جمعرات، 29 دسمبر، 2016

سوال: کیا کافر حکمران کی اطاعت جایزہے

سوال: کیا کافر حکمران کی اطاعت جایزہے
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی پر جبر کیا گیا تو اس کا روزہ درست ہے، اس پر قضا بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے جبراً کفر کرنے والے پر بھی كفر كا حکم نہیں لگایا، بشرطیکہ اسكا دل ایمان پر قائم ہو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ}
ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل : 106]
چنانچہ اگر اللہ تعالی نے جبر کی صورت میں کفر کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا ہے تو اس سے کم تر امور تو بالاولی  کالعدم ہونگے،  اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کی خطا ، بھول چوک، اور جبری گناہ معاف کر دیے ہیں) انتہی
"مجالس شهر رمضان" (ص: 82
حاصل کلام{ ہمیں کوکش کرنے چاہے کہ خلافت اسلامی قايم ہو  }{اور امام  البانی (رحمتہ اللہ )
کا قول ہے ان سے پوچہا گیا  کہ خلافت کب قايم ہوگی  آن کا جواب تہا کہ  { جب لوگ  اس کو آپنے
دلوں  پر قايم کرے گے اس کے بعد یہ زمین پر آیے گی  {توحید خالص- مقالات
و اللہ اعلم

www.mominsalafi.blogspot.com

مولانا وحید الدین خان کون سے بتائیں

                                                                     مولانا وحید الدین خان یکم جنوری ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش اُتر پردیش، بھارت کے ایک قصبہ اعظم گڑھ میں ہوئی۔ چار یا چھ سال کی عمر میں ہی اِن کے والد محترم فریدالدین خان وفات پا گئے ۔ اِن کی والدہ زیب النساء خاتون نے اِن کی پرورش کی اور اِن کے چچاصوفی عبد الحمید خان نے اِن کی تعلیم کی ذمہ داری اُٹھائی۔خان صاحب کا کہنا ہے کہ بچپن کی یتیمی نے اُن میں مسائل سے جان چھڑانے کی بجائے اُن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ۔1

اُنہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح،سرائے میر،اعظم گڑھ سے ہی حاصل کی۔ ۱۹۳۸ء میں اِس مدرسہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۴۴ء میں چھ سال بعد اُنہوں نے یہاں سے اپنی مذہبی تعلیم مکمل کر لی۔اِس کے بعد ان کے بڑے بھائی نے اُنہیں کاروبار میں شامل کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کا خیال یہ تھا کہ اُنہیں ابھی انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنی ہے۔ اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے لائبریری جا کر سائنس اور جدید علوم کی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔2

www.mominsalafi.blogspot.comکچھ عرصہ بعد خان صاحب نے محسوس کیا کہ اُنہوں نے مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کا بھی کافی مطالعہ کر لیا ہے تو اُنہوں نے دینی علم کو زمانۂ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کا ارادہ کیا۔ اُن کی تحریروں میں بین المذاہب مکالمہ اور اَمن کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ اور آخر عمر میں اُنہوں نے دین اسلام کا خلاصہ اِنہی دو لفظوں میں بیان کیا ہے۔

۱۹۵۵ء میں اُن کی پہلی کتاب'نئے عہد کے دروازے پر' شائع ہوئی۔ یہی کتاب بعد میں اُن کی معروف کتاب 'مذہب اور جدید چیلنج' کے لیے بنیاد بنی اور اِس کا عربی ترجمہ الإسلام یتحدّٰی کے نام سے مقبولِ عام ہوا جو کئی ایک عرب جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے شائع شدہ ایک حالیہ کتاب "500 Most Influential Muslims of 2009" میں اُنہیں"Islam's Spiritual Ambassador to the World" قرار دیا گیا ہے۔ (ایضاً)

جماعتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت میں شمولیت

خان صاحب شروع شروع میں مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور ۱۹۴۹ء میں جماعتِ اسلامی، ہند میں شامل ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ میں جماعتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن بھی بن گئے۔ جماعتِ اسلامی کے ترجمان رسالہ 'زندگی' میں باقاعدگی سے لکھتے رہے ۔جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد مولانا وحید الدین خان صاحب نے ۱۵ سال کے بعد جماعتِ اسلامی کو خیرباد کہا۔جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گئے لیکن ۱۹۷۵ء میں اُسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا۔

ذاتی دعوتی اور علمی کام کا آغاز

۱۹۶۷ء میں اپنے دعوتی کام کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۰ء میں نئی دہلی میں ایک اسلامک سنٹرکی داغ بیل ڈالی اور ۱۹۷۶ء میں 'الرسالہ' کے نام سے ایک اُردو رسالہ کا اِجرا کیا۔ ۱۹۸۴ء میں ہندی اور ۱۹۹۰ء میں انگریزی میں بھی'الرسالہ'جاری کیا گیا۔اُردو میں اُن کا ترجمہ قرآن اور تشریحی نکات 'تذکیر القرآن'کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہی ترجمۂ قرآن بعد میں ہندی اور انگریزی میں بھی شائع ہوا۔انگریزی ترجمہ The Quran کے نام سے شائع ہوا حالانکہ ترجمہ قرآن کا یہ نام رکھناکسی طور درست نہیں۔ کوئی بھی ترجمہ قرآن، حقیقی قرآنِ مجید نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں ہے اور جب اُس کا ترجمہ کسی اور زبان میں کیا جاتا ہے تو وہ قرآنِ مجید کا ترجمہ تو کہلایا جا سکتاہے لیکن قرآن مجید نہیں۔ خان صاحب نے ۲۰۰۱ء میں اپنے نقطۂ نظر اور دعوت کے پھیلاؤ کے لیے 'سی پی ایس' یعنی 'سنٹر فار پیس اینڈ سپرچوئیلٹی' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو اُن کے بقول 'دعوت' اور 'امن' دو بنیادوں پر قائم ہے۔

مولانا وحید الدین خان تقریباً دو سو کتب کے مصنف ہیں،جو اردو ،عربی اور انگریزی زبان میں ہیں۔ اُن کی معروف کتب میں تذکیر القرآن، اسلام دورِ جدید کا خالق، مذہب اور جدید چیلنج، تعبیر کی غلطی، رازِ حیات، دین کی سیاسی تعبیر، عقلیاتِ اسلام، پیغمبر ِانقلاب اور اللہ اکبر ہیں۔ انگریزی اور عربی کتابیں اکثر وبیشتر مولانا کی اُردو تحریروں ہی کے تراجم ہیں۔ (ایضاً)

فکر ی بنیادیں

مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد اُن کے دعوتی اور علمی کام کو آسانی کی خاطر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

تذکیرونصیحت: خان صاحب کی تحریروں میں تذکیر کا پہلو غالب اور نمایاں طور موجود ہے۔ چھوٹی اور عام سی بات سے بھی نصیحت کا پہلو نکال لینے میں اُنہیں کمال حاصل ہے۔خان صاحب لکھتے ہیں:

''ایک امریکی خاتون سیاحت کی غرض سے روس گئیں۔وہاں اُنھوں نے دیکھا کہ ہر جگہ کمیونسٹ پارٹی کے چیف کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بات اُنھیں پسند نہیں آئی۔ ایک موقع پر وہ کچھ روسیوں سے اِس پر تنقید کرنے لگیں۔ خاتون کے ساتھی نے اُن کے کان میں چپکے سے کہا:''میڈم!آپ اِس وقت روس میں ہیں، امریکہ میں نہیں ہیں۔'' آدمی اپنے ملک میں اپنی مرضی کے مطابق رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ کسی غیر ملک میں جائے تو وہاں اُس کو دوسرے ملک کے نظام کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر وہ وہاں کے نظام کی خلاف ورزی کرے تو مجرم قرار پائے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ وسیع تر معنوں میں دنیاکا ہے، انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتا ہے جس کو اُس نے خود نہیں بنایا ہے۔ یہ مکمل طور پر خدا کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ گویا انسان یہاں اپنے ملک میں نہیں ہے بلکہ خدا کے ملک میں ہے۔''3

ردّ عمل کی نفسیات: خان صاحب کی فکر ردّ عمل کی نفسیات (Psychology of Reaction) پر قائم ہے اور یہ ردّعمل اسلام کے سیاسی تصور، معاصر اسلامی تحریکات اور متنوع مذہبی طبقات کا ہے۔خان صاحب لکھتے ہیں:

''کچھ لوگ اسلام کا جامع تصور پیش کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اسلام میں صرف عقیدہ اور عبادت اور اخلاق شامل نہیں ہیں، بلکہ پولیٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولیٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے، وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک تخریبی تصور ہے۔''4

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

'' جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالیٰ سے ہے۔ قرآنِ مجید کے مطابق، زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہِ راست اللہ کی طرف سے ہوتا ہے،اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اُس کا فیصلہ کیا ہو (۲۶:۳)۔ اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظم کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی بھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں۔''5

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

''موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں حیرت انگیز طور پر انتہائی ناکامی کا شکار ہوئی ہیں۔مسلمان جب بھی کوئی تحریک اٹھاتے ہیں تو خدا اُن کے گھروندے کوٹھوکر مار کر گرا دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی یہ تمام سرگرمیاں خدا کی نظر میں بالکل نامطلوب ہیں۔ اِس بنا پر وہ اُن کو حرفِ غلط کی طرح مٹا رہا ہے۔''6

مذکورہ بالا عبارات بتا رہی ہیں کہ جذبات میں ٹھہراؤ اور اطمینان نہیں ہے اور اختلاف کے اظہار میں ردّعمل کی نفسیات واضح طور محسوس ہو رہی ہیں۔

تجدّد: خان صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی (Modernity)کی طرف میلانات اور رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور صحیح معنوں میں اُن پر لفظ 'متجدد' اس اعتبار سے صادق آتا ہے کہ اُنہوں نے دین کے بنیادی تصورات کی اَز سر نو ایسی تعبیر وتشریح پیش کی ہے جو اُن سے پہلے کسی نے نہیں کی اور وہ نہ صرف اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے اِس میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں:

'' پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں کے درمیان جو لٹریچر تیار ہوا، اُس میں سب کچھ تھا، مگر اُس میں جو چیز مکمل طور پر حذف تھی اور وہ ہے: دعوت اور اَمن کا تصور۔ اِس کے بعد جب مغربی طاقتوں نے مسلم ایمپائر کو توڑ دیا تو اِس کے خلاف رد عمل کی بنا پر یہ ذہن اور زیادہ پختہ ہو گیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری، منفی سوچ اور منفی سرگرمیوں کی نذر ہو گئی۔ اِس پوری صدی میں نہ دعوت کا پیغام لوگوں کے سامنے آیا اور نہ اَمن کا پیغام، جب کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف پر اللہ تعالیٰ نے استثنائی طور پر دعوت اور اَمن کی اہمیت کھولی۔''7

اب اُن کے اِس تصورِدعوت اور اَمن کی بھی ذرا سی جھلک ملاحظہ فرمائیں جو اُن کے بقول مسلم دنیا کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتا ۔ خان صاحب لکھتے ہیں:

'' ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو توڑنے کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کے بعد امریکا غضب ناک ہو گیا۔ اُس نے عراق اور افغانستان کے خلاف براہِ راست طور پر اور پوری دنیا کے خلاف بالواسطہ طور پر ایک انتقامی جنگ چھیڑ دی۔ اِس جنگ میں نام نہاد جہاد کے اَکابر رہنما یا تو مارے گئے یا وہ خاموش ہو گئے۔ امریکا کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس نے اُن تمام طاقتوں کو زیر کر دیا جو اَمن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔''8

تنقیص: خان صاحب نے اپنے ماسوا تقریباً ہر دوسرے بڑے عالمِ دین پر تنقید کی ہے اور ان کی نقد تعمیری(Constructive Criticism) نہیں ہے بلکہ تنقیص (reproach and denunciation) کی ایک صورت ہوتی ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:

'' اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ میں پیدائشی طور پر ایک تنقید پسند آدمی ہوں۔''9

ایک ہے کہ ضرورت کے تحت تنقید کرنا اور یہ ایک ناگزیر اَمر اور معاشرتی ضرورت ہے۔ جبکہ 'تنقید پسند ہونا' ایک دوسری بات ہے جو ہمارے خیال میں بہرطور درست نہیں ہے جبکہ تنقید کا معنی بھی 'تنقیص' سے زائد نہ ہو۔ مولانا کی اِس ترکیب میں 'پسند' کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ خان صاحب ایک اور جگہ علما کی عیب جوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے علما مغربی افکار کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔ علما اگر مغربی فکر کو گہرائی کے ساتھ سمجھتے تو اُس کو اپنے لیے عین مفید سمجھ کر اُس کااستقبال کرتے۔ مگر سطحی معلومات کی بنا پر وہ اِس کے مخالف بن گئے اور اِس کا مذاق اُڑانے لگے۔''10

ایک اور جگہ اہل علم پر الزام دھرتے ہوئے لکھتے ہیں:

''علما کی دورِ جدید سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایسا لٹریچر تیار نہ کر سکے جو جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا ہو۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر سید قطب تک، میرے علم کے مطابق، مسلم علما کوئی ایک کتاب بھی ایسی تیار نہ کر سکے جو آج کے مطلوبہ معیار پر پوری اُترتی ہو۔''11

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

''سو سال سے بھی زیادہ مدت سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ہمیں دورِ جدید کے علما کی ضرورت ہےیعنی ایسے علما جو علوم دینیہ کی تحصیل کے علاوہ وقت کے علوم کی بھی تعلیم حاصل کریں۔ اِس طرح ایسے علما تیار ہوں جو قدیم و جدید دونوں سے واقف ہوں تاکہ وہ عصر حاضر کے مطابق، اسلام کی خدمت انجام دے سکیں۔ایسے لوگوں کی فہرست ہزاروں میں شمار کی جا سکتی ہے جو دونوں قسم کی تعلیم سے بہرہ ور ہوئے، مگر وہ ملت کی مطلوب ضرورت کو پورا نہ کر سکے۔ مثال کے طور پر چند نام یہاں لکھے جاتے ہیں: مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، ڈاکٹر یوسف قرضاوی، پروفیسر مشیر الحق، ڈاکٹر عبد الحلیم عویس، ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی، مولانا محمد تقی عثمانی، پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی، پروفیسر محمد اجتبا ندوی، پروفیسر محسن عثمانی، پروفیسر ضیاء الحسن ندوی، ڈاکٹر عبد الحلیم ندوی، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ڈاکٹر سعود عالم قاسمی وغیرہ... میں نے ذاتی طور پر اِس قسم کے علما کی تحریریں پڑھی ہیں، مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن سب کی تحریریں قدیم روایتی مسائل کی جدید تکرار کے سوا اور کچھ نہیں۔''12

اختیال: خان صاحب کی تحریروں سے یہ واضح طور محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے خیالوں میں اُن کی اپنی عظمت اور بڑائی اِس قدر رَچ بس گئی ہے اور وہ نرگسیت (Narcissism) کا شکار ہیں۔خان صاحب لکھتے ہیں:

''اَصحابِِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اِس کا آغاز اس وقت ہوا جب ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اَصحابِِ رسول کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ اِسی عمل کا کلمنیشن(culmination) سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم ہے۔گویا اَصحابِِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن تھے توسی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم بعد کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اَصحابِِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم میں جمع ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اِس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دورِ حاضر میں اَخوانِ رسول کا رول ادا کر سکے۔بعد کے زمانے میں اُٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طور پر اِس معیار پر پوری اُترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اَصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کےبننے والے گروہوں میں کسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔''13

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

'' غالباً یہ کہنا صحیح ہو گا کہ َاخوانِ رسول وہ اہلِ ایمان ہیں جو سائنسی دور میں پیدا ہوں گے،اور سائنسی دریافتوں سے ذہنی غذا لے کر اعلیٰ معرفت کا درجہ حاصل کریں گے، نیز یہی و ہ لوگ ہوں گے جو مہدی یا مسیح کا ساتھ دے کر آخری زمانے میں اعلیٰ دعوتی کارنامہ انجام دیں گے۔''14

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

''ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس[مولانا وحید الدین خان] کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اُس کو اَخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔''15

پہلے اقتباس کا خلاصہ ہے کہ مہدی ومسیح علیہما السلام کے ساتھ اَخوانِ رسول کی ٹیم ہو گی جبکہ دوسرے کا یہ ہے کہ اَخوانِ رسول کی ٹیم سی پی ایس کی ٹیم ہے۔اِن دونوں قضیوں کے صغریٰ وکبریٰ سے یہ نتیجہ نکلا کہ مہدی ومسیح کے ساتھ سی پی ایس کی ٹیم ہو گی۔

مولانا وحید الدین خان صاحب کی کسی بھی تحریر کو اٹھا کر دیکھ لیں، اُس میں اِن میں سے ایک،دو،تین یاچار بنیادیں ضرور مل جائیں گی۔ راقم نے اپنی کتاب 'مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات' میں اِن عوامل اور عناصر سے پروان چڑھنے والی خان صاحب کی فکر کا، اُن کے اپنے الفاظ ہی کی روشنی میں' ایک مفصل تحلیلی وتجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔

خاں صاحب کے بعض نظریات گمراہ کن بھی ہیں، جن میں بطور خاص ان کا یہ تصور کہ نبی کریم ﷺ فائنل ماڈل (اُسوہ ) نہیں ہیں۔ اقامتِ دین، نفاذِ شریعت اور جہاد اور امن وغیرہ کے حوالے سے دین کا جو مخصوص تصور رکھتے ہیں، اس کی رو سے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول کے اُسوہ میں چونکہ دعوت کے علاوہ جہاد وقتال بھی ہے، لہٰذا یہ اُسوہ ہمارے لیے کامل نمونہ نہیں ہے، کیونکہ آج کے دور میں جہاد وقتال ممکن نہیں رہا۔ آج کے دور میں اُمّت مسلمہ کے لیے حضرت مسیح کا اُسوہ قابل عمل اور نمونہ ہے، جو صرف دعوت وتبلیغ کے عمل پر مبنی تھا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

''مسیح کے ماڈل میں آغاز میں بھی دعوت ہے، اور انجام میں بھی دعوت، مسیح کے دعوتی ماڈل میں، ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) کے واقعات موجود نہیں۔ محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اس کے واضح اجزا کے طور پر شامل ہیں۔ لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابل عمل بنادیا ہے۔''16

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ

''آپ ﷺ بلاشبہ آخری پیغمبر تھے، لیکن آپ ہرصورت حال کے لیے آخری نمونہ نہ تھے، چنانچہ قرآن میں آپ کے لیے اُسوہ حسنہ کا لفظ آیا ہے نہ کہ اُسوہ کاملہ کا۔کسی پیغمبر کو فائنل ماڈل سمجھنا خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت کی تنسیخ کے ہم معنی ہے۔''17

کچھ سطروں کےبعد لکھتے ہیں :

''بعد کے زمانے میں حالات کے اندر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی، کہ حالات کے اعتبار سے حضرت مسیح کا عملی ماڈل زیادہ قابل انطباق (Applicable) بن جائے گا۔''

سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب جس میں رسالت مآبﷺ پر دشنام طرازی کی گئی، اس کے بارے میں بھی جناب وحید الدین خاں کا موقف مغالطہ آمیز بلکہ گمراہ کن ہے، جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس کتاب پر مسلمانوں کے رد عمل کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ

''ازواجِ مطہرات کے خلاف جو بے ہودہ باتیں سلمان رشدی نے لکھی ہیں، اس کا مصنفِ اوّل عبد اللہ بن ابی تھا، مگر پیغمبر اسلام ﷺ نے اصرار کے باوجود اس کو قتل کرنے سے منع کردیا۔'' 18''اینٹی رشدی ایجی ٹیشن(رشدی کے خلاف احتجاج) بلاشبہ لغویت کی حد تک غیر اسلامی تھا۔''(ص6)

''مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونا اسلام کے قانون جرائم کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ مسلمان اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس کو قومی سرکشی کےنام پر کرسکتے ہیں۔ مگر اسلام کے نام پر انہیں ایسا کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ''(ص 53)

پھرجب ڈنمارک اور یورپ کے اخباروں میں رسالت مآب ﷺ کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے اور حرمین سمیت پورے دنیا کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو خان صاحب نے عجیب مضحکہ خیزموقف اختیار کیا، لکھتے ہیں:

''مذکورہ کارٹون کی حیثیت تو ایک صحافتی جوک(لطیفہ) کی تھی۔ اس قسم کا جوک موجودہ صحافت میں عام ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ردّعمل میں جس طرح نفرت اور تشدد کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہ توہین رسالت کا ایک فعل تھا۔...

موجودہ زمانہ آزادی اظہار رائے کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں کارٹون جیسے مسئلہ پر ہنگانہ کھڑا کرنا، یقینی طور پر یہ تاثر پیدا کرے گا، کہ اسلام آزادی اظہار کے خلاف ہے۔19

'مولانا' وحید الدین خاں کا تصور جہاد بھی گمراہ کن ہے، لکھتے ہیں:

''اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اس کا اختیار بھی صرف حاکم وقت کو حاصل ہوتا ہے۔''20

''یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں وائلنٹ ایکٹوازم(پرتشدد حرکیت) منسوخ ہوگیا ہے، اور اس کی جگہ پیس فل ایکٹوازم (پرامن حرکیت)نے لے لی ہے۔اب پیس فلم ایکٹوازم کے تحت ہرقسم کی سرگرمیوں کا حق انسان کو مل چکا ہے۔''21

اسلام کے تصور امن کے بارے میں لکھتے ہیں:

''مثبت سوچ پر قائم رہنے کا ایک ہی فارمولا ہے اور وہ ہے یک طرفہ اخلاقیات، یعنی یک طرفہ طور پر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ خواہ وہ اچھا سلوک کرتا ہو یا براسلوک۔''22

''مسلمانوں کی جوسیاسی تاریخ بنی، اور ان کے یہاں جو لٹریچر تیار ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ذہن یہ بنا کہ دشمن سے لڑو۔ اس کے برعکس مسیحی لوگوں کا ذہن ان کی روایات کے مطابق یہ بنا کہ دشمن سے محبت کرو۔یہی نفسیات دونوں قوموں کے اندر عمومی طورپر پائی جاتی ہیں۔''23

''8 ؍اکتوبر2001ء کو امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو کاروائی کی ، وہ انٹرنیشنل نارم(بین الاقوامی اخلاقیات) کے مطابق درست تھی۔ کیونکہ وہ ڈیفنس کے طور پر کی گئی تھی۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ دنیا بھر میں امریکہ کو برا کہا جانے لگا۔''24

''امریکہ کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اس نے ان تمام طاقتوں کو زیر کردیا جو امن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئےتھے۔''25

مذکورہ بالا اقتباسات سے جناب وحید الدین کی فکری گمراہیاں اور طرزِ فکر بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔یہ اقتباسات اس کتاب میں مذکور تحقیقات کی ایک جھلک ہیں۔اس کتاب میں مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں کی روشنی میں ان کی شخصیت کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خان صاحب بدنیت یا اسلام دشمن یا یہودی ایجنٹ تونہیں ہیں جیسا کہ اُن کے بعض ناقدین کی رائے ہے۔ تاہم اُن کے نفسیاتی پرابلم ہیں جنہوں نے اُنہیں تخیلات کی اِس دنیا (fantasy and delusion) تک پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں ایک نہیں بلکہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک شمار کر رہے ہیں۔ اِس تجزیے کے مطابق اُن کے غیر متوازن اور مسلم اُمّہ کے بارے عدم برداشت کے رویوں کے جواب میں غصّہ کرنے کی بجائے ان کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنا چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مریض سے نفرت نہیں کی جاتی، تاہم اس سے رہنمائی بھی نہیں لی جاتی اور اس کو فکری قیادت کے حساس منصب پر بھی فائز نہیں کیا جاتا۔

نوٹ: مذکورہ بالا کتاب 'مولانا وحید الدین خان:افکار ونظریات' کی سافٹ کاپی

محدث آن لائن لائبریری میں موجودہے اور درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:

http://kitabosunnat.com/kutub-library/molana-

waheed-ud-deen-khan-afkar-w-nazriyat.htmlحوالہ جات

1.http://www.cpsglobal.org/mwk

2.ایضاً

3.آخری سفر: ص۵

4.صبح کشمیر: ص۳۲

5.ایضاً: ص۳۳

6.راہ عمل: ص ۱۱۰

7.ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۱۰ء' ص۲۳۔۲۴

8.ماہنامہ الرسالہ:جولائی ۲۰۱۰ء، ص۲۶

9.وحید الدین خان، علماء اور دورِجدید، ماہنامہ الرسالہ، نیو دہلی، ۱۹۹۲ء، ص۴۴

10.ایضاً: ص ۴۱۔۴۲

11.ایضاً: ص۴۵

12.ماہنامہ الرسالہ، نیودہلی:مارچ ۲۰۰۷ء' ص ۴۔۵

13.ماہنامہ الرسالہ : ستمبر ۲۰۰۶ء' ص۳۵

14.اہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء' ص۴۴

15.ماہنامہ الرّسالہ : ستمبر ۲۰۰۶ء، ص۴۰

16.ماہ نامہ الرسالہ، جون 2007ء، ص 5،6

17.ایضاً: ص 4،5

18.'شتم رسول کا مسئلہ ' از وحید الدین خاں: ص36

19.ماہ نامہ الرسالہ، نئی دہلی: ستمبر2011ء، ص 44

20.ماہ نامہ الرسالہ : مارچ2008ء، ص4

21.ماہ نامہ الرسالہ : اکتوبر2007ء، ص15

22.ماہ نامہ الرسالہ :جون2011ء، ص24

23.ماہ نامہ الرسالہ : جنوری2010ء، ص29

24.ماہ نامہ الرسالہ : جولائی2007ء، ص30،31

25.ماہ نامہ الرسالہ : جولائی2010ء، ص26

منگل، 27 دسمبر، 2016

دعائے قنوت

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دریافت طلب امر یہ ہے کہ جب باجماعت وتر پڑھیں جائیں اور رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جائے تو اس کا کیا طریقہ ہے: ۱۔ ہاتھ اُٹھائے جائیں؟ ۲۔ دعائے قنوت اونچی آواز سے پڑھی جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ہاتھ اُٹھائے جائیں؟
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیے ہوئے فرماتے ہیں:
اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے.
ديكھيں: سنن بيھقى ( 2 / 210 ).
اور دعاء كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعاء ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعاء ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں...
اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو.
۲۔ دعائے قنوت اونچی آواز سے پڑھی جائے؟
قنوت نازلہ کی طرح قنوت الوتر کو بھی جہری وتر کی نماز جہری ہونے کی وجہ سے جہرا پڑھا جائے گا۔
۳۔ اگر ہاں تو پھر کیا دعائے قنوت کے لیے جو واحد کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں، ان کو جمع میں بدلا جاسکتا ہے؟
بعض اہل علم واحد کے صیغہ کی جمع کے صیغہ کے ساتھ تبدیلی کے قائل ہیں جبکہ بعض دوسرے قائل نہیں ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر تو مقتدی نے امام کی دعا پر آمین کہنا ہو تو پھر امام جمع کو صیغہ استعمال کرے۔ اور اگر سری دعا ہو تو پھر امام واحد کا صیغہ استعمال کرے جیسا کہ احادیث میں استعمال ہوا ہے۔تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
۴۔ قنوت وتر کے لیے جو دعا ہمارے ہاں پڑھی جاتی ہے یعنی اللہم اہدنی فیمن ہدیت۔۔۔اس کے آخر میں ’وصلی اللہ علی النبی‘ پڑھا جاتا ہے۔ کیا وہ صحیح ہے؟
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اور دعاء قنوت يہ ہے:
حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قنوت وتر ميں كہنے كے ليے كچھ كلمات سكھائے:
«اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك»
اے مجھے ہدايت والوں ميں ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت دے، اور ميرا كارساز بن، اور تو نے جو مجھے ديا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، اور جس كا تو ولى بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كرسكتا، اور جس كے ساتھ تو دشمنى كرے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، اور تيرے علاوہ كہيں جائے پناہ نہيں"
اور آخرى جملہ " ولا منجا منك الا اليك " ابن مندہ نے " التوحيد" ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 426 ) اور ( 4299 ).
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1746 ).
پھر اس دعاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے.
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 14 - 52 ).
۵۔ اگر نہیں صحیح تو صحیح دعائے قنوت کی طرف رہنمائی فرمادیں۔
«اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك»
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

کیا ضعیف روایات، فضائل اعمال میں حجت ہیں اور اس سلسلے میں محدثین کی رائے کیا ہے؟ اس کا مدلل جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔؟

کیا ضعیف روایات، فضائل اعمال میں حجت ہیں اور اس سلسلے میں محدثین کی رائے کیا ہے؟ اس کا مدلل جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔؟www.mominsalafi.blogspot.com
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ ضعیف روایات کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا یا نہیں ۔ لیکن اس بارہ میں حق اور درست موقف یہی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہی مسلک امام بخاری , امام مسلم , یحیى بن معین , اور ابو بکر ابن العربی رحمہم اللہ کا ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ عارضۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے جو دلائل صحیح مسلم کے مقدمہ میں دیے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ضعیف روایات ترغیب و ترہیب میں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں ۔ اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ الفصل فی الأھواء والملل والنحل میں فرماتے ہیں : بعض اہل اسلام غافل یا مجہول یا کاذب راوی کی روایت کو قبول کر لیتے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک ضعیف روایت کو قبول کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اسکی تایید حلال ہے ۔
اس ضمن میں کچھ دلائل پیش خدمت ہیں :
۱۔ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ احکام شرعیہ خمسہ یعنی وجوب , ندب , اباحت , کراہت , تحریم میں ضعیف روایات قابل اعتبار نہیں ہیں جب اس بات پر اتفاق ہے تو نتیجتًا یہ بات بھی متفق علیہ عند اہل العلم بن جاتی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات قبول نہیں ہیں !!!!
کیونکہ
ندب و استحباب میں فضیلت ہی تو ہوتی ہے !!! , تو جب فضیلت ہی ثابت نہ ہوئی تو فضائل اعمال بھی ثابت نہ ہوئے ....!!! خوب سمجھ لیں ۔
۲۔ اعمال و احکام میں ضعیف روایات کے قبول نہ ہونے پر تمام تر اہل علم اتفاق رکھتے ہیں اور کتاب وسنت سے اس کے دلائل دیتے ہیں ۔ ان دلائل کے عموم میں فضائل اعمال بھی داخل اور شامل ہیں ۔ جب فضائل اعمال بھی ان دلائل کے عموم میں شامل ہیں تو انہیں مستثنى قرار دینے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے ۔ جبکہ اس استثناء کے لیے کتاب وسنت سے آج تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکی ۔ جبکہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام مسلم نے ان روایات کے مردود ہونے کے بہت سے دلائل دیے ہیں ۔
۳۔ ضعیف روایت کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں شبہ ہوتا ہے , یعنی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل ہے , اور اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً﴾ [الإسراء : 36]
جس چیز کا تمہیں علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑو , یقنا سماعت وبصارت و دل , سب کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
«إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ» ( صحيح مسلم كتاب المساقاة باب أخذ الحلال وترك الشبهات حــ 1599 )
یقنا حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت محفوظ کر لی اور جو شبہات میں داخل ہوگیا تو وہ حرام میں ہی داخل ہوگیا , اس شخص کی طرح جو اپنی بکریوں کو (غیر) کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے تو قریب ہے کہ (اسکی بکریاں اس دوسرے شخص کی ) اس چراگاہ میں چلی جائیں , خبر داد ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ہے اور اللہ کی چراگاہ اسکے حرام کردہ امور ہیں ۔
چونکہ ضعیف روایت میں شبہ ہوتا ہے لہذا اس پر عمل کرنا اس حدیث کی رو سے حرام میں واقع ہونا ہے ۔!!!!!
 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
www.mominsalafi.blogspot.com


منگل، 13 دسمبر، 2016

اھلحدیث کا تعارف

الحمد للہ:
درج ذیل میں ہندوستان کی "جماعت اہل حدیث"کا مختصر تعارف ہے ، تا کہ آپ کو ان کے ساتھ رہنے کا مزید شوق پیدا ہو:
ایک انسائیکلوپیڈیا" الموسوعة الميسرة للأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة " میں ہے: 
"جماعت "اہل حدیث"برصغیر میں قدیم ترین اسلامی تحریک ہے، جسکی بنیاد مندرجہ ذیل امور پر ہے: 
• اتباعِ کتاب وسنت 
• کتاب وسنت کو سمجھنے کیلئے فہمِ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین، اور جو بھی انکے نقشِ قدم پر چلے 
• کتاب وسنت کی تمام اقوال اور مناہج پر بالا دستی، چاہے عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، سیاست، اور سماجی کوئی بھی مسئلہ ہو، بعینہٖ جیسے محدث فقہائے کرام کا انداز تھا 
• ہر قسم کے شرک وبدعت اور خرافات کا قلع قمع" انتہی 
پھر اسکے بعد جماعت "اہل حدیث "کے نظریات اور عقائد بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 
"اہل حدیث کا عقیدہ وہی عقیدہ ہے جو سلف صالحین کا تھا، جو کہ کتاب وسنت پر مبنی ہے، جماعت اہل حدیث کے علمی اصول اور قواعدِ منہج مندرجہ ذیل ہیں: 
• عقیدہ توحید: اہل حدیث کے ہاں عقیدہ توحید دین کی بنیاد ہے، اس لئے اپنی سرگرمیوں کی ابتدا خالص توحید نشر کرتے ہوئے کرتے ہیں، تا کہ لوگوں کے دلوں میں عقیدہ توحید پختہ کردیں، توحید کی تینوں اقسام پر زور دیتے ہوئے توحید الوہیت پر نظریں مرکوز رکھتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اسی میں غلطی کھاتے ہیں، اہل حدیث توحید ربوبیت اور اسکے تقاضے حاکمیتِ الہی پر بھی ایمان رکھتے ہیں، پھر صرف اس بات پر اکتفاء نہیں کرتے کہ اسلامی سیاسی نظام کو مانتے ہوئے نافذ کردیا جائے، بلکہ انکی کوشش ہے کہ ہر فرد کے ذہن و تصور ، چال چلن، اور زندگی کے تمام معاملات جس میں قانون سازی بھی شامل ہے یہ بات ہو کہ اللہ تعالی ہی حاکم ہے۔ 
• اتباعِ سنت: اہل حدیث سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث کی اتباع پر زور دیتے ہیں، اسی لئے تقلیدِ جامد کے قائل نہیں ہیں، جسکی وجہ سے انسان کسی بھی فقہی مذہب کا پابند ہوجاتا ہے، اور دلیل کا مطالبہ نہیں کرسکتا، بلکہ یہ لوگ اجتہاد کے دروازےان تمام لوگوں کیلئے کھولنے کے قائل ہیں جن میں شرائط پائی جاتی ہوں، اور ائمہ کرام کے ساتھ ساتھ تمام علمائے مجتہدین کے احترام کی دعوت دیتے ہیں 
• کتاب وسنت کو عقل پر مقدم کرنا: یہ لوگ نصوص شرعیہ کو رائے سے برتر سمجھتے ہیں، پھر اسکے بعد اپنی عقل کو نصوص شرعیہ کے تابع کرتے ہیں، اس لئے کہ ان کا ماننا ہے کہ عقلِ سلیم صحیح شرعی نصوص کے ساتھ اتفاق رکھتی ہے، اسی لئے ان کے نزدیک شریعت کا مقابلہ عقل سے کرنایا عقل کو شریعت پر مقدم جاننا جائز نہیں ۔ 
• شرعی تزکیہ: یعنی شرعی تزکیہ نفس کے قائل ہیں، اس کیلئے کتاب وسنت میں موجود شرعی وسائل کو بروئے کار لائے جاسکتے ہیں، اور بدعتی تزکیہ نفس کو چاہے وہ صوفیوں کے انداز میں ہو یا کسی اور کے مسترد کرتے ہیں 
• بدعات سے اجتناب:اہل حدیث اس بات کے قائل ہیں کہ بدعت ایجاد کرنا حقیقت میں اللہ تعالی پر استدراک ہے، اور عقل و رائے کے ذریعے شریعت سازی ہے، اسی لئے سنت پر کاربند رہنے اور سب بدعات سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ 
• ضعیف اور موضوع روایات سے اجتناب: اس لئے کہ اس قسم کی احادیث کےامت پر بہت زیادہ خطرات ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب احادیث کی چھان بین انتہائی ضروری ہے، خاص طور پر جو احادیث عقائد اور احکام سے تعلق رکھتی ہیں" انتہی 
دیکھیں: "الموسوعة الميسرة في الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" صفحہ (173-185) 
واللہ اعلم  .

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

غسل کرنے کا طریق

الحمد للہ:
غسل جنابت كے دو طريقے ہيں:
كفائت كرنے والا طريقہ: 
مكمل طريقہ: 
كفائت كرنے والا طريق غسل يہ ہے كہ: كلى كر كے اور ناك ميں پانى ڈال كر سارے بدن پر پانى ڈال ليا جائے، چاہے ايك بار ہے، اور اگر گہرے پانى ميں غوطہ لگائے تو بھى ٹھيك ہے. 
غسل كا مكمل طريقہ يہ ہے كہ:
اپنى شرمگاہ اور جہاں جہاں نجاست لگى ہو اسے دھوئے، اور پھر مكمل وضوء كرنے كے بعد اپنے سر پر تين چلو پانى بہائے حتى كہ بالوں تك سر تر ہو جائے، اور پھر اپنے جسم كى دائيں جانب اور پھر بائيں جانب دھوئے.
ديكھيں: اعلام المسافرين ببعض آداب و احكام السفر و ما يخص الملاحين الجويين، تاليف فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين صفحہ ( 11 ).

جمعہ، 9 دسمبر، 2016

عقیدہ۔ کے۔ سوالات


What does “the text of the ‘aqeedah (matn al-‘aqeedah)” mean?.

 الحمد اللہ                   Praise be to Allaah.
Al-matn (text) in Arabic means the back. In Islamic terminology it refers to the contents of a book, such as the text of Saheeh al-Bukhaari or the text of Zaad al-Mustaqni’
The scholars usually use this word to refer to brief books that are in circulation among the scholars and seekers of knowledge in a particular field of knowledge. For example, in the case of ‘aqeedah (tenets of faith), they may say Matn al-Waasitiyyah, referring to the brief book on ‘aqeedah by Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah, which is called al-‘Aqeedah al-Waasitiyyah. Similarly, Matn al-Tahhaawiyyah refers to a brief book on ‘aqeedah by Imam al-Tahhaawi. 
Usually what is meant by the word matn (text) is to distinguish the book from its commentary. For example they may say Matn al-Tahhaawiyyah to distinguish it from Sharh al-Tahhaawiyyah (the commentary on al-Tahhaawiyyah), which is another book in which Ibn Abi’l-‘Izz al-Hanafi commented on the original short book, al-‘Aqeedah al-Tahhaawiyyah
Mutoon (pl. of matn) or texts are usually short but contain many meanings and important principles of knowledge which are written about in brief terms to make it easy to memorize them and focus on issues of knowledge. Imam al-Bukhaari (may Allaah have mercy on him) said: al-Khaleel ibn Ahmad said: Words may be made brief in order to memorize them and made long in order to understand. Khalq Af’aal al-‘Ibaad, no. 244.        
And Allaah knows best.
 Www.momimsalafi.blogspot.com
Www.salafinaat.blogspot.com
Www.salafimomin.wordpress.con

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

               السلام علیکم  .شیخ الصالح المنجد
برائے مہربانى درج ذيل موضوع كے متعلق معلومات مہيا كريں: 
عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے موضوع ميں لوگ دو گروہوں ميں بٹے ہوئے ہيں، ان ميں سے ايك گروہ تو كہتا ہے كہ يہ بدعت ہے كيونكہ نہ تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں منائى گئى اور نہ ہى صحابہ كے دور ميں اور نہ تابعين كے دور ميں. 
اور دوسرا گروہ اس كا رد كرتے ہوئے كہتا ہے كہ: تمہيں جو كوئى بھى يہ كہتا ہے كہ ہم جو كچھ بھى كرتے ہيں وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں يا پھر صحابہ يا تابعين كے دور ميں پاياگيا ہے، مثلا ہمارے پاس علم رجال اور جرح و تعديل نامى اشياء ايسى ہيں اور ان كا انكار بھى كوئى شخص نہيں كرتا حالانكہ انكار ميں اصل يہ ہے كہ وہ بدعت نئى ايجاد كردہ ہو اور اصل كى مخالف ہو. 
اور جشن عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اصل كہاں ہے جس كى مخالفت ہوئى ہے، اور بہت سارے اختلافات اس موضوع كے گرد گھومتے ہيں ؟ 
 سوال   اسى طرح وہ اس كو دليل بناتے ہيں كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے جشن ميلاد منانے كو صحيح كہا ہے، اس ليے آپ اس سلسلہ ميں شرعى دلائل كے ساتھ حكم واضح كريںwww.mominsalafi.blogsot.com😊
الحمد للہ:
اول:
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے.
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے.
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے.
ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 ).
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا.
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے.
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى
ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 ).
دوم:
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا.
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں:
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا.
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے.
اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے.
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں:
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 ).
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.
عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:
پہلى مثال:
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.
دوسرى مثال:
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.
تيسرى مثال:
اصول فقہ كى تدوين.
چوتھى مثال:
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ).
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى.
ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 ).
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 ).
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا.
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا.
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو.
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى
ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ).
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے.
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں.
سوم:
اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں.
واللہ اعلم

ماہِ ربیع الاول

سوال: کچھ لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں: (جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد دے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی) کیا یہ حدیث صحیح  ہے یا نہیں وضاحت کیجے  سایل Published iD...Dec  2016
Salafi communication
الحمد للہ:
ذکر شدہ حدیث  کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی، اور خود ساختہ  ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لئے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ کے بارے میں جھوٹ باندھنے  کے زمرے میں آتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا  یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ  بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق  کوئی حدیث  جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا،  جھوٹا کیوں نہ ہو؟!  وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمائی" انتہی
" شرح صحيح مسلم " (1/65)
اور اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہِ ربیع الاول  کی جس شخص نے مبارکباد دی تو صرف اسی عمل سے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، یہ بات حد سے تجاوز، اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے، جو کہ اس حدیث کے باطل اور خود ساختہ ہونے کی علامت ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"خود ساختہ احادیث میں اندھا پن ، بے ڈھب  الفاظ، اور حد سے زیادہ تجاوز ہوتا ہے، جو ببانگ دہل  ان احادیث کے خود ساختہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے نام پر خود گھڑی گئی ہے" انتہی
" المنار المنيف " (ص 50)
آپ فائدے کیلئے ہمارے ویب سیٹ دیکھسکتے ہے 
Www.mominsalafi.blogspot.com

اصول ایمان كے موضوع پر ایک لیكچر)ابن باز)

السلام علیکم .  اپ کی خدمت میں ابن کی فتاوی
اصول ایمان كے موضوع پر ایک لیكچر
سب تعریفیں اللہ تعالى کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اور درود و سلام ہو اس کے بندے اور اس کے رسول اور اس کی مخلوقات میں سب سے افضل ترین ہستی اور اس کی وحی کے امین ہمارے نبي اور ہمارے إمام حضرت محمد بن عبد الله صلی اللہ علیہ وسلم پر، اور ان کی اولاد اور ان کے صحابہ کرام پر، اور ان پر بھی روز قیامت تک درود و سلام ہو جو ان کی راہ پر چلتے ہیں اور ان کے طریقے کو اپناتے ہیں۔ حمد و سلام کے بعد...
برادران كرام: آج میرا موضوع سخن اصول ايمان ہے ، اس موضوع کو یونیورسٹی نے منتخب کیا اور میں نے اسے منظور کیا ، کیونکہ یہ موضوع بہت اہمیت کا حامل ہے، اس لئے کہ ہمارے دین کا دارومدار ان ہی اصولوں پر ہے، اور یہی امت کی کامیابی کے راز ہیں اور یہی ان کی خوش بختی کے سرچشمہ ہیں اوراسی ميں ان کے چین و سکون اور ان کی ترقی اور ساری قوموں پر ان کی بالادستی کا راز پنہا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ انہیں اپنے اقوال و افعال، گفتار و کردار، جہاد اور لین دین وغیرہ میں عملی جامہ پہنادیں.
قرآن کریم نے ان اصولوں کو بہت ساری آیتوں میں واضح کيا ہے، اسی طرح ہمارے نبي عليه الصلاة والسلام نے بھی بہت ساری آیتوں اور احادیث مبارکہ کے ذریعہ روز روشن کی طرح عياں کيا ہے. اور یہ چھ اصول ہیں، یہي ايمان کے أصول ہیں اور یہی دين کی بنیاد ہیں، کیونکہ سارا کا سارا دین تو ایمان میں ہے اور وہی اسلام ہے، اور اسلام نام ہے راہ ہدایت اور نیکی اور تقوی کا۔ اور نیکی اور تقوی تو اسی میں پنہاں ہیں جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے مفید علم اور نیک عمل کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ان ساری باتوں کا نام ايمان ہے، یہ ہمارے دین کے چھ اصول ہیں جنھیں قران مجید نے کئی مقامات پر واضح فرمایا ہے اور اور اللہ تعالی کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث مبارکہ میں واضح فرمایا ہے ، اللہ سبحانه و تعالی کے کلام مبارک جو وارد ہوا ہے ان میں سے چند آیات یہ ہیں:   ﺳﺎﺭﯼ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﻣﺸﺮﻕ ﻭﻣﻐﺮﺏ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﻛﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﻜﮧ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎﹰ ﺍﭼﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﭘﺮ، ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﭘﺮ، ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ، ﻛﺘﺎﺏ ﺍﹴ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﻛﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 16)
آيت ۔ اللہ سبحانه وتعالى نے یہاں ایمان کے پانچ اصولوں کا تذکرہ فرمایا ہے: اور وہ ہيں: الله پر ايمان، قیامت کے دن پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، اللہ کی كتابوں پر ایمان اور انبیاء کرام پر ایمان، یہ پانچ اصول ہیں جنکے ظاہر و باطن پر دین کا دارومدار ہے، اور اللہ عزوجل نے فرمایا   ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﯾﺎ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ، ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﺮﺗﮯ، آيت
Www.mominsalafi.blogspot.com
اللہ سبحانہ وتعالى نے اس فرمان میں چار اصولوں کو بیان فرمایا:   ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ لیکن اس میں روز آخرت کا تذکرہ نہیں ہے، البتہ سابقہ آیت میں اور دیگر کئی آیتوں میں اس کا تذکرہ بھی موجود ہے، اور یہ اللہ سبحانہ و تعالی کا اپنی کتاب میں طریقہ ہے کہ اپنے بارے میں اور اپنے اسماء و صفات کے متعلق معلومات کو الگ الگ انداز میں بیان فرماتا ہے، اور اس دين کے اصول نیز روز قیامت کے احوال ، جنت و دوزخ کے بارے میں اور رسولوں اور انکی قوموں کے بیان میں بھی اسی اسلوب کو ملحوظ رکھا گیا ہے، تاکہ پڑھنے والا کتاب اللہ میں ہر ہر جگہ ایسی بات پالے جس سے اسکا علم و ایمان مستحکم ہو، اور اس لئے بھی کہ کلام اللہ میں ہر جگہ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر حدیث شریف سے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکے، بہرحال اللہ تعالی نے روز آخرت کی طرف اس آیت مبارکہ کے آخر میں اپنے اس ارشاد پاک کے ذریعہ اشارہ فرمایا ہے:   ﮨﻢ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺨﺸﺶ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺏ ! ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭨﻨﺎ ﮨﮯ، اور الله تعالى نے فرمايا   ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﭘﺮ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ( ﹲ ) ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ( ﹲ ) ﭘﺮ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻؤ ! ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻛﻔﺮ ﻛﺮﮮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺩﻭﺭ ﻛﯽ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﭘﮍﺍ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 17)
اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا کہ ان اصولوں کا انکار حقیقت میں راہ ہدایت سے واضح گمراہی ہے، اور اس معنى ميں آيات بہت زياده ہيں، بعض مقامات پر اللہ سبحانه وتعالی نے صرف ايمان بالله کو ذکر کیا ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ دوسری آیتوں میں ذکر کردہ سارے اصول ایمان باللہ میں شامل ہیں، اس لئے کسی کسی آیت میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا تذکرہ آیا، اور کہیں کہیں ایمان باللہ کے ساتھ صرف ایمان بالآخر کا ذکر وارد ہوا، اس لئے جب ايمان بالله کا ذكر ہوگا تو دوسری آیتوں میں ذکرکردہ ايمان بالملائكة، ايمان بالكتب ، ايمان بالرسل اور ايمان باليوم الآخر جیسے امور اس میں شامل ہونگے، اللہ تبارک وتعالی کا یہ ارشاد اسی قبيل سے ہے،   ﺍﮮﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺍللہﺗﻌﺎلی ﭘﺮ، ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﺘﺎﺏ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﺘﺎﺑﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ یہاں صرف ايمان بالله ، اس کے رسول پر ایمان اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب اور ان سے قبل نازل کردہ کتابوں پرایمان کو ذکر کیا گیا ہے، اور دیگر اصولوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا؛ کیونکہ وہ خود بخود ایمان باللہ میں شامل ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی اسی قسم سے ہے:   ﺳﻮ ﺗﻢ ﺍللہ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻو اس میں ايمان بالله اور ایمان بالرسول کا ذکر آیا اور اس نور پر ایمان لانے کا تذکرہ ہوا جو حضرت محمد صلى الله عليه وسلم پر نازل کیا گیا اور وہ نور كتاب وسنت ہيں، اور یہ اس لئے کہ باقی اس میں شامل ہیں پس کتاب و سنت اس نور ميں داخل ہيں، اسی طرح الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی اور مستقبل کی جو خبریں دی ہیں وہ سب کے سب نور کے مفہوم میں داخل ہیں. اسی طرح اللہ کا يہ قول بھی ہے:   ﺍﹴ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺁ﯃ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺧﺮﭺ ﻛﺮﻭ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﹴ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ( ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﰷ ) ﺟﺎﻧﺸﯿﻦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﭘﺲ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ یہاں صرف ايمان بالله اور ایمان بالرسول کا تذکرہ ہوا اور یہ صرف اس لئے کہ باقی ارکان ايمان بالله اور ایمان بالرسول میں خود بخود شامل ہیں۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 18)
اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی حديث پاک میں وارد ہے، جو حدیث جبريل سے معروف ہے، کہ جب نبي کریم عليه الصلاة والسلام سے اسلام اور ايمان اور احسان کے بارے میں پوچھا گيا، تو آپ نے سب سے پہلے اسلام کا ذکر کيا، اور ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے ايمان کا تذکرہ فرمایا اس کے بعد اسلام اور پھر احسان کا ذکر کيا، مطلب یہ ہے کہ پہلے ايمان کو ذکر فرمایا جس سے باطن درست ہوتا ہے، کیونکہ باطن ہی بنیاد ہے، اور ظاهر تو باطن کے ہی تابع ہے اس لئے ظاهری اعمال کو اسلام کا نام دیا گیا؛ کیونکہ اسلام کا معنی ہی فرماںبرداری اور اللہ سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرنا ہے، اور اسلام اپنے آپ کو حوالہ کرنے اور اللہ کے حکم کی تابعداری کرنے کو کہتے ہیں، الغرض الله سبحانه وتعالى نے امور ظاهرہ کو إسلام کا نام دیا؛ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی فرمانبرداری اور اس کی بارگاہ میں جھکنے اور اس کے احکام کی پابندی اور اللہ کی طرف سے متعین کردہ حدود کی پابندی کا معنی پایا جاتا ہے۔ عربی زبان میں کہاوت ہے أسلم فلان لفلان یعنی فلاں نے فلاں کی بات مان لی، اور أسلمت لله کا معنى ہے میں نے اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ، اور میں اس کے سامنے جھک گیا اور میں نے اس کے حکم کو نافذ کردیا اور اللہ سبحانه وتعالى کے لئے اپنے آپ کو جھکا دیا۔
لہٰذا اسلام نام ہے ظاہری اعمال کے ذریعہ الله تعالی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرنے کا، اور ایمان نام ہے باطنی امور کی تصدیق کرنے کا، اور ظاہری امور وہی ہیں جو شریعت مطہرہ میں وارد ہیں اور سب معنی اس وقت ہے جب دونوں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کئے جائیں، اس لئے جب حضرت رسول الله عليه الصلاة والسلام نے اس صحیح حدیث پاک میں دونوں کو جمع فرمایا، تو اسلام کو ظاهری امور سے تعبیر فرمایا، اور وہ ہیں شهادتین (یعنی دونوں گواہیاں) اور نماز، زکاۃ، روزہ اور حج، جبکہ ايمان کو باطنی امور کے ساتھ خاص فرمایا اور وه ہے اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے فرشتوں وغیرہ پر ایمان لانا .
اور اسی قسم سے ہے جو صحیح حدیث شریف میں وارد ہے ، کہا گیا  اے اللہ کے رسول کون سے اعمال سب سے افضل ہیں آپ نے فرمایا یہ کہ کھانا کھلانا، اور ہر اس شخص کو سلام کرنا جسے تم پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔ اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ: کونسا اسلام افضل ہے آپ نے فرمایا :وہ شخص جسکی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہيں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام ان ظاہری امور کے ساتھ خاص ہے جن سے اللہ تعالی کی فرماںبرداری، اس کے حکم کی بجا آوری، اس کی شریعت کی پابندی، اور اس سے ہر ہر بات میں حاکم مطلق کو ماننے کا مفہوم عیاں ہوتا ہے، جبکہ ايمان ایسی باتوں کے ساتھ خاص ہے جن کا تعلق دل سے ہے جیسے اللہ تعالی اور اسکے فرشتوں، اس کی کتابوں، آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ۔ اس لئے جب حضرت نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے عرض کیا یہ کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تفسیر میں ان چھ ایمان کی بنیادی باتوں کا تذکرہ فرمایا، اور یہی دین اسلام کے بھی اصول ہیں؛ اس لئے کہ جسے ایمان نصیب نہیں اسے اسلام بھی حاصل نہیں ہے، اور جسے اسلام نصیب نہیں اسے ایمان بھی نصیب نہیں ، لہذا اسلام کی درستگی کے لئے ان چھ اصولوں پر ایمان لانا ضروری ہے، لیکن یہ کبھی مکمل بھی ہوسکتا ہے اور کبھی ناقص بھی، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے عرب کے دیہاتیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:   ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﻟﻮﮒ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﮯﻟﯿﻜﻦ ﺗﻢ ﯾﻮﮞ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻻﺋﮯ
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 19)
جب ان کا ایمان کامل نہیں ہوا، بلکہ ناقص إيمان ہوا، کیونکہ ان لوگوں نے ايمان کے تمام واجبات کو شامل نہیں کرپائے، لہٰذا اللہ تعالی نے ان سے ایمان کی نفی فرمادی، یعنی ایمان کامل کی نفی فرمایا؛ کیونکہ یہ نفی اس سے وابستہ ہے جس نے کچھ واجبات کو چھوڑدیا ہو، جیساکہ حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم کے ارشاد مبارک میں ہے: اس شخص كا ايمان نہيں جو صبر نہیں کرسکا۔ اور آپ صلى الله عليه وسلم كا قول کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔ نیز حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:  جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی تکريم کرے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن ایمان لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ اسکے علاوہ ديگر احادیث۔ مقصود يہ کہ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ظاہری عمل بھی ہو، اور ایمان کے بغیر اسلام تو منافقوں کا کام ہے؛ لہٰذا کامل اور واجبی ایمان ہمیشہ اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کا تقاضہ کرتا ہے، اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منع کردہ چیزوں سے اجتناب کا مطالبہ کرتا ہے، پس ایمان کامل کا مقتضی ہے کہ ظاہری عمل بھی ہو، اگر اس میں کوتاہی یوحائے، تو اس سے ایمان کی نفی جائز ہے؛ کیونکہ ایمان میں کوتاہی ہوئی ہے، جیساکہ ان دیہاتیوں سے اللہ نے ایمان کی نفی فرمائی ، ارشاد باری تعالى ہے:   ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﻟﻮﮒ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﮯﻟﯿﻜﻦ ﺗﻢ ﯾﻮﮞ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻻﺋﮯ اور جیساکہ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں ذکر کردہ لوگوں سے ایمان کی نفی کی گئی ہے۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 20)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے ایمان کی نفی فرمائی ہے جنہوں نے واجبات ایمان میں سے کچھ باتوں کو ترک کیا اور ان کے لئے اسلام کو ثابت کیا ہے، بہرحال یہ چھ اصول پورے دین کی بنیاد ہیں۔ جس نے بھی انہیں مکمل کیا اور ساتھ ہی ظاہری اعمال کو بھی بجا لايا تو وہ مؤمن اور مسلم دونوں ہوگیا، اور جس نے انہیں مکمل نہیں کیا تو اسے نہ ایمان حاصل ہے اور نہ اسلام، اور وہ منافقین کی طرح ہوا کیونکہ انہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا اور ایمان کا بھی دعوی کیا تھا، اور لوگوں کے ساتھ نماز بھی پڑھی تھی، اور لوگوں کے ساتھ حج بھی کیا تھا، بلکہ لوگوں کے ساتھ جہاد میں بھی گئے تھے، اور دیگر اسلامی اعمال انجام دئیے تھے. لیکن وہ باطن میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے اور وہ ايک طرف تھے تو مسلمان دوسری طرف۔ وہ تو در پردہ اللہ اور اس کے رسول کو جھوٹا سمجھتے تھے، اور رسولوں کے لائے ہوئے پیغام کے منکر تھے، ہاں فوری مصلحتوں کے پیش نظر اور جانے پہچانے مقاصد کے تحت اسلام کی نمائش کرتے تھے، چنانچہ اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے دعووں کی تکذیب فرمائی، اور وہ گمراہ کافر قرار پائے، بلکہ علانیہ کافروں سے کفر اور شرارت میں چار ہاتھ آگے نکلے، اسی وجہ سے ان کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ قرار پایا، اور یہ اس لئے کہ اس کا خطرہ نہایت ہی نقصان دہ ہے کیونکہ ایک مسلمان اسے اپنے بھائیوں میں سمجھے گا، اور ہم مشرب باور کریگا اور کچھ راز بھی اسے بتا دے گا، اور وہ غداری کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچا ۓ گا، اس لئے اس کا کفر زیادہ خطرناک اور زیادہ نقصان دہ ہے. اور یہی حال ان لوگوں کا ہے جو ان اصولوں پر ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اسلام کے ظاہری احکام پر عمل نہیں کرتے ہیں، لہذا ایسے شخص نے در حقیقت اللہ کی وحدانیت اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم ہی نہیں کیا، یا نماز ہی نہیں پڑھی، اور روزہ نہیں رکھا یا زکاۃ ادا نہیں کی ، اور حج نہیں کیا یا اسلام کے دیگر ظاہری مذہبی اعمال کو ترک کیا جنھیں اللہ تعالی نے اس پر فرض کیا ہے، تو یہ اس کی بے ایمانی یا کمزورئ ایمان کی نشانی ہے، اور کبھی کبھی بالكلية ایمان اٹھ جاتا ہے، جیساکہ ترک شهادتين کی صورت میں إجماعی طور پر ایمان اٹھ جاتا ہے، اور کبھی کبھی اصل ایمان تو نہیں ختم ہوتا ہے، لیکن کمال و پختگی ختم ہوجاتی ہے، اور وہ اس وقت ہوتا ہے جب فرض عین وغیرہ کی ادائیگی نہ کرے، جیسے روزہ، نماز اور قدرت کے باوجود حج اور زکاۃ وغیرہ نہ ادا کرنے کی صورت میں ہے، اور یہ جمہور اہل علم کے نزدیک ہے، کیونکہ ان کا ترک گمراہی اور فسق ہے، لیکن اکثر حضرات کے نزدیک ارتداد نہیں ہے، بشرطیکہ ان کی فرضیت کا منکر نہ ہو، لیکن ایک گروہ کی رائے کے مطابق نماز کا ترک اسلام سے ارتداد ہے، اور یہی علماء کرام کے دو اقوال میں صحیح ترین قول ہے؛ کیونکہ اس پر بہت سارے دلائل ہیں، ان میں سے ایک آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہے: ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو عہد باندهنا گيا ہے وہ نماز ہے، لہذا جس نے نماز کو چھوڑ دیا وہ کافر ہوگیا۔ اس کی روایتامام احمد اور اصحابِ سنن نے حضرت بريدہ بن حصیب رضي الله عنه سے صحیح سند کے ساتھ کی ہے۔ لیکن دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حقيقی کفر سے کمتر درجہ کا کفر ہے بشرطیکہ وہ اس کے وجوب کا منکر نہ ہو، واضح رہے کہ يہ ايک مستقل موضوع ہے اور اہل علم نے اس پر بحث و تحقيق کے ناحيہ سے بھر پور توجہ دی ہے، یہاں اتنا اشارہ کردینا کافی ہے کہ جسے ایمان نصیب نہیں اسے اسلام بھی نصیب نہیں ہے، اور جسے اسلام نصیب نہیں ہے اسے ایمان بھی نصیب نہیں ہے، وہ اس کی نشانی ہے، اور یہ اس کی نشانی ہے، اور یہ بات پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ اسلام کو اسلام اس لئے کہتے ہیں کيونکہ وہ اللہ تبارک و تعالی کے لئے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی بارگاہ میں عاجزی اور اس کی عظمت کے آگے سر جھکانے پر دلالت کرتا ہے، اور اس لئے بھی کہ اس کا تعلق ظاہری امور سے ہے.
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 21)
اور ایمان کو ایمان اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق باطن سے ہے اور اسے تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے، اسے ایمان کا نام دیا گیا کیونکہ اس کا تعلق تصدیق کرنے والے کے دل سے ہے، اور دلی تصدیق اور دلی ایمان کی درستگی کے لئے کچھ ظاہری نشانیاں ہیں، جب ایک تصدیق کرنے والے مسلمان سے وہ ظاہر ہوتی ہیں اور وہ ان پر ثابت قدم رہتا ہے اور ان کا حق ادا کر دیتا ہے تو وہ اس کے ایمان کی درستگی پر دلالت کرتی ہیں، اور اگر وہ اس پر ثابت قدم نہ ہو تو عدم ایمان یا کمزورئ ایمان پر دلالت کرتی ہیں، اور ایمان جب مطلق رکھا جائے تو اسلام اس میں داخل ہے اور اسی طرح اس کا برعکس معاملہ ہے، یہ مذہب أهل سنت وجماعت کا ہے جیساکہ الله عز وجل کا ارشاد ہے :   ﺑﮯ ﺷﻚﺍللہ ﺗﻌﺎﻟی ﻛﮯ ﻧﺰﺩﯾﻚ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﮨﮯ۔ لہٰذا أهل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان اس میں شامل ہے کیونکہ بغير ايمان کے کوئی اسلام نہیں ہوتا ہے، تو دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور وہی ایمان ہے اور وہی ہدایت ہے اور وہی تقوی ہے اور وہی نیکی ہے. ان ناموں کے الفاظ اگرچہ جدا جدا ہیں، لیکن وہ سب ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ ہے اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر اللہ کی رہنمائی کے مطابق ایمان لانا اور اللہ کے دین پر ثابت قدم ہونا، ان سب کو کبھی بر (نیکی) اور کبھی اسلام اور کبھی ایمان اور کبھی تقوی اور کبھی ہدایت کہا جاتا ہے، اسی طرح اگر لفظ احسان کو مطلق رکھا جائے تو اس میں دونوں باتیں یعنی اسلام اور ایمان شامل ہونگے؛ کیونکہ یہ اللہ کے کامل ترین بندوں کا وصف ہے؛ لہٰذا اگر احسان مطلق ہو، تو اس میں پہلے والی دونوں باتیں یعنی اسلام اور ایمان شامل ہونگے، اور ان تینوں میں سے کوئی بھی مطلق رکھا جائے تو اس کے دونوں شریک اس میں شامل ہونگے، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ محسنین الله تعالی کے نہایت خاص بندے ہیں، تو احسان اسلام و ایمان کے بغیر نہیں ہوگا، ارشاد باری تعالی ہے :   ﺍﻭﺭ خوب نيك عمل كرتے ہوں،الله ايسے نيکو كاروں سے محبت ركهتا ہےاور الله سبحانه وتعالى نے فرمايا ہے   ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻚ ﰷﺭﻭﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ الغرض محسن تو جبھی ہوگا جب اس کے پاس ایمان و اسلام ہوگا، اور تقوی، شعائرِ اسلام اور اللہ کے حکم کا پابند ہوگا، اسی کی وجہ سے اسے محسن کہا گیا ہے، إسلام وإيمان کے بغیر تو صاحب احسان کا تصور ہی نہیں ہوسکتا ہے۔
برادرانِ عزیز ! اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ مومنین میں مسلمین شامل ہونگے، میرا مطلب یہ ہے کہ مومنین کا لفظ مسلمین کے لفظ کے مقابلے میں زیادہ خصوصیت کا حامل ہے، الله تعالى نے فرمايا ہے   ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ۔ اور الله تعالى کا ارشاد ہے :   ﺍﻥ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﹴ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺟﻨﺘﻮﮞ ﰷ ﻭﻋﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﻛﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻧﮩﺮﯾﮟ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ آيت ۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 22)
مؤمن کو مؤمن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے دل سے تصدیق کیا، اور اپنے اعضاء و جوارح کو اللہ وحدہ لا شریک کی اطاعت میں لگا دیا، لہٰذا مؤمنین اس لئے مومنین کہے جاتے ہیں کیونکہ وہ الله کی تصدیق کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرتے ہیں اور اس کے احکام بجا لاتے ہیں اور اللہ سبحانه وتعالى کے متعین کردہ حدود کے پابند رہتے ہیں، اس مفہوم کی تائید حضرت سعد بن ابی وقاص رضي الله عنه کی اس روایت سے ہوتی ہے  حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے حضرت سعد نے پوچھا اس وقت جب حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا : يا رسول الله ! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا، جبکہ فلاں کو آپ نے کچھ نہیں دیا اور میں تو اسے مؤمن سمجھتا ہوں، تو حضرت نبي کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بلکہ مسلم کہو، تو حضرت سعد نے اپنی بات کو واپس لے ليا اور حضرت نبي کریم عليه الصلاة والسلام نے فرمایا کہ مسلم کہو۔ الغرض اسلام اور ايمان جب ایک ہی جگہ جمع ہوں تو ان کے الگ الگ معنی ہونگے، معنى خاص ومعنى عام، لہٰذا لفظ مسلم لفظ مؤمن کے مقابلہ میں زیادہ عمومی معنی کا حامل ہے، اور لفظ مؤمن لفظ مسلم کے مقابلہ میں زیادہ خاص ہے، لہذا ہر مؤمن مسلم ہے لیکن اس کا عکس نہیں، لیكن مطلق ذکر کئے جانے کے وقت ایک دوسرے میں شامل ہونگے جیساکہ بیان ہو چکا ہے .
اس کی تائید آپ صلى الله عليه وسلم کے اس ارشاد مبارک سے بھی ہوتی ہے : ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ ایمان کی ساٹھ سے زائد شعبے ہیں، انميں سب سے افضل لا الہ الا اﷲ کا کہنا ہے اور سب سے كم تر درجہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کر دینا ہے، اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ متفق عليہ ۔ اس حديث پاک میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مطلق ايمان میں اسلام، ہدایت ، احسان، تقوی اور نیکی داخل ہے؛ اس لئے ايمان کا أعلی درجہ لا إله إلاّ الله پڑھنا ہے اور اس کا ادنی درجہ راہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور یہی ہمارا پورا دین ہے، اور یہی اسلام ہے اور یہی ايمان ہے۔ اس لئے ارشاد ہے : ان سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہنا ہے
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 23)
اور یہ تو معلوم ہے کہ لا اله الاّ الله محمد رسول الله اركان اسلام کا اولین ركن ہے، اس لئے یہاں اسے ایمان کے اعلی ترین اوصاف میں شمار کیا، اس سے پتہ چلا کہ ایمان کو مطلق رکھنے کی صورت میں اسلام اپنے تمام ترین ارکان و اعمال کے ساتھ اس میں شامل ہوگا، اسی طرح اگر صرف ايمان بالله کا اطلاق کیا جائے، یا صرف ايمان بالله اور ایمان بالرسول کا اطلاق کیا جائے، تو بھی اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے متعین کردہ سارے احکامات شامل ہونگے، جیسے نماز، روزہ، حج، فرشتوں پر ایمان، كتاب اللہ پر ایمان، نبيوں پر ایمان، آخرت پر ایمان اور اچھی بری تقدیر پر ایمان، یہ سب کے سب ايمان بالله کے مفہوم میں شامل ہونگے، کیونکہ ايمان بالله میں اس کے اسماء و صفات اور اس کے وجود پر ايمان خود بخود شامل ہے اس میں یہ ایمان بھی شامل ہے کہ اللہ سارے جہانوں کا رب ہے اور وہی عبادت کا حق دار ہے، اسی طرح اس میں اللہ سبحانه وتعالى کی خبر دی ہوئی ساری باتوں پرايمان اور اپنے بندوں کے لئے مقرر کردہ سارے احکام پر ایمان بھی شامل ہے، نیز اس میں سارے رسولوں اور سارے فرشتوں اور ساری آسمانی کتابوں اور سارے انبیاءِ کرام پر ایمان اور جو جو خبر بھی اللہ و رسول صلى الله عليه وسلم نے دی ہے وہ سب لفظ ایمان میں شامل ہیں۔
اسی طرح جو بھی حدیث شریف میں اس بارے میں وارد ہے وہ بھی اس میں شامل ہے چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:  تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ثابت قدم رہو۔ اس میں وہ ساری باتیں شامل ہونگی جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور جو احکام شریعت میں مقرر کئے گئے ہیں، اس بارے میں اللہ تعالى کا ارشاد ہے:   ( ﻭﺍﻗﻌﯽ ) ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺍللہ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﮯ یعنی جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا معبود، ہمارا خالق، ہمارا رازق الله تعالی ہی ہے، اور اس پر اس طرح ایمان لائے جو كتاب الله وسنت رسول اللہ عليه الصلاة والسلام میں وارد ہے، اور اس پر ثبات قدمی کو بھی شامل ہے، قرآن كريم میں الله سبحانه وتعالى کا طریقہ یہ ہے کہ خبروں اور قصوں کو کہیں کہیں تفصیل سے بیان فرماتا ہے، اور کہیں کہیں انہیں مختصر انداز میں بیان فرماتا ہے؛ تاکہ ایک مؤمن اور طالب علم ان معاني کو الله سبحانه و تعالی کی كتاب میں مجمل ومفصل دونوں طریقوں سے سمجھ سکے، اور اس کے بعد مقام اختصار اور مقام تفصیل و شرح کے ساتھ اس پر مشکل نہ ہونے پائے، کہ کیوں اس کا الگ معنی ہے اور اس کا ایک الگ معنی ہے.
اسی طرح ايمان کا کئی جگہ پر اطلاق ہوتا ہے، اور کبھی کبھی اسی کے اجزاء اور اقسام کا اس پر عطف بھی کیا جاتا ہے، اور یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ اس کے اہم ترین اور عظیم ترین شعبے ہیں، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:   ﺑﮯ ﺷﻚ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ (ﺳﻨﺖ ﻛﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ) ﻧﯿﻚ کاﻡ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻛﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻛٰﻮۃ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ کا ﺍﺟﺮ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺭﺏ ﺗﻌﺎلی ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ تو اللہ تعالی کا یہ ارشاد   وہ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻛﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻛٰﻮۃ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ يہ ايمان اور نیک عمل کا جزء ہے، لیکن یہاں اسے خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان دونوں باتوں کی شان نہایت ہی عظیم تر ہے، اسی طرح الله تعالى كا یہ فرمان مبارک:   ﺳﻮ ﺗﻢ ﺍللہ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻو
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 2
آکر اپ کچہ اور موضوعات پھڑنا چھاتے
Www.mominsalaci.bligspot.com
Www.salafimomin.blogspot.com
Www.mominsalafi.worpress.com

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...