اپنی زبان منتخب کریں

اتوار، 10 جنوری، 2016

فقه اور دعوت سلف

الجواب :
الحمد للہ:

سلف صالحین کے منہج پر کار فرما اور کتاب و سنت کو دلیل بنانے کی دعوت دینے والے کسی بھی  فقہی مذہب سے تعصب رکھنے کی دعوت نہیں دیتے، اور نہ ہی فقہی مذاہب کی کتب کو پڑھنے سے منع کرتے ہیں، اور نہ ہی اہل علم کی علمی آراء و اجتہادات کو عدم توجہ کا نشانہ بناتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی دعوت  کو سمجھنے کیلئے  متعدد بنیادی باتیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1-             فقہی مذاہب کے اہل علم اور ائمہ کرام بذاتہ خود دلیل نہیں ہیں، اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
  کتاب و سنت سے واقف تمام  اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق، اور ہر حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے، کیونکہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں کہ جو بھی آپ کی زبان سے لفظ نکلتا ہے وہ خواہش پرستی نہیں ہوتی بلکہ وہ وحی ہوتی ہے" انتہی
" منهاج السنة " ( 6 / 190 – 191 )
 2-             حق بات مذاہب اربعہ میں محصور نہیں ہے، بلکہ حق بات وہی ہے جس پر شرعی نصوص ہوں۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اہل سنت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ائمہ اربعہ کا اجماع حجت اور غلطی سے پاک ہے، بلکہ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ حق بات انہی  چار مذاہب میں ہے، چنانچہ جو ان چاروں کی مخالفت کریگا وہ باطل ہے، لہذا اگر کوئی فقیہ جو ان چاروں ائمہ کرام کے پیرو کاروں میں سے نہیں ہے مثلاً: سفیان  ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، یا ان سے پہلے اور بعد کا کوئی مجتہد ائمہ اربعہ کی مخالفت میں کوئی بات کہہ دے تو اس بات کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں دیکھا جائے گا، اس لیے راجح صرف وہی بات ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کہی جائے گی" انتہی
" منهاج السنة " (3 / 412)
 3-             کسی بھی مسئلہ کے بارے میں دلیل کا مطالبہ کرنا  کتاب و سنت کے دلائل سمجھنے کی استطاعت رکھنے والے کیلئے ضروری ہے، تاہم جو شخص کتاب و سنت کی نصوص  کو خود بخود  نہیں سمجھ سکتا تو وہ ان مذاہب  میں سے کسی مذہب کے عالم کی بات کو دلیل مانگے بغیر  قبول کر سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ اس عالم کے علم اور دینی حیثیت پر مکمل اعتماد کر سکتا ہو، لہذا عامی شخص کیلئے یہی واجب ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 ( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )
ترجمہ: حسب استطاعت اللہ تعالی سے ڈرو۔[التغابن:16]
اسی طرح فرمایا:  ( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا )
ترجمہ: اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں بناتا۔[البقرة :286]
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اندھی تقلید کیلئے حقیقی طور پر مجبور شخص  یعنی  جو  خود سے کوئی بات قرآن و سنت کی سمجھ نہیں سکتا، کیونکہ سمجھنے کیلئے اس کے پاس وسائل[عربی زبان وغیرہ] نہیں ہیں، یا  سمجھ تو سکتا ہے لیکن سخت مجبوریوں کی وجہ سے شرعی علوم حاصل نہیں کر سکا، یا  پھر ابھی ابتدائی تعلیمی  مراحل بتدریج عبور کر رہا ہے، تو ایسا شخص مذکورہ تقلید کر سکتا ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص بیک وقت سارا علم حاصل نہیں کر سکتا،  چنانچہ ضرورت کی بنا پر اندھی تقلید کیلئے اسے معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔
 لیکن علم حاصل کرنے کی استطاعت رکھنے ولا  شخص اور امتی کے نظریے کو علم وحی پر فوقیت دینے والا شخص  معذور نہیں ہے" انتہی
" أضواء البيان " (7 / 588)
 4-             اہل علم اور تشنگان علم کیلئے فقہی مذاہب کو بھی پڑھنا چاہیے، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
-        فقہی مذاہب  کے اقوال  اور دلائل پر نظر نہ رکھنے سے متفقہ اور اختلافی نکات  معلوم نہیں ہونگے، اور اس طرح ایسے مسائل میں اختلاف پیدا ہوگا جن کے بارے میں پہلے ہی مسلمانوں کا اتفاق ہے، جس کی وجہ سے سبیل المؤمنین  کی اتباع بھی  جاتی رہے گی۔
سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ : صحابہ اور بعد میں آنے والے اہل علم کے اقوال کا علم ہو، متفقہ اور اختلافی نکات سے آگہی ہو، تا کہ اپنا کوئی  موقف اپناتے ہوئے سابقہ اجماع کی مخالفت نہ ہو" انتہی
" صون المنطق " ( ص 47 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "جو لوگ براہِ راست احادیث سے مسائل اخذ کرتے ہیں علمائے کرام کی شرعی مسائل سے متعلق گفتگو کو سامنے نہیں رکھتے۔۔۔ ان کے ہاں عجیب و غریب مسائل ہوتے ہیں، جن کے بارے میں آپ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اجماع کے خلاف ہیں، یا کم از کم آپ کے ذہن میں غالب گمان یہی رہے گا کہ یہ اجماع کے خلاف ہیں، اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنی فہم و فراست  کو فقہائے کرام کی تحریروں  کیساتھ منسلک کرے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ فقہائے کرام کو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا درجہ دے دیں کہ صرف انہی کے موقف کو اپنایا جائے دوسروں کو رد کر دیا جائے" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین " (26 / 177)
-        تمام اہل علم کی رائے جاننا بہت ہی ضروری چیز ہے؛ تا کہ کسی مسئلے اور فہم نص کے متعلق کوئی انوکھا موقف  نہ اپنا لے جو اس سے پہلے کسی نے نہ کہا ہو، اس طرح وہ سلف کے فہم کی مخالفت میں پڑ جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "ہر ایسی بات جو کسی بعد میں آنے والے شخص نے کہی ہو جو پہلے کسی نے نہیں کہی، تو یہ غلط ہوگا، جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اپنے آپ کو کسی مسئلے کے بارے میں  ایسا موقف اپنانے سے دور ہی رکھنا جس کے بارے میں آپ کو سلف کی تائید حاصل نہ ہو" انتہی
" مجموع الفتاوى " (21 / 291)
-        فقہی مسائل میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں کتاب و سنت سے واضح دلیل موجود ہے، تاہم  کسی عالم کیلئے پورے ذخیرہ احادیث  کو ازبر کرنا مشکل ہے، پھر بھی بفرض محال  اگر کوئی یاد کر بھی لے تو پورے ذخیرہ حدیث کو کسی بھی مسئلہ کی تلاش کے دوران حاضر دماغ رکھنا بہت ہی مشکل ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ احکام سے متعلقہ احادیث معتاد جگہوں سے ہٹ کر کسی اور جگہ بھی پائی جا سکتی ہیں ، اس لیے فقہی مذاہب کی کسی مسئلہ کے بارے میں آراء پر نظر دوڑانے سے ، اور ان کے دلائل کا مطالعہ اور ان کی محنتوں سے استفادہ کرنے پر ہزاروں سالوں کی محنت کا خلاصہ آپ کے سامنے آجائے گا، اور اس مسئلے سے متعلق تمام دلائل بھی یکجا جمع ہو جائیں گے، اسی طرح آپ کو آراء کے مابین مقارنہ ، موازنہ اور ترجیح دینے میں بھی آسانی ہوگی، اور اسی کو "فقہ المقارن" کہتے ہیں۔
اور بہت سے فقہی جزوی مسائل ہیں جن کے بارے میں صریح نصوص موجود نہیں ہیں، چنانچہ ان کے لئے اجماع، قیاس، اور استصحاب کے ذریعے دلائل اخذ کیے جاتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی انسان ذاتی رائے پر اکتفا کرے، اور فقہی مذاہب کی کتب سے استفادہ نہ کرے ، ان کے دلائل پر نظر نہ رکھے ، اور راجح موقف تلاش کرنے کیلئے جتنی بھی محنت کر لے پھر بھی ایک مجتہد  معرفتِ حق کیلئے تگ و دو کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
 "ایسے مسائل جن کے بارے میں نص نہیں ہے تو درست بات یہی ہے کہ اس بارے میں فقہی مذاہب کے ائمہ کرام کے اجتہادات کو دیکھیں، اور یہ عین ممکن ہے کہ ان کا اجتہاد ہمارے اجتہاد سے بہتر ہو کیونکہ ان کے پاس ہم سے زیادہ علم اور تقوی تھا" انتہی
" أضواء البيان " (7 / 589)
واللہ اعلم.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں