اتوار، 31 جنوری، 2016

صحیح بخاری میں شک کرنے والے کارد

الحمد للہ
 امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی وفات ( 256 ھـ ) میں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ( 245 ) سال بعد ہوئ ، اورجیسا کہ آپ کے شیعۃ دوست کا گمان ہے اس طرح نہیں ، لیکن بات یہ ہے کہ جب جھوٹ اپنی اصلی جگہ سے نکلے تواس پرتعجب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس سے یہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں قطعی طور پریہ مراد نہیں ہے ہم نے صرف اسے وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspor.com ۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم صحیح بخاری پر اعتماد کس طرح کر سکتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہی نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح بخاری میں بلاواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان نہیں کیں بلکہ اپنے ثقہ شیوخ اوراساتذہ سے روایات بیان کی ہیں جو کہ حفظ و ضبط اور امانت کے اعلی درجہ پرفائز تھے اور اسی طرح کے سب روای صحابہ کرام تک پہنچتے ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرتے ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اورامام بخاری کے درمیان کم از کم راویوں کی تعداد تین ہے ۔
اورپھرصحیح بخاری پر ہمارا اعتماد اس لیے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے جن راویوں سے روایات نقل کی ہیں وہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ان کے اختیارمیں انتہائ قسم کی چھان بین کی اور پھران سے روایت نقل کی ہے ، اس کے باوجود امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس وقت تک کوئ حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی جب تک کہ غسل کرکے دو رکعتیں پڑھ کر اللہ تعالی سے اس حدیث میں استخارہ نہیں کرلیا ، تواستخارہ کرنے کے بعد وہ حدیث لکھتے تھے ۔
تواس کتاب کو لکھنے میں ایک لمبی مدت صرف ہوئ جو کہ سولہ سال پرمحیط ہے ، اور امت اسلامیہ نے اس کتاب کوقبول کیا اوراسے صحیح کا درجہ دیا اور سب کا اس کے صحیح ہونے اجماع ہے اور پھربات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت محمدیہ کوضلال اور گمراہی اکٹھا ہونے سے بچایا ہوا ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ :
علماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا اس پراتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعدکتابوں میں سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، اور امت نے اسے قبول کیا ہے اوران دونو‎ں میں صحیح ترین کتا ب صحیح بخاری ہے جس میں صحیح مسلم سے زیادہ فوائد پاۓ جاتے ہیں ۔ انتھی ۔
اگرآپ اس شیعی اوریاپھررافضی سے ان اقوال کے بارہ میں سوال کریں جوکہ اس کے بڑے بڑے علماء علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ اور باقر اور جعفر صادق رحمہم اللہ اورآل بیت وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ آیا کہ انہوں نے یہ اقوال ان سے بلاواسطہ سنے ہیں یا کہ وہ یہ اقوال سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب واضح ہے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اور ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں بہت بڑافرق پایا جاتا ہے ان گمراہ لوگوں کی سندوں میں آپ کوئی بھی ایسا راوی نہیں پائيں گے جس کی روایت پراعتماد کیا جاسکے بلکہ ان کے سب کے سب راوی آپ کو ضعفاء اور کذابوں اور جرح کیے گۓ رارویوں کی کتابوں میں ملیں گے ۔
اوریہ رافضی جو دعوی پھیلا رہا ہے سنت نبویہ میں طعن کا پیش خیمہ ہے جو کہ ان کے مذھب کوباطل اور ان کے عقیدے کوفاسد قرار دیتی ہے ، تو اس طرح کی گمراہیوں کے علاوہ ان کے پاس کوئ اورچارہ ہی نہیں ، لیکن یہ بہت دور کی بات ہے کہ اس میں وہ کامیاب ہوجائيں کیونکہ حق توواضح ہے اورباطل مضطرب اورپریشان ہورہا ہے ۔
پھرہم سائل کویہ نصیحت بھی کرتے ہیں _اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے - کہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ اس قسم کے لوگوں سے دوستی لگائيں جو اھل سنت و اھل حدیث ہوں اور بدعتیوں سے لگا‎ؤ نہ رکھیں اور نہ ہی ان اپنے حلقہ احباب میں شامل کریں ، ان لوگوں سے دوستیاں لگانے سے علماء کرام نے بچنے کوکہا ہے اس لیے کہ اس وقت کسی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے جب تک کہ مختلف قسم کے حیلوں اورملمع سازی کے ذریعے اسے گمراہ کرکےحق سے دور نہ کردیں۔
ہم اللہ تعالی سے اپنے اورآپ کے لیے سنت پرچلنے اور بدعت اوربدعتیوں سے دوررہنے کی توفیق طلب کرتے ہیں ۔
واللہ تعالی اعلم .

نماز تراویح کی رکعات از صالح المنجد

سوال یہ ہے کہ آیا تروایح گیارہ رکعات ہیں یا بیس ؟ کیونکہ سنت تو گیارہ رکعت ہی ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی بھی اپنی کتاب " القیام والتراویح " میں اسے گیارہ رکعت ہی قرار دیتے ہیں ۔
-----------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
-----------------------------------------
الحمد للہ
 ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم .

ہفتہ، 30 جنوری، 2016

كھڑے ہو كر پيشاب كرنا

بسم الله الرحمان الرحيم
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.BlogSpot.com
الحمد للہ:
كھڑے ہو كر پيشاب كرنے ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر ضرورت كے وقت جب كہ جگہ باپرد ہو اور پيشاب كرنے والے كى شرمگاہ كو كوئى شخص نہ ديكھے، اور نہ ہى اس پر پيشاب كے چھينٹے پڑيں، كيونكہ صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ: حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گندگى پھينكنے والى جگہ پر آئے اور كھڑے ہو كر پيشاب كيا "
متفق عليہ.
ليكن افضل يہى ہے كہ بيٹھ كر پيشاب كيا جائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا غالب فعل يہى تھا، اور اس ميں پردہ بھى زيادہ ہے، اور پيشاب كے چھينٹے پڑنے كا احتمال بھى باقى نہيں رہتا "
واللہ اعلم .

ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 6 / 352 ).

ابن باز رحمه الله – عورتوں كا مردوں كے شانہ بشانہ كام كرنے کے خطرات

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين۔ أما
mominsalafi.BlogSpot.com
بعد:
بلا شبہہ مردوں کے ميدان عمل ميں عورتوں کو اترنے کی دعوت دينا جو موجب اختلاط ہے ، چاہے يہ صريح لفظوں ميں ہو يا اشارہ و کنايہ کے پيراۓ ميں ، اور يہ کہنا کہ يہ موجودہ زمانے کے تقاضوں اور معاصر تہذيب و تمدن کی ضروريات ميں سے ہے ، ايک خطرناک امر ہے ، جس کے تباہ کن اثرات ، اورخطرناک نتائج ہيں ۔ ساتھ ہی يہ ان نصوص شريعت سے بھی متصادم ہے جو عورت کو گھر ميں رہنے اور ان اعمال کو انجام دينے کا حکم ديتے ہيں جو گھر کے ساتھ خاص ہيں ۔
جو شخص اختلاط کے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے بے شمار مفاسد کو ديکھنا چاہے تو وہ انصاف کی نگاہ اورغير جانب دار ہو کران سوسائٹيوں پر نظر ڈالے جو اس عظيم مصيبت ميں اختياراً يا اضطراراً گرفتار ہيں ، بلاشبہہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ناگواری کا احساس نماياں پائے گا ، اور عورتورں کےگھر سےباہرنکلنے اور خاندانی انتشار پر حسرت و افسوس کئے بغير نہيں رہ سکتا ۔ يہ شکوی وہ مقالہ نگاروں کی زبانی اور تمام ذرائع ابلاغ ميں واضح طور پر عام پاۓ گا ، وجہ يہ ہے کہ اس نے معاشرے کو تباہ کر ديا ہے اور اس کی بنيادوں کو ہلا کر رکھ ديا ہے ۔

ايسی صحيح اور صريح دليليں بکثرت وارد ہيں جو اجنبى عورت کے ساتھ خلوت اور اسے ديکھنے اور ان وسائل کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہيں جو اللہ کے حرام کردہ امور ميں پڑنے کا سبب ہيں، اختلاط کی حرمت کے ليے يہ سب قطعی دليليں ہيں؛ اس لئے کہ يہ اختلاط برے انجام تک پہںچانے والی چیز ہے۔
عورت کو اس کے دائرہ سلطنت سے نکالنا اور اس کے حيات بخش ميدان عمل سے باہر کرنا اسے اس کی فطری تقاضے اور حقیقت سے باہر کرنا ہے جس پر اللہ نے اسے پيدا کيا ہے ۔
عورت کو مردوں کے لئے خاص ميدان عمل ميں نکلنے کی دعوت دينا معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک ہے، جس کے بڑے اثرات ميں سے اختلاط کا پايا جانا ہے، جوکہ زنا کے عظیم ترين وسیلہ ہے، اور زنا سوسائٹی کو کمزور بنا ديتا ہے اور اس کی اخلاقی و سماجی قدروں کو پامال کرديتا ہے۔
يہ بات معلوم ہے کہ اللہ نے عورت کو ايک خاص بناوٹ عطا کی ہے جو مردوں کی بناوٹ سے يکسر مختلف ہے ، جس کے ذريعہ اللہ نے اسے اس کام کے لئے تیار کيا ہے جو گھر کے کام يا اپنی ہم جنسوں کے اعمال سے متعلق ہيں ۔
اس کا مطلب يہ ہوا کہ عورت کومردوں کے ساتھ خاص ميدان عمل ميں لانا اسے اسکی خاص شکل اور طبيعت سے نکالنا ہے ۔ اس کے اندر عورت کے ساتھ ظلم اور اسکی روحانيت کو ختم کرنا اور اس کی شخصيت کو تباہ کرنا ہے، جس کا برا اثر اس کی اولاد تک جا پہنچتا ہے ، کيوں کہ وہ تربيت اور شفقت و محبت سے محروم ہوجاتے ہيں ۔ يہ کام ماں کرتی ہے جو اس سے جدا کرگئی، اور اپنے دائرہ سلطنت سے پورے طور پر بے دخل کردی گئی، جبکہ عورت اس جگہ کے علاوہ کہيں بھی راحت ، سکون و اطمينان نہيں پاسکتی۔ موجودہ ہمارے اس معاشرے کی حالت زار جو اس مصبيبت ميں گرفتار ہوچکی ہيں ميری ان باتوں پر سچی گواہ ہے۔
اسلام نے مياں بيوی ميں سے ہر ايک کے لئے الگ الگ مخصوص فرائض مقرر کئےہيں، جس کی انجام دہی ہر ايک پر واحب ہے تاکہ گھر کے اندر اور باہر معاشرے کی صحيح تشکيل ہو سکے ۔
آدمی پر نان و نقفہ اور کما نے کی ذمہ داری ہے ، عورت بچوں کی تربيت ، ان کے ساتھ شفقت ومحبت ، رضاعت ، پرورش و پرداخت اور وہ تمام کام انجام دے گی جو بچوں کی تعليم سے متعلق ہيں جيسے انکے لئے مدارس کی ادارت ، ان کا علاج و معالجہ اور تيمارداری وغيرہ وہ تمام کام جو عورتوں کے ساتھ مختص ہيں ۔ عورت کی طرف سے گھر کے فرائض کو ترک کرنے ميں گھر اور گھر کے اندر رہنے والوں کی تباہی ہے ۔ جس سے حسی اور معنوی طور پر خاندانی بکھراؤ لازم آتا ہے ۔ ايسی صورت ميں شکل وصورت كے اعتبار سے تو معاشرہ کا ڈھانچہ نظر آتا ہے مگر حقيقت اور معنويات سے خالی ہوتا ہے ۔
الله جل وعلا نے ارشاد فرمايا :   ﻣﺮﺩﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﺎﻛﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻧﮯ ﺍﯾﻚ ﻛﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻛﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﻛﺌﮯ ﮨﯿﮟ، چنانچہ اللہ کی سنت اپنے مخلوق ميں يہی ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے مردوں کو عورتوں پر قوامت عطا کی ہے ، جيساکہ بہت سی آيتيں اس پر دلالت کرتی ہيں۔ اللہ سبحانہ تعالی نے عورتوں کو اپنے گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم ديا ہے اور بناؤ سنگار کرکے باہر نکلنے سے منع کيا ہے ، اس کا مطلب يہ کہ اختلاط سے ممانعت ہے ، اختلاط کہتے ہيں کہ مردوں کا اجنبی عورتوں کے ساتھ عمل ، بيع و شراء ، سيرو تفريح يا سفر وغيرہ کے بہانے جمع ہونا؛ کيوں کہ عورتوں کا اس ميدان ميں آنا محرمات ميں وقوع کا سبب ہے ۔ اس کے اندر اللہ کے امر کی مخالفت اوراس کے حقوق کی پامالی ہے جس کی ادائيگي ايک مسلمان عورت سے شرعا مطلوب ہے ۔
قرآن و حدیث اختلاط اور ان تمام وسائل کی حرمت پر دلالت کرتی ہيں جن سے اختلاط پيدا ہو:   ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ (٥) ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎ﯃ ﰷ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ، ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻛﺮﺗﯽ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺯﻛﻮٰﺉ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﹴ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ، ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﯾﮩﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯿﻮ ! ﺗﻢ ﺳﮯ ﻭﮦ ( ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﻛﯽ ) ﮔﻨﺪﮔﯽ ﻛﻮ ﺩﻭﺭ ﻛﺮﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﭘﺎﻙ ﻛﺮﺩﮮ(33) ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍللہ ﻛﯽ ﺟﻮ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ کا ﺫﻛﺮ ﻛﺮﺗﯽ ﺭﮨﻮ، ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻟﻄﻒ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ۔ اللہ نے امھات المؤمنين کو – اس ميں تمام مؤمنہ اور مسلمہ عورتيں داخل ہيں – گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم ديا ہے کيوں کہ اس کے اندر انکی حفاظت اور وسائل فساد سے دور رکھنا ہے؛ کيوں کہ عورت کا بلا ضرورت نکلنا تبرج اور بہت سے شر و فساد کا باعث ہے، پھر انہيں اعمال صالحہ کا حکم ديا ہے جو انہيں فحش کاموں اور منکرات سے دور رکھيں ، اور يہ نماز قائم کرکے اور زکاۃ ديکر اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم. کی اطاعت کرکے ممکن ہے ۔ پھر ان کی رہنمائی ايسے امور کی طرف کی گئی ہے جو ان کے دنيوی اور اخروی فائدے کا ضامن ہو ۔ وہ يہ کہ قرآن کريم اور سنت نبويہ سے اپنے تعلقات ہميشہ استوار رکھيں ، جس کے اندر انکے زنگ آلود دلوں کی صفائي کا سامان ہے ، جو انہيں ہر قسم کی گندگيوں سے پاک و صاف کرتے ہيں ، اور حق و راہ صواب کی طرف رہنمائي کرتے ہيں ۔ جیساکہ الله تعالى نے فرمايا:   ﺍﮮ ﻧﺒﯽ! ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﺎﺣﺒﺰﺍﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻛﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺳﮯ ﻛﮩﮧ ﺩﻭ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ لٹکا ﻟﯿﺎ ﻛﺮﯾﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮨﻮﺟﺎﯾﺎ ﻛﺮﮮ ﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺳﺘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ الله نے اپنے نبي عليه الصلاة والسلام – جو اپنے رب کی جانب سے مبلغ ہيں – کو حکم ديا کہ وہ اپنی بيويوں ، بيٹيوں اور عام مسلمان عورتوں سے کہہ ديں کہ وہ اپنی چادروں کو اپنی گريبانوں پر ڈالے رکھيں ، اور يہ چادر سے ان کے بقيہ جسم کے ڈھانپنے کو شامل ہے جب وہ کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا ارادہ کريں تاکہ بيمار دل لوگوں کی طرف سے انہيں اذيت لاحق نہ ہو ۔ جب معاملہ اس قدر اھم ہے تو عورتوں کا مردوں کے ميدان ميں اترنا اور ان کے ساتھ اختلاط کرنے کا معاملہ کس قدر قبيح ہوگا؟ اور اسی طرح ملازمت کی وجہ سے ان سے اپنی حاجت کا اظہار کرنا اور اپنی نسوانيت سے اتر کر انکے درجہ اور مرتبہ ميں اترنا اور اپنی شرم و حياء کو گںوانا تاکہ اس سے دو مختلف جنسوں ميں معنی وصورت كے اعتبار سے ہم آہنگی ہوجائے، کس قدر گناہ کا کام ہے؟
الله جل وعلا نے فرمايا :   ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﻛﮭﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮨﻮﮞ ﻛﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺭﻛﮭﯿﮟ، ﯾﮩﯽ ﺍﻥ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﮨﮯ، ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﻛﺮﯾﮟ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺳﺐ ﺳﮯ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮨﮯ ۔(30) ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﮩﻮ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﻛﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﯾﻨﺖ ﻛﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﻧﮧ ﻛﺮﯾﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺟﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﮌﮬﻨﯿﺎﮞ ﮈﺍﻟﮯ رﮨﯿﮟ [دو آیات]۔
الله اپنے نبي عليه الصلاة والسلام کو حکم دے رہا ہے کہ وہ مومن مردوں اور مؤمنہ عورتوں تک يہ بات پہنچا ديں کہ وہ سب اپنی نگاہيں نيچی رکھيں، اور زنا سے اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کريں، پھر اللہ نے واضح کيا کہ يہ ان کے لئے اپنی پاکدامنی کا بہت بڑا سبب ہے۔ يہ بات معلوم ہے کہ زنا سے شرمگاہوں کی حفاظت وسائل زنا سے اجتناب کے ذريعہ ممکن ہے ۔ بلا شبہہ ميدان عمل يا اس کے علاوہ ديگر جگہوں پر مرد و زن کا باہم اختلاط وقوعِ زنا کا عظيم ترين وسیلہ ہے، اور مؤمن سے ان دو مطلوبہ امر کا تحقق محال ہے جب کہ وہ اجنبی عورت کے ساتھ بحيثيت دوست يا عمل ميں مشارک پہلو بہ پہلو کام کريں ۔ لہذا عورت کا مرد کے ساتھ اس ميدان ميں اترنے، اور مرد کا اس ميدان ميں عورت کے ساتھ شامل ہونے سے غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور اپنے نفس کی پاکدامنی اور طہارت کا حصول مستحيل ہے۔
اسی طرح اللہ نے مؤمنات کو غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور زينت کے عدم اظہار کا حکم ديا ہے سوائے ان حصوں کے جو عام طور پر ظاہر ہوجاتے ہيں، انہيں اپنی گريبانوں پر دوپٹے ڈالنے کا حکم ديا ہے جو اس کے سر اور چہرے کے پردے کو شامل ہے ، کيوں کہ گريبان سر اور چہرے کی جگہ ہے ۔ اور عورت کے مرد کے ميدان عمل ميں اترنے اور کام ميں ان کے ساتھ اختلاط کے وقت غض بصر ، شرمگاہوں کی حفاظت اور زينت کا عدم اظہار پر عمل کيسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اختلاط ان ممنوعات ميں پڑنے کا ضامن ہے، ايک مسلمان عورت اپنی نگاہ کو کيسے پست رکھ سکتی ہے جب وہ اجنبی مرد کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہی ہو ، اس بہانے سے کہ وہ اس کے ساتھ عمل ميں شريک ہے يا جملہ امور ميں مردوں کے برابر ہے ۔
اسلام نے ان تمام وسائل وذرائع کو حرام قرار ديا ہے جو محرمات ميں وقوع کا باعث ہوں ۔ اسی طرح اسلام نے عورتوں پر حرام کيا ہے کہ وہ مردوں سے لچکدار لہجے ميں بات کريں تاکہ يہ ان ميں رغبت کی طرف نہ پہنچائے:   ﺍﮮ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮ ! ﺗﻢ ﻋﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺮﮨﯿﺰﮔﺎﺭﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻛﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮒ ﮨﻮ ﻭﮦ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﻛﺮﮮ يعنی شہوت کی بيماری ، اختلاط کے ساتھ اس سے تحفظ کيوںکر ممکن ہے ؟
ظاہر ہے کہ جب وہ مردوں کے ميدان ميں اترے گی تو يقينی طور پر وہ ان سے بات کريگی اور وہ لوگ اس سے بات کريں گے، اور ضروری ہے کہ وہ ان سے نرم لہجے ميں بات کرے گي اور وہ اس سے نرم لہجے ميں باتيں کريں گے ، اور پيچھے سے شيطان اسے مزين اور خوشنما بنا کر اسے زنا کی طرف دعوت ديگا ، يہاں تک کہ وہ اس کے شکار ہوجائيں گے، اللہ حکمت والا اور جاننے والا ہے ، اسی نے عورت کو پردے کا حکم ديا ہے ۔ اور يہ اسی وجہ سے کہ لوگوں ميں اچھے برے ، پاکدامن اور زانی سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہيں ، پردہ اللہ کے حکم سے فتنہ سے بچاتا ہے اور اس کے اسباب کے درميان رکاوٹ بن جاتا ہے، اور اس کے ذريعے مردوں اور عورتوں کے قلوب کی طہارت اور تہمت کی جگہوں سے دوری حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمايا :   ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﰷﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ
عورت کے اپنے جسم کے پردے کے بعد اس کا بہترين پردہ گھر ہے ، اسلام نے اس پر اجنبی مردوں سے ميل ملاپ کو حرام قرار ديا ہے؛ تاکہ وہ براہ راست يا بالواسطہ اپنے آپ کو فتنہ کے لئے نہ پيش کرے، اور اسے گھر کو لازم پکڑنے اور صرف مباح ضرورت کے تحت شرعی ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے گھر سے نکلنے کا حکم ديا ہے۔ اللہ نے عورت کے گھر ميں ٹھرے رہنے کو “قرار” سے تعبير کيا ہے، يہ معنی انتہائی بلند معنوں ميں سے ہے ، اس کے اندر اس کے نفس کا استقرار ، دل کی راحت اور انشراح صدر کی نعمت ہے ، اور عورت کا اپنی اس جائے قرار سے نکلنا اضطراب نفس ، دلی بے چينی ، ضيق صدر اور اپنے کو غلط انجام کے لئے پيش کرنے کا باعث ہے۔ اسلام نے اجنبی عورت کے ساتھ مطلقا خلوت اختيار کرنے سے منع کيا ہے ، خلوت يا سفر کی اجازت صرف محرم کے ساتھ دی ہے ، تاکہ فساد کے ذريعے کو ختم اور گناہ کے دروازے کو بند اور برائی کے اسباب کی بيخ کنی کی جاسکے ، اور دونوں جنسوں کو شيطان کے مکر و فريب سے بچايا جاسکے ۔ اسی لئےرسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحيح ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا :  میں نے اپنے بعد مردوں پر عورتوں سے زیادہ ضرر رساں اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ اورآپ صلى الله عليه وسلم سے يہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:  دنیا سے ڈرتے رہو اور عورتوں سے ڈرتے رہو کیونکہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں ميں تھا
اختلاط کے کچھ داعیان بعض شرعی نصوص کے ظاہر سے استدلال کرتے ہيں ، جنکی حقيقت کو وہی شخص پاسکتا ہے جس کے دل کو اللہ نے منور کرديا ہو، اور اسے دين کی سمجھ عطا فرمائی ہو ، اور شرعی دلائل میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ديکھا ہو، اور يہ دلائل اس کے تصور ميں ايک ہی اکائی ہو جسے ايک دوسرے سے الگ نہيں کيا جاسکتا۔ ان دلائل ميں سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کچھ عورتوں کا بعض غزوات ميں نکلنا ہے ۔ اس کا جواب يہ ہے ان کا خروج اپنے محارم کے ساتھ بہت سارے مصالح کی بناء پر ہوا ہے جس پر وہ فساد مرتب نہيں ہوتا جس کے خطرے کا انديشہ تھا۔ يہ ان کے ايمان و تقوی اور ان پر ان کے محارم کی نگرانی اور ان کا آيت حجاب کے نزول کے بعد پردے کا التزام کرنے کی وجہ سے ہے ۔ جبکہ موجودہ زمانے کی اکثر عورتوں کی حالت اس کے برعکس ہے ۔ اور يہ بات معلوم ہے کہ عورت کا اپنے گھر سے کام کے لئے نکلنا اس حالت سے بالکل مختلف ہے جس ميں وہ رسول صلى الله عليه وسلم کے ساتھ غزوہ ميں نکليں ۔ لہذا اس کو اس پر قياس کرنا قياس مع الفارق ہے ۔ اور يہ بھی ديکھيں سلف صالح نے اسے کيسے سمجھا ہے ؟ بيشک وہ نصوص کے معانی کے سب سے زيادہ جانکار تھے ، اور کتاب اللہ اور سنت رسول صلى الله عليه وسلم کی عملی تطبيق کے زيادہ قريب تھے ، پورے زمانے ميں ان سے کيا منقول ہے ؟ کيا انہوں نے دائرہ اسی قدر وسيع کرديا ہے جيسا کہ اختلاط کے دعاۃ آواز لگا رہے ہيں ، اور کيا انہوں نے وہ سب نقل کيا ہے جو وہ اس باب ميں وہ کہتے ہيں کہ عورت مردوں کے ساتھ زندگی کے تمام ميدانوں میں کام کرے، اور باہم ايک دوسرے سے مزاحم ہو، اور ايک دوسرے سے ميل جول رکھے، يا انہوں نے يہ سمجھا کہ يہ متعين مسائل ہيں ان سے آگے نہيں بڑھا جا سکتا ۔
اور جب ہم پورے اسلامی تاريخ ميں اسلامی فتوحات اور غزوات کا جائزہ ليتے ہيں تو يہ صورت حال عام نہيں پاتے ۔ موجودہ زمانے ميں اس کو فوجی کی حيثيت سے شامل کرنے کی جو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ مردوں کی طرح ہتھيار اٹھائے اور قتال کرے، تو يہ اس سے زيادہ کچھ نہيں کہ تفريح طبع کے نام پر فوج کے اخلاق و کردارکو تباہ و برباد کرنا ہے؛ اس لئے کہ آدمی کی طبيعت جب عورت کی طبيعت سے ملتی ہے تو ان دونوں کی طرف سے خلوت ميں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو ہر مرد و عورت سے ہوتا ہے يعنی ايک دوسرے کی طرف ميلان ، انس و محبت اور بات چيت سے احساس لذت وغيرہ ، اور بعض چيزيں بعض کا سبب بنتی ہيں ۔ لہذا فتنہ کو بند کرنا بڑی حکمت اور دورانديشی کی بات ہے ، اور مستقبل ميں ندامت سے دور رہنے کا ضامن ہے ۔
اسلام نےجلب مصالح اورازالہ مفاسد اوران تمام ابواب کو بند کرنے پر بہت زيادہ توجہ دی ہے جو اس کا سبب بنيں ۔ ميدان عمل ميں عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط امت کے زوال اور معاشرہ کی تباہی ميں بنيادی سبب رہا ہے جيسا کہ پہلے گذرا ۔ اس لئے کہ تاريخی اعتبار سے يہ معروف ہے کہ قديم رومانی و يونانی تہذيب و تمدن وغيرہ کے زوال و پستی کے بڑے اسباب ميں سے عورتوں کا اپنے مخصوص ميدان عمل سے نکل کر مردوں کے ميدان ميں آنا اور ان کے ساتھ مزاحم ہونا ہے ، جس کے نتيجے ميں مردوں کے اخلاق ميں فساد رونما ہوا، اور انہوں نے اپنی قوم کی مادی و معنوی ترقی کے تمام کام ترک کرديئے۔ عورتوں کا گھر سے باہر مشغول ہونا مردوں کے تعطل ، امت کے خسران ، خاندان کے انتشارو انہدام اوراولاد کے اخلاق کی بربادی کا باعث ہے ، نيز اللہ نے اپنی کتاب ميں عورت پر مرد کی قوامت کی بابت جو خبر دی ہے اس کی مخالفت ميں واقع ہونے کا ذريعہ ہے ۔ اسلام اس بات کا حريص رہا ہے کہ عورت کو ان تمام امورسے دور رکھے جو اس کی طبيعت کے مخالف ہو ۔ اس لئے اس نے عام ولايت کی ذمہ داری لينے سے اسے منع کرديا ہے ، جيسے کسی ملک کی صدارت ، قضاء اور وہ تمام مناصب جس ميں عام ذمہ داری ہو ، نبی کريم صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے : وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہوگى جس نے اپنی حکومت عورتوں کے سپرد کرديا ہو۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے  ا پنے صحيح ميں روايت کيا ہے ، عورت کے لئے يہ دروازہ کھولنا کہ وہ مردوں کے ميدان ميں اترے ، يہ اس چيز کے مخالف ہے جس کا اسلام نے اسکی سعادت اور استقرار کے تعلق سے ارادہ کيا ہے ۔ اسلام عورت کو اس کے مخصوص دائرہ کار سے نکال کر فوج ميں بھرتی کرنے کے مخالف ہے ۔ مختلف تجارب -خاص کر مخلوط سوسائٹی- نے يہ ثابت کرديا ہے کہ مرد و زن فطری اور طبيعی طور سے يکساں نہيں ہيں، چہ جائيکہ ان امور ميں جو کتاب و سنت ميں واضح طور پر دونوں کی طبيعتوں اور واجبات کے اختلاف کے تعلق سے وارد ہيں ۔ جو لوگ مساوات مرد و زن کا نعرہ بلند کر رہے ہيں وہ ان دونوں کے درميان بنيادی فرق سے جاہل ہيں يا جاہل بن رہے ہيں ۔
ہم نے اختلاط کی تحريم اور مردوں کے کام ميں عورتوں کے اشتراک کی حرمت پر جو شرعی دليليں اور موجودہ صورت حال کا تذکرہ کيا ہے، وہ طالب حق کے لئے کافی اور اطمینان بخش ہیں، مگر بعض لوگوں کی حالت کے پيش نظر کہ وہ کلام اللہ اور کلام رسول ۔صلى الله عليه وسلم اور کلام علماء مسلمين سے زيادہ مشرق و مغرب کے علماء و دانشوروں کے کلام کو اھميت ديتے ہيں ، ہم نے مناسب سمجھا کہ مشرق و مغرب کے ان مفکرين کے اعترافات کو ان کے لئے نقل کرديں جو اختلاط کے مفاسد اور نقصانات سے متعلق ہيں ، شايد کہ وہ مطمئن ہوسکيں، اور يہ جان سکيں کہ ان کے دين عظيم نے اختلاط کی ممانعت کے تعلق سے جو کچھ پيش کيا ہے اس ميں عورتوں کی عين کرامت اور انہيں نقصان پہںچانے والے وسائل، نيز عزت و آبرو کی پامالی سے عورت کی صيانت و حفاظت کی ضمانت ہے۔
انگريز مقالہ نگار لیڈی کوک نے لکھا ہے کہ  اختلاط کو مرد حضرات پسند کرتے ہيں ، اور اسی بناء پر عورت ايسی چيز کی طرف راغب ہوئی جو اس کی فطرت کے مخالف ہے ، اور کثرت اختلاط کی وجہ سے اولادِ زنا کی کثرت ہوگی، يہيں پر عورت عظيم مصيبت ميں گرفتار ہوتی ہے، مزيد کہا کہ اپنی عورتوں کو مردوں سے دور رکھو اور انہيں اس مخفی مکر و فريب کے انجام سے باخبر کرو، جو ان کے گھات ميں بیٹھا ہوا ہے۔
جرمن دانشور شوپنهاور نے کہا: اختلاط ہی سے ہمارے احوال کی ترتيب و انتظام ميں عظيم خلل واقع ہے جس نے عورت کو مردوں کے ساتھ ان کے عالی مرتبت اور بلند شان والے امور میں شرکت کی دعوت دی، اور اس پر اپنے گھٹیا خواہشوں کے ساتھ سربلند ہونے کو آسان بنا ديا ہے جس نے جديد تہذيب و تمدن کو اپنے مضبوط حکمرانی اور حقیر رائے سے برباد کرديا ہے۔
لارڈ بيرون نے کہا:  اے قاری! اگر تم قديم يونان ميں عورت کی حالت پر غور کرو تو تم اسے اسکی طبيعت کے مخالف مصنوعی حالت پر پاؤگے۔ اور تم ميری اس بات سے اتفاق کروگے کہ عورت کو امور منزليہ ميں مشغول کرنا واجب ہے، اور اس ميں اسکی بہتر غذاء اور بہتر لباس کا خيال رکھا جائے، اور غيروں کے ساتھ اختلاط سے اسے بچايا جائے۔
اور سامویل سمايلس نامی انگريز نے کہا کہ جو نظام عورت کو کارخانوں ميں مشغول کرنے کی بات کرتے ہيں ، اس سے ملک کے لئے کتنا ہی سرمايہ کيوں نہ حاصل ہو اس کا نتيجہ گھريلو زندگی کی عمارت کو منہدم کرنے والا رہا ہے ، کيوں کہ اس نے گھر کے ڈھانچے پر حملہ کيا ہے ، خاندان کی بنيادوں کو متزلزل کيا ہے، اجتماعی روابط کو پارہ پارہ کرديا ہے، اور اس نے شوہر سے بيوی اور اولاد سے اس کے اقارب کو چھين ليا ہے، لہذا اس خاص نوع سے عورت کی اخلاقی گراوٹ کے علاوہ کچھ فائدہ حاصل نہيں ہوا، کيوں کہ عورت کا حقيقی وظيفہ امور منزليہ کو انجام دينا ہے ۔ جيسے گھر کی تنظيم و ترتيب، اولاد کی تربيت اور گھر کی ضرورتوں کی تکميل کے ساتھ وسائل معيشت ميں ميانہ روی اختيار کرنا ، مگر فيکٹريوں نے اسے ان تمام واجبات کی انجام دہی سے روک ديا ہے اس طور پر کہ گھر خالی ہوچکے ہيں اور اولاد بغير تربیت کے جوان ہورہی ہے، اور انہيں بے توجہی کے خانے ميں ڈالا جارہا ہے ، زوجيت کی محبت بجھ چکی ہے ، اور عورت آدمی کی خوش اسلوب بيوی اور محبت کی ساتھی بننے کے بجاۓ اس کے کام اور مشقتوں کی ساتھی بن چکی ہے ۔ وہ ان تاثيرات کے خطرہ سے دوچار رہتی ہے جو اکثراس کی فکری اور اخلاقی جوہر کو ختم کرديتی ہے جس پر فضل و شرف کے حفاظت کی بنياد ہے۔
ڈاکٹر ايدايلين نے کہا :  امريکہ ميں عائلی مشکلات کا سبب  اور سوسائٹی ميں جرائم کی کثرت کی وجہ يہ ہے کہ عورت نے کنبہ کی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ ديا ہے، چنانچہ آمدنی تو بڑھ گئی ہے مگر اخلاق زوال پذير ہوگئے۔ پھر اس نے کہا کہ تجربات نے يہ ثابت کرديا ہے کہ عورت کی گھر واپسی ہی جديد نسل کو زوال اور پستی سے بچانے کا واحد ذريعہ ہے ۔
امريکی کانگريس کے ايک ممبر نے کہا کہ عورت حقيقت ميں ملک کی خدمت کرسکتی ہے جبکہ وہ اس گھر ميں باقی رہے جو خاندان کی بنياد ہے۔
ايک دوسرے ممبر نے کہا کہ جب اللہ نے عورت کو توليدی خصوصيت سے ممتاز کيا تواس پر يہ بوجھ نہيں ڈالا کہ اسے چھوڑ کرباہر کام کرنے کے لئے جاۓ ، بلکہ اس کا کام يہی مقرر کيا کہ وہ ان بچوں کی ديکھ بھال کے لئے گھر ميں باقی رہے ۔
اور شوپنهاور نے کہا کہ اس عورت کو بغير نگران کے مطلق اور کامل آزادی دے دو، پھر تم مجھ سے ايک سال بعد ملو، تاکہ اس کا نتيجہ ديکھو ، تم مت بھولو کہ ميرے ساتھ شرافت ، عفت و ادب کے تم وارث بنوگے۔ اور جب ميں مرجاؤں تو تم حقيقت کی روشنی ميں کہو: کہ ميں نے غلط بات کہی يا درست ۔ ان تمام اقوال کو ڈاکٹر مصطفی حسنى سباعى رحمه الله نے اپنی كتاب “المرأة بين الفقه والقانون” میں ذکر کيا ہے۔
اگر ہم ان تمام باتوں کو شمار کريں جو مغرب کے انصاف پسند حضرات نے اختلاط کے مفاسد کے تعلق سے کہی ہيں جو عورت کے مردوں کے ميدان عمل ميں اترنے کا نتيجہ ہے، تو يہ مقالہ طويل ہوجائے گا، ليکن مفيد اشارہ طویل عبارت سے موازنہ کے لئے کافی ہوتا ہے ۔
خلاصہ کلام يہ کہ عورت کا اپنے گھر ميں استقرار اور اپنے دينی واجبات کی ادائيگی کے بعد تدبير منزل کے واجبات کو ادا کرنا يہی اس کی طبيعت ،فطرت اور جسمانی بناوٹ کے عين مناسب ہے ، اسی ميں اسکی ، معاشرہ اور اولاد کی بہتری ہے ، اگر اس کے پاس زائد وقت ہے تو ممکن ہے کہ اسے عورتوں کے ميدان ميں مشغول کيا جاۓ ، جيسے عورتوں کو تعليم دينا ، انکا علاج و معالجہ اور تيمارداری وغيرہ جيسے نسوانی کام جو عورتوں کے درميان ہو، جيسا کہ اوپر اشارہ کيا جا چکا ہے ، اس ميں انکی مشغوليت ہونی چاہئے اور اس ميں مردوں کے ساتھ معاشرہ کے اعمال ميں تعاون اور اس کی ترقی کے اسباب ہيں ، ہر ايک اپنے مخصوص دائرہ کار ميں رہ کر کام کرے۔ يہاں ہميں امھات المؤمنين رضي الله عنهن اور انکے نقش قدم پر چلنے والوں کے کردار کو نہيں بھولنا چاہئے، اور جو انہوں نے امت کی تعليم ، توجيہ و ارشاد اور اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی طرف سے تبليغ کا فريضہ انجام ديا ۔ اللہ انہيں اس کا بہتر بدلہ عطا فرماۓ ، اور مسلمانوں ميں ان جيسی مثالی خواتين کی کثرت فرماۓ جو حجاب و پردہ کا التزام کريں ، اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچيں ۔
اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہم سبھی کو اپنے واجبات کی بصيرت عطا فرمائے، اور ايسے طريقے کے مطابق اسے انجام دينے کی توفيق دے جس سے اللہ خوش ہو، اور سبھی لوگوں کو فتنہ کے وسائل ، فساد کے اسباب اور شيطانی چالوں سے محفظ رکھے ۔ وہ بے انتہا سخی وکريم ہے۔ وصلى الله على عبده ورسوله نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
(ابن باز کے فتوے – ( جلد کا نمبر 1، صفحہ 418

جمعہ، 29 جنوری، 2016

سورة ابفرقان كا اردو ترجمه ، عبدالمومن سلفي

سورة الفُرقان
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کے لیےڈرانے والا ہو (۱) وہ جس کی آسمانوں اور زمین میں سلطنت ہے اور اس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ کوئی سلطنت میں اس کا شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اندازہ پر قائم کر دیا (۲) اور انہوں نے الله کے سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں (۳) اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو محض جھوٹ ہے جسے اس نے بنا لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس میں ا س کی مدد کی ہے پس وہ بڑے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں (۴) اور کہتے ہیں کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں کہ جنہیں اس نے لکھ رکھا ہے پس وہی اس پر صبح اور شام پڑھی جاتی ہیں (۵) کہہ دو کہ اسے تو اس نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہے بے شک وہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے (۶) اور کہتے ہیں اس رسول کو کیا ہوگیا کہ کھاناکھاتا اور بازاروں میں پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ اس کے ساتھ وہ بھی ڈرانے والا ہوتا (۷) یا اس کے پاس کوئی خزانہ آجاتا یا اس کے لیے باغ ہوتا جس میں سےکھاتا اور بے انصافوں نے کہا کہ تم تو بس ایک ایسے شخص کے تابع ہوگئے جس پر جادو کیا گیا ہے (۸) دیکھو تو تمہارے لیے کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں پس وہ ایسے گمراہ ہو ئے کہ راستہ بھی نہیں پا سکتے (۹) بڑی برکت ہے اس کی جو چاہے تو تیرے لیے اس سے بہتر باغ بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور تیرے لیے محل بنا دے (۱۰) بلکہ انہوں نے تو قیامت کو جھوٹ سمجھ لیا ہے اور ہم نے اس کے لیے آگ تیار کی ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے (۱۱) جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو اس کے جوش و خروش کی آواز سنیں گے (۱۲) اور جب وہ اس کے کسی تنگ مکان میں جکڑکر ڈال دیے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے (۱۳) آج ایک موت کو نہ پکارو اور بہت سی موتوں کو پکارو (۱۴) کہہ دو کیا بہتر ہے یا وہ بہشت جس کا پرہیز گارو ں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے جو ان کا بدلہ اور ٹھکانہ ہوگی (۱۵) وہاں انہیں جو چاہیں گے ملے گا وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ وعدہ تیرے رب کے ذمہ ہے جو قابل درخواست ہے (۱۶) اورجس دن انہیں اور ان کے معبودوں کو جمع کرے گا جنھیں وہ الله کے سوا پوجتے تھے تو فرمائے گا کیا تم ہی نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود راستہ بھول گئے تھے (۱۷) کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ کب لایق تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو کارساز بناتے لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو یہاں تک آسودگی دی تھی کہ وہ یاد کرنا بھول گئے اور یہ لوگ تباہ ہونے والے تھے (۱۸) سو تمہارے معبودوں نے تمہاری باتو ں میں تمہیں جھٹلا دیا سو تم نہ تو ٹال سکتے ہو اور نہ مدد دے سکتے ہو اور جو تم میں سے ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے (۱۹) اور ہم نے تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اورہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا کیا تم ثابت قدم رہتے ہو اور تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے (۲۰) اور ان لوگوں نے کہا جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہ بھیجے گئے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے البتہ انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑاسمجھ لیا ہے اور بہت بڑی سرکشی کی ہے (۲۱) جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن مجرموں کے لیے کوئی خوشی نہیں ہو گی اورکہیں گے آڑ کر دی جائے (۲۲) اور جو عمل انہوں نے کیے تھے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے پھر انہیں اڑتی ہوئی خاک کر دیں گے (۲۳) اس دن بہشتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہو گی (۲۴) اور جس دن آسمان بادل سے پھٹ جائے گا اور فرشتے بکثرت اتارے جائیں گے (۲۵) اس دن حقیقی حکومت رحمنٰ ہی کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا (۲۶) اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا کہے گا اے کاش میں بھی رسول کے ساتھ راہ چلتا (۲۷) ہائے میری شامت کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا (۲۸) اسی نے تو نصیحت کے آنے کےبعد مجھے بہکا دیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے (۲۹) اور رسول کہے گا اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا (۳۰) اور ہم اسی مجرموں کو ہر ایک نبی کا دشمن بناتے رہے ہیں اور ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لیے تیرا رب کافی ہے (۳۱) اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر یکبارگی قرآن کیوں نازل نہیں کیا گیا اسی طرح اتارا گیا تاکہ ہم اس سے تیرے دل کو اطمینان دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سنایا (۳۲) اور جو انوکھی بات تیرے سامنے لائیں گے ہم بھی تمہیں اس کا بہت ٹھیک جواب اوربہت عمدہ حل بتائیں (۳۳) جو لوگ مونہوں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں جائیں گے یہی برے درجے والے ہیں اور بہت ہی بڑے گمراہ ہیں (۳۴) اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ہم نے اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا (۳۵) پھر ہم نے کہا تم دونو ان لوگوں کی طرف جاؤ جنہو ں نے ہماری آیتیں جھٹلائی ہیں پھر ہم نے انہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا (۳۶) اور نوح کی قوم کوبھی جب انہو ں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور ہم نے انہیں لوگوں کے لیے نشانی بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کیا ہے (۳۷) اور عاد اور ثمود اورکنوئیں والوں کو بھی اوربہت سے دور جو ان کے درمیان تھے (۳۸) اور ہم نے ہر ایک کو مثالیں دے کر سمجھایا تھا اور سب کو ہم نے ہلاک کر دیا (۳۹) اور یہ اس بستی پر بھی گزرے ہیں جس پر بری طرح پتھر برسائے گئے سو کیا یہ لوگ اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ یہ لوگ مر کر زندہ ہونے کی امید ہی نہیں رکھتے (۴۰) اور جب یہ لوگ تمہیں دیکھتے ہیں تو بس تم سے مذاق کرنے لگتے ہیں کیا یہی ہے جسےالله نے رسول بنا کر بھیجا (۴۱) اس نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر قائم نہ رہتے اور انہیں جلدی معلوم ہوجائے گا جب عذاب دیکھیں گے کہ کون شخص گمراہ تھا (۴۲) کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی خوہشات نفسانی کو بنا رکھا ہے پھر کیا تو اس کا ذمہ دار ہو سکتا ہے (۴۳) یا تو خیال کرتا ہے کہ اکثر ان میں سے سنتے یا سمجھتے ہیں یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں (۴۴) کیا تو نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا ہے (۴۵) پھر ہم اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹتے ہیں (۴۶) اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو اوڑھنا اور نیند کو راحت بنا دیا اور دن چلنے پھرنے کے لیے بنایا (۴۷) اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا (۴۸) تاکہ ہم اس سے مرے ہوئے شہر کو زندہ کریں اور اسے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں، چارپایوں اوربہت سے آدمیوں کوپلائیں (۴۹) اور ہم نے اسے لوگوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں پس بہت سے آدمی ناشکری کیے بغیر نہ رہے (۵۰) اور اگر ہم چاہتے تو ہر گاؤں میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے (۵۱) پس کافروں کا کہا نہ مان اس کے ساتھ بڑے زور سے ان کا مقابلہ کر (۵۲) اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا یہ میٹھا خوشگوار ہے او ریہ کھاری کڑوا ہے اوران دونوں میں ایک پردہ اور مستحکم آڑ بنا دی (۵۳) اوروہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا پھر ا س کے لیے رشتہ نسب اور دامادی قائم کیا اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے (۵۴) اور وہ الله کے سوا ایسے کو پوجتے ہیں جو انہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کافر اپنے رب کی طرف پیٹھ پھیرنے والا ہے (۵۵) اور ہم نےتمہیں محض خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے (۵۶) کہہ دو میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راستہ معلوم کرنا چاہے (۵۷) اورتم اس زندہ خدا پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہ مرے گا اور اس کی تسبیح اورحمد کرتے رہو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے (۵۸) جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو (۵۹) اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمنٰ کو سجدہ کرو توکہتے ہیں رحمنٰ کیا ہے کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو کہہ دے اور اس سے انہیں اور زیادہ نفرت ہوتی ہے (۶۰) بڑا برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا (۶۱) اور وہی ہے جس نے رات اور دن یکے بعد دیگرے آنے والے بنائے یہ اس کے لیے ہے جو سمجھنا چاہے یا شکر کرنا چاہے (۶۲) اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پردبے پاؤں چلتے ہیں اورجب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے (۶۳) اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں (۶۴) اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم سے دوزخ کا عذاب دور کر دے بے شک اس کا عذاب پوری تباہی ہے (۶۵) بے شک وہ برا ٹھکانا اوربڑی قیام گاہ ہے (۶۶) اوروہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے (۶۷) اوروہ جو الله کے سوا کسی اور معبود کونہیں پکارتے اور اس شخص کوناحق قتل نہیں کرتے جسے الله نے حرام کر دیا ہے اور زنا نہیں کرتے اور جس شخص نے یہ کیا وہ گناہ میں جا پڑا (۶۸) قیامت کے دن اسے دگنا عذاب ہو گا اس میں ذلیل ہو کر پڑا رہے گا (۶۹) مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں الله برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا اور الله بخشنے والا مہربان ہے (۷۰) اور جس نے توبہ کی اور نیک کام کیے تو وہ الله کی طرف رجوع کرتا ہے (۷۱) اور جو بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزریں تو شریفانہ طور سے گزرتے ہیں (۷۲) اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (۷۳) اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے (۷۴) یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا (۷۵) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ٹھیرنے اور رہنے کی خوب جگہ ہے (۷۶) کہہ دو میرا رب تمہاری پروا نہیں کرتا اگرتم اسے نہ پکارو سو تم جھٹلا توچکے ہو پھر اب تو اس کا وبال پڑ کر رہے گا (۷۷

بدھ، 27 جنوری، 2016

السلامي حقوق ،

mominsalafi.BlogSpot.com
الحمدللہ
اسلامی حقوق توبہت سےہیں ان میں اہم یہ ہیں :
اللہ تعالی کاحق :
اللہ تعالی کی اپنےبندوں پربےشمارنعمتیں ہیں اورہرنعمت پراللہ تعالی کاشکرواجب ہےتواللہ تعالی کےاپنےبندوں پربہت سےحقوق ہیں جن میں بہت ہی اہمیت کےحامل ذکرکئےجاتےہیں :
1۔توحید : توحیدیہ ہےکہ اللہ تعالی کواس کی ذات وصفات اوراس کےاسماءوافعال میں یکتاواکیلاماناجائےاوریہ اعتقاد رکھاجائےکہ بیشک اللہ وحدہ ہی رب اورمالک اورسارےمعاملات میں تصرف کرنےوالااور رزق دینےوالاوہی ہےجس کےہاتھ میں بادشاہی ہے اوروہ ہرچیزپرقادرہےجیساکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ بابرکت ہےوہ ذات جس کےہاتھ میں بادشاہی ہےاوروہ ہرچیزپرقادر ہے } الملک ۔/(1)
2۔ عبادت : اورعبادت یہ ہےکہ اس اللہ وحدہ ہی کی عبادت کی جائےکیونکہ وہ ان کارب اوران کاخالق اور رازق ہے ۔
اوراس طرح ہےکہ عبادت کی ساری کی ساری انواع واقسام صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک کےلئےہی خاص کی جائیں مثلادعااورذکراورمددواستعانہ اوراستغاثہ اوراسی کے سامنےتذلیل وخضوع اختیارکیاجائےاوراسی سےامیدرکھی جائےاوراسی سےڈراورخوف کھایاجائےاوراسی کےلئےہی نذرونیازبھی دی جائےاورذبح وغیرہ بھی اسی کےنام کاہووغیرہ ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اورتم اللہ ہی کی عبادت کرواوراس کےساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھراؤ }النساء/(32)
3۔شکر : ساری مخلوق پراللہ تعالی ہی نعمتیں اوراحسان کرنےوالاہےاس لئےان کےذمہ ان نعمتوں پراللہ تعالی کااپنی زبانوں اوردلوں اوراعضاءکےساتھ شکرکرناواجب اورضروری ہےاوروہ شکراللہ تعالی کی ان نعمتوں پراس کی حمد وتعریف اوران نعمتوں کواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری اوران اشیاءمیں صرف کرناچاہئےجوکہ اللہ تعالی نےحلال قراردی ہیں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ توتم میراذکرکرومیں تمہیں یادکروں گااورمیراشکرکرواورناشکری سےبچو }البقرۃ / (152)
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاحق :
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پوری کی پوری بشریت کےلئےبہت ہی بڑی نعمت ہےاللہ تعالی نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس لئےمبعوث کیاتاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں اوران کےلئےوہ اشیاءبیان کریں جن میں ان کی دنیاوآخرت کی سعادت ہے ۔
والدین کاحق :
اسلام خاندان کوبہت ہی اہمیت دیتاہےاوراس کےدرمیان محبت واحترام کی تاکیدکرتاہےاوراس خاندان کی اساس اوربنیاد والدین ہیں اسی لئےاللہ تعالی کےہاں سب سےمحبوب اورافضل عمل والدین سےنیکی کرناقرارپایا ۔
تووالدین سےنیکی ان کی اطاعت وفرمانبرداری اوران کااحترام اوران کےسامنے تواضع اوران کےلئےاحسان کرکےہوگی اوریہ کہ ان پرخرچ کیاجائےاوران کےلئےدعاکی جائے اوران کےرشتہ داروں سےصلہ رحمی کی جائےاوران کےدوست واحباب کی عزت واحترام کیاجائے ۔
اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ اورتیرے رب نےفیصلہ کردیاہےکہ اس کی عبادت کےعلاوہ کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کےساتھ احسان اوراچھاسلوک کرو }الاسراء /(23)
اوران حقوق میں والدہ کاحق سب سےزیادہ اورعظیم ہےکیونکہ والدہ ہی ہےجس نے اس کاحمل اٹھایااورپھروہی ہےجس نےاسےجنااوروہی ہےجس نےاسےدودھ پلایا ۔
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس ایک شخص آکرپوچھنےلگااےاللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سےسب سےزیادہ میرےحسن سلوک اورصحبت کاکون مستحق ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاتیری والدہ اس نےپھرپوچھااس کےبعدکون ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تیری والدہ اس نےپھرپوچھااس کےبعدکون ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تیری والدہ ، اس نےپھرپوچھااس کےبعدکون ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تیراوالد، ) صحیح بخاری اورمسلم اورلفظ بخاری کےہیں (الادب / 78)
مسلمان کےمسلمان پرحقوق :
سب مومن ایک دوسرےکےبھائی ہیں وہ ایک ایسی متعاون اورمضبوط امت ہیں جس طرح کہ دیوارہوجوکہ بعض بعض کومضبوط کرے ۔
وہ ایک دوسرےسےرحم دلی کےساتھ پیش آتےاورآپس میں نرمی کابرتاؤاورایک دوسرے سےمحبت کرتےہیں تا کہ اس عمارت کی حفاظت ہوسکےاوریہ ایک ایسی اخوت وبھائی چارہ ہےجس کےاللہ تعالی نےایک مسلمان کےدوسرےمسلمان پرحقوق مقررکیئےہیں ۔
انہیں حقوق میں سےمحبت وبھائی چارہ اورایک دوسرےکونصیحت اورایک دوسرےکی تکلیف رفع کرنی اورپردہ پوشی کرنی اورحق میں ایک دوسرےکی مددونصرت کرنی اورپڑوسی اورمہمان کی عزت واحترام کرنابھی شامل ہے ۔
اورانہیں حقوق میں سےسلام کاجواب دینااوربیمارکی تیمارداری کرنااورکسی کی دعوت قبول کرنااورچھینک لینےوالاجب الحمدللہ کہےتواس کےجواب میں یرحمک اللہ کہنا اورمرنےوالےکےجنازےمیں شرکت کرنا ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
( مسلمان کےمسلمان پرپانچ حق ہیں سلام کاجواب دیناچھینک کہنےوالےکوجواب دینااوردعوت قبول کرنااورمریض کی تیمارداری کرنااورجنازےکےساتھ چلنا )
صحیح مسلم حدیث نمبر ۔(2625)
پڑوسی کاحق :
اسلام پڑوسی کےحق کوبہت اہمیت دیتاہےچاہےوہ پڑوسی مسلمان یاغیرمسلم ان مصلحتوں کی بناپرجس سےامت ایک جسم اوربدن کی طرح ہوجاتی ہے ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
( جبریل علیہ السلام مجھےباربارپڑوسی کےمتعلق وصیت کرتےر ہےحتی کہ مجھےیہ خیال ہونےلگا کہ اسےوارث بنادیاجائےگا ) صحیح بخاری اورمسلم ۔
اوراسلام میں پڑوسی کےلئےمقررکردہ حقوق میں سےیہ بھی ہےکہ وہ اسےوہ سلام کرنے میں پہل کرےاورجب وہ بیمارہوتواس کی تیمارداری کرےاورمصیبت میں اس کی تعزیت کرےاورخوشی اورفرحت کےوقت اسےمبارکباددےاوراس کی چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزرکرےاوراس کی پردہ پوشی کرےاوراس کی تکلیفوں پرصبرسےکام لےاوراسےہدیہ دے اوراگراسےضرورت ہوتواسےقرضہ بھی دےاوراس کی حرمت والی چیزوں سےآنکھیں نیچی رکھےاوراسےاس کےدین ودنیاکےنفع مندچیزوں کی راہنمائي کرے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
( اللہ تعالی کےہاں دوستوں میں سب سےبہتراوراچھاوہ ہےجواپنےدوستوں کےلئے اچھاہواوراللہ تعالی کےہاں سب سےاچھاپڑوسی وہ ہےجواپنےپڑوسیوں کےلئےاچھاہو )۔
امام بخاری نےاسےادب المفردمیں نقل کیاہےحدیث نمبر ۔(115)
اوراللہ تعالی نےپڑوسی کےحقوق کےمتعلق ارشادفرمایاہے :
{ اوراللہ تعالی کی عبادت کرواوراس کےساتھ کسی کوبھی شریک نہ ٹھراؤاورماں باپ کےساتھ اچھاسلوک واحسان کرواور رشتہ داروں سےاوریتیموں سےاورمسکینوں سے اورقرابت دارہمسایہ سےاوراوراجنبی ہمسایہ سےاورپہلوکےساتھ سے }النساء /(36)
اوراسلام نےپڑوسی کوتکلیف دینےاوراس کےساتھ براسلوک کرنےسےمنع فرمایاہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاہےکہ ایساکرناجنت سےمحرومی کاسبب ہے :
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( جس کاپڑوسی اس کی تکلیفوں اورشرسےمحفوظ نہیں ہوتاوہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ) ۔ صحیح بخاری اورمسلم ۔
اوراسلام نےمصلحت کوپوراکرنےکےلئےرعایاپراس کےوالی اوروالی پررعایاکےحقوق بھی مقررکیےہیں اوراسی طرح خاوندکےحقوق بیوی پراوربیوی کےحقوق خاوندپرمقررکئےہیں اوراس کےعلاوہ بھی بہت سےاسلام نےعادل حقوق واجب کئےہیں ۔
واللہ اعلم .

الشیخ محمدبن ابراہیم التویجری کی کتاب : اصول الدین الاسلامی سےلیاگیا

وہ اعمال جوانسان کواسلام سے خارج کردیتے ہیں

الحمد للہ
 فضیلۃ الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
اے مسلمان آپ کویہ علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی نےسب بندوں پراسلام میں داخل ہونا اوراس پرعمل کرنااورجوچیز اس کےمخالف ہواس سے بچناواجب قراردیاہے اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواسی چیز کی دعوت دینے کےلئے مبعوث فرمایا ۔
اوراللہ تعالی نےیہ بتایاہےکہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرےگاوہ ھدایت یافتہ ہے اورجواس سے اعراض کرےوہ گمراہ ہوااوربہت سی آیات میں مرتد ہونے والے اسباب اورہرقسم کےشرک اورکفرسےڈرایاگیا ہے ۔
علماءکرام رحمہ اللہ تعالی نےمرتدکےحکم میں ذ کرکیا ہے کہ :
مسلمان اپنےدین سےبہت سارے نواقض کی وجہ سےمرتد ہوسکتا ہے جس کی بناپر اس کامال اورخون حلال ہوجاتا اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہوجاتاہے ان میں سےسب سے خطرناک اورا کثرطور پروقوع ہونےوالےدس نواقض ہیں جنہیں محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ تعالی اوردوسرےاہل علم رحمہم اللہ نےذ کرکیاہے ۔
ان دس نواقض کوذ یل میں اختصار کےساتھ پیش کیاجاتاہے تا کہ آپ بھی اس سے بچیں اوردوسروں کو بھی اس سےبچائیں ان سےسلامتی اورعافیت کی امیدکرتےہوئے اورتھوڑی بہت وضاحت کےساتھ جوکہ ہم ذیل میں ذ کرکریں گے ۔
پہلا : اللہ تعالی کی عبادت میں شرک ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :
{ بیشک اللہ تعالی قطعی طور پرنہیں بخشےگا کہ اس کے ساتھ شریک مقررکیاجائے اورشرک کےعلاوہ باقی گناہ جسےچاہےبخش دے } النساء /( 116 )
اوراللہ وحدہ لاشریک کافرمان ہے :
{ یقین مانوکہ جوشخص اللہ تعالی کےساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالی نےاس پرجنت حرام کردی ہےاوراس کاٹھکانہ جہنم ہی ہےاورگنہگاروں کی مددکرنےوالاکوئی نہیں ہوگا } المائدۃ /( 72 )
اوراس میں سےمردوں کو پکارنا اوران سےاستغاثہ اورمددمانگنا اوران کےلئےنذرونیاز اور ذ بح کرناجس طرح کہ کوئی جن یاقبروالےکےلئےذ بح کرے ۔
دوسرا :
جس نےاللہ تعالی اوراپنے درمیان کوئی واسطے اوروسیلے بنائےجنہیں وہ پکارے اوران سےشفاعت طلب کرے اوران پرتوکل اور بھروسہ کرےتواس نےبالاجماع کفرکاارتکاب کیا۔
تیسرا :
جومشرکوں کوکافرنہ سمجھے اورنہ ہی انہیں کافرکہے یاان کےکفرمیں شک کرے یاان کےمذھب کوصحیح کہے وہ بھی کافر ہے۔
چوتھا :
جویہ اعتقادرکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکاطریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےطریقےسےبہتر اورا کمل ہےیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اورکا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم سے افضل ہے ، مثلاجوطاغوت کےحکم کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم پرفضیلت دےتووہ کافر ہے ۔
پانچواں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جولائےہیں اس میں سےکسی چیزسےکوئی بغض رکھےاگرچہ وہ اس پرعمل ہی کیوں نہ کرتاہووہ کافر ہے ۔
اس لئےکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ یہ اس لئے کہ وہ اللہ تعالی کی نازل کردہ چیز سےناخوش ہوئےتواللہ تعالی نےان کے اعمال ضائع کردئے } محمد ۔/( 9 )
چھٹا :
جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدین کامذاق اوراستہزاء کیایااس کےثواب یاعقاب اورسزا کومذاق کیاتواس نے بھی کفرکاارتکاب کیا ۔
اس کی دلیل اللہ تبارک وتعالی کایہ فرمان ہے :
{ کہہ دیجئے ! کہ اللہ تعالی اوراس کی آیات اوراس کارسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کےلئےرہ گئےہیں ؟ تم بہانےنہ بناؤیقیناتم اپنےایمان کےبعد کافرہوگئےہو } التوبۃ ۔/(65۔66)
ساتواں :
جادو : اوراسی جادومیں سےکسی کوکسی کی طرف مائل کرنااورکسی سے پھیردینا۔
جوکوئی اس جادوکوکرےیااس کےکرنے پرراضی ہواس نےکفرکیا ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ وہ دونوں بھی کسی شخص کواس وقت تک نہیں سکھاتےتھےجب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم توایک آزمائش توکفرنہ کر } البقرۃ /(102)
آٹھواں :
مسلمانوں کےخلاف مشرکوں کی مدد اورتعاون کرنا ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ تم میں سےجو بھی ان میں سےکسی سےدوستی کرےگا وہ بےشک انہی میں سے ہے بیشک اللہ تعالی ظالموں کوہرگز راہ راست نہیں دکھاتا } المائدۃ /( 51 )
نواں :
جویہ اعتقاد رکھے کہ بعض لوگوں کوشریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سےنکلنا چائز ہے جس طرح کہ خضر کوموسی علیہ السلام کی شریعت سےنکلناجائزتھاتووہ بھی کافر ہے ۔
اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ جوشخص اسلام کےسوا کوئی اوردین تلاش کرےگااس کاوہ دین قبول نہیں کیا جائےگااوروہ آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سےہوگا } آل عمران ۔/( 85 )
دسواں :
اللہ تعالی کےدین سےاعراض برتنانہ تواس کاعلم حاصل کرنااورنہ ہی اس پرعمل کرنا۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے :
{ اس سےبڑھ کرظالم کون ہوگاجسےاللہ تعالی کی آیتوں کاوعظ کیاگیا پھر بھی اس نےان سےمنہ پھیرلیا( یقین مانو ) ہم بھی مجرموں سےانتقام لینےوالےہیں } السجدۃ۔/( 22 )
اوریہ نواقض مذاق یاحقیقی طور پرپائےجانےکےدرمیان کوئی فرق نہیں صرف وہ شخص جس پرجبرکیاگیا ہے وہ اس سےخارج تویہ سب بڑے خطرناک اوروقوع کےلحاظ سے ا کثرہیں تومسلمان کےلئےضروری ہے کہ وہ ان سےبچ کراور ڈرکرر ہے ۔
ہم اللہ تعالی کےغضب کوواجب کرنےوالی اشیاء اوراس کےسخت قسم کےدردناک عذاب کوواجب کرنےوالی اشیاء سے پناہ طلب کرتےہیں ۔
اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سب سےبہتراورافضل شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اوران کےصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم پررحمتیں نازل فرمائےآمین ۔
ابن بازرحمہ اللہ تعالی کی کلام ختم ہوئی ۔
چوتھی قسم میں یہ بھی داخل ہے کہ :
جس نےیہ اعتقاد رکھا کہ قوانین وضعیہ اورنظام جسے لوگ بناتے ہیں وہ شریعت اسلامیہ سےبہتر اورافضل ہیں یا یہ قوانین اورنظام شریعت اسلامیہ کےمساوی وبرابر ہیں یہ انکانافذ کرنااوران کےساتھ حکم کرناجائز ہے ۔
اگرچہ اس کایہ اعتقاد ہوکہ شریعت اسلامیہ اس سےافضل ہے یااسلامی نظام بیسویں صدی میں اس قابل نہیں کہ اس کی تطبیق کی جائےیا یہ کہ اسلامی نظام مسلمانوں کےترقی پذیر ہونےکاسبب ہے یایہ کہ صرف بندے اوراس کےرب کےدرمیان تعلق ہے اوراس کازندگی کے دوسرے شعبوں میں اس کا کو‏ئی دخل نہیں(وہ بھی کافر ہے )۔
اوراسی طرح چوتھی قسم ( ناقض ) میں یہ بھی داخل ہے کہ :
عصرحاضرمیں اللہ تعالی کی مقررکردہ چوری کی سزاہاتھ کاٹنا اورشادی شدہ زانی کی سزارجم کرنااس موجودہ دورمیں نافذ کرنامناسب نہیں ۔( وہ بھی کافر ہے )
اوراسی طرح چوتھی قسم ( ناقض ) میں یہ بھی داخل ہے کہ :
ہروہ شخص جس نےیہ اعتقاد رکھا کہ معاملات یا حدود یاان دونوں کےعلاوہ شریعت اسلامیہ کےبغیرکسی اورکاحکم بھی نافذ کیاجاسکتا ہے اگرچہ اس کایہ اعتقاد نہ ہو کہ یہ شریعت اسلامیہ کےحکم سےافضل ہیں ۔
کیونکہ اس نےبالاجماع اس چیزکوجائزقراردیا ہےجسےاللہ تعالی نےحرام کیاتھاتوجو بھی اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاءکوجن کادین میں بالضرورۃ علم ہے جائز اورحلال قراردیا مثلازنی اورشراب اورسود اورشریعت الہی کےعلاوہ کسی اورکی تحکیم تووہ مسلمانوں کے اجماع سے کافر ہے ۔
ہم اللہ تعالی سےدعاگوہیں کہ وہ سب کواس بات کی توفیق دے جس میں اس کی رضاوخوشنودی ہے اوریہ کہ ہمیں اورسب مسلمانوں کوصراط مستقیم کی ھدایت نصیب فرمائےبیشک وہ سننےوالا اورقریب ہے اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورانکی آل اورصحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم پررحمتیں نازل فرمائے ۔ آمین ۔
واللہ اعلم

کیا فرض نمازوں کے بعد دعا کرنے سے ممانعت کی کوئی دلیل ہے؟

الحمد للہ:

ہمارے علم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے  ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے جس میں  اُن سے فرض نماز کے بعد رفع الیدین کرنا ثابت ہوتا ہو؛  چنانچہ  ہمیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عمل بدعت ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (جس نے ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں  تھا ، تو وہ رد ہے) اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح  مسلم میں (3243) نمبر حدیث کے تحت ذکر کیا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہمارے دین میں  ایسا  کام ایجاد کیا، جو اس میں نہیں تھا، تو وہ رد ہے) اس حدیث کی صحت پر سب محدثین کا اتفاق ہے۔
البتہ نماز کے بعد ہاتھ اٹھائے بغیر  دعا کرنا ، اجتماعی دعا کی بجائے  انفرادی دعا کرنے  میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام سے پہلے اور سلام کے بعد بھی دعائیں کی ہیں۔
اسی طرح نفل نماز کے بعد  دعا کرنے کا حکم ہے، کیونکہ  اس بارے میں ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ  اس صورت میں ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کی جا سکتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا  قبولیتِ دعا کے اسباب میں سے ہے، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ  ہر نفل نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر  دعا کرتے تھے، اس لیے یہ عمل بھی دائمی  نہیں ہونا چاہیے، بلکہ  ضرورت کے وقت  ایسا کرنا مناسب ہے،  کیونکہ  خیر و بھلائی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ، اور آپ کے منہج پر چلنے سے ہی حاصل ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} بیشک تمہارے  لیے رسول اللہ [صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل] بہترین نمونہ ہے۔[الأحزاب : 21

فرض كي دعا كي ضعيف احاديث

پہلی حدیث: جسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے۔
اسے ابن سنی نے "عمل الیوم واللیلہ" صفحہ: 137 میں  بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں مجھے احمد بن حسن  بن ادیبویہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں  ہمیں ابو یعقوب اسحاق بن خالد بن یزید بالسی  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد العزیز بن عبد الرحمن بالسی نے  انہوں نے خصیف سے، اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی۔
اور یہ  روایت انتہائی ضعیف ہے، جس کی وجہ عبد العزیز بن عبد الرحمن ہے، اس کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:
امام احمد:  "اس کی احادیث مٹا دو، یہ سب جھوٹ ہیں" یا انہوں نے کہا: "خود ساختہ ہیں"
ابن حبان : "اسے کسی صورت میں بھی حجت نہیں بنایا جاسکتا "
مزید کیلئے دیکھیں: " العلل " (5419)  اسی طرح : " لسان الميزان " (5267)
دوسری حدیث : جسے عبد اللہ بن زیبر  سے روایت کیا گیا ہے
 اسے طبرانی نے "معجم الکبیر"(14/266) میں روایت کیا ہے، اس کی سند یہ ہے:  ہمیں حدیث بیان کی سلیمان بن  حسن عطار نے، وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی ابو کامل  جحدری نے، وہ کہتے ہیں ہمیں  حدیث بیان کی فضیل بن سلیمان نے وہ کہتے ہیں  کہ ہمیں حدیث بیان کی محمد بن ابی یحیی ۔۔۔
 یہ سند بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
1-             محمد بن ابی یحیی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان  انقطاع ہے، کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ محمد نے ابن زبیر سے سنا ہی نہیں ہےاس لیے کہ محمد بن ابی یحیی کی وفات 144 ھ میں ہے، اور عبد اللہ بن زبیر کی وفات 72 ھ میں ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر  نے "التهذيب" (5/310) میں یہ کہا ہے کہ : محمد بن ابی یحیی  کی ایک روایت کی نسبت عبد اللہ  بن زبیر  یا کسی اور صحابی سے کی جاتی ہے، پھر ابن حجر نے یہ بالجزم کہا ہے کہ  محمد بن ابی یحیی  تابعین سے ہی روایت  کرتا ہے، پھر  کچھ تابعین کے نام ذکر بھی کیے۔
 اس سے یہ بات مزید پختہ ہو جاتی ہے کہ سند میں انقطاع ہے، اور کچھ راویوں نے درمیان میں سے راوی کو گرا دیا ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اس حدیث کی سند میں محمد بن ابی یحیی اسلمی اور  عبد اللہ بن زبیر کے درمیان انقطاع ہے" انتہی
"تصحیح الدعاء " (ص/440)
 2-             فضیل بن سلیمان کو بہت سے ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے، مثلاً:  ابن معین، عبد الرحمن بن مہدی، نسائی، اور دیگر ائمہ کرام۔
 انکی گفتگو جاننے کیلئے  دیکھیں: "تهذيب التهذيب" (4/481)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب "تقريب التهذيب" (5462) میں علمائے کرام کی گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسے ضعیف ہی لکھا ہے، چنانچہ کہا: " صدوق له خطأ كثير " [یہ راوی صدوق ہے لیکن اس کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں] انتہی
اور فضیل بھی  سلیمان  کی کچھ روایات کو امام بخاری کی جانب سے اپنی صحیح  میں  جگہ دینا ، اس کے ثقہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ امام بخاری اس کی روایات کو خوب چھان پھٹک کر ، دیگر روایوں کی طرف سے شواہد کی موجودگی میں قبول کرتے تھے۔
 دیکھیں:  "منهج الإمام البخاري في تصحيح الأحاديث وتعليليها" از: ابو بکر کافی(ص/154)
تیسری حدیث:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد  اپنے دونوں ہاتھ  اٹھائے، آپ اس وقت  قبلہ رخ تھے، پھر آپ نے فرمایا: (یا اللہ! ولید بن ولید، عیاش بن ابی ربیعہ، سلمہ بن ہشام، اور لاچار کمزور مسلمانوں کو مشرکین کے چنگل سے آزاد فرما)
اس روایت کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر: (3/1048) میں اس سند کیساتھ  نقل کیا ہے:  ابن ابی حاتم کہتے ہیں مجھے میرے والد  نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے ابو معمر المنقری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبد الوارث نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں مجھے علی بن زید نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابو ہریرہ سے یہ روایت نقل کی۔
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اس حدیث کا مرکزی راوی  علی بن زید بن جدعان ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ایک وقتی اور عارضی عمل تھا،  آپکا مستقل طریقہ کار نہیں تھا،  [یہ بات واضح ہے کہ ]دونوں میں فرق  ہوتا ہے" انتہی
"تصحیح الدعاء" (ص/443)
چوتھی حدیث:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے، ہر دو رکعتوں میں  تشہد بیٹھو، اپنی مسکینی، اور  تنگی کا اظہار  ہاتھ اٹھا کر کرو، اور کہو: یا اللہ! مجھے بخش دے، جو شخص ایسا نہیں کریگا، اس کی نماز  ناقص ہے) سنن ابو داود (1296)
حدیث کی سند  ضعیف ہے، اس میں عبد اللہ  بن نافع  راوی ہے، جس کے بارے میں علی بن مدینی  کہتے ہیں: "یہ راوی مجہول ہے"
حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب (3682) میں بھی یہی کہا ہے۔
اسی راوی کی وجہ سے  البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو  ضعیف ابو داود میں  ضعیف قرار دیا ہے۔
 مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: " ضعیف ابو داود – اصل [اصل  سے مراد "الام" ہے]" (2/52

اويس كرني كي حلات زندگی

اویس قرنی:  آپکی کنیت ابو عمرو، اور مکمل نام و نسب  یہ ہے:  اویس بن عامر بن جزء بن مالک قرنی، مرادی، یمنی۔
 آپ کا شمار کبار تابعین  اور نیک اولیاء میں ہوتا ہے، آپ نے عہد نبوی  پایا ہے، لیکن ان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں ہوسکی،  اور حافظ ابو نعیم  رحمہ اللہ  نے " حلية الأولياء " (2/87) میں  اصبغ بن زید سے  نقل کیا ہے کہ : اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کا خیال  رکھنے کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے تھے،  لہذا اویس قرنی رحمہ اللہ تابعی ہیں، صحابی نہیں ہیں۔
آپکی پیدائش و پرورش یمن ہی میں ہوئی ہے۔
آپ کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ  " سير أعلام النبلاء " (4/19) میں کہتے ہیں:
 "آپ متقی و زاہداور بہترین قدوہ تھے، اپنے وقت میں تابعین  کے سربراہ تھے، آپکا شمار  متقی اولیاء اللہ اور اللہ کے مخلص بندوں میں ہوتا تھا"
دوم:
امام نووی رحمہ اللہ نے  شرح صحیح مسلم  میں  آپکے فضائل میں ایک باب قائم کیا ہے، اور اس کے تحت امام مسلم کی روایت کردہ  احادیث  میں سے ایک حدیث: (2542) بھی ذکر کی:
 "اسیر بن جابر کہتے ہیں: " جب بھی یمن  کے حلیف قبائل  عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تو عمران سے دریافت کرتے: "کیا تم میں اویس بن عامر ہے؟" ایک دن اویس بن عامر کو پا ہی لیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تم اویس بن عامر  ہو؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوں؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہیں برص کی بیماری لاحق تھی، جو اب ختم ہوچکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر جگہ باقی ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا:  "تمہاری والدہ ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں"
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث نبوی  سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا) لہذا اب آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کر یں، تو انہوں نے  عمر رضی اللہ عنہ کیلئے مغفرت کی دعا فرمائی۔
 پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا: "آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟"
انہوں نے کہا: "میں کوفہ جانا چاہتا ہوں"
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا کوفہ کے گورنر کے نام خط نہ لکھ دو؟ [آپ اسی کی مہمان نوازی میں رہو گے]"
تو انہوں نے کہا: "میں گم نام  رہوں  تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا"
راوی کہتے ہیں: جب آئندہ سال  حج کے موقع پر  انکے قبیلے کا سربراہ ملا ، اور اس کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اویس قرنی کے بارے میں استفسار کیا، تو اس نے جواب دیا کہ:  "میں اسے کسمپرسی اور ناداری کی حالت میں چھوڑ کر آیا ہوں"
تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی حدیث نبوی  سنائی: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: (تمہارے پاس  یمن کے حلیف قبائل کے ساتھ  اویس بن عامر آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی شاخ مراد سے ہوگا، اسے برص کی بیماری لاحق تھی، جو کہ ختم ہو چکی ہے، صرف ایک درہم  کے برابر باقی ہے،  وہ اپنی والدہ کیساتھ نہایت نیک سلوک کرتا ہے، اگر اللہ تعالی پر  قسم  بھی ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے گا، چنانچہ اگر  تم اس سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  لازمی کروانا)
یہ آدمی بھی واپس جب اویس قرنی کے پاس آیا تو کہا: "میرے لیے دعائے استغفار کر دو"
اویس قرنی نے کہا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو"
اس نے پھر کہا: "میرے لیے  استغفار کرو"
اویس قرنی نے پھر وہی جواب دیا: "تم  ابھی نیک سفر سے آئے ہو تم میرے لیے استغفار کرو"
اور مزید یہ بھی کہا کہ: "کہیں تمہاری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے تو نہیں ہوئی؟"
آدمی نے کہا: "ہاں میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے"
تو  اویس قرنی نے  ان کیلئے استغفار کر دیا، اور پھر لوگوں کو اویس قرنی کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہوگیا، تو اویس قرنی  اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس قصے کے راوی اسیر کہتے ہیں:  "میں نے انہیں ایک [خوبصورت]لباس دیا، تو جب بھی کوئی شخص انکا لباس دیکھتا تو کہتا: "اویس کے پاس یہ لباس کہاں سے آگیا!"
اسی طرح امام حاکم نے بھی " المستدرك " (3/455) میں  اویس قرنی کے فضائل  میں ایک عنوان قائم کیا ہے، اور ان کے بارے میں لکھاہے:
 "اویس اس امت کا راہب ہے" انتہی
عین ممکن ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ کے فضائل  کے متعلق سب سے عظیم حدیث وہ ہو جس میں امت محمدیہ  میں سے ایک شخص کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے شفاعت کرنے کا   ذکر ہے، اور اس بات کا تذکرہ متعدد روایات میں ہے، ان میں سے صحیح ترین روایت  عبد اللہ بن ابی جدعاء کی مرفوع روایت ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (میری امت کے لوگوں میں سے ایک شخص ایسا بھی ہوگا  جس کی شفاعت کے ذریعے بنی تمیم سے بھی زیادہ  لوگ جنت میں داخل ہونگے) ترمذی: (2438) نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث "حسن صحیح" ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اس شفاعت کرنے والے اس شخص کے بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ سے صحیح ثابت ہے کہ حدیث میں شافع سے مراد اویس قرنی ہی ہے، اس بات کا ذکر دیگر مرفوع احادیث میں بھی ہوا ہے، لیکن وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔
اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں مزید ضعیف روایات  ذکر ہوئی ہیں، جن میں ایک لمبی حدیث ہے، جس میں ہے کہ: (تمہارے پاس صبح کے وقت جنتیوں میں سے ایک شخص نماز پڑھے گا۔۔۔ وہ اویس قرنی ہے۔۔۔) الخ، اس حدیث میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  کے مابین لمبا مکالمہ بھی ہے۔
 اس لمبی حدیث کو  أبو نعيم نے " حلیۃ الأولياء " (2/81) میں نقل کیا ہے، اور اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ بھی کیاہے ، جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے " سلسلہ ضعیفہ"  میں حدیث نمبر: (6276)  کے تحت کہا ہے کہ یہ حدیث "منكر جدا" یعنی سخت  ضعیف ہے۔
ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الموضوعات" میں اویس قرنی کے بارے میں عنوان قائم کرنے کے بعد کہتے ہیں:
 "احادیث میں اویس قرنی کے بارے میں چند ایک  جملے صحیح ثابت ہیں، جو کہ اویس قرنی  رحمہ اللہ اور عمر رضی اللہ عنہ  کی باہمی گفتگو پر مشتمل ہیں، پھراس میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سنائی تھی کہ : (تمہارے پاس  اویس  آئے گا، چنانچہ اگر تم   ان سے اپنے لیے استغفار کروا سکو ،تو  ضرور کروانا) لیکن قصہ گو لوگوں نے اس  حدیث کو  اتنا لمبا چوڑا کر کے بیان کیا جس کی تفصیل میں جانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں " انتہی مختصراً
" الموضوعات " (2/44)
سوم:
علمائے کرام نے  آپ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کچھ قصص ذکر کیے ہیں جن سے آپ کی نیکی تقوی، اور زہد  عیاں  ہوتا ہے، چنانچہ ان  میں سے مشہور ترین  قصہ  حافظ ابو نعيم نے اپنی عظیم کتاب: " حلیۃ الأولياء "  (2/79) میں اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ:
 "ابو نضرہ، اسیر بن جابر سے بیان کرتے ہیں کہ: "ایک محدث کوفہ میں ہمیں حدیث بیان کر رہے تھے، جب حدیث بیان  کرنے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے [سب کو ]کہا: "اب تم  یہاں سے چلے جاؤ"، تاہم کچھ  لوگ  باقی بچ گئے،  اور ان میں ایک شخص گفتگو کر رہا تھا، میں نے اس جیسی گفتگو پہلے نہیں سنی تھی، وہ شخص مجھے اچھا لگنے لگا، ایک دن وہ مجلس میں نہ آیا، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: تم جانتے ہو ایک شخص ہمیں اچھی اچھی باتیں بتلایا کرتا تھا؟ تو ایک شخص نے کہا:  ہاں میں جانتا ہوں، اس کا نام اویس قرنی ہے،  تو میں نے کہا: تو کیا تم اس کا مکان جانتے ہو؟ ، تو اس نے کہا: ہاں جانتا ہوں، تو ہم  اکٹھے ان کے کمرے تک پہنچے، ہمارے پہنچنے پر اویس باہر آئے، تو میں نے استفسار کیا: "بھائی! آپ آج کیوں نہیں آئے؟" تو  انہوں نے کہا: "میرے پاس آج پہننے کیلئے کپڑے نہیں تھے" اسیر کہتے ہیں کہ: "لوگ ان کے ساتھ مذاق  بہت کرتے تھے، اور اذیت پہنچاتے تھے" اسیر کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: "یہ لباس لے لو، اور پہن لو" اویس نے کہا: "ایسے مت کرو،  اگر انہوں نے یہ لباس پہنے مجھے دیکھ لیا تو اور زیادہ تکلیف دیں گے"، تاہم میرے اصرار پر انہوں نے وہ لباس پہن  ہی لیا، اور اپنے ساتھیوں کے پاس چلے گئے، وہ ابھی ان کے پاس پہنچے ہی تھے کہ  ان کے ساتھیوں نے  کہا: کسے دھوکہ دینے کیلئے اپنا یہ لباس پہنا ہے؟ یہ سن کر وہ واپس آئے، اور لباس اتار دیا، اور کہا: "دیکھ لیا؟!"
یہ معاملہ دیکھ کر میں لوگوں کے پاس آیا اور انہیں کہا: "تم  اس شخص سے آخر چاہتے کیا ہو؟! تم نے اسے سخت تکلیف میں مبتلا کیا ہوا ہے، کپڑے نہ ہوں تب بھی، اور کپڑے پہن لے تب بھی! "اسیر کہتے ہیں : "میں نے انہیں سخت ڈانٹ پلائی " انتہی
چہارم:
اویس قرنی رحمہ اللہ سے بہت سے زریں اقوال منقول ہیں، جن سے حکمت و دانائی چھلکتی ہے:
سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
 "اویس قرنی کی ایک چادر تھی، جو زمین پر بیٹھے ہوئے زمین پر لگتی تھی، اس پر وہ کہا کرتے تھے:
 "یا اللہ!  میں  ہر ذی روح  کے بھوکے اور ننگے ہونے پر تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، میرے پاس میری پشت پر موجود کپڑا ، اور  پیٹ میں موجود خوراک ہی ہے"انتہی
 حاكم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں روایت کیا ہے۔
خوف الہی اور ہمیشہ اللہ تعالی کو اپنا نگہبان سمجھنے کے بارے میں اویس قرنی رحمہ اللہ کا قول ہے:
 "اللہ کے عذاب سے ایسے ڈرو، کہ گویا تم نے سب لوگوں کا خون کیا ہوا ہے" انتہی
 حاكم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں روایت کیا ہے۔
اصبغ بن زید کہتے ہیں:
 " کسی دن شام ہوتی تو اویس قرنی  کہتے: "آج کی رات رکوع کی رات ہے" تو صبح تک رکوع کرتے ، اور کبھی شام کے وقت کہتے: "آج کی رات سجدے کی رات ہے" تو صبح تک سجدے میں پڑے رہتے، اور بسا اوقات شام کے وقت اپنے گھر میں موجود اضافی کھانا پینا، لباس سب کچھ صدقہ کر دیتے، اور پھر کہتے: "یا اللہ! اگر کوئی بھوک سے مر گیا تو میرا مواخذہ مت کرنا، اور اگر کوئی ننگا فوت ہوگیا تو میرا مواخذہ مت کرنا" انتہی
اسی طرح ابو نعیم "حلیۃ الاولیاء"(2/87) میں کہتے ہیں:
 "صبح تک رکوع کرتے۔۔۔ صبح تک  سجدے میں پڑے رہتے"  کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں رکوع اتنا لمبا کرتے تھے کہ صبح ہو جاتی، اور پھر دوسری رات میں سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ صبح ہو جاتی تھی"
شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "مراد قبیلے کا ایک شخص اویس قرنی کے پاس سے گزرا، اور استفسار کیا:
 "  صبح کیسے ہوئی؟" تو اویس نے کہا:  "الحمد للہ  کہتے ہوئے میں نے صبح کی ہے"
اس نے کہا: "زندگی کیسے گزر رہی ہے؟"
انہوں نے کہا: "ایسے شخص کی کیا زندگی  جو صبح ہو جائے تو سمجھتا ہے کہ آج شام نہیں ہوگی، اور اگر شام ہو جائے تو سمجھتا ہے کہ صبح نہیں ہوگی، پھر [مرنے کے بعد ] جنت کی خوشخبری دی جائے گی، یا پھر جہنم کی۔
 قبیلہ مراد کے فرد! موت کی یاد کسی مؤمن کیلئے خوشی  باقی نہیں رہنے دیتی، اور اگر مؤمن کو اپنے اوپر واجب حقوق الہی  معلوم ہو جائیں تو اپنے مال میں سونا چاندی کچھ بھی نہ چھوڑے، [سارا صدقہ کر دے] اور اگر حق کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو اس کا کوئی دوست بھی باقی نہ رہے" انتہی
" حلیۃ الأولياء " (2/83) اور حاکم نے اسے " المستدرك " (3/458) میں  بھی نقل کیا ہے۔
پنجم:
اکثر اہل علم  اس موقف پر ہیں کہ انکی وفات جنگ صفین   میں سن 37 ہجری میں ہوئی ہے، کہ انہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور وہیں پر آپ شہید ہوئے، اس موقف کو حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک"(3/460) میں  شریک بن عبد اللہ، اور  عبد الرحمن بن ابی لیلی وغیرہ سے با سند بیان کیا ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے آذربائیجان  کی جنگوں میں شرکت کی اور وہیں پر شہید ہوئے، دیکھیں: " حلیۃ الأولياء " (2/83 )
تاہم پہلے موقف کے اکثر اہل علم  قائل ہیں۔
واللہ اعلم.

استہزاء بالدین کی خطرناکی

استہزاء بالدین کی خطرناکی – شیخ صالح بن سعد السحیمی


The dangers of mockery of the religion – Shaykh Saaleh bin Sa'ad As-Suhaimee
استہزاء بالدین کی خطرناکی  
فضیلۃ الشیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ
(مدرس مسجد نبوی، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
نشرو اشاعت: عبدالمومن سلفي.
-----------------------------------------
mominsalafi.blogspot.com.
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(وہ شخص بھی دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ) جو دین ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اللہ کے ثواب([1]) یا اس کے عقاب کااستہزاء کرے(مذاق اڑائے)، اس کی دلیل یہ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ، لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ﴾  (التوبۃ: 65-66)
(کہہ دیں کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ بہانے مت بناؤ، یقیناً تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا)۔
اس کی شرح کرتے ہوئے شیخ صالح السحیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ مسئلہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ ہمارے درمیان ایسے بہت سے لوگ رہتے ہیں جو اس پر عمل پیرا ہیں یعنی ’’الاستهزاء بالدين‘‘ دین کا مذاق اڑاتے ہیں، یا مسلمانوں کا ان کے دین پر عمل کرنے کی وجہ سے، یا پھر سنت پر چلنے کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں، یا جو علماء ہیں امت کے ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو یہ بہت خطرناک معاملہ ہے بلکہ یہ کفر ہے اگر کسی کا استہزاء مذاق اس کے دین کی  ہی وجہ سے اڑایا جائے تو یہ کفر ہے۔ اگر کسی شخص کا مذاق اڑایا جائے اور وہ یہ جانتا ہےاس کو یہ علم بھی دیا گیا ہے  جو  مذاق اڑا رہا ہے اور اس کو تنبیہ کی گئی اس کو نصیحت دی گئی پھر بھی وہ اس میں لگا رہتا ہے اور ’’الاستهزاء بالدين‘‘  کرتا ہے، اور اہل دین کا مذاق اڑاتا ہے،  یا سنت نبویہ کا مذاق اڑاتا ہے، یا جو سنت پر عمل کرتے ہیں ان کا، یا جو سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں تو پھر ایسے شخص کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایسے شخص کا جو اس قسم کا  استہزاء اور مذاق کرتا ہے   اس سے بھی کم درجے کی بات کی تھی تو اس کو کافر قرار دیا ہے  ان آیات میں۔ حالانکہ وہ اس قسم کی بات تھی جو عام طور پر زبانوں  پر آ جاتی ہے لوگوں کے،  اس کے باوجود اتنی سخت ان کے لیے وعید  ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ غزوۂ تبوک میں ایک شخص نے   یہ کہہ دیا تھا کہ:
’’مَا رَأَيْنَا مِثْلَ قُرَّائِنَا هَؤُلاءِ، أَرْغَبَ بُطُونًا، وَلا أَكْذَبَ ألسنًا، وَلا أَجْبَنَ عِنْدَ اللِّقَاءِ‘‘ (تفسیر الطبری)
( ہم نے اپنے ان  قاری  لوگوں  جیسے بڑے پیٹ والے، اور جھوٹی زبان والے، اور لڑائی کے وقت بزدلی دکھانے والے نہیں دیکھے)۔
اس کی مراد اس سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے  تو سورۃ التوبہ کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کا  بھانڈا پھوڑ دیا ،جس طرح منافقین کا اللہ  سبحانہ و تعالیٰ نے راز فاش کر دیا  اور ان کو رسوا کیا ، اور صحیح بات یہ ہے کہ وہ شخص منافق نہیں تھا بلکہ اس کلمہ کی وجہ سے کافر ہوا تھا کیوں کہ اگر وہ پہلے ہی منافق ہوتا تو اس کا کفر تو ظاہر ہے منافق کا لیکن جس بات پر محقق علمائے کرام ہیں  وہ یہ ہے کہ وہ پہلے منافق نہیں تھا لیکن اس بات کی وجہ سے وہ کافر ہوا اور بعض روایات میں ہے اس نے  بعد میں  ان تمام چیزوں سے توبہ کر لی تھی لیکن شروع میں یہ کچھ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے  اس کا  بھانڈا پھوڑ دیا  اپنے اس قول سے کہ:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ: 65)
(اگر آپ اس سے پوچھیں جو  یہ بات انہوں نے کہی ہے تو وہ کہیں گے کہ یقیناً ہم تو محض کھیل کود میں اور دل لگی کے لیے ٹائم پاس کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہے تھے (تو اللہ تعالیٰ نےہی  جواب دیا) کہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی آیات اور اس کا رسول ہی رہ گئے ہیں تمہارے مذاق اڑانے کے لیے! اب تم عذر  لنگ  مت تراشو، یقیناً تم کافر ہو چکے ہواپنے  ایمان کے بعد )۔
حالانکہ اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کی لگام بھی پکڑی ہوئی تھی اور یہی کہتا جا رہا تھا  کہ: ’’إنما كنا نخوض ونلعب‘‘ (ہم تو محض ہنسی کھیل میں یہ بات کر رہے تھے) ’’ونقصِّرُ الطريق‘‘ (راستہ کاٹنے کے لیے) ٹائم پاس کے لیے ایسی بات کر رہے تھے جس طرح لوگ کرتے ہیں ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بار بار یہی آیت پڑھتے جاتے تھے:
﴿قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ،لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ: 65-66)۔
لہذا ہمیں اس بات سے احتیاط کرنی چاہیے اور ڈرنا چاہیے یہ بہت خطرناک معاملہ ہے ، بعض لوگ مسلمانوں کا کبھی کبھار مذاق اڑاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ دین پر عمل کرتے ہیں  یا دین کی  کسی چیز پر سختی سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور نہیں چھوڑتے ، کبھی ان کی داڑھی کی وجہ سے، یا ان کے مسواک کی وجہ، یا کپڑے ٹخنے سے اوپر رکھنے کی وجہ سے، سنت کی پیروی کرنے کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اگر اس کے مذاق اڑانے سے مقصود یہ دینی شعائر ہیں جس پر وہ عمل پیرا ہے اس وجہ سے وہ  محض اس کا مذاق اڑاتا ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے ایسے لوگوں کو جو اس قسم کے  کلمات زبان سے لاپرواہی  سے نکال دیتے ہیں ،اور اس بارے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،اور اس میں کوئی احتیاط نہیں برتتے انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے ۔
پھر ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اس امت کے علماء اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو یہ کہتے ہیں کہ وہ علماء صرف حیض و نفاس کے علماء ہیں اور حکمرانوں کے علماء ہیں اور سلاطین  کے، یا انہیں کچھ بھی نہیں معلوم  سوائے جو شلوار کے اندر ہے بس اس سے باہر نہیں نکلتے،  یا پھر بالکل سادہ لوح قسم کے یہ علماء ہیں، اور وہ  احکام سوائے فلاں فلاں کے احکام  کے کوئی اور بات نہیں جانتے۔ چنانچہ اکثر لوگ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں مختلف حزبی گروہوں اور تنظیوں میں سے وہ دین اور اس کے اہل کا مذاق اڑاتے ہیں۔
  اور موجودہ دور کے معاصر قلم کاروں رائٹروں  میں سے لوگوں نے جب یہ حدیث سنی کہ:
’’ضِرْسُ الْكَافِرِ أَوْ نَابُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِهِ مَسِيرَةُ ثَلَاثٍ‘‘ (صحیح مسلم 2853)
( قیامت کے دن کافر کی جو داڑھ ہےیا جونوکیلے دانت ہوتے ہیں وہ اُحد پہاڑ کے برابر ہوں گے اور اس کی جو جلد کی موٹائی ہے وہ تین رات کی مسافت کے برابر ہو گی )۔
تو وہ پھر بھی  احادیث  پر استہزاء مذاق  کرتے ہیں  جب کہ حدیث صحیح ہے تو اس نے ایک خطرناک کلمہ کہا جسے بیان کرنے والے کا دل کانپ اٹھے اور اس شخص کا کیا حال ہو گا جس نے یہ کہا ہے یا سنا ہے براہ راست تو اس شخص نے یہ بُری بات کی کہ جب اس کے دانت کا یہ حال ہے تو اس کا جو آلہ تناسل ہے اس کا حجم اور اس کی لمبائی  کتنی ہو گی نعوذ باللہ!  اور اسی طریقے سے بعض لکھنے والے جو یہ کہلاتے ہیں کہ ہم اسلامی رائٹر ہیں اور  اسلامی قلمکار ہیں وہ بھی بہت ساری سنتوں کا  اس طریقے سے مذاق اڑاتے ہیں۔ اور ان ہی میں سے ایک نے اپنی کتاب’’فقه البدوي‘‘ میں یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو یہ فرمان ہے، حالانکہ صحیح حدیث ہے صحیح بخاری  وغیرہ میں  موجود ہے کہ:
’’لَنْ يُفْلَحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً‘‘ (صحیح بخاری 4425)
(وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جو اپنی حکومت اور فیصلے عورت کے ہاتھ میں دے دے )۔
تو اس نے اس بات کو گویا کہ غلط بتاتے ہوئے یہ کہا کہ پھر  حالانکہ ہم یہ دیکھتے ہیں(وہ کہہ رہا ہے) کہ اندراگاندھی تھی یا گولڈ میئرتھی  اسی طرح مارگریٹ تھیچر تھی اور اس کے ساتھ ملکہ بلقیس کو بھی جوڑ لیا اس نے اور اس قسم کی باتیں کرنے لگا ۔ ہم اس کو یہی کہیں گے جس طرح عربی میں شعر ہے کہ جس کی رہنمائی کوا کرتا ہو تو وہ اسے وہیں پر لے جا کر چھوڑے گا جہاں پر کتوں کی گلی سڑی لاشیں وغیرہ پڑی ہوں ،گند ہو، جہاں پر تعفن ہو ۔ تو جس کی رہنمائی ایسے ہو وہ اس کو وہیں پر پہنچا کر دم لے گا ۔ آخر وہ شخص کیا بتانا چاہتا ہے  کیا یہ عورتیں کامیاب تھیں؟ اور کون سی کامیابی ان کو حاصل ہوئی جس کو شرعی طور پر کامیابی کہا جاتا ہے؟ یہاں تک کہ جو ملکہ بلقیس رحمہا اللہ تھی وہ اسلام لے کر آ گئی تھیں ۔لیکن اسلام سے پہلے کیا وہ فلاح یاب تھیں  اور کامیاب تھیں؟اور جب وہ اسلام لائیں تو انہوں نے وہ مملکت اور وہ بادشاہت ان کی حکمرانی  چھوڑ دی تھی ۔ چنانچہ بعض لوگ ہر اس شخص کا  مذاق اڑاتے ہیں جو سنت کی تطبیق کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے،  ایسے شخص پر اگر حجت تمام ہو جائے اور اس پر مصر رہے تو وہ اپنی اس گھٹیا حرکت کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے العیاذ باللہ۔


[1] لفظ ’’أو ثواب الله‘‘ (یا اللہ کے ثواب)  اس طبع میں سے ہے جو کہ ام القری نے شائع کی جس میں اس لفظ کی وضاحت ہے جو کہ دیگر طبعات میں وارد ہے یعنی ’’أو ثوابه‘‘ (یا اس کے ثواب)۔

منگل، 26 جنوری، 2016

کتاب: "فضائل اعمال" از محمد زکریا کاندھلوی کا رد

الحمد للہ:

کتاب "فضائل  اعمال"  سب سے پہلے "تبلیغی نصاب" کے نام سے طبع ہوئی، یہ  محمد زکریا کاندھلوی کی تالیف ہے، جو کہ فضائل اعمال کے متنوع  ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کے مؤلف نے اسے اپنی "تبلیغی جماعت" کیلئے معتبر کتاب کے طور پر تالیف کیا، چنانچہ یہ کتاب اس جماعت  کی معتمد بنیادی کتاب ہے، تبلیغی جماعت والے اسے اپنی مجالس، مدارس، اور مساجد میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، یہ کتاب اصل میں اردو زبان میں لکھی گئی ہے، اسی وجہ سے عرب ممالک میں یہ کتاب مشہور نہیں ہے، بلکہ ہندوستان، پاکستان، اور افغانستان جیسے جن ممالک میں تبلیغی جماعت  مشہور ہے وہیں پر یہ کتاب بھی بہت مشہور ہے۔
شیخ حمود تویجری "القول البليغ" (ص/11) میں رقمطراز ہیں کہ:
 "تبلیغی لوگوں کے ہاں اہم ترین کتاب "تبلیغی نصاب "ہے، جسے تبلیغی جماعت کے کسی سربراہ نے لکھا ہے، جسکا نام "محمد زکریا کاندھلوی"ہے، تبلیغی جماعت والے اس کتاب کا خوب اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ اس طرح سے اس کتاب کی تعظیم کرتے ہیں جیسے اہل سنت "صحیح بخاری و مسلم " وغیرہ دیگر کتب احادیث کی کرتے ہیں۔
تبلیغی جماعت نے اس کتاب کو ہندوستانی اور دیگر غیر عرب اپنے چاہنے  والوں کیلئے معتمد و مستند  قرار دیا ہے، حالانکہ اس کتاب میں شرک و بدعات و خرافات کیساتھ ساتھ خود ساختہ اور ضعیف روایات کی بھر مارہے، چنانچہ حقیقت میں یہ گمراہی، فتنہ، اور کتابِ شر ہے" انتہی
شیخ شمس الدین افغانی اپنی کتاب "جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية" (2/776) میں لکھتے ہیں:
 "بڑے دیوبندی علمائے کرام کی تالیفات کو دیوبندی  مقدس سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ کتب قبر پرستی، اور صوفی بت پرستی سے بھر پور ہیں، جیسے کہ ان کتابوں میں [متعدد کتابیں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کتاب کا بھی ذکر کیا]"تبلیغی نصاب"ہے، اس کتاب کے نام کا مطلب ہے: نصابِ تبلیغ، اور منہجِ تبلیغ  ہے، اور ان دیوبندیوں نے ان کتب سے براءت کا اظہار نہیں کیا، نہ کبھی ان سے خبردار کیا ہے، ان کتابوں کی طباعت بھی بند نہیں کی، ان کتابوں کی خرید وفروخت سے منع نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کے بازاروں میں ان کتابوں کی بھر مار ہے"انتہی
اور ایسے ہی "فتاوى اللجنة الدائمة" دوسرا ایڈیشن: (2/97) میں ہے کہ:
 " میں برطانیہ میں مقیم ایک مسلمان ہوں، میری چاہت ہے کہ زندگی کے تمام امور میں اہل سنت والجماعت کےمنہج کی اتباع کروں، اس بنا پرمیں نے بہت ساری دینی کتابیں اردو زبان میں پڑھیں، ان میں سے بعض کتابیں  جو ديوبندی تبلیغی جماعت سے منسوب مشہور ہندوستانی عالم ،شیخ الحدیث : محمد زکریا کاندھلوی کی لکھی ہوئی ہیں، کا مطالعہ کیا، انکی کتاب " تبلیغی نصاب" کے صفحہ نمبر : 113  پر پانچویں فصل میں ایک قصہ "رونق المجالس" نامی کتاب سے نقل کیا گيا ہے، جس میں ایک تاجرکا قصہ ہے جس نے اپنی وفات کے بعد وراثت کا مال بیٹوں کے مابین تقسیم کردیا، متوفی نے بہت سارے مال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا بال مبارک بھی ترکے میں چھوڑا تھا، چنانچہ چھوٹے بیٹے نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک لے لیا، اوراسکےعوض باپ کی وراثت سے بڑے بھائی کے حق میں دستبردار  ہوگیا، پھریہ ہوا کہ جس نے مال لیا تھا کچھ دنوں کے بعد محتاج ہوگیا، اورجس نے بال مبارک لیا تھا وہ مالدار ہوگيا، اور جس چھوٹے بھائی نے بال مبارک لیا تھا جب اسکی وفات ہوگئی، توایک بزرگ نے اپنے خواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرما رہے ہیں کہ : "جسے کوئی ضرورت ہو وہ اس چھوٹے بھائی کی قبر کے پاس جائے، اور اللہ سے دعاکرے تاکہ اللہ اسکی دعاقبول فرمائے" (بحوالہ تبلیغی نصاب) ۔
 اسی طرح سے میں نے ایک دوسری کتاب ( تاریخ مشائخ چشت ) مذکورہ سابقہ مؤلف شیخ محمد زکریا کی ہے، اس کتاب کےصفحہ نمبر 232 پرایک جگہ شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے بارے میں لکھا ہے کہ انکے مرض الموت کے وقت انکے ایک مرید نے ان کی عيادت کی، اور انکی حالت پرغم اور تکلیف کا اظہار کیا، تو شیخ انکےغم کو سمجھ گئے اور کہا: "غم نہ کرو کیونکہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی، بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اور وہ قبر ميں رہ کر لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، جس طرح سے اپنی زندگی میں لوگوں کی ضرورت پوری کیا کرتا تھا" ( بحوالہ کتاب تاریخ مشائخ چشت )
میں مذکورہ اشخاص کے بارے میں آپکی رائے سننا چاہتا ہوں، اوردرج ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
الف- کیا مؤلف اور قصہ بیان کرنے والے کا یہ عقیدہ جو انکی کتابوں سے معلوم ہوا، اس کی بنا پر وہ مسلمان باقی رہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کے دلائل سے واضح فرمائيں۔
ب- اگرمسلمان نہیں رہے تو کتاب وسنت کے حوالہ سے ملت اسلامیہ سے انکے نکلنے کی کیا دلیل ہے؟"
تو انکا جواب تھا:
" اس کتاب کے حوالے سے سوال میں مذکور چیزیں بدعت وخرافات پرمشتمل ہیں جس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے، اور اسکی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اصل نہیں ملتی، اس طرح کی باتیں کہنے والا یا اعتقاد رکھنے والا وہی ہوسکتا ہے جسکی فطرت بگڑچکی ہو ،  بصیرت ختم ہوچکی ہو، اور راہ راست سے بھٹک گیا ہو۔
 اور یہ دعوی کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ابھی تک موجود ہے اور اسے حاصل کرنے والے کے لئے مالداری اورخوشحالی کے اسباب مہیا ہوتے ہیں، نیز خواب میں نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کو ديکھنے کا دعوی کرنا اور يہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں اس شخص کی قبر کے پاس جاکر دعا کرنے کی وصیت فرما رہے ہیں، یہ ساری باتيں جھوٹ اور فریب ہیں جسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:  (یقیناً شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے ) [متفق علیہ]
لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قبروں کے پاس جاکر اللہ سے دعاکرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ حالانکہ  خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس سے امت کو منع کیا ، اور سختی کے ساتھ اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے، اور انبیاء و نیک لوگوں کے بارے میں غلو اور انکی موت کے بعد انکو وسیلہ بنانے سے منع فرمایا ۔
جس  وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تواللہ تعالی نے آپکے ذریعے سے دین اور نعمت مکمل کردی تھی ، چنانچہ اب شریعت میں کمی یا بیشی نہیں کی جاسکتی۔
 اوریہ اعتقاد رکھنا کہ قبروں کے پاس دعا قبول ہوتی ہے بے بنیاد بدعت ہےجسکی شریعت مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو ، یا اللہ کے ساتھ صاحب قبر کو بھی پکارے، یا مدفون شخص کو  نفع و نقصان کا مالک سمجھے، تو یہ عمل صاحبِ بدعت کو شرک اکبرتک پہنچا سکتا ہے، کیونکہ نفع ونقصان دینے والا صرف اللہ سبحانہ وتعالی  ہی ہے۔
اسی طرح سے یہ اعتقاد رکھنا کہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اوروہ  اپنی قبر سے لوگوں کی ضروریات اسی طرح پوری کرتا ہےجیسے وہ اپنی زندگی میں انکی ضروریات پوری کرتا تھا ، یہ غلط اعتقاد گمراہ اور صوفیوں کے فاسد عقائد ميں سے ہے، جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔
بلکہ آیات وصحيح احادیث میں واضح طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہرانسان نے مرنا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
    ( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
ترجمہ: بلاشبہ آپکو بھی موت آئے گی، اور وہ بھی مر جائیں گے۔  الزمر/30
اور ایسے ہی فرمایا: ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے کسی بھی بشر کو سرمدی زندگی نہیں بخشی، اگر آپ فوت ہوگئے تو کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟!۔  الأنبياء/34
( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ )
ترجمہ: ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔الأنبياء/35
اسی طرح صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اسکے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، 1) علم ، جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، 2) نیک اولاد جو والدین کے لئےدعا کرے، 3) صدقہ جاریہ۔
قبر میں میت اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہيں، لہذا جسکی یہ کیفیت ہو وہ بدرجہ اولی کسی اورکو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا، اور ایسی ضروریات پورا کرنے کا مطالبہ غیر اللہ سے کرنا جنہیں صرف اللہ تعالی ہی پوری کرسکتا ہے، انکا مطالبہ میت سے کرنا شرک اکبرہے، اور اس سے متصادم عقیدہ رکھنے والا شخص کفر اکبر کا مرتکب ہے جو اسے –نعوذ باللہ-ملت سے خارج  کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس نے قرآن و حدیث کے دلائل کا انکار کیا ہے، اس پر اللہ تعالی سے خالص توبہ کرنا واجب ہے، اوراسطرح کے اعمال ِبد کا ارتکاب نہ کرنے کا عزم کرنا ضروری ہے، اور اللہ کی خوشنودی کا حصول اورجنت کی کامیابی اورجہنم سے نجات حاصل کرنے کے لئے اہل سنت والجماعت اورسلف صالحین کے منہج کی اتباع کرنا ضروری ہے۔"انتہی
ایسے ہی "الموسوعة الميسرة فی الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/322) میں ہے کہ:
 " [تبلیغی جماعت والے] عرب ممالک میں اپنے اجتماعات میں "ریاض الصالحین" پڑھتے ہیں، اور غیر عرب ممالک میں "حیاتِ صحابہ"اور "تبلیغی نصاب" پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، مؤخر الذکر کتاب خرافات، اور ضعیف احادیث سے بھر پور ہے "انتہی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ: اہل علم مسلسل "تبلیغی نصاب" کتاب سے بچنے کی تلقین کرتے آئے ہیں، اسی کتاب کا دوسرا نام: "فضائل اعمال" ہے، چنانچہ عوام الناس کو یہ کتاب نہیں پڑھنی چاہئے، بلکہ انہیں احادیث کی صحیح کتب پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ان کتابوں کو پڑھیں جن کے مؤلفین نے اہل سنت و الجماعت  کے منہج پر اپنی کتابیں تحریر کی ہیں، لیکن ایسی کتابیں جو خرافات اور جھوٹ پر مشتمل ہوں  ایسی کتابوں کیلئے ایک مسلمان کے دل و دماغ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
واللہ اعلم

اتوار، 24 جنوری، 2016

امام ابو خنيفه كي معلومات

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ فقيہ ملت اور عراق كے عالم دين تھے، ان كا نام نعمان بن ثابت التيمى الكوفى اور كنيت ابو حنيفہ تھى، صغار صحابہ كى زندگى ( 80 ) ہجرى ميں پيدا ہوئے اور انہوں نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جب كوفہ آئے تو انہيں ديكھا تھا، اور انہوں نے عطاء بن ابى رباح سے روايت كى ہے اور يہ ان كے سب سے بڑے شيخ اوراستاد تھے، اور شعبى وغيرہ بہت ساروں سے روايت كرتے ہيں.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے طلب آثار كا بہت اہتمام كيا اور اس كے ليے سفر بھى كيے، رہا فقہ اور رائے كى تدقيق اور اس كى گہرائى كا مسئلہ تو اس ميں ان كا كوئى ثانى نہيں جيسا كہ امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان كى سيرت كے ليے دو جلديں دركار ہيں "
ابو حنيفہ فصيح اللسان تھے اور بڑى ميٹھى زبان ركھتے تھے، حتى كہ ان كے شاگرد ابو يوسف رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب لوگوں سے زيادہ بہتر بات كرنے والے اور سب سے ميٹھى زبان كے مالك تھے "
ورع و تقوى كےمالك، اور اللہ تعالى كى محرمات كا سب سے زيادہ خيال ركھنے والے تھے، ان كے سامنے دنيا كا مال و متاع پيش كيا گيا تو انہوں نے اس كىطرف توجہ ہى نہ دى، حتى كہ قضاء كا منصب قبول كرنے كے ليے انہيں كوڑے بھى مارے گئے يا بيت المال كا منصب لينے كے ليے ليكن انہوں نے انكار كر ديا "
بہت سارے لوگوں نے آپ سے بيان كيا ہے، آپ كى وفات ايك سو پچاس ہجرى ميں ہوئى اس وقت آپ كى عمر ستر برس تھى.
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 16 / 390 - 403 ) اور اصول الدين عند ابى حنيفۃ ( 63 ).
رہا حنفى مسلك تو يہ مشہور مذاہب اربعہ ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ سب سے پہلا فقہى مذہب ہے، حتى كہ يہ كہا جاتا ہے: " فقہ ميں لوگ ابو حنيفہ كے محتاج ہيں "
حنفى اور باقى مسلك كے يہ امام ـ ميرى مراد ابو حنيفہ مالك، شافعى اور احمد رحمہم اللہ ـ يہ سب قرآن و سنت كے دلائل سمجھنے كے ليے جتھاد كرتے، اور لوگوں كو اس دليل كے مطابق فتوى ديتے جو ان تك پہنچى تھى، پھر ان كے پيروكاروں نے اماموں كے فتاوى جات لے كر پھيلا ديے اور ان پر قياس كيا، اور ان كے ليے اصول و قواعد اور ضوابط وضع كيے، حتى كہ مذہب فقھى كى تكوين ہوئى، تو اس طرح حنفى، شافعى، مالكى اور حنبلى اور دوسرے مسلك بن گئے مثلا مذہب اوزاعى اور سفيان ليكن ان كا مسلك تواتر كےساتھ لكھا نہ گيا.
جيسا كہ آپ ديكھتے ہيں كہ ان فقھى مذاہب كى اساس كتاب و سنت كى اتباع پر مبنى تھى.
رہا رائے اور قياس كا مسئلہ جس سے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اخذ كرتے ہيں تو اس سے خواہشات و ھوى مراد نہيں، بلكہ يہ وہ رائے ہے جو دليل يا قرائن يا عام شريعت كے اصولوں كى متابعت پر مبنى ہے، سلف رحمہ اللہ مشكل مسائل ميں اجتھاد پر " رائے " كا اطلاق كرتے تھے، جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے اس سے مراد خواہش نہيں.
امام ابو حنيفہ نے حدود اور كفارات اور تقديرات شرعيۃ كے علاوہ ميں رائے اور قياس سے اخذ كرنے ميں وسعت اختيار كى اس كا سبب يہ تھا كہ امام ابو حنيفہ حديث كى روايت ميں دوسرے آئمہ كرام سے بہت كم ہيں ان سے احاديث مروى نہيں كيونكہ ان كا دور باقى آئمہ كے ادوار سے بہت پہلے كا ہے، ابو حنيفہ كے دور ميں عراق ميں فتنہ اور جھوٹ بكثرت تھا اس كے ساتھ روايت حديث ميں تشدد كى بنا پر احاديث كى روايت بہت كم كى.
يہاں ايك چيز كى طرف متنبہ رہنا چاہيے كہ جو حنفى مذہب امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى طرف منسوب ہے وہ سارے اقوال اور آراء نہيں ہيں جو ابو حنيفہ كے كلام ميں سے ہيں، يا پھر ان كا امام ابو حنيفہ كى طرف منسوب كرنا صحيح ہے.
ان اقوال ميں سے بہت سارے ايسے ہيں جو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى نص كے خلاف ہيں، انہيں اس ليے ان كا مذہب بنا ديا گيا ہے كہ امام كى دوسرى نصوص سے استنباط كيا گيا ہے، اسى طرح حنفى مسلك بعض اوقات ان كے شاگردوں مثلا ابو يوسف اور محمد كى رائے پر اعتماد كرتا ہے، اس كے ساتھ شاگردوں كے بعض اجتھادات پر بھى، جو بعد ميں مسلك اور مذہب بن گيا، اور يہ صرف امام ابو حنيفہ كے مسلك كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ آپ سارے مشہور مسلكوں ميں يہى بات كہہ سكتے ہيں.
اگر كوئى يہ كہے:
اگر مذاہب اربعہ كا مرجع اصل ميں كتاب و سنت ہے، تو پھر فقھى آراء ميں ان كا ايك دوسرے سے اختلاف كيوں پاتے ہيں ؟
اس كا جواب يہ ہے:
ہر امام اس كے مطابق فتوى ديتا تھا جو اس كے پاس دليل پہنچى ہوتى، ہو سكتا ہے امام مالك رحمہ اللہ كے پاس ايك حديث پہنچى ہو وہ اس كے مطابق فتوى ديں، اور وہ حديث امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس نہ پہنچى تو وہ اس كے خلاف فتوى ديں، اور اس كے برعكس بھى صحيح ہے.
اسى طرح ہو سكتا ہے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس كوئى صحيح سند سے حديث پہنچے تو وہ اس كے مطابق فتوى دے ديں، ليكن وہى حديث امام شافعى رحمہ اللہ كے پاس كسى دوسرى سند سے پہنچے جو ضعيف ہو تو اس كا فتوى نہ ديں، بلكہ وہ حديث كے مخالف اپنے اجتھاد كى بنا پر دوسرا فتوى ديں، اس وجہ سے آئمہ كرام كے مابين اختلاف ہوا ہے ـ يہ اختصار كے ساتھ بيان كيا گيا ہے ـ ليكن ان سب كے ليے آخرى مرجع و ماخذ كتاب و سنت ہے.
پھر امام ابو حنيفہ اور دوسرے اماموں نے حقيقت ميں كتاب و سنت كى نصوص سے اخذ كيا ہے، اگرچہ انہوں نے اس كا فتوى نہيں ديا، اس كى وضاحت اور بيان اس طرح ہے كہ چاروں اماموں نے يہ بات واضح طور پر بيان كى ہے كہ اگر كوئى بھى حديث صحيح ہو تو ان كا مذہب وہى ہے، اور وہ اسى صحيح حديث كو لينگے، اور اس كا فتوى دينگے، اور وہ اس پر عمل كرينگے.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے: " جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "
اور ايك روايت ميں ان كا قول ہے:
" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا
 ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "
ايك دوسرى روايت ميں اضافہ ہے:
" يقينا ہم بشر ہيں "
اور ايك روايت ميں ہے:
" آج ہم ايك قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "
اور رحمہ اللہ كا قول ہے:
" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں تو ايك انسان اور بشر ہوں، غلطى بھى كر سكتا ہوں اور نہيں بھى، ميرى رائے كو ديكھو جو بھى كتاب و سنت كے موافق ہو اسے لے لو، اور جو كتاب و سنت كے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دو "
اور ان كا يہ بھى قول ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہر ايك شخص كا قول رد بھى كيا جا سكتا ہے، اور قبول بھى كيا جا سكتا ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول رد نہيں ہو سكتا صرف قبول ہو گا "
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں نے جو كوئى بھى قول كہا ہے، يا كوئى اصول بنايا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرے قول كے خلاف حديث ہو تو جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول ہے وہى ميرا قول ہے "
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك اور شافعى اور اوزاعى اور ثورى كى، تم وہاں سے لے جہاں سے انہوں نے ليا ہے "
اور ان كا يہ بھى قول ہے:
" امام مالك، اور امام اوزاعى اور ابو حنيفہ كى رائے يہ سب رائے ہى ہے، اور يہ ميرے نزديك برابر ہے، صرف حجت اور دليل آثار ـ يعنى شرعى دلائل ـ ہيں "
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى سيرت اور ان كے مسلك كے متعلق يہ مختصر سا نوٹ تھا، آخر ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:
ہر مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ ان اماموں كى فضيلت اور مقام و مرتبہ كو پہچانے، كہ ان لوگوں نے اس كى دعوت نہيں دى كہ ان كے قول كو كتاب اور صحيح حديث سے بھى مقدم ركھا جائے، كيونكہ اصل ميں تو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى اتباع ہے نہ كہ لوگوں كے اقوال.
اس ليے كہ ہر ايك شخص كا قول ليا بھى جا سكتا ہے، اور اسے رد بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول صلى اللہ عليہ وسلم اكيلے ايسے ہيں جن كا قول رد نہيں كيا جا سكتا، ان كے قول كو قبول كيے بغير كوئى چارہ نہيں، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے

ہفتہ، 23 جنوری، 2016

سورة التكوير ، كا اردو ترجمه ، عبدالمومن سلفي

سورة التّکویر
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جب سورج کی روشنی لپیٹی جائے (۱) اور جب ستارے گر جائیں (۲) اور جب پہاڑ چلائے جائیں (۳) اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں (۴) اور جب جنگلی جانور اکھٹے ہوجائیں (۵) اور جب سمندر جوش دیئے جائیں (۶) اور جب جانیں جسموں سے ملائی جائیں (۷) اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے (۸) کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی (۹) اور جب اعمال نامے کھل جائیں (۱۰) اور آسمان کا پوست اتارا جائے (۱۱) اورجب دوزخ دھکائی جائے (۱۲) اورجب جنت قریب لائی جائے (۱۳) تو ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے (۱۴) پس میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے (۱۵) سیدھے چلنے والے غیب ہو جانے والے ستارو ں کی (۱۶) اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے (۱۷) اور قسم ہے صبح کی جب وہ آنے لگے (۱۸) بے شک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے (۱۹) جو بڑا طاقتور ہے عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے (۲۰) وہاں کا سردار امانت دار ہے (۲۱) اور تمہارا رفیق کوئی دیوانہ نہیں ہے (۲۲) اور اس نے اس کو کُھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے (۲۳) اور وہ غیب کی باتوں پر بخیل نہیں ہے (۲۴) اور وہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے (۲۵) پس تم کہاں چلے جا رہے ہو (۲۶) یہ تو جہان بھرکے لیے نصیحت ہی نصیحت ہے (۲۷) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے (۲۸) اور تم توجب ہی چاہو گے کہ جب الله چاہے گا جو تمام جہان کا رب ہے (۲۹)

 

بدھ، 20 جنوری، 2016

امام بخاري كا مختصر تعارف

امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری کا مختصر تعارف  
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مرتب ،،عبدالمومن سلفي
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح بخاری
اس کتاب کا نام مؤلف نے ’’الجامع الصحیح‘‘([1])رکھا ہے اور چھ لاکھ احادیث  میں سے چن کر اس مجموعے کو تیار فرمایا۔ آپ رحمہ اللہ نے اس کی تنقیح وتہذیب میں بہت محنت ومشقت فرما‏ئی اور ان کی صحت کا بار بار  اچھی طرح سے جائزہ لیا۔ یہاں تک کہ کوئی بھی حدیث اس وقت تک اس میں نہ لکھتے جب تک غسل کرکے دو رکعات نہ پڑھتے، پھر اس حدیث کو اس کتاب میں شامل کرنے کے بارے میں اللہ تعالی سے استخارہ فرماتے۔ آپ اس میں کوئی بھی مسند روایت نہیں لائے ہیں مگر وہ رسول اللہ e سے صحیح طور  پر متصل سند کے ساتھ ثابت ہےکہ جس میں رجال کی عدالت وضبط کی شرائط مکمل طور پر پائی جاتی ہیں۔
آپ نے اس کی تکمیل سولہ سال  میں مکمل فرمائی۔ پھر اسے امام احمد، یحیی بن معین اور علی بن المدینی رحمہم اللہ وغیرہ پر پیش فرمایا تو انہوں نے اس کی تعریف فرمائی اور اس کی صحت کی گواہی دی۔
ہر دور کے علماء نے اسے تلقی بالقبول کے شرف سے نوازا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هو أجل كتب الإسلام، وأفضلها بعد كتاب الله تعالى‘‘
(اسلام کی کتابوں میں سے سب سے بہترین کتاب ہے ، اوراللہ کی کتاب کے بعد  سب سے افضل ترین کتاب ہے)۔
 صحیح بخاری کی احادیث کی تعداد مکرر کے ساتھ 7397 ہیں۔ اور اگر مکرر کو حذف کردیا جائے تو 2602 احادیث ہیں۔  جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تحقیق کرکے بیان فرمایا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ
آپ أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة بن بردزبه([2]) ہیں، الجعفي ہیں جو کہ ان کے مولٰی تھے (یعنی ان کے پردادا مغیرہ نے  الجعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا) اور آپ فارسی الاصل تھے۔
آپ شہربخاریٰ میں شوال سن194ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ یتیمی کی حالت میں اپنی والدہ کی گود میں پروان چڑھے۔  طلب حدیث کے لیے رحلہ (سفر) کا آغاز آپ نے سن 210ھ میں کیا۔ اور مختلف شہروں میں طلب حدیث کے لیے منتقل ہوتے گئے۔ چھ سال تک حجاز میں اقامت اختیار فرمائی۔ اور الشام ومصر والجزيرة والبصرة والكوفة وبغدادگئے۔ آپ "حافظے کے غایت درجے پر فائز تھے۔ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کتاب کو ایک مرتبہ دیکھتے اور ایک  ہی نظر میں اسے حفظ کرلیتے۔
آپ زہد وورع کی زندگی گزارتے اور حکمرانوں وامراء سےدور رہتے(یعنی کسی لالچ میں ان کے پاس نہ جاتے)۔ ساتھ ہی آپ بہادر اور سخی بھی تھے۔
ان کی تعریف ان کے ہم عصر علماء اوران کے بعد میں آنے والوں نے بھی کی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما أخرجت خراسان مثله‘‘
(خراسان نے ایسا شخص کبھی پیدا نہیں کیا)۔
 امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما تحت أديم السماء أعلم بحديث رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ولا أحفظ من محمد بن إسماعيل البخاري‘‘
(آسمان کے چھت کے نیچے حدیث رسول e کا محمد بن اسماعیل البخاری "سے بڑھ کر علم رکھنے والا اور حفظ کرنے والا کوئی نہیں)۔
فقہ میں بھی مجتہد تھے۔ اور حدیث سے مسائل کا استنباط کرنے میں آپ کی عجیب باریک بینی تھی۔ اس بات پر گواہ ان کے وہ تراجم (باندھے گئے باب) ہيں جو انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں قائم کیے ہیں۔
آپ رحمہ اللہ کی وفات 13 دن کم 62 سال کی عمر میں عید الفطر کی رات سن256ھ  میں خَرْتَنْك کے مقام پر ہوئی جو کہ سمرقند  سے دو فرسخ کے فاصلے پر ایک علاقہ ہے۔ اور اپنی تالیفات میں آپ نے بہت سا علمی ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اللہ تعالی آپ پر رحم ‌فرمائے اور مسلمانوں کی طرف سے انہیں جزائے خیر عطاء فرمائے۔


[1] صحیح بخاری کا مکمل نام کچھ یوں ہے: ’’الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه‘‘۔

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...