اپنی زبان منتخب کریں

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعابعی تھے


سوال: کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعابعی تھے؟ اور کیا کسی صحابی سے ان کی ملاقات صحیح سند سے ثابت ہے؟
(صفدر نذیر ولد منظور الٰہی دکاندار بھکر)

الجواب: الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ والسلام علی رسولہ الأمین، أما بعد:
اس مسئلے میں علمائے کرام کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے اور بعض کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی نہیں تھے۔ ان دونوں گروہوں کے نظریات پر تبصرہ کرنے سے پہلے دو اہم ترین بنیادی باتیں پیشِ خدمت ہیں۔

اول: جس کتاب سے جو قول یا روایت بطورِ دلیل نقل کی جائے، اُس کی سند صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو، ورنہ استدلال مردود ہوتا ہے۔
دوم: صحیح دلیل کے مقابلے میں تمام ضعیف اور غیر ثابت دلائل مردود ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو۔

اس تمہید کے بعد فریقین کے نظریات پیش خدمت ہیں۔

فریق اول:

خطیب بغدادی رحمہ اللہ(متوفی ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں کہ :‘‘النعمان بن ثابت أبو حنیفۃ التیمي إمام أصحاب الرأي وفقیہ أھل العراق، رأی أنس بن مالک و سمع عطاء بن أبی رباح۔۔۔’’
یعنی:نعمان بن ثابت، ابو حنیفہ التیمی، اہل الرائے کے امام اور عراقیوں کے فقیہ، اپ نے انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے (روایات وغیرہ کو) سنا ہے۔ (تاریخ بغداد ۱۳؍۳۲۳ ، ۳۲۴ ت ۷۲۹۷)
بعد والے بہت سے علماء نےخطیب رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے العلل المتناھیۃ لابن الجوزی (۱؍۱۲۸ح۱۹۶) بعض لوگوں نے ابن الجوزی کے قول کو دارقطنی سے منسوب کر دیا ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ دیکھئے اللمحات(۲؍۲۹۳)

فریقِ دوم:

 ابو الحسن الدار قطنی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۵ھ) سے پوچھا گیا کہ کیا ابو حنیفہ کا انس(بن مالک رضی اللہ عنہ) سے سماع (سننا) صحیح ہے؟  تو انہوں نے جواب دیا: ‘‘لا ولا رؤیتہ، لم یلحق أبو حنیفۃ أحداً من الصحابۃ’ نہیں، اور نہ ابو حنیفہ کا  انس (رضی اللہ عنہ)کو دیکھنا ثابت ہے بلکہ ابو حنیفہ نے تو کسی صحابی سے (بھی ) ملاقات نہیں کی ہے۔ (تاریخ بغداد ج ۴ص۲۰۸ت ۱۸۹۵و سندہ صحیح) [سوالات السہمی للدارقطنی(ص۲۶۳ت۳۸۳)، العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواھیۃ لا بن الجوزی(۱؍۶۵تحت ح ۷۴)]
معلوم ہوا کہ خطیب بغدادی سے بہت پہلے امام دار قطنی رحمہ اللہ اس بات کا صاف صاف اعلان کر چکے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے نہ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور نہ ان سے ملاقات کی ہے۔

تنبیہ: جلیل القدر معتدل امام دار قطنی رحمہ اللہ کا سابق بیان علماہ سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب‘‘ تبییض الصحیفۃ فی مناقب الإمام أبی حنیفۃ’’ میں محرف و مبدل ہو کر چھپ گیا ہے۔ (ص ۱۰بتعلیق محمد عاشق الٰہی برنی دیوبندی)

یہ تحریف شدہ متن اصل مستند کتابوں کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ذیل اللآلی وغیرہ کی عبارات  سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی بذاتِ خود علامہ سیوطی کو حافظ ابن الجوزی کا کلام نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی ہے۔ بہر حال امام دار قطنی سے ثابت شدہ قول کے مقابلے میں سیوطی و ابن الجوزی وغیر ھما کے حوالے مردود ہیں۔

ان دونوں (خطیب و دارقطنی) کے اقوال میں متقدم و اوثق ہونے کی وجہ سے دار قطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ فریقِ اول کی معرکۃ الآراء دلیل: جو لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو تابعی مانتے یا منواتے ہیں وہ ایک معرکۃ الآراء دلیل پیش کرتے ہیں۔

محمد بن سعد(کاتب الواقدی) نے (طبقات میں) کہا: ‘‘حدثنا أبو الموفق سیف بن جابر قاضي واسط قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول : قدم أنس بن مالک الکوفۃ و نزل النخع و کان یخضب بالحمرۃ، قد رأیتہ مراراً’’
(عقود الجمان فی مناقب النعمان ص ۴۹، الباب الثالث و اللفظ لہ، تزکرۃ الحفاظ للذھبی۱؍۱۶۸ ت ۱۶۳، مناقب أبی حنیفۃ و صاحبیہ أبی یوسف و محمد بن الحسن للذھبی ص ۷، ۸)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ (امام ) ابو حنیفہ نے کہا کہ میں نے (سیدنا ) انس بن مالک (رضی اللہ عنہ ) کو کوفہ میں  دیکھا۔

عرض ہے کہ اس روایت کا بنیادی راوی سیف بن جابر مجہول الحال ہے۔اُس کی توثیق کسی مستند کتاب میں نہیں ملی، دیکھئے التکنیل بما فی تأ نیب الکوثری من الأباطیل للمعلمی(ج ۱ص۱۷۹ت ۳۴) تبصرۃ الناقد (ص۲۱۸ ، ۲۱۹) و اللمحات ألی مافی انوار الباری من الظلمات(ج۲ص۲۷۷)

دوسرے یہ کہ یہ روایت ابن سعد کی کتاب‘‘الطبقات’’ میں موجود نہیں ہے۔ اسے حاکم کبیر ابو احمد محمد بن محمد بن احمد بن اسحاق(متوفی ۳۷۸ھ) نے درج ذیل سند و متن سے روایت کیا ہے۔
‘‘حدثني أبو بکر بن أبی عمر و المعدل ببخاری: حدثني أبو بکر عبداللہ بن محمد بن خالد القاضي الرازي الحبال قال: حدثنی عبداللہ بن محمد بن عبید القرشي المعروف بابن أبي الدنیا: نا محمد بن سعد الھاشمي صاحب الواقدي: نا أبو الموفق سیف بن جابر قاضي واسط قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول: قدم أنس بن مالک الکوفۃ و نزل النخع و کان یخضب بالجھر (۱) قدرأیتہ مراراً’’ (کتاب الأسامي و الکنیٰ للحاکم الکبیر۴؍۱۷۴باب أبي حنیفۃ)
اس روایت کے راوی ابو بکر بن ابی عمر و کی توثیق نامعلوم ہے لہذا معلوم ہوا کہ یہ سند نہ تو ابن سعد سے ثابت ہے اور نہ امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے، لہذا اسے ‘‘فإنہ صح’’ کہنا غلط ہے۔
اس کے علاوہ تابعیتِ امام ابو حنیفہ ثابت کرنے والی موضوع روایات أخبار أبی حنیفہ للصیمری و جامع المسانید للخوارزمی و کتبِ مناقب میں بکثرت موجود ہیں جن کا دارو مدار احمد بن الصلت الحمانی وگیرہ جیسے کذابین و مجہولین و مجروحین پر ہی ہے۔ ان روایات پر تفصیلی جرح کے لئے التنکیل اور اللمحات کا مطالعہ کریں۔

فریقِ دوم کی معرکۃ الآراء دلیل:

امام معتدل ابو احمد بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ(متوفی ۳۶۵ھ) فرماتے ہیں کہ :‘‘ثناہ عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز : حدثنی محمود بن غیلان: ثنا المقرئي: سمعت أبا حنیفۃ یقول: ما رأیت أفضل من عطاء و عامۃ ما أحدثکم خطاء’ ابو حنیفہ نے فرمایا : میں نے عطاء (بن ابی رباح، تابعی) سے زیادہ افضل کوئی (انسان ) نہیں دیکھا اور میں تمہیں عام طور پر جو حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔(الکامل ۷؍۲۴۷۳ و الطبعۃ الجدیدۃ ۸؍۲۳۷و سندہ صحیح)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ (الأسانید الصحیحۃ فی أخبار الإمام أبی حنیفہ قلمی ص۲۹۰(
عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی مطلقاً ثقہ ہیں ( سیر أ علام النبلاء ۱۴؍۴۵۵) جمہور محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
(الأسانید الصحیحہ ص ۱۲۴)ان پر سلیمانی و ابن عدی کی جرح مردود ہے۔ محمود بن غیلان ثقہ ہیں(تقریب التہذیب: ۲۵۱۶) ابو عبدالرحمن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہیں۔(تقریب التہذیب: ۳۷۱۵)
  اس روایت کو خطیب بغدادی نے بھی عبداللہ بن محمد البغوی سے روایت کر رکھا ہے۔(تاریخ بغداد ۱۳؍۴۶۵و سندہ صحیح)
 عبداللہ بن محمد البغوی دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘حدثنا ابن المقرئی: نا أبی قال: سمعت أبا حنیفۃ یقول: مارأیت أفضل من عطاء و عامۃ ما (أ) حدثکم بہ خطأ ’’(مسند علی بن الجعد۲؍۷۷۷ح۲۰۶۲ ، دوسرا نسخہ ۱۹۷۸و سندہ صحیح)
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔
محمد بن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ ہے۔(التقریب: ۶۰۵۴) عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہے جیسا کہ ابھی گزرا  ہے۔ ابو یحیی عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی فرماتے ہیں کہ :‘‘سمعت أبا حنیفۃ یقول: ما رأیت أحداً أکذب من جابر الجعفی ولا أفضل من عطاء بن أبی رباح’ میں نے ابو حنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔ (العلل الصغیر للترمذی ص ۸۹۱ وسندہ حسن، مسند علی بن الجعد، روایۃ عبداللہ البغوی ۲؍۷۷۷ ح۲۰۶۱، دوسرا نسخہ: ۱۹۷۷و سندہ حسن، الکامل لا بن عدی ۲؍۵۳۷، دوسرا نسخہ ۲؍۳۲۷و سندہ حسن، و عنہ البیہقی فی کتاب القرأت خلف الإمام ص ۱۳۴ تحت ح ۳۲۱، دوسرا نسخہ ص ۱۵۷تحت ح ۳۴۵وسندہ حسن)
ابو یحیی الحمانی صدوق الحدیث ہے۔(تحریر تقریب التہذیب ۲؍۳۰۰ت۳۷۷۱) باقی سند بالکل صحیح ہے۔

ان صحیح اسانید سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ(صحابی رسول ) کو بالکل نہیں دیکھا، ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ ‘‘ میں نے عطاء (تابعی) سے افضل کوئی نہیں دیکھا’’۔

یہ بات عام  لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ہر صحابی ہر تابعی سے افضل ہوتا ہے۔ جب امام صاحب نے خود اعلان فرما دیا ہے کہ انہوں نے عطاء تابعی سے زیادہ افضل کوئی انسان نہیں دیکھا تو ثابت ہو گیا کہ انہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ہے تفصیل کے لئے محقق اہلِ حدیث مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اللہ کی کتاب اللمحات پڑھ لیں۔

خلاصۃ التحقیق: امام ابو حنیفہ تابعی نہیں ہیں، کسی ایک صحابی سے بھی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں خطیب بغدادی وغیرہ کے اقوال مرجوح و غلط ہیں اور اسماء الرجال کے امام ابو الحسن الدار قطنی کا قول و تحقیق ہی راجح اور صحیح ہے۔

 محمد بن عبدالرحمن السخاوی (متوفی ۹۰۲ھ) لکھتے ہیں کہ : ‘‘ وقسم معتدل کأحمد والدار قطنی و ابن عدي’ اور محدثین کرام کا ایک گروہ معتدل ہے جیسے احمد، دار قطنی اور ابن عدی، یعنی یہ تینوں معتدل تھے۔ (المتکلمون فی الرجال ص ۱۳۷)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ: ‘وقسم کالبخاري و أحمد و أبی زرعۃ و ابن عدي معتدلون منصفون’’ اور محدثین کا ایک گروہ مثلاً بخاری، احمدبن حنبل، ابو زرعہ (رازی) اور ابن عدی معتدل و منصف تھے۔(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح و التعدیل ص ۱۵۹)
تنبیہ: حافظ ذہبی نے کتاب‘‘ الموقظہ’’ میں امام دار قطنی کو بعض اوقات متساہل قرار دیا ہے۔ (ص۸۳)

یہ قول خطیب بغدادی و عبدالگنی ازدی و قاضی ابو الطیب الطبری و غیر ہم کی توثیق و ثنا کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ دار قطنی، عجلی، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کا متساہل ہونا ثابت  نہیں ہے۔وما علینا إلا البلاغ
(۲۱ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں