اتوار، 21 جولائی، 2019

نماز کی سنتیں

نماز کی زبان سے ادا ہونے والی سنتیں گیارہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- تکبیرِ تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا: " سُبْحَانَكَ الَّلهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ ، وَتَعَالَى جَدُّكَ ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ "
2- تعوذ پڑھنا۔
3- بسم اللہ پڑھنا۔
4- آمین کہنا۔
5- سورہ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورت پڑھنا۔
6- امام کا جہری نمازوں میں بلند آواز سے قراءت کرنا۔
7- مقتدی کے علاوہ دیگر [یعنی :امام اور منفرد]نمازیوں کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کے بعد: " مِلْءَ السَّمَاوَاتِ ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ " کہنا، (ان الفاظ کے کہنے کے بارے میں صحیح موقف یہی ہے کہ مقتدی کیلئے بھی سنت ہے)
8- رکوع کی ایک سے زائد تسبیحات، یعنی دوسری ، تیسری اور اسکے بعد والی تسبیحات سنت ہیں۔
9- سجدے کی ایک سے زائد تسبیحات۔
10- دو سجدوں کے درمیان ایک سے زائد بار " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ"پڑھنا۔
11- آخری تشہد میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ، اور برکت کی دعا کرنا، اور اسکے بعد دعا مانگنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعلی سنتیں، جنہیں کیفیات بھی کہا جاتا ہے۔
1- تکبیرِ تحریمہ کیساتھ رفع الیدین کرنا۔
2- رکوع میں جاتے وقت رفع الیدین کرنا۔
3- رکوع سے اٹھنے وقت رفع الیدین کرنا۔
4- رفع الیدین کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کو چھوڑنا۔
5- دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنا۔
6- اپنی نظریں سجدہ کی جگہ رکھنا۔
7- قیام کی حالت میں دونوں قدموں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا۔
8- رکوع کی حالت میں ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر گھٹنے کو پکڑنا، اور کمر کو سیدھا کرتے ہوئے سر کو کمر کے برابر رکھنا۔
9- اعضائے سجدہ کو براہِ راست زمین پر لگانا، اور سجدہ کی جگہ کو چھونا، گھٹنوں کو براہِ راست زمین پر لگانا مکروہ ہے۔ [براہِ راست لگانے سے مراد یہ ہے کہ درمیان میں کپڑا بھی حائل نہ ہو، اسی لئے گھٹنے کو ننگا کرنا مکروہ کہا گیا ہے۔ مترجم]
10- [سجدہ کی حالت میں] بازؤوں کو پہلؤوں سے ، پیٹ کو ران سے، ران کو پنڈلیوں سے، اور دونوں گھٹنوں میں فاصلہ رکھنا، دونوں قدموں کو کھڑا رکھنا، دونوں قدموں کی انگلیوں کے اندرونی حصہ کو زمین پر لگانا، دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر انگلیاں ملا کر رکھنا۔
11- دونوں سجدوں کے درمیان ، اور پہلے تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھنا، اور دوسرے تشہد میں تورّک [بایاں پاؤں دائیں پاؤں کے نیچے سے آگے نکال کر بیٹھنا] ۔
12- دوسجدوں کے درمیاں بیٹھتے ہوئے اپنی ہتھیلیوں کو ران پر انگلیاں ملا کر رکھنا، اسی طرح تشہد میں بھی، جبکہ تشہد میں دائیں ہاتھ کی چھنگلی، اور چوتھی انگلی کو بند کرکے، درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ذریعے حلقہ بنائے، اور شہادت والی انگلی سے ذکرِ الہی کے وقت اشارہ کرے۔
13- سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں منہ پھیرنا۔
بعض اشیاء میں فقہائے کرام کے ہاں اختلاف بھی پایا جاسکتا ہے، چنانچہ بسا اوقات کسی کے ہاں کوئی عمل واجب ہے تو دیگر فقہائے کرام کے ہاں وہ عمل مسنون بھی ہوسکتا ہے، ان باتوں کی مکمل تفصیلات فقہی کتب میں موجود ہیں۔
واللہ اعلم .

نماز کے واجبات

نماز کے آٹھ واجبات ہیں، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات۔
2- امام اور منفرد کا " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کہنا۔
3- " رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ " کہنا۔
4- رکوع میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم " کہنا۔
5- سجدہ میں ایک بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" کہنا۔
6- دو سجدوں کے درمیان " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ" کہنا۔
7- پہلا تشہد پڑھنا ۔
8- پہلا تشہد بیٹھنا

نما میں کتنے ارکان ہیں

نماز کے ارکان، چودہ ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- فرض نماز کے دوران قیام کی استطاعت رکھنے والے پر قیام کرنا۔
2- تکبیرِ تحریمہ یعنی "اللہ اکبر "کہنا۔
3- سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنا۔
4- رکوع کرنا، رکوع کی کم از کم حالت یہ ہے کہ جھک کر اپنے گھٹنوں کو ہاتھ لگائے، اور کامل رکوع یہ ہے کہ جھکتے ہوئے کمر کو سر کے برابر سیدھی کرے۔
5- رکوع سے اٹھنا۔
6- رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہونا۔
7- سجدہ کرنا، کامل ترین سجدہ یہ ہے کہ پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، اور دونوں قدموں کی انگلیوں کے کنارے سجدہ کی جگہ پر اچھی طرح رکھے جائیں، اور کم از کم سجدہ یہ ہے کہ ہر عضو کا کچھ نہ کچھ حصہ زمین پر ضرور رکھا جائے۔
8- سجدہ اٹھنا۔
9- دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا، جیسے بھی بیٹھے کفایت تو کر جائے گا، لیکن اس کیلئے سنت یہ ہے کہ اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اسکے اوپر بیٹھے، اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرکے قبلہ رخ کرے۔
10- پوری نماز میں اطمینان ، یعنی ہر فعلی رکن کو سکون کیساتھ ادا کرنا۔
11- آخری تشہد پڑھنا۔
12- تشہد اور دونوں طرف سلام کیلئے بیٹھنا۔
13- دونوں طرف سلام پھیرنا، سلام سے مراد یہ ہے کہ دو بار "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہنا، نفل اور نمازِ جنازہ میں ایک سلام بھی کفایت کرجائے گا۔
14- مذکورہ بالا ارکان میں ترتیب کا خیال کرنا، جیسے کہ اوپر بیان ہوئی ہیں، چنانچہ اگر کوئی رکوع سے قبل جان بوجھ کر سجدہ کر لے تو نماز باطل ہوجائے گی، اور اگر بھول کر سجدہ کر لے تو واپس جا کر پہلے رکوع کرے، اور بعد میں سجدہ کریگا

جمعرات، 18 جولائی، 2019

والدين

تحریر: حافظ شیر محمد
اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاعبدواللہ ولا تشرکو ا بہ شیٔاً وبالوالدین احسانا
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (اپنے)والدین سے احسان (نیک سلوک) کرو(النساء:۳۶)
 ارشاد باری تعالیٰ ہے: ووصیناالإنسان بوالدیہ احسانا    
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھاحسان (نیک سلوک) کا حکم دیا ہے (العنکبوت:۸)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کون سا کام سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ فرمایا: نماز اپنے (اول) وقت پر پڑھنا(میں نے)پوچھا: پھر کون سا عمل (پسندیدہ) ہے ؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا، پوچھا: پھر کیا ہے؟فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا(صحیح البخاری: ۵۲۷و صحیح مسلم:۸۵)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وسا حبھما فی الدنیا معروفا
اگر وہ(تیرے والدین) میرے ساتھ شرک کرنے کے لئے جس کا تیرے پاس علم نہیں تجھے مجبور کریں، تو ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ۔(لقمان:۱۵)

اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے:

۱: شرک کرنا حرام ہے۔
۲: اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی میں والدین کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
۳: جو بات کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے اُس میں والدین کی اطاعت کرنی چاہیئے۔

نبی ﷺ نے عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کو حکم دیا تھا کہ :
‘‘اطع أباک مادام حیاً ولا تعصہ’’
جب تک تمہارا باپ زندہ ہے اُس کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی نہ کرنا(مسند احمد ۲؍۱۲۵ح ۲۵۳۸و سندہ صحیح)  

ان تمام دلائل کے خلاف منکرِ حدیث پرویز صاحب والدین کے حقوق کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
 “تیسرا افسانہ: ماں باپ کی اطاعت فرض ہے۔اسی سلسلہ میں ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ کی اطاعت فرض ہے”(عالمگیر افسانے ص ۱۷ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام گلبرگ لاہور  )  
 پرویز کی اس بات کا باطل ہونا ہر مسلمان پر واضح ہے و الحمدللہ۔

تنبیہ: کتاب و سنت کی مخالف میں والدین ہوں یا حکمران یا کوئی بھی، کسی کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، إنما الطاعۃ فی المعروف’’
اللہ کی نافرمانی میں (کسی کی ) کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو معروف(کتاب و سنت کے مطابق) میں ہے(صحیح مسلم : ۸۴۰ادار السلام: ۴۷۶۵و صحیح البخاری: ۷۲۵۷)

ایک روایت میں آیا ہے کہ: ‘‘ رضی الرب فی رضی الوالدو وسخط الرب فی سخط الوالد’’
رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی، والد کی ناراضی میں ہے( الترمذی: ۱۸۹۹ و سندہ صحیح، ابن حبان ، الموارد: ۲۰۲۶، الحاکم فی المستدرک ۴؍۱۵۶،۱۵۱ح۷۲۴۹وصححہ علی شرط مسلم و وافقہ الذہبی)

ایک آدمی نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ: میں کس کے ساتھ اچھا برتاؤ کروں؟ فرمایا: اپنی ماں کےساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، اس نے پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ(صحیح البخاری: ۵۹۷۱و صحیح مسلم:۲۵۴۸)

جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ :‘‘فالزمھافإن الجنۃ تحت رجلیھا’’
پس اپنی ماں کی خدمت لازم پکڑو، کیونکہ جنت اُن کے قدموں کے نیچے ہے(سنن النسائی ۶؍۱۱ح۳۱۰۶و اسنادہ صحیح)

ماں باپ کی، معروف(کتاب و سنت کے مطابق باتوں) میں نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا::
‘‘الإ شراک باللہ و عقوق الوالدین و قتل النفس وشھادۃ الزور’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی (بے گناہ) انسان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا(البخاری:۲۶۵۳مسلم:۸۸)

ابی بن مالک العامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘‘من أدرک والدیہ أوأحدھما ثم دخل النار من بعد ذلک فأبعدہ اللہ وأسحقہ’’
جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے ایک (والد یا والدہ) کو (زندہ) پائے پھر اس کے بعد(ان کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے ) جہنم میں داخل ہو جائے تو اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور وہ اس پر ناراض ہے۔(مسند احمد۴؍۳۴۴ح۱۹۲۳۶وسندہ صحیح)

خلاصہ: والدین کےساتھ حسنِ سلوک اور معروف میں ان کی اطاعت فرض ہے۔ا پنے رب کو راضی کرنے کے لئے اپنے والدین سے محبت کریں، جہاد اگر فرض عین نہ ہو تو والدین کے لئے چھوڑا جا سکتا ہے۔ وما علینا إلا البلاغ

ما معنى البرِ والدين

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ۝ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا [الإسراء:24] ومثل قوله سبحانه:وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [النساء:36]، ومثل قوله جل وعلا: أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ [لقمان:14] في آيات كثيرات فيها الحث على بر الوالدين، وفيها الأمر بذلك.
وقد صح عن رسول الله ﷺ ما يدل على هذا المعنى أيضاً، فسئل عليه الصلاة والسلام قيل: يا رسول الله! أي العمل أفضل؟ قال: الصلاة على وقتها. قيل: ثم أي؟ قال: بر الوالدين. قيل: ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله، وفي الصحيحين عن أبي بكرة الثقفي  عن النبي ﷺ أنه قال : ألا أنبئكم بأكبر الكبائر -كررها ثلاثاً- قالوا: بلى يا رسول الله! قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وكان متكئاً فجلس، فقال: ألا وقول الزور ألا وشهادة الزور.
فبين عليه الصلاة والسلام أن من أكبر الكبائر العقوق للوالدين؛ فبرهما من أهم الواجبات ومن أعظم الفرائض، وعقوقهما من أقبح الكبائر والسيئات.
وفي الحديث الآخر: رضا الله في رضا الوالدين وسخط الله في سخط الوالدين، فالواجب على كل مسلم وعلى كل مسلمة بر الوالدين والإحسان إليهما والرفق بهما والأدب معهما في القول والعمل، ومن ذلك أن ينفق عليهما إذا كانا فقيرين وهو يستطيع النفقة، ومن ذلك مخاطبتهما بالتي هي أحسن بالكلام الطيب والأسلوب الحسن وخفض الصوت، وعدم رفع الصوت عليهما، ومن ذلك السمع والطاعة لهما في المعروف إذا أمراه بشيء لا يخالف شرع الله وهو يستطيعه لا يضره ذلك، يطيعهما بالكلام الطيب والفعل الطيب.
ومن ذلك أن لا يحبس أولاده عن زيارة والديه، إذا رغب الوالد أو الوالدة في زيارة أولاده يزوروه، أن يمكن الأولاد من زيارة الوالدين فليس له أن يمنع أولاده ذكوراً كانوا أو إناثاً من زيارة أمه أو أبيه، إلا أن يكون هناك ضرر لأن الوالد يأمرهما بمعاصي يأمر أولاده بمعاصي الله، أو الوالدة هذا له منع ذلك؛ لأن طاعة الله مقدمة، أما إذا كان ليس هناك ضرر في أن يزوروه والوالد يحسن إليهم والوالدة كذلك ولا يترتب على الزيارة معصية لله فليس له أن يمنع أولاده من زيارة أبويه، بل هذا من برهما أن يمكن أولاده يزوروهم ويأنسوا بهم ويتمتعوا بالاجتماع بهم.
المقصود: أن من بر الوالدين أن تسمح لأولادك بزيارتهما حتى يستمتعا بأولادك ويجتمعا بهما ويأنسا بهما، وربما ترتب على ذلك مصالح كثيرة، لكن إذا كان الوالدان يأمران أولادك بمعاصي الله أو يحصل منهما على الأولاد ضرر بضرب أو غيره من غير علة فلك أن تمنع، لقول النبي ﷺ: لا ضرر ولا ضرار، أما أن تمنع أولادك من والديك من دون حق ومن دون سبب هذا لا يجوز، والله المستعان. نعم.
المقدم: الله المستعان، جزاكم الله خيراً. 

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...