جمعرات، 8 دسمبر، 2016

عورت کا سفر۔

سوال: عورت کا۔ سفر۔ 


الحمد للہ:
متعدد فتاوی میں ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ عورت کیلیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ سفر عبادت یعنی حج یا عمرے کیلیے اور والدین سے ملنے کیلیے ہو یا ان کے علاوہ دیگر جائز مقاصد کیلیے ہو۔
اس بات پر نصوص اور قیاس واضح طور پر دلالت کرتے ہیں:
1-             نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے، عورت کے پاس اجنبی شخص اسی وقت جائے جب اس کے ساتھ محرم ہو) تو ایک آدمی نے  عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں معرکے کیلیے جانا چاہتا ہوں اور دوسری جانب میری بیوی حج پر جانا چاہتی ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ)
بخاری: (1862) مسلم: (1339)
ایک اور حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی خاتون  کیلیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایک دن  کی مسافت محرم  کے بغیر کرے)
اس بارے میں اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں جن میں عورت کو بغیر محرم کے سفر سے روکا گیا ہے، اور ان تمام احادیث میں سفر کی تمام اقسام آتی ہیں۔
2-             اور چونکہ سفر تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، اور عورت اپنی جسمانی کمزوری کے باعث ایسے سہارے کی محتاج ہوتی ہے جو اس کے برابر کھڑا ہو اور اس کی مدد کرے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت فوری ضرورت پڑنے پر درست فیصلہ نہ کر پائے اور محرم کی عدم موجودگی میں غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جائے ، جیسے کہ یہ چیز ٹریفک اور دیگر ذرائع سفر کے حادثات میں عام ہے۔
اسی طرح عورت اکیلے سفر کرے تو یہ آج کل کی گرتی ہوئی اخلاقی صورت حال میں خواتین کو فتنوں اور گناہوں کے درپے  کرنے کے مترادف ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ عورت کے ساتھ ایسا شخص بیٹھ جائے جو اللہ کا ڈر اور خوف دل میں نہ رکھتا ہو اور لڑکی کو حرام کام خوشنما بنا کر دکھائے؛ اس لیے حکمت  کا تقاضا یہ ہے کہ خواتین محرم کے ساتھ سفر کریں؛ کیونکہ محرم  کے ساتھ سفر کرنے کا مقصد عورت کو تحفظ دینا اور کسی بھی منفی اثرات سے بچانا اور عورت کی دیکھ بھال ہے، نیز سفر چھوٹا ہو یا لمبا دورانِ سفر ناگہانی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ بہت ہی قوی ہوتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: جس بھی سفر کہا جائے گا اس سے عورت کو  بغیر خاوند یا محرم کے سفر کرنے سے روکا جائے گا" انتہی
متعدد اہل علم نے فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ عورت کیلیے محرم کے بغیر سفر کرنا منع ہے، ما سوائے چند مسائل کے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عورت فرائض کی ادائیگی [مثلاً: فرض حج] کیلیے کئے جانے والے سفر کے علاوہ کسی بھی سفر کیلیے محرم یا خاوند کے ساتھ سفر کرے گی، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ کوئی غیر مسلم خاتون کسی دار الحرب میں  مسلمان ہو جائے یا ان کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اکیلی سفر کر سکتی ہے"  اس پر دیگر اہل علم نے اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اگر کوئی خاتون اپنے رفقا ءسے بچھڑ جائے اور اسے کوئی قابل اعتماد شخص  ملے تو وہ ان کے ساتھ اپنے رفقاء تک پہنچ سکتی ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/76)
اور فرض  حج کی ادائیگی کیلیے عورت کا اکیلے بغیر محرم کے سفر کرنے پر علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق عورت کیلیے یہ سفر بھی اکیلے کرنا جائز نہیں ہے۔
اس لیے اس مسئلے میں اصل یہی ہے کہ عورت بغیر محرم  کے سفر نہ کرے، اور پورے سفر میں محرم کا ساتھ رہنا لازمی ہے، چنانچہ یہ کافی نہیں ہو گا کہ خاوند  بیوی کو ائیر پورٹ تک پہنچا دے اور دوسرے ملک میں والد اسے لے لے ، لیکن جہاں اس چیز کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ضرورت ناجائز امور کو جائز بنا دیتی ہے۔
اس بنا پر اگر آپ کے دوست کی اہلیہ کیلیے فرانسیسی شہریت کا حصول  بہت سی پریشانیوں کے زائل ہونے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اس کا محرم اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا تو پھر اکیلی اسی انداز سے سفر کر سکتی ہے جیسے آپ نے ذکر کیا ہے، اسی طرح اس کیلیے فرانسیسی شہریت حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی عذر کی بنا پر عورت کیلیے جہاز میں اکیلے  سفر  کرنے کا کیا حکم ہے؟ کہ ایک محرم عورت کو جہاز پر بیٹھا دے گا اور دوسرا محرم ائیر پورٹ سے اسے لے لے گا"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر محرم کیلیے اس میں مشقت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو سفر کی اشد ضرورت ہے اور کوئی محرم اس کے ساتھ جانے والا نہیں ہے تو  اس میں ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ ایک محرم اسے ائیر پورٹ تک پہنچائے اور جہاز میں سوار ہونے تک  اس کے ساتھ ہی رہے، پھر جہاں انہوں نے سفر کرنا ہے وہاں پر رابطہ کرے  اور اطمینان کر لے کہ اس کے محرم اسے لینے کیلیے ائیرپورٹ پر پہنچ رہے ہیں ، انہیں پہنچنے کا وقت اور فلائٹ نمبر بتلا دے؛ کیونکہ اشد ضرورت کے وقت احکام کچھ خاص ہوتے ہیں، واللہ اعلم، اللہ تعالی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى ابن جبرين"
مزید کیلیے www.mominsalafi.blogspot.com
واللہ اعلم.

پیر، 5 دسمبر، 2016

وطن كا دفاع كرتے ہوئے مر جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا ؟

كيا اگر كوئى غير مسلم شخص اپنے وطن كا دفاع كرتے ہوئے مر جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا ؟ 
الحمد للہ:
جو بھى فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے، اور ( فى سبيل اللہ ) كا معنى يہ ہے كہ وہ اعلائے كلمۃ اللہ كے ليے لڑائى كرے، يہ معركہ ميں لڑ كر مرنے والے كى تعريف ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زبان مبارك سے كى ہے.
بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ ايك اعرابى شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
آدمى مال غنيمت حاصل كرنے كے ليے لڑتا ہے، اور ايك شخص اپنا نام بنانے كے ليے لڑے، اور ايك شخص اپنا مقام و مرتبہ دكھانے كے ليے لڑتا ہے تو ان ميں سے فى سبيل اللہ كون ہو گا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑے تو وہ فى سبيل اللہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2126 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1904 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كرتے ہوئے فرمايا:
" تم شہيد كسے شمار كرتے ہو ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جو شخص فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے:
پھر تو ميرى امت كے شہيد بہت ہى كم ہونگے.
صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كون لوگ ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے وہ شہيد ہے، اور جو فى سبيل اللہ فوت ہو جائے تو وہ شہيد ہے، اور جو شخص طاعون ميں فوت ہو جائے تو وہ شہيد ہے، اور جو شخص پيٹ كى بيمارى سے شہيد ہو جائے وہ شہيد ہے، اور جو شخص غرق ہو كر فوت ہو وہ شہيد ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1915 ).
تو اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معركہ ميں شہيد ہونے والے اور جو اشخاص شہادت كى فضيلت كو پہنچتے ہيں انہيں جمع كر كے بيان كيا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( علماء كرام كا كہنا ہے: فى سبيل اللہ قتل ہونے والے كے علاوہ باقى سب كى شہادت سے مراد يہ ہے كہ ان كے ليے آخرت ميں شہداء كا اجر و ثواب ہو گا، ليكن دنيا ميں انہيں غسل بھى ديا جائيگا، اور ان كى نماز جنازہ بھى ادا ہو گى.
اور كتاب الايمان ميں اس كا بيان ہو چكا ہے، اور شہداء كى تين اقسام ہيں، دنيا و آخرت ميں شہيد وہ شخص ہے جو كفار كے خلاف جنگ كرتا ہوا فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے، اور آخرت ميں شہيد وہ ہيں جو يہاں مذكور ہيں، ليكن انہيں دنياوى احكام ميں شہيد نہيں كہا جائيگا، اور دنياوى شہيد ليكن وہ آخرت ميں شہيد نہيں وہ شخص ہے جو مال غنيمت ميں خيانت كا مرتكب ہو، يا پيٹھ پھير كر بھاگتے ہوئے قتل كر ديا جائے ( يعنى ميدان جنگ سے فرار ہوتے ہوئے ) انتہى.
شہادت ايك عظيم اور على مرتبہ اور درجہ ہے جو صرف اہل ايمان ہى كو حاصل ہوتا ہے، اس كے علاوہ كسى اور كو نہيں.
اور جس شخص كو نبى كريم محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى دعوت پہنچ چكى ہو اور وہ اسے تسليم كرتے ہوئے اس پر ايمان نہ لايا ہو تو وہ اللہ كے ساتھ كفر كا مرتكب ہوا ہے، اور وہ جہنمى ہے چاہے وہ معركہ ميں قتل ہوا ہو يا پھر اپنے بستر پر ہى مرے، چاہے يہودى ہو يا عيسائى، يا كسى اور شركيہ اور كفريہ مذہب سے تعلق ركھتا ہو.
عيسائى و نصارى اس ليے كافر ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تسليم نہيں كيا اور انہيں جھٹلايا ہے، اور انہوں نے مسيح عيسى بن مريم صلى اللہ عليہ وسلم كى الوہيت كا دعوى كيا ہے، اور ان كا يہ بھى دعوى ہے كہ اللہ تعالى كى بيوى اور اولاد بھى ہے، اللہ تعالى ان كے اس قول سے بہت بلند و بالا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسولوں كے ساتھ كفر كرتے ہيں اور جو لوگ يہ چاہتے ہيں كہ اللہ تعالى اور اس كے رسولوں كے درميان فرق ركھيں، اور جو لوگ كہتے ہيں كہ بعض انبياء پر تو ہمارا ايمان ہے اور بعض پر نہيں، اور وہ چاہتے ہيں كہ اس كے اور اس كے بين بين كوئى اور راہ نكال ليں ﴾.
﴿ يقين جانيں يہ سب لوگ اصلى اور پكے كافر ہيں، اور كافروں كے ليے ہم نے اہانت آميز سزا تيار كر ركھى ہے ﴾النساء ( 150 - 151 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:
﴿ اور يہودى كہتے ہيں كہ عزير عليہ السلام اللہ كا بيٹا ہے، اور نصرانى كہتے ہيں كہ مسيح اللہ كا بيٹا ہے، يہ قول صرف ان كے منہ كى بات ہے، اگلے منكروں كى بات كى يہ بھى نقل كرنے لگے ہيں، اللہ انہيں غارت كرے وہ كيسے پلٹائے جاتے ہيں ﴾التوبۃ ( 30 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد اسطرح ہے:
﴿ بے شك وہ لوگ كافر ہوئے جن كا قول يہ ہے كہ مسيح ابن مريم ہى اللہ ہے، حالانكہ خود مسيح نے ان سے كہا تھا كہ اے بنى اسرائيل! اللہ ہى كى عبادت كرو جو ميرا اور تمہارا سب كا رب ہے، يقين جانو كہ جو شخص اللہ كے ساتھ شريك كرتا ہے اللہ تعالى نے اس پر جنت حرام كر دى ہے، اوراس كا ٹھكانہ جہنم ہى ہے، اور گنہگاروں كى مدد كرنے والا بھى كوئى نہيں ہو گا ﴾المآئدۃ ( 72 ).
اور اس سے اگلى آيت ميں فرمان ربانى كچھ اس طرح ہے:
﴿ وہ لوگ بھى قطعى اور يقنى كافر ہو گئے جنہوں نے كہا كہ: اللہ تين ميں تيسرا ہے، دراصل اللہ تعالى كے سوا كوئى بھى معبود نہيں، اگر يہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ آئے تو اميں سے جو كفر پر رہينگے انہيں المناك عذاب ضرور ديا جائيگا ﴾المآئدۃ ( 73 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے، اس امت ميں سے كوئى يہودى اور عيسائى ميرا سن كر ميرى رسالت پر ايمان لائے بغير مر گيا تو وہ جہنمى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 153 ).
مندرجہ بالا سابقہ كلام آخرت كے احكام كے بارہ ميں ہے اور وہ بھى اس صورت ميں جب وہ قتل كر ديا جائے، ليكن دنياوى احكام ميں يہ ہے كہ اگر كوئى غير مسلم شخص مسلمان ملك كے دفاع ميں شريك ہو اور مسلمان حق سے كسى بھى قسم كا پيچھے نہ ہٹيں تو اس غير مسلم كا شكريہ ادا كرنے اور اس كا بدلہ دينے ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .

جمعہ، 2 دسمبر، 2016

میلاد

سوال: کچھ لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں: (جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد دے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی) کیا یہ حدیث صحیح ہے۔

Published Date: 2016/Dec/02

الحمد للہ:

ذکر شدہ حدیث  کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی، اور خود ساختہ  ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لئے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ کے بارے میں جھوٹ باندھنے  کے زمرے میں آتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا  یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ  بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق  کوئی حدیث  جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا،  جھوٹا کیوں نہ ہو؟!  وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمائی" انتہی
" شرح صحيح مسلم " (1/65)

اور اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہِ ربیع الاول  کی جس شخص نے مبارکباد دی تو صرف اسی عمل سے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، یہ بات حد سے تجاوز، اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے، جو کہ اس حدیث کے باطل اور خود ساختہ ہونے کی علامت ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"خود ساختہ احادیث میں اندھا پن ، بے ڈھب  الفاظ، اور حد سے زیادہ تجاوز ہوتا ہے، جو ببانگ دہل  ان احادیث کے خود ساختہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے نام پر خود گھڑی گئی ہے" انتہی

" المنار المنيف " (ص 50)

Www.mominsalafi.blogspot.com

منگل، 5 جولائی، 2016

عيد كي مبارك بادي

عید سے ایک دو دن پہلے مبارکباد دینا
=====================
سنت سے عید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دن عید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔
شیخ صالح فوزان نے عید سے چند دن پہلے یا چند گھنٹہ پہلے یہاں تک کہ عید کی نماز سے پہلے مبارکباد دینا خلاف سنت کہا ہے اور مسلمانوں کو اتباع سنت کی تلقین کی ہے

جمعہ، 1 جولائی، 2016

"لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ میں سے آئندہ سال کے امور لکھ لیے جاتے

سوال: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ: "اللہ تعالی اس رات میں رزق اور لوگوں کے دیگر معاملات لکھ دیتا ہے اور پھر ان صحیفوں کو فرشتے لے جاتے ہیں اور ایک لیلۃ القدر سے دوسری لیلۃ القدر تک [اس میں معلومات ہوتی ہیں]، اللہ تعالی اس رات میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے کی سالانہ تفصیلات لکھ دیتا ہے" تو کیا جب فرشتے ان صحیفوں کو لے جاتے ہیں تو ان میں درج شدہ معلومات دیکھتے بھی ہیں؟ اور کیا فرشتوں کو پورے سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے؟ اور کیا یہ فرشتوں کیلیے عطائی علم غیب ہوتا ہے یا کچھ اور؟
الحمد للہ:
فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: بیشک ہم نے اس [قرآن ]کو بابرکت رات میں اتارا ہے، بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں، [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  3- 4] مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو لوح محفوظ میں سے آئندہ ایک سال کے معاملات لکھنے کا حکم دیتا ہے، یہ بات کچھ سلف صالحین سے بھی منقول ہے، اور مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (18527) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آیت: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) کا مطلب یہ ہے کہ: "لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ  میں سے آئندہ سال  کے امور لکھ لیے جاتے ہیں جس میں رزق، اموات، ولادت، بارش وغیرہ سمیت تمام امور ہوتے ہیں حتی کہ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس سال فلاں فلاں شخص حج کریگا"
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ حدیث نمبر: (3678) میں  روایت کر کے اسے صحیح بھی کہتے ہیں کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "تمہیں کوئی شخص بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر آئے گا حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھا جا چکا ہے، پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں: ( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) یعنی: لیلۃ القدر میں آئندہ لیلۃ القدر تک دنیاوی امور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے"
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آئندہ ایک سال تک کے معاملات محرر فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، اس میں واقع ہونے والی اموات اور دیے جانے والے رزق کی وغیرہ ہر چیز کی تفصیلات دے دی جاتی ہیں، اس آیت کا یہی مفہوم ابن عمر ، ابو مالک، مجاہد، ضحاک اور دیگر متعدد سلف صالحین سے منقول ہے، اس آیت میں " حَكِيمٍ " کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ معاملات محکم  ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی" انتہی
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: (7/246) اسی سے ملتی جلتی بات الطاہر ابن عاشور نے "التحرير والتنوير" (6/422) شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ  نے اپنے "فتاوی" (20/344) میں بھی لکھی ہے۔
دوم:
غیب کے معاملات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے، ان [دیگروں] کو تو اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کا ہی علم نہیں ہے![النمل:65]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ: تمام مخلوقات کو سکھانے کیلیے بتلا دیں کہ: اللہ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا؛ کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالی کی امتیازی صفت ہے، اس میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں " انتہی
"تفسیر ابن کثیر" (6 /207)
البتہ اتنا ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے جسے چاہے غیب کی کچھ چیزوں پر مطلع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا [26] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا )
ترجمہ: وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا  [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن:26-27]
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"غیبی چیزوں کے بارے میں علم رکھنا صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے، چنانچہ غیبی چیزوں کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، چاہے کوئی جن ہو یا انسان، البتہ اللہ تعالی جسے  چاہے کسی فرشتے یا نبی کو وحی کر کے بتلا سکتا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /346)
پورے سال میں رونما ہونے والے معاملات کا محرر فرشتوں کی جانب سے لکھنا  اس بات کا شاہد ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے معاملات سے متعلق مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے تفصیلات لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیلۃ القدر  کی وجہ تسمیہ یہ ہے  کہ فرشتے اس رات میں اموات اور رزق سمیت دیگر تمام ایسے امور جو آئندہ سال میں رونما ہونے ہیں ان سب کو لکھ لیتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں واضح ہے:
(فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  4]
اسی طرح :
{تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ}
ترجمہ: روح اور فرشتے اس رات اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر حکم لے کر نازل  ہوتے ہیں [القدر : 4] مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال میں جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ فرشتوں کیلیے عیاں کر دیا جاتا ہے اور پھر ہر فرشتے کی ذمہ داری کے مطابق اسے کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، نیز یہ سب معاملات اللہ تعالی کے علم اور تقدیر میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں" انتہی
"شرح مسلم" از نووی رحمہ اللہ:  (8/ 57)
سوم:
کچھ علمائے کرام نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب فرشتے آئندہ سال میں ہونے والے معاملات لکھ لیتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں حکم دیتا ہے کہ ہر فرشتے کو اس کے متعلقہ امور تحریری شکل میں سپرد کر دیے جائیں ، تاہم انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
جیسے کہ شیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: اللہ تعالی ہر سال لیلۃ القدر  میں فرشتوں کیلیے آئندہ لیلۃ القدر تک کے تمام معاملات واضح کر دیتا ہے نیز فرشتوں کو یہ تمام امور تحریری شکل میں دے دیے جاتے ہیں۔
اس تحریر میں اموات، رزق، ناداری و مالداری، خشک سالی  و بارشیں، صحت و بیماری، جنگیں اور زلزلے الغرض آئندہ سال میں کچھ بھی ہونے والا ہے سب کچھ واضح کر دیا جاتا ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر "الکشاف" میں کہتے ہیں:
" يُفْرَقُ" کا معنی ہے تفصیل سے لکھ دیا جاتا ہے، " كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ" سے مراد  یہ ہے کہ لوگوں کا رزق، اموات، اور آئندہ لیلۃ القدر تک جو بھی امور ہیں سب تحریر کر دیے جاتے ہیں۔
آگے چل کر انہوں نے لکھا کہ: رزق کے متعلق صحیفوں کا نسخہ میکائیل کو دے دیا جاتا ہے، جنگوں، زلزلوں، بجلی گرجنے اور دھنسائے جانے  سے متعلق نسخہ جبرائیل کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح اعمال کا نسخہ اسماعیل کو جو کہ آسمانِ دنیا  کا ذمہ دار ہے، وہ بہت بڑا فرشتہ ہے، مصیبتوں کا نسخہ ملک الموت کے سپرد کر دیا جاتا ہے"
ہمارا مقصد آیت کا مطلب واضح کرنا ہے مذکورہ فرشتوں کو تھمائے جانے والے نسخوں کی صحیح معلومات دینا مقصد نہیں ہے؛ کیونکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "أضواء البيان" (7/271).
جواب کا خلاصہ:
اللہ تعالی چند فرشتوں یعنی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے واقعات کے بارے میں مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
اس کے علاوہ مزید تفصیلات کہ کس فرشتے کو کون سا نسخہ تھمایا جاتا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم.



سوال: میری کاسمٹیک اور ہیئر ڈریسنگ کے لوازمات فروخت کرنے کی دکان ہے، تو کیا یہ پیشہ حلال ہے یا حرام؟

سوال: میری کاسمٹیک اور ہیئر ڈریسنگ کے لوازمات فروخت کرنے کی دکان ہے، تو کیا یہ پیشہ حلال ہے یا حرام؟
الحمد للہ:
اس پیشے کے بارے میں قدرے تفصیل ہے:
1- اگر آپ یہ اشیاء ایسے  کسمٹر کو فروخت کرتے ہیں جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ  اسے حرام بے پردگی میں استعمال   کریگا تو یہ جائز نہیں ہے۔
2- اگر آپ یہ اشیاء ایسے کسٹمر کو فروخت کریں جو  جائز بناؤ سنگھار کیالئے استعمال کریگا تو یہ جائز ہے۔
3- اور اگر آپ کو کسٹمر کے بارے میں علم نہیں ہے کہ کس چیز میں اسے استعمال کیا جائے گا، تو براءت اصلیہ کے اعتبار سے  ان اشیاء کی فروخت جائز ہوگی۔
دائمی فتوی کمیٹی کا کہنا ہے کہ:
"اگر دکاندار کو یہ علم ہو کہ  خریدار ان اشیاء کو  اللہ کی حرام کردہ  جگہوں میں استعمال کریگا تو ایسے کسٹمر کو مطلوبہ اشیاء مہیا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت ہے، اور اگر خریدار کے بارے میں علم ہے کہ ان اشیاء کو اپنے خاوند کیلئے بناؤ سنگھار میں استعمال کریگی ،  یا آپکو اس خاتون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے تو پھر ان چیزوں کی تجارت کرنا جائز ہے"
"فتاوى اللجنة الدائمة "(13/67)
واللہ اعلم.
whatsapp no. 8494090342


Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...