ اللہ يہاں تك كہتے ہيں:
" پہلے قول والے جو كہ جمہور امت ہيں، اور كئى ايك نے صحابہ كرام كا اس پر اجماع بيان كيا ہے ان كا كہنا ہے:
خرابيوں اور فساد ميں لواطت سے بڑھ كر كوئى خرابى اور فساد نہيں جو كفر كى خرابى سے ملتى ہے، اور بعض اوقات تو اس قتل سے بھى بڑھ كر ہے جيسا كہ ہم ان شاء اللہ بيان بھى كرينگے.
ان كا كہنا ہے: اللہ تعالى نے قوم لوط سے قبل كسى بھى قوم كو اس ميں مبتلا نہيں كيا، اور نہ ہى انہيں ايسى سزا دى جو كسى اور امت كو نہيں دى گئى، اور ان كو كئى قسم كى سزا دى گئى، جن ميں ان كى ہلاكت كے ساتھ ساتھ ان كے گھروں كو ان پر الٹا كر گرانا، اور انہيں زمين ميں دھنسانے كے ساتھ ساتھ آسمان سے پتھروں كى بارش كرنا، اور انہيں كى آنكھوں كو پھوڑ كر ركھ دينا، اور ان كا عذاب مستقل كرنا، تو اللہ تعالى نے ان كا انجام ايسا كيا اور انہيں وہ سزا دى جو كسى اور كو نہيں دى.
يہ اس اس عظيم جرم كى بنا پر تھى جس كى بنا پر قريب تھا كہ زمين پر اس عمل كا ارتكاب كرنے كى وجہ سے زمين ہلنے لگتى، اور جب فرشتے اس كا مشاہدہ كرتے تو اہل زمين پر عذاب نازل ہونے كےڈر سے وہ آسمان كى طرف بھاگ نكلتے كہ كہيں وہ بھى عذاب سے دوچار نہ ہو جائيں، اور زمين اپنے پروردگار كے سامنے احتجاج كرنے لگتى، اور پہاڑ اپنى جگہ سے ہل جاتے.
بدفعلى كيے جانے والے شخص كے ليے بہتر ہے كہ اسے قتل كر ديا جائے، كيونكہ جب كوئى شخص اس كے ساتھ بدفعلى كرتا ہے تو اسے وہ ايسا قتل كرتا ہے جس كے ساتھ زندگى كى اميد ہى نہى كى جا سكتى، بخلاف اس شخص كے جسے وہ قتل كر دے تو وہ مظلوم اور شہيد ہوتا ہے، اس كى دليل ( يعنى لواطت قتل سے بھى بڑى خرابى اور فساد ہے ) يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے قاتل كى حد كو مقتول كے ولى كے اختيار ميں ركھا ہے چاہے تو وہ اسے معاف كردے، اور چاہے تو اس سے قصاص لے، ليكن لواطت كى حد كو حتمى طور پر قتل ہى قرار ديا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا اس پراجماع ہے، اور سنت نبويہ بھى اس كى صراحت كرتى ہے، اور اس كا كوئى مخالف نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے خلفاء راشدين رضى اللہ تعالى عنہم نے اس پر عمل بھى كيا ہے.
صحيح روايت سے ثابت ہے كہ خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ نے عرب كے ايك علاقے ميں ديكھا كہ ايك مرد كے ساتھ وہى كچھ كيا جاتا ہے جس طرح عورت كے ساتھ تو انہوں نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا، چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے صحابہ كرام سے مشورہ كيا، تو اس كے متعلق ان سب ميں زيادہ شديد قول على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كا تھا، وہ كہنے لگے:
ايسا فعل تو صرف ايك امت نے كيا تھا، اور تمہيں علم ہے كہ اللہ تعالى نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا، ميرى رائے ہے كہ انہيں آگ ميں جلا كر راكھ كر ديا جائے، تو ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو انہيں جلا كر راكھ كر دينے كا لكھا.
اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:
بستى اور شہر ميں سب سے اونچى عمارت ديكھ كر لواطت كرنے والے شخص كو اس سے گرا كر اوپر سے پتھر برسائے جائينگے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اس حد كو قوم لوط كے عذاب سے اخذ كيا ہے.
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كرتے ہيں كہ:
" جسے تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
اسے اہل سنن نے روايت كيا ہے، اور ابن حبان وغيرہ نے صحيح قرار ديا ہے، ا ور امام احمد رحمہ اللہ نے اس حديث سے حجت اور دليل پكڑى ہے، اور اس كى سند بخارى كى شرط پر ہے.
وہ كہتے ہيں: اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے )
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كسى ايك ہى حديث ميں زانى پر تين بار لعنت نہيں آئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبيرہ گناہوں كے مرتكب افراد پر لعنت تو كى ہے، ليكن ايك بار سے زيادہ سے تجاوز نہيں كيا، اور لواطت كے متعلق تين بار تكرار كے ساتھ لعنت كى ہے.
اور پھر صحابہ كرام نے اس كے قتل پر عمل بھى كيا ہے، اور اس ميں كسى بھى دو صحابيوں كا اختلاف نہيں، بلكہ اسے قتل كرنے كے طريقہ كار ميں ان كا اختلاف پايا جاتا ہے، جسے بعض افراد نے اسے قتل كرنے ميں اختلاف سمجھا ہے، تو اسے صحابہ كرام كے مابين نزاعى مسئلہ بيان كيا ہے، حالانكہ يہ تو ان كے مابين مسئلہ اجماع ہے نہ كہ مسئلہ نزاع.
ان كا كہنا ہے: اور جو كوئى بھى اللہ سبحانہ وتعالى كے درج ذيل فرمان:
﴿ اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ، كيونكہ يہ فحاشى اور غضب كا باعث ہے، اور برا راستہ ہے ﴾.
اور لواطت كے متعلق فرمان بارى تعالى:
﴿ تو كيا تم ايسا فحش كام كرتے ہو جو تم سے قبل جہان والوں ميں سے كسى نے بھى نہيں كيا ﴾.
پر غور و فكر اور تامل كيا تو اس كے سامنے ان دونوں كے مابين فرق واضح ہو جائيگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا كو نكرہ ذكر كيا ہے، يعنى وہ فحش كاموں ميں سے ايك فحش كام ہے، اور اسے لواطت ميں معرفہ ذكر كيا ہے، جو فحاشى كے تمام معانى كو اپنے اندر جمع كرنے كا فائدہ دے رہا ہے، جيسے آپ كہيں كہ: زيد الرجل، اور نعم الرجل زيد.
يعنى: تم اس خصلت كا ارتكاب كر رہے ہو جس كى فحاشى ہر شخص كے ہاں مقرر ہے، جس ميں اس كى فحاشى اور كمال بيان كرنے كى كوئى ضرورت ہى نہيں رہتى، اس ليے كہ اسم كسى اور كى طرف منصرف نہيں ہو سكتا" .... انتہى
ديكھيں: الجواب الكافى ( 260 - 263 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لواطت كے بارہ ميں بعض علماء كرام كا قول ہے كہ اس كى حد زنا كى حد جيسى ہى ہے، اور اس كے علاوہ اور قول بھى كہا گيا ہے.
ليكن صحيح بات اور جس پر صحابہ كرام كا اتفاق ہے وہ يہ ہے كہ: اوپر اور نيچے والے دونوں كو ہى قتل كر ديا جائيگا، چاہے وہ شادى شدہ ہوں يا غير شادى شدہ، كيونكہ اہل سنن نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے بھى تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
اور ابو داود نے كنوارے لواطت كرنے والے شخص كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" اسے رجم كيا جائيگا "
اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اس جيسى روايت بيان كى جاتى ہے، لواطت كرنے والے شخص كو قتل كرنے ميں صحابہ كرام كے مابين كوئى اختلاف نہيں، ليكن اسے قتل كرنے كے كئى ايك طريقے بيان كيے ہيں.
چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے اسے جلانے كا حكم ديا تھا، اور ان كے علاوہ دوسروں سے قتل كرنے كا بيان كيا جاتا ہے.
اور بعض سے بيان كيا جاتا ہے كہ: اس پر ديوار گرا دى جائيگى حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: انہيں گندى اور بدبودار جگہ پر قيد كيا جائيگا حتى كہ وہ مر جائيں.
اور بعض كہتے ہيں:
اسے بستى ميں سب سے اونچى ديوار پر چڑھا كر اسے نيچے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائينگے، جس طرح اللہ تعالى نے قوم لوط كے ساتھ كيا تھا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ايك روايت يہى ہے، اور دوسرى روايت يہ ہے كہ اسے رجم كيا جائيگا، اكثر سلف كا مسلك يہى ہے.
ان كا كہنا ہے: كيونكہ اللہ تعالى نے قوم لوط كو رجم كيا تھا، اور قوم لوط سے مشابہت ميں زانى كو رجم كرنا مشروع كيا ہے، تو اس ليے دونوں كو ہى رجم كيا جائيگا، چاہے وہ آزاد ہوں يا غلام، يا ان ميں سے ايك غلام اور دوسرا آزاد ہو، جب دونوں بالغ ہوں تو انہيں رجم كيا جائيگا، اوراگر ان ميں سے كوئى ايك نابالغ ہو تو اسے قتل سے كم سزا دى جائيگى، اور صرف بالغ كو ہى رجم كيا جائيگا " انتہى.
ماخوذ از: السياسۃ الشرعيۃ صفحہ ( 138 ).
دوم:
جس كے ساتھ لواطت كى جائے وہ بھى فاعل كى طرح ہى ہے، كيونكہ وہ دونوں فحش كام ميں شريك ہيں، تو اس ليے ان كى سزا قتل ہے جيسا كہ حديث ميں بھى وارد ہے، ليكن اس سے دو صورتيں مستثنى ہونگى:
پہلى صورت:
جسے زدكوب كر كے يا قتل وغيرہ كى دھمكى دے كر لواطت كرنے پر مجبور كيا گيا ہو، تو اس پر كوئى حد نہيں.
شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:
" جس شخص كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ مكرہ ہو اور اسے قتل كر دينے دھمكى دے كر يا زدكوب كر كے مجبور كيا گيا ہو يا لواطت كرنے والا شخص اس پر غالب آ گيا ہو تو اس پر كوئى حد نہيں " انتہى بتصرف
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 348 ).
دوسرى صورت:
جس كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ چھوٹا بچہ ہو ابھى بالغ نہيں ہوا تو اس پر كوئى حد نہيں، ليكن اسے تعزير لگائى جائيگى ادب سكھايا جائيگا جس سے اس عمل كو روكنے ميں مدد ملے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كى كلام ميں بيان ہو چكا ہے.
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ نے " المغنى " ميں نقل كيا ہے كہ:
" مجنون اور بچہ جو بالغ نہيں ہوا اسے حد نہ لگانے ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 62 ).
واللہ اعلم

پیر، 14 مارچ، 2016

عورت اگر گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگائے اور گھر میں محرم و غیر محرم کا آنا جانا ہو

سوال: میں کنواری لڑکی ہوں اور گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگاتی ہوں، تو اگر اسی دوران گھر میں غیر محرم مہمان آ جائیں تو اس حالت میں خوشبو کا کیا حکم ہوگا؟ 
-----------------------------_---------------------_----------------------------------------
الحمد للہ:
عورت اپنے گھر میں محرم کی موجودگی میں خوشبو لگا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، محرم افراد کے سامنے خوشبو لگانے کی دلیل  اس آیت سے لی جا سکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
( وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ ... )
ترجمہ: خواتین اپنی زینت  صرف اپنے خاوند، باپ، سسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے یا خواتین کے سامنے ہی ظاہر کر سکتی ہیں۔۔۔ [النور :31]
اور زینت میں خوشبو بھی شامل ہے۔
دیکھیں: تفسیر ابن کثیر: (6/45-49)
شریعت کی رو سے منع یہ ہے کہ عورت گھر سے باہر رہتے ہوئے خوشبو کا استعمال کرے، جہاں اسے اجنبی مردوں کے پاس سے گزرنا پڑے؛ اس کی دلیل نسائی (5126) میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرتی ہے کہ لوگوں کی اس کی خوشبو پہنچے تو وہ زانیہ ہے) 
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح سنن نسائی" میں حسن قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے مطابق خواتین کیلئے گھر سے باہر خوشبو کا استعمال منع ہے۔
لیکن اگر گھر میں رہتے ہوئے خاتون نے خوشبو لگائی اور پھر گھر میں غیر محرم آ گئے اور انہیں بھی یہ خوشبو پہنچ گئی تو اس میں خاتون پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ  سابقہ حدیث میں ممانعت ایسی عورت کے بارے میں ہے جو خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے، ویسے بھی گھر میں عورت کو خوشبو لگانے کی اجازت ہے ، اور گھروں میں  مہمان وغیرہ آتے رہتے ہیں ۔
تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ گھروں میں غیر محرم مردوں کیساتھ گھل مل کر بیٹھے، بلکہ ان سے الگ تھلگ رہے ۔
اور اگر ایسی صورت حال بن جائے کہ عورت کو بھی ایسی جگہ ٹھہرنا پڑے جہاں پر غیر محرم مرد موجود ہیں تو پھر اس جگہ جانے سے پہلے خوشبو کے اثرات کو زائل کرنے کی پوری کوشش کرے۔
Www.mominsalafi.blogspot.com
Www.islamic361.blogspot.com

ہفتہ، 12 مارچ، 2016

جادو کے علاج کا کیا طریقہ ہے؟


الحمد للہ
جو جادو کی بیماری میں ہو تو وہ اس کا علاج جادو سے نہ کرے کیونکہ شر برائی کے ساتھ ختم نہیں ہوتی اور نہ کفر کفر کے ساتھ ختم ہوتا ہے بلکہ شر اور برائی خیر اور بھلائی سے ختم ہوتی ہے۔

صلی اللہ علیہ وسلم سے نشرہ یعنی جادو کے خاتمہ کے لئے منتر وغیرہ پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (یہ شیطانی عمل ہے) اور حدیث میں جس نشرہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ جادو والے مریض سے جادو کو جادو کے ذریعے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔ تو اسی لئے جب نبی

لیکن اگر یہ علاج قرآن کریم اور جائز دواؤں اور شرعی اور اچھے دم کے ساتھ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر جادو سے ہو تو یہ جائز نہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جادو شیطانوں کی عبادت ہے۔ تو جادوگر اس وقت تک جادو نہ تو کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے سیکھ سکتا ہے جب تک وہ انکی عبادت نہ کرے اور شیطانوں کی خدمت نہ کر لے اور ان چیزوں کے ساتھ انکا تقرب حاصل نہ کرلے جو وہ چاہتے ہیں تو اسکے بعد اسے وہ اشیاء سکھاتے ہیں جس سے جادو ہوتا ہے۔

لیکن الحمدللہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جادو کیے گئے شخص کا علاج قرات قرآن اور شرعی تعویذات (یعنی شرعی دم وغیرہ جن میں پناہ کا ذکر ہے) اور جائز دواؤوں کے ساتھ کیا جائے جس طرح کہ ڈاکٹر دوسرے امراض کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں کہ شفا لازمی ملے کیونکہ ہر مریض کو شفا نہیں ملتی۔

اگر مریض کی موت نہ آئی ہو تو اس کا علاج ہوتا ہے اور اسے شفا نصیب ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات وہ اسی مرض میں فوت ہوجاتا ہے اگرچہ اسے کسی ماہر سے ماہر اور کسی سپیشلیسٹ ڈاکٹر کے پاس ہی کیوں نہ لے جائیں تو جب موت آچکی ہو نہ تو علاج کام آتا ہے اور نہ ہی دوا کسی کام آتی ہے۔

فرمان ربانی ہے:

"اور جب کسی کا وقت مقررہ آجاتا ہے تو اسے اللہ تعالی ہر گز مہلت نہیں دیتا" المنافقون11

دوا اور علاج تو اس وقت کام آتا ہے جب موت نہ آئی ہو اور اللہ تعالی نے بندے کے مقدر میں شفا کی ہو تو ایسے ہو یہ جسے جادو کیا گیا ہے بعض اوقات اللہ تعالی نے اس کے لئے شفا لکھی ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں لکھی ہوتی تاکہ اسے آزمائے اور اس کا امتحان لے اور بعض اوقات کسی اور سبب کی بنا پر جسے اللہ عزوجل جانتا ہے: ہوسکتا ہے جس نے اس کا علاج کیا ہو اسکے پاس اس بیماری کا مناسب علاج نہ ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

(ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔)

صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور فرمان نبوی

(اللہ تعالی نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کی دوا بھی اتاری ہے تو اسے جس نے معلوم کرلیا اسے علم ہوگیا اور جو اس سے جاہل رہا وہ اس سے جاہل ہے۔)

اور جادو کے شرعی علاج میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا علاج قرآن پڑھ کر کیا جائے۔

جادو والے مریض پر قرآن کی سب سے عظیم سورت فاتحہ بار بار پڑھی جائے۔ تو اگر پڑھنے والا صالح اور مومن اور جانتا ہو کہ ہر چیز اللہ تعالی کے فیصلے اور تقدیر سے ہوتی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی سب معاملات کو چلانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوجا تو ہوجاتی ہے تو اگر یہ قرآت ایمان تقوی اور اخلاص کے ساتھ پڑھی جائے اور قاری اسے بار بار پڑھے تو جادو زائل ہوجائے گا اور مریض اللہ تعالی کے حکم سے شفایاب ہوگا۔

اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم ایک دیہات کے پاس سے گذرے تو دیہات کے شیخ یعنی ان کے امیر کو کسی چیز نے ڈس لیا تو انہوں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تو انہوں نے صحابہ اکرام میں سے کسی کو کہا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ تو صحابہ نے کہا جی ہاں۔ تو ان میں سے ایک نے اس پر سورت فاتحہ پڑھی تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ گویا کہ ابھی اسے کھولا گیا ہو۔ اور اللہ تعالی نے اسے سانپ کے ڈسنے کے شر سے عافیت دی۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا تو دم کے اندر بہت زیادہ خیر اور بہت عظیم نفع ہے۔ تو جادو کۓ گۓ شخص پر سورت فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اور اسکے علاوہ آیات اور اچھی اچھی دعائیں جو کہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول جب آپ نے کسی مریض کو دم کیا : (اس دم کے کرنے سے کوئی حرج نہیں جبکہ وہ شرک نہ ہو) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا گیا اور آپ

{اللهم رب الناس اذهب الباس واشف انت الشافي لا شفاء الا شفاؤک شفاء لا يغادر سقما} تین بار یہ دعا پڑھے

(اے اللہ لوگوں کے رب تکلیف دور کردے اور شفایابی سے نواز تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ایسی شفا نصیب فرما کہ جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے) تو اسے تین یا اس سے زیادہ بار پڑھے۔

اور ایسے ہی یہ بھی ثابت ہے کہ جبرا‏ئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا کے ساتھ دم کیا تھا۔

{ بسم الله أرقيك ، من كل شيء يؤذيك ، ومن شر كل نفس أو عين حاسد الله يشفيك ، بسم الله أرقيك }

"میں اللہ کے نام سے تجھے ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو کہ تکلیف دینے والی ہے اور ہر نفس کے شر سے یا حاسد آنکھ سے اللہ آپ کو شفا دے میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں"

اسے بھی تین بار پڑھے اور بہت ہی عظیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دم ہے جس کے ساتھ ڈسے ہوئے اور جادو کئے گئے اور مریض کو دم کرنا مشروع ہے۔

اور اچھی دعاؤں کے ساتھ ڈسے ہوئے اور مریض اور جادو والے کو دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر اس میں کوئی شرعی مخالفت نہ ہو اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم پر اعتبار کرتے ہوئے۔ (دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ شرک نہ ہو۔)

اور بعض اوقات اللہ تعالی مریض اور جادو کئے گئے شخص وغیرہ کو بغیر کسی انسانی سبب سے شفا نصیب کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ سبحانہ وتعالی ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز میں اسکی بلیغ حکمت چمک رہی ہے۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ارشاد فرمایا ہے :

"وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے" یسین/82

تو اس اللہ سبحانہ وتعالی کی حمد وتعریف اور شکر ہے جو وہ فیصلے کرتا اور تقدیر بناتا ہے اور ہر چیز میں بلیغ حکمت پائی جاتی ہے۔

اور بعض اوقات مریض کو شفا نہیں ہوتی کیونکہ اس کا وقت پورا ہوچکا ہوتا ہے اور اس مرض سے اسکی موت مقدر میں ہوتی ہے۔

اور جو دم میں استعمال کیا جاتا ہے ان میں وہ آیات بھی ہیں جن میں جادو کا ذکر ہے وہ پانی پر پڑھی جائیں۔

اور سورت اعراف میں جادو والی آیات۔

فرمان باری تعالی ہے:

{ ( وأوحينا إلى موسى أن ألق عصاك فإذا هي تلقف ما يأفكون فوقع الحق وبطل ما كانوا يعملون فغلبوا هنالك وانقلبوا صاغرين) } الاعراف117۔119

"اور ہم نے موسی (علیہ السلام ) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی ڈال دیجئے سو اس کا ڈالنا تھا کہ اس نے انکے سارے بنے بنائے کھیل کو نگھلنا شروع کردیا پس حق ظاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب کچھ جاتا رہا پس وہ لوگ موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے" الاعراف117۔119

اور سورہ یونس میں اللہ تعالی کا یہ فرمان:

{ وقال فرعون ائتوني بکل ساحر عليم فلما جاء السحرة قال لهم القوا ما انتم ملقون فلما القوا قال موسى ما جئتم به السحر ان الله سيبطله ان الله لا يصلح عمل المفسدين ويحق الحق بکلماته ولو کره المجرمون } یونس/ 79۔82

(اور فرعون نے کہا کہ میرے پاس تمام جادو گروں کو حاضر کرو پھر جب جادو گر آئے تو موسی (علیہ السلام) نے ان سے کہا ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو سو جب انہوں نے ڈالا تو موسی (علیہ السلام )نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے یقینی بات یہ ہے اللہ تعالی اس کو ابھی درہم برہم کیے دیتا ہے اللہ تعالی ایسے فسادیوں کا کام نہیں بننے دیتا)

اور ایسے ہی سورہ طہ کی مندرجہ ذیل آیات فرمان ربانی ہے:

{ قالوا يا موسى اما ان تلقي واما ان نکون اول من القى قال بل القوا فاذا حبالهم وعصيهم بخيل اليه من سحرهم انها تسعى فاوجس في نفسه خيفة موسى قلنا لا تخف انک انت الاعلى والق ما في يمينک تلقف ما صنعوا انما صنعوا کيد ساحر ولا يفلح الساحر حيث اتى } طہ65۔59

"کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پھلے ڈالو اب تو موسی (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ انکی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ رہیں ہیں پس موسی نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا تو ہم نے فرمایا خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ انکی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے انہوں نے جو کچھ بنایا ہے صرف یہ جادو گروں کے کرتب ہیں اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا" طہ65۔69

تو ایسی آیات ہیں جن سے جادو کے دم میں ان شاء اللہ تعالی فائدہ دے گا۔ تو بیشک یہ آیات اور اسکے ساتھ سورہ فاتحہ اور سورہ (قل ہو اللہ احد) اور آیۃ الکرسی اور معوذتین (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اگر قاری پانی میں پڑھے اور اس پانی کو جس کے متعلق یہ خیال ہو کہ اسے جادو ہے یا جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہے اس پر بھادیا جائے (یعنی غسل کرے از مترجم) تو اسے اللہ کے حکم سے شفا یابی نصیب ہوگی۔

اور اگر اس پانی میں سبز بیری کے سات پتے کوٹنے کے بعد رکھ لئے جائیں تو یہ بہت مناسب ہوگا جیسا کہ شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (فتح المجید) میں بعض اہل علم سے باب (منتر کے متعلق باب) میں ذکر کیا ہے اور افضل یہ ہے کہ تینوں سورتیں (قل ہو اللہ احد) (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) تین تین بار دہرائی جائیں۔

مقصد یہ ہے کہ یہ اور ایسی ہی دوسری وہ دوائیں ہیں جو کہ مجرب ہیں اور ان سے اس بیماری (جادو) کا علاج کیا جاتا ہے اور ایسے ہی جسے اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو اسکا بھی علاج ہے جسکا تجربہ کیا گیا اور اللہ تعالی نے اس سے نفع دیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف سورہ سے علاج کیا جائے تو شفایابی ہو اور اسی طرح (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین سے علاج کیا جائے تو شفا مل جائے۔

سب سے اہم یہ ہے کہ علاج کرنے والا اور علاج کروانے والا دونوں کا صدق ایمان ہونا اور اللہ تعالی پر بھروسہ ہونا ضروری ہے اور انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی سب کاموں کا متصرف ہے اور وہ جب کسی چیز کو چاہتا ہے تو وہ ہوتی ہے اور جب نہیں چاہتا تو نہیں ہوتی تو معاملہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جو وہ چاہے وہ ہوگا اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہوگا۔ تو پڑھنے والے اور جس پر پڑھا جارہا ہے انکے اللہ تعالی پر ایمان اور صدق کی بنا پر اللہ تعالی کے حکم سے مرض زائل ہوگا اور اتنا ہی جلدی ہوگا جتنا ایمان ہے۔ اور پھر معنوی اور حسی دوائیں بھی کام کریں گی۔

ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کو وہ عمل کرنے کی توفیق دے جو اسے راضی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بیشک وہ سننے والا اور قریب ہے۔  .

دیکھیں کتاب: مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ: تالیف: فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ص/70

 

ہفتہ، 5 مارچ، 2016

ماء زمزم کوشفا قرار دیا گیا



کیا زمزم کی کوئ اھمیت وقیمت ہے ، اورکیا کو‏ئ ایسی حدیث واد ہے جس میں ماء زمزم کوشفا قرار دیا گیا ہے ، یا یہ کہ پینے سے قبل کو‏ئ نیت کرنا ضروری ہے ؟ جزاکم اللہ خیرا ۔

الحمد للہ
مسجد حرام میں مشہورکنویں کا نام زمزم ہے جوبیت اللہ سے اڑٹیس 38 ہاتھ کی مسافت پرواقع ہے ،یہ وہی کنواں ہے جوابراھیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی تشنگی ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے نکالاگیا تھا جب کہ وہ ابھی دودھ پیتے اورماں کی گود میں تھے ۔

جب ان کے پاس کھانا پینا ختم ہوا توھاجرہ رضي اللہ تعالی عنہا نے پانی کی تلاش کی لیکن انہیں کچھ حاصل نہ ہوا توبالاخر وہ اسماعیل علیہ السلام کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرتی ہوئيں کوہ صفا پرجاچڑھیں پھر مروہ پرتشریف لے گئيں تواللہ تعالی نے جبریل امین علیہ السلام کوبھیجا جنہوں نے اپنے پاؤں کی ایڑی ماری توزمین سے پانی نکل آیا ۔

ماء زمزم نوش کرنا :

اہل علم متفق ہیں کہ خصوصا حج اورعمرہ کرنے والے کے لیے ماء زمزم پینا مستحب ہے ، اورعمومی طورپرہرمسلمان کے لیے سب حالات میں زمزم پینا مستحب اورجائز ہے ، جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماء زمزم پیا ۔ صحیح بخاری ( 3 / 492 ) ۔

اورابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماء زمزم کے بارہ میں فرمایا :

( یہ بابرکت اورکھانا والے کے لیے ایک کھانا ہے ) صحیح مسلم ( 3/ 1922 ) ۔

اورایک روایت میں ہے کہ ( یہ بیماری کی شفا ہے ) الطیالسی حدیث نمبر ( 61 ) ۔

یعنی زمزم پینے سے کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اوربیماریوں سے شفا نصیب ہوتي ہے لیکن اس میں صدق و سچائ کارفرما ہے ، جیسا کہ ابوذررضي اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں ایک ماہ رہے اورصرف زمزم پرہی گزارا کیا اس کے علاوہ کو‏ئ اورغذا استعمال نہیں کی ۔

اورعباس بن عبدالمطلب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ زمزم کے بارہ میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوششش کرتے تھے ، حتی کہ اہل عیال والے لوگ اپنے سب اہل عیال کولاتے اوروہ زمزم دن کے ابتدائ حصہ میں نوش کرتے اورہم زمزم کواہل عیال کا ممد ومعاون شمارکرتے تھے ۔

عباس رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں زمزم کوشباعۃ ( پیٹ بھردینے والا ) کا نام دیا جاتا تھا ۔

علامہ الآبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب انہوں نے پیا تواللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ رضي اللہ تعالی عنہا کے لیے کھانا اورپینا بنادیا ۔

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی عنہ جب زمزم کے پاس پہنچے توکہنے لگے :

اے اللہ مجھے مؤ‎مل نے ابوزبیر عن جابررضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ماء زمزم اسی لیے ہے جس کے لیے اسے نوش کیا جاۓ )

اے اللہ میں روزقیامت کی تشنگی دورکرنے کے لیے پی رہا ہوں ۔

دو فرشتوں نے بچپن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھی اسی زمزم کے ساتھ دھویا اورپھراسے اپنی جگہ پرواپس رکھ دیا ، حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ زمزم کے ساتھ دھونے میں حکمت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ آسمان وزمین اورجنت وجہنم دیکھنے کی لیے طاقت حاصل کرسکیں ، اس لیے کہ زمزم کی خصوصیت ہے کہ وہ دل کا طاقت پہنچاتا اورخوف کوختم کردیتا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدراوراسے زمزم سے دھونے کا واقعہ ابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میں مکہ میں تھا تومیرے گھرکی چھت کھولی گئ اورجبریل علیہ السلام اترے اورمیرا سینہ کھولا ، پھراسے زمزم سے دھویا ، پھرسونےکا ایک حمکت اورایمان سے بھراہوا طشت لاۓ اوراسے میرے سینہ میں انڈیل کرسینے کوبند کردیا ، پھرمیراہاتھ پکڑ کرآسمان دنیا پر لےگۓ ) صحیح بخاری ( 3/ 429 )۔

زمزم پینے میں سنت یہ ہے کہ پیٹ بھر کرپیا جاۓ حتی کہ کوکھیں باہر نکل آئيں اورتشنگی مکمل طور پرجاتی رہے ، فقھاء کرام نے زمزم پینے کے کچھ آداب بیان کیے ہیں جن میں قبلہ رخ ہونا ، بسم اللہ پڑھنا ، زمزم پیتے وقت تین سانس لینا ، پیٹ بھر کرپینا ، اورزمزم پی کرالحمدللہ کہنا ، بیٹھ کرپینا ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی وہ حدیث جس میں انہوں نے یہ ذکرکیا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوزمزم پلایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے ۔ صحیح بخاری ( 3 / 492 ) ۔

تویہ حدیث جواز کا بیان ہے کہ کھڑے ہوکربھی پینا جائز ہے ، اورکھڑے ہوکر پینے والی حدیث کراہت پرمحمول ہے ، زمزم پینے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ زمزم اپنے سر چہرے اورسینہ وغیرہ پر ڈالے ، اورزمزم پیتے وقت کثرت سے دعا کرے ، اوراپنے دنیاوی اوراخروی معاملات کے لیے پی سکتا ہے ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( زمزم اسی چیزکے لیے ہے جس کے لیے اسے نوش کیا جاۓ ) سنن ابن ماجہ ( 2 / 1018 ) اوردیکھیں المقاصد الحسنۃ للسخاوی ص ( 359 ) ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جب وہ زمزم پیتے تویہ دعا پڑھتے : ( اللهم إني أسألك علماً نافعاً ، ورزقاً واسعاً وشفاء من كل داء ) اے اللہ میں علم نافع اوررزق کی کشادگي اورہربیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں ۔

اوردینوری نے حمیدی رحمہ اللہ تعالی سے بیا ن کیا ہے کہ :

حمیدی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم سفیان بن عیینہ کے پاس تھے توانہوں نے ہیں یہ حدیث بیان کی کہ زمزم اسی چیز کےلیے ہے جس کے لیے وہ نوش کیا جاۓ ، تومجلس سے ایک شخص اٹھ کرچلا گيا اورپھر واپس آکر کہنے لگا اے ابومحمد کیا وہ حدیث جوآّپ نے زمزم کے بارہ میں بیان کی وہ صحیح نہیں ؟

توانہوں نے جواب دیا جی ہاں ، وہ شخص کہنے لگا : تو میں ابھی زمزم کا ایک ڈول اس لیے پی کر آیا ہوں کہ آپ مجھے ایک سو حدیث بیان کریں توسفیان رحمہ اللہ تعالی کہنے لگے بیٹھ جاؤ بیٹھ جاؤ ، توانہوں نےاسے ایک سو حدیث بیان کیں ۔

اوربعض فقھاء نے زمزم کوبطور زاد راہ دوسرے ممالک لے جانا مستحب قرار دیا ہے اس لیے کہ اسے جوبھی بیماری سے شفا کے لیے پیۓ اسے شفا حاصل ہوتی ہے ، اورحدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے بوتلوں میں زمزم بھرکے لائيں اورفرمانے لگيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھرکرلاتے اوربیماروں پرانڈیلتے اورانہيں پلاتے تھے ۔ سنن ترمذي ( 4 / 37 )۔

فقھاء اس پرمتفق ہیں کہ زمزم سے پاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے ، لیکن انہوں یہ کہا ہے کہ اس کا استعمال ایسی جگہوں پرنہیں کرنا چاہیے جہاں اہانت کا پہلو نکلتا ہو ، مثلا نجاست زائل کرنا وغیرہ ۔

علامہ بھوتی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب : کشاف الفتاح میں ذکر کیا ہے کہ اوراسی طرح ( ماء زمزم کوصرف نجاست وغیرہ کوزائل کرنے میں استعمال کرنا ) اس کے شرف کی بناپرمکروہ ہے ، لیکن اس کا طہارت حدث کے استعمال میں استعمال مکروہ نہیں ۔

اس لیے کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ :

پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے اورزمزم کا ایک ڈول منگوا کراس سے وضو کیا اورپیا ۔

اسے عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ انتھی ۔ دیکھیں نیل الاوطار کتاب الطہارۃ باب طھوریۃ ماء البحر ۔

حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی نے المقاصد الحسنۃ میں کچھ اس طرح کہا ہے کہ :

بعض لوگ یہ ذکرکرتے ہیں کہ زمزم کی فضيلت صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ اپنی جگہ ( یعنی مکہ ) میں ہو اوراگر اسے کسی اورجگہ منتقل کرلیا جاۓ تواس کی کچھ حقیقت اوراصل نہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سھیل بن عمرو رضي اللہ تعالی کی طرف خط لکھا کہ اگر میرا خط رات کوپہنچے توصبح سے قبل اوراگر دن کوپہنچے تورات ہونے سے قبل میری طرف زمزم روانہ کردو ، اسی خط میں ہے کہ انہوں نے دو مٹکے بھیجے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت فتح مکہ سے قبل مدینہ میں تھے ۔

یہ حدیث شواھدکی بنا پر حسن درجہ کی ہے ، اوراسی طرح عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی زمزم لےجاتیں اوریہ بتاتیں تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ کام کرتے اورمشکیزوں اور مٹکوں میں زمزم بھرکرلےجاتے اوربیماروں اورمریضوں کوپلاتے اوران پرانڈیلتے تھے ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کے جب بھی کوئ‏ مہمان آتا تووہ اسے زمزم کا تحفہ پیش کرتے ،اورعطاء رحمہ اللہ تعالی عنہ سے بھی زمزم لےجانے کے بارہ میں سوال کیا گیا توان کا جواب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورحسن اورحسین رضي اللہ تعالی عنہما بھی اسے لے کرجاتے تھے ۔

واللہ اعلم .
 

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...