اپنی زبان منتخب کریں

بدھ، 30 دسمبر، 2015

متلاش حق

حق کا متلاشی : سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
                                                  صفات عالم تيمى

salman_11حق کی جستجو اورسچائی کی تلاش ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے، انسان کو عقل سلیم سے  مالامال اسی لیے کیاگیاہے کہ اس کی بدولت انسان حق کی پہچان کرسکے ،یوں تو ہرانسان فطرت پرپیدا ہوتا ہے تاہم تربیت اور ماحول کا اس پر گہرا اثر پڑتا ہے، انسان جس ماحول میں آنکھیں کھولتا ہے وہاں کے غلط رسم رواج کو بھی بہتر سمجھنے لگتا ہے،  وہ  یہ سوچتا ہے کہ ہمارے آباء واجداد جو کام کرتے آئے ہیں وہ آخر غلط کیسے ہوسکتا ہے ۔ یہیں سے انحراف شروع ہوتاہے، لیکن سلیم طبیعتیں حق کی متلاشی ہوتی ہیں، رسم ورواج کی پابند نہیں ہوتیں ۔
ذیل کے سطورمیں ایک ایسے ہی حق کے جویا کی کہانی پیش خدمت ہے جنہوں نے تلاش حق کی راہ میں ماں باپ  کے دین کو رکاوٹ بننے نہیں دیا، اورہرطرح کی قربانیاں پیش کیں بالآخر حق کو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کہانی اس انسان کی کہانی ہے جو عربی نہیں لیکن صحبت رسول ﷺ سے فیضیاب ہوئے، اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں اہل بیت کی طرف منسوب کیا ،صحابہ میں سب سے لمبی عمر پائی ، حضرت علی رضى الله عنہ نے انہیں امت محمدیہ کا لقمان حکیم کہا ، جنہوں نے ساٹھ حدیثیں بیان کیں ، جنہوں نے خندک کی جنگ میں اللہ کے رسول ﷺ کو خندق کھودنے کا مشورہ دیا ۔  یہ ہیں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ۔
اس کہانی کوجب بھی میں نے پڑھا ہے جذبات سے بے قابوہوگیا ہوں اورآنکھیں بے ساختہ نم ہوگئیں  ہیں ۔ہماری خواہش ہوگی کہ دل اوردماغ حاضر کرکے اسے بغور پڑھیں ۔اس قصہ کوامام مسلم اورامام احمد نے بیان کیا ہے، تولیجئے ان کا قصہ انہیں کی زبانی پڑھئے، وہ کہتے ہیں:
”میں پارسی مذہب پر تھا، میرا تعلق اصفہان کی ایک بستی جیّ سے تھا ، میرے والدگاؤں کے بہت بڑے زمیندار تھے، میں ان کی نظرمیں بیحد محبوب تھا ،مجھ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ انہوں نے مجھے گھر میں روک رکھا تھا جیسے دوشیزائیں روک کررکھی جاتی ہیں ۔  میں نے مجوسی مذہب کے حصول میں محنت کی حتی کہ ہمہ وقت آگ سلگائے رکھتا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اسے گل ہونے نہ دیتا ، میرے والد کی ایک بہت بڑی جاگیر تھی ، ایک دن وہ کسی تعمیر میں مشغول ہوگئے اورمجھ سے کہا کہ : بیٹے ! میں آج کسی کام میں مشغول ہوگیا ہوں تم جاؤکھیت کی دیکھ ریکھ کرنا ، میں کھیت کی طرف نکلا ، راستے میں میرا گذر عیسائیوں کے ایک چرچ سے ہوا ،میں نے اس میں ان کی عبادت کی آوازیں سنیں، مجھے اس سے قبل لوگوں کے معاملات سے واقفیت نہیں تھی کہ میرے باپ نے مجھے گھر میں قید کر رکھا تھا ، جب میں ان کے پاس سے گذرا اوران کی آوازیں سنیں تو اندر داخل ہوا کہ دیکھوں وہ کیا کرتے ہیں ، جب میں نے انہیں دیکھا تو ان کی نماز مجھے پسند آگئی ،اوران کے تئیں میری دلچسپی بڑھتی گئی، میں نے کہا : اللہ کی قسم! یہ اس دین سے بہتر ہے جس پر ہم لوگ ہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے پاس بیٹھا رہا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، میں نے اپنے باپ کے کھیت کو بھی چھوڑدیا اور وہاں نہ جاسکا۔  میں نے ان سے پوچھا : اس دین کی بنیاد کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : شام میں ۔
پھر میں اپنے باپ کے پاس پہنچا ،اس سے پیشتروہ مجھے تلاشنے کے لیے ایک آدمی بھیج چکے تھے تاہم میں ان کے کام پرتو تھانہیں کہ ملتا ،جب گھر آیا تو والد نے مجھ سے پوچھا : بیٹے : کہاں تھے ،  میں نے توتمہیں کھیت کے کام پر  بھیجا تھا ۔ میں نے کہا : ابوجان !بات یہ ہے کہ میرا گذر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو چرچ میں عبادت کررہے تھے ،میں نے ان کے دین میں جو کچھ دیکھا ہے مجھے بہت پسند آیا ، اورمیں دن بھر انہیں کے پاس رہا حتی کہ سورج غروب ہوگیا ۔ میرے والدنے کہا: بیٹے ! ان کے دین میں کوئی بھلائی نہیں ، تمہارا اورتمہارے آباء واجداد کا دین ان کے دین سے بہت بہتر ہے ۔  میں نے کہا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم !ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے ۔ یہ سن کر انہیں خوف لاحق ہوگیا ،انہوں نے میرے پیروںمیں آہنی زنجیریں ڈال دیں ،اورمجھے گھر میں قید کردیا ۔  میں نے عیسائیوں کے پاس آدمی بھیجا اوران سے کہا کہ اگر تمہارے پاس شام کا کوئی تجارتی قافلہ آئے تو مجھے ان کی بابت بتانا، چنانچہ ایک بار ان کے پاس شام سے عیسائیوں کا ایک قافلہ آیا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی، میں نے ان سے کہا : جب وہ ضرورت پوری کرلیں اوراپنے ملک لوٹنے کا ارادہ کریں تو  مجھے مطلع کرنا۔  جب انہوں نے اپنے ملک لوٹنے کا ارادہ کیا تو میں نے پیر سے آہنی زنجیریں اتاریں اوران کے ہمراہ نکل پڑا ،یہاں تک کہ شام پہنچ گیا ۔ شام پہنچنے کے بعد میں نے لوگوں سے دریافت کیاکہ مجھے  اس دین کے افضل آدمی کی بابت بتائیں  ؟  لوگوں نے کہا کہ : چرچ کا فلاں پادری ، میں اس کے پاس آیا اوراس سے کہا : میں اس دین سے رغبت رکھتا ہوں،اورمیری خواہش ہے کہ آپ کے ہمراہ رہ کر چرچ کی خدمت کروں، آپ سے سیکھوں اورآپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: میرے پاس آجاؤ اور میں ان کے پاس رہنے لگا ۔ تاہم پادری برا انسان تھا ، لوگوں کو صدقہ کا حکم دیتا اوراس کی ترغیب دلاتا، جب لوگ اس کے پاس مال جمع کرتے تو اسے اپنے لیے سمیٹ لیتا اورغرباء و مساکین میں بالکل تقسیم نہیں کرتا تھا ،حتی کہ اس نے سونے کے سات بڑے مٹکے جمع کرلی تھی، یہ عمل دیکھ کرمجھے اس سے سخت نفرت سی ہوگئی  ، پھر کچھ دنوں بعد وہ مرگیا ،لوگ اسے دفن کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے تو میں نے ان سے کہا : یہ براانسان تھا ،تم کو صدقے کا حکم دیتا اوراس کی ترغیب دلاتا  تھا ،جب تم اس کے پاس صدقے لے کر آتے تو وہ انہیں اپنے لیے سمیٹ لیتا اورغرباء ومساکین کو کچھ بھی نہ دیتا تھا ،لوگوں نے کہا : تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ میں نے کہا : میں تمہیں اس کے خزانے کا پتہ بتاتا ہوں، انہوں نے کہا کہ بتاؤ، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا اورخزانے کی جگہ بتادی ،انہوں نے وہاں سے سات مٹکے سونے اورچاندی کے نکالے ،جب انہوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے : واللہ ! اسے ہم ہرگز دفن نہ کریں گے، پھر انہوں نے اسے سولی پر لٹکاکر سنگسار کردیا ۔
اس کے بعدایک دوسرے آدمی کو اس کی جگہ پر رکھا ، میں نے دیکھا کہ وہ سب سے افضل انسان ہے ،پنچوقتہ نمازوں کاپابند، دنیاسے بے نیاز ، آخرت کا  طلبگار اور شب وروز عبادت میں لگا رہتا ہے، میں اس سے بہت محبت کرنے لگا، اس سے قبل میں نے ویسے کسی سے محبت نہیں کی تھی ، میں ایک زمانہ تک اس کے پاس ٹھہرا رہا ، پھر اس کی وفات کا وقت قریب آگیا تو میں نے اس سے کہا : اے فلاں! میں آپ کے ساتھ تھا اورآپ سے بیحد محبت کرتا تھا ،اس سے پیشتر میں نے آپ سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کی،آپ کی وفات قریب ہے،اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں اورکیا حکم فرماتے ہیں ؟ اس نے کہا : بیٹے! اللہ کی قسم ! میں جس مشن پر ہوں میں نہیں جانتا کہ لوگ اس پرآج قائم ہیں، اچھے لوگ گذر گئے، لوگوں نے دین عیسوی میں تبدیلی  پیدا کرڈالی  اور اکثرتعلیمات کو چھوڑ بیٹھے البتہ موصل میں ایک آدمی ہے جو میرے مشن پرقائم ہے اس کے پاس چلے جاؤ۔
اس کی وفات  اور تجہیزوتکفین کے بعد میں موصل کے پادری کے پاس چلا گیا، وہاں جاکر میں نے اس سے کہا : “اے فلاں! فلاں نے اپنی موت کے وقت مجھے آپ کی صحبت اختیار کرنے کی وصیت کی تھی ، اوریہ اطلاع دی تھی کہ آپ ان کے مشن پر ہیں “۔ انہوں نے کہا : میرے پاس ٹھہرجاؤ، چنانچہ میں ان کے پاس ٹھہر گیا، میں نے اس کو بھی بہتر آدمی پایا ،لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ بھی مرگیا، جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو میں نے کہا : اے فلاں! فلاں نے مجھے آپ کے پاس آنے کے وصیت کی تھی، ابھی آپ کے پاس پیام اجل آچکا ہے،تو آپ مجھے کس کے پاس جانے کا صلاح دیتے اورکیاحکم فرماتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : بیٹے ! میں کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا جو ہمارے مشن پر قائم ہو سوائے نصیبین کے فلاں آدمی کے، لہذا تم اس کے پاس چلے جانا۔ جب وہ مرگیا اوراس کی تدفین ہوچکی تو میں نصیبین کے پادری کے پاس چلاآیا اوراپنے بارے میں اور پہلے پادری نے جوکچھ کہاتھا اس سے متعلق بتایا تو اس نے کہاکہ میرے پاس ٹھہر جاؤ ، چنانچہ میں اس کے پاس ٹھہر گیا ، میں نے اسے بھی پہلے دونوں پادریوں جیسے پایا ، میں نے ایک بہترانسان کے پاس قیام کیا، لیکن کچھ دنوں بعد اسے بھی موت آگئی، موت سے پہلے میں نے اس سے کہا : اے فلاں ! فلاں نے آپ کے پاس مجھے آنے کی وصیت کی تھی اب آپ اپنے بعدمجھے کس کے پاس جانے كى وصیت کرتے ہیں، اورکیا حکم فرماتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیٹا ! اللہ کی قسم کوئی آدمی ایسا باقی نہیں رہا  جو ہمارے مشن پر ہو سوائے عموریہ میں ایک آدمی کے جو ہمارے مشن پر قائم ہے اگر چاہوتو اس کے پاس چلے جاؤ۔
اس کی وفات  اور تجہیزوتکفین کے بعد میں عموریہ کے پادری کے پاس آیا اوراپنے متعلق بتایا تو  اس نے مجھے کہا کہ میرے پاس ٹھہر جاؤ، چنانچہ میں اس کے پاس ٹھہر گیا ، وہ بھی اپنے پہلے ساتھیوں کے جیسے تھا ،  وہاں میں نے کچھ کاروبار کیا حتی کہ میرے پاس بہت سی بکریاں اورگائیں ہوگئیں ،پھر اس کا اجل بھی آپہنچا ، تو  میں نے اس سے کہا : اے فلاں میں فلاں کے ساتھ تھا ،اس نے مجھے فلاں کے پاس بھیجا ، پھر فلاں نے مجھے فلاں کے پاس بھیجا ، پھر فلاں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ، اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے اورکیا حکم فرماتے ہیں ؟ اس نے کہا : بیٹا ! اللہ کی قسم میں کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا  جو ہمارے مشن پر قائم ہواوراس کے پاس جانے کی میں تجھے وصیت کروں،البتہ ابھی آخری نبی کے آنے کا  زمانہ قریب  ہے جو دین ابراہیمی کے ساتھ بھیجے جائیں گے ، عرب کی سرزمین میں آئیں گے ،وہ سیاہ رنگ کے پتھر والی سرزمین ہوگی اوروہاں کھجور کی کھیتی ہوتی ہوگی ،اس کے ساتھ کھلی نشانیاں ہوں گی ،  وہ ہدیہ کھائیں گے، صدقہ نہیں کھائیں گے ، ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی ۔ اگر اس سرزمین میں پہنچ سکتے ہوتو پہنچ جاؤ۔
اس کی وفات  اور تجہیزوتکفین کے بعد میں عموریہ میں ایک مدت تک ٹھہرا رہا ، پھر بنو کلب کاایک تجارتی قافلہ عرب جارہاتھا  تو میں نے ان سے کہا : مجھے اپنے ساتھ عرب کی سرزمین پر پہنچا  دو  میں تمہیں یہ ساری بکریاں اور گائیں دے دوں گا ،انہوں نے حامی بھرلی، میں نے انہیں ساری بکریاں اورگائیں دے دیں ،اوروہ مجھے اپنے ساتھ لے آئے ،جب وادی القری پہنچے تو انہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور ایک یہودی سے مجھے بیچ دیا ، اب میں یہودی کا غلام بن گیا ،البتہ جب میں نے کھجورکےد رخت دیکھا تو مجھے امید ہونے لگی کہ شایدیہ وہی سرزمین ہے جس کی بابت  ہمارے (عموریہ کے پادری ) ساتھی نے پیشین گوئی کی ہے ۔میں اسی یہودی کے پاس تھا کہ ایک دن اس یہودی کا عم زادآیا جو مدینہ میں بنوقریظہ سے تعلق رکھتا تھا ،اس نے مجھے اپنے چچا سے خریدلیا ،اورمدینہ لے کر آگیا ،اللہ کی قسم جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی پیشین گوئی کے بالکل موافق پایا ،وہاں میں ٹھہر گیا ،ادھر اللہ تعالی نے اپنے رسول کو مبعوث فرمایااورآپ مکہ میں سالوں تک ٹھہرے رہے تاہم میں نے آپ کا نام تک نہیں  سنا کہ میں غلامی کے باعث مشغول تھا، پھر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ ایک دن میں اپنے  مالک کے نخلستان  میں  کام کررہا تھا ،اورمیرا مالک وہیں کھڑا تھا ،کہ اسی اثناءاس کا عم زادآیا اور اس کے پاس ٹھہر کر کہنے لگا : نبوقیلہ کی تباہی آگئی ،اللہ کی قسم یہ لوگ قباءمیں ایک آدمی پر اکٹھا ہورہے ہیں جو آج مکہ سے آیاہے جودعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ یہ سنتے ہی  میں جذبات سے بے قابوہوگیا اورمجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے مالک پر گر جاؤں گا ،میں کھجورکے درخت سے فورا اترا اوراس کے عم زادے سے کہنے لگا : کیا کہہ رہے ہو تم؟ یہ دیکھ کر میرا مالک مجھ پر سخت غصہ ہوا ،ایک طمانچہ رسیدکیا ،اورکہا : چلو جاؤ،  اپنا  کام کرو ،تم کو اس سے کیا مطلب ۔ میں نے کہا : کوئی بات نہیں ،میں تو صرف اس کی بات کی تصدیق چاہتا تھا ۔ میں نے اس دن شام میں کچھ کھجوریں جمع کیں اورانهیں لے کر اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گیا ،اس وقت آپ قباءمیں تشریف رکھتے تھے، میں آپ کے پاس آیا ، اورآپ سے کہا : مجھے اطلا ع ملی ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب حاجت مند ہیں، میرے پاس کچھ صدقہ کی کھجوریں تھیں،میں نے سمجھاکہ دوسروں کی بنسبت آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔میں نے اسے آپ کے قریب کیا ،تو آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”کھاؤ “تاہم آپ نے ہاتھ روک لیا ، تناول نہیں فرمایا۔  میں نے اپنے دل میں کہا: یہ پہلی نشانی ہوئی، پھر میں آپ کے پاس سے آگیا ۔
دوسرے دن کچھ کھجوریں جمع کی،جب تک اللہ کے رسولﷺ مدینہ آچکے تھے ،میں مدینہ میں آپ کے پاس آیا اورآپ سے کہا : میں نے دیکھاکہ آپ صدقہ نہیں کھاتے تویہ ہدیہ آپ کے لیے لے کرآیا ہوں،قبول فرمائیں ۔ چنانچہ آپ ﷺنے اس میں سے کھایااوراپنے اصحاب کو حکم فرمایا،چنانچہ انہوں نے بھی اس سے  تناول فرمایا۔ میں نے دل میں کہا : یہ دوسر ی نشانی پوری ہوئی ۔
پھر میں تیسری بار آیا تو آپ ﷺ مقام بقیع میں اپنے کسی ساتھی کے جنازے میں شریک تھے، آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے تھے ،آپ پردوچار تھی، ایک پہن رکھی تھی اوردوسری اوڑھ رکھی تھی، میں نے آپ کو سلام کیا ،پھر آپ کے پیچھے سے آپ کی مہر نبوت کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا جس کے متعلق میرے ساتھی نے بتایاتھا ،جب اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے پیچھے میں دیکھا کہ تو سمجھ گئے کہ شاید مجھے جو چیزبتائی گئی ہے اس کی تحقیق چاہتا ہوں، چنانچہ آپ نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹادی ۔ میں نے مہرنبوت کو دیکھتے ہی آپ کو پہچان لیا ،اورلپک کر اسے بوسہ لینے لگا اوررونے لگا ،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سامنے آؤ ،میں سامنے آیا اورآپ کو اپنا پوراقصہ کہہ سنایا، آپ نے  میرے قصہ کوبہت پسندکیا اور فرمایاکہ صحابہ کرام کو بھی یہ قصہ سناؤ۔ پھر میں غلامی کی وجہ سے مشغول ہوگیا،یہاں تک کہ بدراوراحد کی جنگ میں شریک نہ ہوسکا ۔
ایک دن اللہ کے رسول ﷺ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: سلمان ! اپنے مالک سے مکاتبت کرلو ،( مخصوص رقم کے عوض آزادی کے لیے مالک سے معاہدہ کرنے کومکاتبت کہتے ہیں) ،چنانچہ میں نے اپنے  مالک سے تین سوکھجورکے پودے لگانے اورچالیس اوقیہ سونا  پر مکاتبت کرلیا ،  اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، چنانچہ سب نے میری مدد کی ،کوئی تیس پودےلارہا ہے تو کوئی بیس پودے لارہا ہے ،کوئی پچیس پودے لارہا ہے ،توکوئی دس پودے لارہا ہے۔ غرضیکہ جس سے جتنا  ہوسکا  لاکر پیش کردیا ،یہاں تک کہ تین سو پودے جمع ہوگئے ،اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ کھیت میں جاتے ہیں اوراپنے ہاتھ سے اسے لگاتے ہیں ۔ اللہ کی شان کے سارے پودے کامیاب نکل گئے، پھر ایک دن اللہ کے رسول ﷺ کے پاس مرغی کے انڈے کے برابر سونے کا ڈھیلا آیا ،آپ ﷺنے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اوران کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ اپنے  مالک کو وزن کرا دو ۔ اسے لے کر گئے اور وزن کرایا  تو سونے کا  وہ  ڈھیلا چالیس اوقیہ سے زیادہ ہوا اور اس طرح حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے یہودی کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے  ہیں کہ اس کے بعد میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ خندق میں شریک ہوا ، پھر کوئی جنگ فوت نہ ہوئی ۔
عزیزقاری ! یہ ہیں حق کے متلاشی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو حق کی کھوج میں ماں باپ کی محبت کو خیرباد کہتے ہیں،عیش وآرام کی زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہیں، ہمت اس قدر بلند ہے کہ اعلی صفات کے حامل مربی کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں،اوراس کے لیے مختلف جگہوں کی خاک چھانتے ہیں،اسی راہ کی تلاش میں غلامی کی زنجیر میں جکڑ دئیے جاتے ہیں ،لیکن ہمت نہیں ہارتے ،بالآخر گوہر مطلوب ملتا ہے ، اورشرف صحابیت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔آج کتنے ایسے لوگ ہیں جو ایرے غیرے نتھوخیرے کے پیچھے چل کراپنے ایمان کو برباد کررہے ہیں ،انہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہوئے کتاب وسنت کا گہرا علم رکھنے والے عالم سے رجوع کرنا چاہیے اورتلاش حق کی راہ میں خاندانی روایت کو حائل نہیں ہونے دیناچاہیے۔اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ، اوراللہ کی رحمت ہو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں