امام کیساتھ تاخیر سے ملنے والے نمازی کی راجح موقف کے مطابق وہی اس کی نماز کا پہلا حصہ ہے، یہ موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے چلتے ہوئے پروقار، اور سکون سے چلو، دوڑ مت لگاؤ، چنانچہ جتنی جماعت پا لو، اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اسے پوری کر لو ) بخاری: (636) مسلم: (602)
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (4/118) میں کہتے ہیں:
"ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ مسبوق [نماز باجماعت میں تاخیر سے ملنے والا نمازی] امام کیساتھ جو نماز ادا کریگا وہی اس کی پہلی رکعت ہے، اور سلام کے بعد جو پوری کریگا وہی اس کی آخری نماز ہوگی، اس موقف کے قائلین میں سعید بن مسیب، حسن بصری، عطاء، عمر بن عبد العزیز، مکحول، زہری، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، اور اسحاق شامل ہیں، ان تمام کے موقف کو ابن المنذر نے نقل کرنے کے بعد کہا: "میں بھی اسی کا قائل ہوں" پھر انہوں نے کہا: "یہی موقف عمر، علی، ابو درداء سے بھی منقول ہے، لیکن پایۂِ ثبوت تک نہیں پہنچتا" یہی موقف مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے، اور داؤد بھی اسی کے قائل ہیں۔
جبکہ ابو حنیفہ ، مالک، ثوری، اور احمد وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ جو نماز مسبوق نمازی نے پائی ہے وہ [اس کی آخری یعنی]امام والی نماز ہی ہے، اور جو سلام پھیرنے کے بعد مکمل کریگا وہ اس کی ابتدائی نماز ہے، یہ موقف ابن المنذر نے ابن عمر، مجاہد، اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے، اور انکی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (جو نماز تم پا لو اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اس کی قضا دے دو) بخاری و مسلم
ہمارے فقہائے کرام کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (جو نماز تم پا لو اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو) اس روایت کو بخاری و مسلم نے متعدد طرق کیساتھ روایت کیا ہے۔
بیہقی کہتے ہیں کہ:
"جن راویوں نے "اسے پورا کر لو" کے الفاظ نقل کیے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے، اور انہوں نے راوی الحدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیساتھ زیادہ وقت گزارا ہے، نیز انکا حافظہ دوسرے راویوں کے مقابلے میں زیادہ تیز تھا ، اس لیے ان کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی"
شیخ ابو حامد، اور ماوردی کہتے ہیں:
"کسی چیز کو پورا اسی وقت کیا جاتا ہے جب اس کا ابتدائی حصہ شروع ہو چکا ہوں، اور آخری حصہ ابھی باقی ہو، نیز ہمارے موقف کے مطابق بیہقی نے عمر بن خطاب، علی، ابو درداء، ابن مسیب، حسن، عطاء، ابن سیرین، اور ابو قلابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے"
جبکہ " جو رہ جائے اس کی قضا دے دو " والی روایت کا جواب دو انداز سے دیا جا سکتا ہے:
1- "اسے پورا کر لو" والی روایت کے راویوں کی تعداد زیادہ اور انکا حافظہ فریق ثانی کے راویوں سے زیادہ تیز ہے۔
2- " اس کی قضا دے دو " قضا کا لفظ کسی کام کے مکمل کرنے پر محمول کیا جائے گا، نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں مشہور قضا پر ، کیونکہ قضا کا عرف عام کا معنی متاخرین فقہاء کی اصطلاح ہے، اور عرب قضا کا لفظ کسی چیز کے مکمل کرنے پر بھی بولتے ہیں، اس کیلئے شواہد قرآن مجید میں ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ ) [یعنی جب تم اپنے حج کے ارکان مکمل کرلو]اور اسی طرح ( فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ )[یعنی: جب نماز مکمل کر لی جائے]
شیخ ابو حامد کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو تمہاری اپنی نماز میں کمی رہ گئی ہے[اسے پورا کر لو] یہاں امام کیساتھ تمہاری باقیماندہ نماز مراد نہیں ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ مقتدی کی اپنی نماز آخر سے رہی ہے، ابتدا سے نہیں رہی"۔واللہ اعلم" انتہی
مندرجہ بالا تفصیل کی بنا پر :
اگر آپ امام کیساتھ چار رکعت والی نماز کے پہلے تشہد میں شامل ہوں تو امام کی تیسری رکعت آپ کیلئے پہلی رکعت شمار ہوگی، اور جب امام سلام پھیر دے تو آپ اپنی بقیہ نماز مکمل کرنے کیلئے کھڑے ہونگے ، لہذا آپکی سلام کے بعد والی رکعت تیسری ہوگی۔
اور جس وقت آپ امام کیساتھ آخری رکعت میں شامل ہوں ، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد یہ آپکی دوسری رکعت ہوگی۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (4/118) میں کہتے ہیں:
"ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ مسبوق [نماز باجماعت میں تاخیر سے ملنے والا نمازی] امام کیساتھ جو نماز ادا کریگا وہی اس کی پہلی رکعت ہے، اور سلام کے بعد جو پوری کریگا وہی اس کی آخری نماز ہوگی، اس موقف کے قائلین میں سعید بن مسیب، حسن بصری، عطاء، عمر بن عبد العزیز، مکحول، زہری، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، اور اسحاق شامل ہیں، ان تمام کے موقف کو ابن المنذر نے نقل کرنے کے بعد کہا: "میں بھی اسی کا قائل ہوں" پھر انہوں نے کہا: "یہی موقف عمر، علی، ابو درداء سے بھی منقول ہے، لیکن پایۂِ ثبوت تک نہیں پہنچتا" یہی موقف مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے، اور داؤد بھی اسی کے قائل ہیں۔
جبکہ ابو حنیفہ ، مالک، ثوری، اور احمد وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ جو نماز مسبوق نمازی نے پائی ہے وہ [اس کی آخری یعنی]امام والی نماز ہی ہے، اور جو سلام پھیرنے کے بعد مکمل کریگا وہ اس کی ابتدائی نماز ہے، یہ موقف ابن المنذر نے ابن عمر، مجاہد، اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے، اور انکی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (جو نماز تم پا لو اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اس کی قضا دے دو) بخاری و مسلم
ہمارے فقہائے کرام کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (جو نماز تم پا لو اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو) اس روایت کو بخاری و مسلم نے متعدد طرق کیساتھ روایت کیا ہے۔
بیہقی کہتے ہیں کہ:
"جن راویوں نے "اسے پورا کر لو" کے الفاظ نقل کیے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے، اور انہوں نے راوی الحدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیساتھ زیادہ وقت گزارا ہے، نیز انکا حافظہ دوسرے راویوں کے مقابلے میں زیادہ تیز تھا ، اس لیے ان کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی"
شیخ ابو حامد، اور ماوردی کہتے ہیں:
"کسی چیز کو پورا اسی وقت کیا جاتا ہے جب اس کا ابتدائی حصہ شروع ہو چکا ہوں، اور آخری حصہ ابھی باقی ہو، نیز ہمارے موقف کے مطابق بیہقی نے عمر بن خطاب، علی، ابو درداء، ابن مسیب، حسن، عطاء، ابن سیرین، اور ابو قلابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے"
جبکہ " جو رہ جائے اس کی قضا دے دو " والی روایت کا جواب دو انداز سے دیا جا سکتا ہے:
1- "اسے پورا کر لو" والی روایت کے راویوں کی تعداد زیادہ اور انکا حافظہ فریق ثانی کے راویوں سے زیادہ تیز ہے۔
2- " اس کی قضا دے دو " قضا کا لفظ کسی کام کے مکمل کرنے پر محمول کیا جائے گا، نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں مشہور قضا پر ، کیونکہ قضا کا عرف عام کا معنی متاخرین فقہاء کی اصطلاح ہے، اور عرب قضا کا لفظ کسی چیز کے مکمل کرنے پر بھی بولتے ہیں، اس کیلئے شواہد قرآن مجید میں ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ ) [یعنی جب تم اپنے حج کے ارکان مکمل کرلو]اور اسی طرح ( فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ )[یعنی: جب نماز مکمل کر لی جائے]
شیخ ابو حامد کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو تمہاری اپنی نماز میں کمی رہ گئی ہے[اسے پورا کر لو] یہاں امام کیساتھ تمہاری باقیماندہ نماز مراد نہیں ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ مقتدی کی اپنی نماز آخر سے رہی ہے، ابتدا سے نہیں رہی"۔واللہ اعلم" انتہی
مندرجہ بالا تفصیل کی بنا پر :
اگر آپ امام کیساتھ چار رکعت والی نماز کے پہلے تشہد میں شامل ہوں تو امام کی تیسری رکعت آپ کیلئے پہلی رکعت شمار ہوگی، اور جب امام سلام پھیر دے تو آپ اپنی بقیہ نماز مکمل کرنے کیلئے کھڑے ہونگے ، لہذا آپکی سلام کے بعد والی رکعت تیسری ہوگی۔
اور جس وقت آپ امام کیساتھ آخری رکعت میں شامل ہوں ، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد یہ آپکی دوسری رکعت ہوگی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں