اپنی زبان منتخب کریں

پیر، 9 جنوری، 2017

اسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہےاسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہے۔

اسلاف پرستی ہی در اصل اصنام پرستی ہے۔ دنیا میں شرک اولیاء و صلحا کی محبت وتعظیم میں غلو کے باعث پھیلا۔ اس حقیقت کو مشہور مفسر علامہ فخر االدین رازی (۶۰۶-۵۴۴ھ ) نے یوں آشکارا کیا ہے۔
اِنہم وضعو ہذہ الأصنام والأوثان علی صور أنبیائہم و أکابرہم و زعمو انّہم متٰی اشتغلو بعنادۃ ہذہ التماثیل فاِنّ أولئک الأکابر تکون شفائ لہم عند اللہ تعالیٰ، و نظیرہ فی ہذا الزمان اشتغال کثیر من الخلق یتعظّم قبور الأکابر علی اعتقاد اٌنّہم اِذا عظّمو قبورہم فاِنّہم یکونون شفعاء لھم عند اللہ ۔
‘‘ مشرکین نے اپنے انبیائے کرام اور اکابر کی شکل ، صورت پر بت اور مُورتیاں بنا لی تھیں۔ ان کا ا اعتقاد تھا کہ جب وہ ان مورتیوں کی عبادت کرتے ہیں تو یہ اکابر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں ۔ اس دور میں اس شرک کی صورت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اکابر کی قبروں کی تعظیم میں مصروف ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اکابر کی قبروں کی تعظیم کرنے کی وجہ سے وہ اکابر اللہ کے ہاں ان کے سفارشی بنیں گے۔ ’’
(تفسیر الرازی: ۲۲۷/۱۷ )
قران و حدیث میں قبر پرستی کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ۔ اس کے بر عکس قبر پرستی کی واضح مذ مت موجود ہے۔ یہ قبوری فتنہ شرک کی تمام صورتوں اور حالتوں پر حاوی ہے۔غیر اللہ سے استمداد ، استعانت اور استغاثہ ، مخلوق کے نام پر نذ ر و نیاز اور اس سے امیدیں وابستہ کرنا قبر پرستی کا ہی شاخسانہ ہے۔
قرآن کریم نے اہل فکر و نظر کو ان الفاظ میں دعوت توحید دی ہے:
قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ . وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّاوَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
‘‘ (اے نبی ) کہہ دیجئے! تم ان لوگوں کو پکارو جن کو تم اللہ کے سوا (معبود ) سمجھتے ہو۔ وہ تو آسمان و زمین میں ایک ذ رے کے بھی مالک نہیں، نہ ان کا آسمان و زمین میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ تعالٰی کا معاون ہے نہ اللہ کے ہاں کوئی سفارش فائدہ دیتی ہے، ہاں جس شخص لے لئے وہ خود اجازت دے۔’’
(سبا: ۲۳،۲۲ )
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، امام ابن قیم رحمہ اللہ ( ۷۵۱-۶۹۱ھ ) اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں:
فتأمّل کیف أخذت ہذہ الآیۃ علی المشرکین بمجامع الطریق الّتی دخلو منہا اِلی الشرک و سدّتہا علہیم أحکم سدّ و ابلغہ، فاِنّ العابد  إنّما یتعلّق بالمعبود لما یرجو من نفعہ، و اِلّا فلو لم یرج منہ منفعۃ لم یتعلق قلبہ بہ، و حینئذ فلا بدّ أن یکون المعبود  مالکا للأسباب الّتی ینفع بہا عابدہ، أو شریکا لمالکہا أو ظہیرا أو وزیرا و معاونا لہ أو وجیہا ذا حرمۃ و قدر یشفع عندہ، فاِذا انتفت ہذہ الأمور الأربعۃ من کلّ وجہ و بطلت انتفت أسباب الشرک و انتقعت موادّہ، فنفی سبحانہ عن آلہتہم أن تملک مثقال ذرّۃ فی السموات والأرض، فقد یقول المشرک: ہی شریکۃ لمالک الحقّ فنفی شرکتہا لہ، فیقول المشرک: قد تکون ظہیرا و وزیرا و معاونا، فقال: و ما لہ منہم من ظہیر، فلم یبق اِلّا الشفاعۃ فنفاہا عن آلہتہم و أخبر أنہ لا یشفع عندہ أحد اِلّا باِذنہ ۔
‘‘ آپ غور کریں کہ اس آیت نے مشرکین کا کس طرح ناطقہ بند کیا ہے۔ ’’ ان کے شرک میں داخل ہونے کے دروازوں کو کس قدر پختگی اور وعمد گی سے بند کیا ہے۔ کوئی عبادت کرنے والا اپنے معبود سے اسی لئے تعلق رکھتا ہے کہ اسے اس سے کسی فائدے کی امید ہوتی ہے۔ اگر معبود سے کسی فائدے کی توقع نہ ہو تو عبادت کرنے والے کا دل معبود سے نہیں لگتا۔ تب ضروری ہے کہ معبود یا تو ان اسباب کا مالک ہو جن سے عبادت گذار  کو فائدہ ہو یا معبود ان اسباب کے مالک کا ساجہی اور حصہ دار ہو یا اس کا معاون یا وزیر و مشیر ہو یا مالکِ اسباب کی نظر میں اس قدر جاہ،جلال کا حامل ہو کہ وہ اس کی سفارش کو ردّ نہ کر سکے۔ جب یہ چاروں اُمور ہر طرح سے باطل ہیں توشرک کے اسباب کی بھی نفی ہو گئی اور اس کی بنیادیں اُکھڑ گئیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے مشرکین کے معبودوں کے بارے میں آسمان و زمین کے ایک ذرے کے مالک ہونے کی بھی نفی کر دی ہے۔ بسا اوقات مشرک کہہ دیتا ہے کہ یہ معبود مالکِ حقیقی کے ساجھی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے حصہ دار ہونے کی نفی کر دی۔ پھر مشرک کہہ دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے معاون، وزیر یا دستِ راست ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ان میں سے اس کا کوئی بھی معاون نہیں۔اب صرف سفارش کی بات رہ گئی تھی تو اللہ تعالٰی نے ان کے معبودوں سے اس کی بھی نفی کر دی اور فرمایا کہ اس کے دربار میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کر سکتا۔’’
(الصواعق المرسلۃ لابن القیم: ۴۶۲،۴۶۱/۲ )
جو لوگ اہل قبور کو نفع و نقصان، عزت و دولت، حیات و موت ،صحت و مرض اور فراخی و تنگی کا مالک سمجھتے ہیں ان کے رد میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ (۷۲۸-۶۶۱ھ ) فرماتے ہیں:
عامّۃ المذ کور من المنافع کذب، فإنّ ہؤلاء الّذین یتحرّون الدعاء عند القبور و أمثالہم اِنّما یستجاب لہم فی النادر ، و یدعو الرجل منہم ما شاء اللہ من دعوات ، فیستجاب لہ فی واحدۃ ،و یدعو خلق کثیر منہم، فیستجاب للواحد بعد الواحد، و أین ہذا من الّذین یتحرّون الدعاء فی أوقات الأسحار و یدعون اللہ فی سجودہم و أدبار صلواتہم و فی بیوت اللہ، فاِنّ ہؤلا اِذا ابتہلوا ابتہالا من جنس القبوریّین لم تکد تسقط لہم دعوۃ ا،لّا لمانع، بل الواقع أنّ الابتہال الّذی یفعلہ القبوریّون اِذا فعلہ لم یردّ المخلصون الّا نادرا، و لم یستجب للقبوریّین إلأ نادرا، و المخلصون کما قال النبی صلّی اللہ علیہ و سلّم : (( ما من عبد یدعو اللہ بدعوۃ لیس فیہا إ ثم ولا قطعیہ رحم إلّا أعطاہ اللہ بہا إحدی خصال ثلاث: إمّا أن یعجل اللہ لہ دعوتہ، أو یدّخر لہ من الخیر مثلہا، أو یصرف عنہ من الشرّ مثلہا))، قالوا : یا رسول اللہ ! إذًانکثر، قال: ((اللہ أکثر ))
 (مصنف عبد الرزاق: ۲۲/۶، الرقم: ۲۹۱۷۰،مسند أبی یعلی : ۲۹۷/۲،ح: ۱۰۱۹،مسند امام احمد: ۱۸/۳، الأدب المفرد للبخاری: ح۷۱۰، وصحّح الحاکم (۱۸۱۶) إسنادہ،و سندہ حسن)
فہم فی دعائہم لا یزالون بخیر، و أمّا القبوریّون فإنّہم إذا استجیب لہم نادرافإنّ أحدہم یضعف توحیدہ و یقلّ نصیبہ من ربّہ، ولا یجد فی قلبہ من ذوق طعم الإیمان و حلاوتہ ما کان یجدہ السابقون الأوّلون ۔
‘‘  (قبر پرستی کے) جو اکثرفائدے ذکر کئے جاتے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ قبروں وغیرہ کے پاس جا کر کثرت سے دعا کرتے ہیں ۔ بس کبھی کبھار وہ دعا (اللہ کی طرف سے ) قبول ہو جاتی ہے۔ اور کوئی مشرک بہت سی دُعائیں کرتا ہے لیکن اُن میں سے کوئی ایک دعا قبول ہوتی ہے ۔ پھر بہت سے مشرک لوگ دعا کرتے ہیں تو ان میں سے کبھی کسی ایک کی اور کبھی کسی ایک کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ یہ کیفیت ان لوگوں کو کہاں لاحق ہوتی ہے جو سحری کے وقت اللہ تعالٰی سے دُعا کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کو اپنے سجدوں میں ، اپنی نمازوں کے آخر میں اور مساجد میں پکارتے ہیں ۔ یہ موحد لوگ جب ان قبر پرستوں کی طرح گڑ گڑا کر دُعائیں کریں تو ممکن نہیں کہ ان کی کوئی دُعا ردّ ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب موحد لوگ اس طرح اللہ تعالٰی سے دُعا کریں تو ان کی دُعا بہت کم ردّ ہوتی ہے، جبکہ قبر پرستوں کی دُعا قبول ہی بہت کم ہوتی ہے ۔ موحدین کی دعا کے بارے میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا ہے :
(( ما من عبد یدعو اللہ بدعوۃ لیس فیہا إثم ولا قطیعۃ رحم إلّا اعطاہ اللہ إ حدی خصال ثلاث: إمّا أن یعجّل اللہ لہ دعوتہ، او یدّخر لہ من الخیر مثلھا، أو یصرف عنہ من الشرّ مثلہا))، قالوا : یا رسول اللہ! قال: ((اللہ أکثر ))
(کوئی بھی مسلمان بندہ جب اللہ تعالٰی سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالٰی اسے تین باتوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے ۔ یا تو اس کی دُعا فوراً قبول کر لیتا ہے یا اس دُعا کی مثل کوئی اور بھلائی اسے عطا فرما دیتا ہے یا اس سے کوئی ایسا ہی نقصان دور کر دیتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اگر یہ بات ہے تو پھر ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ عطا فرمانے والا ہے )
(مصنف عبد الرزاق: ۲۲/۶، الرقم: ۲۹۱۷۰،مسند أبی یعلی : ۲۹۷/۲،ح: ۱۰۱۹،مسند امام احمد: ۱۸/۳، الأدب المفرد للبخاری: ح۷۱۰، وصحّح الحاکم (۱۸۱۶) إسنادہ،و سندہ حسن)
‘‘موحد لوگ اپنی دُعاؤں میں ہمیشہ بہتری میں رہتے ہیں ۔ اس کے بر عکس قبر پرست لوگوں کی جب کبھی کبھار کوئی دُعا قبول ہو جاتی ہے تو ان کی توحید کمزور ہو جاتی ہے ، اپنے رب سے ناطہ و تعلق کم ہو جاتا ہے اور وہ دل میں ایمان کی وہ حلاوٹ اور ذائقہ محسوس نہیں کرتے جو پہلے مسلمان محسوس کرتے تھے۔’’
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیۃ: ۶۸۹/۲ )
             قبر پرستی ایک بے دلیل عمل
بعض الناس جو معاملہ اپنے بزرگوں کی قبروں کے ساتھ کرتے ہیں ،سلف صالحین اس سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ کیسا دین ہے جس سے سلفِ امت غافل رہے ہوں؟
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
ہل یمکن لبشر علی وجہ الأرض أن یأتی عن أحد منہم (أی السلف الصالح ) بنقل صحیح أو حسن أو ضعیف أو منقطع أنّہم کانو إذا کان لہم حاجۃ قصدوا القبور فدعوا عندہا، و تمسّحو بھا فضلا أن یصلّو عندہا أو یسألو ا اللہ بأصحابہا أو یسألوہم حوائجہم ، فلیوقفونا علی أثر واحد أو حرف واحد فی ذلک ۔ 
‘‘ کیا روئے زمین پر کسی انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ سلف صالحین میں سے کسی ایک سے کوئی ایک صحیح یا حسن یا ضعیف یا منقطع روایت بیان کرے کہ جب ان کو کوئی ضرورت ہوتی تھی تو وہ قبروں کی طرف جاتے اور ان کے پاس دُعا کرتے اور ان سے لپٹتے ہوں ۔ ان سے قبروں کے پاس نماز پڑھنے ، اہل قبور کے طفیل اللہ سے دُعا مانگنے یا اہل قبور سے اپنی حاجت روائی کی التجا کرنے کا ثبوت تو دُور کی بات ہے ۔ مشرکین ہمیں کوئی ایک ایسی روایت یا اس بارے میں کوئی لفظ دکھا دیں ۔ ’’
(اغاثۃ اللھفان فی مصاید الشیطان لابن القیم: ۳۱۸/۱ )
نیز شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد کان من قبور أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم بالأمصار عدد کثیر ، و عندہم التابعون و من بعدہم من الأئمّۃ، و ما استغاثو عند قبر صحابیّ قطّ و لا استسقوا عندہ ولا بہ، ولا استنصرو عندہ ولا بہ، ومن المعلوم أنّ مثل ہذا ممّا  تتوفّر الہمم والدواعی علی نقلہ، بل علی نقل ما ہو دونہ، و من تأمّل کتب الآثار و عرف حال السلف تیقّن قطعا أنّ القوم ما کانوا یستغیثون عند القبور و لا یتحرّون الدعاء عندہا أصلا، بل کانو ینہون عن ذلک من یفعلہ من جّہالہم ۔
‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کے صحابہ کی قبروں کی بڑی تعداد شہروں میں تھی ۔ ان قبروں کے پاس تابعین اور ان کے بعد والے ائمہ دین رہتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی صحابی کی قبر کے پاس آ کر مدد طلب نہیں کی اور نہ قبروں کے پاس اللہ سے بارش طلب کی نہ اس کے طفیل ایسا کیا، نہ ان قبروں کے پاس مدد طلب کی نہ ان کے طفیل ایسا کیا۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ ایسے واقعات اگر رونما ہوں تو ان کو نقل کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ اس سے کم درجے کے واقعات بھی نقل ہوتے رہتے ہیں ۔ جو شخص آثا رِِ سلف کی کتب کا غور سے مطالعہ کر کے سلف صالحین کے حالات کو پہچان لے گا اسے قطعی طور پر یقین ہو جائے گا کہ وہ لوگ قبروں کے پاس نہ مدد طلب کرتے تھے نہ کبھی ( اپنے لئے) دُعا کرنے کے لئے وہاں جاتے تھے بلکہ اس دور کے جو جاہل لوگ ایسا کرتے تھے اسلاف انہیں اس سے منع کرتے تھے۔’’
(اقتضاء الصراط المستقیم: ۶۸۱/۲ )
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴-۷۰۰ ) اکابر پرستی کو شرک کا موجب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأصل عبادۃ الأصنام من المغالاۃ فی القبور و أصحابہا، وقد أمر النبی صلی اللہ علیہ و سلّم بتسویۃ القبور و طمسہا، و المغالاۃ فی البشر حرام۔ 
‘‘ بتوں کی عبادت کا اصل سبب قبور اور اصحاب قبور کے بارے میں غلو کا شکار ہونا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم نے قبروں کو برابر کرنے اور (اونچی قبروں ) کو مٹانے کا حکم دیا ہے ۔ بشر کے بارے میں غلو کرنا حرام ہے ۔
 ’’(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ۲۸۶/۱۰ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں