كيا مسجد اقصي. حرم مين نهي ه
www.Mominsalafi.BlogSpot.com
مسجداقصی کوباقی مساجد پرفضیلت حاصل ہے ، لھذا مساجد میں سب سے افضل مسجد حرام ، پھر مسجد نبوی شریف اورپھر مسجد اقصی افضل ہے ۔
اوریہی وہ تین مساجدہيں جن کی طرف عبادت کےلیے سفر کرنا مشروع ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تین مساجد مسجد حرام ، مسجد اقصی ، مسجد نبوی کے علاوہ کسی اورمسجد کی طرف زیارت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1996 ) ۔
اورمسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب دوسوپچاس نمازوں کے برابر ہے :
ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کے پاس آپس میں یہ بحث کررہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد افضل ہے یا کہ مسجد اقصی ؟
تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( میری مسجد میں ایک نماز اس میں چارنمازیں ادا کرنے سے بہتر ہے ، اورنماز ادا کرنے کے لیے وہ اچھی جگہ ہے ، اورعنقریب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا جہاں سے بیت المقدس دیکھا جائے ساری دنیا سے بہترہوگی ) اسے حاکم نے روایت کیا ہے ( 4 / 509 ) اوراسے صحیح کہا اورامام ذھبی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کی ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں حدیث نمبر ( 2902 ) پرکلام کے آخر میں یہی کہا ہے ۔
حدیث میں موجود شطن فرسہ کا معنی گھوڑے کی رسی ہے ۔
اورمسجدنبوی میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے تواس طرح مسجد اقصی میں دوسوپچاس نمازوں کے برابر ہوگی ۔
اورجویہ حدیث مشہور ہے کہ مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب پانچ سونمازوں کا ہے ، یہ حدیث ضعیف ہے ۔ دیکھیں : تمام المنۃ للشیخ البانی رحمہ اللہ تعالی صفحہ نمبر ( 292 ) ۔
دوم :
حرم کے کچھ مخصوص احکام ہیں جواللہ تعالی نے مشروع کیے ہیں ان میں سے چندایک یہ ہیں :
- حرم میں لڑائی وقتال حرام ہے ۔
- حدود حرم میں موجود حیوانات اورپرندوں کا شکار ممنوع ہے ، اوروہاں کی ان جڑی بوٹیوں اوردرخت کوکاٹنا حرام ہے جوکسی نے کاشت نہيں کیں بلکہ اللہ کی جانب سے ہیں ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے اہل مکہ پریہ انعام کیا ہے کہ مکہ کوان کے لیے امن وسلامتی کی جگہ بنائي ہے ، وہاں پرلوگ اورچوپائے بھی امن میں رہتے ہيں اسی کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ کیا ہم نے انہیں امن وامان اورحرمت والے حرم میں جگہ نہيں دی ؟ جہاں تمام چيزوں کے پھل کھچے چلے آتے ہيں جوہمارے پاس بطور رزق کے ہیں لیکن ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں } القصص ( 57 ) ۔
اورایک مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کوباامن بنا دیا ہے ، حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں } العنکبوت ( 67 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پرفرمان باری تعالی ہے :
{ اورجوبھی اس میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہوجاتا ہے } البقرۃ ( 97 ) ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے جابررضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یقینا ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کوحرم قرار دیا اورمیں مدینہ کوحرام کرتا ہوں ۔۔۔ اس کی جڑی بوٹیاں نہيں کاٹی جائيں گی اوراس کا شکار بھی نہيں کیا جائے گا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1362 ) ۔
حدیث میں وارد العضاہ کا معنی ہے کہ ہروہ درخت جس میں کانٹے ہوں ، اورجب کانٹے والے درخت کے کاٹنے کی حرمت ہے توپھربغیر کانٹے کے درخت کاٹنا بالاولی حرام ہونگے ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعیدخدری رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے اللہ یقینا ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کوحرام کیا اوراسے حرم بنا دیا ، اورمیں نے مدینہ کوحرام کیا ہے ۔۔۔ یہ کہ اس میں خون نہيں بہایا جائے گا ، اورنہ ہی لڑائي کے لیے اسلحہ اٹھایا جائےگا ، اورچارے کے بغیراس کا کوئي درخت نہيں کاٹا جائے گا۔۔۔ الحدیث ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1374 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس میں چارہ کے لیے درختوں کےپتے حاصل کرنے کا جواز پایا جاتا ہے ، اوریہاں مراد بھی یہی ہے بخلاف اس کے کہ ٹہنیاں توڑی اورکاٹی جائيں ، کیونکہ یہ حرام ہے ۔ اھـ
اورمسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کے مطابق بیت المقدس اس معنی میں حرم نہيں ، اورلوگوں نے تواس وصف ( یعنی حرم ) کے اطلاق میں بہت وسعت اختیارکرلی ہے ، لھذا قدس حرم بن گیا ! اورفلسطین میں مسجد ابراھیم خلیل حرم بن گئي ، بلکہ وہاں تویونیورسٹیاں بھی حرم بن گئيں اورانہيں یونیورسٹی حرم کہا جانے لگا ہے !!! ، حالانکہ زمین میں حرم مکہ اورحرم مدینہ کے علاوہ کوئي حرم نہيں ہے اورطائف میں ایک وادی جسکا نام ( وج ) ہے کے بارہ میں علماء کرام کا اختلاف ہےکہ آیا یہ حرم ہے کہ نہيں ؟
شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوی میں کہا ہے کہ :
بیت المقدس ایسی جگہ نہيں کہ جسے حرم کانام دیا جائے اورنہ ہی الخلیل کی زمین اورنہ ہی اس کےعلاوہ کوئي اورٹکڑا حرم کہلاتا ہے صرف تین جگہیں ایسی ہیں جوحرم کہلاتی ہیں :
ان میں سے ایک تومسلمانوں کے اتفاق کے مطابق حرم ہے اوروہ حرم مکہ ہے جسے اللہ تعالی نے شرف ومرتبہ سے نوازا ہے ۔
دوم : جمہورعلماء کرام کے ہاں حرم ہے اوروہ حرم نبوی ( یعنی مدینہ النبویہ ) ہے یہ جمہور علماء کرام جن میں امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد شامل ہیں کے ہاں حرم ہے ، اوراس کے بارہ میں صحیح احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
سوم : وج یہ طائف میں ایک وادی کانام ہے ، اوراس میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے اوریہ حدیث صحاح میں نہيں ، امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں اس حدیث کے صحیح ہونے کےاعتقاد کی بنا پریہ جگہ حرم شمارہوتا ہے ، لیکن اکثر علماء کرام کے ہاں یہ حرم نہيں ہے ، کیونکہ حرم وہ ہے جس کے شکار اورجڑی بوٹیوں کواللہ تعالی نے حرام کیا ہے ، اوران تین جگہوں کے علاوہ کسی اورجگہ کے شکار اورجڑی بوٹیوں کوحرم نہيں کیا ہے اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 27 / 14 - 15 ) ۔
واللہ اعلم .
www.Mominsalafi.BlogSpot.com
مسجداقصی کوباقی مساجد پرفضیلت حاصل ہے ، لھذا مساجد میں سب سے افضل مسجد حرام ، پھر مسجد نبوی شریف اورپھر مسجد اقصی افضل ہے ۔
اوریہی وہ تین مساجدہيں جن کی طرف عبادت کےلیے سفر کرنا مشروع ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تین مساجد مسجد حرام ، مسجد اقصی ، مسجد نبوی کے علاوہ کسی اورمسجد کی طرف زیارت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1996 ) ۔
اورمسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب دوسوپچاس نمازوں کے برابر ہے :
ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کے پاس آپس میں یہ بحث کررہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد افضل ہے یا کہ مسجد اقصی ؟
تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( میری مسجد میں ایک نماز اس میں چارنمازیں ادا کرنے سے بہتر ہے ، اورنماز ادا کرنے کے لیے وہ اچھی جگہ ہے ، اورعنقریب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی کے گھوڑے کی رسی جتنی زمین کا ٹکڑا جہاں سے بیت المقدس دیکھا جائے ساری دنیا سے بہترہوگی ) اسے حاکم نے روایت کیا ہے ( 4 / 509 ) اوراسے صحیح کہا اورامام ذھبی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کی ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں حدیث نمبر ( 2902 ) پرکلام کے آخر میں یہی کہا ہے ۔
حدیث میں موجود شطن فرسہ کا معنی گھوڑے کی رسی ہے ۔
اورمسجدنبوی میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے تواس طرح مسجد اقصی میں دوسوپچاس نمازوں کے برابر ہوگی ۔
اورجویہ حدیث مشہور ہے کہ مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب پانچ سونمازوں کا ہے ، یہ حدیث ضعیف ہے ۔ دیکھیں : تمام المنۃ للشیخ البانی رحمہ اللہ تعالی صفحہ نمبر ( 292 ) ۔
دوم :
حرم کے کچھ مخصوص احکام ہیں جواللہ تعالی نے مشروع کیے ہیں ان میں سے چندایک یہ ہیں :
- حرم میں لڑائی وقتال حرام ہے ۔
- حدود حرم میں موجود حیوانات اورپرندوں کا شکار ممنوع ہے ، اوروہاں کی ان جڑی بوٹیوں اوردرخت کوکاٹنا حرام ہے جوکسی نے کاشت نہيں کیں بلکہ اللہ کی جانب سے ہیں ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے اہل مکہ پریہ انعام کیا ہے کہ مکہ کوان کے لیے امن وسلامتی کی جگہ بنائي ہے ، وہاں پرلوگ اورچوپائے بھی امن میں رہتے ہيں اسی کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ کیا ہم نے انہیں امن وامان اورحرمت والے حرم میں جگہ نہيں دی ؟ جہاں تمام چيزوں کے پھل کھچے چلے آتے ہيں جوہمارے پاس بطور رزق کے ہیں لیکن ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں } القصص ( 57 ) ۔
اورایک مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کوباامن بنا دیا ہے ، حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں } العنکبوت ( 67 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پرفرمان باری تعالی ہے :
{ اورجوبھی اس میں داخل ہوجائے وہ امن میں ہوجاتا ہے } البقرۃ ( 97 ) ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے جابررضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یقینا ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کوحرم قرار دیا اورمیں مدینہ کوحرام کرتا ہوں ۔۔۔ اس کی جڑی بوٹیاں نہيں کاٹی جائيں گی اوراس کا شکار بھی نہيں کیا جائے گا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1362 ) ۔
حدیث میں وارد العضاہ کا معنی ہے کہ ہروہ درخت جس میں کانٹے ہوں ، اورجب کانٹے والے درخت کے کاٹنے کی حرمت ہے توپھربغیر کانٹے کے درخت کاٹنا بالاولی حرام ہونگے ۔
اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعیدخدری رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اے اللہ یقینا ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کوحرام کیا اوراسے حرم بنا دیا ، اورمیں نے مدینہ کوحرام کیا ہے ۔۔۔ یہ کہ اس میں خون نہيں بہایا جائے گا ، اورنہ ہی لڑائي کے لیے اسلحہ اٹھایا جائےگا ، اورچارے کے بغیراس کا کوئي درخت نہيں کاٹا جائے گا۔۔۔ الحدیث ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1374 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اس میں چارہ کے لیے درختوں کےپتے حاصل کرنے کا جواز پایا جاتا ہے ، اوریہاں مراد بھی یہی ہے بخلاف اس کے کہ ٹہنیاں توڑی اورکاٹی جائيں ، کیونکہ یہ حرام ہے ۔ اھـ
اورمسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کے مطابق بیت المقدس اس معنی میں حرم نہيں ، اورلوگوں نے تواس وصف ( یعنی حرم ) کے اطلاق میں بہت وسعت اختیارکرلی ہے ، لھذا قدس حرم بن گیا ! اورفلسطین میں مسجد ابراھیم خلیل حرم بن گئي ، بلکہ وہاں تویونیورسٹیاں بھی حرم بن گئيں اورانہيں یونیورسٹی حرم کہا جانے لگا ہے !!! ، حالانکہ زمین میں حرم مکہ اورحرم مدینہ کے علاوہ کوئي حرم نہيں ہے اورطائف میں ایک وادی جسکا نام ( وج ) ہے کے بارہ میں علماء کرام کا اختلاف ہےکہ آیا یہ حرم ہے کہ نہيں ؟
شیخ الاسلام نے مجموع الفتاوی میں کہا ہے کہ :
بیت المقدس ایسی جگہ نہيں کہ جسے حرم کانام دیا جائے اورنہ ہی الخلیل کی زمین اورنہ ہی اس کےعلاوہ کوئي اورٹکڑا حرم کہلاتا ہے صرف تین جگہیں ایسی ہیں جوحرم کہلاتی ہیں :
ان میں سے ایک تومسلمانوں کے اتفاق کے مطابق حرم ہے اوروہ حرم مکہ ہے جسے اللہ تعالی نے شرف ومرتبہ سے نوازا ہے ۔
دوم : جمہورعلماء کرام کے ہاں حرم ہے اوروہ حرم نبوی ( یعنی مدینہ النبویہ ) ہے یہ جمہور علماء کرام جن میں امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد شامل ہیں کے ہاں حرم ہے ، اوراس کے بارہ میں صحیح احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
سوم : وج یہ طائف میں ایک وادی کانام ہے ، اوراس میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے اوریہ حدیث صحاح میں نہيں ، امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں اس حدیث کے صحیح ہونے کےاعتقاد کی بنا پریہ جگہ حرم شمارہوتا ہے ، لیکن اکثر علماء کرام کے ہاں یہ حرم نہيں ہے ، کیونکہ حرم وہ ہے جس کے شکار اورجڑی بوٹیوں کواللہ تعالی نے حرام کیا ہے ، اوران تین جگہوں کے علاوہ کسی اورجگہ کے شکار اورجڑی بوٹیوں کوحرم نہيں کیا ہے اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 27 / 14 - 15 ) ۔
واللہ اعلم .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں