تحریر: حافظ شیر محمد
اللہ تعالی فرماتا ہے: وَاعبدواللہ ولا تشرکو ا بہ شیٔاً وبالوالدین احسانا
اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (اپنے)والدین سے احسان (نیک سلوک) کرو(النساء:۳۶)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ووصیناالإنسان بوالدیہ احسانا
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھاحسان (نیک سلوک) کا حکم دیا ہے (العنکبوت:۸)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کون سا کام سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ فرمایا: نماز اپنے (اول) وقت پر پڑھنا(میں نے)پوچھا: پھر کون سا عمل (پسندیدہ) ہے ؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا، پوچھا: پھر کیا ہے؟فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا(صحیح البخاری: ۵۲۷و صحیح مسلم:۸۵)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وسا حبھما فی الدنیا معروفا
اگر وہ(تیرے والدین) میرے ساتھ شرک کرنے کے لئے جس کا تیرے پاس علم نہیں تجھے مجبور کریں، تو ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ۔(لقمان:۱۵)
اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے:
اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے:
۱: شرک کرنا حرام ہے۔
۲: اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی میں والدین کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
۳: جو بات کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے اُس میں والدین کی اطاعت کرنی چاہیئے۔
نبی ﷺ نے عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کو حکم دیا تھا کہ :
‘‘اطع أباک مادام حیاً ولا تعصہ’’
جب تک تمہارا باپ زندہ ہے اُس کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی نہ کرنا(مسند احمد ۲؍۱۲۵ح ۲۵۳۸و سندہ صحیح)
ان تمام دلائل کے خلاف منکرِ حدیث پرویز صاحب والدین کے حقوق کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
“تیسرا افسانہ: ماں باپ کی اطاعت فرض ہے۔اسی سلسلہ میں ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ کی اطاعت فرض ہے”(عالمگیر افسانے ص ۱۷ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام گلبرگ لاہور )
پرویز کی اس بات کا باطل ہونا ہر مسلمان پر واضح ہے و الحمدللہ۔
تنبیہ: کتاب و سنت کی مخالف میں والدین ہوں یا حکمران یا کوئی بھی، کسی کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، إنما الطاعۃ فی المعروف’’
اللہ کی نافرمانی میں (کسی کی ) کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو معروف(کتاب و سنت کے مطابق) میں ہے(صحیح مسلم : ۸۴۰ادار السلام: ۴۷۶۵و صحیح البخاری: ۷۲۵۷)
ایک روایت میں آیا ہے کہ: ‘‘ رضی الرب فی رضی الوالدو وسخط الرب فی سخط الوالد’’
رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی، والد کی ناراضی میں ہے( الترمذی: ۱۸۹۹ و سندہ صحیح، ابن حبان ، الموارد: ۲۰۲۶، الحاکم فی المستدرک ۴؍۱۵۶،۱۵۱ح۷۲۴۹وصححہ علی شرط مسلم و وافقہ الذہبی)
ایک آدمی نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ: میں کس کے ساتھ اچھا برتاؤ کروں؟ فرمایا: اپنی ماں کےساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، اس نے پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ(صحیح البخاری: ۵۹۷۱و صحیح مسلم:۲۵۴۸)
جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ :‘‘فالزمھافإن الجنۃ تحت رجلیھا’’
پس اپنی ماں کی خدمت لازم پکڑو، کیونکہ جنت اُن کے قدموں کے نیچے ہے(سنن النسائی ۶؍۱۱ح۳۱۰۶و اسنادہ صحیح)
ماں باپ کی، معروف(کتاب و سنت کے مطابق باتوں) میں نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا::
‘‘الإ شراک باللہ و عقوق الوالدین و قتل النفس وشھادۃ الزور’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی (بے گناہ) انسان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا(البخاری:۲۶۵۳مسلم:۸۸)
ابی بن مالک العامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘‘من أدرک والدیہ أوأحدھما ثم دخل النار من بعد ذلک فأبعدہ اللہ وأسحقہ’’
جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے ایک (والد یا والدہ) کو (زندہ) پائے پھر اس کے بعد(ان کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے ) جہنم میں داخل ہو جائے تو اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور وہ اس پر ناراض ہے۔(مسند احمد۴؍۳۴۴ح۱۹۲۳۶وسندہ صحیح)
خلاصہ: والدین کےساتھ حسنِ سلوک اور معروف میں ان کی اطاعت فرض ہے۔ا پنے رب کو راضی کرنے کے لئے اپنے والدین سے محبت کریں، جہاد اگر فرض عین نہ ہو تو والدین کے لئے چھوڑا جا سکتا ہے۔ وما علینا إلا البلاغ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں