اتوار، 4 جون، 2017

دکان یا سپر مارکیٹ میں کھانے پینے کی چیزیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ میں روس میں رہتا ہوں اور یہاں کے اکثر لوگ روزہ نہیں رکھتے، میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت ہوٹل یا فاسٹ فوڈ کی دکان میں کھانوں کی فروخت حرام ہے؛ کیونکہ خریدار فوری طور پر اسے وہیں پر ہی کھا لیتے ہیں، میں قیمہ بھری آنتیں (ساسیج) ، روٹی یا چاول دکان میں فروخت کرتا ہوں، اور مجھے نہیں معلوم کہ خریدار اسے کب کھائے گا، تاہم مجھے غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ روزہ دار نہیں ہے، لیکن اس بات کا بھی احتمال ہے کہ وہ مغرب کے بعد کھائے گا اور ہو سکتا ہے کہ فوری یا کچھ لمحات کے بعد ہی کھا لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :الحمد للہ:
دکان یا سپر مارکیٹ کی اشیا فروخت کے اعتبار سے دو طرح کی ہو سکتی ہیں:
پہلی قسم:
ایسے کھانے جن کے متعلق غالب گمان ہو کہ خریدار فوری طور پر اسے کھا لے گا؛ کیونکہ اس کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے  یا اسے فوری کھانا پڑتا ہے، مثال کے طور پر: آئس کریم ، جوس، ٹھنڈا سوڈا واٹر، یا گرم مشروبات جنہیں خریدتے ہی تناول کر لیا جاتا ہے، اسی طرح ایسی میٹھی مصنوعات جنہیں بنانے کے فوری بعد کھا لیا جاتا ہے، یا اسی طرح کی دیگر کوئی بھی کھانے پینے کی چیزیں، تو انہیں رمضان میں دن کے وقت فروخت کرنا مسلمان کیلیے جائز نہیں ہے؛ کیونکہ غالب گمان یہی ہے کہ اسے خریدنے والا مسلمان یا غیر مسلم ماہِ رمضان کی حرمت پامال کرتے ہوئے  فوری کھا لے گا، [غیر مسلم  کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ] وہ بھی شرعی احکامات بجا لانے کے مخاطب ہیں، لہذا گناہ  کے کام میں کسی کی بھی معاونت کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں پر باہمی تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔[ المائدة:2]
امام رملی شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"[رمضان میں ممنوعہ کاموں کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ ] کوئی عاقل بالغ مسلمان  رمضان میں دن کے وقت کسی عاقل بالغ کافر کو کھانا کھلائے، یا کسی غیر مسلم کو کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا، اسی کے مطابق والد رحمہ اللہ نے بھی فتوی دیا تھا؛ کیونکہ  ہر دو حالت میں مسلمان معصیت کا باعث بنتا ہے اور معصیت کیلیے معاونت فراہم کرتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کافروں کو بھی شرعی فروعی مسائل پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور یہی راجح موقف ہے" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"رمضان کے دنوں میں ہوٹل کھولنا چاہے کفار کیلیے کھولے جائیں جائز نہیں ہے، آپ میں سے کسی کو رمضان میں ہوٹل کھلا ہوا نظر آئے تو اس پر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینا ضروری اور واجب ہے تا کہ اسے ہوٹل کھولنے سے روکا جائے، کسی بھی کافر کیلیے مسلم خطے میں رمضان میں دن کے وقت اعلانیہ کھانا پینا جائز  نہیں ہے، کافر پر بھی اس حرکت سے باز رہنا ضروری ہے" انتہی
" اللقاء الشهری" (8/ 4)  مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
دائمی فتوی کمیٹی کے دوسرے ایڈیشن میں (9/36) ہے کہ: 
" رمضان میں دن کے وقت کافروں کے لئے ہوٹل کھولنا اور ان کیلیے کھانے پینے کی خدمات فراہم کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں بہت بڑی شرعی ممانعت ہے کہ کافروں کے ساتھ اللہ کی حرام کردہ چیز میں تعاون پایا جاتا ہے، اور شریعت مطہرہ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ کفار شریعت کے اصول و فروع تمام پر عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں، اور یہ یقینی بات ہے کہ رمضان کا روزہ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے، اور کافروں پر روزہ رکھنا ضروری ہے لیکن ساتھ میں روزے کی شرط یعنی اسلام بھی قبول کریں، لہذا روزے کو اللہ نے ان پر واجب قرار دیا ہے اس کی ادائیگی ترک کرنے کیلیے غیر مسلموں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔
نیز ان کی ایسی خدمت کرنا جائز نہیں جن کی بنا پر ایک مسلمان کی توہین اور تحقیر لازم آئے، مثلاً: ان کے لیے کھانا پیش کرے یا اسی طرح کی کوئی اور ملازمت اختیار کرے۔
اسلامی ملک میں آنے والے کافروں کے لیے اس بات کی پابندی ضروری ہے کہ اسلامی شعائر کی مخالفت نہ کریں، اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبات مجروح کریں، لہذا مذکورہ کمپنی کے لیے رمضان میں دن کے وقت ہوٹل بند کرنا ضروری ہے"
شیخ بکر ابو زید       شیخ عبد العزیز آل شیخ     شیخ صالح فوزان             شیخ عبد اللہ بن غدیان     شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز  اس کے ساتھ ہے  واللہ اعلم ۔
دوسری قسم:
کھانے پینے کی ایسی چیزیں جن کے استعمال کا وقت دکاندار کو فروخت کرتے وقت چاہے دن ہو یا رات، معلوم  نہیں ہے کہ خریدار کس وقت کھائے گا، مثلاً: پیک شدہ کھانے کی چیزیں،  ٹافیاں، روٹی یا بریڈ، اسی طرح خشک اناج مثلاً: تیل ، چاول ، دالیں وغیرہ تو ہمارے علم کے مطابق عام طور پر بازار میں یہی چیزیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں تو مسلمان ان چیزوں کو رمضان میں دن کے وقت فروخت کر سکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ:
اس حالت میں دکاندار کے ذہن میں  غالب گمان ہے کہ خریدار کافر ہونے یا بے عمل مسلمان ہونے کی وجہ سے روزے دار نہیں ہے، لیکن دکاندار کو یہ نہیں معلوم کہ  خریدار نے اسے کس لیے خریدا ہے، ممکن ہے کہ وہ فوری طور پر اسے استعمال کر لے یا کچھ عرصے بعد استعمال کرے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چیز ہی خراب ہو جائے اور استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
جس طرح ان چیزوں کے استعمال  کیلیے ایک عام حکم ہے یا اکثریت کا طریقہ کار ہے ، اور کوئی بھی شخص یہ حکم نہیں لگا سکتا  کہ خریدار دن میں یا رات کے فلاں وقت میں استعمال کرے گا، تو پھر ان چیزوں کا حکم بھی مطلق اور عام ہو گا۔
اور اس عام اور مطلق حکم کی وجہ سے  ان چیزوں کو فروخت کرنے کا حکم بھی جواز ہی ہو گا جو کہ ان کا اصل کے اعتبار سے حکم ہے، ان چیزوں کی خرید و فروخت گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون شمار نہیں ہو گی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں گناہ یا زیادتی کے کاموں میں ہی استعمال ہوں  گی، اور چیزوں کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز کا ہوتا ہے، اور اس اصل حکم  کو تبدیل کرنے کیلیے  قابل یقین اور معتمد  دلیل ہونا ضروری ہے۔
مندرجہ بالا قید پہلے ذکر شدہ رملی رحمہ اللہ کی گفتگو میں بھی موجود ہے: 
" کھانا فروخت کرے اور اسے یقین ہو یا گمان ہو کہ وہ یہ کھانا دن کے وقت ہی کھائے گا "
اب دوسری قسم کے کھانوں میں یہ بات پکی ہے کہ دکاندار کو نہ تو اس بات کا علم ہے کہ خریدار یہ کھانا رمضان میں دن کے وقت کھائے گا اور نہ ہی اسے اس بارے میں کوئی گمان آتا ہے، چنانچہ حرمت کا سبب ہی موجود نہیں ہے، لہذا اس کا حکم اصل کے اعتبار سے جواز ہی ہو گا۔
یہی معاملہ ہر اس خرید و فروخت کے معاملے میں کیا جائے گا کہ جس میں خریدار کاچیز کے استعمال کرنے  کی صورتوں میں شک ہو۔
جیسے کہ رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"اور جن اکثر اہل علم کی جانب جواز مع الکراہت نقل کیا گیا ہے  تو وہ ایسی صورت کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، یقین نہ ہو" انتہی
"نهاية المحتاج" (3/471)
لہذا اکثریت نے ان صورتوں میں جو جواز کا موقف اختیار کیا ہے وہ ان صورتوں کے متعلق ہے جب دکاندار کو شک ہو، اور خریدار کے چیز لے جانے کا مقصد اور سبب معلوم نہ ہو۔
اور یہ بات بھی واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ لوگوں پر بہت زیادہ سختی نہیں ڈالتی اور نہ ہی انہیں ایسے کام کا حکم دیتی ہے جس کی ان میں استطاعت نہ ہو، کہ ہر خریدار سے ان کی خریداری کا مقصد پہلے پوچھے ، اس میں تو واضح طور پر بہت زیادہ مشقت اور سختی ہے، اپنے آپ کو آسانی سے تنگی میں ڈالنے والی بات ہے، حالانکہ اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
(لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ)
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیفی حکم نہیں دیتا، ہر جان کو اس کے اعمال کا اچھا بدلہ ملے گا اور برے اعمال کا خمیازہ اسی پر ہے۔[ البقرة:286]
اسی طرح فرمایا: 
(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ)
ترجمہ: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا۔ [البقرة:185]
یہ بھی واضح رہے کہ  کھانے کی بیان شدہ دوسری قسم کو اس مسئلے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جس میں انگوروں کی شراب بنانے والے کو انگور فروخت کرنا حرام ہے؛ کیونکہ شراب نوشی تو ہر حالت میں حرام ہے، انگوروں کے مالک کا غالب گمان یہی ہے کہ  خریدار خرید  کردہ  انگوروں سے  شراب ہی بنائے گا، جبکہ رمضان میں دن کے وقت غذائی اجناس فروخت کرنے والے کے ذہن میں غالب گمان یہ نہیں ہو تا کہ خریدار ان چیزوں سے ضروری طور پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہی کرے گا۔
واللہ اعلم.

منگل، 9 مئی، 2017

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟
الحمد للہ:
ماہ رمضان عربى بارہ مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اور دين اسلام ميں يہ مہينہ عظيم الشان قدر و منزلت ركھتا اور باقى سب مہينوں سے اسے بہت سارے خصائص حاصل ہيں جن ميں سے چند ايك خصوصيات ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا دين اسلام كا چوتھا ركن قرار ديا ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:
{ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا جو لوگوں كے ليے ہدايت كا باعث ہے اور اس ميں راہ ہدايت كى واضح نشانياں ہيں، اور فرقان ہے، اس ليے جو كوئى بھى ماہ رمضان كو پا لے تو وہ اس ماہ كے روزے ركھے }البقرۃ ( 185 ).
اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كےعلاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
2 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں قرآن مجيد نازل كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا آيت ميں فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان المبارك وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے جو كہ لوگوں كے ليے باعث ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ہيں اور فرقان ہے }البقرۃ ( 185 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہيں:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے }.
3 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں ليلۃ القدر ركھى ہے جو كہ ايك ہزار مہينوں سے افضل و بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، تجھے كيا علم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں ہر كام كے سرانجام دينے كو اپنے رب كے حكم سے فرشتے اور جبريل اترتے ہيں، يہ رات سراسر سلامتى والى ہے اور فجر كے طلوع ہونے تك رہتى ہے }القدر ( 1- 5 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو بابركت رات ميں نازل كيا ہے بيشك ہم ڈرانے والے ہيں }الدخان ( 3 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك كو ليلۃ القدر كے ساتھ فضيلت دى ہے، اور ليلۃ القدر كى قدر و منزلت بيان كرنے كے ليے سورۃ القدر نازل ہوئى، اور بہت سارى احاديث بھى اس سلسلہ ميں وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس وہ بابركت مہينہ آ رہا ہے جس كے روزے اللہ نے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروزے كھل جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش شيطانوں كو زنجيروں ميں باندھ ديا جاتا ہے، اللہ كے ليے اس ميں ايك رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، جو بھى اس رات كى خير سے محروم ہو گيا تو وہ محروم ہے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2106 ) مسند احمد حديث نمبر ( 8769 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 999 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ايك دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
4 - اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھنا اور قيام كرنے كو گناہوں كى بخشش كا سبب بنايا ہے؛ جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھے اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2014 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
مسلمانوں كا اجماع ہے كہ رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنا سنت ہے، امام نووى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ قيام رمضان سے مراد نماز تراويح ہے يعنى نماز تراويح سے قيام الليل كا مقصد حاصل ہو جاتا ہے.
5 - اس ماہ مبارك ميں اللہ سبحانہ و تعالى جنتوں كے دروازے كھول ديتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديتے ہيں اور شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان المبارك شروع ہو جاتا ہے تو جنت كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے اور شيطانوں كو ونجيروں ميں جكڑ ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).
6 - رمضان المبارك كى ہر رات اللہ سبحانہ و تعالى كچھ لوگوں كو جہنم كى آگ سے آزاد كرتے ہيں:
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر افطارى كے وقت اللہ تعالى كے ليے كچھ آزاد ہوتے ہيں "
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 256 ) ميں روايت كيا ہے، امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو لاباس كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 987 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بزار نے كشف ( 962 ) ميں ابو سعيد سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر مسلمان كے ليے ہر دن اور رات ميں دعا قبول ہوتى ہے "
7 - جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے تو رمضان المبارك كے روزے ركھنا پچھلے سب گناہوں كا كفارہ بن جاتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" پانچوں نمازيں اور جمعہ سے ليكر جمعہ تك اور رمضان سے رمضان تك ان كے مابين گناہوں كا كفارہ ہيں جبكہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).
8 - رمضان المبارك كے روزے ركھنا دس مہينوں كے برابر ہيں جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:
ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارا سال ہى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے تو ايك ماہ دس ماہ كے برابر ہے، اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے ركھے تو يہ پورے سال كے روزے ہونگے "
مسند احمد حديث نمبر ( 21906 ).
9 - جو شخص رمضان المبارك ميں رات كو امام كے ساتھ قيام مكمل كرے تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوتا ہے:
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1370 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صلاۃ التراويح صفحہ ( 15 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
10 - اس ماہ مبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت كو فرمايا:
" تجھے ہمارے ساتھ حج كرنے سے كس چيز سے روكا ؟
اس عورت نے عرض كيا: ہمارے پاس دو ہى اونٹ تھے ايك پر اس كے شوہر نے حج كيا اور دوسرا ہمارے ليے چھوڑ گيا جس پر ہم پانى لاتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ثواب ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).
اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "
ناضح كا معنى وہ اونٹ جس پر پانى لايا جائے.
11 - ماہ رمضان ميں اعتكاف كرنا مسنون ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مستقل طور پر ہر رمضان ميں اعتكاف كيا تھا جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہونے ہر رمضان كے آخرى عشرہ ميں اعتكاف كيا كرتے تھے، اور پھر ان كى بيويوں نے بھى آپ كے بعد اعتكاف كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1922 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1172 ).
12 - رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت اور دور كرنا مستحب ہے، دور اس طرح ہوگا كہ قرآن مجيد كسى دوسرے شخص كو سنايا جائے، يا پھر كسى دوسرے كا سنا جائے، اس كے مستحب ہونے كى دليل درج ذيل حديث ہے:
" جبريل عليہ السلام رمضان المبارك ميں ہر رات كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مل كر قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).
قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مطلقا مستحب ہے، ليكن رمضان المبارك ميں زيادہ تاكيدى ہے.
13 - رمضان المبارك ميں كسى دوسرے روزے دار كا روزہ افطار كرانا مستحب ہے:
زيد بن خالد جھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى روزے دار كا روزہ افطار كرايا اسے روزے دار جتنا ثواب حاصل ہوگا، ليكن روزے دار كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "
سنن ترمذي حديث نمبر ( 807 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1746 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 647 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے

فضائل رمضان میں ضعیف حدیث کا بیان

مندرجہ ذیل حدیث جو کہ سلمان فارسی رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کی صحت کیسی ہے ؟ 
( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری دن خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ فرمایا : لوگو تم پرعظمت اوربرکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ، ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہتر ہے ، اس کے روزے اللہ تعالی نے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی رات کا قیام نفل ہے ، جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جاۓ ، اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت اور درمیان مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے ۔۔۔ الحدیث ) ۔
الحمد للہ 
اسے ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ ( 3 / 191 ) حدیث نمبر ( 1887 ) انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کرنے کے بعد یہ کہا کہ (ان صح الخبر ) کہ اگر یہ خبر صحیح ہو ۔
توبعض کتب مراجع سے ان کا لفظ ساقط ہوگيا ہے مثلا منذری کی الترغیب والترھیب ( 2 / 95 ) میں تو لوگوں نے یہ خیال کرلیاہے کہ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے یعنی ان صح الخبر کی جگہ صح الخبر ہوگیا ہے حالانکہ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی نے بالجزم نہیں کہا کہ صحیح ہے ۔
اورالمحاملی نے امالیہ ( 293 ) میں اور بیھقی نے شعب الایمان ( 7 / 216 )اورفضائل الاوقاف ( ص 146 ) نمبر ( 37 ) اور ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب " الثواب " میں اور الساعاتی نے فتح الربانی ( 9 / 233 ) میں ابن حبان کی طرف منسوب کی ہے ، اور سیوطی نے اسے الدرالمنثور میں ذکرکیا اور یہ کہا ہے کہ اسے عقیلی نے روایت کیا اور اسے ضعیف کہا ہے اور الاصبھانی نے الترغیب میں نقل کیا ہے ، اور المنقی نے کنزالعمال ( 8 / 477 ) میں ان سب نے ایک ہی طریق سعید بن المسیب عن سلمان فارسی سے بیان کیا ہے ۔
تویہ حدیث دوعلتوں کی بنا پر ضعیف ہے اوروہ علتیں یہ ہیں :
1 - اس کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ سعید بن مسیب کا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔
2 - سند میں علی بن جدعان ہے جس کے بارہ میں ابن سعد کا کہنا ہے کہ فیہ ضعف ولا یحتج بہ ، یعنی ضعیف ہے اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا ۔
اور اسی طرح امام احمد ، ابن معین ، امام نسائ ، ابن خزیمہ اور جوزجانی وغیرہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں سیراعلام النبلاء ( 5 / 207 ) ۔
اس حدیث پرابوحاتم رازي نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورعینی نے " عمدۃ القاری ( 9 / 20 ) " میں بھی یہی حکم لگایا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ( 2 / 262 ) حدیث نمبر ( 871 ) میں ایسا ہی حکم لگایا ہے ۔
تواس طرح اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور اسی طرح اس کی سب کی سب متابعات بھی ضعیف ہیں جس پرمحدثين نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورایسے ہی اس میں ایسی عبارت پائ جاتی ہے جس کے ثبوت میں نظر ہے مثلا اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا کہ پہلاعشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورتیسرا آگ سے آزادی کا ہے ، اس کی کوئ دلیل نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالی کا فضل وکرم وسیع ہے اوررمضان مکمل طور پر مغفرت کا ہے اورہر رات اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتے ہیں اوراسی طرح عید الفطر کے وقت بھی جیسا کہ احاديث صحیحہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
اوراسی طرح حدیث میں یہ بھی ہے کہ :
(جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جاۓ ) ۔
تواس کی کوئ دلیل نہیں بلکہ نفل تونفل ہی رہتا ہے اورفرض فرض ہی ہے چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ کوئ اور مہینہ ۔
اورحدیث میں یہ عبارت بھی ہے کہ :
(اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ) ۔
تواس تحدید میں بھی خلاف ہے کیونکہ رمضان اورمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نیکی دس سے لیکر سات سو تک ہے تو اس لیے روزے کے علاوہ کسی چيز کی تخصیص نہیں کیونکہ روزے کا اجر بہت زیادہ جس میں مقدار کی تحدید نہیں کی گئ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ تعالی فرماتا ہے ( روزے کےعلاوہ ہرعمل ابن آدم کے ليۓ ہے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
تو ضعیف احادیث سے بچنا ضروری ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اسے بیان کرنے سے قبل حدیث کا درجہ معلوم کرلینا چاہیۓ ، اوررمضان المبارک کی فضيلت میں احادیث کی چھان پھٹک کرکے صحیح احادیث لینی چاہیں ۔
اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرماۓ‌ اور روزے اورراتوں کا قیام اورسب اعمال صالحہ قبول فرماۓ ۔ آمین یا رب العالمین ۔
واللہ تعالی اعلم .

رمضان المبارك كى خصوصيات

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟
الحمد للہ:
ماہ رمضان عربى بارہ مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اور دين اسلام ميں يہ مہينہ عظيم الشان قدر و منزلت ركھتا اور باقى سب مہينوں سے اسے بہت سارے خصائص حاصل ہيں جن ميں سے چند ايك خصوصيات ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا دين اسلام كا چوتھا ركن قرار ديا ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:
{ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا جو لوگوں كے ليے ہدايت كا باعث ہے اور اس ميں راہ ہدايت كى واضح نشانياں ہيں، اور فرقان ہے، اس ليے جو كوئى بھى ماہ رمضان كو پا لے تو وہ اس ماہ كے روزے ركھے }البقرۃ ( 185 ).
اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كےعلاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
2 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں قرآن مجيد نازل كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا آيت ميں فرمان بارى تعالى ہے:
{ رمضان المبارك وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے جو كہ لوگوں كے ليے باعث ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ہيں اور فرقان ہے }البقرۃ ( 185 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہيں:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے }.
3 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں ليلۃ القدر ركھى ہے جو كہ ايك ہزار مہينوں سے افضل و بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، تجھے كيا علم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں ہر كام كے سرانجام دينے كو اپنے رب كے حكم سے فرشتے اور جبريل اترتے ہيں، يہ رات سراسر سلامتى والى ہے اور فجر كے طلوع ہونے تك رہتى ہے }القدر ( 1- 5 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو بابركت رات ميں نازل كيا ہے بيشك ہم ڈرانے والے ہيں }الدخان ( 3 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك كو ليلۃ القدر كے ساتھ فضيلت دى ہے، اور ليلۃ القدر كى قدر و منزلت بيان كرنے كے ليے سورۃ القدر نازل ہوئى، اور بہت سارى احاديث بھى اس سلسلہ ميں وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے پاس وہ بابركت مہينہ آ رہا ہے جس كے روزے اللہ نے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروزے كھل جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش شيطانوں كو زنجيروں ميں باندھ ديا جاتا ہے، اللہ كے ليے اس ميں ايك رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، جو بھى اس رات كى خير سے محروم ہو گيا تو وہ محروم ہے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2106 ) مسند احمد حديث نمبر ( 8769 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 999 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ايك دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
4 - اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھنا اور قيام كرنے كو گناہوں كى بخشش كا سبب بنايا ہے؛ جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھے اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2014 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رمضان المبارك كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
مسلمانوں كا اجماع ہے كہ رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنا سنت ہے، امام نووى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ قيام رمضان سے مراد نماز تراويح ہے يعنى نماز تراويح سے قيام الليل كا مقصد حاصل ہو جاتا ہے.
5 - اس ماہ مبارك ميں اللہ سبحانہ و تعالى جنتوں كے دروازے كھول ديتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديتے ہيں اور شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان المبارك شروع ہو جاتا ہے تو جنت كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے اور شيطانوں كو ونجيروں ميں جكڑ ديا جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).
6 - رمضان المبارك كى ہر رات اللہ سبحانہ و تعالى كچھ لوگوں كو جہنم كى آگ سے آزاد كرتے ہيں:
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر افطارى كے وقت اللہ تعالى كے ليے كچھ آزاد ہوتے ہيں "
اسے امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 256 ) ميں روايت كيا ہے، امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو لاباس كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 987 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بزار نے كشف ( 962 ) ميں ابو سعيد سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر مسلمان كے ليے ہر دن اور رات ميں دعا قبول ہوتى ہے "
7 - جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے تو رمضان المبارك كے روزے ركھنا پچھلے سب گناہوں كا كفارہ بن جاتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" پانچوں نمازيں اور جمعہ سے ليكر جمعہ تك اور رمضان سے رمضان تك ان كے مابين گناہوں كا كفارہ ہيں جبكہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).
8 - رمضان المبارك كے روزے ركھنا دس مہينوں كے برابر ہيں جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:
ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارا سال ہى روزے ركھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے تو ايك ماہ دس ماہ كے برابر ہے، اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے ركھے تو يہ پورے سال كے روزے ہونگے "
مسند احمد حديث نمبر ( 21906 ).
9 - جو شخص رمضان المبارك ميں رات كو امام كے ساتھ قيام مكمل كرے تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوتا ہے:
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1370 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صلاۃ التراويح صفحہ ( 15 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
10 - اس ماہ مبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت كو فرمايا:
" تجھے ہمارے ساتھ حج كرنے سے كس چيز سے روكا ؟
اس عورت نے عرض كيا: ہمارے پاس دو ہى اونٹ تھے ايك پر اس كے شوہر نے حج كيا اور دوسرا ہمارے ليے چھوڑ گيا جس پر ہم پانى لاتے تھے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ثواب ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).
اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "
ناضح كا معنى وہ اونٹ جس پر پانى لايا جائے.
11 - ماہ رمضان ميں اعتكاف كرنا مسنون ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مستقل طور پر ہر رمضان ميں اعتكاف كيا تھا جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہونے ہر رمضان كے آخرى عشرہ ميں اعتكاف كيا كرتے تھے، اور پھر ان كى بيويوں نے بھى آپ كے بعد اعتكاف كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1922 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1172 ).
12 - رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت اور دور كرنا مستحب ہے، دور اس طرح ہوگا كہ قرآن مجيد كسى دوسرے شخص كو سنايا جائے، يا پھر كسى دوسرے كا سنا جائے، اس كے مستحب ہونے كى دليل درج ذيل حديث ہے:
" جبريل عليہ السلام رمضان المبارك ميں ہر رات كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مل كر قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).
قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مطلقا مستحب ہے، ليكن رمضان المبارك ميں زيادہ تاكيدى ہے.
13 - رمضان المبارك ميں كسى دوسرے روزے دار كا روزہ افطار كرانا مستحب ہے:
زيد بن خالد جھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى روزے دار كا روزہ افطار كرايا اسے روزے دار جتنا ثواب حاصل ہوگا، ليكن روزے دار كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "
سنن ترمذي حديث نمبر ( 807 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1746 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 647 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے

رمضان المبارك آنے كى تيارى كا طريقہ

سوال ؟ ہم رمضان المبارك كے ليے كيا تيارى كريں، اور اس ماہ مبارك ميں كونسے اعمال بجا لانا افضل ہيں ؟
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
الحمد للہ:
اول:
ہمارے عزيز بھائى آپ نے يہ بہت اچھا سوال كيا ہے، جس ميں آپ ماہ رمضان كے ليے تيارى كرنے كى كيفيت دريافت كرنا چاہتے ہيں، حالانكہ بہت سے افراد اور لوگ تو روزے كى حقيقت ميں بہت انحراف كا شكار ہو چكے ہيں، انہوں ماہ رمضان كو كھانے پينے، اور مٹھائياں و مختلف انواع و اقسام كى ڈش تيار كر كے كھانے كا موسم بنا كر ركھ ديا ہے، اور راتوں كو بيدار ہو كر ڈش اور مختلف فضائى چينل ديكھنے كا سيزن بنا ليا ہے، اور اس كے ليے وہ رمضان المبارك سے بہت عرصہ پہلے ہى تيار كرنے لگ جاتے ہيں، كہ كہيں كچھ كھانے رہ نہ جائيں، يا اس خدشہ سے كہ كہيں ان كا ريٹ ہى نہ بڑھ جائے.
تو يہ لوگ كھانے پينے كى اشياء اور مختلف قسم كے مشروبات كى تيارى ميں لگ جاتے ہيں، اور فضائي چينلوں كى فہرست تلاش كرنے لگتے ہيں تا كہ انہيں علم ہو كہ انہوں نے كونسا چينل ديكھنا ہے، اور كونسا نہيں ديكھنا، تو اس طرح ان لوگوں نے ماہ رمضان كے روزے كى حقيقت ہى مسخ كر ركھ ركھ دى ہے، اور يہ عبادت اور تقوى سے نكل كر اس ماہ مبارك كو اپنے پيٹوں اور اپنى آنكھوں كا موسم بنا ليا ہے.
دوم:
ليكن كچھ دوسرے ايسے بھى ہيں جنہوں نے رمضان البمارك كے روزے كى حقيقت كو جانا اور ادراك كيا اور وہ شعبان ميں ہى رمضان كى تيارى كرنے لگے، بلكہ بعض نے تو اس سے قبل ہى تيارى شروع كردى، ماہ رمضان كى تيارى كے ليے قابل ستائش امور اور طريقے درج ذيل ہيں:
1 - سچى اور پكى توبہ.
ہر وقت توبہ و استغفار كرنا واجب ہے، ليكن اس ليے كہ يہ ماہ مبارك قريب آ رہا ہے، اور تو مسلمان شخص كے ليے زيادہ لائق ہے كہ وہ اپنے ان گناہوں سے جلد از جلد توبہ كر لے جو صرف ا س اور اس كے رب كے مابين ہيں، اور ان گناہوں سے بھى جن كا تعلق حقوق العباد سے ہے؛ تا كہ جب يہ ماہ مبارك شروع ہو تو وہ صحيح اور شرح صدر كے ساتھ اطاعت و فرمانبردارى كے اعمال ميں مشغول ہو جائے، اور ا سكا دل مطمئن ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور اے مومنوں تم سب كے سب اللہ تعالى كى طرف توبہ كرو تا كہ كاميابى حاصل كر سكو ﴾النور ( 31 ).
اغر بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اے لوگو اللہ كى طرف توبہ كرو، ميں تو دن سو بار توبہ كرتا ہوں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2702 ).
2 - دعاء كرنا:
بعض سلف كے متعلق آتا ہے كہ وہ چھ ماہ تك يہ دعا كرتے اے اللہ ہميں رمضان تك پہنچا دے، اور پھر وہ رمضان كے بعد پانچ ماہ تك يہ دعا كرتے رہتے اے اللہ ہمارے رمضان كے روزے قبول و منظور فرما.
چنانچہ مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اپنے پروردگار سے دعا كرتا رہے كہ اللہ تعالى اسے رمضان آنے تك جسمانى اور دينى طور پر صحيح ركھے، اور يہ دعا كرنى چاہيے كہ اللہ تعالى اپنى اطاعت كے كاموں ميں اس كى معاونت فرمائے، اور اس كے عمل قبول و منظور فرما لے.
3 - اس عظيم ماہ مبارك كے قريب آنے كى خوشى و فرحت ہو.
كيونكہ رمضان المبارك كے مہينہ تك صحيح سلامت پہنچ جانا اللہ تعالى كى جانب سے مسلمان بندے پر بہت عظيم نعمت ہے؛ اس ليے كہ رمضان المبارك خير و بركت كا موسم ہے، جس ميں جنتوں كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور يہ قرآن اور غزوات و معركوں كا مہينہ ہے جس نے ہمارے اور كفر كے درميان فرق كيا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿كہہ ديجئے كہ اللہ كے فضل اور اس كى رحمت سے خوش ہونا چاہيے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس كو وہ جمع كر رہے ہيں ﴾يونس ( 58 )
4 - فرض كردہ روزوں سے برى الذمہ ہونا:
ابو سلمہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے سنا وہ بيان كر رہى تھيں:
" ميرے ذمہ رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ہوتى تھى، اور ميں شعبان كے علاوہ قضاء نہيں كر سكتى تھى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1849 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1146 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا رمضان ميں روزے ركھنے كى حرص ركھنے سے يہ اخذ ہوتا ہے كہ رمضان كى قضاء كے روزوں ميں دوسرا رمضان شروع ہونے تك تاخير كرنا جائز نہيں "
ديكھيں: فتح البارى ( 1849 ).
5 - علم حاصل كرنا تا كہ روزوں كے احكام كا علم ہو سكے، اور رمضان المبارك كى فضيلت كا پتہ چل سكے.
6 - ايسے اعمال جو رمضان المبارك ميں مسلمان شخص كوعبادت كرنے ميں ركاوٹ يا مشغول نہ ہونے كا باعث بننے والے ہوں انہيں رمضان سے قبل نپٹانے ميں جلدى كرنى چاہيے.
7 - گھر ميں اہل و عيال اور بچوں كے ساتھ بيٹھ كر انہيں روزوں كى حكمت اور ا س كے احكام بتائے، اور چھوٹے بچوں كو روزے ركھنے كى ترغيب دلائے.
8 - كچھ ايسى كتابيں تيار كى جائيں جو گھر ميں پڑھى جائيں، يا پھر مسجد كے امام كو ہديہ كى جائيں تا كہ وہ رمضان المبارك ميں نماز كے بعد لوگوں كو پڑھ كر سنائے.
9 - رمضان المبارك كے روزوں كى تيارى كے ليے ماہ شعبان ميں روزے ركھے جائيں.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم روزے ركھنے لگتے حتى كہ ہم كہتے آپ روزے نہيں چھوڑينگے، اور روزے نہ ركھتے حتى كہ ہم كہنے لگتے اب روزے نہيں ركھينگے، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ماہ رمضان كے علاوہ كسى اور ماہ كے مكمل روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا، اور ميں نے انہيں شعبان كے علاوہ كسى اور ماہ ميں زيادہ روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1868 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1156 ).
اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ديكھتا ہوں كہ آپ جتنے روزے شعبان ميں ركھتے اتنے كسى اور ماہ ميں نہيں ركھتے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رجب اور رمضان كے درميان يہ وہ ماہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہيں، يہ ماہ وہ ہے جس ميں اعمال رب العالمين كے طرف اٹھائے جاتے ہيں، اس ليے ميں پسند كرتا ہوں كہ ميرے عمل اٹھائيں جائيں تو ميں روزہ كى حالت ميں ہوں "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2357 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اس حديث ميں ماہ شعبان ميں روزے ركھنے كى حكمت بيان ہوئى ہے كہ: يہ ايسا مہينہ ہے جس ميں اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہيں.
اور بعض علماء نے ايك دوسرى حكمت بھى بيان كيا ہے كہ: ان روزوں كا مقام فرض نماز سے پہلى سنتوں والا ہے، كہ وہ نفس كو فرض كى ادائيگى كے ليے تيار كرتى ہيں، اور اسى طرح رمضان سے قبل شعبان كے روزے بھى.
10 - قرآن مجيد كى تلاوت كرنا:
سلمہ بن كہيل كہتے ہيں: شعبان كو قرآت كے مہينہ كا نام ديا جاتا تھا.
اور جب شعبان كا مہينہ شروع ہوتا تو عمرو بن قيس اپنى دوكان بند كر ديتے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے فارغ ہو جاتے.
اور ابو بكر بلخى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ماہ رجب كھيتى لگانے كا مہينہ ہے، اور ماہ شعبان كھيتى كو پانى لگانے كا، اور ماہ رمضان كھيتى كاٹنے كا مہينہ ہے.
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
ماہ رجب كى مثال ہوا،اور ماہ شعبان كى بادلوں، اور ماہ رمضان كى مثال بارش جيسى ہے، اور جس نے ماہ رجب ميں نہ تو كھيتى بوئى ہو، اور نہ ہى شعبان ميں كھيتى كو پانى لگايا تو وہ رمضان ميں كيسے كھيتى كاٹنا چاہتا ہے.
اور يہ ديكھيں ماہ رجب گزر چكا ہے، اگر رمضان چاہتے ہو تو آپ شعبان ميں كيا كرتے ہيں، آپ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور امت كےسلف كا حال تو اس ماہ مبارك ميں يہ تھا، اور آپ كا ان اعمال اور درجات ميں كيا مقام ركھتے ہيں ؟
،


حدیث: ( اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ) ضعیف ہے، صحیح نہیں ہے۔

سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ماہِ رجب کی ابتدائی رات میں پڑھی جانے والی یہ دعاکیا سنت ہے؟ دعا کے الفاظ درج ذیل ہیں: 
"اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ " میں دعا گو ہوں کہ ہمیں صحیح سنت سے ثابت شدہ اعمال پر ثابت قدم رکھے
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
لحمد للہ:
اول:
ماہِ رجب کی فضیلت میں کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہےابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہِ رجب کی فضیلت میں کوئی صحیح  حدیث نہیں ہے، اور ماہِ رجب  کی جمادی ثانیہ سے انفرادیت صرف اتنی ہے کہ یہ ماہ حرمت والے مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ ہے، وگرنہ اس میں  خصوصی روزے رکھنا، مخصوص نماز کی ادائیگی  کرنا، یا کسی خصوصیت کیساتھ عمرہ وغیرہ کرنا  صحیح نہیں ہے، بلکہ اس مہینے کا درجہ دیگر مہینوں جیسا ہی ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
"لقاء الباب المفتوح" (174/ 26) مکتبہ شاملہ  کی ترتیب کے مطابق۔
دوم:
عبد الله بن امام احمد نے "زوائد المسند" (2346) میں ، طبرانی نے "الأوسط" (3939)  میں ، بیہقی نے  "شعب الایمان" (3534)  میں اور ابو نعیم  نے "حلیۃ الاولیاء" (6/269) میں  زائدہ بن ابی رقاد کی سند سے نقل کیا ہے کہ : ہمیں زیاد نمیری نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رجب شروع ہوتا تو فرماتے:
(اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ) [یعنی: یا اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت ڈال، اور ہمیں رمضان نصیب فرما]
لیکن یہ سند ضعیف ہے، اس میں "زیاد نمیری " راوی ضعیف ہے، جسے ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
ابو حاتم  کہتے ہیں کہ: " لا يحتج به " یعنی اس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا۔
ابن حبان نے اسے اپنی کتاب "الضعفاء" میں  نقل کرتے ہوئے کہا: " لا يجوز الاحتجاج به" اس راوی کو حجت بنانا جائز نہیں ہے۔
دیکھیں:  "میزان الاعتدال" (2/ 91)
جبکہ  "زائدہ  بن ابی رقاد" مذکورہ بالا راوی سے بھی سخت ضعیف ہے، چنانچہ :
ابو حاتم کہتے ہیں: "یہ راوی زیاد نمیری  کے ذریعے انس رضی اللہ عنہ سے منکر روایات نقل کرتا ہے، اب ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ منکر روایات اس کی اپنی طرف سے ہیں یا اس کے استاد زیاد کی طرف سے"
امام بخاری کہتے ہیں: یہ راوی "منکر الحدیث" ہے
امام نسائی  کہتے ہیں: یہ راوی "منکر الحدیث" ہے، جبکہ اپنی کتاب "الکنی" میں کہا ہے کہ یہ "ثقہ نہیں ہے"۔
ابن حبان کہتے ہیں : "یہ مشہور راویوں سے منکر روایات بیان کرتا ہے، اور اس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا، اور اس کی احادیث صرف "اعتبار"  [کسی بھی خبر سے مستفید ہونے کا کم ترین درجہ۔ مترجم]کیلئے لکھی جائیں"
ابن عدی کہتے ہیں:  "زائدہ کے شاگردوں میں مقدمی  اور  دیگر  افراد انوکھی احادیث  روایات بیان کرتے ہیں، اور اس کی کچھ احادیث میں منکر  احادیث بھی موجود ہیں"
دیکھیں: "تهذیب التهذیب" (3/ 305-306)
جبکہ سوال میں مذکور حدیث کو نووی نے "الأذكار" (ص189)  میں  ابن رجب نے  "لطائف المعارف" (ص121) میں اور اسی طرح البانی  نے "ضعیف الجامع" (4395)  میں  اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
ہیثمی  کہتے ہیں: "اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے، اور اس کی سند میں زائدہ بن ابی رقاد  ہے، اس کے بارے میں امام بخاری  "منکر الحدیث" ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اور بہت سے لوگوں نے اسے مجہول قرار دیا ہے"
دیکھیں: "مجمع الزوائد" (2/ 165)
دوم:
 حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ ، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ  یہ دعا صرف رجب کی پہلی رات ہی کہی جائے گی، بلکہ اس میں مطلق دعا کے الفاظ ہیں، چنانچہ ان الفاظ کو بطورِ دعا  رجب  میں یا رجب سے پہلے بھی کہا جا سکتا ہے۔
سوم:
اگر کوئی مسلمان یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے ماہِ رمضان نصیب فرما، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
چنانچہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معلی بن فضل کہتے ہیں: [سلف صالحین] چھ ماہ تک اللہ تعالی سے دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں ماہِ رمضان نصیب فرما، اور چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! جو عبادتیں ہم نے کیں ہیں وہ ہم سے قبول فرما "
یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف صالحین کی دعا یہ ہوا کرتی تھی: "یا اللہ! مجھے رمضان تک پہنچا دے، اور رمضان مجھ تک پہنچا دے، اور پھر مجھ سے اس میں کی ہوئی عبادات قبول بھی فرما"انتہی"
"لطائف المعارف" (ص 148)
شیخ عبد الکریم خضیر حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
حدیث:  ( اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ) کی صحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ حدیث تو ثابت نہیں ہے، لیکن  اگر کوئی مسلمان اللہ عز و جل سے یہ دعا کرے کہ اسے رمضان نصیب ہو جائے ، اور رمضان میں قیام و صیام کی توفیق ملے، لیلۃ القدر تلاش کرنے کی توفیق دے، یا کوئی بھی اسی معنی پر مشتمل دعا کرے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از:http://khudheir.com/text/298
www.mominsalafi.blogspot.com

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...