الحمد للہ:
کتاب "فضائل اعمال" سب سے پہلے "تبلیغی نصاب" کے نام سے طبع ہوئی، یہ محمد زکریا کاندھلوی کی تالیف ہے، جو کہ فضائل اعمال کے متنوع ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کے مؤلف نے اسے اپنی "تبلیغی جماعت" کیلئے معتبر کتاب کے طور پر تالیف کیا، چنانچہ یہ کتاب اس جماعت کی معتمد بنیادی کتاب ہے، تبلیغی جماعت والے اسے اپنی مجالس، مدارس، اور مساجد میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، یہ کتاب اصل میں اردو زبان میں لکھی گئی ہے، اسی وجہ سے عرب ممالک میں یہ کتاب مشہور نہیں ہے، بلکہ ہندوستان، پاکستان، اور افغانستان جیسے جن ممالک میں تبلیغی جماعت مشہور ہے وہیں پر یہ کتاب بھی بہت مشہور ہے۔
شیخ حمود تویجری "القول البليغ" (ص/11) میں رقمطراز ہیں کہ:
"تبلیغی لوگوں کے ہاں اہم ترین کتاب "تبلیغی نصاب "ہے، جسے تبلیغی جماعت کے کسی سربراہ نے لکھا ہے، جسکا نام "محمد زکریا کاندھلوی"ہے، تبلیغی جماعت والے اس کتاب کا خوب اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ اس طرح سے اس کتاب کی تعظیم کرتے ہیں جیسے اہل سنت "صحیح بخاری و مسلم " وغیرہ دیگر کتب احادیث کی کرتے ہیں۔
تبلیغی جماعت نے اس کتاب کو ہندوستانی اور دیگر غیر عرب اپنے چاہنے والوں کیلئے معتمد و مستند قرار دیا ہے، حالانکہ اس کتاب میں شرک و بدعات و خرافات کیساتھ ساتھ خود ساختہ اور ضعیف روایات کی بھر مارہے، چنانچہ حقیقت میں یہ گمراہی، فتنہ، اور کتابِ شر ہے" انتہی
شیخ شمس الدین افغانی اپنی کتاب "جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية" (2/776) میں لکھتے ہیں:
"بڑے دیوبندی علمائے کرام کی تالیفات کو دیوبندی مقدس سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ کتب قبر پرستی، اور صوفی بت پرستی سے بھر پور ہیں، جیسے کہ ان کتابوں میں [متعدد کتابیں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کتاب کا بھی ذکر کیا]"تبلیغی نصاب"ہے، اس کتاب کے نام کا مطلب ہے: نصابِ تبلیغ، اور منہجِ تبلیغ ہے، اور ان دیوبندیوں نے ان کتب سے براءت کا اظہار نہیں کیا، نہ کبھی ان سے خبردار کیا ہے، ان کتابوں کی طباعت بھی بند نہیں کی، ان کتابوں کی خرید وفروخت سے منع نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کے بازاروں میں ان کتابوں کی بھر مار ہے"انتہی
اور ایسے ہی "فتاوى اللجنة الدائمة" دوسرا ایڈیشن: (2/97) میں ہے کہ:
" میں برطانیہ میں مقیم ایک مسلمان ہوں، میری چاہت ہے کہ زندگی کے تمام امور میں اہل سنت والجماعت کےمنہج کی اتباع کروں، اس بنا پرمیں نے بہت ساری دینی کتابیں اردو زبان میں پڑھیں، ان میں سے بعض کتابیں جو ديوبندی تبلیغی جماعت سے منسوب مشہور ہندوستانی عالم ،شیخ الحدیث : محمد زکریا کاندھلوی کی لکھی ہوئی ہیں، کا مطالعہ کیا، انکی کتاب " تبلیغی نصاب" کے صفحہ نمبر : 113 پر پانچویں فصل میں ایک قصہ "رونق المجالس" نامی کتاب سے نقل کیا گيا ہے، جس میں ایک تاجرکا قصہ ہے جس نے اپنی وفات کے بعد وراثت کا مال بیٹوں کے مابین تقسیم کردیا، متوفی نے بہت سارے مال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا بال مبارک بھی ترکے میں چھوڑا تھا، چنانچہ چھوٹے بیٹے نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک لے لیا، اوراسکےعوض باپ کی وراثت سے بڑے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگیا، پھریہ ہوا کہ جس نے مال لیا تھا کچھ دنوں کے بعد محتاج ہوگیا، اورجس نے بال مبارک لیا تھا وہ مالدار ہوگيا، اور جس چھوٹے بھائی نے بال مبارک لیا تھا جب اسکی وفات ہوگئی، توایک بزرگ نے اپنے خواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرما رہے ہیں کہ : "جسے کوئی ضرورت ہو وہ اس چھوٹے بھائی کی قبر کے پاس جائے، اور اللہ سے دعاکرے تاکہ اللہ اسکی دعاقبول فرمائے" (بحوالہ تبلیغی نصاب) ۔
اسی طرح سے میں نے ایک دوسری کتاب ( تاریخ مشائخ چشت ) مذکورہ سابقہ مؤلف شیخ محمد زکریا کی ہے، اس کتاب کےصفحہ نمبر 232 پرایک جگہ شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے بارے میں لکھا ہے کہ انکے مرض الموت کے وقت انکے ایک مرید نے ان کی عيادت کی، اور انکی حالت پرغم اور تکلیف کا اظہار کیا، تو شیخ انکےغم کو سمجھ گئے اور کہا: "غم نہ کرو کیونکہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی، بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اور وہ قبر ميں رہ کر لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، جس طرح سے اپنی زندگی میں لوگوں کی ضرورت پوری کیا کرتا تھا" ( بحوالہ کتاب تاریخ مشائخ چشت )
میں مذکورہ اشخاص کے بارے میں آپکی رائے سننا چاہتا ہوں، اوردرج ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
الف- کیا مؤلف اور قصہ بیان کرنے والے کا یہ عقیدہ جو انکی کتابوں سے معلوم ہوا، اس کی بنا پر وہ مسلمان باقی رہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کے دلائل سے واضح فرمائيں۔
ب- اگرمسلمان نہیں رہے تو کتاب وسنت کے حوالہ سے ملت اسلامیہ سے انکے نکلنے کی کیا دلیل ہے؟"
تو انکا جواب تھا:
" اس کتاب کے حوالے سے سوال میں مذکور چیزیں بدعت وخرافات پرمشتمل ہیں جس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے، اور اسکی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اصل نہیں ملتی، اس طرح کی باتیں کہنے والا یا اعتقاد رکھنے والا وہی ہوسکتا ہے جسکی فطرت بگڑچکی ہو ، بصیرت ختم ہوچکی ہو، اور راہ راست سے بھٹک گیا ہو۔
اور یہ دعوی کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ابھی تک موجود ہے اور اسے حاصل کرنے والے کے لئے مالداری اورخوشحالی کے اسباب مہیا ہوتے ہیں، نیز خواب میں نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کو ديکھنے کا دعوی کرنا اور يہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں اس شخص کی قبر کے پاس جاکر دعا کرنے کی وصیت فرما رہے ہیں، یہ ساری باتيں جھوٹ اور فریب ہیں جسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (یقیناً شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے ) [متفق علیہ]
لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قبروں کے پاس جاکر اللہ سے دعاکرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ حالانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس سے امت کو منع کیا ، اور سختی کے ساتھ اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے، اور انبیاء و نیک لوگوں کے بارے میں غلو اور انکی موت کے بعد انکو وسیلہ بنانے سے منع فرمایا ۔
جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تواللہ تعالی نے آپکے ذریعے سے دین اور نعمت مکمل کردی تھی ، چنانچہ اب شریعت میں کمی یا بیشی نہیں کی جاسکتی۔
اوریہ اعتقاد رکھنا کہ قبروں کے پاس دعا قبول ہوتی ہے بے بنیاد بدعت ہےجسکی شریعت مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو ، یا اللہ کے ساتھ صاحب قبر کو بھی پکارے، یا مدفون شخص کو نفع و نقصان کا مالک سمجھے، تو یہ عمل صاحبِ بدعت کو شرک اکبرتک پہنچا سکتا ہے، کیونکہ نفع ونقصان دینے والا صرف اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہے۔
اسی طرح سے یہ اعتقاد رکھنا کہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اوروہ اپنی قبر سے لوگوں کی ضروریات اسی طرح پوری کرتا ہےجیسے وہ اپنی زندگی میں انکی ضروریات پوری کرتا تھا ، یہ غلط اعتقاد گمراہ اور صوفیوں کے فاسد عقائد ميں سے ہے، جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔
بلکہ آیات وصحيح احادیث میں واضح طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہرانسان نے مرنا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
ترجمہ: بلاشبہ آپکو بھی موت آئے گی، اور وہ بھی مر جائیں گے۔ الزمر/30
اور ایسے ہی فرمایا: ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے کسی بھی بشر کو سرمدی زندگی نہیں بخشی، اگر آپ فوت ہوگئے تو کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟!۔ الأنبياء/34
( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ )
ترجمہ: ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔الأنبياء/35
اسی طرح صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اسکے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، 1) علم ، جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، 2) نیک اولاد جو والدین کے لئےدعا کرے، 3) صدقہ جاریہ۔
قبر میں میت اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہيں، لہذا جسکی یہ کیفیت ہو وہ بدرجہ اولی کسی اورکو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا، اور ایسی ضروریات پورا کرنے کا مطالبہ غیر اللہ سے کرنا جنہیں صرف اللہ تعالی ہی پوری کرسکتا ہے، انکا مطالبہ میت سے کرنا شرک اکبرہے، اور اس سے متصادم عقیدہ رکھنے والا شخص کفر اکبر کا مرتکب ہے جو اسے –نعوذ باللہ-ملت سے خارج کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس نے قرآن و حدیث کے دلائل کا انکار کیا ہے، اس پر اللہ تعالی سے خالص توبہ کرنا واجب ہے، اوراسطرح کے اعمال ِبد کا ارتکاب نہ کرنے کا عزم کرنا ضروری ہے، اور اللہ کی خوشنودی کا حصول اورجنت کی کامیابی اورجہنم سے نجات حاصل کرنے کے لئے اہل سنت والجماعت اورسلف صالحین کے منہج کی اتباع کرنا ضروری ہے۔"انتہی
ایسے ہی "الموسوعة الميسرة فی الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/322) میں ہے کہ:
" [تبلیغی جماعت والے] عرب ممالک میں اپنے اجتماعات میں "ریاض الصالحین" پڑھتے ہیں، اور غیر عرب ممالک میں "حیاتِ صحابہ"اور "تبلیغی نصاب" پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، مؤخر الذکر کتاب خرافات، اور ضعیف احادیث سے بھر پور ہے "انتہی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ: اہل علم مسلسل "تبلیغی نصاب" کتاب سے بچنے کی تلقین کرتے آئے ہیں، اسی کتاب کا دوسرا نام: "فضائل اعمال" ہے، چنانچہ عوام الناس کو یہ کتاب نہیں پڑھنی چاہئے، بلکہ انہیں احادیث کی صحیح کتب پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ان کتابوں کو پڑھیں جن کے مؤلفین نے اہل سنت و الجماعت کے منہج پر اپنی کتابیں تحریر کی ہیں، لیکن ایسی کتابیں جو خرافات اور جھوٹ پر مشتمل ہوں ایسی کتابوں کیلئے ایک مسلمان کے دل و دماغ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
واللہ اعلم
کتاب "فضائل اعمال" سب سے پہلے "تبلیغی نصاب" کے نام سے طبع ہوئی، یہ محمد زکریا کاندھلوی کی تالیف ہے، جو کہ فضائل اعمال کے متنوع ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کے مؤلف نے اسے اپنی "تبلیغی جماعت" کیلئے معتبر کتاب کے طور پر تالیف کیا، چنانچہ یہ کتاب اس جماعت کی معتمد بنیادی کتاب ہے، تبلیغی جماعت والے اسے اپنی مجالس، مدارس، اور مساجد میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، یہ کتاب اصل میں اردو زبان میں لکھی گئی ہے، اسی وجہ سے عرب ممالک میں یہ کتاب مشہور نہیں ہے، بلکہ ہندوستان، پاکستان، اور افغانستان جیسے جن ممالک میں تبلیغی جماعت مشہور ہے وہیں پر یہ کتاب بھی بہت مشہور ہے۔
شیخ حمود تویجری "القول البليغ" (ص/11) میں رقمطراز ہیں کہ:
"تبلیغی لوگوں کے ہاں اہم ترین کتاب "تبلیغی نصاب "ہے، جسے تبلیغی جماعت کے کسی سربراہ نے لکھا ہے، جسکا نام "محمد زکریا کاندھلوی"ہے، تبلیغی جماعت والے اس کتاب کا خوب اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ یہ لوگ اس طرح سے اس کتاب کی تعظیم کرتے ہیں جیسے اہل سنت "صحیح بخاری و مسلم " وغیرہ دیگر کتب احادیث کی کرتے ہیں۔
تبلیغی جماعت نے اس کتاب کو ہندوستانی اور دیگر غیر عرب اپنے چاہنے والوں کیلئے معتمد و مستند قرار دیا ہے، حالانکہ اس کتاب میں شرک و بدعات و خرافات کیساتھ ساتھ خود ساختہ اور ضعیف روایات کی بھر مارہے، چنانچہ حقیقت میں یہ گمراہی، فتنہ، اور کتابِ شر ہے" انتہی
شیخ شمس الدین افغانی اپنی کتاب "جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية" (2/776) میں لکھتے ہیں:
"بڑے دیوبندی علمائے کرام کی تالیفات کو دیوبندی مقدس سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ کتب قبر پرستی، اور صوفی بت پرستی سے بھر پور ہیں، جیسے کہ ان کتابوں میں [متعدد کتابیں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس کتاب کا بھی ذکر کیا]"تبلیغی نصاب"ہے، اس کتاب کے نام کا مطلب ہے: نصابِ تبلیغ، اور منہجِ تبلیغ ہے، اور ان دیوبندیوں نے ان کتب سے براءت کا اظہار نہیں کیا، نہ کبھی ان سے خبردار کیا ہے، ان کتابوں کی طباعت بھی بند نہیں کی، ان کتابوں کی خرید وفروخت سے منع نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کے بازاروں میں ان کتابوں کی بھر مار ہے"انتہی
اور ایسے ہی "فتاوى اللجنة الدائمة" دوسرا ایڈیشن: (2/97) میں ہے کہ:
" میں برطانیہ میں مقیم ایک مسلمان ہوں، میری چاہت ہے کہ زندگی کے تمام امور میں اہل سنت والجماعت کےمنہج کی اتباع کروں، اس بنا پرمیں نے بہت ساری دینی کتابیں اردو زبان میں پڑھیں، ان میں سے بعض کتابیں جو ديوبندی تبلیغی جماعت سے منسوب مشہور ہندوستانی عالم ،شیخ الحدیث : محمد زکریا کاندھلوی کی لکھی ہوئی ہیں، کا مطالعہ کیا، انکی کتاب " تبلیغی نصاب" کے صفحہ نمبر : 113 پر پانچویں فصل میں ایک قصہ "رونق المجالس" نامی کتاب سے نقل کیا گيا ہے، جس میں ایک تاجرکا قصہ ہے جس نے اپنی وفات کے بعد وراثت کا مال بیٹوں کے مابین تقسیم کردیا، متوفی نے بہت سارے مال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا بال مبارک بھی ترکے میں چھوڑا تھا، چنانچہ چھوٹے بیٹے نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بال مبارک لے لیا، اوراسکےعوض باپ کی وراثت سے بڑے بھائی کے حق میں دستبردار ہوگیا، پھریہ ہوا کہ جس نے مال لیا تھا کچھ دنوں کے بعد محتاج ہوگیا، اورجس نے بال مبارک لیا تھا وہ مالدار ہوگيا، اور جس چھوٹے بھائی نے بال مبارک لیا تھا جب اسکی وفات ہوگئی، توایک بزرگ نے اپنے خواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرما رہے ہیں کہ : "جسے کوئی ضرورت ہو وہ اس چھوٹے بھائی کی قبر کے پاس جائے، اور اللہ سے دعاکرے تاکہ اللہ اسکی دعاقبول فرمائے" (بحوالہ تبلیغی نصاب) ۔
اسی طرح سے میں نے ایک دوسری کتاب ( تاریخ مشائخ چشت ) مذکورہ سابقہ مؤلف شیخ محمد زکریا کی ہے، اس کتاب کےصفحہ نمبر 232 پرایک جگہ شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے بارے میں لکھا ہے کہ انکے مرض الموت کے وقت انکے ایک مرید نے ان کی عيادت کی، اور انکی حالت پرغم اور تکلیف کا اظہار کیا، تو شیخ انکےغم کو سمجھ گئے اور کہا: "غم نہ کرو کیونکہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی، بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اور وہ قبر ميں رہ کر لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، جس طرح سے اپنی زندگی میں لوگوں کی ضرورت پوری کیا کرتا تھا" ( بحوالہ کتاب تاریخ مشائخ چشت )
میں مذکورہ اشخاص کے بارے میں آپکی رائے سننا چاہتا ہوں، اوردرج ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:
الف- کیا مؤلف اور قصہ بیان کرنے والے کا یہ عقیدہ جو انکی کتابوں سے معلوم ہوا، اس کی بنا پر وہ مسلمان باقی رہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کے دلائل سے واضح فرمائيں۔
ب- اگرمسلمان نہیں رہے تو کتاب وسنت کے حوالہ سے ملت اسلامیہ سے انکے نکلنے کی کیا دلیل ہے؟"
تو انکا جواب تھا:
" اس کتاب کے حوالے سے سوال میں مذکور چیزیں بدعت وخرافات پرمشتمل ہیں جس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے، اور اسکی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اصل نہیں ملتی، اس طرح کی باتیں کہنے والا یا اعتقاد رکھنے والا وہی ہوسکتا ہے جسکی فطرت بگڑچکی ہو ، بصیرت ختم ہوچکی ہو، اور راہ راست سے بھٹک گیا ہو۔
اور یہ دعوی کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بال ابھی تک موجود ہے اور اسے حاصل کرنے والے کے لئے مالداری اورخوشحالی کے اسباب مہیا ہوتے ہیں، نیز خواب میں نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کو ديکھنے کا دعوی کرنا اور يہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں اس شخص کی قبر کے پاس جاکر دعا کرنے کی وصیت فرما رہے ہیں، یہ ساری باتيں جھوٹ اور فریب ہیں جسکی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (یقیناً شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا ہے ) [متفق علیہ]
لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قبروں کے پاس جاکر اللہ سے دعاکرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ حالانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس سے امت کو منع کیا ، اور سختی کے ساتھ اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے، اور انبیاء و نیک لوگوں کے بارے میں غلو اور انکی موت کے بعد انکو وسیلہ بنانے سے منع فرمایا ۔
جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تواللہ تعالی نے آپکے ذریعے سے دین اور نعمت مکمل کردی تھی ، چنانچہ اب شریعت میں کمی یا بیشی نہیں کی جاسکتی۔
اوریہ اعتقاد رکھنا کہ قبروں کے پاس دعا قبول ہوتی ہے بے بنیاد بدعت ہےجسکی شریعت مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو ، یا اللہ کے ساتھ صاحب قبر کو بھی پکارے، یا مدفون شخص کو نفع و نقصان کا مالک سمجھے، تو یہ عمل صاحبِ بدعت کو شرک اکبرتک پہنچا سکتا ہے، کیونکہ نفع ونقصان دینے والا صرف اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہے۔
اسی طرح سے یہ اعتقاد رکھنا کہ زاہد وعابد کی موت نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے، اوروہ اپنی قبر سے لوگوں کی ضروریات اسی طرح پوری کرتا ہےجیسے وہ اپنی زندگی میں انکی ضروریات پوری کرتا تھا ، یہ غلط اعتقاد گمراہ اور صوفیوں کے فاسد عقائد ميں سے ہے، جس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔
بلکہ آیات وصحيح احادیث میں واضح طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہرانسان نے مرنا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ )
ترجمہ: بلاشبہ آپکو بھی موت آئے گی، اور وہ بھی مر جائیں گے۔ الزمر/30
اور ایسے ہی فرمایا: ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ )
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے کسی بھی بشر کو سرمدی زندگی نہیں بخشی، اگر آپ فوت ہوگئے تو کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟!۔ الأنبياء/34
( كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ )
ترجمہ: ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔الأنبياء/35
اسی طرح صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو تین چیزوں کے علاوہ اسکے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، 1) علم ، جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، 2) نیک اولاد جو والدین کے لئےدعا کرے، 3) صدقہ جاریہ۔
قبر میں میت اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہيں، لہذا جسکی یہ کیفیت ہو وہ بدرجہ اولی کسی اورکو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا، اور ایسی ضروریات پورا کرنے کا مطالبہ غیر اللہ سے کرنا جنہیں صرف اللہ تعالی ہی پوری کرسکتا ہے، انکا مطالبہ میت سے کرنا شرک اکبرہے، اور اس سے متصادم عقیدہ رکھنے والا شخص کفر اکبر کا مرتکب ہے جو اسے –نعوذ باللہ-ملت سے خارج کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس نے قرآن و حدیث کے دلائل کا انکار کیا ہے، اس پر اللہ تعالی سے خالص توبہ کرنا واجب ہے، اوراسطرح کے اعمال ِبد کا ارتکاب نہ کرنے کا عزم کرنا ضروری ہے، اور اللہ کی خوشنودی کا حصول اورجنت کی کامیابی اورجہنم سے نجات حاصل کرنے کے لئے اہل سنت والجماعت اورسلف صالحین کے منہج کی اتباع کرنا ضروری ہے۔"انتہی
ایسے ہی "الموسوعة الميسرة فی الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة" (1/322) میں ہے کہ:
" [تبلیغی جماعت والے] عرب ممالک میں اپنے اجتماعات میں "ریاض الصالحین" پڑھتے ہیں، اور غیر عرب ممالک میں "حیاتِ صحابہ"اور "تبلیغی نصاب" پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، مؤخر الذکر کتاب خرافات، اور ضعیف احادیث سے بھر پور ہے "انتہی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ: اہل علم مسلسل "تبلیغی نصاب" کتاب سے بچنے کی تلقین کرتے آئے ہیں، اسی کتاب کا دوسرا نام: "فضائل اعمال" ہے، چنانچہ عوام الناس کو یہ کتاب نہیں پڑھنی چاہئے، بلکہ انہیں احادیث کی صحیح کتب پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ان کتابوں کو پڑھیں جن کے مؤلفین نے اہل سنت و الجماعت کے منہج پر اپنی کتابیں تحریر کی ہیں، لیکن ایسی کتابیں جو خرافات اور جھوٹ پر مشتمل ہوں ایسی کتابوں کیلئے ایک مسلمان کے دل و دماغ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
واللہ اعلم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں