الحمد للہ:
اس حالت ميں نمازى كے ليے رومال اور ٹيشو پيپر وغيرہ استعمال كرنا جائز ہے، علماء كرام رحمہ اللہ نے ضرورت كے وقت نماز كى حالت ميں تھوڑى سى حركت كر لينے كو جائز قرار ديا ہے، جيسا كہ امام نووى رحمہ اللہ تعالى كى كتاب " المجموع " ( 4 / 94 ) ميں ہے.
اور انہوں نے بہت سى احاديث سے استدلال كيا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں دى جاتى ہيں:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو نماز پڑھا رہے تھے كہ انہوں نے اچانك جوتے اتار كر اپنے بائيں جانب ركھ ليے، جب لوگوں نے يہ ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مكمل كى تو فرمانے لگے:
" تمہيں كس چيز نے جوتے اتارنے پر ابھارا ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم نے آپ كو جوتے اتارتے ہوئے ديكھا تو ہم نے بھى اپنے جوتے اتار ديے"
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:
" ميرے پاس جبريل عليہ السلام تشريف لائے اور مجھے بتايا كہ ان جوتوں ميں گندگى لگى ہوئى ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى مسجد ميں آئے تو وہ اپنے جوتے ديكھے اگر اس نے اپنے جوتے ميں كوئى گندگى وغيرہ ديكھى تو اسے رگڑے اور ان ميں نماز ادا كر لے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 650 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 605 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ تعالى " معالم السننن " ميں كہتے ہيں:
اس حديث ميں ہے كہ عمل يسير نماز كو نہيں توڑتا. اھـ
ديكھيں: المعالم السنن ( 2 / 329 ).
اور جب نماز ميں انسان كو كھنگار اور بلغم وغيرہ تھوكنے كى ضرورت ہو مثلا جسے زكام وغيرہ لگا ہو تو وہ ٹيشو پيپر نكال كر اس ميں تھوك سكتا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دوران نماز ايسا كرنا ثابت ہے، امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں ابو ہر يرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد كى قبلہ رخ بلغم ديكھى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا:
" تم ميں سے كسى ايك كو كيا ہو گيا ہے كہ وہ اپنے رب كى طرف متوجہ ہو كر اپنے سامنے بلغم نكال پھينكتا ہے، كيا تم ميں سے كسى كو يہ پسند ہے كہ اس كے چہرے ميں بلغم پھينكى جائے؟
جب تم ميں سے كسى ايك كو كھنگار اور بلغم آئے تو وہ اپنے پاؤں كے نيچے تھوكے، اور اگر وہ ايسا نہ پائے تو وہ اس طرح كرے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے كپڑے ميں تھوكا اور كپڑے كو آپس ميں مل ديا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 855 ).
اور كيا وہ دائيں ہاتھ ميں تھوكے يا بائيں ميں؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: اسے بائيں ہاتھ ميں تھوكنا چاہيے كيونكہ شريعت نے دائيں ہاتھ كو ان اشياء كے ليے خاص كيا ہے جو اچھى اور جن ميں تكريم ہوتى ہے، اور بائيں كو ان اشياء كے ليے جو عام طور پر گندى ہوتى ہيں.
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كنگھى كرنے، اورجوتا پہننے ميں اور طہارت كرنے بلكہ ہر كام ميں دائى طرف پسند ہوتى تھى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 395 ).
اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے بھى عائشہ رضى تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا داياں ہاتھ طہارت كرنے اور كھانا كھانے كے ليے تھا، اور ان كا باياں ہاتھ استنجا كرنے اور دوسرى گندى اشياء كے ليے تھا"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 26 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں لكھتے ہيں:
شريعت ميں يہ مستقل قاعدہ ہے كہ: جو كام شرف اور تكريم ميں سے ہو مثلا لباس پہننا اور سلوار زيب تن كرنا اور موزے پہننا، مسجد ميں داخل ہونا، اور مسواك كرنا اور سرمہ ڈالنا، ناخن اور مونچھيں كاٹنا، بالوں كو كنگھى كرنا، بغلوں كے بال اكھاڑنا، سر منڈانا، اور نماز سے سلام پھيرنا، اور وضوء كے اعضاء دھونا، اور بيت الخلاء سے باہر نكلنا، كھانا پينا، اور مصافحہ كرنا، حجر اسود كو بوسہ دينا، اور اس معنى ميں جو كام بھى ہيں اس ميں وہ دائيں طرف سے شروع كرنا مستحب ہے.
ليكن وہ كام جو اس كے مخالف اور ضد ہيں مثلا بيت الخلاء ميں داخل ہونا، مسجد سے نكلنا، بلغم تھوكنا، استنجاء كرنا، كپڑے اتارنا، سلوار اور موزے اتارنا، اور اس كے طرح كے دوسرے كام تو اس ميں بائيں طرف سے كرنا مستحب ہے، يہ سب اس ليے كہ دائيں كى تكريم اور شرف كى بنا پر. واللہ تعالى اعلم. اھـ
ديكھيں: شرح صحيح مسلم للنوو ( 1 / 160 ).
واللہ اعلم .
اس حالت ميں نمازى كے ليے رومال اور ٹيشو پيپر وغيرہ استعمال كرنا جائز ہے، علماء كرام رحمہ اللہ نے ضرورت كے وقت نماز كى حالت ميں تھوڑى سى حركت كر لينے كو جائز قرار ديا ہے، جيسا كہ امام نووى رحمہ اللہ تعالى كى كتاب " المجموع " ( 4 / 94 ) ميں ہے.
اور انہوں نے بہت سى احاديث سے استدلال كيا ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں دى جاتى ہيں:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو نماز پڑھا رہے تھے كہ انہوں نے اچانك جوتے اتار كر اپنے بائيں جانب ركھ ليے، جب لوگوں نے يہ ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز مكمل كى تو فرمانے لگے:
" تمہيں كس چيز نے جوتے اتارنے پر ابھارا ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم نے آپ كو جوتے اتارتے ہوئے ديكھا تو ہم نے بھى اپنے جوتے اتار ديے"
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:
" ميرے پاس جبريل عليہ السلام تشريف لائے اور مجھے بتايا كہ ان جوتوں ميں گندگى لگى ہوئى ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى مسجد ميں آئے تو وہ اپنے جوتے ديكھے اگر اس نے اپنے جوتے ميں كوئى گندگى وغيرہ ديكھى تو اسے رگڑے اور ان ميں نماز ادا كر لے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 650 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 605 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
خطابى رحمہ اللہ تعالى " معالم السننن " ميں كہتے ہيں:
اس حديث ميں ہے كہ عمل يسير نماز كو نہيں توڑتا. اھـ
ديكھيں: المعالم السنن ( 2 / 329 ).
اور جب نماز ميں انسان كو كھنگار اور بلغم وغيرہ تھوكنے كى ضرورت ہو مثلا جسے زكام وغيرہ لگا ہو تو وہ ٹيشو پيپر نكال كر اس ميں تھوك سكتا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دوران نماز ايسا كرنا ثابت ہے، امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں ابو ہر يرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد كى قبلہ رخ بلغم ديكھى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا:
" تم ميں سے كسى ايك كو كيا ہو گيا ہے كہ وہ اپنے رب كى طرف متوجہ ہو كر اپنے سامنے بلغم نكال پھينكتا ہے، كيا تم ميں سے كسى كو يہ پسند ہے كہ اس كے چہرے ميں بلغم پھينكى جائے؟
جب تم ميں سے كسى ايك كو كھنگار اور بلغم آئے تو وہ اپنے پاؤں كے نيچے تھوكے، اور اگر وہ ايسا نہ پائے تو وہ اس طرح كرے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے كپڑے ميں تھوكا اور كپڑے كو آپس ميں مل ديا"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 855 ).
اور كيا وہ دائيں ہاتھ ميں تھوكے يا بائيں ميں؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: اسے بائيں ہاتھ ميں تھوكنا چاہيے كيونكہ شريعت نے دائيں ہاتھ كو ان اشياء كے ليے خاص كيا ہے جو اچھى اور جن ميں تكريم ہوتى ہے، اور بائيں كو ان اشياء كے ليے جو عام طور پر گندى ہوتى ہيں.
امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كنگھى كرنے، اورجوتا پہننے ميں اور طہارت كرنے بلكہ ہر كام ميں دائى طرف پسند ہوتى تھى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 395 ).
اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے بھى عائشہ رضى تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا داياں ہاتھ طہارت كرنے اور كھانا كھانے كے ليے تھا، اور ان كا باياں ہاتھ استنجا كرنے اور دوسرى گندى اشياء كے ليے تھا"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 26 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں لكھتے ہيں:
شريعت ميں يہ مستقل قاعدہ ہے كہ: جو كام شرف اور تكريم ميں سے ہو مثلا لباس پہننا اور سلوار زيب تن كرنا اور موزے پہننا، مسجد ميں داخل ہونا، اور مسواك كرنا اور سرمہ ڈالنا، ناخن اور مونچھيں كاٹنا، بالوں كو كنگھى كرنا، بغلوں كے بال اكھاڑنا، سر منڈانا، اور نماز سے سلام پھيرنا، اور وضوء كے اعضاء دھونا، اور بيت الخلاء سے باہر نكلنا، كھانا پينا، اور مصافحہ كرنا، حجر اسود كو بوسہ دينا، اور اس معنى ميں جو كام بھى ہيں اس ميں وہ دائيں طرف سے شروع كرنا مستحب ہے.
ليكن وہ كام جو اس كے مخالف اور ضد ہيں مثلا بيت الخلاء ميں داخل ہونا، مسجد سے نكلنا، بلغم تھوكنا، استنجاء كرنا، كپڑے اتارنا، سلوار اور موزے اتارنا، اور اس كے طرح كے دوسرے كام تو اس ميں بائيں طرف سے كرنا مستحب ہے، يہ سب اس ليے كہ دائيں كى تكريم اور شرف كى بنا پر. واللہ تعالى اعلم. اھـ
ديكھيں: شرح صحيح مسلم للنوو ( 1 / 160 ).
واللہ اعلم .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں