ہفتہ، 30 اپریل، 2016

دیوبندیوں کا عقیدہ وحدت الوجود

سوال: میں دیوبندی حنفی مذہب سے تعلق رکھتا ہوں، اور دیوبندیوں کے مذہبی رہنماؤں کا عقیدہ وحدت الوجود کاہے ؛ لہذا میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا کفر ہے؟
جو شخص دیوبندی مذہب، اس کے مراحل اور ان کے ائمہ کے عقائد پر گفتگو کرنے والے لٹریچر کا مطالعہ کرے گا اس کیلئے یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ ان کے مشہور قائدین عقیدہ بیان کرتے ہوئے تناقض اور تصادم کا شکار ہیں، یا کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بعض عقائد میں تناقض پایا جاتا ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ اس فرقہ نے عقائد کو ان آلائشوں سے پاک وصاف کرنے کا کوئی اہتمام نہ کیا جن سے عقیدہ گدلا ہو جاتا ہے، اور نہ ہی تحقیق و سوچ و بچار کے طریقہ  کار میں نکھار کے لئے کوئی جد و جہد کی، ہاں ایک چیز ان میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان کے عقیدہ میں  فاسد نظریات اور باطل اعتقادات کی بھر مار ہے جو کہ سراسر قرآن و حدیث اور اجماعِ علما کے مخالف ہیں ۔
ان باطل عقائد میں سے ایک نظریہ "وحدت الوجود" بھی ہے یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ہر موجود چیز بذات خود اللہ ہے، اس عقیدہ کے حاملین کو "اتحادیہ" بھی کہا جاتا ہے، یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ تمام  موجودات متعدد وجود کی بجائے ایک ہی وجود بن گیا ہے !!
ان لوگوں کے ہاں اس عقیدے کا حامل ہی موحد ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسے لوگ توحید سے کوسوں دور ہیں۔
اس عقیدے  کا اقرار دیوبندیوں کے اکابر ائمہ اس قدر وضاحت سے کر چکے ہیں کہ جس سے کوئی بھی منصف مزاج محقق انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی کوئی حیلہ جوئی کر سکتا ہے، ہم یہاں چند واضح اور صریح اقوال نقل کرتے ہیں ،ایسے اقوال ذکر نہیں کرینگے جن کی تاویل کی جاسکتی ہے  تاکہ گفتگو طوالت اختیار نہ کر جائے:
دیوبندیوں کے شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (متوفی 1317ھ)کا کہنا ہے کہ :
"وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا ہی حق اور سچ ہے"  انتہی
شیخ امداد اللہ کی تصنیف "شمائم امدادیہ "(ص/32)
بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ:
"عابد اور معبود کے درمیان فرق کرنا ہی صریح شرک ہے "  صفحہ: (37)  
اور تلبیس  ابلیس کے زیر اثر ان غلط نظریات کیلئے بے مہار وسعت سے کام لیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس خطرناک بات کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا :
"بندہ اپنے وجود سے پہلے مخفی طور پر رب تھا اور رب ہی ظاہر میں بندہ ہے"[العیاذباللہ]
دیکھیں: "شمائم امدادیۃ "صفحہ: (38)
 فضل حق خیر آبادی کا لکھنا ہے کہ:
"اگر رسولوں کو وحدت الوجود کی طرف دعوت کا مکلف ٹھہرایا جاتا تو رسولوں کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا، چنانچہ ان کو حکم ہوا کہ وہ لوگوں کی عقل و سمجھ کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعوت دیں "
دیکھیں: کتاب "الروض المجود" از: فضل حق خیر آبادی صفحہ: (44)
محمد انور شاہ کشمیری (متوفی1352ھ)جن کو امام العصر کا لقب دیا گیا ہے، ایک حدیث کی شرح میں انکا لکھنا ہے کہ:
"حدیث میں وحدت الوجود کی طرف اشارہ ملتا ہے، ہمارے مشائخ شاہ عبد العزیز کے زمانے تک اس مسئلہ کے بڑے گرویدہ تھے، لیکن میں اس مسئلہ میں متشدد نہیں ہوں "
دیکھیں: "فیض الباری شرح صحیح البخاری"(4/428)
صوفی اقبال محمد زکریا کاندہلوی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اس نے ہمیں وحدت الوجود کا راز معلوم کروایا، وہ ایسے کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ عشق، معشوق اور عاشق سب ایک ہی ہیں "انتہی
ماخوذ از کتاب: "محبت" صفحہ: (70)
"تعلیم الاسلام" کے مصنف کا کہنا ہے کہ:
"یہاں پر تصوف کا ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے اور وہ ہے " وحدت الوجود" جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر موجود چیز اللہ ہے، اور اس کے علاوہ کسی وجود کا ہونا صرف وہم اور خیال ہے ۔۔۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ مشائخ کا یہ کہنا کہ اللہ کے علاوہ کوئی وجود نہیں، بالکل درست ہے۔
دیکھیں: کتاب "تعلیم الاسلام" صفحہ:( 552)
یہ تمام اقتباس  ہم نے شیخ ابو اسامہ سید طالب الرحمن (مدیر: المعھد العالی راولپنڈی، پاکستان)کی کتاب "الدیوبندیہ"(ص/29-42) مطبوعہ دار صمیعی (1998ء)سے نقل کی ہیں۔
چونکہ وہ تمام مراجع جن سے عبارات نقل کی گئی ہیں عربی میں نہیں ہیں ،مزید یہ کہ دیوبندی علماء کی عربی تصنیفات بہت کم ہیں، اس لئے ہم براہ راست ان کتابوں سے رجوع نہیں کر سکے ، اور اسی لئے اس کتاب[الدیوبندیہ]پر اعتماد کیا گیا ہے کیونکہ یہ کتاب اس بارے میں اہم مأخذ ہے۔
سوم:
عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر علما کا اتفاق ہے ، ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ­۔
اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم  سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ}
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]
ایک جگہ فرمایا:
{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
دیکھیں: کیسے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر کفر کا حکم لگایا ہے جنہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا حصہ قرار دیا، اور بعض مخلوق کی اللہ تعالی کیساتھ رشتہ داری بیان کی ،تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو خالق اور مخلوق کا ایک ہی وجود مانے!؟
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے!! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
{ أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا }
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق  اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ}
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]
چنانچہ جواس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
مزید بر آں جو قباحتیں  وحدت الوجود کے دعوے سے لازم آتی ہیں ،اس باطل عقیدے کی تردید کے لئے کافی ہیں ، جواس عقیدے پر ایمان لے آتا ہے تو اس کی حالت اسے بد کاری کے حلال اور ایمان و کفر کے درمیان برابری قرار دینے پر مجبور کر دے گی، کیونکہ ان کے وہم و گمان کے مطابق دعوی یہ ہے کہ عقائد کا انحصار ایک وجود کے ساتھ ایمان لانے پر ہے ، اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ عز و جل کی گھٹیا ترین مخلوقات، چوپاؤں ، پلید اشیا وغیرہ کی طرف کی جائے ، اللہ تعالی ان کے شاخسانوں سے بہت بلند و بالا ہے ۔
ہم یہاں انہی دیوبندیوں ہی کی کتابوں سے بعض ایسی باطل چیزوں کا ذکر کریں گے جو اس عقیدے کی وجہ سے لازم آتی ہے [یعنی ایسی چیزیں جواس عقیدہ  کو ماننے سے ماننا پڑیں  گی] اگر ہم دیگر مسالک کی قدیم و جدید کتب سے یہ لوازم ذکر کرنا شروع کر دیں تو بات بہت طول اختیار کر جائے گی۔
امتِ دیوبند کے حکیم اشرف علی تھانوی (1362ھ) امداد اللہ مکی -جو دیوبندیوں کے مرشدِ اول ہیں- سے بیان کرتے ہیں:
"کہ ایک موحد [ان کے مطابق ایسا شخص جو وحدت الوجود کا قائل ہو]سے یہ کہا گیا کہ:
" اگر مٹھائی اور پا خانہ ایک ہی چیز ہیں تو دونوں کھا کر دکھاؤ" !تو اچانک اس موحد نے ایک خنزیر کا روپ دھارا اور پا خانہ کھا گیا[!!]، پھر آدمی کی صورت اختیار کر کے مٹھائی کھا گیا "
پھر  لا دینیت  اور صنم پرستی پر مشتمل سطور بالا کو نقل کر کے اس کی شرح میں اشرف علی جنہیں [ان کے ہاں ]حکیم الامت !! کا لقب دیا جاتا ہے ان کا لکھنا ہے:
"یہ اعتراض کرنے والا بھی کوئی بے وقوف ہی تھا؛ اسی  لئے موحد کو ایسا مجبوراً کرنا ، ورنہ جواب تو واضح تھا، وہ یہ کہ مٹھائی اور پاخانہ حقیقت میں ہی چیز ہیں اگر چہ ان کا حکم اور اثرات مختلف ہیں "
دیکھیں: اشرف علی تھانوی کی کتاب "امدادالمشتاق" صفحہ: ( 101)
یہ عبارت ہم نے شمس الدین افغانی کی کتاب "جھودعلماءالحنفیۃ فی ابطال عقائدالقبوریۃ" (2/790۔791)سے نقل کی ہے
رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے:
"سہارنپور شہر کی بہت سی زانیہ عورتیں پیر ضامن علی جلال آبادی –جو کہ دیوبندیوں کے اکابرین میں سے ہیں- ان کی مرید تھیں ، ایک دن آپ ان میں سے کسی ایک کے ہاں قیام فرما تھے، کہ سبھی وہاں جمع وہاں ہوگئیں لیکن ان میں سے ایک غائب تھی، شیخ نے اس کے غائب ہونے کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ: حضور ہم نے تو اسے آپ کی زیارت کیلئے لانے کیلئے بڑے جتن کئے، لیکن اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا: "میں گناہوں میں لت پت ہوں، کالے منہ کو لیکر کیسے پیر صاحب کے سامنے آسکتی ہوں"؟ ۔پیر صاحب نے اصرار کیا کہ اسے ضرور حاضر کیا جائے، جب وہ اسے لیکر آئیں اور وہ  پیر صاحب کے سامنے کھڑی ہوئی ۔۔۔ تو پیر صاحب نے کہا:  شرماتی کیوں ہو ؟کرنے والا اور کرانے والا خود وہی تو ہے [!!] جوں ہی اس فاحشہ نے پیر صاحب کی یہ بات سنی تو غصے سے لال پیلی ہو کر بولی: " لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،میں اگرچہ نافرمان اور سیاہ کار ہوں لیکن میں اس جیسے پیر سے مکمل طور پر بری ہوں اور فورا! وہاں سے اٹھی اور چلی گئی اور پیر صاحب ندامت اور شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے"
مکمل قصہ ملاحظہ فرمائیں عاشق الہی میرٹھی کی کتاب "تذکرۃ الرشید" (2/242)
ہم نے اسے شیخ ابو اسامہ کی کتاب "الدیوبندیہ "صفحہ: ( 40)سے نقل کیا ہے ۔
ہم اللہ سے سلامتی و عافیت کا سوال کرتے ہیں ،اور ہدایت سے بھٹکے لوگوں کی ہدایت کی امید کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے "
"درء تعارض العقل و النقل "(1/283)
اور مزید کہتے ہیں:
" اتحادِ مطلق کا نظریہ  وحدت الوجود کے قائلین کا ہے، انکا یہ دعوی ہے کہ مخلوق کا وجود اللہ ہی کا وجود ہے، یہ حقیقت میں [مخلوق کو ] بنانے والے[اللہ تعالی ]کی نفی اور اس کا انکار ہے، بلکہ یہ عقیدہ تمام شرکیات کا مجموعہ ہے "
"مجموع الفتاوی "(10/59)
مزید کہتے ہیں:
"ایک عقیدہ "وحدت الوجود "جس کے مطابق : خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے"
"مجموع الفتاوی"(18/222)
اس عقیدے کے لوازم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا:
"اس-ابن عربی - کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ تمام کائنات کا وجود-بشمول کتے، خنزیر، گندگی، پیشاب  و پاخانہ ،کفار اور شیاطین - عین حق تعالی کاہی وجود ہے، اور کائنات کی تمام اشیا زمانہ قدیم سے ہی موجود ہیں، اللہ تعالی نے ان کو نئے سرے سے پیدا نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالی کا وجود ان تمام چیزوں  [یعنی تمام صاحب الوجود موجودات]میں ظاہر ہوا، اللہ کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ان ذوات کے علاوہ کسی اور چیز میں اپنے وجود کو ظاہر کرے، یہ تمام چیزیں احکامات کی شکل میں اس کی غذا ہیں اور وہ [حق تعالی]وجود کے ذریعے ان مخلوقات کی غذا ہے، اللہ ان کی اور یہ اللہ کی عبادت کرتی ہیں ،اور یہ کہ خالق کی ذات بعینہ مخلوق کی ذات ہے، اور حق تعالی کی ذات جو ہر نقص و عیب اور مشابہت  سے پاک ہے وہ بعینہ ایسی مخلوق کی ذات ہے جو دوسروں سے مشابہت رکھتی ہے ،اور یہ کہ خاوند ہی بیوی ہے ،گالی دینے والا خود اپنی ذات کو ہی گالی دے رہا ہے ،اور یہ کہ بتوں کے پجاری در اصل اللہ ہی کی عبادت کر رہے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت ممکن ہی نہیں ہے ۔
اور یہ کہ اللہ تعالی کے فرمان:
 {وَقَضَی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ}
ترجمہ: تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو[الاسراء: 23]
اس میں "قَضَی" کا معنی ہے: "حکم دیا اور فیصلہ کیا"  اور اللہ کا فیصلہ لامحالہ واقع ہو کر ہی رہتا ہے، چنانچہ  ہر معبود میں [دراصل ]غیر اللہ کی عبادت نہیں ہے[بلکہ جس کی بھی عبادت ہو وہ دراصل اللہ ہی کی عبادت ہے ]اور یہ کہ صنم پرستوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے عبودیت کے دائرہ عمل میں سے کچھ کی عبادت کی ہے، اگر وہ ہر چیز کی عبادت کرتے تو کامل ترین عارفین [اللہ کی صحیح معرفت رکھنے والے لوگ]میں سے ہوتے، اور یہ کہ عارف کامل جانتا ہے کہ اس نے کس کی عبادت کی ہے اور [حق تعالی ] کس صورت میں ظاہر ہوا ہے تاکہ اس کی پرستش  کی جائے، اور یہ کہ نوح علیہ السلام نے مذمت والے انداز میں اپنی قوم کی تعریف کی ہے، اور یہ کہ مخلوقات کی ذات بعینہ خالق کی ذات ہے، اور جناب ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کی پوجا کرنے پر قوم کی مذمت کی تو موسی علیہ السلام کی طرف سے اظہار ناراضی کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہارون علیہ السلام نے قوم پر تنگی اور سختی کی اور یہ بھی نہ جان سکے کہ انہوں نے تو صرف اللہ کی ہی عبادت کی ہے !!
اور یہ کہ جادوگروں نے فرعون کے اس قول :{أَنَا رَبُّکُمْ الْأَعْلَی} (کہ میں ہی تم سب کا معبود اکبر ہوں )[النازعات :24]اور {مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرِیْ}(میں اپنے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں جانتا) [القصص:38]کی سچائی کو جان لیا تھا ۔
اسی طرح کی اور بہت سی باتیں ماننا لازم آئیں گی، جن کا اعتقاد کوئی بھی شخص نہیں رکھتا خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی ہو، یا صابی اور مشرک، یہ تو صرف معطلہ کا مذہب ہے جو مخلوق کو بنانے والے اللہ تعالی کے وجود کے ہی منکر ہیں ،وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمام جہانوں کا پالنہار ہے اور تمام مخلوقات کو بنانے والا ہے ۔فرعون اور قرامطہ باطنیہ فرقہ جو رب العالمین کے انکاری ہیں ،ان کے نظریات کی حقیقت  اور مطلب یہی ہے " انتہی
"جامع المسائل "ساتوں ایڈیشن(1/247-248)
واللہ اعلم.

سوال: ایک لڑکا بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر گیا، تو اسے کسی نے کہہ دیا: "تم اسلام سے مرتد ہو چکے ہو" اب یہ جملہ کہنے والے شخص کا کیا حکم ہے


سوال: ایک لڑکا بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر گیا، تو اسے کسی نے کہہ دیا: "تم اسلام سے مرتد ہو چکے ہو" اب یہ جملہ کہنے والے شخص کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ:
اول:
مسلمان کو کسی پر لفظ "کفر" کا اطلاق کرتے ہوئے خوب احتیاط برتنی چاہیے؛ کیونکہ کسی موحد مسلمان پر کفر کا فتوی لگانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، چنانچہ امام مسلم (60) نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو یہ دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور جائے گا؛ اگر وہ واقعی کافر تھا تو ٹھیک وگرنہ کہنے والے پر لوٹ جائے گا)
اسی طرح بخاری (6045) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فاسق  یا کافر قرار دے تو یہ لفظ اس شخص کے ایسا نہ ہونے کی صورت میں کہنے والے پر لوٹ جائے گا)
دوم:
برائی سے منع کرنے یا کسی نافرمان شخص کو نصیحت کرتے وقت شفقت اور نرمی سے بات کرنی چاہیے؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے بات زیادہ قابل قبول ہوگی، اور اثر بھی کریگی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نرمی والا ہے، اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا، بلکہ وہ کچھ بھی عطا فرماتا ہے جو کسی اور وجہ سے نہیں دیتا)
اس حدیث کی شرح میں نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں نرمی کی فضیلت اور اسے اپنانے کی ترغیب دلائی گئی ہے، ساتھ میں سختی کی مذمت بھی کی گئی، حقیقت یہی ہے کہ نرمی ہمہ قسم کی خیر و بھلائی کا سر چشمہ ہے۔
اور " نرمی پر عطا فرماتا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ نرمی کی وجہ سے اتنا اجر و ثواب عطا فرماتا ہے جو کسی اور عمل پر نہیں ملتا۔
قاضی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: نرمی سے ایسے اہداف بھی انسان آسانی سے حاصل کر لیتا ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوتے" انتہی
لہذا کسی گناہگار شخص کو "کافر"، "فاسق" ، "مرتد" اور اسی طرح کے دیگر الفاظ  کسنے سے عین ممکن ہے کہ  وہ آپ سے متنفر ہو جائے اور حق بات قبول کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابو ذر رضی اللہ عنہ  کی سابقہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے شخص کو کہا: "تم فاسق ہو" یا "تم کافر ہو" اور حقیقت میں مخاطب ایسا نہ ہوا تو کہنے والا ہی ان اوصاف کا مستحق ٹھہرے گا، تاہم اگر مخاطب واقعی فاسق یا کافر تھا تو متکلم کے سچے ہونے کی وجہ سے یہ وصف اس پر نہیں لوٹے گا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی  نہیں ہے کہ اگر متکلم کافر یا فاسق نہ ہوا تو اسے کسی کو کافر یا فاسق کہنے کا گناہ بھی نہیں ملے، اس بارے میں قدرے تفصیل ہے کہ: اگر متکلم نے مخاطب کو یہ الفاظ بیان کر کے اس کی اصلاح کیلئے حقیقت بیان کرنا مقصود تھا تو اس صورت میں تو جائز ہے، لیکن اگر محض بے عزت اور بدنام کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ مسلمان کو عیب پوشی اور پردہ داری رکھتے ہوئے اچھے انداز سے نصیحت اور سمجھنا نے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ جہاں تک ممکن ہو کہ  سختی کے بغیر کام چل سکتا ہے  چلائے، سختی سے دور رہے؛ کیونکہ سختی سے عین ممکن ہے کہ  بد چلن شخص مزید سرکشی ، بے باکی، اور ڈھیٹ پن پہ اتر آئے، سختی کرنا تشدد پسند لوگوں کا طریقہ ہے" انتہی
سوم:
بے پردہ لڑکی کیساتھ جانے  کا عمل کفر تو نہیں ہے لیکن گناہ ہے؛ کیونکہ اس طرح فحاشی کا ارتکاب ہونے کا خدشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اس لیے بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر جانے والے شخص کو اچھے انداز سے نصیحت کرنی چاہیے، امید ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔
واللہ اعلم.
فتاوى اللجنة الدائمة ( 17/66)
                 

پیر، 25 اپریل، 2016

ایک نوجوان کو شادی کی موقه پر نصحیت

السلام عليكم.
سايل سابت احمد پیر
سوال:شادی کیا هین. اور. اس کا مقصد؟. جزاک الله خیرا
جواب ، وعلیکم السلامسابت صاحب. الله تعالی اپ کو شادی مین برکت دی
اللہ تعالی آپکو جزائے خیر سے نوازے، اور برکتیں عطا کرے، اور آپکو علمی و اخلاقی میدان میں کامیابیاں دے، اور ہم آپکو حدیث میں وارد ایک عظیم فضیلت سنا کر خوشخبری سنانا چاہے گےکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، جس دن اسکے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا) ان میں سے ایک : (وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا) بخاری (629) ومسلم (1031)
اور آپکو نصیحتیں کرنے کیلئے متعدد امور ہیں:
1- میرے بھائی ! شادی سکون، اطمینان، اور راحت کا باعث ہے، یہی دنیا کا بہترین ساز وسامان ہے، اور شادی میں اللہ کی طرف سے لوگوں کیلئے نشانی بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ)
ترجمہ: اور اسکی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں الروم/21
شادی انسان کیلئے باعث سعادت ہے، جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن آدم کی سعادت اور بد بختی کیلئے تین تین چیزیں ہیں، باعث سعادت اشیاء میں: نیک بیوی، اچھا گھر، اور اچھی سواری ہے، جبکہ بد بختی کیلئے تین اشیاء میں : بُری بیوی، برا گھر، اور بری سواری ہے) اسے احمد نے (1/168) روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے "صحيح الترغيب" (2/192) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا نفع اٹھانے کی چیز کا نام ہے، اور بہترین نفع اٹھانے کی چیز نیک بیوی ہے)اسے مسلم (1467) نے روایت کیا ہے۔
2- شادی سے انسان کا دین مکمل ہوتا ہے، جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کو اللہ تعالی نیک صالح بیوی عطا کردے تو اللہ تعالی نے اسکے دین کا ایک حصہ مکمل کرنے میں تعاون کیا ہے، اب اسے چاہئے کہ دین کے دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے) اسے طبرانی نے "الأوسط" (1/294) میں اور حاكم نے "مستدرك" (2/175) میں روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: (جب انسان شادی کرلے تو اسکے دین کا آدھا حصہ مکمل ہوجاتا ہے، اب اسے چاہئے کہ باقی حصہ میں اللہ سے ڈرے)
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: "السلسلة الصحيحة" (625)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شادی انسان کو زنا سے بچاتی ہے، چنانچہ انسان شادی کے ذریعے گناہوں کے دو دروازوں میں سے ایک دروازے کو بند کر لیتا ہے، اور یہ دروازہ شرمگاہ کا دروازہ ہے، جبکہ دوسرا دروازہ زبان ہے، لہذا اس حدیث میں انسان کو اللہ تعالی کی نعمتوں کے بارے میں یاد دہانی کروائی گئی ہے، کہ ایک حصہ مکمل ہوچکا ہے، اور دوسرے حصہ کے بارے میں تقوی الہی کی نصیحت کی گئی ہے۔
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں شرمگاہ اور زبان کو یکجا بیان کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے علمائے کرام کا فہم بھی اسی بات کی غمازی کرتا ہے، اور انہیں احادیث میں سے سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص مجھے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان [شرمگاہ] اور دونوں جبڑوں کے درمیان[زبان] کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں) بخاری (6109)
چنانچہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالی نے آپ پر بہت بڑا انعام کیا ہے کہ اس نے شادی اور پاکدامنی کی آپکو توفیق دی، اب آپ اپنی زبان کے بارے میں اللہ سے ڈریں، اور زبان کو چغلی، غیبت، گالی گلوچ، اور لعن طعن سے محفوظ رکھیں، اپنی زبان کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے استعمال کریں، قرآن مجید کی تلاوت ، کثرت سے تسبیح ، دعائیں، اور اذکار کا اہتمام کریں۔
3- اپنی شادی کو بھر پور انداز میں باسعادت بنانے کیلئے شادی سے پہلے ، بعد، اور شادی کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بھی انتہائی ضروری ہے، چنانچہ شادی سے پہلے نبوی تعلیمات یہ ہیں کہ:
ا- دیندار خاتون کی تلاش کریں، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (عورت سے شادی چار چیزوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے: مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دینداری، چنانچہ تم دیندار کو پا لو، تمہارے ہاتھ خاک آلود کردے گی) بخاری (4802) ومسلم (1466)
دیندار لڑکی کی صفات کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کیلئے سوال نمبر (96584) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کہ لڑکی کچھ نہ کچھ خوبصورت بھی ہو، چنانچہ اس بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا گیا، کونسی خواتین بہتر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: (جسے دیکھ کر اسکا خاوند خوش ہوجائے، اور کوئی حکم دے تو اطاعت کرے، اور اپنے [بناؤ سنگھارکے]بارے میں خاوند کی مخالفت نہ کرے، اور خاوند کا مال سلیقے سے برتے)
اسے أحمد (2/251) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "السلسلة الصحيحة" (1838) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
فقہ حنبلی کی کتاب "شرح منتهى الإرادات" (2/621) میں ہے کہ :
"خوبصورت بیوی حاصل کرنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ خوبصورت بیوی دلی سکون، کامل محبت، اور آنکھوں کو زیادہ محفوظ بنا سکتی ہے، اسی لئے نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے
.

ہفتہ، 26 مارچ، 2016

طلاق اور رحوع كا طريقه


الحمد للہ:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے دے اور يہ پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى ابھى عدت ميں ہى ہو اس كى عدت ختم نہ ہوئى ہو ( يعنى حاملہ ہو تو وضع حمل نہ ہوا ہو، يا پھر اس كے تين حيض پورے نہ ہوئے ہوں ) تو خاوند كے ليے اپنى بيوى سے رجوع كرنا جائز ہے.
اور وہ رجوع كے ليے " ميں نے تجھ سے رجوع كيا " يا پھر ميں نے تجھے ركھ ليا " كہے تو يہ رجوع صحيح ہوگا، اسے اس پر دو گواہ بھى بنانا ہونگے، يا پھر رجوع كى نيت سے بيوى سے تعلقات قائم كرے يعنى جماع كر لے تو بھى اس سے رجوع ہو جائيگا.
رجوع ميں دو گواہ بنانا سنت ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ جب وہ عورتيں اپنى عدت پورى كرنے كے قريب پہنچ جائيں ت وانہيں يا تو قاعدہ كے مطابق اپنے نكاح ميں رہنے دو يا پھر دستور كے مطابق انہيں اپنے سے الگ كر دو اور آپس ميں دو عادل شخصوں كو گواہ بنا لو }الطلاق ( 2 ).
اس طرح رجوع ہو جائيگا.
ليكن اگر پہلى يا دوسرى طلاق ہو اور بيوى كى عدت ختم ہو جائے تو پھر نيا عقد نكاح كرنا ضرورى ہے، تو وہ اس ميں باقى مردوں كى طرح بيوى كے ولى كو نكاح كا پيغام دے كر اس سے رشتہ طلب كريگا، اور جب ولى اور عورت رضامند ہو تو پھر نئے مہر كے ساتھ گواہوں كى موجودگى ميں رضامندى كے ساتھ عقد نكاح ہوگا.
ليكن جب اسے آخرى ( يعنى تيسرى ) طلاق ہو جائے تو وہ عورت اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے، حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے شرعى نكاح رغبت كرے يعنى وہ اس سے نكاح كر كے اس سے وطئ كرے اور پھر اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے }البقرۃ ( 230 ).
يہ حلال نہيں كہ كوئى شخص كسى آدمى كے ساتھ اتفاق كر لے كہ وہ اس سے نكاح كرے اور بعد ميں اسے چھوڑ دے بلكہ يہ نكاح حلالہ كہلاتا ہے اور كبيرہ گناہ ہے، اس نكاح سے وہ عورت اپنے سابقہ خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى، بلكہ حلالہ كرانے اور حلالہ كرنے والے پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے.

ديكھيں: كتاب: فتاوى الطلاق للشيخ عبد العزيز بن باز ( 1 / 195 - 210 ).

جمعہ، 25 مارچ، 2016

لوط كي قوم كا عذاب كيا تها .

الحمد للہ:
اول:
لواطت كا جرم سب جرائم سے بڑا، اور سب گناہوں سے سب سے زيادہ قبيح گناہ ہے، اور افعال ميں سے غلط ہے، اس كے مرتكب افراد كو اللہ تعالى نے وہ سزا دى ہے جو كسى اور امت كو نہيں دى، اور يہ جرم فطرتى گراوٹ، اور بصيرت كے اندھے پن، اور عقلى كمزورى، قلت دين پر دلالت كرتا ہے، اور ذلت و پستى كى علامت، اور محرومى كا زينہ ہے، اللہ تعالى سے ہم عافيت و معافى طلب كرتے ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جب لوط ( عليہ السلام ) نے اپنى قوم كو كہا كيا تم ايسى فحاشى كرتے ہو جو تم سے قبل كسى نے بھى نہي كى، يقينا تم عورتوں كى بجائے مردوں سے شہوت والے كام كرتے ہو، بلكہ تم تو حد سے بڑھى ہوئى قوم ہو، اس كى قوم كا جواب تھا كہ اسے تم اپنى بستى سے نكال باہر كرو يہ پاكباز لوگ بنے پھرتے ہيں، تو ہم نے اسے اور اس كے گھر والوں كو نجات دى، مگر اس كى بيوى پيچھے رہ جانے والوں ميں سے تھى، اور ہم نے ان پر آسمان سے پتھروں كى بارس برسائى، تو آپ ديكھيں كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا ﴾الاعراف ( 80 - 84 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
﴿ تيرى عمر كى قسم يقينا يہ تو اپنى مدہوشى ميں حيران پھرتے ہيں تو انہيں صبح كے وقت ايك چنگاڑ نے پكڑ ليا، اور ہم نے ان كى بستى كا اوپر والا حصہ نيچے كر ديا، اور ہم نے ان پر آسمان سے كنكروں كى بارش برسائى، يقينا اس ميں عقلمندوں كے ليے نشانياں ہيں، اور يہ باقى رہنے والى راہ ہے ﴾الحجر ( 72 - 76 ).
اس كے علاوہ كئى ايك آيات اور بھى ہيں.
ترمذى، ابو داود اور ابن ماجہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم جسے قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1456 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4462 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2561 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى سےمروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قوم لوط جيسا عمل كرنے والے پر اللہ تعالى لعنت فرمائے، اللہ تعالى اس شخص پر لعنت فرمائے جو قوم لوط والا عمل كرتا ہے، يہ تين بار فرمايا"
مسند احمد حديث نمبر ( 2915 ) مسند احمد كى تحقيق ميں شيخ شعيب الارناؤط نے اسے حسن قرار ديا ہے.
اور صحابہ كرام كا لوطى عمل كرنے والے كو قتل كرنے پر اجماع ہے، ليكن اسے قتل كرنے كے طريقہ ميں اختلاف كيا ہے.
ان ميں سے بعض صحابہ كرام تو اسے جلا كر قتل كرنے كے قائل ہيں مثلا على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہما، اور ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كا بھى يہى قول ہے، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.
اور ان ميں سے بعض كى رائے ہے كہ اسے اونچى جگہ سے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائيں مثلا ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى رائے يہى ہے.
اور بعض صحابہ كرام اسے پتھروں سے رجم كرنے كے قائل ہيں حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے، يہ بھى ابن عباس اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.
اور ان ميں سے بعض كا قول ہے كہ اسے قتل كيا جائيگا چاہے وہ كسى بھى حالت ميں ہو، شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور كچھ كا قول ہے كہ: بلكہ زانى جيسى سزا دى جائيگى، اگر تو شادى شدہ ہے تو اسے رجم كيا جائيگا، اور اگر غير شادى شدہ ہے تو اسے كوڑے مارے جائينگے.
اور بعض كا قول ہے كہ: اسے شديد قسم كى وہ تعزير لگائى جائيگى جسے حكمران مناسب سمجھے.
اس مسئلہ ميں ابن قيم رحمہ اللہ نے تفصيل بيان كرتے ہوئے فقھاء كرام كے دلائل بيان كرنے كے بعد اس كا مناقشہ بھى كيا ہے، اور پہلے قول كى تائيد كى ہے، انہوں نے اس فاحش اور منكر كام كا علاج اپنى كتاب " الجواب الكافى لمن سأل عن الدواء الشافي " ميں تفصيلا بيان كيا ہے، يہاں ہم ان كى كلام كا كچھ حصہ ذكر كرتے ہيں:
" اور جب لواطت سب فساد اور خرابيوں سے زيادہ بڑى تھى تو دنيا و آخرت ميں اس كى سزا بھى سب سزاؤں سے بڑى ہوئى.
اس كى سزا ميں لوگوں كا اختلاف ہے كہ آيا اس كى سزا زنا سے بڑى ہے يا كہ زنا كى سزا بڑى ہے، يا دونوں كى سزا برابر ہے ؟
اس ميں تين قول پائے جاتے ہيں:
ابو بكر صديق اور على بن ابى طالب، اور خالد بن وليد، اور عبد اللہ بن زبير، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم، اور امام مالك، اسحاق بن راہويہ، اور امام احمد اصح ترين روايت ميں، اور امام شافعى اپنے ايك قول ميں اس طرف گئے ہيں كہ اس كى سزا زنا سے زيادہ سخت ہے، اور ہر حالت ميں اس كى سزا قتل ہے، چاہے شادى شدہ ہو يا غير شادى شدہ.
اور امام شافعى ظاہر مذہب، اور امام احمد دوسرى روايت ميں يہ كہتے ہيں كہ: اس كى سزا اور زانى كى سزا برابر ہے.
اور امام ابو حنيفہ كا كہنا ہے كہ اس كى سزا زانى كى سزا سے كم ہے اور وہ تعزير ہے. "
ابن قيم رحمہ اللہ يہاں تك كہتے ہيں:
" پہلے قول والے جو كہ جمہور امت ہيں، اور كئى ايك نے صحابہ كرام كا اس پر اجماع بيان كيا ہے ان كا كہنا ہے:
خرابيوں اور فساد ميں لواطت سے بڑھ كر كوئى خرابى اور فساد نہيں جو كفر كى خرابى سے ملتى ہے، اور بعض اوقات تو اس قتل سے بھى بڑھ كر ہے جيسا كہ ہم ان شاء اللہ بيان بھى كرينگے.
ان كا كہنا ہے: اللہ تعالى نے قوم لوط سے قبل كسى بھى قوم كو اس ميں مبتلا نہيں كيا، اور نہ ہى انہيں ايسى سزا دى جو كسى اور امت كو نہيں دى گئى، اور ان كو كئى قسم كى سزا دى گئى، جن ميں ان كى ہلاكت كے ساتھ ساتھ ان كے گھروں كو ان پر الٹا كر گرانا، اور انہيں زمين ميں دھنسانے كے ساتھ ساتھ آسمان سے پتھروں كى بارش كرنا، اور انہيں كى آنكھوں كو پھوڑ كر ركھ دينا، اور ان كا عذاب مستقل كرنا، تو اللہ تعالى نے ان كا انجام ايسا كيا اور انہيں وہ سزا دى جو كسى اور كو نہيں دى.
يہ اس اس عظيم جرم كى بنا پر تھى جس كى بنا پر قريب تھا كہ زمين پر اس عمل كا ارتكاب كرنے كى وجہ سے زمين ہلنے لگتى، اور جب فرشتے اس كا مشاہدہ كرتے تو اہل زمين پر عذاب نازل ہونے كےڈر سے وہ آسمان كى طرف بھاگ نكلتے كہ كہيں وہ بھى عذاب سے دوچار نہ ہو جائيں، اور زمين اپنے پروردگار كے سامنے احتجاج كرنے لگتى، اور پہاڑ اپنى جگہ سے ہل جاتے.
بدفعلى كيے جانے والے شخص كے ليے بہتر ہے كہ اسے قتل كر ديا جائے، كيونكہ جب كوئى شخص اس كے ساتھ بدفعلى كرتا ہے تو اسے وہ ايسا قتل كرتا ہے جس كے ساتھ زندگى كى اميد ہى نہى كى جا سكتى، بخلاف اس شخص كے جسے وہ قتل كر دے تو وہ مظلوم اور شہيد ہوتا ہے، اس كى دليل ( يعنى لواطت قتل سے بھى بڑى خرابى اور فساد ہے ) يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے قاتل كى حد كو مقتول كے ولى كے اختيار ميں ركھا ہے چاہے تو وہ اسے معاف كردے، اور چاہے تو اس سے قصاص لے، ليكن لواطت كى حد كو حتمى طور پر قتل ہى قرار ديا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا اس پراجماع ہے، اور سنت نبويہ بھى اس كى صراحت كرتى ہے، اور اس كا كوئى مخالف نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے خلفاء راشدين رضى اللہ تعالى عنہم نے اس پر عمل بھى كيا ہے.
صحيح روايت سے ثابت ہے كہ خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ نے عرب كے ايك علاقے ميں ديكھا كہ ايك مرد كے ساتھ وہى كچھ كيا جاتا ہے جس طرح عورت كے ساتھ تو انہوں نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا، چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے صحابہ كرام سے مشورہ كيا، تو اس كے متعلق ان سب ميں زيادہ شديد قول على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كا تھا، وہ كہنے لگے:
ايسا فعل تو صرف ايك امت نے كيا تھا، اور تمہيں علم ہے كہ اللہ تعالى نے ان كے ساتھ كيا سلوك كيا، ميرى رائے ہے كہ انہيں آگ ميں جلا كر راكھ كر ديا جائے، تو ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كو انہيں جلا كر راكھ كر دينے كا لكھا.
اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:
بستى اور شہر ميں سب سے اونچى عمارت ديكھ كر لواطت كرنے والے شخص كو اس سے گرا كر اوپر سے پتھر برسائے جائينگے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے اس حد كو قوم لوط كے عذاب سے اخذ كيا ہے.
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ روايت كرتے ہيں كہ:
" جسے تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
اسے اہل سنن نے روايت كيا ہے، اور ابن حبان وغيرہ نے صحيح قرار ديا ہے، ا ور امام احمد رحمہ اللہ نے اس حديث سے حجت اور دليل پكڑى ہے، اور اس كى سند بخارى كى شرط پر ہے.
وہ كہتے ہيں: اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے، اللہ تعالى قوم لوط والا عمل كرنے والے پر لعنت كرے )
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كسى ايك ہى حديث ميں زانى پر تين بار لعنت نہيں آئى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبيرہ گناہوں كے مرتكب افراد پر لعنت تو كى ہے، ليكن ايك بار سے زيادہ سے تجاوز نہيں كيا، اور لواطت كے متعلق تين بار تكرار كے ساتھ لعنت كى ہے.
اور پھر صحابہ كرام نے اس كے قتل پر عمل بھى كيا ہے، اور اس ميں كسى بھى دو صحابيوں كا اختلاف نہيں، بلكہ اسے قتل كرنے كے طريقہ كار ميں ان كا اختلاف پايا جاتا ہے، جسے بعض افراد نے اسے قتل كرنے ميں اختلاف سمجھا ہے، تو اسے صحابہ كرام كے مابين نزاعى مسئلہ بيان كيا ہے، حالانكہ يہ تو ان كے مابين مسئلہ اجماع ہے نہ كہ مسئلہ نزاع.
ان كا كہنا ہے: اور جو كوئى بھى اللہ سبحانہ وتعالى كے درج ذيل فرمان:
﴿ اور تم زنا كے قريب بھى نہ جاؤ، كيونكہ يہ فحاشى اور غضب كا باعث ہے، اور برا راستہ ہے ﴾.
اور لواطت كے متعلق فرمان بارى تعالى:
﴿ تو كيا تم ايسا فحش كام كرتے ہو جو تم سے قبل جہان والوں ميں سے كسى نے بھى نہيں كيا ﴾.
پر غور و فكر اور تامل كيا تو اس كے سامنے ان دونوں كے مابين فرق واضح ہو جائيگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زنا كو نكرہ ذكر كيا ہے، يعنى وہ فحش كاموں ميں سے ايك فحش كام ہے، اور اسے لواطت ميں معرفہ ذكر كيا ہے، جو فحاشى كے تمام معانى كو اپنے اندر جمع كرنے كا فائدہ دے رہا ہے، جيسے آپ كہيں كہ: زيد الرجل، اور نعم الرجل زيد.
يعنى: تم اس خصلت كا ارتكاب كر رہے ہو جس كى فحاشى ہر شخص كے ہاں مقرر ہے، جس ميں اس كى فحاشى اور كمال بيان كرنے كى كوئى ضرورت ہى نہيں رہتى، اس ليے كہ اسم كسى اور كى طرف منصرف نہيں ہو سكتا" .... انتہى
ديكھيں: الجواب الكافى ( 260 - 263 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لواطت كے بارہ ميں بعض علماء كرام كا قول ہے كہ اس كى حد زنا كى حد جيسى ہى ہے، اور اس كے علاوہ اور قول بھى كہا گيا ہے.
ليكن صحيح بات اور جس پر صحابہ كرام كا اتفاق ہے وہ يہ ہے كہ: اوپر اور نيچے والے دونوں كو ہى قتل كر ديا جائيگا، چاہے وہ شادى شدہ ہوں يا غير شادى شدہ، كيونكہ اہل سنن نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے بھى تم قوم لوط والا عمل كرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں كو قتل كر دو "
اور ابو داود نے كنوارے لواطت كرنے والے شخص كے متعلق ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" اسے رجم كيا جائيگا "
اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اس جيسى روايت بيان كى جاتى ہے، لواطت كرنے والے شخص كو قتل كرنے ميں صحابہ كرام كے مابين كوئى اختلاف نہيں، ليكن اسے قتل كرنے كے كئى ايك طريقے بيان كيے ہيں.
چنانچہ ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے اسے جلانے كا حكم ديا تھا، اور ان كے علاوہ دوسروں سے قتل كرنے كا بيان كيا جاتا ہے.
اور بعض سے بيان كيا جاتا ہے كہ: اس پر ديوار گرا دى جائيگى حتى كہ وہ ہلاك ہو جائے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: انہيں گندى اور بدبودار جگہ پر قيد كيا جائيگا حتى كہ وہ مر جائيں.
اور بعض كہتے ہيں:
اسے بستى ميں سب سے اونچى ديوار پر چڑھا كر اسے نيچے گرا كر اس پر پتھر برسائے جائينگے، جس طرح اللہ تعالى نے قوم لوط كے ساتھ كيا تھا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ايك روايت يہى ہے، اور دوسرى روايت يہ ہے كہ اسے رجم كيا جائيگا، اكثر سلف كا مسلك يہى ہے.
ان كا كہنا ہے: كيونكہ اللہ تعالى نے قوم لوط كو رجم كيا تھا، اور قوم لوط سے مشابہت ميں زانى كو رجم كرنا مشروع كيا ہے، تو اس ليے دونوں كو ہى رجم كيا جائيگا، چاہے وہ آزاد ہوں يا غلام، يا ان ميں سے ايك غلام اور دوسرا آزاد ہو، جب دونوں بالغ ہوں تو انہيں رجم كيا جائيگا، اوراگر ان ميں سے كوئى ايك نابالغ ہو تو اسے قتل سے كم سزا دى جائيگى، اور صرف بالغ كو ہى رجم كيا جائيگا " انتہى.
ماخوذ از: السياسۃ الشرعيۃ صفحہ ( 138 ).
دوم:
جس كے ساتھ لواطت كى جائے وہ بھى فاعل كى طرح ہى ہے، كيونكہ وہ دونوں فحش كام ميں شريك ہيں، تو اس ليے ان كى سزا قتل ہے جيسا كہ حديث ميں بھى وارد ہے، ليكن اس سے دو صورتيں مستثنى ہونگى:
پہلى صورت:
جسے زدكوب كر كے يا قتل وغيرہ كى دھمكى دے كر لواطت كرنے پر مجبور كيا گيا ہو، تو اس پر كوئى حد نہيں.
شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:
" جس شخص كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ مكرہ ہو اور اسے قتل كر دينے دھمكى دے كر يا زدكوب كر كے مجبور كيا گيا ہو يا لواطت كرنے والا شخص اس پر غالب آ گيا ہو تو اس پر كوئى حد نہيں " انتہى بتصرف
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 348 ).
دوسرى صورت:
جس كے ساتھ لواطت كى گئى ہے اگر وہ چھوٹا بچہ ہو ابھى بالغ نہيں ہوا تو اس پر كوئى حد نہيں، ليكن اسے تعزير لگائى جائيگى ادب سكھايا جائيگا جس سے اس عمل كو روكنے ميں مدد ملے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كى كلام ميں بيان ہو چكا ہے.
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ نے " المغنى " ميں نقل كيا ہے كہ:
" مجنون اور بچہ جو بالغ نہيں ہوا اسے حد نہ لگانے ميں علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں "
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 62 ).
واللہ اعلم

پیر، 14 مارچ، 2016

عورت اگر گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگائے اور گھر میں محرم و غیر محرم کا آنا جانا ہو

سوال: میں کنواری لڑکی ہوں اور گھر میں رہتے ہوئے خوشبو لگاتی ہوں، تو اگر اسی دوران گھر میں غیر محرم مہمان آ جائیں تو اس حالت میں خوشبو کا کیا حکم ہوگا؟ 
-----------------------------_---------------------_----------------------------------------
الحمد للہ:
عورت اپنے گھر میں محرم کی موجودگی میں خوشبو لگا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، محرم افراد کے سامنے خوشبو لگانے کی دلیل  اس آیت سے لی جا سکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
( وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ ... )
ترجمہ: خواتین اپنی زینت  صرف اپنے خاوند، باپ، سسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے یا خواتین کے سامنے ہی ظاہر کر سکتی ہیں۔۔۔ [النور :31]
اور زینت میں خوشبو بھی شامل ہے۔
دیکھیں: تفسیر ابن کثیر: (6/45-49)
شریعت کی رو سے منع یہ ہے کہ عورت گھر سے باہر رہتے ہوئے خوشبو کا استعمال کرے، جہاں اسے اجنبی مردوں کے پاس سے گزرنا پڑے؛ اس کی دلیل نسائی (5126) میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرتی ہے کہ لوگوں کی اس کی خوشبو پہنچے تو وہ زانیہ ہے) 
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح سنن نسائی" میں حسن قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے مطابق خواتین کیلئے گھر سے باہر خوشبو کا استعمال منع ہے۔
لیکن اگر گھر میں رہتے ہوئے خاتون نے خوشبو لگائی اور پھر گھر میں غیر محرم آ گئے اور انہیں بھی یہ خوشبو پہنچ گئی تو اس میں خاتون پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ  سابقہ حدیث میں ممانعت ایسی عورت کے بارے میں ہے جو خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے، ویسے بھی گھر میں عورت کو خوشبو لگانے کی اجازت ہے ، اور گھروں میں  مہمان وغیرہ آتے رہتے ہیں ۔
تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ گھروں میں غیر محرم مردوں کیساتھ گھل مل کر بیٹھے، بلکہ ان سے الگ تھلگ رہے ۔
اور اگر ایسی صورت حال بن جائے کہ عورت کو بھی ایسی جگہ ٹھہرنا پڑے جہاں پر غیر محرم مرد موجود ہیں تو پھر اس جگہ جانے سے پہلے خوشبو کے اثرات کو زائل کرنے کی پوری کوشش کرے۔
Www.mominsalafi.blogspot.com
Www.islamic361.blogspot.com

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...