السلام عليكم
سايل مدثر احمد
www.mominsalafi.simplesite.com
عبدالمومن سلفي.
ًًًًًًًًًًًًًً
پانی میں پھونک مار کر دم کرنا
کچھ لوگ جادو اورجنوں وغیرہ اورمرگی کےعلاج کے لیے پانی پر پڑھنے کے بعد پھونکتے ہیں اورمریض کوکہتے ہیں کہ وہ اس پانی سے غسل کرے ، اس عمل کا حکم کیا ہے ؟
الحمدللہ
پانی پر پھونک مارنے کی دو قسمیں ہيں :
پہلی قسم :
اگر تواس پھونک مارنے سے پھونک مارنے والے کا تبرک حاصل کرنا مراد ہو توبلاشک یہ حرام ہے اورشرک کی ایک قسم ہے ، کیونکہ انسان کی تھوک نہ تو شفا کا سبب ہے اور نہ ہی برکت کے لیے ، اورنہ ہی کسی شخص کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے ، صرف اورصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی تبرک حاصل ہوسکتا ہے ان کے علاوہ کسی اورسے نہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اوران کی موت کے بعد ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اگر واقعی وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہوں تو پھر جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس گنھگھرو جیسا چاندی کا ایک چھوٹا سا برتن تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جن سے مریض شفا حاصل کرتے تھے ، جب کوئي مریض آتا تو ام سلمہ رضي اللہ تعالی ان بالوں پر پانی ڈال کرہلاتیں اوراس مریض کو دیتی تھیں ۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکی تھوک ، یا پسینہ یا کپڑے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا حرام اورشرک کی ایک قسم ہے ، تواس لیے جب پانی میں تبرک کےلیے پھونک ماری جائےاور اوراس سے پھونک مارنے والے کی تھوک کا تبرک حاصل کرنا مقصود ہو تو ایسا کرناحرام اورشرک ہے ۔
اس لیے کہ جس نے بھی کسی چيز کے لیے کوئی غیرشرعی اورغیرحسی سبب ثابت کیا اس نے شرک کی ایک قسم کا ارتکاب کیا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے ساتھ مسبب قرار دیا ہے ، اورمسبب کے لیے اسباب کا ثبوت توصرف شریعت کی جانب سے ہوتا ہے اوروہیں سے لیا جاسکتا ہے ۔
تواس لیے جس نے بھی ایسا سبب پکڑا جسے اللہ تعالی نے نہ تو حسی طور پر اورنہ ہی شرعی طور پر سبب بنایا ہو اس نے شرک کی ایک قسم کاارتکاب کیا ۔
دوسری قسم :
یہ کہ کوئی انسان قرآن مجید پڑھ کر دم کرے اورپھونک مارے ، مثلا سورۃ الفاتحہ پڑھے ، اورسورۃ الفاتحہ تو ایک دم ہے جس کے ناموں میں رقیہ بھی شامل ہے اوریہ ایسی سورۃ ہے جو مریض کے لیے سب سے بڑا دم ہے ، تواس لیے اگر سورۃ الفاتحہ پڑھ کرپانی میں پھونک ماری جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعض سلف صالحین بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔
ایسا کرنا مجرب ہے اوراللہ تعالی کے حکم سے نافع بھی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت یہ عمل ہوتا تھا کہ آپ سورۃ قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتےاوراپنے چہرے اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم پر اپنے ہاتھ پھیرتے تھے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .
فتاوی الشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1 /
ا
اپ کا دست107
)
سايل مدثر احمد
www.mominsalafi.simplesite.com
عبدالمومن سلفي.
ًًًًًًًًًًًًًً
پانی میں پھونک مار کر دم کرنا
کچھ لوگ جادو اورجنوں وغیرہ اورمرگی کےعلاج کے لیے پانی پر پڑھنے کے بعد پھونکتے ہیں اورمریض کوکہتے ہیں کہ وہ اس پانی سے غسل کرے ، اس عمل کا حکم کیا ہے ؟
الحمدللہ
پانی پر پھونک مارنے کی دو قسمیں ہيں :
پہلی قسم :
اگر تواس پھونک مارنے سے پھونک مارنے والے کا تبرک حاصل کرنا مراد ہو توبلاشک یہ حرام ہے اورشرک کی ایک قسم ہے ، کیونکہ انسان کی تھوک نہ تو شفا کا سبب ہے اور نہ ہی برکت کے لیے ، اورنہ ہی کسی شخص کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے ، صرف اورصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی تبرک حاصل ہوسکتا ہے ان کے علاوہ کسی اورسے نہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اوران کی موت کے بعد ان کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اگر واقعی وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہوں تو پھر جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس گنھگھرو جیسا چاندی کا ایک چھوٹا سا برتن تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے جن سے مریض شفا حاصل کرتے تھے ، جب کوئي مریض آتا تو ام سلمہ رضي اللہ تعالی ان بالوں پر پانی ڈال کرہلاتیں اوراس مریض کو دیتی تھیں ۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکی تھوک ، یا پسینہ یا کپڑے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا حرام اورشرک کی ایک قسم ہے ، تواس لیے جب پانی میں تبرک کےلیے پھونک ماری جائےاور اوراس سے پھونک مارنے والے کی تھوک کا تبرک حاصل کرنا مقصود ہو تو ایسا کرناحرام اورشرک ہے ۔
اس لیے کہ جس نے بھی کسی چيز کے لیے کوئی غیرشرعی اورغیرحسی سبب ثابت کیا اس نے شرک کی ایک قسم کا ارتکاب کیا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے ساتھ مسبب قرار دیا ہے ، اورمسبب کے لیے اسباب کا ثبوت توصرف شریعت کی جانب سے ہوتا ہے اوروہیں سے لیا جاسکتا ہے ۔
تواس لیے جس نے بھی ایسا سبب پکڑا جسے اللہ تعالی نے نہ تو حسی طور پر اورنہ ہی شرعی طور پر سبب بنایا ہو اس نے شرک کی ایک قسم کاارتکاب کیا ۔
دوسری قسم :
یہ کہ کوئی انسان قرآن مجید پڑھ کر دم کرے اورپھونک مارے ، مثلا سورۃ الفاتحہ پڑھے ، اورسورۃ الفاتحہ تو ایک دم ہے جس کے ناموں میں رقیہ بھی شامل ہے اوریہ ایسی سورۃ ہے جو مریض کے لیے سب سے بڑا دم ہے ، تواس لیے اگر سورۃ الفاتحہ پڑھ کرپانی میں پھونک ماری جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعض سلف صالحین بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔
ایسا کرنا مجرب ہے اوراللہ تعالی کے حکم سے نافع بھی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت یہ عمل ہوتا تھا کہ آپ سورۃ قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق ، قل اعوذ برب الناس پڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکتےاوراپنے چہرے اورجہاں تک ہاتھ پہنچتا جسم پر اپنے ہاتھ پھیرتے تھے ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .
فتاوی الشيخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1 /
ا
اپ کا دست107
)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں