امام الجرح والتعدیل یحیٰی بن معینؒ (۲۳۳-۱۵۸ھ) سے ابوحنیفہ (۱۵۰-۱۸۰ھ) کے متعلق جو اقوال وارد ہوئے ہیں، ان پر تبصرہ پیش خدمت ہے:
۱۔ احمد بن صلت حمانی کہتے ہیں کہ جب ابو حنیفہ کے بارے میں امام یحیٰی بن معین سے پوچھا گیا کہ وہ حدیث میں ثقہ تھے تو آپ نے کہا:
نعم، ثقۃ، ثقۃ، کان واللہ أورع من أن یکذب، وھوأجل قدرامن ذلک۔
‘‘ہاں، وہ ثقہ ہیں، وہ ثقہ ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے سے بری تھے، ان کی شان اس(جھوٹاہونا) سے بلند تھی۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب: ۴۵۰-۴۴۹/۱۳)
تبصرہ:
یہ قول موضوع (من گھڑت) ہے۔ یہ احمد بن صلت کی کارستانی ہے، جو بالاجماع جھوٹا اور وضاع (من گھڑت روایات بیان کرنے والا) تھا۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں:
یضع الحدیث۔
‘‘یہ اپنی طرف سے حدیث گھڑتا تھا۔’’
(الضعفاءولمتروکون:۵۹)
امام ابن حبانؒ کی بھی اس بارے میں یہی رائے ہے۔ (المجروحین:۱۵۳/۱)
امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں:
ومارأیت فی الکذّابین أقلّ حیاء منہ۔
‘‘جھوٹے لوگوں میں سے میں نے اس سے بڑھ کر کم حیا والا آدمی کوئی نہیں دیکھا۔’’
(الکامل لابن عدی:۱۹۹/۱)
امام خطیب بغدادیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں
حدّث بأحادیث، أکثرھا باطلۃ ھو وضعھا، ویحکی أیضا عن بشربن الحارث ویحیٰی بن معین و علیّ ابن المدینّی أخبارا جمعھا بعد أن وضعھا فی مناقب أبی حنیفۃ۔
‘‘اس نے بہت سی ایسی احادیث بیان کی ہیں، جن میں سے اکثر اس نے خود گھڑی ہیں، نیز یہ بشر بن الحارث، امام یحیٰی بن معین اور امام علی بن المدینیؒ سے منسوب اقوال خود گھڑکر امام ابوحنیفہ کے مناقب میں بیان کرتا تھا۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۳/۵)
۲۔ احمد بن عطیہ یعنی احمد بن صلت راوی کہتا ہے کہ امام یحیٰی بن معین نے فرمایا:
کان أبو حنیفۃ ثقۃ، صدوقا فی الحدیث و الفقۃ، مأمونا علی دین اللہ۔
‘‘امام ابو حنیفہ ثقہ تھے، حدیث اور فقہ میں صدوق تھے اور اللہ کے دین پر مامون تھے۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۵۰/۱۳)
تبصرہ:
اس کی سند میں وہی احمد بن صلت جھوٹا اور من گھڑت احادیث واقوال بیان کرنے والا راوی موجود ہے، جس کا ذکر پیچھے ہم کر آئے ہیں۔ امام خطیبؒ یہ قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
أحمد بن الصّلت ھوأحمد بن عطیّۃ، وکان غیر ثقۃ۔
‘‘احمد بن صلت دراصل احمد بن عطیہ ہے اور وہ ثقہ نہیں تھا۔’’
۳۔ امام یحیٰی بن معین کہتے ہیں:
کان أبو حنیفۃ ثقۃ، لا یحدّث بالحدیث إلّا ما حفظ، ولا یحدّث بمالا یحفظ۔
‘‘امام ابو حنیفہ ثقہ تھے، صرف وہ حدیث بیان کرتے، جو یاد ہوتی اور جو یاد نہ ہوتی، وہ بیان نہ کرتے۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
۱۔ اس قول کی سند ‘‘ضعیف’’ ہے۔ اس کے راوی محمد بن احمد بن عصام کے حالات نہیں مل سکے۔ نامعلوم لوگوں کی روایتیں قبول کرنا دین سے خیر خواہی نہیں۔
۲۔ اس قول کے دوسرے راوی محمد بن سعد العوفی کے بارے میں خود امام خطیبؒ فرماتے ہیں:
کان لیّنا فی الحدیث۔
‘‘وہ حدیث میں کمزور تھا۔’’
(تاریخ بغداد للخطیب:۳۲۲/۵)
امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں:
لا بأس بہ۔
‘‘اس میں کوئی حرج نہیں۔’’
(سوالات الحاکم للدارقطنی:۱۷۸)
۴۔ امام یحیٰی بن معین کہتے ہیں:
کان أبو حنیفۃ لا بأس بہ، وکان لا یکذب۔
‘‘ ابو حنیفہ میں کچھ حرج نہیں، وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔’’
(تاریخ بغداد ۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
اس قول کی سند مردود و باطل ہے۔ اس کے راوی احمد بن محمد بن القاسم ابن محرز کی توثیق ثابت نہیں، اس کی راویت سے کسی کی توثیق کیسے ثابت ہوسکتی ہے؟
۵: نیز کہتے ہیں:
أبو حنیفۃ عندنا من أھل الصّدق، ولم یتّھم بالکذب۔
‘‘امام ابو حنیفہ ہمارے ہاں اہل صدق میں سے ہیں، جھوٹ کا الزام ان پر نہیں لگایا گیا۔’’
(سوالات ابن محرز:۲۴۰، تاریخ بغداد:۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
اس قول کی سند بھی مردود و باطل ہے، کیونکہ اس میں وہی علت پائی جاتی ہے، جو اس سے پہلے قول میں تھی کہ احمد بن محمد بن القاسم بن محرزراوی کی توثیق ثابت نہیں۔
۶: امام یحیٰی بن معین سے ایک آدمی نے کہا کہ کیا امام ابو حنیفہ‘‘کذاب ’’ ہے؟
تو آپ نے فرمایا:
کان أبو حنیفۃ أنبل من أن یکذب، کان صدوقا إلّا أن فی حدیثہ ما فی حدیث الشّیوخ۔
‘‘ ابو حنیفہ جھوٹ بولنے سے پاک تھے، وہ سچے تھے، مگر ان کی حدیث میں (خرابی تھی)، جو کہ (بعض) شیوخ کی حدیث میں ہوتی ہے۔’’
(تاریخ بغداد:۳۱۹/۱۳)
تبصرہ:
اس قول کی سند جھوٹی ہے۔ اس کا راوی احمد بن عبدالرحمن بن الجارود الرقی ‘‘کذاب’’ ہے، جیسا کہ خطیب بغدادیؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
فانّہ کذّاب۔
‘‘وہ سخت جھوٹا آدمی ہے۔’’
(تاریخ بغداد:۲۴۷/۲، ترجمۃ محمدبن الحسین البسطامی)
ابن طاہر کہتے ہیں:
کان یضع الحدیث، ویرکّبہ علی الأسانید المعروفۃ۔
‘‘یہ حدیث خود گھڑ کر اسے معروف سندوں سے جوڑ دیتاہے۔’’
(لسان المیزان:۲۱۳/۱)
۷: جعفر بن محمد ابی عثمان الطیالسی کہتے ہیں کہ ہم نے امام یحیٰی بن معین سے سنا اور میں نے ان سے ابویوسف اور ابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا:
أبو یوسف أوثق منہ فی الحدیث، قلت: فکان أبو حنیفہ یکذب؟ قال: کان أنبل فی نفسہ من أن یکذب:
‘‘ابو یوسف حدیث میں ابو حنیفہ سے ثقہ ہے، میں نے عرض کیا، کیا ابوحنیفہ جھوٹ بولتے تھے؟ فرمایا، وہ جھوٹ بولنے سے پاک تھے۔’
’ (تاریخ بغداد:۱۳/، وسندہٗ صحیحٌ)
تبصرہ:
امام یحیٰی بن معین کے اس صحیح قول سے امام ابوحنیفہ کی ثقاہت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ یہ امام یحیٰی بن معین کے نزدیک ابویوسف (ضعیف عند الجمھور) کی توثیقِ نسبی ہے۔
توثیقِ نسبی میں اصول یہ ہوتا ہے کہ جس کی نسبت سے کسی کو اوثق قرار دیا گیاہو۔ اسی امام کے نزدیک اس کا مرتبہ بھی معلوم کرلیا جاتا ہے، پھر راوی پر اس کے مطابق حکم لگایا جاتاہے۔ اب ابویوسف کی توثیقی نسبی کا مرتبہ معلوم کرنے کے لیے اصولی طور پر چاہیے کہ امام یحیٰی بن معین کے دوسرے اقوال سے امام ابو حنیفہ کا حکم معلوم کرلیا جائے، اگر وہ ثقہ ہیں تو ابو یوسف ان سے بڑھ کر ثقہ ہوں گے اور اگر وہ ‘‘ضعیف’’ہیں تو امام ابو یوسف ان سے ‘‘ضعف’’ میں کچھ کم ہوں گے۔
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں کہ ایک راوی اسد بن عمرو ابو المنذر البجلی کے بارے میں امام یحیٰی بن معینؒ فرماتےہیں:
اسد بن عمرو أوثق من نوح بن درّاج۔
‘‘اسد بن عمرو، نوح بن دراج سے ثقہ ہے۔’’
(الجرح والتعدیل: ۳۳۷/۲،وسندہٗ صحیحٌ)
حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ نوح بن دراج‘‘ کذاب ومتروک’’ راوی ہے، خود امام یحیٰی بن معین نے فرمایا ہے:
نوح بن درّاج لیس بثقۃ، کان کذّابا ضعیفا۔
‘‘نوح بن دراج ثقہ نہیں ہے، بلکہ وہ سخت جھوٹا اور ضعیف ہے۔’’
(الجرح والتعدیل: ۴۸۴/۸، وسندہٗ صحیحٌ)
لہٰذا یہاں اسد بن عمرو کو نوح بن دراج ہے اوثق کہنے سے نہ نوح بن دراج کی توثیق لازم آئی ہے اور نہ اسد بن عمرو ثقہ ہوگیاہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسد بن عمرو کا ضعف نوح بن دراج سے کچھ کم ہے، یعنی وہ ‘‘کذاب’’ نہیں، بلکہ ‘‘ضعیف’’ ہے۔
اصولِ حدیث کے مطابق جب امام یحیٰی بن معینؒ کے دوسرے ‘‘صحیح’’ اقوال کو دیکھا جائےتو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ ‘‘ضعیف’’ تھے، جیساکہ ہم آئندہ سطورمیں بیان کرنے والے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر امام یحیٰی بن معین کے اس قول سے امام ابو حنیفہ کی توثیق ثابت ہو رہی تھی تو شاگرد کو یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ کیا امام ابو حنیفہ جھوٹ بولتے تھے؟ کیا ثقہ آدمی جھوٹ بھی بول سکتاہے؟
اب تو قارئین کرام کو بخوبی معلوم ہوگیا ہو گا کہ امام یحیٰی بن معینؒ کے اس قول سے امام ابو حنیفہ کی توثیق کشید کرنا نہایت ہی بے اصولی اور فنِ رجال سے مطلق جہالت کا شاہکار ہے۔
۸۔ حافظ مزیؒ (۷۴۲-۶۵۴ھ) لکھتے ہیں:
وقال صالح بن محمّد الأسدی (جزرۃ) (۲۹۳-۲۰۵ھ) سمعت یحیی بن معین یقول: کان أبو حنیفۃ ثقۃ فی الحدیث۔
‘‘ صالح بن محمد جزرہ نے کہا کہ میں نے امام یحیٰی بن معین کو سنا، وہ فرما رہےتھے کہ ابو حنیفہ حدیث میں ثقہ ہیں۔
(تھذیب الکمال للمزی:۱۰۵/۹)
تبصرہ:
یہ قول بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔
اقوال تضعیف وجرح
امام الجرح و التعدیل یحیٰی بن معینؒ کی امام ابوحنیفہ پر جرح ثابت ہے۔
۱۔ لا یکتب حدیثہ۔
ابو حنیفہ کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔
(الکامل لابن عدی:۶/۷، و فی نسخۃ:۲۴۷۳/۷، تاریخ بغداد للخطیب:۴۵۰/۱۳، المنتظم لابن الجوزی:۱۳۴/۸، وسندہٗ صحیحٌ)
ا۔ اس کے راوی علی بن احمد بن سلیمان المصری،المعرف بعلان(۳۱۰-۲۲۷ھ) کے بارے میں امام ابنِ یونس کہتے ہیں:
وکان ثقۃ کثیر الحدیث، وکان أحد کبراء العدول۔
‘‘آپ ثقہ کثیر الحدیث تھے اور بڑے بڑے عادل لوگوں میں سے ایک تھے۔’’
(سیراعلام النبلاء للذھبی:۴۹۶/۱۴)
خود حافظ ذہبیؒ ان کے بارے میں کہتے ہیں:
الإمام المحدّث العدل۔ ‘‘امام،محدث، عادل۔’’
(سیر اعلام النبلاء للذھبی: ۴۹۶/۱۴)
ان پر جرح کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے۔
ب) اس کے دوسرے راوی (احمد بن سعد بن الحکم) ابن ابی مریم (م ۲۵۳ھ) کے بارے میں امام نسائیؒ فرماتے ہیں:
لابأس بہ۔ ‘‘
اس میں کچھ حرج نہیں۔’’
(تھذیب التھذیب لابن حجر:۲۹/۱)
حافظ ابن حجرؒ نے ‘‘صدوق’’ کہا ہے۔
(تقریب التھذیب لابن حجر:۳۶)
اس سے امام ابوداؤد، امام نسائی اور امام بقی بن مخلد نے روایت لی ہے، کسی نے ان پر جرح نہیں کی، لہٰذا وہ واضح طور پر ثقہ و صدوق ہیں۔
۲۔ قال الإمام العقیلیّ:
حدّثنا محمّد بن عثمان (بن أبی شیبۃ) قال: سمعت یحیٰی بن معین وسئل عن أبی حنیفہ، قال: کان یضعّف فی الحدیث۔
‘‘محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیٰی بن معینؒ سے سنا، ان سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں میں سوال کیا گیا توا نہوں نے فرمایا، وہ حدیث میں ضعیف قرار دئیے گئے ہیں۔’’
(الضعفاء الکبیر للعقیلی:۲۸۵/۴، تاریخ بغداد للخطیب:۴۵۰/۱۳، وسندہٗ صحیحٌ)
محمد بن عثمان بن ابی شیبہ جمہور کے نزدیک ‘‘حسن الحدیث’’ ہیں، ان پر جروح مردود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے استاذِ مکرم، محدث العصر حافظ زبیر علیزئی (جزاہ اللہ عن أھل الحدیث أفضل الجزاء و جزی الحدیث عنہ کذلک) کا مضمون ‘‘ایک مظلوم محدث۔’’
(ماھنامہ الحدیث حضرو،۲۷-۲۰/۴۴)
خوب یاد رہے کہ ہمارے نزدیک ثقہ متقدمین، ائمہ محدثین کی جرح و تعدیل کے متعلق کتابیں میزان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہر ایک راوی کو بلا استثنیٰ اس میزان پر پرکھا جائے گا، ہر قول کی سند کی تحقیق کی جائے گی۔ جو جمہور کے نزدیک ثقہ ہوا، اسی کی روایت قبول ہوگی اور جو جمہور کے نزدیک ‘‘ضعیف’’ہوگی۔ اس بات پر کوئی ناراض ہوتارہے، کیونکہ حق کو چھوڑنا ہمیں گوارانہیں۔
ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ حافظ مزیؒ (۶۵۴ھ۔۷۴۲ھ)، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)اور حافظ ابن حجرؒ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) وغیر ہم ناقلین کی کتابوں میں مذکور بے سند اقوال کا کوئی اعتبار نہ ہوگا، جب تک اصلی معتبر کتابوں سے ان کی سندیں ثابت نہ ہو جائیں۔ ان کتابوں میں محض سہولت کے لیے راویوں کے متعلق تقریباً تمام اقوال ذکر دئیے گئے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ حدیث اور راویانِ حدیث کے متعلق سنداور تحقیق سند سےپہلوتہی اختیار کرنا دین اسلام کی کوئی خدمت نہیں۔
ہردور میں سند کا مسلہ اہل حدیث علمائے کرام کے ہاتھ میں رہا۔ اس اقدام پر دیانت سے عاری سرگشتے اہل بدعت اوراہل الحاد سخت نالاں نظرآتے ہیں۔
الحاصل:
امام یحیٰی بن معین سے امام حنیفہ کی توثیق قطعاً ثابت نہیں، البتہ دو جروح باسندِ صحیح ثابت ہیں۔
والحمد للہ علی ذلک!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں