کا سوال :شیخ محترم
کیا امام کیلئے ضروری ھے کہ ٹوپ لگا کر نماز پڑھائے
ھمارے مسجد میں کبھی کسی کو نماز پڑھانے کیلئے آگے کیا جاتا ھے امام صاحب کے نہ آنے پر
تو مقتدی میں سے کوئ اپنی ٹوپی اتار کر اسکو دے دیتا ھے اور خود ننگے سر نماز پڑھاتا ھے
جواب :ت
عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ((لا یصلي أحدکم فی الثوب الواحد لیس علیٰ عاتقیہ شيء))سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے ، کہ اس کے کندھے پر کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔ (صحیح بخاری: ۵۲/۱ ح ۳۵۹، صحیح مسلم: ۱۹۸/۱ ح ۵۱۶)
فوائد:
۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے ۔
۲: بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ شمائل الترمذی (ص ۷۱ و فی نسختنا ص ۴ حدیث: ۳۳،۱۲۵) کی روایت جس میں :”یکثر القناع” “یعنی رسول اکرمﷺ اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑارکھتے تھے ” آیا ہے وہ یزید بن ابان الرقاشی کی وجہ سے ضعیف ہے ، یزید پر جرح کے لئے تہذیب التہذیب (ج۱۱ ص ۲۷۰) وغیرہ دیکھیں ، امام نسائیؒ نے فرمایا :”متروک بصري“(کتاب الضعفاء : ۶۴۲) حافظ ہیثمی نے کہا : “ویزید الرقاشي ضعفہ الجھمور” اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ (مجمع الزوائد ۲۲۶/۶)
تقریب التہذیب (۷۶۸۳) میں لکھا ہوا ہے “زاھد ضعیف“
دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب “در مختار” میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے (الدرالمختار مع رد المختار ۴۷۴/۱)
اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
“سوال: ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں ۔ جواب : یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے ” (فتاویٰ “دارالعلوم” دیوبند ۹۴/۴)
احمد رضاخان بریلوی صاحب نے لکھا ہے :
“اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں” (احکام شریعت حصۂ اول ص ۱۳۰)
بعض مساجد میں نماز کےدوران میں سر ڈھانپنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ، اس لئے انہوں نے تنکوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں ، ایسی ٹوپیاں نہیں پہننی چاہئیں، کیونکہ وہ عزت اور وقار کے منافی ہیں کیا کوئی ذی شعور انسان ایسی ٹوپی پہن کر کسی پروقار مجلس وغیرہ میں جاتا ہے ؟ یقیناً نہیں تو پھر اللہ ﷻ کے دربار میں حاضری دیتے وقت تو لباس کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔
اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ ﷺ نے داڑھی کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہے؟ اللہ تعالیٰ فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
تنبیہ: راقم الحروف کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال ہو۔
نافع تابعی کو سیدنا ابن عمرؓ نے دیکھا کہ وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا:”کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں دیئے؟…کیا میں تمہیں اس حالت میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے ؟” نافع نے کہا : نہیں ۔عبداللہ بن عمرؓنے فرمایا: کیا اللہ ﷻ اس کا زیادہ مستحق نہیں ہے کہ اس کے سامنے زینت اختیار کی جائے یا انسان اس کے زیادہ مستحق ہیں؟ پھر انہوں نے نافعؒ کو ایک حدیث سنائی جس سے دو کپڑوں میں نما زپڑھنے کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ملخصًا ۲۳۶/۲ و سندہ صحیح) حریر:حافظ زبیر علی زئی نشر :عبدالمومن سلفی www.mominsalafi.blogspot.com
کیا امام کیلئے ضروری ھے کہ ٹوپ لگا کر نماز پڑھائے
ھمارے مسجد میں کبھی کسی کو نماز پڑھانے کیلئے آگے کیا جاتا ھے امام صاحب کے نہ آنے پر
تو مقتدی میں سے کوئ اپنی ٹوپی اتار کر اسکو دے دیتا ھے اور خود ننگے سر نماز پڑھاتا ھے
جواب :ت
عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ((لا یصلي أحدکم فی الثوب الواحد لیس علیٰ عاتقیہ شيء))سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے ، کہ اس کے کندھے پر کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو۔ (صحیح بخاری: ۵۲/۱ ح ۳۵۹، صحیح مسلم: ۱۹۸/۱ ح ۵۱۶)
فوائد:
۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کندھے ڈھانپنا فرض ہے ۔
۲: بعض لوگ نماز میں مردوں پر سر ڈھانپنا لازمی قرار دیتے ہیں لیکن اس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ شمائل الترمذی (ص ۷۱ و فی نسختنا ص ۴ حدیث: ۳۳،۱۲۵) کی روایت جس میں :”یکثر القناع” “یعنی رسول اکرمﷺ اکثر اوقات اپنے سر مبارک پر کپڑارکھتے تھے ” آیا ہے وہ یزید بن ابان الرقاشی کی وجہ سے ضعیف ہے ، یزید پر جرح کے لئے تہذیب التہذیب (ج۱۱ ص ۲۷۰) وغیرہ دیکھیں ، امام نسائیؒ نے فرمایا :”متروک بصري“(کتاب الضعفاء : ۶۴۲) حافظ ہیثمی نے کہا : “ویزید الرقاشي ضعفہ الجھمور” اور یزید الرقاشی کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ (مجمع الزوائد ۲۲۶/۶)
تقریب التہذیب (۷۶۸۳) میں لکھا ہوا ہے “زاھد ضعیف“
دیوبندیوں اور بریلویوں کی معتبر و مستند کتاب “در مختار” میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے (الدرالمختار مع رد المختار ۴۷۴/۱)
اب دیوبندی فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
“سوال: ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص ننگے سر اس نیت سے نماز پڑھے کہ عاجزانہ درگاہ خدا میں حاضر ہو تو کچھ حرج نہیں ۔ جواب : یہ تو کتب فقہ میں بھی لکھا ہے کہ بہ نیت مذکورہ ننگے سر نماز پڑھنے میں کراہت نہیں ہے ” (فتاویٰ “دارالعلوم” دیوبند ۹۴/۴)
احمد رضاخان بریلوی صاحب نے لکھا ہے :
“اگر بہ نیت عاجزی ننگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں” (احکام شریعت حصۂ اول ص ۱۳۰)
بعض مساجد میں نماز کےدوران میں سر ڈھانپنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ، اس لئے انہوں نے تنکوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھی ہوتی ہیں ، ایسی ٹوپیاں نہیں پہننی چاہئیں، کیونکہ وہ عزت اور وقار کے منافی ہیں کیا کوئی ذی شعور انسان ایسی ٹوپی پہن کر کسی پروقار مجلس وغیرہ میں جاتا ہے ؟ یقیناً نہیں تو پھر اللہ ﷻ کے دربار میں حاضری دیتے وقت تو لباس کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔
اس کے علاوہ سر ڈھانپنا اگر سنت ہے اور اس کے بغیر نماز میں نقص رہتا ہے تو پھر داڑھی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری بلکہ فرض ہے کیا رسول اللہ ﷺ نے داڑھی کے بغیر کوئی نماز پڑھی ہے؟ اللہ تعالیٰ فہم دین اور اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔
تنبیہ: راقم الحروف کی تحقیق میں، ضرورت کے وقت ننگے سر مرد کی نماز جائز ہے لیکن بہتر و افضل یہی ہے کہ سر پر ٹوپی، عمامہ یا رومال ہو۔
نافع تابعی کو سیدنا ابن عمرؓ نے دیکھا کہ وہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا:”کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں دیئے؟…کیا میں تمہیں اس حالت میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے ؟” نافع نے کہا : نہیں ۔عبداللہ بن عمرؓنے فرمایا: کیا اللہ ﷻ اس کا زیادہ مستحق نہیں ہے کہ اس کے سامنے زینت اختیار کی جائے یا انسان اس کے زیادہ مستحق ہیں؟ پھر انہوں نے نافعؒ کو ایک حدیث سنائی جس سے دو کپڑوں میں نما زپڑھنے کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ملخصًا ۲۳۶/۲ و سندہ صحیح) حریر:حافظ زبیر علی زئی نشر :عبدالمومن سلفی www.mominsalafi.blogspot.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں