اسلام میں عبادت کیلئے کیا شروط ہیں؟
الحمد للہ:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
1- عبادت کرنے کے اسباب شریعت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں، چنانچہ کوئی بھی انسان کسی بھی غیر شرعی سبب کی بنا پرعبادت کرے تو ایسی عبادت مردود ہوگی، کیونکہ اس کے بارے میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں ہے، اس کی مثال: جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ستائیس رجب کی رات کا جشن ہے،لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کیلئے آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے، یہ دونوں جشن شریعت سے متصادم ہیں اس لیے مردود ہیں، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1. تاریخی اعتبار سے بالکل بھی ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج رجب کی ستائیس تاریخ کو ہوا تھا، ہمارے سامنے ذخیرہ حدیث موجود ہے، ان میں ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج 27 رجب کو ہوا تھا، یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا علم ہمیں صرف صحیح سند کے ساتھ ثابت شدہ احادیث سے ہی گا، لیکن ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔
2. اور بفرض محال اگر یہ مان بھی لیں کہ اسی رات کو معراج ہوا تھا تو کیا ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ اس دن کو جشن کا دن بنا لیں؟ بالکل نہیں،
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور انصار کو دیکھا کہ وہ دو دنوں [نو روز، شہروز]میں خوشی مناتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے بہتر دن عطا فرمائے ہیں) پھر آپ نے انہیں عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں بتلایا۔
یہاں سے ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں تین عیدوں یعنی دو سالانہ عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی اور ایک ہفت روزہ عید یعنی جمعہ کا دن اس کے علاوہ کسی بھی دن کے منانے کو اچھا نہیں سمجھا ہے، لہذا اگر کوئی ثابت کر بھی دے کہ معراج کی رات 27 رجب کو ہی تھی -اگرچہ یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے- تو پھر بھی ہمارے لئے اس رات کو شارع علیہ السلام کی اجازت کے بغیر کوئی جشن منانے کی گنجائش نہیں ہے۔
جیسے کہ میں پہلے بتلا چکا ہوں کہ بدعات کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، اور بدعات کے دلوں پر اثرات بھی بہت گہرے ہوتے ہیں؛ اگرچہ وقتی طور پر انسان اپنی دل میں نرمی اور رقت محسوس کرتا ہے لیکن بعد میں اس کا معاملہ الٹ ہی نکلتا ہے، کیونکہ گناہ کی وجہ سے دل میں مسرت دائمی نہیں ہو سکتی، بلکہ کچھ ہی دیر بعد دل ملامت اور ندامت سے بھر جاتا ہے۔
بدعات کی جتنی بھی اقسام ہیں یہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جد و جہد پر قدغن ہیں؛ کیونکہ ان بدعات کا مطلب یہ بنتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت مکمل نہیں فرمائی، حالانکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ:
{اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر کے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔[المائدة : 3]
یہاں قابل تعجب بات یہ بھی ہے کہ ان بدعات میں ملوّث لوگ ان کے انعقاد کا بہت زیادہ خیال کرینگے، حالانکہ اس کے علاوہ دیگر واجب اور فرائض میں بالکل سست روی اور کاہلی کا شکار ہونگے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ 27 رجب کو جشن منانا کہ اس رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کروایا گیا تھا یہ بدعت ہے؛ کیونکہ اس جشن کا سبب ایسا ہے جو شریعت میں نہیں بتلایا گیا۔
2- عبادت کی نوعیت شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر کوئی انسان گھوڑے کی قربانی کرنا چاہے، تو قربانی کی یہ نوعیت شریعت سے متصادم ہوگی، کیونکہ قربانی صرف گھریلو پالتو جانوروں میں ہوتی ہے اور وہ بھی صرف اونٹ، گائے، اور بکری کی نسل سے۔
3- عبادت کی مقدار شریعت کے مطابق ہو
مثلاً: اگر کوئی شخص ظہر کی نماز چار رکعت کی بجائے چھ رکعت پڑھے ، تو کیا اس کی عبادت شریعت کے مطابق ہوگی؟ کبھی نہیں! کیونکہ شریعت میں ظہر کی فرض نماز چار رکعت ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص نماز کے بعد "سُبحان اللَّہ" ، "الحمد للہ" اور "اللہ اکبر" 33 بار پڑھنے کی بجائے 35 بار پڑھتا ہے تو کیا اس کا یہ طریقہ درست ہوگا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: اگر وہ اللہ کی عبادت کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ غلط کر رہا ہے، اور اگر وہ اضافی ذکر کے بارے میں نظریہ یہی رکھتا ہے کہ یہ سنت نہیں ہے، سنت 33 بار ہی ہے ، اضافی ذکر الگ سے ہے، تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس نے سنت تعداد کو اضافی تعداد سے الگ کر دیا ہے۔
4- عبادت کی کیفیت شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک عبادت نوعیت، تعداد، اور اسباب کے اعتبار سے شریعت کے بالکل مطابق کر رہا ہے، لیکن اس کی کیفیت شریعت سے مطابقت نہیں رکھتی تو پھر بھی اس کی عبادت درست نہیں ہوگی، عملی مثال یوں سمجھیں کہ: ایک شخص کا وضو ٹوٹ گیا، چنانچہ اس نے وضو کرنے کیلئے پہلے پاؤں دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، اس کے بعد ہاتھ دھوئے، پھر چہرہ دھویا، تو کیا اس طرح اس کا وضو درست ہوگا؟ بالکل نہیں! کیونکہ اس نے وضو کرتے ہوئے کیفیت کا بالکل خیال نہیں رکھا۔
5- عبادت کا وقت شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص رمضان کے روزے شعبان میں رکھنا چاہے، یا شوال میں رکھنا چاہے، اسی طرح ظہر کی نماز زوال سے پہلے پڑھنے کی کوشش کرے، یا سایہ دو مثل ہونے کے بعد ظہر پڑھے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی، کیونکہ زوال سے پہلے والی نماز وقت شروع ہونے سے پہلے پڑھی، اور سایہ دو مثل ہونے کے بعد پڑھی ہوئی نماز وقت گزرنے کے بعد ادا کی ہے۔
اس لیے ہم یہ کہیں گے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے نماز چھوڑ دے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، چاہے ہزار بار ادا کر لے۔
یہاں ہم ایک اور اصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ: اگر کسی انسان نے کوئی بھی عبادت جان بوجھ کر اس کے مقررہ وقت میں اد ا نہ کی اور عبادت کیلئے مقررہ وقت ضائع کر دیا تو اب اسکی عبادت قبول نہیں ہوگی، بلکہ مردود ہوگی۔
اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی شخص ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے)
6- عبادت کرنے کی جگہ شریعت کے مطابق ہو
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یوم عرفہ کا وقوف مزدلفہ میں کرے ، تو اس کا وقوف درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ وقوفِ عرفہ اپنی اصل جگہ پر نہیں ہوا، اسی طرح اگر انسان اپنے گھر میں ہی اعتکاف بیٹھ جائے تو یہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ اعتکاف کی جگہ مسجد ہے؛ یہی وجہ ہے کہ عورت کا گھر میں اعتکاف درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ گھر اعتکاف بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی ازواج مطہرات کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے اپنے خیمے مسجد میں لگوا لیے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے خیمے اکھڑوا دیے اور اعتکاف نہیں بیٹھے، اور نہ ہی اپنی ازواج مطہرات کو گھروں میں اعتکاف کرنے کی رہنمائی فرمائی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کیلئے اعتکاف کی جگہ گھر نہیں ہے اور یہ شریعت سے متصادم عمل ہے۔
چنانچہ عبادت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کیلئے ان چھ چیزوں میں اتباع کا ہونا ضروری ہے:
1- عبادت کا سبب
2- نوعیت
3- مقدار
4- کیفیت
5- وقت
6- جگہ
واللہ اعلم.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں