جمعرات، 31 دسمبر، 2015

اپنا محاسبه ،،، عبدالمومن سلفی

مکبھی ہم نے اپنا محاسبہ کیا؟
٭ کیا ہم فجر کی نمازِبا جماعت مسجد میں اداکرتے ہیں؟
 ٭ کیا ہم پانچوں نمازوں کی پابندی کر رہے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم اللہ تعالی کا ذکر کرنے والوں میں سے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجنے میں مداومت برتتے ہیں؟
 ٭ کیا ہم پابندی سے قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم اللہ تعالی کی حمد بیان کرنے والوں میں سے ہیں؟
 ٭ کیا ہم اللہ تعالی کا شکر بجا لانے والوں میں سے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم بکثرت استغفار کر رہے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم سنت ِفجر کی محافظت کر رہے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم تہجد کااہتمام کرنے والوں میں سے ہیں؟
 ٭ کیا ہم نیند سے اٹھنے کے بعد اذکارکااہتمام کرتے ہیں؟
 ٭ کیا ہم صبح و شام کے اذکار کا اہتمام کرتے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم اپنی گاڑیوں میں قرآن سننے کا اہتمام کرتے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم اپنی گاڑیوں میں دینی کیسٹیں رکھتے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم بیمار وںکی عیادت اور پڑوسیوں کی زیارت کرنے والوں میں سے ہیں؟
 ٭کیا ہم صلہ رحمی کرنے والوں میں سے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم اپنے جیب میں قرآن کریم رکھتے ہیں ؟
 ٭کیا ہم اپنے بچوں کی دینی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں ؟
 ٭ کیا ہم خوشگوار ازدواجی زندگی گذار رہے ہیں ؟
www.mominsalafi.simplesite.com

بدھ، 30 دسمبر، 2015

ترجمه سوره جمعه ، ،، عبدالمومن سلفي

سورة الجُمُعَة
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہے الله کی تسبیح کرتی ہے وہ بادشاہ پاک ذات غالب حکمت والا ہے (۱) وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے (۲) اور دوسروں کے لیے بھی جو ابھی ان سے نہیں ملے اور وہ زبردست حکمت والا ہے (۳) یہ الله کا فضل ہے جسے چاہے دے اور الله بڑا فضل کرنے والا ہے (۴) ان لوگو ں کی مثال جنہیں تورات اٹھوائی گئی پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا گدھے کی سی مثال ہے جو کتابیں اٹھاتا ہے ان لوگوں کی بہت بری مثال ہے جنہوں نے الله کی آیتو ں کو جھٹلایا اور الله ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا (۵) کہہ دو اے لوگو جو یہودی ہو اگر تم خیال کرتے ہو کہ تم ہی الله کے دوست ہو سوائے دوسرے لوگوں کے تو موت کی آرزو کرو اگر تم سچے ہو (۶) اور وہ لوگ اس کی کبھی بھی تمنا نہ کریں گے بسبب ان (عملوں) کے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے اور الله ظالموں کو خوب جانتا ہے (۷) کہہ دو بے شک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو وہ تو ضرور تمہیں ملنے والی ہے پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ہر چھپی اور کھلی بات کا جاننے والا ہے پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے (۸) اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الہیٰ کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو (۹) پس جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں چلو پھرو اور الله کا فضل تلاش کرو اور الله کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (
www.mominsalafi.simplesite.com۱۰)

متلاش حق

حق کا متلاشی : سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
                                                  صفات عالم تيمى

salman_11حق کی جستجو اورسچائی کی تلاش ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے، انسان کو عقل سلیم سے  مالامال اسی لیے کیاگیاہے کہ اس کی بدولت انسان حق کی پہچان کرسکے ،یوں تو ہرانسان فطرت پرپیدا ہوتا ہے تاہم تربیت اور ماحول کا اس پر گہرا اثر پڑتا ہے، انسان جس ماحول میں آنکھیں کھولتا ہے وہاں کے غلط رسم رواج کو بھی بہتر سمجھنے لگتا ہے،  وہ  یہ سوچتا ہے کہ ہمارے آباء واجداد جو کام کرتے آئے ہیں وہ آخر غلط کیسے ہوسکتا ہے ۔ یہیں سے انحراف شروع ہوتاہے، لیکن سلیم طبیعتیں حق کی متلاشی ہوتی ہیں، رسم ورواج کی پابند نہیں ہوتیں ۔
ذیل کے سطورمیں ایک ایسے ہی حق کے جویا کی کہانی پیش خدمت ہے جنہوں نے تلاش حق کی راہ میں ماں باپ  کے دین کو رکاوٹ بننے نہیں دیا، اورہرطرح کی قربانیاں پیش کیں بالآخر حق کو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کہانی اس انسان کی کہانی ہے جو عربی نہیں لیکن صحبت رسول ﷺ سے فیضیاب ہوئے، اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں اہل بیت کی طرف منسوب کیا ،صحابہ میں سب سے لمبی عمر پائی ، حضرت علی رضى الله عنہ نے انہیں امت محمدیہ کا لقمان حکیم کہا ، جنہوں نے ساٹھ حدیثیں بیان کیں ، جنہوں نے خندک کی جنگ میں اللہ کے رسول ﷺ کو خندق کھودنے کا مشورہ دیا ۔  یہ ہیں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ۔
اس کہانی کوجب بھی میں نے پڑھا ہے جذبات سے بے قابوہوگیا ہوں اورآنکھیں بے ساختہ نم ہوگئیں  ہیں ۔ہماری خواہش ہوگی کہ دل اوردماغ حاضر کرکے اسے بغور پڑھیں ۔اس قصہ کوامام مسلم اورامام احمد نے بیان کیا ہے، تولیجئے ان کا قصہ انہیں کی زبانی پڑھئے، وہ کہتے ہیں:
”میں پارسی مذہب پر تھا، میرا تعلق اصفہان کی ایک بستی جیّ سے تھا ، میرے والدگاؤں کے بہت بڑے زمیندار تھے، میں ان کی نظرمیں بیحد محبوب تھا ،مجھ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ انہوں نے مجھے گھر میں روک رکھا تھا جیسے دوشیزائیں روک کررکھی جاتی ہیں ۔  میں نے مجوسی مذہب کے حصول میں محنت کی حتی کہ ہمہ وقت آگ سلگائے رکھتا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اسے گل ہونے نہ دیتا ، میرے والد کی ایک بہت بڑی جاگیر تھی ، ایک دن وہ کسی تعمیر میں مشغول ہوگئے اورمجھ سے کہا کہ : بیٹے ! میں آج کسی کام میں مشغول ہوگیا ہوں تم جاؤکھیت کی دیکھ ریکھ کرنا ، میں کھیت کی طرف نکلا ، راستے میں میرا گذر عیسائیوں کے ایک چرچ سے ہوا ،میں نے اس میں ان کی عبادت کی آوازیں سنیں، مجھے اس سے قبل لوگوں کے معاملات سے واقفیت نہیں تھی کہ میرے باپ نے مجھے گھر میں قید کر رکھا تھا ، جب میں ان کے پاس سے گذرا اوران کی آوازیں سنیں تو اندر داخل ہوا کہ دیکھوں وہ کیا کرتے ہیں ، جب میں نے انہیں دیکھا تو ان کی نماز مجھے پسند آگئی ،اوران کے تئیں میری دلچسپی بڑھتی گئی، میں نے کہا : اللہ کی قسم! یہ اس دین سے بہتر ہے جس پر ہم لوگ ہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے پاس بیٹھا رہا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، میں نے اپنے باپ کے کھیت کو بھی چھوڑدیا اور وہاں نہ جاسکا۔  میں نے ان سے پوچھا : اس دین کی بنیاد کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : شام میں ۔
پھر میں اپنے باپ کے پاس پہنچا ،اس سے پیشتروہ مجھے تلاشنے کے لیے ایک آدمی بھیج چکے تھے تاہم میں ان کے کام پرتو تھانہیں کہ ملتا ،جب گھر آیا تو والد نے مجھ سے پوچھا : بیٹے : کہاں تھے ،  میں نے توتمہیں کھیت کے کام پر  بھیجا تھا ۔ میں نے کہا : ابوجان !بات یہ ہے کہ میرا گذر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو چرچ میں عبادت کررہے تھے ،میں نے ان کے دین میں جو کچھ دیکھا ہے مجھے بہت پسند آیا ، اورمیں دن بھر انہیں کے پاس رہا حتی کہ سورج غروب ہوگیا ۔ میرے والدنے کہا: بیٹے ! ان کے دین میں کوئی بھلائی نہیں ، تمہارا اورتمہارے آباء واجداد کا دین ان کے دین سے بہت بہتر ہے ۔  میں نے کہا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم !ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے ۔ یہ سن کر انہیں خوف لاحق ہوگیا ،انہوں نے میرے پیروںمیں آہنی زنجیریں ڈال دیں ،اورمجھے گھر میں قید کردیا ۔  میں نے عیسائیوں کے پاس آدمی بھیجا اوران سے کہا کہ اگر تمہارے پاس شام کا کوئی تجارتی قافلہ آئے تو مجھے ان کی بابت بتانا، چنانچہ ایک بار ان کے پاس شام سے عیسائیوں کا ایک قافلہ آیا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی، میں نے ان سے کہا : جب وہ ضرورت پوری کرلیں اوراپنے ملک لوٹنے کا ارادہ کریں تو  مجھے مطلع کرنا۔  جب انہوں نے اپنے ملک لوٹنے کا ارادہ کیا تو میں نے پیر سے آہنی زنجیریں اتاریں اوران کے ہمراہ نکل پڑا ،یہاں تک کہ شام پہنچ گیا ۔ شام پہنچنے کے بعد میں نے لوگوں سے دریافت کیاکہ مجھے  اس دین کے افضل آدمی کی بابت بتائیں  ؟  لوگوں نے کہا کہ : چرچ کا فلاں پادری ، میں اس کے پاس آیا اوراس سے کہا : میں اس دین سے رغبت رکھتا ہوں،اورمیری خواہش ہے کہ آپ کے ہمراہ رہ کر چرچ کی خدمت کروں، آپ سے سیکھوں اورآپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: میرے پاس آجاؤ اور میں ان کے پاس رہنے لگا ۔ تاہم پادری برا انسان تھا ، لوگوں کو صدقہ کا حکم دیتا اوراس کی ترغیب دلاتا، جب لوگ اس کے پاس مال جمع کرتے تو اسے اپنے لیے سمیٹ لیتا اورغرباء و مساکین میں بالکل تقسیم نہیں کرتا تھا ،حتی کہ اس نے سونے کے سات بڑے مٹکے جمع کرلی تھی، یہ عمل دیکھ کرمجھے اس سے سخت نفرت سی ہوگئی  ، پھر کچھ دنوں بعد وہ مرگیا ،لوگ اسے دفن کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے تو میں نے ان سے کہا : یہ براانسان تھا ،تم کو صدقے کا حکم دیتا اوراس کی ترغیب دلاتا  تھا ،جب تم اس کے پاس صدقے لے کر آتے تو وہ انہیں اپنے لیے سمیٹ لیتا اورغرباء ومساکین کو کچھ بھی نہ دیتا تھا ،لوگوں نے کہا : تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ میں نے کہا : میں تمہیں اس کے خزانے کا پتہ بتاتا ہوں، انہوں نے کہا کہ بتاؤ، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا اورخزانے کی جگہ بتادی ،انہوں نے وہاں سے سات مٹکے سونے اورچاندی کے نکالے ،جب انہوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے : واللہ ! اسے ہم ہرگز دفن نہ کریں گے، پھر انہوں نے اسے سولی پر لٹکاکر سنگسار کردیا ۔
اس کے بعدایک دوسرے آدمی کو اس کی جگہ پر رکھا ، میں نے دیکھا کہ وہ سب سے افضل انسان ہے ،پنچوقتہ نمازوں کاپابند، دنیاسے بے نیاز ، آخرت کا  طلبگار اور شب وروز عبادت میں لگا رہتا ہے، میں اس سے بہت محبت کرنے لگا، اس سے قبل میں نے ویسے کسی سے محبت نہیں کی تھی ، میں ایک زمانہ تک اس کے پاس ٹھہرا رہا ، پھر اس کی وفات کا وقت قریب آگیا تو میں نے اس سے کہا : اے فلاں! میں آپ کے ساتھ تھا اورآپ سے بیحد محبت کرتا تھا ،اس سے پیشتر میں نے آپ سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کی،آپ کی وفات قریب ہے،اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں اورکیا حکم فرماتے ہیں ؟ اس نے کہا : بیٹے! اللہ کی قسم ! میں جس مشن پر ہوں میں نہیں جانتا کہ لوگ اس پرآج قائم ہیں، اچھے لوگ گذر گئے، لوگوں نے دین عیسوی میں تبدیلی  پیدا کرڈالی  اور اکثرتعلیمات کو چھوڑ بیٹھے البتہ موصل میں ایک آدمی ہے جو میرے مشن پرقائم ہے اس کے پاس چلے جاؤ۔
اس کی وفات  اور تجہیزوتکفین کے بعد میں موصل کے پادری کے پاس چلا گیا، وہاں جاکر میں نے اس سے کہا : “اے فلاں! فلاں نے اپنی موت کے وقت مجھے آپ کی صحبت اختیار کرنے کی وصیت کی تھی ، اوریہ اطلاع دی تھی کہ آپ ان کے مشن پر ہیں “۔ انہوں نے کہا : میرے پاس ٹھہرجاؤ، چنانچہ میں ان کے پاس ٹھہر گیا، میں نے اس کو بھی بہتر آدمی پایا ،لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ بھی مرگیا، جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو میں نے کہا : اے فلاں! فلاں نے مجھے آپ کے پاس آنے کے وصیت کی تھی، ابھی آپ کے پاس پیام اجل آچکا ہے،تو آپ مجھے کس کے پاس جانے کا صلاح دیتے اورکیاحکم فرماتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : بیٹے ! میں کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا جو ہمارے مشن پر قائم ہو سوائے نصیبین کے فلاں آدمی کے، لہذا تم اس کے پاس چلے جانا۔ جب وہ مرگیا اوراس کی تدفین ہوچکی تو میں نصیبین کے پادری کے پاس چلاآیا اوراپنے بارے میں اور پہلے پادری نے جوکچھ کہاتھا اس سے متعلق بتایا تو اس نے کہاکہ میرے پاس ٹھہر جاؤ ، چنانچہ میں اس کے پاس ٹھہر گیا ، میں نے اسے بھی پہلے دونوں پادریوں جیسے پایا ، میں نے ایک بہترانسان کے پاس قیام کیا، لیکن کچھ دنوں بعد اسے بھی موت آگئی، موت سے پہلے میں نے اس سے کہا : اے فلاں ! فلاں نے آپ کے پاس مجھے آنے کی وصیت کی تھی اب آپ اپنے بعدمجھے کس کے پاس جانے كى وصیت کرتے ہیں، اورکیا حکم فرماتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیٹا ! اللہ کی قسم کوئی آدمی ایسا باقی نہیں رہا  جو ہمارے مشن پر ہو سوائے عموریہ میں ایک آدمی کے جو ہمارے مشن پر قائم ہے اگر چاہوتو اس کے پاس چلے جاؤ۔
اس کی وفات  اور تجہیزوتکفین کے بعد میں عموریہ کے پادری کے پاس آیا اوراپنے متعلق بتایا تو  اس نے مجھے کہا کہ میرے پاس ٹھہر جاؤ، چنانچہ میں اس کے پاس ٹھہر گیا ، وہ بھی اپنے پہلے ساتھیوں کے جیسے تھا ،  وہاں میں نے کچھ کاروبار کیا حتی کہ میرے پاس بہت سی بکریاں اورگائیں ہوگئیں ،پھر اس کا اجل بھی آپہنچا ، تو  میں نے اس سے کہا : اے فلاں میں فلاں کے ساتھ تھا ،اس نے مجھے فلاں کے پاس بھیجا ، پھر فلاں نے مجھے فلاں کے پاس بھیجا ، پھر فلاں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ، اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے اورکیا حکم فرماتے ہیں ؟ اس نے کہا : بیٹا ! اللہ کی قسم میں کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا  جو ہمارے مشن پر قائم ہواوراس کے پاس جانے کی میں تجھے وصیت کروں،البتہ ابھی آخری نبی کے آنے کا  زمانہ قریب  ہے جو دین ابراہیمی کے ساتھ بھیجے جائیں گے ، عرب کی سرزمین میں آئیں گے ،وہ سیاہ رنگ کے پتھر والی سرزمین ہوگی اوروہاں کھجور کی کھیتی ہوتی ہوگی ،اس کے ساتھ کھلی نشانیاں ہوں گی ،  وہ ہدیہ کھائیں گے، صدقہ نہیں کھائیں گے ، ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی ۔ اگر اس سرزمین میں پہنچ سکتے ہوتو پہنچ جاؤ۔
اس کی وفات  اور تجہیزوتکفین کے بعد میں عموریہ میں ایک مدت تک ٹھہرا رہا ، پھر بنو کلب کاایک تجارتی قافلہ عرب جارہاتھا  تو میں نے ان سے کہا : مجھے اپنے ساتھ عرب کی سرزمین پر پہنچا  دو  میں تمہیں یہ ساری بکریاں اور گائیں دے دوں گا ،انہوں نے حامی بھرلی، میں نے انہیں ساری بکریاں اورگائیں دے دیں ،اوروہ مجھے اپنے ساتھ لے آئے ،جب وادی القری پہنچے تو انہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور ایک یہودی سے مجھے بیچ دیا ، اب میں یہودی کا غلام بن گیا ،البتہ جب میں نے کھجورکےد رخت دیکھا تو مجھے امید ہونے لگی کہ شایدیہ وہی سرزمین ہے جس کی بابت  ہمارے (عموریہ کے پادری ) ساتھی نے پیشین گوئی کی ہے ۔میں اسی یہودی کے پاس تھا کہ ایک دن اس یہودی کا عم زادآیا جو مدینہ میں بنوقریظہ سے تعلق رکھتا تھا ،اس نے مجھے اپنے چچا سے خریدلیا ،اورمدینہ لے کر آگیا ،اللہ کی قسم جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی پیشین گوئی کے بالکل موافق پایا ،وہاں میں ٹھہر گیا ،ادھر اللہ تعالی نے اپنے رسول کو مبعوث فرمایااورآپ مکہ میں سالوں تک ٹھہرے رہے تاہم میں نے آپ کا نام تک نہیں  سنا کہ میں غلامی کے باعث مشغول تھا، پھر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ ایک دن میں اپنے  مالک کے نخلستان  میں  کام کررہا تھا ،اورمیرا مالک وہیں کھڑا تھا ،کہ اسی اثناءاس کا عم زادآیا اور اس کے پاس ٹھہر کر کہنے لگا : نبوقیلہ کی تباہی آگئی ،اللہ کی قسم یہ لوگ قباءمیں ایک آدمی پر اکٹھا ہورہے ہیں جو آج مکہ سے آیاہے جودعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ یہ سنتے ہی  میں جذبات سے بے قابوہوگیا اورمجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے مالک پر گر جاؤں گا ،میں کھجورکے درخت سے فورا اترا اوراس کے عم زادے سے کہنے لگا : کیا کہہ رہے ہو تم؟ یہ دیکھ کر میرا مالک مجھ پر سخت غصہ ہوا ،ایک طمانچہ رسیدکیا ،اورکہا : چلو جاؤ،  اپنا  کام کرو ،تم کو اس سے کیا مطلب ۔ میں نے کہا : کوئی بات نہیں ،میں تو صرف اس کی بات کی تصدیق چاہتا تھا ۔ میں نے اس دن شام میں کچھ کھجوریں جمع کیں اورانهیں لے کر اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گیا ،اس وقت آپ قباءمیں تشریف رکھتے تھے، میں آپ کے پاس آیا ، اورآپ سے کہا : مجھے اطلا ع ملی ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب حاجت مند ہیں، میرے پاس کچھ صدقہ کی کھجوریں تھیں،میں نے سمجھاکہ دوسروں کی بنسبت آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔میں نے اسے آپ کے قریب کیا ،تو آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”کھاؤ “تاہم آپ نے ہاتھ روک لیا ، تناول نہیں فرمایا۔  میں نے اپنے دل میں کہا: یہ پہلی نشانی ہوئی، پھر میں آپ کے پاس سے آگیا ۔
دوسرے دن کچھ کھجوریں جمع کی،جب تک اللہ کے رسولﷺ مدینہ آچکے تھے ،میں مدینہ میں آپ کے پاس آیا اورآپ سے کہا : میں نے دیکھاکہ آپ صدقہ نہیں کھاتے تویہ ہدیہ آپ کے لیے لے کرآیا ہوں،قبول فرمائیں ۔ چنانچہ آپ ﷺنے اس میں سے کھایااوراپنے اصحاب کو حکم فرمایا،چنانچہ انہوں نے بھی اس سے  تناول فرمایا۔ میں نے دل میں کہا : یہ دوسر ی نشانی پوری ہوئی ۔
پھر میں تیسری بار آیا تو آپ ﷺ مقام بقیع میں اپنے کسی ساتھی کے جنازے میں شریک تھے، آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے تھے ،آپ پردوچار تھی، ایک پہن رکھی تھی اوردوسری اوڑھ رکھی تھی، میں نے آپ کو سلام کیا ،پھر آپ کے پیچھے سے آپ کی مہر نبوت کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا جس کے متعلق میرے ساتھی نے بتایاتھا ،جب اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے پیچھے میں دیکھا کہ تو سمجھ گئے کہ شاید مجھے جو چیزبتائی گئی ہے اس کی تحقیق چاہتا ہوں، چنانچہ آپ نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹادی ۔ میں نے مہرنبوت کو دیکھتے ہی آپ کو پہچان لیا ،اورلپک کر اسے بوسہ لینے لگا اوررونے لگا ،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سامنے آؤ ،میں سامنے آیا اورآپ کو اپنا پوراقصہ کہہ سنایا، آپ نے  میرے قصہ کوبہت پسندکیا اور فرمایاکہ صحابہ کرام کو بھی یہ قصہ سناؤ۔ پھر میں غلامی کی وجہ سے مشغول ہوگیا،یہاں تک کہ بدراوراحد کی جنگ میں شریک نہ ہوسکا ۔
ایک دن اللہ کے رسول ﷺ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: سلمان ! اپنے مالک سے مکاتبت کرلو ،( مخصوص رقم کے عوض آزادی کے لیے مالک سے معاہدہ کرنے کومکاتبت کہتے ہیں) ،چنانچہ میں نے اپنے  مالک سے تین سوکھجورکے پودے لگانے اورچالیس اوقیہ سونا  پر مکاتبت کرلیا ،  اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، چنانچہ سب نے میری مدد کی ،کوئی تیس پودےلارہا ہے تو کوئی بیس پودے لارہا ہے ،کوئی پچیس پودے لارہا ہے ،توکوئی دس پودے لارہا ہے۔ غرضیکہ جس سے جتنا  ہوسکا  لاکر پیش کردیا ،یہاں تک کہ تین سو پودے جمع ہوگئے ،اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ کھیت میں جاتے ہیں اوراپنے ہاتھ سے اسے لگاتے ہیں ۔ اللہ کی شان کے سارے پودے کامیاب نکل گئے، پھر ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے پاس مرغی کے انڈے کے برابر سونے کا ڈھیلا آیا ،آپ ﷺنے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اوران کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ اپنے  مالک کو وزن کرا دو ۔ اسے لے کر گئے اور وزن کرایا  تو سونے کا  وہ  ڈھیلا چالیس اوقیہ سے زیادہ ہوا اور اس طرح حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے یہودی کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے  ہیں کہ اس کے بعد میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ خندق میں شریک ہوا ، پھر کوئی جنگ فوت نہ ہوئی ۔
عزیزقاری ! یہ ہیں حق کے متلاشی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو حق کی کھوج میں ماں باپ کی محبت کو خیرباد کہتے ہیں،عیش وآرام کی زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہیں، ہمت اس قدر بلند ہے کہ اعلی صفات کے حامل مربی کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں،اوراس کے لیے مختلف جگہوں کی خاک چھانتے ہیں،اسی راہ کی تلاش میں غلامی کی زنجیر میں جکڑ دئیے جاتے ہیں ،لیکن ہمت نہیں ہارتے ،بالآخر گوہر مطلوب ملتا ہے ، اورشرف صحابیت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔آج کتنے ایسے لوگ ہیں جو ایرے غیرے نتھوخیرے کے پیچھے چل کراپنے ایمان کو برباد کررہے ہیں ،انہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہوئے کتاب وسنت کا گہرا علم رکھنے والے عالم سے رجوع کرنا چاہیے اورتلاش حق کی راہ میں خاندانی روایت کو حائل نہیں ہونے دیناچاہیے۔اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ، اوراللہ کی رحمت ہو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر

قرآن اور آج كي طب ،

قرآن اور طب.
www.mominsalafifi.simplesite.com
الحمد للہ
1 – :
اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے ہر معاملہ میں دین کامل دے کر مبعوث فرمایا ہے جیسا کہ ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول صلی اللہ علییہ وسلم نے چھوڑا تو آسمان میں اگر کوئ پرندہ بھی اپنا پر ہلاتا ہے تو اس کا بھی علم ہمیں دے کر گۓ ۔ مسند احمد ( 20399 ) دیکھیں مجمع الزوائد ( 8 / 263 ) ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ اسے طبرانی نے روایت کیا اورمحمدبن عبداللہ بن یزيد المقری جو کہ ثقہ ہے کے علاوہ اس کے رجال صحیح ہيں ۔
جو اسلام اس لۓ آیا کہ لوگوں کی زندگی کی تمام حاجات وضروریات کو پورا کرے ۔
2- :
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جو کچھ آیا ہے وہ قرآن کے بیان کی تکمیل ہے ، اورمسلمانوں کے ہاں یہی دو مصدر اساسی ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے کوئ ایسی بیماری نہیں اتاری مگر اس کا علا ج اور دوائ بھی اتاری ہے ۔
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللہ تعالی نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کی شفااور علاج بھی اتارا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5678 )
3– :
سائل نے جو یہ ذکر کیاہے کہ کچھ مسلمانوں نے بہت سے علاج قرآن کریم سے ایجاد کیے ہیں ، تو اس کے متعلق ہم یہ کہیں گے کہ اس میں کچھ مبالغہ آرائ سے کام لیا گیا ہے ۔
تو قرآن کریم کوئ علم طب اور نہ ہی جغرافیا اور بیالوجی کی کتاب نہیں ہے جیسا کہ بعض مسلمان یورپیوں کے سامنے کہتے پھرتے ہیں بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کہ لوگوں کے لۓ رشد وھدایت کا منبہ ہے اوراس کا سب سے بڑا معجزہ اس کی بلاغت اور قوت معانی ہے جو کہ اس کا اصلی اعجاز ہے ، تو اللہ تعالی نے یہ کتاب اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے دور میں نازل فرما‎ئ جس میں فصاحت و بلاغت بہت اونچے درجے پر تھی تو اس وقت یہ کتاب انہیں عاجز کرنے کے لۓ نازل کی گئ کہ یہ کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آئ ہے ۔
تو اس میں کوئ تعجب نہیں اور نہ ہی اس دین میں کوئ نئ چیز ہے ، تودیکھ لیں موسي علیہ السلام کے نشانیاں اور معجزات – لاٹھی اور ھاتھ کا چمکنا – اسی جنس میں سے تھیں جو کہ اس وقت جادو کی شکل میں پھیلا ہوا تھا ، اور اسی طرح موسی علیہ السلام کی دوسری نشانیاں – مردوں کو زند کرنا ، اور برص زدہ اور کوڑھ کے مریض کو صحیح کرنا – یہ بھی اسی جنس میں سے تھیں جس میں ان کی قوم ماہر تھی اور ان میں پھیل چکی تھی جسے طب کا نام دیا جاتا ہے ۔
تو اس لۓ ہم یہ کہیں گے کہ قرآن مجید میں جو سب سے بڑی اور عظیم چیز ہے وہ اس کی فصاحت وبلاغت ہے ، تو آج تک اس پر غور فکر اور تدبر کرنے والے والے علماء کے لۓ یہ واضح ہورہی ہے ۔
اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اس میں فصاحت وبلاغت کے علاوہ کچھ اور نہیں بلکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں انسانی جسم کی ترکیب اور اس کے اعضاء اور اس کے پیدائشی مراحل اور بعض طبعی مظاہر اوراس کے علاوہ اوراشیاء کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔
اور سائل نے جو علاج کے متعلق بات کی ہے ، تو اس کے بارہ میں ہم یہ کہیں گے کہ قرآن کریم تو مومنوں کے دلوں اور بدنوں کی بیماریوں کے لۓ شفا ہی شفاہے ، اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ( شھد ) کا ذکر کیااور یہ بیان کیا ہے کہ یہ لوگوں کے لۓ شفا ہے ،اور اسی طرح اصل چیز صحت اور امراض سے بچاؤ کا بھی ذکر فرمایاہے ۔
تو جو اس لحاظ سے یہ کہے کہ قرآن کریم میں بہت ساری ادویات کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے علاوہ اورکچھ صحیح نہیں بلکہ اس میں بعض مسلمانوں نے مبالغہ ارائ سے کام لیا ہے ، اور قرآن کریم کوئ طب کی کتاب نہيں ، اورپھر اس وقت ایسے ایسے امراض پیدا ہو چکے ہیں جو کہ پہلے موجود نہیں تھے تو ان کاعلاج امراض کے وجود سے قبل ہی کیسے آۓ گا – سائل کے قول کے اعتبارسے - ؟ ۔
4 - :
ا – قرآن کریم کے شفا ہونے پر ذیل میں چند ایک آیات پیش کی جاتی ہیں :
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سرا سر شفا اوررحمت ہے } الاسراء ( 82 ) ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
اللہ تعالی کا یہ فرمان : { یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سرا سر شفا اوررحمت ہے } اور صحیح یہ ہے کہ یہاں پر ( من ) جنس کے بیان کے لۓ ہے نہ کہ تبعیضیہ اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ :
{ اے لوگوں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصحیت اور جو کچھ سینوں میں روگ ہے اس کی شفاآئ ہے }
تو قرآن کریم تمام قلبی اور بدنی بیماریوں کا علاج اور شفاہے اور اسی دنیا وآخرت کی بھی دوا ہے ، تو ہر ایک اس شفا کا اہل بھی نہیں اور نہ ہی اسے توفیق ملتی ہے ، لیکن جب بیمار آدمی علاج کرنے میں صحیح توجہ سے اس علاج پر عمل کرے اور اسے صدق دل اور ایمان ویقین اور اسے قبول اور پختہ اعتقاد اور اس علاج کی شروط پوری کرتے ہوۓ اپنی بیماری پر رکھے تو پھر اس کے آگے بیماری کبھی ٹھر ہی نہیں سکتی ۔
پھر یہ بیماری اس کلام اللہ کے آگے کیسے ٹھر سکتی ہے جو اگر پہاڑوں تر اتارا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے ، یا زمین پر اتارا جاتا تو اسے وہ ٹکڑے کردیتا ، تودلوں اور بدنوں کا کوئ ایسا مرض نہیں جس کے متعلق قرآن کر یم راہنمائ نہ کرے اور اس کے سبب اور اس سے بچاؤ کا طریقہ نہ بتاۓ لیکن یہ سب اس کے لۓ ہے جسے اللہ تعالی کتاب اللہ کی سمجھ عطافرماۓ ۔زاد المعاد ( 4 / 352 )
ب : اور قرآن کریم میں روحوں اور دلوں کا علاج ہے تو جواس پر صحیح طور پر عمل کرے تو اس کے لۓ قرآن کریم امراض اور آفات سے بچاؤ اور انہیں اس کے بدن سے دوکردے گا ، تو اس لحاظ سے بہت ساری امراض کا علاج اور ان کے لۓ شفا ہے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ :
ہم نے ذاتی طور پر اور ہمارے علاوہ دوسروں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے کہ یہ ایسا کام کرتا ہے جو کہ ادویہ حسیہ سے نہیں ہوۓ بلکہ اطباء کے ہاں تو ادویہ حسیہ اس کے سامنے ھیچ ہیں ، اور یہ حکمت الہیہ کے قانون سے خارج نہیں بلکہ اس میں داخل ہے ، لیکن اسباب کئ ایک قسم کے ہیں تو جب دلی طور پر اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ اور لگاؤ ہو گا جوکہ بیماری اور دوائ دونوں کا خالق اور طبیعتوں کا مدبر اور اس میں جس طرح چاہے تصرف کرنے والا ہے تواس دل کے لۓ کچھ ایسی دوائیاں اور علاج بھی ہیں جو جو اللہ تعالی سے اعراض کرنے والے کے دل سے دور ہیں ۔
یہ تو سب کے علم میں ہے کہ جب روح قوی اور طاقتور ہوتو نفس اور طبیعت بھی قوی ہو کر بیماری اور سختی کو دورکرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں ، تو اس کا انکار اس شخص سے کیسے کیا جاسکتا ہے جس کی طبیعت اور نفس اللہ تعالی کی محبت وانس اور اس کے ذکر سے قوی ہو اور مکمل طور پر سارے اعضاء کو اللہ تعالی کے مطیع کیۓ رکھے اور اللہ تعالی پر توکل کرے تو اس کے لۓ یہ سب سے اعلی اور بڑی دوائ اور علاج ثابت ہوگا اور اسے وہ قوت اور طاقت پہنچے گي جو سب کی سب بیماریوں اور تکلیفوں کو ختم کرکے رکھ دے گي ، اور اس کا انکار تو صرف وہی شخص کرے گا جو کہ اجھل الناس اوراللہ تعالی سے بہت ہی زیادہ دور رہنے والا اور حقیقت انسانی سے بھی دور ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کثیف النفس بھی ہو ۔زاد المعاد ( 4/12 )۔
ج : اور قرآن کریم میں سورۃ فاتحۃ بھی ہے جو کہ امراض کا علاج ہے ۔
ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر پر گۓ اور ایک عرب قوم کے ایک قبیلہ کے مہمان بنے تو انہوں مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا ، ( اللہ کا کرنا ایسا ہوا ) کہ قبیلہ کے سردارکو کسی چیز نے ڈس لیا تو انہوں نے ہر قسم کا علاج کردیکھا لکین کوئ فائدہ نہ ہوا ، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ اگرتم اس قافلے والوں کے پاس جا‎ؤ تو ہو سکتا ہے ان کےپاس کچھ ہو ، تو وہ لوگ ان کے پاس آۓ اور کہنے لگے اے قافلہ والو ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم ہر قسم کا علاج کرچکے ہیں لیکن اسے کو‎ئ افاقہ نہیں ہوا تو کیا تمہارے پاس کوئ علا ج ہے ؟ تو صحابہ میں سے ایک نے کہا جی ہاں اللہ تعالی کی قسم میں دم کرتا ہوں ، لیکن ایک بات ہے اللہ تعالی کی قسم ہم نے تم سے مہمان نوازي کا تقاضا کیا تو تم نے انکار کیا تو اب میں بھی اس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم اس کا معاوضہ نہیں دیتے ، تووہ بکریوں کا ایک ریوڑ دینے پر رضامندہوگۓ ، تو وہ صحابی رضي اللہ تعالی عنہ ان کے ساتھ گۓ اور اس پر ( الحمد لله رب العالمين ) پڑھ کر دم کیا تو وہ صحیح اور ہشاش بشاش ہوگيا گویا کہ اسے کسی چیز نے جگڑ رکھا ہو وہ اب وہ اس سے آزاد ہوا ہو اور بغیرکس تکلیف کے چلنے پھرنے لگا ۔
ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : انہوں نے اپنے اس وعدہ کو پورا کرتے ہوۓ بکریاں دے دیں ، صحابہ میں سے ایک نے کہا کہ اسے تقسیم کرو ، تو جس نے دم کی تھا وہ کہنے لگا یہ کام اس وقت نہ کرو جب تک کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اس کا بتا نہ لیں اور پھر جو وہ حکم دیں اس پر عمل کریں ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آۓ اور اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے کہ تجھے کیسے پتہ چلا کہ یہ دم ہے ؟ پھر فرمایا تم نے صحیح کام کیا ہے اسے تقسیم کرو اور اس میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2156 ) صحیح مسلم ( 2201 ) ۔
قلبۃ : یہ ایک بیماری یا ایسی درد ہے جس سے انسان لوٹ پوٹ ہونے لگتا ہے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی سورۃ فاتحۃ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ :
اور جسے توفیق ملے اور اور وہ نور بصیرت کی بصارت سے اس سورۃ کو دیکھے تو اسے اس سورۃ کے رازوں اور اس میں جو اللہ تعالی کی تو حید اور اللہ تعالی کی ذات اور اسماء وصفات کی معرفت بیان کی گئ ہے وہ ملے گی اور اسی طرح شریعت اور تقدیر اور روزقیامت کا ثبوت مہیا ہوگا اور اسی طرح اسے توحید ربوبیت اور الوھیت کا بھی علم اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ اللہ تعالی پر ہی مکمل توکل اور سب معاملات بھی اسی کے سپرد کۓ جائيں اور سب قسم کی حمدوثنا اور سارے کا سارا امرو حکم اسی کی ہے اسی کے ھاتھ میں ہر قسم کی بھلائ اور اسی کی طرف سب معاملے پلٹتے ہیں ۔
اور وہ ھدایت جس میں دارین کی سعادت پنہاں ہے وہ بھی اسی سے طلب کی جاۓ ، اور دارین میں مصلحتوں کا حصول اور فساد سے بچنے کا علم ہوگا اور مکمل اور مطلق انجام اور مکمل نعمتیں اس کے ساتھ معلق ہیں اس کی تحقیق پر موقوف ہیں ۔
بہت سی دوائیوں اور علاج اور دم سے اس نے غنی کردیا ہے ان کی ضرورت نہیں رہی ، اور اس کے ساتھ بھلائ اورخیر کے دروازے کھلتے اور شرکے دروازے بند ہوتےہیں ۔ زاد المعاد ( 4 / 347 ) ۔
د :
اور اسی طرح قرآن کریم میں حفظان صحت کے اصول بھی ذکر کۓ گۓ ہیں :
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :
طب کے تین اصول ہیں : حمیۃ یعنی بچاؤ ، حفظان صحت ، ضرر اور نقصان دہ مادہ کو باہر نکالنا ۔
اوراللہ تعالی نے ان تینوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لۓ اپنی کتاب میں تین جگہ پر جمع کیا ہے :
اللہ تعالی نے مریض کو ضرر اور نقصان ہونے کی صورت میں پانی استعمال کرنے سے بچنے کا کہتے ہوۓ فرمایا :
{ اوراگر تم بیمار ہو یا سفرمیں ہو یا تم میں سے کوئ قضاۓ‎ حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اورتمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو } النساء ( 43 ) اور سورۃ المائدۃ ( 6 ) ۔
تو مریض کے بچا‎ؤ کے لۓ اسی طرح تیمم مباح قرار دیا جس طرح کہ پانی نہ ملنے والے کے لۓ مباح ہے ۔
اور حفظان صحت کے متعلق فرمایا :
{ لکین جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کرے } البقرۃ ( 183 ) ۔
تو مسافرکی حفظان صحت کے لۓ رمضان میں روزہ نہ رکھنا مباح قرار دیا تا اس پر روزہ سفر میں مشقت نہ بن جاۓ جس کی وجہ سے سفرميں اس کی قوت اورصحت میں کمزوری واقع ہو ۔
اور محرم کے لۓ سرمنڈا کر ضرر والی چیز کو دور کرنے اور استفراغ کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :
{ اور تم میں سے جو بیمار ہو ، یا اس کے سر میں کوئ تکلیف ہو ( جس کی وجہ سے سر منڈا لے ) تو پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے یا پھر قربانی کرے } البقرۃ ( 196 ) ۔
تو اللہ تعالی نے مريض اوروہ محرم جس کے سر میں کوئ تکلیف ہواسے سرمنڈا کر اس مادہ فاسدہ اورردئ قسم کے بخارات جس کی بنا پر جؤئيں پیداہوتی ہیں سے استفراغ کا حکم دیاہے ، جیسا کہ کعب بن عجرۃ رضي اللہ تعالی عنہ کےساتھ ہوا ، یا پھر اس سے کوئ اور بیماری پیدا ہوتی ہو ۔
تو طب کے یہ ہی تین اصول اور قاعدے ہیں ، تو اللہ تعالی نے ہرجنس سے اس کی صورت ذکرفرماتے ہوۓ اپنے بندوں پرجو نعمتیں کی ہیں اس پر تنبیہ فرمائ ہے اور اس سے بچاؤ اوران کی حفظان صحت اورفاسدہ مواد کے استفراغ کا کہا ہے جو کہ اس کی اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی اور شفقت ہے اور اللہ تعالی مہربان اور رحمت کرنے والا ہے ۔ زاد المعاد ( 1/ 164 - 165 ) ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
ایک مرتبہ میں نے مصرمیں اطباء کے ایک رئیس سے گفتگو کی تووہ کہنے لگا : اللہ تعالی کی قسم اس فائد کوجاننے کے لۓ اگر میں یورپ کا سفر بھی کرتا تو وہ بھی کم تھا ، یا اس نے جس طرح کہا ۔ اغاثۃ اللہفان ( 1 / 25 ) ۔
ھـ : قرآن کریم میں شھد اور اس کے شفاہونے کا ذکر ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ان کےپیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لۓ شفا ہے } النحل ( 69 ) ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پینے میں بھی ایسا اکمل اور کامیاب طریقہ تھا جس میں حفظان صحت کے اصول کو مد نظر رکھا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم شھد میں ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے تھے ، تو اس میں جو صحت کی حفاظت ہے اسے ماہر طبیب ہی جانتے ہیں ۔
اور اسی طرح نہار منہ شھد کا استعمال بلغم کو خارج کرتا اور معدہ کے رؤں کی صفائ اور معدہ کی چپک میں زیادتی کرتا اوراس سے فضلات کو دور کرتا ، اور اس میں اعتدال پیدا کرتا اور سدوں کو کھولتا ہے ۔
اور اسی طرح مثانہ اور گردوں میں بھی یہی عمل دھراتا ہے ، اور معدہ میں داخل ہونے والی جتنی بھی میٹھی اشیاء ہیں ان میں سب سے زیادہ نفع مند شھد ہی ہے ۔
اور صفراوی طبیعت کے مالک کو بخار کی حالت میں نقصان دے سکتا ہے بخاراور صفراء کی حدت میں اضافہ کرتا اور ہو سکتا ہے اسے ھیجان انگیز بنا دے ، تو ایسی طبیعت کے مالک افراد کے لۓ‌ اس وقت فا ئدہ مند ہو گا جب شھد میں سرکہ ملا لیا جاۓ تو ان کے لۓ بہت ہی زیادہ نفع مند ثابت ہوگا ،اور چینی وغیرہ کے شربت پینے سے شھد پینا بہت زیادہ مفید ہوگا اور خاص کر ان لوگوں کے لۓ جوکہ اس قسم شربت پینے کے عادی نہ ہوں ، اورنہ ہی ان کی طبیعت ان سے مانوس ہو تو اگر وہ یہ مشروبات پی بھی لیں تو انہیں شھد کے شربت کی طرح تھوڑا سا بھی فائد نہیں ہوگا جس طرح کہ شھد سے ہوتاہے ،اور اس میں اصل چیز عادت ہے جو کہ اصول کو بناتی اور گراتی ہے ۔
اور شھد میں جب دو صفتیں جمع ہوجائيں یعنی شھد کی مٹھاس اور بارد پن تو بدن کے لۓ اس سے زیادہ بہتر اور مفید کوئ چیز نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئ اور صحت کا محافظ نہیں ہے ، اور روح ، قوی اور دل اس کو بہت پسند کرتا اور جب پھر اس میں یہ دو خصلتیں ہوں تو پھر غذائيت سے بھر پوراور اسے اعضاء تک بہت احسن طریقے سے پہنچاتاہے ۔ زادالمعاد ( 4 / 224- 225 )
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اور شھد میں بہت عظیم فائدے ہیں :
انتڑیوں اور رگوں وغیرہ کی صفائ کرتا ہے ، کھانے اور لیپ کرنے سے رطوبات کی تحلیل ہوتی ہے ، بوڑھوں اور بلغم والوں اورجن کا مزاج ٹھنڈااور تر ہوان کے لۓ نافع ہے ، یہ طبیعت کے لۓ ملین اور عضلات کو طاقت بخشتا ہے ، اورناپسندیدہ ادویات کی کراہت کو ختم کرتا ، سینے اور جگر کی صفا‏ئ کرتا ہے ، مدربول اوربلغمی کھانسی کے لۓ مفید ہے ۔
اور جب شھد عرق گلاب میں گرم کرکے پیا جاۓ تو افیون پینے اور جانوروں کی چیڑ پھاڑ سے نفع دیتا ہے ، اور اگر پانی میں شھد ملا کر پیا جاۓ تو باؤلے کتے کے کاٹے ہوۓ کو اورہلاک کردینے والی جڑی بوٹی کے کھاۓ ہوۓ کو فائدہ دیتا ہے ۔
اور اگر شھد میں تازہ گوشت ڈال دیا جاۓ تو وہ تین مہنے تک تازہ رہتا ہے ، اور اسی طرح اگر اس میں کھیرے اور ککڑی ، کدو اور بینگن اور سبزی وغیرہ ڈال دیا جاۓ تو اس کو چھ ماہ تک تازہ رکھتا ہے ، اور اسی طرح میت کے بدن کی بھی حفاظت کرتااور اسے حافظ اور امین کا نام دیا جاتا ہے ۔
اوراگر شھد کو جؤوں والے بدن اور بالوں پر ملا جاۓ تو انہیں مارڈالتا اوران کے انڈوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور بالوں کو لمبا اور نرم اور حسین بناتا ہے ، اور اگر اسے آنکھوں میں ڈالا جاۓ تو بینائ کو صاف کرتا ہے ، اور اگر دانتوں پر ملا جاۓ تو انہیں صفید اور صاف کرتا اور دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت کرتا ہے ، اور رگوں کا منہ کھولتا اورمدر حیض ہے ۔
اس کا نہار منہ چاٹنا بلغم کو خارج کرتا اور معدہ کے رؤں کی صفائ اور اس سے فضلات کو دور کرتا ، اور اس میں اعتدال پیدا کرتا اور سدوں کو کھولتا ہے ،اور اسی طرح مثانہ اور گردوں میں بھی یہی عمل دھراتا جگراور تلی کے سدوں کو ہر میٹھی اشیاء سے کم نقصان دہ ہے ۔
اور یہ شھد ان سب کچھ کے ساتھ ساتھ خراب ہونے سے مامون اور قلیل الضرر ہے ، صفراوی طبیعت کے لوگوں کے لۓ بخار کی حالت میں ان کے لۓ نقصان دہ ہے لیکن یہ نقصان اسے سرکہ میں ملا کر استعمال کیا جاۓ تو دور ہو جاتا ہے ، تو اس طرح اس حالت میں بھی بہت ہی مفید ہوگا ۔
تو یہ شھد غذا کےساتھ غذا اور دواؤں کے ساتھ ایک دوائ اور شربت میں سے ایک شربت اور مٹھائ میں ایک مٹھائ اور طلاء میں سے ایک طلاء کی حیثیت رکھتااور مفرحا ت کے ساتھ ایک مفرح ہے ، تو اس معنی میں کوئ اور چیز ایسی نہیں جو کہ ہمارے لۓ اس سے افضل پیدا کی گئ ہو اور نہ ہی اس کی مثل اور نہ ہی اس قریب کی ۔
قدماء تو اس پر ہی بھروسہ کرتے تھے بلکہ قدماء کی کتب میں تو چینی اور شوگر کا نام تک نہیں ملتا اور نہ ہی اسےوہ جانتے تھے کیونکہ یہ تو ابھی ایک نئ ایجاد ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پانی کےساتھ نہار منہ استعمال کیا کرتے تھے ، جس میں ایک ایسا راز اور سر ہے جو کہ ایک ذہین و فطین ہی سمجھ سکتا ہے ۔ زاد المعاد ( 4 / 33-34 ) ۔
واللہ تعالی اعلم

سوال نمبر ،12 كيا مردون كي روحين گهر واپس آتی ه

سوال
کیامسلمان کے مردے موت کے بعد اپنے رشتہ داروں کے احساسات کو محسوس کرتے ہیں؟
 انکے غم اور رونے اور سعادت کو اور وہ انہیں یاد کرتے ہیں یا کہ نہیں؟
 کیا مسلمان کی روح اس جہان میں واپس آتی ہے تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ اس کے خاندان میں کیا ہورہا ہے؟ میں نے یہ سنا ہے کہ روح شدگان کے متعلق خوابوں کی تصدیق کہاں تک کی جاسکتی ہے۔؟

 الحمد للہ
 جب انسان فوت ہوجائے تو اس دنیا سے غائب ہوکر دوسرے جہان میں منتقل ہوجاتا ہے، اسکی روح اپنے گھر والوں کے پاس واپس نہیں آتی اور نہ ہی وہ اسکے متعلق کچھ محسوس کرتے ہیں، اور جو یہ کہا گیا ہے کہ روح چالیس دن تک واپس آتی ہے یہ سب ایسی خرافات ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ملتی، اور اسی طرح میت بھی انکے حالات کو نہیں جانتی کیونکہ وہ ان سے غائب ہے یا تو وہ نعمتوں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی بعض فوت شدگان کو انکے اہل عیال کے حالات سے آگاہ کردے لیکن اسکی تحدید نہیں ہوتی اور ایسے آثار ملتے ہیں کہ فوت شدگان اپنے گھر والوں کے کچھ حالات جانتے ہیں، لیکن ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا،
اور رہی خوابوں کی بات تو ان میں سے کچھ تو سچے ہوتے اور کچھ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، اور بعض اوقات زندہ فوت شدگان کے کچھ حالات کو اچھے خوابوں کے ذریعہ جان لیتا ہے، لیکن اس کے لئے سچی رائے اور سچی خواب اور اس خواب کی تعبیر کرنے والے کی قدرت پر اعتماد کرنا چاہئے، لیکن اس کے باوجود اس کے مضون پر اعتماد کرنا صحیح نہیں کہ واقعی ایسا ہی ہوگا جب تک کہ اس پر کوئی دلیل نہ مل جائے، تو بعض اوقات زندہ اپنے کسی فوت شدہ قریبی کو دیکھتا ہے تو وہ اسے کچھ وصیت کرتا اور بعض کاموں کا ذکر کرتا ہے اگر وہ واقع کے مطابق ہوں تو اس کے ذریعے سے اس خواب کی سچائی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے، اور ہوسکتا ہے یہ ہوا بھی ہو تو ان میں سے کچھ تو واقع کے مطابق ہوں اور کچھ ایسی بھی ہوں جنکی صحت کا علم نہ ہوسکے اور ان میں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جس کے جھوٹ کا پتہ چل جاتا ہے، تو یہ تین قسم کی ہیں، تو فوت شدگان کے حالات کے متعلق قصوں اور روایتوں اور خبروں پر عمل کرتے وقت ان باتوں کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔ .

الشیخ عبدالرحمن البراک
اپ کا خادم عبدالمومن سلفی.
سوال بیجنا هو تو اپ کو. هماری ویب
پر یا. Facebook account يا E-mail يا

هماري ويب
Www.mominsalafi.simplesite.com
mominsalafi.BlogSpot.com


ا

نوجوانون كا خون ًًًًً عبدالمومن سلفي


مستقبل نہیں دینا چاہتے، مولانا فضل الرحمٰن

آنیوالی نسلوں کو خون آلودہ مستقبل نہیں دینا چاہتے، مولانا فضل الرحمٰن



اسلام ٹائمز: ژوب میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا ہے کہ پسماندہ علاقوں میں اقتصادی راہداری منصوبے سے خوشحالی آئیگی، دہشتگردی اور انتہاپسندی کی سب سے بڑی وجہ معاشی پسماندگی ہے۔


اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ چین نے پاکستان کے بہترین دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ژوب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں میں اقتصادی راہداری کے منصوبے سے خوشحالی آئےگی۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سب سے بڑی وجہ معاشی پسماندگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی ترقی کے لئے سب کو متحد ہوکر کردار ادا کرنا ہو گا۔ قومی وحدت کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی ترقی کے لیے پوری قوم کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ترقی کے سفرمیں وزیراعظم کو بھرپور تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔ مولانافضل الرحمان نے کہا کہ چین نے پاکستان کابہترین دوست ہونےکاثبوت دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کی سب سے بڑی وجہ معاشی پسماندگی ہے، آنے والی نسلوں کو خون آلودہ مستقبل ہرگز نہیں دینا چاہتے ہیں۔

خبر کا کوڈ: 509038

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...