منگل، 24 مئی، 2016

شب برات اور معراج كا روزہ ركھنا

كيا درج ذيل امور بدعت شمار ہوتے ہيں
1 ـ آٹھ ركعت سے زيادہ تراويح ادا كرنا
2 ـ معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دن روزہ ركھنا ( جو شخص يہ اعتقاد ركھتا ہو كہ متعين تاريخ معراج كا دن ہے، اور جو شخص يہ جانتا ہو كہ احاديث ميں اس كى كوئى متعين تاريخ نہيں، ليكن وہ اللہ كى رضا كے ليے اس دن روزہ ركھے ). 
3 ـ شب برات كا روزہ ركھنا
4 ـ كيا يہ بدعت نہيں كہ كوئى شخص يہ كہے كہ شب برات كا روزہ ركھنا نفلى روزہ ہے ؟ 
بعض مسلمان كہتے ہيں كہ اگر ہم آٹھ تروايح سے زيادہ ادا كريں اور مختلف ايام مثلا " شب برات " اور معراج النبى اور ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا روزہ ركھيں تو يہ بدعت نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ عبادات سكھائى ہيں، تو يہ بتائيں كہ نماز كى ادائيگى اور ( حرام كردہ ايام كے علاوہ ) كسى بھى دن روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے، اور اس كا حكم كيا ہے ؟ 
5 ـ نماز تسبيح ادا كرنا ( كہ ہر ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جائے ) كيسا ہے ؟

الحمد للہ:

1 ـ آٹھ ركعت سے زيادہ تروايح ادا كرنا اس وقت بدعت شمار نہيں ہو گى جب كچھ راتوں كو زيادہ ركعات كے ساتھ مخصوص نہ كيا جائے مثلا آخرى عشرہ، كيونكہ ان راتوں ميں بھى اتنى ہى ركعات ادا كى جائيں جتنى پہلى راتوں ميں ادا كى جاتى ہيں، بلكہ آخرى عشرہ ميں تو ركعات لمبى كرنا مخصوص ہے، ليكن سنت يہى ہے كہ آٹھ ركعات كى جائيں يہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ثابت ہے.

2 ـ جس دن معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا اعتقاد ركھا جاتا ہے اس دن كا روزہ ركھنا جائز نہيں، بلكہ يہ بدعت ميں شامل ہو گا, لہذا جس نے بھى اس دن كا روزہ ركھا چاہے بطور احتياط ہى يعنى وہ يہ كہے كہ اگر يہ حقيقتا معراج والا دن ہے تو ميں نے اس كا روزہ ركھا، اور اگر نہيں تو يہ خير و بھلائى كا عمل ہے اگر اجر نہيں ملے گا تو سز بھى نہيں ملى گى، تو ايسا كرنے والا شخص بدعت ميں داخل ہو گا اور وہ اس عمل كى بنا پر گنہگار اور سزا كا مستحق ٹھريگا.

ليكن اگر اس نے اس دن كا روزہ تو ركھا ليكن اس ليے نہيں كہ وہ معراج كا دن ہے بلكہ اپنى عادت كے مطابق ايك دن روزہ ركھتا اور ايك دن نہيں، يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھتا تھا اور يہ اس كى عادت كے موافق آ گيا تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ اس نيت يعنى سوموار يا جمعرات يا جس دن كا روزہ ركھتا تھا سے روزہ ركھ لے.

3 ـ 4 ـ معراج كے دن روزہ ركھنے كے بارہ ميں كلام بھى شب برات كا روزہ ركھنے كى كلام جيسى ہى ہے، اور جو مسلمان يہ كہتا ہے كہ معراج يا شب برات كا روزہ بدعت نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں عبادات سكھائى ہيں تو حرام كردہ ايام كے علاوہ ميں روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے ؟

ہم اس كے جواب ميں يہ كہيں گے:

جب ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ عبادات سكھائى ہيں تو معراج وغيرہ كے روزے كى تخصيص كى دليل كہاں ہے، اگر ان دونوں ايام كے روزے ركھنے كى مشروعيت كى دليل ہے تو پھر كوئى شخص بھى ان كو بدعت كہنے كى جرات اور استطاعت نہيں ركھتا.

ليكن ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ بات كہنے والے كا مقصد يہ ہے كہ روزہ مجمل طور پر عبادت ہے اس ليے اگر كوئى شخص روزہ ركھتا ہے تو اس نے عبادت سرانجام دى اور جب يہ ممنوعہ ايام مثلا عيد الفطر اور عيد الاضحى كے علاوہ ميں ہو تو اسے اس كا ثواب حاصل ہو گا، اس كى يہ كلام اس وقت صحيح ہو گى جب روزہ ركھنے والا كسى دن كو روزہ كى فضيلت كے ساتھ مخصوص نہ كرے مثلا معراج يا شب برات، يہاں اس روزے كو بدعت بنانے والى چيز اس دن كے ساتھ روزہ مخصوص كرنا ہے كيونكہ اگر ان دو ايام ميں اگر روزہ ركھنا افضل ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى ان ايام كے روزے ركھتے، يا پھر ان ايام كا روزہ ركھنے كى ترغيب دلاتے.

اور يہ معلوم ہے كہ صحابہ كرام ہم سے خير و بھلائى ميں آگے تھے، اگر انہيں ان ايام كے روزہ كى فضيلت كا علم ہوتا تو وہ بھى ان ايام كا روزہ ركھتے، ليكن ہميں اس كے متعلق صحابہ كرام سے كچھ نہيں ملتا، اس سے معلوم ہوا كہ يہ بدعت اور نئى ايجاد كردہ چيز ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

يعنى وہ عمل اس پر رد كر ديا جائيگا، اور ان دو ايام كا روزہ ركھنا ايك علم ہے، اور ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس پر كوئى حكم اور امر نہيں ملتا تو پھر يہ مردود ہے.

5 - نماز تسبيح نفل ہے: اس پر كلام بھى بالكل پہلى كلام كى طرح ہى ہے، كہ جس عبادت پر كوئى شرعى دليل نہيں ملتى تو وہ مردود ہے، اور اس ليے كہ نہ تو كتاب اللہ ميں اور نہ ہى سنت رسول صلى اللہ ميں كوئى ايسى نماز ملتى ہے جس كى ايك ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جاتى ہو تو پھر يہ نماز بدعت ہوئى اور ايسا كرنے والے پر اس كا وبال ہو گا .

 

پیر، 16 مئی، 2016

 

سوال: میں اور میرا دوست یونیورسٹی کی جائے نماز میں ظہر کے وقت داخل ہو ئے تو ہمیں ایک شخص پہلے سے نماز پڑھتا ہوا دکھائی دیا تو ہم اس کے ساتھ با جماعت کی نیت سے نماز ظہر پڑھنے کیلیے داخل ہو گئے، لیکن اس بھائی نے امام کی طرح تکبیرات اور سلام کیلیے اپنی آواز بلند نہیں کی، ہم نے نماز میں اٹھتے بیٹھتے اس کی اقتدا کرنے کی کوشش کی ، اور جس وقت اس نے اپنی نماز مکمل کر لی تو ہم نے اپنی بقیہ نماز پوری کر لی، لیکن افسوس کہ ہم اس بھائی سے ایسا کرنے پر استفسار نہیں کر سکے، تو کیا ہماری وہ نماز درست تھی؟


الحمد للہ:


علمائے کرام نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ امام کا تکبیرات اور سلام کو بلند آواز سے کہنا سنت ہے یعنی: واجب یا رکن نہیں ہے۔


چنانچہ اس بنا پر ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہو گی جو نماز میں تکبیرات یا سلام بلند آواز سے نہیں کہتا۔


ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:


 "امام کیلیے "سمع اللہ لمن حمدہ"جہری کہنا سنت ہے  اسی طرح تکبیرات کو بلندی آواز سے کہنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ یہ ایک رکن سے دوسرے رکن میں جاتے وقت کا ذکر ہے ؛ چنانچہ تکبیرات کی طرح جہری "سمع اللہ لمن حمدہ" کہنا بھی شرعی عمل ہے" انتہی


 " المغنی " (1/301)


اسی طرح شیخ مصطفی رحیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:


 "امام کیلیے تکبیرات جہری یعنی بلند آواز سے کہنا مسنون ہے، تا کہ مقتدی امام کی اقتدا آسانی سے کر سکے؛ دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان ہے کہ: (جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو) اسی طرح "سمع اللہ لمن حمدہ" اور دائیں جانب سلام کہنا بھی مسنون ہے؛ تا کہ مقتدی امام کی اقتدا کر سکے۔۔۔ اسی طرح جہری نماز میں بلند آواز کے ساتھ قراءت کرنا بھی مسنون ہے اس کیلیے امام تکبیرات، تسمیع [یعنی: سمع اللہ لمن حمدہ کہنا] دائیں جانب سلام، اور قراءت کی آواز اپنے مقتدیوں کو سنائے ؛ تا کہ مقتدی اس کی اقتدا کر سکیں، اور امام کی قراءت سنیں" انتہی


 " مطالب اولی النهى " (1/420)


اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ جس شخص کے پیچھے آپ نے نماز ادا کی ہے اس نے آپ کی امامت کی نیت ہی نہیں کی ؛ اسی لیے اس نے تکبیرات اور سلام بلند آواز سے نہیں کہے تو پھر بھی راجح موقف کے مطابق اس کے پیچھے نماز درست ہوگی؛ کیونکہ امامت کروانے کی نیت کرنا واجب نہیں ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:


 "چوتھی صورت یہ ہے کہ: مقتدی اقتدا کرنے کی نیت تو کرے لیکن امام امامت کروانے کی نیت نہ کرے تو صرف امام کی نماز صحیح ہوگی  لیکن مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی۔


 اس کی مثال یہ ہے کہ:


 ایک شخص مسجد میں آئے اور کسی شخص کے پیچھے اس نیت سے کھڑا ہو جائے کہ وہ امام ہے لیکن پہلا شخص امامت کی نیت نہ کرے تو پہلے شخص کی نماز تو درست ہوگی لیکن دوسرے شخص کی نماز درست نہیں ہوگی ؛ کیونکہ دوسرے شخص نے ایسے شخص کو اپنا امام بنایا جو اس کا امام تھا ہی نہیں ، حنبلی مذہب میں یہی موقف ہے، نیز یہ حنبلی مذہب کا انفرادی مسئلہ ہے جیسے کہ الانصاف میں ہے


اس مسئلہ میں دوسرا موقف یہ ہے کہ: اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اپنا امام بنا لیتا ہے جس نے امامت کی نیت ہی نہیں کی تو ایسا کرنا صحیح ہے۔


اس موقف کےقائلین دلیل یہ دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کی کسی رات میں قیام فرما رہے تھے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے جمع ہو کر نماز ادا کرنے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس بات کا ادراک نہیں تھا، پھر آپ نے دوسری اور تیسری رات بھی انہیں نماز پڑھائی اور آپ کو ان کے بارے میں علم ہو چکا تھا، لیکن آپ چوتھے دن امام سے پیچھے ہی رہے مبادا یہ نماز ان پر فرض ہی نہ ہو جائے، یہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ مقصود یہ ہے کہ امام کی اتباع اور اقتدا ہو اور اس صورت میں اس کی اقتدا  موجود ہے۔۔۔" انتہی


 " الشرح الممتع " (2/306)


 


واللہ اعلم.


 


ہفتہ، 30 اپریل، 2016

دیوبندیوں کا عقیدہ وحدت الوجود

سوال: میں دیوبندی حنفی مذہب سے تعلق رکھتا ہوں، اور دیوبندیوں کے مذہبی رہنماؤں کا عقیدہ وحدت الوجود کاہے ؛ لہذا میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا کفر ہے؟
جو شخص دیوبندی مذہب، اس کے مراحل اور ان کے ائمہ کے عقائد پر گفتگو کرنے والے لٹریچر کا مطالعہ کرے گا اس کیلئے یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ ان کے مشہور قائدین عقیدہ بیان کرتے ہوئے تناقض اور تصادم کا شکار ہیں، یا کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے بعض عقائد میں تناقض پایا جاتا ہے، جس کا سبب یہ ہے کہ اس فرقہ نے عقائد کو ان آلائشوں سے پاک وصاف کرنے کا کوئی اہتمام نہ کیا جن سے عقیدہ گدلا ہو جاتا ہے، اور نہ ہی تحقیق و سوچ و بچار کے طریقہ  کار میں نکھار کے لئے کوئی جد و جہد کی، ہاں ایک چیز ان میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان کے عقیدہ میں  فاسد نظریات اور باطل اعتقادات کی بھر مار ہے جو کہ سراسر قرآن و حدیث اور اجماعِ علما کے مخالف ہیں ۔
ان باطل عقائد میں سے ایک نظریہ "وحدت الوجود" بھی ہے یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ہر موجود چیز بذات خود اللہ ہے، اس عقیدہ کے حاملین کو "اتحادیہ" بھی کہا جاتا ہے، یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ اس طرح ملا ہوا ہے کہ تمام  موجودات متعدد وجود کی بجائے ایک ہی وجود بن گیا ہے !!
ان لوگوں کے ہاں اس عقیدے کا حامل ہی موحد ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسے لوگ توحید سے کوسوں دور ہیں۔
اس عقیدے  کا اقرار دیوبندیوں کے اکابر ائمہ اس قدر وضاحت سے کر چکے ہیں کہ جس سے کوئی بھی منصف مزاج محقق انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی کوئی حیلہ جوئی کر سکتا ہے، ہم یہاں چند واضح اور صریح اقوال نقل کرتے ہیں ،ایسے اقوال ذکر نہیں کرینگے جن کی تاویل کی جاسکتی ہے  تاکہ گفتگو طوالت اختیار نہ کر جائے:
دیوبندیوں کے شیخ المشائخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (متوفی 1317ھ)کا کہنا ہے کہ :
"وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنا ہی حق اور سچ ہے"  انتہی
شیخ امداد اللہ کی تصنیف "شمائم امدادیہ "(ص/32)
بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ:
"عابد اور معبود کے درمیان فرق کرنا ہی صریح شرک ہے "  صفحہ: (37)  
اور تلبیس  ابلیس کے زیر اثر ان غلط نظریات کیلئے بے مہار وسعت سے کام لیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس خطرناک بات کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا :
"بندہ اپنے وجود سے پہلے مخفی طور پر رب تھا اور رب ہی ظاہر میں بندہ ہے"[العیاذباللہ]
دیکھیں: "شمائم امدادیۃ "صفحہ: (38)
 فضل حق خیر آبادی کا لکھنا ہے کہ:
"اگر رسولوں کو وحدت الوجود کی طرف دعوت کا مکلف ٹھہرایا جاتا تو رسولوں کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا، چنانچہ ان کو حکم ہوا کہ وہ لوگوں کی عقل و سمجھ کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعوت دیں "
دیکھیں: کتاب "الروض المجود" از: فضل حق خیر آبادی صفحہ: (44)
محمد انور شاہ کشمیری (متوفی1352ھ)جن کو امام العصر کا لقب دیا گیا ہے، ایک حدیث کی شرح میں انکا لکھنا ہے کہ:
"حدیث میں وحدت الوجود کی طرف اشارہ ملتا ہے، ہمارے مشائخ شاہ عبد العزیز کے زمانے تک اس مسئلہ کے بڑے گرویدہ تھے، لیکن میں اس مسئلہ میں متشدد نہیں ہوں "
دیکھیں: "فیض الباری شرح صحیح البخاری"(4/428)
صوفی اقبال محمد زکریا کاندہلوی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اس نے ہمیں وحدت الوجود کا راز معلوم کروایا، وہ ایسے کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ عشق، معشوق اور عاشق سب ایک ہی ہیں "انتہی
ماخوذ از کتاب: "محبت" صفحہ: (70)
"تعلیم الاسلام" کے مصنف کا کہنا ہے کہ:
"یہاں پر تصوف کا ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے اور وہ ہے " وحدت الوجود" جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر موجود چیز اللہ ہے، اور اس کے علاوہ کسی وجود کا ہونا صرف وہم اور خیال ہے ۔۔۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ مشائخ کا یہ کہنا کہ اللہ کے علاوہ کوئی وجود نہیں، بالکل درست ہے۔
دیکھیں: کتاب "تعلیم الاسلام" صفحہ:( 552)
یہ تمام اقتباس  ہم نے شیخ ابو اسامہ سید طالب الرحمن (مدیر: المعھد العالی راولپنڈی، پاکستان)کی کتاب "الدیوبندیہ"(ص/29-42) مطبوعہ دار صمیعی (1998ء)سے نقل کی ہیں۔
چونکہ وہ تمام مراجع جن سے عبارات نقل کی گئی ہیں عربی میں نہیں ہیں ،مزید یہ کہ دیوبندی علماء کی عربی تصنیفات بہت کم ہیں، اس لئے ہم براہ راست ان کتابوں سے رجوع نہیں کر سکے ، اور اسی لئے اس کتاب[الدیوبندیہ]پر اعتماد کیا گیا ہے کیونکہ یہ کتاب اس بارے میں اہم مأخذ ہے۔
سوم:
عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر علما کا اتفاق ہے ، ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ­۔
اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم  سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ}
ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]
ایک جگہ فرمایا:
{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }
ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
دیکھیں: کیسے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر کفر کا حکم لگایا ہے جنہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا حصہ قرار دیا، اور بعض مخلوق کی اللہ تعالی کیساتھ رشتہ داری بیان کی ،تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو خالق اور مخلوق کا ایک ہی وجود مانے!؟
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے!! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}
ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
اور اللہ سبحانہ تعالی فرماتا ہے:
{ أَوَلا يَذْكُرُ الإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا }
ترجمہ: کیا انسان کو یہ یاد نہیں ہے کہ پہلے بھی ہم نے اسے پیدا کیا حالانکہ وہ معدوم تھا [مریم:67]
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق  اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ}
ترجمہ: اللہ کے سوا جن چیزوں کو وہ پوجتے ہیں وہ چیزیں آسمانوں اور زمیں سے رزق مہیا کرنے کا بالکل اختیار نہیں رکھتیں [النحل : 73]
چنانچہ جواس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
مزید بر آں جو قباحتیں  وحدت الوجود کے دعوے سے لازم آتی ہیں ،اس باطل عقیدے کی تردید کے لئے کافی ہیں ، جواس عقیدے پر ایمان لے آتا ہے تو اس کی حالت اسے بد کاری کے حلال اور ایمان و کفر کے درمیان برابری قرار دینے پر مجبور کر دے گی، کیونکہ ان کے وہم و گمان کے مطابق دعوی یہ ہے کہ عقائد کا انحصار ایک وجود کے ساتھ ایمان لانے پر ہے ، اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ عز و جل کی گھٹیا ترین مخلوقات، چوپاؤں ، پلید اشیا وغیرہ کی طرف کی جائے ، اللہ تعالی ان کے شاخسانوں سے بہت بلند و بالا ہے ۔
ہم یہاں انہی دیوبندیوں ہی کی کتابوں سے بعض ایسی باطل چیزوں کا ذکر کریں گے جو اس عقیدے کی وجہ سے لازم آتی ہے [یعنی ایسی چیزیں جواس عقیدہ  کو ماننے سے ماننا پڑیں  گی] اگر ہم دیگر مسالک کی قدیم و جدید کتب سے یہ لوازم ذکر کرنا شروع کر دیں تو بات بہت طول اختیار کر جائے گی۔
امتِ دیوبند کے حکیم اشرف علی تھانوی (1362ھ) امداد اللہ مکی -جو دیوبندیوں کے مرشدِ اول ہیں- سے بیان کرتے ہیں:
"کہ ایک موحد [ان کے مطابق ایسا شخص جو وحدت الوجود کا قائل ہو]سے یہ کہا گیا کہ:
" اگر مٹھائی اور پا خانہ ایک ہی چیز ہیں تو دونوں کھا کر دکھاؤ" !تو اچانک اس موحد نے ایک خنزیر کا روپ دھارا اور پا خانہ کھا گیا[!!]، پھر آدمی کی صورت اختیار کر کے مٹھائی کھا گیا "
پھر  لا دینیت  اور صنم پرستی پر مشتمل سطور بالا کو نقل کر کے اس کی شرح میں اشرف علی جنہیں [ان کے ہاں ]حکیم الامت !! کا لقب دیا جاتا ہے ان کا لکھنا ہے:
"یہ اعتراض کرنے والا بھی کوئی بے وقوف ہی تھا؛ اسی  لئے موحد کو ایسا مجبوراً کرنا ، ورنہ جواب تو واضح تھا، وہ یہ کہ مٹھائی اور پاخانہ حقیقت میں ہی چیز ہیں اگر چہ ان کا حکم اور اثرات مختلف ہیں "
دیکھیں: اشرف علی تھانوی کی کتاب "امدادالمشتاق" صفحہ: ( 101)
یہ عبارت ہم نے شمس الدین افغانی کی کتاب "جھودعلماءالحنفیۃ فی ابطال عقائدالقبوریۃ" (2/790۔791)سے نقل کی ہے
رشید احمد گنگوہی نے لکھا ہے:
"سہارنپور شہر کی بہت سی زانیہ عورتیں پیر ضامن علی جلال آبادی –جو کہ دیوبندیوں کے اکابرین میں سے ہیں- ان کی مرید تھیں ، ایک دن آپ ان میں سے کسی ایک کے ہاں قیام فرما تھے، کہ سبھی وہاں جمع وہاں ہوگئیں لیکن ان میں سے ایک غائب تھی، شیخ نے اس کے غائب ہونے کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ: حضور ہم نے تو اسے آپ کی زیارت کیلئے لانے کیلئے بڑے جتن کئے، لیکن اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا: "میں گناہوں میں لت پت ہوں، کالے منہ کو لیکر کیسے پیر صاحب کے سامنے آسکتی ہوں"؟ ۔پیر صاحب نے اصرار کیا کہ اسے ضرور حاضر کیا جائے، جب وہ اسے لیکر آئیں اور وہ  پیر صاحب کے سامنے کھڑی ہوئی ۔۔۔ تو پیر صاحب نے کہا:  شرماتی کیوں ہو ؟کرنے والا اور کرانے والا خود وہی تو ہے [!!] جوں ہی اس فاحشہ نے پیر صاحب کی یہ بات سنی تو غصے سے لال پیلی ہو کر بولی: " لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،میں اگرچہ نافرمان اور سیاہ کار ہوں لیکن میں اس جیسے پیر سے مکمل طور پر بری ہوں اور فورا! وہاں سے اٹھی اور چلی گئی اور پیر صاحب ندامت اور شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے"
مکمل قصہ ملاحظہ فرمائیں عاشق الہی میرٹھی کی کتاب "تذکرۃ الرشید" (2/242)
ہم نے اسے شیخ ابو اسامہ کی کتاب "الدیوبندیہ "صفحہ: ( 40)سے نقل کیا ہے ۔
ہم اللہ سے سلامتی و عافیت کا سوال کرتے ہیں ،اور ہدایت سے بھٹکے لوگوں کی ہدایت کی امید کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے "
"درء تعارض العقل و النقل "(1/283)
اور مزید کہتے ہیں:
" اتحادِ مطلق کا نظریہ  وحدت الوجود کے قائلین کا ہے، انکا یہ دعوی ہے کہ مخلوق کا وجود اللہ ہی کا وجود ہے، یہ حقیقت میں [مخلوق کو ] بنانے والے[اللہ تعالی ]کی نفی اور اس کا انکار ہے، بلکہ یہ عقیدہ تمام شرکیات کا مجموعہ ہے "
"مجموع الفتاوی "(10/59)
مزید کہتے ہیں:
"ایک عقیدہ "وحدت الوجود "جس کے مطابق : خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے"
"مجموع الفتاوی"(18/222)
اس عقیدے کے لوازم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا:
"اس-ابن عربی - کے مذہب کی حقیقت یہ ہے کہ تمام کائنات کا وجود-بشمول کتے، خنزیر، گندگی، پیشاب  و پاخانہ ،کفار اور شیاطین - عین حق تعالی کاہی وجود ہے، اور کائنات کی تمام اشیا زمانہ قدیم سے ہی موجود ہیں، اللہ تعالی نے ان کو نئے سرے سے پیدا نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالی کا وجود ان تمام چیزوں  [یعنی تمام صاحب الوجود موجودات]میں ظاہر ہوا، اللہ کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ان ذوات کے علاوہ کسی اور چیز میں اپنے وجود کو ظاہر کرے، یہ تمام چیزیں احکامات کی شکل میں اس کی غذا ہیں اور وہ [حق تعالی]وجود کے ذریعے ان مخلوقات کی غذا ہے، اللہ ان کی اور یہ اللہ کی عبادت کرتی ہیں ،اور یہ کہ خالق کی ذات بعینہ مخلوق کی ذات ہے، اور حق تعالی کی ذات جو ہر نقص و عیب اور مشابہت  سے پاک ہے وہ بعینہ ایسی مخلوق کی ذات ہے جو دوسروں سے مشابہت رکھتی ہے ،اور یہ کہ خاوند ہی بیوی ہے ،گالی دینے والا خود اپنی ذات کو ہی گالی دے رہا ہے ،اور یہ کہ بتوں کے پجاری در اصل اللہ ہی کی عبادت کر رہے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت ممکن ہی نہیں ہے ۔
اور یہ کہ اللہ تعالی کے فرمان:
 {وَقَضَی رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ}
ترجمہ: تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو[الاسراء: 23]
اس میں "قَضَی" کا معنی ہے: "حکم دیا اور فیصلہ کیا"  اور اللہ کا فیصلہ لامحالہ واقع ہو کر ہی رہتا ہے، چنانچہ  ہر معبود میں [دراصل ]غیر اللہ کی عبادت نہیں ہے[بلکہ جس کی بھی عبادت ہو وہ دراصل اللہ ہی کی عبادت ہے ]اور یہ کہ صنم پرستوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے عبودیت کے دائرہ عمل میں سے کچھ کی عبادت کی ہے، اگر وہ ہر چیز کی عبادت کرتے تو کامل ترین عارفین [اللہ کی صحیح معرفت رکھنے والے لوگ]میں سے ہوتے، اور یہ کہ عارف کامل جانتا ہے کہ اس نے کس کی عبادت کی ہے اور [حق تعالی ] کس صورت میں ظاہر ہوا ہے تاکہ اس کی پرستش  کی جائے، اور یہ کہ نوح علیہ السلام نے مذمت والے انداز میں اپنی قوم کی تعریف کی ہے، اور یہ کہ مخلوقات کی ذات بعینہ خالق کی ذات ہے، اور جناب ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کی پوجا کرنے پر قوم کی مذمت کی تو موسی علیہ السلام کی طرف سے اظہار ناراضی کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہارون علیہ السلام نے قوم پر تنگی اور سختی کی اور یہ بھی نہ جان سکے کہ انہوں نے تو صرف اللہ کی ہی عبادت کی ہے !!
اور یہ کہ جادوگروں نے فرعون کے اس قول :{أَنَا رَبُّکُمْ الْأَعْلَی} (کہ میں ہی تم سب کا معبود اکبر ہوں )[النازعات :24]اور {مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرِیْ}(میں اپنے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں جانتا) [القصص:38]کی سچائی کو جان لیا تھا ۔
اسی طرح کی اور بہت سی باتیں ماننا لازم آئیں گی، جن کا اعتقاد کوئی بھی شخص نہیں رکھتا خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی ہو، یا صابی اور مشرک، یہ تو صرف معطلہ کا مذہب ہے جو مخلوق کو بنانے والے اللہ تعالی کے وجود کے ہی منکر ہیں ،وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمام جہانوں کا پالنہار ہے اور تمام مخلوقات کو بنانے والا ہے ۔فرعون اور قرامطہ باطنیہ فرقہ جو رب العالمین کے انکاری ہیں ،ان کے نظریات کی حقیقت  اور مطلب یہی ہے " انتہی
"جامع المسائل "ساتوں ایڈیشن(1/247-248)
واللہ اعلم.

سوال: ایک لڑکا بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر گیا، تو اسے کسی نے کہہ دیا: "تم اسلام سے مرتد ہو چکے ہو" اب یہ جملہ کہنے والے شخص کا کیا حکم ہے


سوال: ایک لڑکا بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر گیا، تو اسے کسی نے کہہ دیا: "تم اسلام سے مرتد ہو چکے ہو" اب یہ جملہ کہنے والے شخص کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ:
اول:
مسلمان کو کسی پر لفظ "کفر" کا اطلاق کرتے ہوئے خوب احتیاط برتنی چاہیے؛ کیونکہ کسی موحد مسلمان پر کفر کا فتوی لگانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، چنانچہ امام مسلم (60) نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو یہ دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور جائے گا؛ اگر وہ واقعی کافر تھا تو ٹھیک وگرنہ کہنے والے پر لوٹ جائے گا)
اسی طرح بخاری (6045) میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فاسق  یا کافر قرار دے تو یہ لفظ اس شخص کے ایسا نہ ہونے کی صورت میں کہنے والے پر لوٹ جائے گا)
دوم:
برائی سے منع کرنے یا کسی نافرمان شخص کو نصیحت کرتے وقت شفقت اور نرمی سے بات کرنی چاہیے؛ کیونکہ اس طرح کرنے سے بات زیادہ قابل قبول ہوگی، اور اثر بھی کریگی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نرمی والا ہے، اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا، بلکہ وہ کچھ بھی عطا فرماتا ہے جو کسی اور وجہ سے نہیں دیتا)
اس حدیث کی شرح میں نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں نرمی کی فضیلت اور اسے اپنانے کی ترغیب دلائی گئی ہے، ساتھ میں سختی کی مذمت بھی کی گئی، حقیقت یہی ہے کہ نرمی ہمہ قسم کی خیر و بھلائی کا سر چشمہ ہے۔
اور " نرمی پر عطا فرماتا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ نرمی کی وجہ سے اتنا اجر و ثواب عطا فرماتا ہے جو کسی اور عمل پر نہیں ملتا۔
قاضی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: نرمی سے ایسے اہداف بھی انسان آسانی سے حاصل کر لیتا ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوتے" انتہی
لہذا کسی گناہگار شخص کو "کافر"، "فاسق" ، "مرتد" اور اسی طرح کے دیگر الفاظ  کسنے سے عین ممکن ہے کہ  وہ آپ سے متنفر ہو جائے اور حق بات قبول کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابو ذر رضی اللہ عنہ  کی سابقہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے شخص کو کہا: "تم فاسق ہو" یا "تم کافر ہو" اور حقیقت میں مخاطب ایسا نہ ہوا تو کہنے والا ہی ان اوصاف کا مستحق ٹھہرے گا، تاہم اگر مخاطب واقعی فاسق یا کافر تھا تو متکلم کے سچے ہونے کی وجہ سے یہ وصف اس پر نہیں لوٹے گا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی  نہیں ہے کہ اگر متکلم کافر یا فاسق نہ ہوا تو اسے کسی کو کافر یا فاسق کہنے کا گناہ بھی نہیں ملے، اس بارے میں قدرے تفصیل ہے کہ: اگر متکلم نے مخاطب کو یہ الفاظ بیان کر کے اس کی اصلاح کیلئے حقیقت بیان کرنا مقصود تھا تو اس صورت میں تو جائز ہے، لیکن اگر محض بے عزت اور بدنام کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ مسلمان کو عیب پوشی اور پردہ داری رکھتے ہوئے اچھے انداز سے نصیحت اور سمجھنا نے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ جہاں تک ممکن ہو کہ  سختی کے بغیر کام چل سکتا ہے  چلائے، سختی سے دور رہے؛ کیونکہ سختی سے عین ممکن ہے کہ  بد چلن شخص مزید سرکشی ، بے باکی، اور ڈھیٹ پن پہ اتر آئے، سختی کرنا تشدد پسند لوگوں کا طریقہ ہے" انتہی
سوم:
بے پردہ لڑکی کیساتھ جانے  کا عمل کفر تو نہیں ہے لیکن گناہ ہے؛ کیونکہ اس طرح فحاشی کا ارتکاب ہونے کا خدشہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اس لیے بے پردہ لڑکی کیساتھ باہر جانے والے شخص کو اچھے انداز سے نصیحت کرنی چاہیے، امید ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔
واللہ اعلم.
فتاوى اللجنة الدائمة ( 17/66)
                 

پیر، 25 اپریل، 2016

ایک نوجوان کو شادی کی موقه پر نصحیت

السلام عليكم.
سايل سابت احمد پیر
سوال:شادی کیا هین. اور. اس کا مقصد؟. جزاک الله خیرا
جواب ، وعلیکم السلامسابت صاحب. الله تعالی اپ کو شادی مین برکت دی
اللہ تعالی آپکو جزائے خیر سے نوازے، اور برکتیں عطا کرے، اور آپکو علمی و اخلاقی میدان میں کامیابیاں دے، اور ہم آپکو حدیث میں وارد ایک عظیم فضیلت سنا کر خوشخبری سنانا چاہے گےکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، جس دن اسکے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا) ان میں سے ایک : (وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا) بخاری (629) ومسلم (1031)
اور آپکو نصیحتیں کرنے کیلئے متعدد امور ہیں:
1- میرے بھائی ! شادی سکون، اطمینان، اور راحت کا باعث ہے، یہی دنیا کا بہترین ساز وسامان ہے، اور شادی میں اللہ کی طرف سے لوگوں کیلئے نشانی بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ)
ترجمہ: اور اسکی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں الروم/21
شادی انسان کیلئے باعث سعادت ہے، جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن آدم کی سعادت اور بد بختی کیلئے تین تین چیزیں ہیں، باعث سعادت اشیاء میں: نیک بیوی، اچھا گھر، اور اچھی سواری ہے، جبکہ بد بختی کیلئے تین اشیاء میں : بُری بیوی، برا گھر، اور بری سواری ہے) اسے احمد نے (1/168) روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے "صحيح الترغيب" (2/192) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا نفع اٹھانے کی چیز کا نام ہے، اور بہترین نفع اٹھانے کی چیز نیک بیوی ہے)اسے مسلم (1467) نے روایت کیا ہے۔
2- شادی سے انسان کا دین مکمل ہوتا ہے، جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کو اللہ تعالی نیک صالح بیوی عطا کردے تو اللہ تعالی نے اسکے دین کا ایک حصہ مکمل کرنے میں تعاون کیا ہے، اب اسے چاہئے کہ دین کے دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے) اسے طبرانی نے "الأوسط" (1/294) میں اور حاكم نے "مستدرك" (2/175) میں روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: (جب انسان شادی کرلے تو اسکے دین کا آدھا حصہ مکمل ہوجاتا ہے، اب اسے چاہئے کہ باقی حصہ میں اللہ سے ڈرے)
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: "السلسلة الصحيحة" (625)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شادی انسان کو زنا سے بچاتی ہے، چنانچہ انسان شادی کے ذریعے گناہوں کے دو دروازوں میں سے ایک دروازے کو بند کر لیتا ہے، اور یہ دروازہ شرمگاہ کا دروازہ ہے، جبکہ دوسرا دروازہ زبان ہے، لہذا اس حدیث میں انسان کو اللہ تعالی کی نعمتوں کے بارے میں یاد دہانی کروائی گئی ہے، کہ ایک حصہ مکمل ہوچکا ہے، اور دوسرے حصہ کے بارے میں تقوی الہی کی نصیحت کی گئی ہے۔
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں شرمگاہ اور زبان کو یکجا بیان کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے علمائے کرام کا فہم بھی اسی بات کی غمازی کرتا ہے، اور انہیں احادیث میں سے سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص مجھے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان [شرمگاہ] اور دونوں جبڑوں کے درمیان[زبان] کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں) بخاری (6109)
چنانچہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالی نے آپ پر بہت بڑا انعام کیا ہے کہ اس نے شادی اور پاکدامنی کی آپکو توفیق دی، اب آپ اپنی زبان کے بارے میں اللہ سے ڈریں، اور زبان کو چغلی، غیبت، گالی گلوچ، اور لعن طعن سے محفوظ رکھیں، اپنی زبان کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے استعمال کریں، قرآن مجید کی تلاوت ، کثرت سے تسبیح ، دعائیں، اور اذکار کا اہتمام کریں۔
3- اپنی شادی کو بھر پور انداز میں باسعادت بنانے کیلئے شادی سے پہلے ، بعد، اور شادی کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بھی انتہائی ضروری ہے، چنانچہ شادی سے پہلے نبوی تعلیمات یہ ہیں کہ:
ا- دیندار خاتون کی تلاش کریں، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (عورت سے شادی چار چیزوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے: مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دینداری، چنانچہ تم دیندار کو پا لو، تمہارے ہاتھ خاک آلود کردے گی) بخاری (4802) ومسلم (1466)
دیندار لڑکی کی صفات کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کیلئے سوال نمبر (96584) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کہ لڑکی کچھ نہ کچھ خوبصورت بھی ہو، چنانچہ اس بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا گیا، کونسی خواتین بہتر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: (جسے دیکھ کر اسکا خاوند خوش ہوجائے، اور کوئی حکم دے تو اطاعت کرے، اور اپنے [بناؤ سنگھارکے]بارے میں خاوند کی مخالفت نہ کرے، اور خاوند کا مال سلیقے سے برتے)
اسے أحمد (2/251) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "السلسلة الصحيحة" (1838) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
فقہ حنبلی کی کتاب "شرح منتهى الإرادات" (2/621) میں ہے کہ :
"خوبصورت بیوی حاصل کرنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ خوبصورت بیوی دلی سکون، کامل محبت، اور آنکھوں کو زیادہ محفوظ بنا سکتی ہے، اسی لئے نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے
.

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...