ہفتہ، 26 مارچ، 2016

طلاق اور رحوع كا طريقه


الحمد للہ:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور يہ پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى ابھى عدت ميں ہى ہو اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو ( يعنى حاملہ ہو تو وضع حمل نہ ہوا ہو، يا پھر اس كے تين حيض پورے نہ ہوئے ہوں ) تو خاوند كے ليے اپنى بيوى سے رجوع كرنا جائز ہے.
اور وہ رجوع كے ليے " ميں نے تجھ سے رجوع كيا " يا پھر ميں نے تجھے ركھ ليا " كہے تو يہ رجوع صحيح ہوگا، اسے اس پر دو گواہ بھى بنانا ہونگے، يا پھر رجوع كى نيت سے بيوى سے تعلقات قائم كرے يعنى جماع كر لے تو بھى اس سے رجوع ہو جائيگا.
رجوع ميں دو گواہ بنانا سنت ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ جب وہ عورتيں اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں ت وانہيں يا تو قاعدہ كے مطابق اپنے نكاح ميں رہنے دو يا پھر دستور كے مطابق انہيں اپنے سے الگ كر دو اور آپس ميں دو عادل شخصوں كو گواہ بنا لو }الطلاق ( 2 ).
اس طرح رجوع ہو جائيگا.
ليكن اگر پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى كى عدت ختم ہو جائے تو پھر نيا عقد نكاح كرنا ضرورى ہے، تو وہ اس ميں باقى مردوں كى طرح بيوى كے ولى كو نكاح كا پيغام دے كر اس سے رشتہ طلب كريگا، اور جب ولى اور عورت رضامند ہو تو پھر نئے مہر كے ساتھ گواہوں كى موجودگى ميں رضامندى كے ساتھ عقد نكاح ہوگا.
ليكن جب اسے آخرى ( يعنى تيسرى ) طلاق ہو جائے تو وہ عورت اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے، حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے شرعى نكاح رغبت كرے يعنى وہ اس سے نكاح كر كے اس سے وطئ كرے اور پھر اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے }البقرۃ ( 230 ).
يہ حلال نہيں كہ كوئى شخص كسى آدمى كے ساتھ اتفاق كر لے كہ وہ اس سے نكاح كرے اور بعد ميں اسے چھوڑ دے بلكہ يہ نكاح حلالہ كہلاتا ہے اور كبيرہ گناہ ہے، اس نكاح سے وہ عورت اپنے سابقہ خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى، بلكہ حلالہ كرانے اور حلالہ كرنے والے پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.

ديكھيں: كتاب: فتاوى الطلاق للشيخ عبد العزيز بن باز ( 1 / 195 - 210 ).

جمعہ، 25 مارچ، 2016

لوط كي قوم كا عذاب كيا تها .

الحمد للہ:
اول:
لواطت كا جرم سب جرائم سے بڑا، اور سب گناہوں سے سب سے زيادہ قبيح گناہ ہے، اور افعال ميں سے غلط ہے، اس كے مرتكب افراد كو اللہ تعالى نے وہ سزا دى ہے جو كسى اور امت كو نہيں دى، اور يہ جرم فطرتى گراوٹ، اور بصيرت كے اندھے پن، اور عقلى كمزورى، قلت دين پر دلالت كرتا ہے، اور ذلت و پستى كى علامت، اور محرومى كا زينہ ہے، اللہ تعالى سے ہم عافيت و معافى طلب كرتے ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جب لوط ( عليہ السلام ) نے اپنى قوم كو كہا كيا تم ايسى فحاشى كرتے ہو جو تم سے قبل كسى نے بھى نہي كى، يقينا تم عورتوں كى بجائے مردوں سے شہوت والے كام كرتے ہو، بلكہ تم تو حد سے بڑھى ہوئى قوم ہو، اس كى قوم كا جواب تھا كہ اسے تم اپنى بستى سے نكال باہر كرو يہ پاكباز لوگ بنے پھرتے ہيں، تو ہم نے اسے اور اس كے گھر والوں كو نجات دى، مگر اس كى بيوى پيچھے رہ جانے والوں ميں سے تھى، اور ہم نے ان پر آسمان سے پتھروں كى بارس برسائى، تو آپ ديكھيں كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا ﴾الاعراف ( 80 - 84 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
﴿ تيرى عمر كى قسم يقينا يہ تو اپنى مدہوشى ميں حيران پھرتے ہيں تو انہيں صبح كے وقت ايك چنگاڑ نے پكڑ ليا، اور ہم نے ان كى بستى كا اوپر والا حصہ نيچے كر ديا، اور ہم نے ان پر آسمان سے كنكروں كى بارش برسائى، يقينا اس ميں عقلمندوں كے ليے نشانياں ہيں، اور يہ باقى رہنے والى راہ ہے ﴾الحجر ( 72 - 76 ).
اس كے علاوہ كئى ايك آيات اور بھى ہيں.
ترمذى، ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم جسے قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1456 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4462 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2561 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى سےمروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قوم لوط جيسا عمل كرنے والے پر اللہ تعالى لعنت فرمائے، اللہ تعالى اس شخص پر لعنت فرمائے جو قوم لوط والا عمل كرتا ہے، يہ تين بار فرمايا"
مسند احمد حديث نمبر ( 2915 ) مسند احمد كى تحقيق ميں شيخ شعيب الارناؤط نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اور صحابہ كرام كا لوطى عمل كرنے والے كو قتل كرنے پر اجماع ہے، ليكن اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف كيا ہے.
ان ميں سے بعض صحابہ كرام تو اسے جلا كر قتل كرنے كے قائل ہيں مثلا على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما، اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كا بھى يہى قول ہے، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
اور ان ميں سے بعض كى رائے ہے كہ اسے اونچى جگہ سے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائيں مثلا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى رائے يہى ہے.
اور بعض صحابہ كرام اسے پتھروں سے رجم كرنے كے قائل ہيں حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے، يہ بھى ابن عباس اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
اور ان ميں سے بعض كا قول ہے كہ اسے قتل كيا جائيگا چاہے وہ كسى بھى حالت ميں ہو، شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور كچھ كا قول ہے كہ: بلكہ زانى جيسى سزا دى جائيگى، اگر تو شادى شدہ ہے تو اسے رجم كيا جائيگا، اور اگر غير شادى شدہ ہے تو اسے كوڑے مارے جائينگے.
اور بعض كا قول ہے كہ: اسے شديد قسم كى وہ تعزير لگائى جائيگى جسے حكمران مناسب سمجھے.
اس مسئلہ ميں ابن قيم رحمہ اللہ نے تفصيل بيان كرتے ہوئے فقھاء كرام كے دلائل بيان كرنے كے بعد اس كا مناقشہ بھى كيا ہے، اور پہلے قول كى تائيد كى ہے، انہوں نے اس فاحش اور منكر كام كا علاج اپنى كتاب " الجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافي " ميں تفصيلا بيان كيا ہے، يہاں ہم ان كى كلام كا كچھ حصہ ذكر كرتے ہيں:
" اور جب لواطت سب فساد اور خرابيوں سے زيادہ بڑى تھى تو دنيا و آخرت ميں اس كى سزا بھى سب سزاؤں سے بڑى ہوئى.
اس كى سزا ميں لوگوں كا اختلاف ہے كہ آيا اس كى سزا زنا سے بڑى ہے يا كہ زنا كى سزا بڑى ہے، يا دونوں كى سزا برابر ہے ؟
اس ميں تين قول پائے جاتے ہيں:
ابو بكر صديق اور على بن ابى طالب، اور خالد بن وليد، اور عبد اللہ بن زبير، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم، اور امام مالك، اسحاق بن راہويہ، اور امام احمد اصح ترين روايت ميں، اور امام شافعى اپنے ايك قول ميں اس طرف گئے ہيں كہ اس كى سزا زنا سے زيادہ سخت ہے، اور ہر حالت ميں اس كى سزا قتل ہے، چاہے شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور امام شافعى ظاہر مذہب، اور امام احمد دوسرى روايت ميں يہ كہتے ہيں كہ: اس كى سزا اور زانى كى سزا برابر ہے.
اور امام ابو حنيفہ كا كہنا ہے كہ اس كى سزا زانى كى سزا سے كم ہے اور وہ تعزير ہے. "
ابن قيم رحمہ اللہ يہاں تك كہتے ہيں:
" پہلے قول والے جو كہ جمہور امت ہيں، اور كئى ايك نے صحابہ كرام كا اس پر اجماع بيان كيا ہے ان كا كہنا ہے:
خرابيوں اور فساد ميں لواطت سے بڑھ كر كوئى خرابى اور فساد نہيں جو كفر كى خرابى سے ملتى ہے، اور بعض اوقات تو اس قتل سے بھى بڑھ كر ہے جيسا كہ ہم ان شاء اللہ بيان بھى كرينگے.
ان كا كہنا ہے: اللہ تعالى نے قوم لوط سے قبل كسى بھى قوم كو اس ميں مبتلا نہيں كيا، اور نہ ہى انہيں ايسى سزا دى جو كسى اور امت كو نہيں دى گئى، اور ان كو كئى قسم كى سزا دى گئى، جن ميں ان كى ہلاكت كے ساتھ ساتھ ان كے گھروں كو ان پر الٹا كر گرانا، اور انہيں زمين ميں دھنسانے كے ساتھ ساتھ آسمان سے پتھروں كى بارش كرنا، اور انہيں كى آنكھوں كو پھوڑ كر ركھ دينا، اور ان كا عذاب مستقل كرنا، تو اللہ تعالى نے ان كا انجام ايسا كيا اور انہيں وہ سزا دى جو كسى اور كو نہيں دى.
يہ اس اس عظيم جرم كى بنا پر تھى جس كى بنا پر قريب تھا كہ زمين پر اس عمل كا ارتكاب كرنے كى وجہ سے زمين ہلنے لگتى، اور جب فرشتے اس كا مشاہدہ كرتے تو اہل زمين پر عذاب نازل ہونے كےڈر سے وہ آسمان كى طرف بھاگ نكلتے كہ كہيں وہ بھى عذاب سے دوچار نہ ہو جائيں، اور زمين اپنے پروردگار كے سامنے احتجاج كرنے لگتى، اور پہاڑ اپنى جگہ سے ہل جاتے.
بدفعلى كيے جانے والے شخص كے ليے بہتر ہے كہ اسے قتل كر ديا جائے، كيونكہ جب كوئى شخص اس كے ساتھ بدفعلى كرتا ہے تو اسے وہ ايسا قتل كرتا ہے جس كے ساتھ زندگى كى اميد ہى نہى كى جا سكتى، بخلاف اس شخص كے جسے وہ قتل كر دے تو وہ مظلوم اور شہيد ہوتا ہے، اس كى دليل ( يعنى لواطت قتل سے بھى بڑى خرابى اور فساد ہے ) يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے قاتل كى حد كو مقتول كے ولى كے اختيار ميں ركھا ہے چاہے تو وہ اسے معاف كردے، اور چاہے تو اس سے قصاص لے، ليكن لواطت كى حد كو حتمى طور پر قتل ہى قرار ديا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا اس پراجماع ہے، اور سنت نبويہ بھى اس كى صراحت كرتى ہے، اور اس كا كوئى مخالف نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے خلفاء راشدين رضى اللہ تعالى عنہم نے اس پر عمل بھى كيا ہے.
صحيح روايت سے ثابت ہے كہ خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ نے عرب كے ايك علاقے ميں ديكھا كہ ايك مرد كے ساتھ وہى كچھ كيا جاتا ہے جس طرح عورت كے ساتھ تو انہوں نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا، چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے صحابہ كرام سے مشورہ كيا، تو اس كے متعلق ان سب ميں زيادہ شديد قول على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كا تھا، وہ كہنے لگے:
ايسا فعل تو صرف ايك امت نے كيا تھا، اور تمہيں علم ہے كہ اللہ تعالى نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا، ميرى رائے ہے كہ انہيں آگ ميں جلا كر راكھ كر ديا جائے، تو ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو انہيں جلا كر راكھ كر دينے كا لكھا.
اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:
بستى اور شہر ميں سب سے اونچى عمارت ديكھ كر لواطت كرنے والے شخص كو اس سے گرا كر اوپر سے پتھر برسائے جائينگے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اس حد كو قوم لوط كے عذاب سے اخذ كيا ہے.
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كرتے ہيں كہ:
" جسے تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
اسے اہل سنن نے روايت كيا ہے، اور ابن حبان وغيرہ نے صحيح قرار ديا ہے، ا ور امام احمد رحمہ اللہ نے اس حديث سے حجت اور دليل پكڑى ہے، اور اس كى سند بخارى كى شرط پر ہے.
وہ كہتے ہيں: اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے )
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كسى ايك ہى حديث ميں زانى پر تين بار لعنت نہيں آئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبيرہ گناہوں كے مرتكب افراد پر لعنت تو كى ہے، ليكن ايك بار سے زيادہ سے تجاوز نہيں كيا، اور لواطت كے متعلق تين بار تكرار كے ساتھ لعنت كى ہے.
اور پھر صحابہ كرام نے اس كے قتل پر عمل بھى كيا ہے، اور اس ميں كسى بھى دو صحابيوں كا اختلاف نہيں، بلكہ اسے قتل كرنے كے طريقہ كار ميں ان كا اختلاف پايا جاتا ہے، جسے بعض افراد نے اسے قتل كرنے ميں اختلاف سمجھا ہے، تو اسے صحابہ كرام كے مابين نزاعى مسئلہ بيان كيا ہے، حالانكہ يہ تو ان كے مابين مسئلہ اجماع ہے نہ كہ مسئلہ نزاع.
ان كا كہنا ہے: اور جو كوئى بھى اللہ سبحانہ وتعالى كے درج ذيل فرمان:
﴿ اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ، كيونكہ يہ فحاشى اور غضب كا باعث ہے، اور برا راستہ ہے ﴾.
اور لواطت كے متعلق فرمان بارى تعالى:
﴿ تو كيا تم ايسا فحش كام كرتے ہو جو تم سے قبل جہان والوں ميں سے كسى نے بھى نہيں كيا ﴾.
پر غور و فكر اور تامل كيا تو اس كے سامنے ان دونوں كے مابين فرق واضح ہو جائيگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا كو نكرہ ذكر كيا ہے، يعنى وہ فحش كاموں ميں سے ايك فحش كام ہے، اور اسے لواطت ميں معرفہ ذكر كيا ہے، جو فحاشى كے تمام معانى كو اپنے اندر جمع كرنے كا فائدہ دے رہا ہے، جيسے آپ كہيں كہ: زيد الرجل، اور نعم الرجل زيد.
يعنى: تم اس خصلت كا ارتكاب كر رہے ہو جس كى فحاشى ہر شخص كے ہاں مقرر ہے، جس ميں اس كى فحاشى اور كمال بيان كرنے كى كوئى ضرورت ہى نہيں رہتى، اس ليے كہ اسم كسى اور كى طرف منصرف نہيں ہو سكتا" .... انتہى
ديكھيں: الجواب الكافى ( 260 - 263 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لواطت كے بارہ ميں بعض علماء كرام كا قول ہے كہ اس كى حد زنا كى حد جيسى ہى ہے، اور اس كے علاوہ اور قول بھى كہا گيا ہے.
ليكن صحيح بات اور جس پر صحابہ كرام كا اتفاق ہے وہ يہ ہے كہ: اوپر اور نيچے والے دونوں كو ہى قتل كر ديا جائيگا، چاہے وہ شادى شدہ ہوں يا غير شادى شدہ، كيونكہ اہل سنن نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے بھى تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
اور ابو داود نے كنوارے لواطت كرنے والے شخص كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" اسے رجم كيا جائيگا "
اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اس جيسى روايت بيان كى جاتى ہے، لواطت كرنے والے شخص كو قتل كرنے ميں صحابہ كرام كے مابين كوئى اختلاف نہيں، ليكن اسے قتل كرنے كے كئى ايك طريقے بيان كيے ہيں.
چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے اسے جلانے كا حكم ديا تھا، اور ان كے علاوہ دوسروں سے قتل كرنے كا بيان كيا جاتا ہے.
اور بعض سے بيان كيا جاتا ہے كہ: اس پر ديوار گرا دى جائيگى حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: انہيں گندى اور بدبودار جگہ پر قيد كيا جائيگا حتى كہ وہ مر جائيں.
اور بعض كہتے ہيں:
اسے بستى ميں سب سے اونچى ديوار پر چڑھا كر اسے نيچے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائينگے، جس طرح اللہ تعالى نے قوم لوط كے ساتھ كيا تھا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ايك روايت يہى ہے، اور دوسرى روايت يہ ہے كہ اسے رجم كيا جائيگا، اكثر سلف كا مسلك يہى ہے.
ان كا كہنا ہے: كيونكہ اللہ تعالى نے قوم لوط كو رجم كيا تھا، اور قوم لوط سے مشابہت ميں زانى كو رجم كرنا مشروع كيا ہے، تو اس ليے دونوں كو ہى رجم كيا جائيگا، چاہے وہ آزاد ہوں يا غلام، يا ان ميں سے ايك غلام اور دوسرا آزاد ہو، جب دونوں بالغ ہوں تو انہيں رجم كيا جائيگا، اوراگر ان ميں سے كوئى ايك نابالغ ہو تو اسے قتل سے كم سزا دى جائيگى، اور صرف بالغ كو ہى رجم كيا جائيگا " انتہى.
ماخوذ از: السياسۃ الشرعيۃ صفحہ ( 138 ).
دوم:
جس كے ساتھ لواطت كى جائے وہ بھى فاعل كى طرح ہى ہے، كيونكہ وہ دونوں فحش كام ميں شريك ہيں، تو اس ليے ان كى سزا قتل ہے جيسا كہ حديث ميں بھى وارد ہے، ليكن اس سے دو صورتيں مستثنى ہونگى:
پہلى صورت:
جسے زدكوب كر كے يا قتل وغيرہ كى دھمكى دے كر لواطت كرنے پر مجبور كيا گيا ہو، تو اس پر كوئى حد نہيں.
شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:
" جس شخص كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ مكرہ ہو اور اسے قتل كر دينے دھمكى دے كر يا زدكوب كر كے مجبور كيا گيا ہو يا لواطت كرنے والا شخص اس پر غالب آ گيا ہو تو اس پر كوئى حد نہيں " انتہى بتصرف
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 348 ).
دوسرى صورت:
جس كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ چھوٹا بچہ ہو ابھى بالغ نہيں ہوا تو اس پر كوئى حد نہيں، ليكن اسے تعزير لگائى جائيگى ادب سكھايا جائيگا جس سے اس عمل كو روكنے ميں مدد ملے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كى كلام ميں بيان ہو چكا ہے.
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ نے " المغنى " ميں نقل كيا ہے كہ:
" مجنون اور بچہ جو بالغ نہيں ہوا اسے حد نہ لگانے ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 62 ).
واللہ اعلم

پیر، 14 مارچ، 2016

عورت اگر گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگائے اور گھر میں محرم و غیر محرم کا آنا جانا ہو

سوال: میں کنواری لڑکی ہوں اور گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگاتی ہوں، تو اگر اسی دوران گھر میں غیر محرم مہمان آ جائیں تو اس حالت میں خوشبو کا کیا حکم ہوگا؟ 
-----------------------------_---------------------_----------------------------------------
الحمد للہ:
عورت اپنے گھر میں محرم کی موجودگی میں خوشبو لگا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، محرم افراد کے سامنے خوشبو لگانے کی دلیل  اس آیت سے لی جا سکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
( وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ ... )
ترجمہ: خواتین اپنی زینت  صرف اپنے خاوند، باپ، سسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے یا خواتین کے سامنے ہی ظاہر کر سکتی ہیں۔۔۔ [النور :31]
اور زینت میں خوشبو بھی شامل ہے۔
دیکھیں: تفسیر ابن کثیر: (6/45-49)
شریعت کی رو سے منع یہ ہے کہ عورت گھر سے باہر رہتے ہوئے خوشبو کا استعمال کرے، جہاں اسے اجنبی مردوں کے پاس سے گزرنا پڑے؛ اس کی دلیل نسائی (5126) میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرتی ہے کہ لوگوں کی اس کی خوشبو پہنچے تو وہ زانیہ ہے) 
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح سنن نسائی" میں حسن قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے مطابق خواتین کیلئے گھر سے باہر خوشبو کا استعمال منع ہے۔
لیکن اگر گھر میں رہتے ہوئے خاتون نے خوشبو لگائی اور پھر گھر میں غیر محرم آ گئے اور انہیں بھی یہ خوشبو پہنچ گئی تو اس میں خاتون پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ  سابقہ حدیث میں ممانعت ایسی عورت کے بارے میں ہے جو خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے، ویسے بھی گھر میں عورت کو خوشبو لگانے کی اجازت ہے ، اور گھروں میں  مہمان وغیرہ آتے رہتے ہیں ۔
تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ گھروں میں غیر محرم مردوں کیساتھ گھل مل کر بیٹھے، بلکہ ان سے الگ تھلگ رہے ۔
اور اگر ایسی صورت حال بن جائے کہ عورت کو بھی ایسی جگہ ٹھہرنا پڑے جہاں پر غیر محرم مرد موجود ہیں تو پھر اس جگہ جانے سے پہلے خوشبو کے اثرات کو زائل کرنے کی پوری کوشش کرے۔
Www.mominsalafi.blogspot.com
Www.islamic361.blogspot.com

ہفتہ، 12 مارچ، 2016

جادو کے علاج کا کیا طریقہ ہے؟


الحمد للہ
جو جادو کی بیماری میں ہو تو وہ اس کا علاج جادو سے نہ کرے کیونکہ شر برائی کے ساتھ ختم نہیں ہوتی اور نہ کفر کفر کے ساتھ ختم ہوتا ہے بلکہ شر اور برائی خیر اور بھلائی سے ختم ہوتی ہے۔

صلی اللہ علیہ وسلم سے نشرہ یعنی جادو کے خاتمہ کے لئے منتر وغیرہ پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (یہ شیطانی عمل ہے) اور حدیث میں جس نشرہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ جادو والے مریض سے جادو کو جادو کے ذریعے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔ تو اسی لئے جب نبی

لیکن اگر یہ علاج قرآن کریم اور جائز دواؤں اور شرعی اور اچھے دم کے ساتھ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر جادو سے ہو تو یہ جائز نہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ جادو شیطانوں کی عبادت ہے۔ تو جادوگر اس وقت تک جادو نہ تو کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے سیکھ سکتا ہے جب تک وہ انکی عبادت نہ کرے اور شیطانوں کی خدمت نہ کر لے اور ان چیزوں کے ساتھ انکا تقرب حاصل نہ کرلے جو وہ چاہتے ہیں تو اسکے بعد اسے وہ اشیاء سکھاتے ہیں جس سے جادو ہوتا ہے۔

لیکن الحمدللہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جادو کیے گئے شخص کا علاج قرات قرآن اور شرعی تعویذات (یعنی شرعی دم وغیرہ جن میں پناہ کا ذکر ہے) اور جائز دواؤوں کے ساتھ کیا جائے جس طرح کہ ڈاکٹر دوسرے امراض کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں کہ شفا لازمی ملے کیونکہ ہر مریض کو شفا نہیں ملتی۔

اگر مریض کی موت نہ آئی ہو تو اس کا علاج ہوتا ہے اور اسے شفا نصیب ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات وہ اسی مرض میں فوت ہوجاتا ہے اگرچہ اسے کسی ماہر سے ماہر اور کسی سپیشلیسٹ ڈاکٹر کے پاس ہی کیوں نہ لے جائیں تو جب موت آچکی ہو نہ تو علاج کام آتا ہے اور نہ ہی دوا کسی کام آتی ہے۔

فرمان ربانی ہے:

"اور جب کسی کا وقت مقررہ آجاتا ہے تو اسے اللہ تعالی ہر گز مہلت نہیں دیتا" المنافقون11

دوا اور علاج تو اس وقت کام آتا ہے جب موت نہ آئی ہو اور اللہ تعالی نے بندے کے مقدر میں شفا کی ہو تو ایسے ہو یہ جسے جادو کیا گیا ہے بعض اوقات اللہ تعالی نے اس کے لئے شفا لکھی ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں لکھی ہوتی تاکہ اسے آزمائے اور اس کا امتحان لے اور بعض اوقات کسی اور سبب کی بنا پر جسے اللہ عزوجل جانتا ہے: ہوسکتا ہے جس نے اس کا علاج کیا ہو اسکے پاس اس بیماری کا مناسب علاج نہ ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

(ہر بیماری کی دوا ہے تو اگر بیماری کی دوا صحیح مل جائے تو اللہ تعالی کے حکم سے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔)

صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور فرمان نبوی

(اللہ تعالی نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر اس کی دوا بھی اتاری ہے تو اسے جس نے معلوم کرلیا اسے علم ہوگیا اور جو اس سے جاہل رہا وہ اس سے جاہل ہے۔)

اور جادو کے شرعی علاج میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا علاج قرآن پڑھ کر کیا جائے۔

جادو والے مریض پر قرآن کی سب سے عظیم سورت فاتحہ بار بار پڑھی جائے۔ تو اگر پڑھنے والا صالح اور مومن اور جانتا ہو کہ ہر چیز اللہ تعالی کے فیصلے اور تقدیر سے ہوتی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی سب معاملات کو چلانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوجا تو ہوجاتی ہے تو اگر یہ قرآت ایمان تقوی اور اخلاص کے ساتھ پڑھی جائے اور قاری اسے بار بار پڑھے تو جادو زائل ہوجائے گا اور مریض اللہ تعالی کے حکم سے شفایاب ہوگا۔

اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم ایک دیہات کے پاس سے گذرے تو دیہات کے شیخ یعنی ان کے امیر کو کسی چیز نے ڈس لیا تو انہوں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تو انہوں نے صحابہ اکرام میں سے کسی کو کہا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ تو صحابہ نے کہا جی ہاں۔ تو ان میں سے ایک نے اس پر سورت فاتحہ پڑھی تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ گویا کہ ابھی اسے کھولا گیا ہو۔ اور اللہ تعالی نے اسے سانپ کے ڈسنے کے شر سے عافیت دی۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا تو دم کے اندر بہت زیادہ خیر اور بہت عظیم نفع ہے۔ تو جادو کۓ گۓ شخص پر سورت فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اور اسکے علاوہ آیات اور اچھی اچھی دعائیں جو کہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول جب آپ نے کسی مریض کو دم کیا : (اس دم کے کرنے سے کوئی حرج نہیں جبکہ وہ شرک نہ ہو) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا گیا اور آپ

{اللهم رب الناس اذهب الباس واشف انت الشافي لا شفاء الا شفاؤک شفاء لا يغادر سقما} تین بار یہ دعا پڑھے

(اے اللہ لوگوں کے رب تکلیف دور کردے اور شفایابی سے نواز تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ایسی شفا نصیب فرما کہ جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے) تو اسے تین یا اس سے زیادہ بار پڑھے۔

اور ایسے ہی یہ بھی ثابت ہے کہ جبرا‏ئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا کے ساتھ دم کیا تھا۔

{ بسم الله أرقيك ، من كل شيء يؤذيك ، ومن شر كل نفس أو عين حاسد الله يشفيك ، بسم الله أرقيك }

"میں اللہ کے نام سے تجھے ہر اس چیز سے دم کرتا ہوں جو کہ تکلیف دینے والی ہے اور ہر نفس کے شر سے یا حاسد آنکھ سے اللہ آپ کو شفا دے میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں"

اسے بھی تین بار پڑھے اور بہت ہی عظیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دم ہے جس کے ساتھ ڈسے ہوئے اور جادو کئے گئے اور مریض کو دم کرنا مشروع ہے۔

اور اچھی دعاؤں کے ساتھ ڈسے ہوئے اور مریض اور جادو والے کو دم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر اس میں کوئی شرعی مخالفت نہ ہو اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم پر اعتبار کرتے ہوئے۔ (دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ شرک نہ ہو۔)

اور بعض اوقات اللہ تعالی مریض اور جادو کئے گئے شخص وغیرہ کو بغیر کسی انسانی سبب سے شفا نصیب کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ سبحانہ وتعالی ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز میں اسکی بلیغ حکمت چمک رہی ہے۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ارشاد فرمایا ہے :

"وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے" یسین/82

تو اس اللہ سبحانہ وتعالی کی حمد وتعریف اور شکر ہے جو وہ فیصلے کرتا اور تقدیر بناتا ہے اور ہر چیز میں بلیغ حکمت پائی جاتی ہے۔

اور بعض اوقات مریض کو شفا نہیں ہوتی کیونکہ اس کا وقت پورا ہوچکا ہوتا ہے اور اس مرض سے اسکی موت مقدر میں ہوتی ہے۔

اور جو دم میں استعمال کیا جاتا ہے ان میں وہ آیات بھی ہیں جن میں جادو کا ذکر ہے وہ پانی پر پڑھی جائیں۔

اور سورت اعراف میں جادو والی آیات۔

فرمان باری تعالی ہے:

{ ( وأوحينا إلى موسى أن ألق عصاك فإذا هي تلقف ما يأفكون فوقع الحق وبطل ما كانوا يعملون فغلبوا هنالك وانقلبوا صاغرين) } الاعراف117۔119

"اور ہم نے موسی (علیہ السلام ) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی ڈال دیجئے سو اس کا ڈالنا تھا کہ اس نے انکے سارے بنے بنائے کھیل کو نگھلنا شروع کردیا پس حق ظاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب کچھ جاتا رہا پس وہ لوگ موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے" الاعراف117۔119

اور سورہ یونس میں اللہ تعالی کا یہ فرمان:

{ وقال فرعون ائتوني بکل ساحر عليم فلما جاء السحرة قال لهم القوا ما انتم ملقون فلما القوا قال موسى ما جئتم به السحر ان الله سيبطله ان الله لا يصلح عمل المفسدين ويحق الحق بکلماته ولو کره المجرمون } یونس/ 79۔82

(اور فرعون نے کہا کہ میرے پاس تمام جادو گروں کو حاضر کرو پھر جب جادو گر آئے تو موسی (علیہ السلام) نے ان سے کہا ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو سو جب انہوں نے ڈالا تو موسی (علیہ السلام )نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے یقینی بات یہ ہے اللہ تعالی اس کو ابھی درہم برہم کیے دیتا ہے اللہ تعالی ایسے فسادیوں کا کام نہیں بننے دیتا)

اور ایسے ہی سورہ طہ کی مندرجہ ذیل آیات فرمان ربانی ہے:

{ قالوا يا موسى اما ان تلقي واما ان نکون اول من القى قال بل القوا فاذا حبالهم وعصيهم بخيل اليه من سحرهم انها تسعى فاوجس في نفسه خيفة موسى قلنا لا تخف انک انت الاعلى والق ما في يمينک تلقف ما صنعوا انما صنعوا کيد ساحر ولا يفلح الساحر حيث اتى } طہ65۔59

"کہنے لگے اے موسی یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں جواب دیا کہ نہیں تم ہی پھلے ڈالو اب تو موسی (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ انکی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے بھاگ رہیں ہیں پس موسی نے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا تو ہم نے فرمایا خوف نہ کر یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ انکی تمام کاریگری کو وہ نگل جائے انہوں نے جو کچھ بنایا ہے صرف یہ جادو گروں کے کرتب ہیں اور جادو گر کہیں سے بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا" طہ65۔69

تو ایسی آیات ہیں جن سے جادو کے دم میں ان شاء اللہ تعالی فائدہ دے گا۔ تو بیشک یہ آیات اور اسکے ساتھ سورہ فاتحہ اور سورہ (قل ہو اللہ احد) اور آیۃ الکرسی اور معوذتین (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اگر قاری پانی میں پڑھے اور اس پانی کو جس کے متعلق یہ خیال ہو کہ اسے جادو ہے یا جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہے اس پر بھادیا جائے (یعنی غسل کرے از مترجم) تو اسے اللہ کے حکم سے شفا یابی نصیب ہوگی۔

اور اگر اس پانی میں سبز بیری کے سات پتے کوٹنے کے بعد رکھ لئے جائیں تو یہ بہت مناسب ہوگا جیسا کہ شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (فتح المجید) میں بعض اہل علم سے باب (منتر کے متعلق باب) میں ذکر کیا ہے اور افضل یہ ہے کہ تینوں سورتیں (قل ہو اللہ احد) (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) تین تین بار دہرائی جائیں۔

مقصد یہ ہے کہ یہ اور ایسی ہی دوسری وہ دوائیں ہیں جو کہ مجرب ہیں اور ان سے اس بیماری (جادو) کا علاج کیا جاتا ہے اور ایسے ہی جسے اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو اسکا بھی علاج ہے جسکا تجربہ کیا گیا اور اللہ تعالی نے اس سے نفع دیا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف سورہ سے علاج کیا جائے تو شفایابی ہو اور اسی طرح (قل ہو اللہ احد) اور معوذتین سے علاج کیا جائے تو شفا مل جائے۔

سب سے اہم یہ ہے کہ علاج کرنے والا اور علاج کروانے والا دونوں کا صدق ایمان ہونا اور اللہ تعالی پر بھروسہ ہونا ضروری ہے اور انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی سب کاموں کا متصرف ہے اور وہ جب کسی چیز کو چاہتا ہے تو وہ ہوتی ہے اور جب نہیں چاہتا تو نہیں ہوتی تو معاملہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جو وہ چاہے وہ ہوگا اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہوگا۔ تو پڑھنے والے اور جس پر پڑھا جارہا ہے انکے اللہ تعالی پر ایمان اور صدق کی بنا پر اللہ تعالی کے حکم سے مرض زائل ہوگا اور اتنا ہی جلدی ہوگا جتنا ایمان ہے۔ اور پھر معنوی اور حسی دوائیں بھی کام کریں گی۔

ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کو وہ عمل کرنے کی توفیق دے جو اسے راضی کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بیشک وہ سننے والا اور قریب ہے۔  .

دیکھیں کتاب: مجموع فتاوی ومقالات متنوعۃ: تالیف: فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ص/70

 

ہفتہ، 5 مارچ، 2016

ماء زمزم کوشفا قرار دیا گیا



کیا زمزم کی کوئ اھمیت وقیمت ہے ، اورکیا کو‏ئ ایسی حدیث واد ہے جس میں ماء زمزم کوشفا قرار دیا گیا ہے ، یا یہ کہ پینے سے قبل کو‏ئ نیت کرنا ضروری ہے ؟ جزاکم اللہ خیرا ۔

الحمد للہ
مسجد حرام میں مشہورکنویں کا نام زمزم ہے جوبیت اللہ سے اڑٹیس 38 ہاتھ کی مسافت پرواقع ہے ،یہ وہی کنواں ہے جوابراھیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی تشنگی ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے نکالاگیا تھا جب کہ وہ ابھی دودھ پیتے اورماں کی گود میں تھے ۔

جب ان کے پاس کھانا پینا ختم ہوا توھاجرہ رضي اللہ تعالی عنہا نے پانی کی تلاش کی لیکن انہیں کچھ حاصل نہ ہوا توبالاخر وہ اسماعیل علیہ السلام کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرتی ہوئيں کوہ صفا پرجاچڑھیں پھر مروہ پرتشریف لے گئيں تواللہ تعالی نے جبریل امین علیہ السلام کوبھیجا جنہوں نے اپنے پاؤں کی ایڑی ماری توزمین سے پانی نکل آیا ۔

ماء زمزم نوش کرنا :

اہل علم متفق ہیں کہ خصوصا حج اورعمرہ کرنے والے کے لیے ماء زمزم پینا مستحب ہے ، اورعمومی طورپرہرمسلمان کے لیے سب حالات میں زمزم پینا مستحب اورجائز ہے ، جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماء زمزم پیا ۔ صحیح بخاری ( 3 / 492 ) ۔

اورابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماء زمزم کے بارہ میں فرمایا :

( یہ بابرکت اورکھانا والے کے لیے ایک کھانا ہے ) صحیح مسلم ( 3/ 1922 ) ۔

اورایک روایت میں ہے کہ ( یہ بیماری کی شفا ہے ) الطیالسی حدیث نمبر ( 61 ) ۔

یعنی زمزم پینے سے کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اوربیماریوں سے شفا نصیب ہوتي ہے لیکن اس میں صدق و سچائ کارفرما ہے ، جیسا کہ ابوذررضي اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں ایک ماہ رہے اورصرف زمزم پرہی گزارا کیا اس کے علاوہ کو‏ئ اورغذا استعمال نہیں کی ۔

اورعباس بن عبدالمطلب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ زمزم کے بارہ میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوششش کرتے تھے ، حتی کہ اہل عیال والے لوگ اپنے سب اہل عیال کولاتے اوروہ زمزم دن کے ابتدائ حصہ میں نوش کرتے اورہم زمزم کواہل عیال کا ممد ومعاون شمارکرتے تھے ۔

عباس رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں زمزم کوشباعۃ ( پیٹ بھردینے والا ) کا نام دیا جاتا تھا ۔

علامہ الآبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب انہوں نے پیا تواللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ رضي اللہ تعالی عنہا کے لیے کھانا اورپینا بنادیا ۔

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی عنہ جب زمزم کے پاس پہنچے توکہنے لگے :

اے اللہ مجھے مؤ‎مل نے ابوزبیر عن جابررضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ماء زمزم اسی لیے ہے جس کے لیے اسے نوش کیا جاۓ )

اے اللہ میں روزقیامت کی تشنگی دورکرنے کے لیے پی رہا ہوں ۔

دو فرشتوں نے بچپن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھی اسی زمزم کے ساتھ دھویا اورپھراسے اپنی جگہ پرواپس رکھ دیا ، حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ زمزم کے ساتھ دھونے میں حکمت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ آسمان وزمین اورجنت وجہنم دیکھنے کی لیے طاقت حاصل کرسکیں ، اس لیے کہ زمزم کی خصوصیت ہے کہ وہ دل کا طاقت پہنچاتا اورخوف کوختم کردیتا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شق صدراوراسے زمزم سے دھونے کا واقعہ ابوذررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میں مکہ میں تھا تومیرے گھرکی چھت کھولی گئ اورجبریل علیہ السلام اترے اورمیرا سینہ کھولا ، پھراسے زمزم سے دھویا ، پھرسونےکا ایک حمکت اورایمان سے بھراہوا طشت لاۓ اوراسے میرے سینہ میں انڈیل کرسینے کوبند کردیا ، پھرمیراہاتھ پکڑ کرآسمان دنیا پر لےگۓ ) صحیح بخاری ( 3/ 429 )۔

زمزم پینے میں سنت یہ ہے کہ پیٹ بھر کرپیا جاۓ حتی کہ کوکھیں باہر نکل آئيں اورتشنگی مکمل طور پرجاتی رہے ، فقھاء کرام نے زمزم پینے کے کچھ آداب بیان کیے ہیں جن میں قبلہ رخ ہونا ، بسم اللہ پڑھنا ، زمزم پیتے وقت تین سانس لینا ، پیٹ بھر کرپینا ، اورزمزم پی کرالحمدللہ کہنا ، بیٹھ کرپینا ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی وہ حدیث جس میں انہوں نے یہ ذکرکیا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوزمزم پلایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے ۔ صحیح بخاری ( 3 / 492 ) ۔

تویہ حدیث جواز کا بیان ہے کہ کھڑے ہوکربھی پینا جائز ہے ، اورکھڑے ہوکر پینے والی حدیث کراہت پرمحمول ہے ، زمزم پینے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ زمزم اپنے سر چہرے اورسینہ وغیرہ پر ڈالے ، اورزمزم پیتے وقت کثرت سے دعا کرے ، اوراپنے دنیاوی اوراخروی معاملات کے لیے پی سکتا ہے ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( زمزم اسی چیزکے لیے ہے جس کے لیے اسے نوش کیا جاۓ ) سنن ابن ماجہ ( 2 / 1018 ) اوردیکھیں المقاصد الحسنۃ للسخاوی ص ( 359 ) ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جب وہ زمزم پیتے تویہ دعا پڑھتے : ( اللهم إني أسألك علماً نافعاً ، ورزقاً واسعاً وشفاء من كل داء ) اے اللہ میں علم نافع اوررزق کی کشادگي اورہربیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں ۔

اوردینوری نے حمیدی رحمہ اللہ تعالی سے بیا ن کیا ہے کہ :

حمیدی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہم سفیان بن عیینہ کے پاس تھے توانہوں نے ہیں یہ حدیث بیان کی کہ زمزم اسی چیز کےلیے ہے جس کے لیے وہ نوش کیا جاۓ ، تومجلس سے ایک شخص اٹھ کرچلا گيا اورپھر واپس آکر کہنے لگا اے ابومحمد کیا وہ حدیث جوآّپ نے زمزم کے بارہ میں بیان کی وہ صحیح نہیں ؟

توانہوں نے جواب دیا جی ہاں ، وہ شخص کہنے لگا : تو میں ابھی زمزم کا ایک ڈول اس لیے پی کر آیا ہوں کہ آپ مجھے ایک سو حدیث بیان کریں توسفیان رحمہ اللہ تعالی کہنے لگے بیٹھ جاؤ بیٹھ جاؤ ، توانہوں نےاسے ایک سو حدیث بیان کیں ۔

اوربعض فقھاء نے زمزم کوبطور زاد راہ دوسرے ممالک لے جانا مستحب قرار دیا ہے اس لیے کہ اسے جوبھی بیماری سے شفا کے لیے پیۓ اسے شفا حاصل ہوتی ہے ، اورحدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ انہوں نے بوتلوں میں زمزم بھرکے لائيں اورفرمانے لگيں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھرکرلاتے اوربیماروں پرانڈیلتے اورانہيں پلاتے تھے ۔ سنن ترمذي ( 4 / 37 )۔

فقھاء اس پرمتفق ہیں کہ زمزم سے پاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے ، لیکن انہوں یہ کہا ہے کہ اس کا استعمال ایسی جگہوں پرنہیں کرنا چاہیے جہاں اہانت کا پہلو نکلتا ہو ، مثلا نجاست زائل کرنا وغیرہ ۔

علامہ بھوتی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب : کشاف الفتاح میں ذکر کیا ہے کہ اوراسی طرح ( ماء زمزم کوصرف نجاست وغیرہ کوزائل کرنے میں استعمال کرنا ) اس کے شرف کی بناپرمکروہ ہے ، لیکن اس کا طہارت حدث کے استعمال میں استعمال مکروہ نہیں ۔

اس لیے کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ :

پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے اورزمزم کا ایک ڈول منگوا کراس سے وضو کیا اورپیا ۔

اسے عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ انتھی ۔ دیکھیں نیل الاوطار کتاب الطہارۃ باب طھوریۃ ماء البحر ۔

حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی نے المقاصد الحسنۃ میں کچھ اس طرح کہا ہے کہ :

بعض لوگ یہ ذکرکرتے ہیں کہ زمزم کی فضيلت صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ اپنی جگہ ( یعنی مکہ ) میں ہو اوراگر اسے کسی اورجگہ منتقل کرلیا جاۓ تواس کی کچھ حقیقت اوراصل نہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سھیل بن عمرو رضي اللہ تعالی کی طرف خط لکھا کہ اگر میرا خط رات کوپہنچے توصبح سے قبل اوراگر دن کوپہنچے تورات ہونے سے قبل میری طرف زمزم روانہ کردو ، اسی خط میں ہے کہ انہوں نے دو مٹکے بھیجے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت فتح مکہ سے قبل مدینہ میں تھے ۔

یہ حدیث شواھدکی بنا پر حسن درجہ کی ہے ، اوراسی طرح عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی زمزم لےجاتیں اوریہ بتاتیں تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ کام کرتے اورمشکیزوں اور مٹکوں میں زمزم بھرکرلےجاتے اوربیماروں اورمریضوں کوپلاتے اوران پرانڈیلتے تھے ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کے جب بھی کوئ‏ مہمان آتا تووہ اسے زمزم کا تحفہ پیش کرتے ،اورعطاء رحمہ اللہ تعالی عنہ سے بھی زمزم لےجانے کے بارہ میں سوال کیا گیا توان کا جواب تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورحسن اورحسین رضي اللہ تعالی عنہما بھی اسے لے کرجاتے تھے ۔

واللہ اعلم .
 

پیر، 29 فروری، 2016

وتر کے بعد نماز :؛ م سوال گروپ نهج صلف الصلحین


سوال گروپ  ، منهج صلف الصلحین

-------------------------------------

Kay hum watir ka bad koie namaz par sakta ha explain in quran and sunha

جواب: الحمد للہ
مسلمان کے لیے مسحتب ہے کہ اس کی رات میں آخری نماز وتر ہوں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رات کی نماز میں آخری وتر ادا کیا کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 998 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 751 ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم استحباب اورافضلیت کے لیے ہے نہ کہ وجوب اورالزام کےلیے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں کے بعد بیٹھ کر دورکعت ادا کیا کرتے تھے ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

صحیح یہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وترووں کے بعد بیٹھ کریہ دو رکعتیں وتروں کے بعد نماز کے جواز کےلیے ادا کی تھیں ، اورنفلی نمازبیٹھ کرادا کرنے کے جواز کےلیے پڑھی ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگي نہيں کی بلکہ ایک یا دو مرتبہ یا پھر کچھ بار ایسا کیا تھا ۔۔۔۔

بخاری اورمسلم وغیرہ میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اوربہت سے دوسرے صحابہ کرام کی روایات میں یہ صراحب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات میں آخری نماز وتر ہوا کرتی تھی ، اوراسی طرح صحیحین میں بہت ساری مشہوراحاديث پائي جاتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کوآخر میں پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے جن میں سے چند ایک ذيل میں ذکر کی جاتی ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رات کی آخری نماز وترکو بناؤ ) ۔

اورایک حدیث میں فرمان نبوی کچھ اس طرح ہے :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے ، جب صبح ہونے کاخدشہ ہو تو ایک رکعت کےساتھ وترادا کرو ) ۔

اس کےعلاوہ کئي ایک احادیث ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے توان احادیث کے ہوتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں یہ گمان کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وتروں کے بعد دو رکعت ادا کیا کرتے اوررات کے آخر میں یہی دو رکعتیں ادا کرتے ؟

بلکہ اس کا معنی وہی ہے جوہم بیان کرچکے کہ اس میں جواز کا بیان ہے ، اوریہی جواب صحیح بھی ہے ۔ ا ھـ

اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاوتر کے بعد دو رکعت ادا کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا :

اس میں حکمت یہ ہے کہ : - واللہ اعلم - وتروں کے بعد لوگوں کے لیے نماز کے جواز کوبیان کیا جاسکے ۔ ا ھـ فتاوی اسلامیۃ ( 1 / 339 ) ۔

اوراگر آپ رات کو تھجد پڑھنا چاہيں توآپ کے لیے جماعت کے ساتھ وتر ادا کرنے جائز ہيں اوراس کے بعد جتنی نماز چاہیں آپ وتر لوٹائے بغیر دو دو رکعت کرکےادا کريں ۔

اوریہ بھی جائز ہے کہ آپ جماعت کے ساتھ وتر ادا نہ کریں بلکہ اسے رات کے آخری حصہ تک مؤخر کردیں ۔

اگر اپ مسجد کے امام ہے

اس میں آپ کو اپنے مقتدیوں کا خیال رکھنا ہوگا کہ اگر انہيں آپ کے لیے علاوہ کوئي اوروتر نہيں پڑھا سکتا اورآپ کے وتر نہ پڑھانے سے وہ وتر ادا ہی نہیں کرینگے یاپھر وہ اچھے طریقہ سے وتر ادا نہيں کرسکیں گے توپھر آپ کا ان کے ساتھ ہی وتر پڑھنا بہتر اورافضل ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

جب میں نے سونے سے قبل وتر ادا کرلیے اور رات کے آخری حصہ میں بھی بیدار ہوجاؤں تو مجھے نماز کس طرح ادا کرنی چاہیے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جب آپ سونے سے قبل رات کے شروع میں ہی وتر ادا کرچکيں اوراللہ تعالی نے آپ کو رات کے آخری حصہ میں بیدار ہونے کی توفیق بخشی تو پھر آپ جتنی میسر ہوسکے دو دو رکعت کرکے نماز ادا کریں اوروتر نہ پڑھیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( ایک رات میں دو بار وتر نہيں ) ۔

اوراس لیے بھی کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر ادا کرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ۔ ا ھـ

دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 1 / 339 ) ۔

اورآپ کا یہ کہنا کہ میں ان کے ساتھ نفل کی نیت سے وتر ادا کرلوں اوروتروں کی نیت نہ کروں یہ ایک غیر مشروع عمل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے ) ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 472 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 749 ) ، دیکھیں المغنی لابن قدامۃ المقدسی ( 2 / 539 ) ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ وتروں کے علاوہ نفلوں میں دو رکعتوں سے کم ادائيگي نہیں ہوسکتی ۔ ا ھـ

اتوار، 28 فروری، 2016

امام طبریؒ اور ان کی کتب حدیث کا منہج


                                امام طبریؒ اور ان کی کتب حدیث کا منہج


اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں سے اپنے دین حنیف کی خدمت کا کام لیا اور بعض کو اپنے دین کے لئے خاص کر لیا جن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا قرآن وحدیث کو عام کرنا تھا ۔اُنھی چنیدہ افراد میں سے ایک ہمارے ممدوح امام طبرانی بھی ہیں۔ ان کے حالات اور ان کی کتب حدیث کا تعارف واُسلوب (منہج )پیش خدمت ہے ۔امام طبرانی کے حالات کے لیے تاریخ اصبہان ،جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی ،سیر اعلام النبلاء، تذکرۃ الحفاظ اورالمعجم الصغیر وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
مکمل نام :ابوالقا سم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر                   تاریخ پیدائش : صفر ۲۶۰
ھ [1]
جائے پیدائش:آپ   شام کے قصبہ عکاء میں پیدا ہوئے۔ امام طبرانی
خود لکھتے ہیں :
((حدثنا أحمد بن عبد الله اللحیاني العکاوي، بمدینة عکاء سنة خمس وسبعین ومئتین)) (حدیث نمبر:۸۳۹
)
اس سے ثابت ہوا کہ امام طبرانی پندرہ سال کی عمر میں سماعِ حدیث کر چکے تھے کیونکہ امام صاحب کی تاریخ ولادت 2۶۰ ھ ہے۔ 275ھ میں آپ کی عمر 15 سال ہوئی، آپ کی کل عمر
۱۰۰ سال تھی ۔نیز اس سے حافظ ذہبی کی بات کی تائید بھی ہوتی ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے اور عموماً ۱۵ سا ل تک انسان اپنے شہر کے شیوخ سے ہی علم حاصل کرتا ہے ۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ عکاء بستی نہیں بلکہ شہر ہے ۔ عکاء سے طبریہ کی مسافت دو دن میں طے ہوتی تھی ،یہ اُردن کے قریب واقع ہے۔ عمر کا اکثر حصّہ آپ یہاں ہی رہے لیکن آخر عمر میں آپ نے اصفہان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یاد رہے کہ امام طبرانی ’طبر یہ‘ کی طر ف منسوب ہیں، طبرستان کی طرف نہیں جبکہ مشہور مؤرخ ابن جریر طبری طبرستان سے نسبت رکھتے ہیں۔ [2]
اولاد: ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا جس کی کنیت ابوذر تھی اور ایک بیٹی جس کا نام فاطمہ تھا ۔[3]
اساتذہ و تلامذہ
          آپ نے ایک ہزار سے زیادہ شیوخ سے اُستفادہ کیا جن میں چند کے نام یہ ہیں: امام نسائی،امام ابو زرعہ دمشقی اور احمد بن معلی وغیرہ ۔ المعجم الصغیر میں تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے بغداد کے ۶۲ شیوخ سے فائدہ اٹھایا ۔
آپ کے تلامذہ کی فہرست بھی خاصی طویل ہے، چند کے نام یہ ہیں: ابن عمید ،صاحب بن عباد۔ یہ دونوں اپنے دور کے وزیر بھی تھے ۔ان کے علاوہ محمد بن حسین بسطامی،ابن عقدہ،اور محمد بن احمد جارودی وغیرہ۔ابوالعباس احمد بن منصور کہتے ہیں میں نے طبرانی سے تین لاکھ حدیثیں سنی ہیں، اس سے ان کی وسعت ِروایت کا اندازہ ہوتا ہے۔
علمی اَسفار
امام طبرانی13 برس کے تھے کہ تحصیل علم میں میں مشغول ہو ئے، پہلے آپ نے اپنے آبائی وطن طبریہ میں اصحابِ علم و فضل سے استفادہ کیا ۔۲۷۴
ھ میں بیت المقدس کی طرف سفر کیا اور وہاں کے محدثین سے فائدہ اُٹھایا۔پھر۲۷۵
ھ میں قیساریہ تشریف لے گئے اس کے بعد اُنھوں نے حمص ،جبلہ،مدائن،شام،مکہ ،مدینہ،یمن ،مصر ،بغداد،کوفہ بصرہ ،جزیرہ ،فارس اور اصفہان وغیرہ کی طرف سفر کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔[4]
امام طبرانی
کے رحلاتِ علمیہ کی مختصر داستان اس طرح ہے :
۲۷۳ھ کو سماع حدیث شروع کیا، اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال تھی۔
۲۷۴
ھ کو بیت المقدس کی طرف سفرکیا ،اسی سال رملہ گئے اور واپس عکا آئے ۔
275 ھ میں عکا میں سماع حدیث کیا۔
۲۷۷ھ میں طبریہ میں ٹھہرے ۔

۲۷۸ھ میں مدائن کی طرف متوجہ ہوئے اورحمص ،حلب، طرطوس ،سنجار ،مِصّیصہ پہنچے۔
۲۷۹ھ میں جَبَلہ پہنچے اور اسی سال دمشق گئے۔
۲۸۰ ھ میں آپ مصر گئے ۔
۲۸۲ھ میں آپ نے سمندری سفر کیااور یمن کے علاقے شبام پہنچے ۔
۲۸۳ھ کو آپ نے حج کیا، مکہ اور مدینہ کے محدثین سے فائدہ اٹھایا۔
۲۸۴ھ کو آپ یمن کے علاقے صنعاء پہنچے ۔
۲۸۵ھ کو آپ مصر پہنچے،287ھ میں بغداد آئے، ۲۸۸ھ تک وہاں کے محدثین سے علم حاصل کیا۔
آپ کی عمر ۳۳
سال ہو گئی اور
۲۹۰ھ کو آپ اصفہان پہنچے۔پھر فارس کا سفر کیا ۔
۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو پھر آپ واپس اصفہان آئے اور اسی کو اپنا مسکن بنالیا اور
۳۶۰ھ یعنی وفات تک یہاں ٹھہرے ۔
المعجم الصغیر سے امام طبر انی کے علمی سفر پر روشنی پڑتی ہے، جس میں ان شہروں میں ان کے اساتذہ کے ناموں کا بھی علم ہوتا ہے ۔اس کے لیے ان احادیث   کی اسناد کا ترتیب وار مطالعہ کریں۔5، 209، 98، 659، 18، 7، 1101، 10، 8، 4،2، 1، 975، 680، 952، 213، 652، 222، 1100، 216، 101، 211، 1014، 763، 61، 655، 245، 697، 911
محدثین کے ہاں مقام و مرتبہ
          امام موصوف اپنے دور کے عظیم محدثین کی آنکھوں کا تارہ تھے ۔معاصرین اور متاخرین ان کی تعریف میں رطب اللسان نظرآتے ہیں ۔چند ایک کی گواہیاں پیش خدمت ہیں:
ابراہیم بن محمد بن حمزہ نے کہا :میں نے ان سے بڑا کوئی حافظ نہیں دیکھا ۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ وہ :ضبط و ثقاہت اور صدق وامانت کے ساتھ بڑے عظیم رتبہ پر فائز اور عالی شان محدث تھے ۔اور ذہبی نے ہی انھیں الامام العلامہ ،اور مسند الدنیا کہا ہے۔ ابن عماد نے انھیں مسند العصر کہا۔[5]
امام طبرانی
حافظ ذہبی کی نظر میں

حافظ ذہبی
لکھتے ہیں
:
هوالإمام الحافظ الثقة الرحال الجوال محدث الإسلام علم المعمرین[6]
حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی
نے عالم اسلام کے محدثین سے سولہ سال میں علم حاصل کیا ،جبکہ راقم نے جب تتبع کیا تو المعجم الصغیر سے جو امام طبرانی نے مختلف محدثین سے روایت بیان کرتے وقت خود تاریخیں لکھی ہیں ان میں سے آخری تاریخ ۲۹۵ھ ہے۔ آپ نے اصفہان میں اپنے شیخ محمد بن اسد اصبہانی سے روایت کیا۔[7]اور حافظ ذہبی کے مطابق انھوں نے سماعِ حدیث کی ابتدا۲۷۳ھ کو کی اور باقاعدہ سفر ۲۷۵ھ کو شروع کیا ، حالانکہ ۲۷۴ھ کو انھوں نے بیت المقدس میں سماع حدیث کیا۔[8]اگر ۲۷۵سے ابتدا اور ۲۹۵ھ کو رحلۃ علمیہ کا اختتام لیں تو بیس سال بنتے ہیں نہ کہ سولہ ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انھوں نے ۲۷۴ھ میں بیت المقدس کے اساتذہ ؍شیوخ سے احادیث لی تھیں جو تین شیوخ ہیں :احمد بن مسعودالخیاط [9]،احمد بن عبیدبن اسماعیل الفریابی[10]، عبداللّٰہ بن محمد بن مسلم الفریابی[11]
ا مام ابن مندہ اور حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی نے اپنا وطن اصفہان کو بنایا اور ساٹھ سال وہاں ٹھہرے۔[12] واللّٰہ اعلم۔آپ ۲۹۰ ھ میں پہلی دفعہ اصفہان آئے،پھر فارس کاسفر کیا ،پھر
۳۱۰ھ یا ۳۱۱ کو دوبارہ اصفہان آئے۔ [13] ا مام ابن مندہ کی تحقیق کے مطابق امام طبرانی ایک دفعہ اصفہان آئے تھے، پھر چلے گئے اور چودہ سال بعد پھر اصفہان آئے۔ [14]
ا ما م ابن مندہ نے امام طبرانی
کے مستند حالات پر ایک رسالہ لکھا  جس میں لکھتے ہیں کہ
’’اللّٰہ تعالیٰ نے اہل اصفہان پر فضل اور احسان کیا کہ ان میں امام طبرانی جیسے عظیم محدث کو رہنے کی توفیق عطافرمائی ۔‘‘
[15]
تصنیفات
المعجم الْكَبِير(200 جلدیں)                                                             المُعْجم الْأَوْسَط (24 جلدیں)
المُعْجم الصَّغِير(7جلدیں)                                                               مُسْند الْعشْرَة(30جلدیں)
مُسْند الشاميين(10جلد)                                                 كتاب النَّوَادِر (10جلدیں)
كتاب معرفَة الصَّحَابَة                                                  الْفَوَائِد (10جلدیں)
مُسْند أبي هُرَيْرَة
                                                       مُسْند عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا
مُسْند أبي ذَر الْغِفَارِيّ (2جلدیں)                                    كتاب التَّفْسِير
كتاب مسانيد تَفْسِير بكر بن سهل                             كتاب دَلَائِل النُّبُوَّة (10جلدیں)
كتاب الدُّعَاء (10جلدیں)                                                                كتاب السّنة (10جلدیں)
كتاب الطوالات (3جلدیں)                                            كتاب الْعلم
كتاب وَصِيَّة النَّبِي
                                                 وَصِيَّة النَّبِي لأبي هُرَيْرَة
كتاب ذكر الْخلَافَة لأبي بكر وَعمر                             كتاب جَامع صِفَات النَّبِي
كتاب فَضَائِل الْعَرَب وَعُثْمَان وَعلي                            مقتل الْحُسَيْن بن عَليّ

كتاب نسب النَّبِي ﷺ وَصفَة الْخُلَفَاء    كتاب انسابهم واسمائهم وَكُنَاهُمْ
امام طبرانی کی تصانیف سو سے زائد ہیں جن میں فضائل، مسانید اور فقہی موضوعات پر احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔امام صاحب اپنی زندگی میں مرجع خلائق تھے اور وفات کے بعد ان کی کتب مرجع ثابت ہوئیں۔ امام طبرانی کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد سے لے کر اب تک جو بھی کام حدیث او رعلوم حدیث پر ہو رہے ہیں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں امام الدنیا امام طبرانی کا ذکر خیر نہ ہو۔آپ جو کتبِ حدیث ،کتبِ رجال ، کتبِ علل ،کتب ِ علوم حدیث ، کتبِ تخریج ،کتب شروح حدیث اورکتب ِتفسیر اٹھائیں، سب میں امام طبرانی کا ذکر ضرور ملتا ہے۔
وفات کا سبب
          آپ بڑے غیرت مند انسان تھے، دین پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے بلکہ دوٹوک انداز میں قرآن وحدیث کی ترجمانی کرتے تھے۔یہی دینی حمیت بعض فرقِ باطلہ کو اچھی نہ لگی اور انھوں نے آپ پر جادو کروا دیا جس سے آپ کی آنکھوں کی بصارت جا تی رہی اور آپ نے بروز شنبہ ۲۸
ذوالحجہ ۳۶۰ھ کو سوسال کی عمر میں وفات پائی ۔آپکی نمازِ جنازہ امام ابونعیم اصبہانی نے پڑھائی اور صحابی رسول       حممہ بن حممہ  
کی قبر کے پہلو میں دفن ہوئے ۔[16]
ا مام طبرانی ۳۶۰
ھ بروز ہفتہ فوت ہوئے اور اتوار کو ’جی‘ شہر کے دروازے المعروف بتیرہ   دفن ہوئے ۔ [17]
امام طبرانی کی تالیفاتِ حدیث اور ان کا اُسلوب
محدثین کی اصطلاح میں مُعجَم ان کتابوں کو کہا جا تا ہے جن میں شیوخ کی تر تیب پر حدیثیں درج کی گئی ہیں۔
المعجَم الکبیر : اس میں صحابہ کرام
کی تر تیب پر ان کی مرویات شامل کی گئی ہیں ۔اور اس میں مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ (م57ھ) جن کی مرویات کی تعداد 5364ہے، اس میں شامل نہیں ہیں۔ یہ کتاب 12جلدوں میں ہے اور اس میں 60ہزار احادیث جمع کی گئی ہیں ۔
المعجم الأوسط : اس کتاب کو بھی امام طبرانیؒ نے شیوخ کے ناموں پر مرتب کیا ہے، اس کی ترتیب و تالیف میں امام صاحب نے بڑی کا وش اور محنت کی۔ آپ کو یہ کتاب بہت عزیز تھی، اس کتاب سے امام صاحب کی حدیث میں فضیلت و کمال اور احادیث سے کثرتِ واقفیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ کتاب 6ضخیم جلدوں میں ہے۔
یہ معجم شیوخ کے اعتبار سے ہے۔ ہر شیخ سے امام طبرانی عجیب وغریب روایات لائے ہیں۔یہ دارقطنی کی ’الافراد ‘کی مثل ہے ،امام طبرانی اس کتاب کے متعلق کہا کرتے تھے کہ اس میں میری روح ہے، یعنی یہ کتاب انھیں بہت ہی پسندتھی ۔
یہ کتاب گم شدہ کتب میں سے تھی لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا مکمل قلمی نسخہ ترکی سے میسر فرما دیا۔ اس عظیم کتاب کو منظر عام پر لانے کا کریڈٹ اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق و نصرت کے بعد سید صبحی بدری سامرائی کو جاتا ہے ،جزاہ اللّٰہ خیرًا۔اس کی سب سے پہلے تحقیق ڈاکٹر محمود طحان نے تحقیق کی اور تین جلدیں شائع کیں اورباقی کا وعدہ کیا۔ لیکن وہی ہوتا ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کو منظور ہو، باقی اجزا کی وہ تحقیق نہ کر سکے اور جن تین اجزا کی تحقیق کی تھی، اس کو بھی محققین اور اہل علم نے زیادہ پسند نہ کیا کیو نکہ اس میں بہت زیادہ تحریف ،تصحیف اور سقط رہ گیا تھا حالانکہ اس طرح کی کمزوریوں سے کتاب کو منزہ ہو نا چاہئے اور ہر صاحب علم جانتا ہے کہ ان مذکورہ خامیوں کا کتاب کے نقائص میں کتنا عمل دخل ہے ۔پھر اللّٰہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائے محدث العصر ابواسحٰق الحوینی
کو کہ انھوں نے فضیلۃ الشیخ محقق طارق بن عو ض اللّٰہ مصری
﷾ کو توجہ دلائی کہ آپ المعجم الاوسط پر کام کریں، پھر طارق بن عوض اللّٰہ کی نگرانی میں ایک ٹیم نے اس کتاب پر محنت کی اورتحقیق کا حق ادا کردیا ۔
امام طبرانی
نے علم کے حصول میں مسلسل بیس سال محنت کی اور علم کی شاہراہ پر چل کر غرائب ،افراد اور فوائد جمع کئے ۔ المعجم الاوسط کا مقام و مرتبہ بجا ہے ۔شیخ ابو اسحٰق الحوینی
﷾ نے اس پر کچھ تعاقب عوذ الجاني بتسدید الأوهام الواقعة في أوسط الطبراني کے نام سے کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے ۔
منہج کتاب:امام طبرانی
کی عظیم الشان فوائد پر مشتمل یہ کتاب ہے، اس میں انھوں نے اپنے مشائخ کی وہ تمام مرویات جمع کر دی ہیں جو خود سنی ہیں ۔شیوخ کی ترتیب حروف تہجی والی قائم کی ہے ۔اس کتاب میں درج ذیل منہج اختیار کیا گیا ہے :
a       امام طبرانی اپنی اس کتاب میں عجیب وغریب معلومات لکھتے ہیں جیساکہ
·  ایک راوی کے بارے میں ابومروان عثمانی کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث سنی اس وقت ان کی عمر ایک سو بارہ سال تھی۔ (حدیث نمبر:۱۰۳۶
)
·  ابوعمرو زیاد بن طارق کے متعلق لکھا ہے کہ جب اُن سے عبیداللّٰہ بن رماحس نے بیان کیا تو اس وقت ان کی عمرایک سو بیس سال تھی ۔(حدیث نمبر:۴۶۳۰
)
·  کثیر النوا٫ اپنے شیخ ابومریم انصاری کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے حدیث بیان کی تواس وقت ان کی عمرایک سو پچاس سال تھی۔ (حدیث نمبر:۵۰۸۱
)
b     امام طبرانی راوی کی نسبت کی وجہ تسمیہ بھی لکھتے ہیں۔مثلاً ایک راوی ابومالک الصفی ہیں ۔ان کو الصفی کہنے کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ ابوبکر بن صدقہ نے کہا کہ اُنھوں نے بصرہ مسجد میں پچاس سال تک پہلی صف میں نماز کی پابندی کی۔ (حدیث:۱۳۷۴
)
c     اسی طرح امام طبرانی
جب بھی کسی شیخ کی احادیث کو شروع کرتے ہیں تو اس کا مفصل نام لکھتے ہیں، پھر اس کے نام،والد اور نسبت کو بیان کرتے ہیں۔(حدیث:۳)،اور بعض دفعہ صرف شیخ کے نام پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ (حدیث:۳۱)
مثلاً پہلی روایت اس طرح ذکر کرتے ہیں:
حدثنا أحمد بن عبد الوهاب بن نجده الحوطي
بعد میں صرف احمد بن عبدالوہاب پر اکتفا کرتے ہیں اور کبھی صرف احمد کو کافی سمجھتے ہیں ۔
المعجم الصغیر اور اس کا اُسلوب
اس کی ترتیب بھی شیوخ کے ناموں پر ہے اور اس میں ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث جمع کی ہے۔ یہ 1311ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی۔
a       اما م طبرانی
ہر روایت کے آخر میں تفرد کی وضاحت ضرور کرتے ہیں مثلا ً تفرد به معلی بن عبدالرحمٰن اور تمام احادیث کے آخر میں اسطرح کی وضاحتیں موجود ہیں۔ تاہم بعض احادیث کے آخر میں تفرد کی وضاحت نہیں، مثلاً دیکھئے حدیث:۷۱۲،۱۴۴
امام طبرانی
کے اس انداز پر محدث العصر ابواسحاق الحوینی نے تنقید کی ہے اور اپنی ۱۹ جلدوں کی لاجواب کتاب" تنبیه الهاجد إلى ما وقع من النظر في کتب إلا ماجد" میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور تفرد کے وہم کو زائل کرتے ہوئے مزید اس کے توابع لکھے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قاری شیخ الحوینی کی سندِ حدیث پر دقت نظر کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ واضح رہے کہ بعض عرب علما شیخ الحوینی ﷾ کے اس نقطہ نظر سے کلی اتفاق نہیں کرتے ۔
b     امام طبرانی
بعض احادیث پر صحت و ضعف کے لحاظ سے حکم لگاتے ہیں، مثلاً ایک حدیث کی دو سندیں بیان کرنے کے بعدلکھتے ہیں: "وهما صحیحان" (بعدحدیث:
۱۷۵)
c     امام طبرانی﷫کبھی کبھی کنیت سے معروف راویوں کے اصل نام بھی لکھتے ہیں بلکہ بسا اوقات اس کے اصل نام کے ثبوت کے لئے اس کو با سند پیش کرتے ہیں مثلاً مشہور صحابی ابوثعلبہ خشنی
کے اصل نام کی وضاحت کے لئے سند لکھتے ہیں:
حدثنا أبو زرعة عبد الرحمٰن بن عمرو الدمشقي، حدثنا حیوة بن شریح، قال سمعت بقیة بن الولید، یقول اسم أبي ثعلبة الخشنی: لاشومة بن جرثومة. (بعد حدیث:۱۷۰
)
d     امام طبرانی
اپنے شیوخ کا مکمل نام لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ محقق اور قاری کسی وہم میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اس سے بھی امام طبرانی کی احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس بھی شیخ سے حدیث لیتے، اس کا مکمل نام تفصیل کے ساتھ ضرور لکھتے ،لکھنے کے بعد اس کو محفوظ رکھتے ۔ایک جگہ لکھتے ہیں :
حدثنا محمد بن عبد الرحیم بن بحیر بن عبد الله بن معاویة بن بحیر بن ریشان الحمیری            (حدیث:۹۷۳
)
e     امام طبرانی
بسا اوقات اپنے شیخ سے جس شہر میں روایت سنتے ہیں، اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں مثلاً لکھتے ہیں: حدثنا یحیٰی بن محمد الجباني البصری، ببغداد (حدیث:۱۷۴)
ایک جگہ لکھتے ہیں: حدثنا إبراهیم بن موسی النوری، ببغداد (حدیث:۳۴۰
)
f     امام طبرانی
بسا اوقات یہ بھی بتاتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنے شیخ سے کس سال سنی ۔اس سے امام طبرانی کے حالاتِ زندگی کی وضاحت ہوتی ہے کہ کس سال وہ کہاں تھے؟ بعض اوقات اس سے بڑی اہم باتوں کا علم ہوتا ۔ امام طبرانی لکھتے ہیں :
((حدثنا أحمد بن عبد الله اللحیاني العکاوي، بمدینة عکاء سنة خمس وسبعین ومئتین)) (حدیث:۸۳۹
)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام طبرانی
پندرہ سال کی عمر میں سماع حدیث کر چکے تھے اور کتابت حدیث میں آپ کے اہتمام واحتیاط کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ بھی علم ہوتا ہے کہ آپ عکاء میں پیدا ہوئے ۔اور عکاء بستی کے بجائے ایک شہر کا نام ہے۔
g     امام صاحب روایت حدیث کے بعد في كتابهکی وضاحت بھی کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ شیخ نے اس حدیث کو اپنی کتاب سے بیان کیا تھا ۔ مثلا لکھتے ہیں :
حدثنا إبراهیم بن إسحق الحربي في کتابه (حدیث:۹۲۰
)
h     امام ﷫ بسا اوقات مختلف فیہ مسائل میں بھی اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں مثلاً ایک حدیث ہے کہ رسول اللّٰہ
نے فرمایا :اے بنی عبدِمناف ،اے بنی عبدمطلب !اگر تم اس معاملہ کے ذمہ دار بنو تو خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے کسی بھی شخص کو رات اور دن کے کسی بھی حصے میں نماز پڑھنے سے منع نہ کرنا۔امام طبرانی اس حدیث میں بیان کئے گئے فقہی مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں:
یعني الرکعتین بعد الطواف السبع أن یصلى بعد صلاة الصبح قبل طلوع الشمس وبعد صلاة العصر قبل غروب الشمس وفي کل النهار.            (حدیث:۱۸۴
)
’’آپ
کی مراد سات چکر طواف کے بعد کی دو رکعتوں سے ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد غروب سے پہلے اور اسی طرح دن کے ہر حصہ میں پڑھی جا سکتی ہیں ۔‘‘
i     بعض دفعہ شبہات کا بھی ازالہ کرتے ہیں ،ایک حدیث کے بعد لوگوں کا شبہ ذکر کرتے ہیں کہ ’’ہم لوگ دعائیں کرتے ہیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔‘‘پھر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :گویا یہ اعتراض اللّٰہ تعالیٰ پر ہے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے اور یقیناً اس کی بات برحق ہے ،کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:          ﴿ ادْعُوْنِيْ
ۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ﴾[18]
نیز فرمایا:
﴿وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ [19]
’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان کے نزدیک ہوں اور پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔‘‘
پھر اس شبہ کے جواب میں ایک حدیث بھی لے کر آئے ہیں ۔[20]
j     امام طبرانی
بعض احادیث کو اپنی دیگر کتب مثلا المعجم الکبیر یا المعجم الاوسط سے بیان کر دیتے ہیں مثلاً دیکھئے المعجم الکبیر کی احادیث
(الکبیر:ج۲۳؍ص
۴۳۳،الصغیر:۵۹۳)               (الکبیر:ج۲۳؍ص۳۹۳،الصغیر:۵۷۳)
(الکبیر:ج۲۵ ؍ص
۱۰۲،الصغیر:۴۹۸)                (المعجم الاوسط:۱۳۴۲،الصغیر:
۷۵۵)
معاجم ثلاثہ کے اُسلوب کا موازنہ
المعجم الکبیر صحابہ کرام ﷢ کی ترتیب سے ان سے مروی احادیث جمع کی ہیں لیکن اس میں سیدنا ابوہریرہ
کی مسند نہیں ہے ،کیونکہ وہ ان کی الگ مسند لکھنا چاہتے تھے ۔اسی طرح بکثرت روایت کرنے والے صحابہ کی تمام روایات کا احاطہ نہیں کیا۔صحابی کی روایات ذکر کرنے سے پہلے اس کے حالات باسند ذکر کئے ہیں۔ سیرتِ صحابہ
ﷺ کی مستند؍ باسند کتاب المعجم الکبیر سے الگ کی جا سکتی ہے۔پھر ان سے مروی احادیث بیان کی ہیں ۔
جبکہ المعجم الاوسط میں شیوخ سے جتنی بھی مرویات ملیں ، وہ تمام بیان کر دی گئی ہیں ۔
المعجم الصغیر میں صرف ایک شیخ سے ایک ہی حد یث بیان کی ہے، دیکھیں (سیراعلام النبلا٫)
المعجم الاوسط میں اور المعجم الصغیر میں بعض رواۃ پر حکم بھی لگایا ہے لیکن المعجم الکبیر میں کسی راوی پر حکم نہیں لگایا ۔
المعجم الکبیر میں تفرّد کا ذکر نہیں کیا جبکہ الصغیر اور الاوسط دونوں میں تفرد کا ذکر کیا ہے۔
تینوں معاجم میں کچھ باتیں مشترک ہیں مثلاً
ہر بات با سند پیش کی ہے جبکہ مرفوع ،مو قوف اور مقطوع تینوں طرح کی روایات بیان کی ہیں اور ان میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ۔
امام طبرانی کی دیگر کتب کا مختصر تعارف
مسند الشامیین   :اس کتاب میں صر ف ان صحابہ سے روایات بیان کی ہیں جو شام میں مقیم تھے اور شام کے بعض راویوں کے جر حِ تعدیل کے لحاظ سے حالات بھی باسند بیان ہوئے ہیں ۔
مسند الشامیین سے محدثین نے رواۃ کے حالات بھی بیان کیے ہیں مثلا الإکمال ازمحمد حسنی میں کافی جگہوں پر مسندا لشامیین کے حوالے سے جرح و تعدیل اور راویوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ مثلا ًا لاکمال:
۱۱۱۸،۱۰۸۵
طرقِ حدیث من کذب علي:اس میں ۶۳ صحابہ
سے ایک ہی روایت «من کذب علي متعمدًا» کو مختلف
۱۷۸ سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
کتاب الاوائل :اس کتاب میں امام طبرانی
نے ان احادیث کا ذکر کیا ہے جن میں ہر معاملہ میں اولین کا ذکر ہے۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پید اکیا وغیرہ
الاحادیث الطوال : امام طبرانی
نے اس کتاب میں ان ۶۲احادیث کو جمع کیا ہے جو متن کے لحاظ سے مفصل اور لمبی ہیں ۔
امام طبرانی کا راویوں پر جرح و تعدیل کے اعتبار سے حکم لگانا
امام طبرانی
بسا اوقات اپنی کتب میں بعض راویوں پر حکم بھی لگاتے ہیں ۔ اور اسے کبھی خود اور کبھی کسی معتبر محدث سے باسند نقل کرتے ہیں۔ مثلاً
ابراہیم بن ابی عبلہ               ثقہ                           ( مسند الشامیین :۷
)
ثور بن یزید کلاعی                 ثقہ                           ( مسند الشامیین:۵۰۰
)
شعیب بن ابی حمزہ                ثقہ ثبت    (مسند الشامیین :۲۹۲۹
)
داود بن ابی القصاف              شیخ ثقہ      (الاوسط ح:۳۵۰۴
)      
سیف بن عبیداللّٰہ               کان ثقہ     (الاوسط ح:۱۶۹۳
)
عبداللّٰہ بن عبداللّٰہ ہدادی ثقہ                             (الاوسط ح:۷۵۴۴
)
عبدالسلام بن ہاشم                ما اعلم الا خیراً              (الاوسط ح:۸۱۶۳
)




[1]    تذکرۃالحفا ظ : ۲؍۱۲۶
[2]    تذکرۃ الحفاظ : ۳
؍126
[3]    ایضاً
[4]    تذکرۃ الحفاظ: ۳
؍۱۲۷
[5]    تذکرۃ الحفاظ : ۳؍
۱۲۶ تا۱۳۰؛لسا ن المیزان: ۳؍۷۳
[6]    سیر اعلام النبلا ء :ج۱۶؍ص
۱۱۹
[7]    المعجم الصغیر : رقم الحدیث
۹۱۱
[8]    المعجم الصغیر:
۵
[9]    المعجم الصغیر:
۵
[10] المعجم الصغیر:
۹۹
[11] المعجم الصغیر:
۶۰۰
[12] سیر اعلام النبلا:ج۱۶
؍ص۳
[13] سىر اعلام النبلا: ج16؍ص3
[14] جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی:ص
۲
[15] جزء فیہ ذکر الامام الطبرانی:ص
۱
[16] تذکرۃ الحفاظ: ۳؍
۱۳۰؛سير اعلام النبلاء :16؍119 تا130
[17] تاریخ اصبہان:ص
۱۷۰
[18] سورۃ المؤمن :
۶۰
[19] سورۃ البقرۃ:
۱۸۶
[20] المعجم الصغیر :ص۲۱۶

 

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...