اپنی زبان منتخب کریں

بدھ، 13 جنوری، 2016

قبله کی طرف باتهرم بنانا کیسا هین

الحمد للہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے قضائے حاجت كرتے وقت قبلہ رخ ہونا اور قبلہ كى طرف پيٹھ كر كے قضائے حاجت كرنے سے منع فرمايا ہے.
جمہور علماء كرام ( جن ميں امام مالك، امام شافعى، امام احمد رحمہم اللہ شامل ہيں ) كا كہنا ہے كہ يہ نہى اس شخص كے ليے ہے جو ايسى جگہ قضائے حاجت كرے جہاں قبلہ اور اس كے مابين آڑ اور چھپاؤ نہ ہو، ليكن عمارتوں اور گھروں ميں انہوں نے قضائے حاجت ميں قبلہ رخ يا قبلہ كى طرف پشت كرنا جائز قرار ديا ہے.
اور كچھ دوسرے علماء كرام ( جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے ) قضائے حاجت كے وقت مطلقا قبلہ رخ اور پشت كرنا حرام ہے، چاہے عمارتوں ميں ہو يا كھلى جگہ پر.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 107 ) حاشيۃ ابن عابدين ( 1 / 554 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 5 / 34 ).
جبكہ ابھى آپ گھر كى تعمير كے مرحلہ ميں ہيں اس ليے احتياط اسى ميں ہے اور بہتر يہى ہے كہ آپ ليٹرين كا رخ اس طرح ركھيں كہ قضائے حاجت كے وقت نہ تو قبلہ رخ ہو اور نہ ہے قبلہ كى طرف پشت، تا كہ اختلاف سے نكلا جا سكے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
گھروں يا كھلى جگہ ميں قضائے حاجت كے وقت قبلہ رخ ہونا يا اس كى طرف پشت كر كے قضائے حاجت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
پھر يہ بھى بتائيں كہ اس وقت جو عمارتيں استعمال كى جا رہى ہيں اور ان ميں ليٹرين قبلہ رخ ہے يا قبلہ كى طرف پشت ہوتى ہو اور سارى ليٹرين كو گرائے بغير اس ميں تبديلى ممكن نہ ہو تو اس كا حكم كيا ہے ؟
آخر ميں يہ سوال بھى ہے كہ ہمارے پاس كچھ كالونياں ہيں جن كى ابھى تنفيذ نہيں ہوئى اور بعض ليٹرينيں قبلہ رخ ہيں يا پھر قبلہ كى طرف پشت ہوتى ہے كيا انہيں تبديل كرنا ضرورى ہے يا كہ اسے ويسے ہى رہنے ديا جائے اور اس ميں كوئى حرج نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
اول:
علماء كرام كے اقوال ميں ميں صحيح قول يہ ہے كہ قضائے حاجت كے وقت قبلہ رخ ہونا يا اس كى طرف پشت كرنا حرام ہے، ليكن گھروں اور عمارتوں كے اندر جائز ہے، يا پھر كعبہ اور اس كے قريب كوئى آڑ ہو جو كعبہ كے درميان حائل ہو تو جائز ہے، مثلا اونٹ كا كجاوہ، يا كوئى درخت يا پہاڑ اور چٹان وغيرہ.
اكثر اہل علم كا قول يہى ہے كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك قضائے حاجت كے ليے بيٹھے وہ نہ تو قبلہ رخ ہو كر بيٹھے اور نہ ہى قبلہ كى طرف پشت كرے "
اسے امام احمد اور امام مسلم نے روايت كيا ہے.
اور ابو ايوب انصارى رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم قضائے حاجت كے ليے جاؤ تو قبلہ كى طرف رخ نہ كرو، اور نہ ہى اس كى طرف پيٹھ كرو، ليكن مشرق يا مغرب كى طرف اپنا رخ كيا كرو "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں ايك روز حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا كے گھر كى چھت پر چڑھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو شام كى طرف رخ اور قبلہ كى طرف پيٹھ كر كے قضائے حاجت كرتے ہوئے ديكھا "
اسے بخارى اور مسلم اور سنن اربعہ نے روايت كيا ہے.
اور ابو داود اور حاكم نے روايت كيا ہے كہ مروان الاصفر رحمہ اللہ كہتے ہيں ميں نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو ديكھا كہ انہوں نے اپنى اونٹنى بٹھائى اور قبلہ رخ ہو كر اونٹنى كى طرف پيشاب كيا، تو ميں نے عرض كيا:
" اے ابو عبد الرحمن كيا اس سے منع نہيں كيا گيا ؟
تو انہوں نے فرمايا: يہ كھلى جگہ اور فضاء ميں منع ہے، اگر تيرے اور قبلہ كے درميان كوئى آڑ ہو جو تجھے چھپا رہى ہو تو كوئى حرج نہيں "
ابو داود رحمہ اللہ نے اس حديث پر سكوت اختيار كيا ہے، اور حافظ ابن حجر فتح البارى ميں كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے.
احمد، ابو داود، ترمذى اور ابن ماجہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں پيشاب كرتے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع فرمايا، تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فوت ہونے سے ايك برس قبل قبلہ رخ ديكھا "
بہت سے اہل علم دلائل كے درميان جمع اور تطبيق كرتے ہوئے يہى كہتے ہيں كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ كى حديث كو اس پر محمول كيا جائيگا كہ اگر كھلى جگہ ميں بغير كسى آڑ كے قضائے حاجت كى جائے، اور جابر بن عبد اللہ اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كى احاديث كو گھروں اور عمارتوں يا پھر قبلہ اور اس كے درميان آڑ اور پردہ پر محمول كيا جائيگا.
اس سے يہ علم ہوا كہ عمارتوں اور گھروں ميں قضائے حاجت كرتے ہوئے قبلہ رخ اور قبلہ كى طرف پيٹھ كرنا جائز ہے.
دوم:
اگر تو يہ كالونياں عمارتوں كے ليے ہيں اور ابھى ان كى تنفيذ نہيں ہوئى اور اس ميں قبلہ رخ يا پھر قبلہ كى طرف پشت ہونے والى ليٹرينيں ہيں تو احتياط اسى ميں ہے كہ ان ميں تبديلى كر لى جائے، تا كہ قضائے حاجت كے وقت قبلہ رخ نہ ہوا جائے اور نہ ہى قبلہ كى طرف پشت ہو، اس طرح اختلاف سے بھى بچا جا سكتا ہے، اور اگر ان ميں تبديلى نہ بھى كى جائے تو سابقہ احاديث كى روشنى ميں اس ميں كوئى گناہ نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 97 ).
واللہ اعلم .

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں