جمعرات، 5 جولائی، 2018

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دخول جنت کی بنیادی شرط

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دخول جنت کی بنیادی شرط !

یاد رکھیں ! کتاب و سنت ( قرآن کریم اور صحیح آحادیث رسول ﷺ ) کے اتباع کے علاوہ دوسرے تمام شخصی طریقے، مذاھب و مسالک کی تقلید کرنا انسان کو ھلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیتا ھے۔ جب کہ قرآن کریم اور صحیح آحادیث رسول ﷺ کو کامل و مکمل جان کر اس کی اتباع انسان کو کامیابی اور نجات کی راستے تک پہنچا دیتا ھے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ>>> ہر متبع سنت بہن بھائی اس پوسٹ کو پڑھ کر آگے share کریں اور کتاب وسنت کی صحیح دعوت اور نشر واشاعت میں خالص لوجه الله اپنا کردار ادا کریں۔

یاد رکھیں ! جس نے اپنے محبوب نبی محمد کریم ﷺ کے علاوہ کسی امتی شخص کو شریعت کا امام اعظم جانا اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کو چھوڑ کر کسی امتی شخص کو اپنا امام جان کر اس کی تقلید کی تو وہ شخص ہلاک اور تباہ ھوا۔ اپنے رسول ﷺ کی سنت ( صحیح آحادیث ) پر کسی امتی شخص کی بات و قول کو ترجیح دینے والے شخص کا سارا عمل و مشقت ضائع و برباد ھے، اور وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل اور خاب و خاسر رھے گا۔

کتاب و سنت ( قرآن و صحیح آحادیث رسول ﷺ) کی اتباع کے بجائے اپنے خود ساختہ بزرگوں اور آئمہ کی اندھی تقلید کرنے والوں کو اگر یقین نہیں آتا تو پڑھیئے الله تعالی کا ارشاد جب قیامت کے دن ہر ظالم یعنی کافر، مشرک، منافق اور مبتدع وغیرہ اپنے انجام کو دیکھ کر دنیاوی زندگی میں مخالفت رسول ﷺ پر افسوس کا اظہار کرکےاپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے ہی کاٹ کر کہے گا:

﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا﴿ ٢٧﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴿٢٨﴾ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا (﴿ ٢٩﴾ وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا ﴿٣١﴾" [ الفرقان : سورۃ رقم ٢۵]

"اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول ﷺ کی راە اختیار کی ھوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ھوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراە کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو ( وقت پر ) دغا دینے ولا ھے۔ اور رسول ( ﷺ ) کہے گا کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ اور اسی طرح ھم نے ہر نبی کے دشمن بعض گناە گاروں کو بنا دیا ھے، اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے والا اور مدد کرنے والا کافی ھے۔"

الله تعالی نے تمام مسلمانوں پر اپنےاٴحکام کی پابندی اور اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول الله ﷺ کے اٴحکام و اٴوامر کی اتباع کو ضروری قرار دیا ھے۔ اس کے متعلق چند قرآنی آیات درج ذیل ہیں :

1- ﴿ من یطع الرسول فقد اٴطاع الله ﴾ (النساۂ آیت 80 )

"جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے الله کی اطاعت کی۔"

2- ﴿ اٴطیعوا الله واٴطیعوا الرسول ﴾ (النساۂ آیت 59)

"الله کی اطاعت کرو اور رسول الله ﷺ کا کہا مانو۔"

3- ﴿... وما آتاکم الرسول فخذوە وما نہاکم عنە فانتہوا،...﴾ (الحشر آیت 7)

"اور رسول تمہیں جو حکم دے اسے لے لو اور جس چیز سے وە منع کرے اس سے رک جاوٴ"

4- ﴿ لقد کان لکم فی رسول الله اٴسوة حسنة ﴾ ( الاَحزاب آیت 21 )

"بے شک تمہارے لۓ الله کے رسول میں بہترین نمونہ ھے"

5- ﴿ قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله ویغفر لکم ذنوبکم ﴿31﴾ قل أطيعوا الله والرسول، فإن تولوا فإن الله لا يحب الكافرين ﴿32﴾ [ آل عمران ]

"آپ کہہ دیں اگر تم الله تعالی کو محبوب رکھنا چاھتے ھو تو میری اتباع کرو اس وقت الله تعالی تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارےگناھوں کو بخش دے گا۔" کہہ دیجئے! کہ الله تعالی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ موڑ پھیر لیں تو بے شک الله تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔"

یعنی اس آیت کریمہ آل عمران (31) میں الله تعالی نے واضح فرمایا ھے کہ اتباع رسول ﷺ کی وجہ سے صرف تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ھوں گے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاوٴگے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ھے بارگاہ الہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔

اس آیت کریمہ آل عمران (32) میں الله تعالی کی اطاعت کے ساتھ اطاعت رسول ﷺ کی پھر تاکید کرکے واضح کر دیا کہ اب نجات اگر ھے تو صرف اطاعت محمدی میں ھے اور اس سے انحراف کفر ھے اور ایسے کافروں کو الله تعالی پسند نہیں فرماتا۔ چاھے وہ الله تعالی کی محبت و قرب کے کتنے ہی دعوے دار ھوں۔ اور اس آیت میں حجیت حدیث کے منکرین اور اتباع رسول ﷺ سے گریز کرنے والوں دونوں کے لئے سخت وعید ھے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ھے۔ اٴغاذنا الله منە۔

باقی دنیا میں ہر صاحب عقل وبصیرت مرد و عورت کو اپنے بساط کے مطابق سعی و تحقیق کرکے حق وباطل میں فرق و پہچان کرنا چاہیۓ اور پھر حق کو دل ہی سے قبول کرکے اس کی اتباع کرنا چاہیۓ۔ " اللهم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعه، اللهم أرنا الباطل باطلًا وارزقنا إجتنابە۔

الله تعالی سے دعاگو ھوں کہ ھم سب کو حق قبول کرنے اور پھر اس پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ امین یا رب العالمین-

( إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت )
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين۔

( والله تعالی اٴعلم )
x

بدھ، 23 مئی، 2018

آٹھ رکعات تراویح کی دلیل چاہے طابہط ارالھدیٰ منگلورہ تحصیل کنزر ٹنگمرگ

آٹھ رکعات تراویح کی دلیل چاہے   طابہط 
ارالھدیٰ منگلورہ تحصیل کنزر ٹنگمرگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ رکعت نماز ترایح ہی سنت ہے، جیسا کہ :
◈ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
”یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں۔ “ [العرف الشذي : 166/1]
◈ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م1346ھ) لکھتے ہیں :
”ابن ہمام (نے) آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن نہیں۔“ [براهين فاطعه : 18]
◈ مزید لکھتے ہیں : ”سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [براهين فاطعه : 195]
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی (1362-1280 ھ) کہتے ہیں :
بیماروں کو تو کہ دیتا ہوں کہ تراویح آٹھ پڑھو، مگر تندرستوں کو نہیں کہتا۔ [الكلام الحسن : 89/2]
◈ جناب عبد الشکور فاروقی لکھنوی دیوبندی (م 1381ھ) لکھتے ہیں :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔“ [علم الفقه از عبد الشكور ديوبندي : 198]
◈ یہی بات :
◈ امام احناف ابن ہمام حنفی [فتح القدير : 468/1] ،
◈ امام عینی حنفی [عمدة القاري : 177/7] ،
◈ امام ابن نجیم حنفی [البحر الرائق : 66/2] ،
◈ ابن عابدین شامی حنفی [ردالمحتار : 521/1] ،
◈ ابوالحسن شرنیلانی حنفی [مرافي الفلاح : 224] ،
◈ طحطاوی حنفی [حاشية الطحطاوي على الدر المحتار : 521/1 : 18] وغیرہم نے پیش کی ہے۔
حنفی و دیوبندی ”علماء وفقہاء“ کے آٹھ رکعت مسنون تراویح کے فیصلے کے بعد اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ رکعت نماز تراویح کے سنت ہونے پر دلائل ذکر کرتے ہیں :
آٹھ رکعت نماز تراویح کے سنت ہونے پر دلائل
دلیل نمبر ➊
ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ رمضان المبار ک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تراویح) کی کیا کیفیت ہوتی تھی ؟ تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ماكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على احدي عشرة ركعة۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو تا یا غیر رمضان، گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ [صحيح بخاري154/1، ح : 1147، ح : 2013 صحيح مسلم 254/1 : 738] .
↰ جمہور علماء ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے آٹھ رکعت تراویح ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ :
◈ امام ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (م 656ھ) لکھتے ہیں :
ثم اختلف فى المختار من عدد القيام۔۔۔۔۔ وقال كثير من أهل العلم : احدي عشرة ركعة، أخذا بحديث عائشة المتقدم۔
”پھر قیام کے عدد مختار میں اختلاف کیا گیا ہے، کثیر علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ گیارہ رکعت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے دلیل لیتے ہوئے جو گزر چکی ہے۔“ [المفهم لمااشكل من تلخيص كتاب مسلم : 389/2ـ 390]
اس حدیث کی شرح میں :
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
هذا الرواية رواية الصحيحين، وفي الصحاح صلاة تراويحة عليه السلام ثماني ركعات وفي السنن الكبريٰ وغيره بسند ضعيف من جانب أبى شيبة، فانه ضعيف اتفاقا، عشرون ركعة، الآن انما هو سنة خلفاء الراشدين، ويكون مرفوعا حكماوان لم نجد اسناده قويا۔
”یہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے اور صحیح احادیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازتراویح آٹھ رکعت ثابت ہے اور سنن کبریٰ میں بیس رکعتوں والی روایت ضعیف سند کے ساتھ ابوشیبہ سے آئی ہے، جوکہ باتفاق ضعیف ہے اور بیس رکعتیں خلفائے راشدین کی سنت ہے اور مرفوع کے حکم میں ہے، اگرچہ اس کی قوی سند ہمیں نہیں ملی۔“ [العرف الشذي : 101/1]
↰ دیکھے ! شاہ صاحب کس طرح آٹھ رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح مسلم میں ثابت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حنفی مذہب کی کمزوری و معذوری میں پیش کر رہے ہیں کہ ہم بیس رکعت تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قوی سند کے ساتھ نہیں پا سکے، آپ خود اندازہ فرمائیں کہ ایک مسئلہ جو قوی سند کے ساتھ ثابت بھی نہ ہو، پھر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بھی ہو، اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
↰ ہم کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے کسی وضع (من گھڑت) روایت سے بھی بیس رکعت ناز تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے، لہٰذا بیس رکعت تراویح کو خلفائے راشدین کی سنت قرار دینا صریح غلطی ہے۔
جناب انور شاہ کاشمیری دیوبندی کے علاوہ متعدد حنفی فقہا ء نے بھی اس حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت تراویح کی دلیل بنایا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ نماز تراویح اور تہجد میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔ [تفصيل كيلئے ديكهيں فيض الباري : 420/2 وغيره]
——————
دلیل نمبر ➋
سیدنا جابر بن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
صلٰي بنا رسول الله صلٰي الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات و‍أوتر۔
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ماہ رمضان میں آٹھ رکعت نماز تراویح اور وتر پڑھائے۔“ [مسند ابي يعليٰ : 326/2، المعجم الصغير للطبراني : 190/1، فتح الباري : 12/3، وسنده حسن]
↰ اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ، جمہورمحد ثین کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہیں۔
اس حدیث کو امام ابن خذیمہ [1070] اور امام ابن حبان [2409] رحمہ اللہ نے ”صحیح ”کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واسنادہ وسط ”اس کی سنداچھی ہے۔“ [ميزان الا عتدال : 311/3]
◈ امام عینی حنفی [عمد ة القاري7 /177] اور دیگر فقہا ء نے اس حدیث کو آٹھ رکعت نماز تراویح پر دلیل بنا یا ہے۔
——————
دلیل نمبر ➌
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آج رات مجھ سے ایک کام ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کیا اے ابی ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا : ہم قرآن کریم پڑھی ہوئی نہیں، اس لیے ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی :
فصليت بهن ثمان ركعات، ثم أوترت، فكانت سنة الرضا، ولم يقل شيئا۔
”میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، پھر وتر پڑھائے، اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی اظہار فرمایا اور کچھ نہیں کہا۔“ [مسند ابي يعليٰ : 362/2، زوائد مسند الامام احمد : 115/5، المعجم الا وسط للطبراني 141/4، قيام الليل للمروزي : 217، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [2550] نے ”صحیح“ کہا  ہے، حافط ہیثمی نے اس کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 742]
——————
دلیل نمبر ➍
صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں :
أمر عمربن الخطاب أبى بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس باحدي عشرة ركعة
”سیدنا عمر خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح (مع وتر) پڑھایا کریں۔“ [ موطا امام مالك : 138، شرح معاني الآ ثار للطحاوي : 293/1، السنن الكبري للبهيقي : 496/2، مشكاة المصابيح : 1/407، وسنده صحيح]
↰ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم صحیح بخاری و صحیح مسلم والی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے موافق ہے، سیدنا امیر المومنین، شہید محراب کا حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے عین مطابق ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا اور اس سے بیس رکعت تراویح کے قائلین و عاملین کا رد ہوتا ہے اور ان کا یہ قول کہ وہ بیس رکعت نماز تراویح اس لیے پڑھتے ہیں کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیس پڑھی تھیں، یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتان اور سراسر جھوٹ ہے، کسی وضعی (من گھڑت) روایت سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
↰ ثابت ہوا کہ عہد فاروقی میں آٹھ رکعت تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔
——————
دلیل نمبر ➎
سیدنا سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ان عمر جمع الناس على أبى وتييم، فكانا يصليان احدي عشرة ركعة۔ 
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ پر جمع کر دیا، وہ دونوں گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 392-391/2، تاريخ المدينة للامام عمر بن شيبه : 713/2 وسندة صحيح]
——————
دلیل نمبر ➏
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب باحدي عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت (نماز تراویح) پڑھتے تھے۔“ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي للسيوطي : 349/1، حاشية آثار السنن للنيسوي : 250 وسنده صحيح]
◈ علامہ سبکی لکھتے ہیں : اسنادۂ فى غاية الصحة ”اس کی سندا انتہا درجہ کی صحیح ہے۔“ [ شرح المنهاج بحواله الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ مذکور ہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز تراویح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب و سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو وتر سمیت گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل و تکمیل میں گیارہ رکعت نماز تراویح پرھائی اور صحابہ کرام نے پڑھی۔
↰ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
بیس رکعت تراویح کے دلائل کا جائزہ
اب ہم ان لوگوں کے دلائل کا علمی وتحقیقی، مختصر، مگر جامع جائزہ پیش کرتے ہیں جو بیس رکعت نماز تراویح کو ”سنت مؤکدہ“ کہتے ہیں۔
دلیل نمبر  ➊
”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبار ک میں بیس رکعتیں اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔“ [مصنف ابن بي شيبة : 294/2، السنن الكبري للبيهقي : 496/2، المعجم الكبير للطبراني : 393/11، وغيره هم]
تبصرہ : 
یہ جھوٹی روایت ہے،
اس کی سند میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی ”متروک الحدیث“ اور ”کذاب“ ہے، جمہورنے اس کی ”تضعیف“ کر رکھی ہے۔
◈ امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وهو معلو ل بأبي شيبة ابراهيم بن عثمان، جد الامام أبى بكر بن أبى شيبة، وهو متفق عليٰ ضعفة، الينة ابن عدي فى الكامل، ثم مخالف للحديث الصحيح عن أبى سلمة بن عبد الرحمٰن أنه سأل عائشة : كيف كانت صلاٰ رسول صلى الله عليه وسلم فى رمضان ؟ قالت : ماكان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على ٰ احديٰ عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”یہ روایت ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان راوی کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے، جو کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ کے دادا ہیں، ان کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، امام ابن عدی نے بھی الکامل میں ان کو کمزور قرار دیا ہے، پھر یہ اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔۔۔۔۔“ [نصب الراية للزيلعي : 153/2]
① جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں :
أما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات وأ ما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه اتفاق۔ 
”آٹھ رکعات نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہیں اور جو بیس رکعت کی روایت ہے، وہ ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي : 166/1]
بالاتفاق ”ضعیف“ راوی کی روایت وہی پیش کر سکتا ہے جو خود اس کی طرح بالا تفاق ”ضعیف“ ہو۔
② جناب عبدالشکور فاروقی دیوبندی نے بھی اس کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [ علم الفقة : ص 198]
③ ابن عابدین شامی حنفی (م 1252) لکھتے ہیں :
فضعيف بأبي شيبة، متفق على ضعفه مع مخالفة للصحيح۔
”یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس میں راوی ابوشیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے، ساتھ ساتھ یہ حدیث (صحیح بخاری و صحیح مسلم کی) صحیح (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ) کے بھی خلاف ہے۔“ [منحة الخالق : 66/2]
یہی بات :
◈ امام ابن ہمام حنفی [فتح القدير : 468/1] ،
◈ امام عینی حنفی [عمدة القاري : 128/11] نے بھی کہی ہے۔
◈ علامہ سیوطی (911-849ھ) لکھتے ہیں :
هذا الحديث ضعيف جد ا، لاتقوم به حجة
”یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔“ [المصابيح فى صلاة التراويح : 17]
تنبیہ : امام بریلویت احمد یار خان گجراتی ( 1391-13244ھ) اپنی کتاب [جاء الحق ص243/2] میں  ”نماز جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو“ کی بحث میں امام ترمذی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : ”ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ منکر حدیث ہے۔“
لیکن اپنی اسی کتاب [ 447/1] کے  ضمیمہ میں مندرج رسالہ لمعات المصابیح علی رکعات التراویح میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں، دراصل انصاف کو ان سے شکایت ہے کہ وہ اس کا ساتھ نہیں دیتے، ایسے بدیانت اور جاہل، بلکہ اجہل لوگوں سے خیر کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے جو اس طرح کی واہی تباہی مچاتے ہیں ؟
قارئین کرام !  بعض الناس کی یہ  کل کائنات تھی جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے، نہ معلوم اس کے باوجود ان لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح کو ”سنت مؤکدہ“ کہتے ہوئے شرم کیوں نہیں آتی ؟
——————
دلیل نمبر  ➋
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعتیں پڑھائیں اور تین رکعات وتر پڑھے۔ [ تاريخ جرجان لابي قاسم حمزة بن يوسف السهي المتوفي767، من الهجرية : ص 275]
تبصرہ : 
یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے،
اس میں دو راوی عمر بن یارون البلخی اور محمد بن حمید الرازی ”متروک و کذاب“، نیز ایک غیر معروف راوی بھی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیس تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کا راگ الاپنے والے اس چوبیس والی حدیث کو کس منہ سے پیش کرتے ہیں ؟
——————
دلیل نمبر  ➌
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ رمضان میں رات کو لوگوں کو نماز پڑ ھایا کریں، آپ نے فرمایا، لوگ دن میں روزہ رکھتے ہیں، لیکن اچھی طرح قراءت نہیں کر سکتے، اگر تم رات کو ان پر قرآن پڑ ھا کرو تو اچھا ہو، سیدنا ابی بن کعب نے عرض کی، اے امیر المؤمنین ! پہلے ایسا نہیں ہوا تو آپ نے فرمایا، مجھے بھی معلوم ہے، تاہم یہ ایک اچھی چیز ہے، چنانچہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات پڑھائیں۔ [كنز العمال : 4098]
تبصرہ : 
”کنز العمال“ میں اس کی سند مذکور نہیں،
دین سند کا نام ہے، بے سند روایات وہی پیش کرتے ہیں، جن کی اپنی کوئی ”سند“ نہ ہو۔
——————
دلیل نمبر  ➍
عن الحسن أن عمر بن الخطاب رضى الله عنه جمع الناس على أبيبن كعب، فكان يصلي لهم عشر ين ركعة۔ 
”حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر اکٹھا کیا، وہ انہیں بیس رکعات پڑ ھاتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد، سير اعلام النبلاء : 400/10، جامع المسانيد والسنن للحافظ ابن كثير : 55/1]
تبصرہ : 
عشر ين ركعة کے الفاظ دیوبندی تحریف ہے،
محمود الحسن دیوبندی (1268-1339ھ) نے یہ تحریف کی ہے، عشر ين ليلة ”بیس راتیں“ کی بجائے عشر ين ركعة ”بیس  رکعتیں“ کر دیا ہے۔ جبکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخہ میں عشرين ركعة نہیں ہے، تمام نسخوں میں عشرين ليلة ہی  ہے، حال ہی میں محمد عوامہ کی تحقیق سے جو سنن ابی داؤد کا نسخہ چھپا ہے، جس میں سات آٹھ نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، اس میں بھی عشر ين ليلة ہی ہے، محمد عوامہ لکھتے ہیں : من الأ صول كلها۔ 
”سارے کے سارے بنیادی نسخوں میں یہی الفاظ ہیں۔“ [سنن ابي داؤد بتحقيق محمد عوامه : 256/2]
عشر ين ركعة کے الفاظ محرف ہونے پر ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ [السنن الكبري : 498/6] نے یہی روایت امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں عشر ين ليلة کے الفاظ ہیں۔ یہی الفاظ حنفی فقہاء اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے رہے ہیں۔ رہا مسئلہ ”سیر اعلام النبلاء“ اور ”جامع المسانیدو والسنن“ میں عشر ين ركعة کے الفاظ کا پایا جانا تو یہ ناسخین کی غلطی ہے، کیونکہ سنن ابی داؤد کے کسی نسخے میں یہ الفاظ نہیں ہیں، یہاں تک کہ امام عینی حنفی (855ھ) نے شرح أبی داؤد [343/5] میں عشرين ليلة کے الفاظ ذکر کر کیے ہیں، نسخوں کا اختلا ف ذکر نہیں کیا، اگر ركعة کے الفاظ کسی  نسخے میں ہوتے تو امام عینی حنفی ضرور بالضر ور نقل کرتے، اسی لیے غالی حنفی نیموی (م1322ھ) نے بھی اس کو بیس رکعت تراویح کی دلیلوں میں ذکر نہیں کیا ہے۔
② اگر مقلدین کی بات کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ روایت ان کی دلیل نہیں بن سکتی، جیسا کہ :
◈ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (1346-1269ھ) لکھتے ہیں :
”ایک عبارت بعض نسخوں میں ہوا اور بعض میں نہ ہو تو وہ مشکوک ہوتی ہے۔“ [ بزل المجهود : 471/4، بيروت]
لہٰذا اس دیوبندی اصول سے بھی یہ روایت مشکوک ہوئی۔
تنبیہ :  امام بریلوت احمد یار خان نعیمی گجراتی (1391-13244ھ) نے عشر ين ليلة کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ [ جاء الحق : 95/6] بحث ”قنوت نازلہ پڑھنا منع ہے۔“
◈ جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
”جب عام اور متداول نسخوں میں یہ عبارت نہیں تو شاذ اور غیر مطبوعہ نسخوں کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟“ [ خزائن السنن : 97/2]
مقلدین کے اصول کے مطابق اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں۔
◈ امام زیلعی حنفی (م 762ھ) اور امام عینی حنفی لکھتے ہیں :
لم يد رك عمر بن الخطاب۔
”اس روایت کے راوی امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر بن خطاب کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ نصب الراية : 126/2، شرح ابي داؤد از عيني حنفي : 343/5]
لہٰذا یہ روایت ”منقطع“ ہوئی، کیا شریعت ”منقطع“ روایات کا نام ہے ؟
④ امام عینی حنفی نے اس کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [ شرح سنن ابي داؤد از ع۔ ني حنفي : 343/5]
⑤ اس روایت کو حافظ رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ خلاصة الا حكام للنووي : 565/1]
⑥ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گیارہ رکعت تراویح بمع وتر کا حکم دینا ثابت ہے۔ [ موطا امام مالک : 138، السنن الکبری للبھقی : 496/2، شرح معانی الآثار للطحاوی : 293/1، معرفۃ السنن والآ ثار للبیھقی : 42/4، فضائل الاوقات للبیھقی : 274 : قیام اللیل للمروزی : 220، مشکاۃ المصابیح : 407 وسندہ صحیح]
امام طحاوی حنفی (321-239ھ) نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے۔
——————
دلیل نمبر  ➍
یزید بن رومان کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں رمضان میں تیس رکعات پڑ ھا کرتے تھے۔ [ موطا امام مالك : 97/1، السنن الكبر ي للبيهقي : 494/2]
تبصرہ : 
یہ روایت ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
راوی یزید بن رومان نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا،
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يزيد بن رومان لم يد رك عمر بن الخطاب۔
”یزید بن رومان نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ [نصب الراية للز يلعي : 163/2]
لہٰذا یہ روایت ”منقطع“ ہوئی، جبکہ مؤطا امام مالک میں اس ”منقطع“ روایت سے متصل پہلے ہی ”صحیح ومتصل“ سند کے ساتھ ثابت ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
ترجیح المسصل علی المنقطع.
”ضابطہ یہ ہے کہ متصل کو منقطع پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔“ [العرف الشذي : 11]
↰ ہم کہتے ہیں کہ یہاں بے ضابطگیاں کیوں ؟
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
”روایت مؤطا مالک منقطع ہے۔“ [اشرف الجواب : 182]
صحیح احادیث کے مقابلہ میں ”منقطع“ روایت سے حجت پکڑنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
——————
دلیل نمبر  ➎
یحیٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑحائے۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]
تبصرہ : 
یہ روایت ”منقطع“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے،
◈ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
يحيي بن سعيد لم يدرك عمر۔ 
”یحیٰ بن سعید الانصاری نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ التعلیق الحسن از نیموی حنفی : 253]
——————
دلیل نمبر  ➏
”عبدالعزیز بن رفیع فرماتے ہیں کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کو مدینہ میں بیس رکعات پڑھاتے تھے اور وتر تین رکعات۔“ [ مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]
تبصرہ : 
یہ رویات بھی ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، :
◈ نیموی حنفی لکھتے ہیں :
عبد العزيز بن رفيع لم يدرك أ بي بن كعب۔
”عبدالعزیز بن رفیع نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔“ [التعليق الحسن : 253]
——————
دلیل نمبر  ➐
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ [ مسند على بن الجعد : 2725، السنن الكبري للبيهقي : 496/2، وسنده صحيح]
تبصرہ : 
یہ بیس رکعتیں پڑھنے والے لوگ صحابہ کرام کے علاوہ اور لوگ تھے، کیونکہ :
◈ صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید خود فرما تے ہیں :
كنا (أي الصحابة) نقوم فى عهد عمر بن الخظاب با حدٰ ي عشرة ركعة۔۔۔ 
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات (نماز تراویح بمع وتر) پڑھتے۔“ [حاشية آثار السنن : 25، وسنده صحيح]
↰ صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے لوگوں کا عمل حجت نہیں، یہ کہاں ہے کہ یہ نامعلوم لوگ بیس کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے، اگر کوئی آٹھ کو سنت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بارہ کو زائد نفل سمجھ کر پڑھے تو صحیح ہے، یہ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔
◈ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (م 1346ھ) لکھتے ہیں :
”ابن ہمام (نے) آٹھ رکعات کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے، سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“ [ براهين قاطعة : 18]
مزید لکھتے ہیں : ”سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں۔“ [ براهين قاطعه : 195]
——————
دلیل نمبر  ➑
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑ ھا کرتے تھے۔ [ معرفة السفن والآثار للبيهقي : 42/4]
تبصرہ : 
یہ روایت ”شاذ“ ہے،
امام مالک، ا امام یحیٰ بن سعید القطان اور امام الدراوردی وغیرہم رحمہ اللہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس میں ”شذوذ“ ہے،
اگرچہ خالد بن مخلد ”ثقہ“ راوی ہے، لیکن کبار ثقات کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اس کی روایت قبول نہ ہو گی، اسی روایت میں کبار ثقافت گیارہ رکعات بیان کر رہے ہیں۔
——————
دلیل نمبر  ➒
ابوعبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قراء کو بلا یا اور ان کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ [ السنن الكبري للبيهقي : 496/2]
تبصرہ : 
① یہ روایت ”ضعیف“ ہے،
اس کی سند میں حماد بن شعیب راوی ”ضعیف“ ہے، اس کو :
◈ امام یحیٰ بن معین، امام ابوززرعہ، امام نسائی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
② دوسری وجہ ضعیف یہ ہے کہ عطاء بن السائب ”مختلط“ راوی ہے، حماد بن شعیب ان لوگوں میں سے نہیں، جنہوں نے اس سے قبل الاختالط سنا ہے۔
——————
دلیل نمبر  ➓
”ابوالحسناء سے رویات ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ تراویح، یعنی بیس رکعات تراویح پڑ ھایا کرے۔“ [ مصنف ابن ابي شيبة : 393/2]
تبصرہ : 
اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس کی سند میں ابوالحسنا ء راوی ”مجہول“ ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لايعرف۔ ”یہ غیر معروف راوی ہے۔“ [ ميزان الاعتدال : 515/4]
اللہ تعالیٰ نے ہمیں غیر معروف راویوں کی روایات کا مکلف نہیں ٹھہرایا۔
——————
دلیل نمبر  ⓫
”اعمش کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔“ [ مختصر قيام الليل للمروزي : 157]
تبصرہ : 
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
عمدۃ القاری [ 128/11] میں یہ  حفص بن غیاث عن الأعمش کے طریق سے ہے، جبکہ حفص بن غیاث اور اعمش دونوں زبردست ”مدلس“ ہیں اور ”عن“ سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا سند ”ضعیف“ ہے۔
باقی امام عطاء امام ابن ابی ملیکہ، امام سوید بن غفلہ وغیرہم کا بیس رکعت پڑھنا بعض الناس کو مفید نہیں، وہ یہ بتائیں کہ وہ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں یا امام عطاء بن ابی رباح وغیرہ کے ؟ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ بیس رکعت کو سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے۔
آل تقلید پر لازم ہے کہ وہ باسند صحیح اپنے امام ابوحنیفہ سے بیس رکعت تراویح کا جواز یا سنت مؤکدہ ہونا ثابت کریں، ورنہ مانیں کہ وہ اندھی تقلید میں سر گرداں ہیں۔
——————
الحاصل : 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے بیس رکعت نماز تراویح پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے، سنت صرف آٹھ رکعات ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حق سمجھنے والا اور اس پر ڈٹ جانے والا بنائے۔ آمين !
تحریر: غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


محفوظ الرحمٰن یوپی انڈیاسے

جمعرات، 26 اپریل، 2018

گانا سننا اور بجانا اسلام میں کیسا ہے

الحمد للہ:

المعازف معزفۃ كى جمع ہے، اور يہ آلات لہو يعنى گانے بجانے كے آلات ہيں.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 55 ).

اور يہ وہ آلہ ہے جس ناچا اور گايا جاتا ہے.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 11 / 577 ).

" اور قرطبى نے جوہرى سے نقل كيا ہے كہ: المعازف گانا بجانا ہے، اور ان كى صحاح ميں ہے كہ: يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ گانے كى آوازيں ہيں.

اور دمياطى كے حاشيہ ميں ہے: معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں، اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں . انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 55 ).

كتاب و سنت سے موسيقى كى حرمت كے دلائل:

اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ لقمان ميں فرمايا ہے:

﴿ اور لوگوں ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ بغير كسى علم كے اللہ كى راہ سے لوگوں كو روكيں، اور اسے مذاق بنائيں، انہيں لوگوں كے ليے ذلت ناك عذاب ہے ﴾لقمان ( 6 )

حبر الامۃ ابن عباس رضى اللہ تعالى اس كى تفسير ميں كہتے ہيں، يہ گانا بجانا ہے.

اور مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: لہو اور ڈھول اور ناچ گانا ہے.

ديكھيں: تفسير طبرى ( 3 / 451 ).

اور سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تو اس ميں ہر حرام كلام، اور سب لغو اور باطل باتيں، بكواس اور كفر و نافرمانى كى طرف رغبت دلانے والى بات چيت، اور راہ حق سے روكنے والوں اور باطل دلائل كے ساتھ حق كے خلاف جھگڑنے والوں كى كلام، اور ہر قسم كى غيبت و چغلى، اور سب و شتم، اور جھوٹ و كذب بيانى، اور گانا بجانا، اور شيطانى آواز موسيقى، اور فضول اور لغو قسم كے واقعات و مناظرات جن ميں نہ تو دينى اور نہ ہى دنياوى فائدہ ہو سب شامل ہيں "

ديكھيں: تفسير السعدى ( 6 / 150 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" لھو الحديث " يعنى لغو بات خريدنے كى تفسير ميں صحابہ كرام اور تابعين عظمام كى تفسير ہى كافى ہے، انہوں نے اس كى تفسير يہى كى ہے كہ: يہ گانا بجانا، ہے، ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ صحيح ثابت ہے.

ابو الصھباء كہتے ہيں: ميں نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالى كے فرمان:

﴿ و من الناس من يشترى لھو الحديث﴾ كے متعلق سوال كيا كہ اس سے مراد كيا ہے تو ان كا جواب تھا:

اس اللہ تعالى كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں اس سے مراد گانا بجانا ہے ـ انہوں نے يہ بات تين بار دھرائى ـ.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے صحيح ثابت ہے كہ اس سے مراد گانا بجانا ہى ہے.

اور لھو الحديث كى تفسير گانے بجانے، اور عجمى لوگوں كى باتيں اور ان كے بادشاہ اور روم كے حكمران كى خبروں كى تفسير ميں كوئى تعارض نہيں، يا اس طرح كى اور باتيں جو مكہ ميں نضر بن حارث اہل مكہ كو سنايا كرتا تھا تا كہ وہ قرآن مجيد كى طرف دھيان نہ ديں، يہ دونوں ہى لھو الحديث ميں شامل ہوتى ہيں.

اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا تھا: لھو الحديث سے مراد باطل اور گانا بجانا ہے.

تو بعض صحابہ نے يہ بيان كيا ہے، اور بعض نے دوسرى بات بيان كي ہے، اور بعض صحابہ كرام نے دونوں كو جمع كر كے ذكر كيا ہے، اور گانا بجانا تو شديد قسم كى لہو ہے، اور بادشاہوں اور حكمرانوں كى باتوں سے زيادہ نقصان دہ ہے، كيونكہ يہ زنا كا زينہ اور پيش خيمہ ہے، اور اس سے نفاق و شرك پيدا ہوتا ہے، اور شيطان كى شراكت ہوتى ہے، اور عقل ميں خمار پيدا ہو جاتا ہے، اور گانا بجانا ايك ايسى چيز ہے جو قرآن مجيد سے روكنے اور منع كرنے والى باطل قسم كى باتوں ميں سب سے زيادہ شديد روكنے والى ہے، كيونكہ اس كى جانب نفس بہت زيادہ ميلان ركھتا ہے، اور اس كى رغبت كرتا ہے.

تو ان آيات كے ضمن ميں يہ بيان ہوا ہے كہ قرآن مجيد كے بدلے لہو لعب اور گانا بجانا اختيار كرنا تا كہ بغير علم كے اللہ كى راہ سے روكا جائے اور اسے ہنسى و مذاق بنايا جائے يہ قابل مذمت ہے، اور جب اس پر قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو وہ شخص منہ پھير كر چل دے، گويا كہ اس نے سنا ہى نہيں، اور اس كے كانوں ميں پردہ ہے، جو كہ بوجھ اور بہرہ پن ہے، اور اگر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ كو جان بھى لے تو اس سے استھزاء اورمذاق كرنے لگتا ہے، تو يہ سب كچھ ايسے شخص ہى صادر ہوتا ہے جو لوگوں ميں سب سے بڑا كافر ہو، اور اگر بعض گانے والوں اور انہيں سننے والوں ميں سے اس كا كچھ حصہ واقع ہو تو بھى ان كے ليے اس مذمت كا حصہ ہے "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 258 - 259 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور ان ميں سے جسے بھى تو اپنى آواز بہكا سكے بہكا لے، اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا، اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھى اپنا شريك بنا لے، اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے، اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھى وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں ﴾الاسراء ( 64 - 65 ).

مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان ميں سے جسے بھى گمراہ كرنے كى استطاعت ركھتے ہو اسے گمراہ كر لو، اور اس كى آواز گانا بجانا اور باطل كلام ہے.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ اضافت تخصيص ہے، جس طرح اس كى طرف گھڑ سوار اور پيادے كى اضافت كى گئى ہے، چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالى كى اطاعت كے بغير ہو، اور ہر وہ آواز جو بانسرى يا دف يا ڈھول وغيرہ كى ہو وہ شيطان كى آواز ہے.

اور اپنے قدم پر چل كر كسى معصيت كى طرف جائے تو يہ شيطان كے پيادہ اور ہر سوارى جو معصيت كى طرف لے جائے وہ اس كے گھڑ سوار ميں شامل ہوتا ہے، سلف رحمہ اللہ نے ايسا ہى كہا ہے، جيسا كہ ابن ابى حاتم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے: " اس كا پيادہ ہر وہ قدم ہے جو اللہ كى معصيت و نافرمانى كى طرف اٹھے " انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 252 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

﴿ تو كيا تم اس بات سے تعجب كرتے ہو ؟ اور ہنس رہے ہو ؟ اور روتے نہيں ؟ ( بلكہ ) تم كھيل رہے ہو ﴾النجم ( 59 - 61 ).

عكرمہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں: گانا بجانا حمير كى لغت ميں السمد ہے، كہا جاتا ہے: اسمدى لنا، يعنى ہميں گانا سناؤ.

اور وہ كہتے ہيں: جب وہ قرآن مجيد سنتے تو گانے لگتے تو يہ آيت نازل ہوئى.

اور ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى: " اور تم كھيل رہے ہو " سفيان ثورى اپنے باپ سے اور وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں: الغناء يہى يمنى ہے، اسمد لنا، يعنى ہميں گانا سناؤ، اور عكرمہ نے بھى ايسے ہى كہا ہے.

ديكھيں: تفسير ابن كثير.

اور ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نہ تو گانے والى لونڈياں فروخت كرو، اور نہ ہى خريدو، اور نہ ہى انہيں اس كى تعليم دو، اور نہ ہى ان كى تجارت ميں كوئى خير ہے، اور ان كى قيمت حرام ہے، اس جيسے ميں ہى يہ آيت نازل ہوئى ہے: اور لوگوں ميں وہ بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ اللہ كى راہ سے روك سكيں " يہ حديث حسن ہے.

ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر لينگے، اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگى تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے، اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہينگے كل آنا، تو اللہ تعالى انہيں رات كو ہى ہلاك كر ديگا، اور پہاڑ ان پر گرا دے گا، اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا "

امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ( 5590 ) ميں معلقا روايت كيا ہے، اور امام بيہقى نے سنن الكبرى ميں اسے موصول روايت كيا ہے، اور طبرانى ميں معجم الكبير ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 91 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اس كا مطالعہ كريں.

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ حديث صحيح ہے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں اس سے حجت ليتے اسے بالجزم معلق روايت كيا ہے، اور باب كا عنوان باندھتے ہوئے كہا ہے:

" باب فيمن يستحل الخمر و يسميہ بغير اسمہ "

شراب كو حلال كرنے اور اسے كوئى نام دينے والے كے متعلق باب.

اور اس حديث ميں گانے بجانے اور ناچ كى حرمت كى دليل دو وجہ سے پائى جاتى ہے

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " وہ حلال كر لينگے "

يہ اس بات كى صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں، تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے، اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنى گانے بجانے كے آلات بھى شامل ہيں، جو كہ شرعا حرام ہيں جنہيں يہ لوگ حلال كر لينگے.

دوم:

ان گانے بجانے والى اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كى حرمت قطعى طور پر ثابت ہے، اور اگر يہ حرام نہ ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ان حرام اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر نہ كرتے "

ديكھيں: السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى ( 1 / 140 - 144 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ حديث معازف ( يعنى گانے بجانے كے آلات ) كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور اہل لغت كے ہاں معازت گانے بجانے كے آلات كو كہا جاتا ہے، اور يہ اسم ان سب آلات كو شامل ہے "

ديكھيں: المجموع ( 11 / 535 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس باب ميں سعد الساعدى، اور عمران بن حصين اور عبد اللہ بن عمرو، اور عبد اللہ بن عباس، اور ابو ہريرہ، اور ابو امامہ الباھلى، اور ام المومنين عائشہ، اور على بن ابى طالب، اور انس بن مالك، ار عبد الرحمن بن سابط، اور الغازى بن ربيعۃ رضى اللہ تعالى عنہم بھى ہيں ) پھر اپنى كتاب اغاثۃ اللھفان ميں اس حديث كو ذكر كيا ہے، اور كہا ہے كہ يہ حديث حرمت پر دلالت كرتى ہے.

اور نافع رحمہ اللہ بيان كرتےہيں كہ:

" ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بانسرى بجنے كى آواز سنى تو انہوں نے اپنے كانوں ميں انگلياں ركھ ليں اور راستے سے ہٹ كر مجھے كہنے لگے نافع كيا تم كچھ سن رہے ہو ؟

تو ميں نے عرض كيا: نہيں، تو انہوں نے اپنے كانوں سے انگلياں نكال ليں، اور كہنے لگے، ميں ايك بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو انہوں نے آواز سنى تو اسى طرح كيا "

صحيح سنن ابو داود.

كچھ لوگ سمجھتے ہيں كہ يہ حديث اس كى حرمت كى دليل نہيں كيونكہ اگر ايسا ہى ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو اپنے كان بند كرنے كا حكم ديتے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بھى اسى طرح نافع كو حكم ديتے!

تو اس كا جواب يہ ديا جاتا ہے كہ: وہ اسے غور سے كان لگا كر نہيں سن رہے تھے بلكہ اس كى آواز ان كے كان ميں پڑ گئى تھى، اور سامع اور مستمع ميں فرق پايا جاتا ہے، سامع صرف سننے والے كو كہتے ہيں،اور مستمع كان لگا كر سننے والے كو كہتے ہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" انسان جو چيز ارادہ اور قصد سے نہ سنے بالاتفاق آئمہ كرام كے اس پر كوئى چيز مرتب نہيں ہوتى نہ تو نہى اور نہ ہى مذمت، اسى ليے كان لگا كر سننے كے نتيجہ ميں مذمت اور مدح مرتب ہوتى ہے، نہ كہ سننے كے نيتجہ ميں، اس ليے قرآن مجيد كان لگا كر سننے والے كو اجروثواب ہو گا ليكن بغير ارادہ و قصد كے قرآن مجيد سننے والے كو كوئى ثواب نہيں، كيونكہ اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور اسى طرح گانے بجانے سے منع كيا گيا ہے، اگر وہ بغير كسى ارادہ و قصد كے سنتا ہے تو اسے ضرر نہيں ديگا "

ديكھيں: المجموع ( 10 / 78 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مستمع وہ ہے جو قصدا اور ارادتا سنتا ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ايسا نہيں پايا گيا، بلكہ ان سے سماع پايا گيا ہے، يعنى انہوں نے بغير كسى ارادہ قصد كے سنا اور اس كى آواز كان ميں پڑ گئى اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى ضرورت تھى كہ انہيں آواز بند ہونے كى خبر دى جائے، كيونكہ وہ راستے سے دوسرى طرف ہو گئے تھے، اور انہوں نے اپنے كان بند كر ليے تھے، تو وہ دوبارہ اس راستے پر آنے والے نہ تھے، اور نہ ہى آواز ختم ہونے سے قبل كانوں سے انگلياں نكالنے والے تھے، تو اس ليے ضرورت كى بنا پر مباح كر ديا گيا "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 10 / 173 ).

لگتا ہے كہ دونوں اماموں كى كلام ميں مذكور سماع مكروہ ہو، اور ضرورت كى بنا پر مباح كيا گيا ہو، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كے قول ميں آگے بيان كيا جائيگا، واللہ اعلم.

اس كے متعلق آئمہ اسلام كے اقوال:

قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانا بجانا باطل ميں سے ہے "

اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر وليمہ ميں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس كى دعوت قبول نہيں "

ديكھيں: الجامع للقيروانى صفحہ نمبر ( 262 - 263 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" آئمہ اربعہ كا مذہب ہے كہ گانے بجانے كے سب آلات حرام ہيں، صحيح بخارى وغيرہ ميں ثابت ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى ہے كہ ان كى امت ميں كچھ ايسے لوگ بھى آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا حلال كر لينگے "

اور اس حديث ميں يہ بيان كيا كہ ان كى شكليں مسخ كر كے انہيں بند اور خنزير بنا ديا جائيگا....

اور آئمہ كرام كے پيروكاروں ميں سے كسى نے بھى گانے بجانے كے آلات ميں نزاع و اختلاف ذكر نہيں كيا "

ديكھيں: المجموع ( 11 / 576 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ گانے بجانے كے آلات حرام ہيں "

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس ميں سب سے سخت ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مذہب ہے، اور اس كے متعلق ان كا قول سب سے سخت اور شديد ہے، اور ابو حنيفہ كے اصحاب نے آلات موسيقى مثلا بانسرى اور دف وغيرہ كى سماعت صراحتا حرام بيان كى ہے، حتى كہ شاخ سے بجانا بھى، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ يہ ايسى معصيت ہے جو فسق كو واجب كرتى اور گواہى كو رد كرنے كا باعث بنتى ہے، بلكہ اس سے بھى زيادہ سخت قول يہ كہتے ہيں:

سماع فسق ہے، اور اس سے لذت كا حصول كفر ہے، يہ احناف كے الفاظ ہيں، اور اس سلسلہ ميں انہوں نے ايك حديث بھى روايت كى ہے جو مرفوع نہيں، ان كا كہنا ہے: اس پر واجب ہے كہ وہ جب وہ وہاں يا اس كے قريب سے گزرے تو اسے سننے كى كوشش نہ كرے.

اور جس گھر سے گانے بجانے كى آواز آ رہى ہو ابو يوسف رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں:

وہاں بغير اجازت داخل ہو جاؤ، كيونكہ برائى سے روكنا فرض ہے، كيونكہ اگر اجازت كے بغير داخل ہونا جائز نہ ہو تو پھر لوگ فرض كام كرنا چھوڑ ديں گے "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 ).

امام مالك رحمہ اللہ سے كسى نے ڈھول اور بانسرى بجانے كے متعلق دريافت كيا گيا، يا اگر راستے يا كسى مجلس ميں اس كى آواز كان ميں پڑ جائے اور آپ كو اس سے لذت محسوس ہو تو كيا حكم ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

" اگر اسے اس سے لذت محسوس ہو تو وہ اس مجلس سے اٹھ جائے، ليكن اگر وہ كسى ضرورت كى بنا پر بيٹھا ہو، يا پھر وہاں سے اٹھنے كى استطاعت نہ ركھے، اور اگر راہ چلتے ہوئے آواز پڑ جائے تو وہ وہاں سے واپس آ جائے يا آگے نكل جائے "

ديكھيں: الجامع للقيروانى ( 262 ).

اور ان كا قول ہے:

ہمارے نزديك تو ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 14 / 55 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس كمائى كے حرام ہونے پر سب كا اتفاق ہے، وہ سود، اور زانى عورتوں كى زنا سے كمائى، اور حرام، اور رشوت، اور نوحہ كرنے كى اجرت لينا، اور گانے كى اجرت لينا، اور نجومى كى كمائى، اور علم غيب كا دعوى اور آسمان كى خبريں دينا، اور بانسرى بجا كر اجرت لينا، اور باطل قسم كے كھيل كر كمانا يہ سب حرام ہيں "

ماخوذ از: الكافى.

اور ابن قيم رحمہ اللہ امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك جاننے والے صراحتا اس كى حرمت بيان كرتے ہيں، اور جس نے ان كى طرف اس كے حلال ہونے كا قول منسوب كيا ہے، انہوں نے اس قول كا انكار كيا ہے "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 425 ).

اور شافعيہ ميں سے كفايۃ الاخبار كے مؤلف نے گانے بجانے اور بانسرى وغيرہ كو منكر ميں شمار كيا ہے، اور اس مجلس ميں جانے والے پر اس برائى اور منكر سے روكنے كو واجب قرار ديا ہے، وہ اس سلسلہ ميں كہتے ہيں:

" اور فقھاء سوء كا وہاں حاضر ہونا اس برائى كو روكنا ساقط نہيں كرتان كيونكہ وہ شريعت كو خراب كر رہے ہيں، اور نہ ہى وہاں گندے اور پليد فقراء كے حاضر ہونے سے برائى كو روكنا ساقط ہوتا ہے ( اس سے اس كى مراد صوفياء ہيں، كيونكہ وہ اپنے آپ كو فقراء كہتے ہيں ) كيونكہ يہ جاہل اور ہر بھونكنے والے كے پيچھے بھاگنے والے ہيں، ان كے پاس علم كا نور نہيں جس سے وہ سيدھى راہ پر چليں، بلكہ وہ ہوا كے ہر جھونكے كے ساتھ مائل ہو جاتے ہيں "

ديكھيں: كفايۃ الاخيار ( 2 / 128 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں امام احمد كا مسلك يہ ہے كہ: ان كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں ميں نے اپنے باپ سے گانے بجانے كے متعلق دريافت كيا تو ان كا كہنا تھا: يہ دل ميں نفاق پيدا كرتا ہے، مجھے پسند نہيں، پھر انہوں نے امام مالك رحمہ اللہ كا قول ذكر كيا كہ: ہمارے نزديك ايسا كام فاسق قسم كے لوگ كرتے ہيں "

ماخوذ از: اغاثۃ اللھفان.

اور حنبلى مسلك كے محقق ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كى تين اقسام ہيں:

پہلى قسم: حرام.

وہ بانسرى اور سارنگى اور ڈھول اور گٹار وغيرہ بجانا ہے.

تو جو شخص مستقل طور پر اسے سنتا ہے اس كى گواہى قبول نہيں كى جائيگى، وہ گواہى ميں مردود ہے "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 10 / 173 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:

" اور اگر اسے كسى ايسے وليمہ كى دعوت ملے جس ميں برائى ہو مثلا شراب نوشى، گانا بجانا، تو اس كے ليے اگر وہاں جا كر اس برائى سے منع كرنا ممكن ہو تو وہ اس ميں شركت كرے اور اسے روكے، كيونكہ اس طرح وہ دو واجب كو اكٹھا كر سكتا ہے، اور اگر روكنا ممكن نہ ہو تو پھر وہ اس ميں شركت نہ كرے "

ديكھيں: الكافى ( 3 / 118 ).

طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سب علاقوں كے علماء كرام گانے بجانے كى كراہت اور اس سے روكنے پر متفق ہيں، صرف ان كى جماعت سے ابراہيم بن سعد،اور عبيد اللہ العنبرى نے عليحدگى اختيار كى ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:

" آپ كو سواد اعظم كے ساتھ رہنا چاہيے، اور جو كوئى بھى جماعت سے عليحدہ ہوا وہ جاہليت كى موت مرا "

ديكھيں: تفسير قرطبى ( 14 / 56 ).

پہلے ادوار ميں كراہت كا لفظ حرام كے معنى ميں استعمال ہوتا تھا ليكن پھر بعد ميں اس پر تنزيہ كا معنى كا غالب آگيا، اور يہ تحريم كا معنى اس قول ليا گيا ہے: اور اس سے روكا جائے، كيونكہ جو كام حرام نہيں اس سے روكا نہيں جاتا، اور اس ليے بھى كہ دونوں حديثوں ميں اس كا ذكر ہوا ہے، اور اس ميں بہت سختى سے منع كيا گيا ہے.

اور امام قرطبى رحمہ اللہ نے ہى اس اثر كو نقل كيا ہے، اور اس كے بعد وہى يہ كہتے ہيں:

" ہمارے اصحاب ميں سے ابو الفرج اور ابو قفال كہتے ہيں: گانا گانے اور رقص كرنے والے كى گواہى قبول نہيں ہو گى "

ميں كہتا ہوں: اور جب يہ چيز ثابت ہو گئى كہ يہ جائز نہيں تو پھر اس كى اجرت لينا بھى جائز نہيں"

شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" ابراہيم بن سعد اور عبيد اللہ عنبرى نے جو گانا مباح قرار ديا ہے وہ اس گانے كى طرح نہيں جو معروف ہے ..... تو يہ دونوں مذكور شخص كبھى بھى اس طرح كا گانا مباح نہيں كرتے جو انتہائى غلط اور گرا ہوئى كلام پر مشتمل ہے "

ماخوذ از: الاعلام.

ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كے آلات تيار كرنا جائز نہيں "

ديكھيں: المجموع ( 22 / 140 ).

اور دوسرى جگہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كے آلات مثلا ڈھول وغيرہ كا تلف اور ضائع كرنا اكثر فقھاء كے ہاں جائز ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى مشہور روايت يہى ہے "

ديكھيں: المجموع ( 28 / 113 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" چھٹى وجہ: ابن منذر رحمہ اللہ گانے بجانے اور نوحہ كرنے كى اجرت نہ لينے پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اہل علم ميں سے جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا گانے والى اور نوحہ كرنے والى كو روكنے پر اتفاق ہے، شعبى اور نخعى اور مالك نے اسے مكروہ كہا ہے، اور ابو ثور نعمان ـ ابو حنيفہ ـ اور يعقوب اور محمد ـ امام ابو حنيفہ كے دونوں شاگرد ـ رحمہم اللہ كہتے ہيں:

گانا گانے اور نوحہ كرنے كے ليے اجرت پر كوئى بھى چيز دينا جائز نہيں، اور ہمارا قول بھى يہى ہے "

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

گانا بجانا نفس كى شراب ہے، اور اسے خراب كر ديتا ہے، اور يہ نفس كے ساتھ وہ كچھ كرتا ہے جو شراب كا جام بھى نہيں كرتا "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 417 ).

اور ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے كہ:

" ايك شخص نے كسى شخص كا ڈھول توڑ ديا، تو وہ اپنا معاملہ قاضى شريح كے پاس لےگيا تو شريح نے اس پر كوئى ضمان قائم نہ كى ـ يعنى اس كو ڈھول كى قيمت كا نقصان بھرنے كا حكم نہيں ديا، كيونكہ وہ حرام ہے اور اس كى كوئى قيمت نہيں تھى "

ديكھيں: المصنف ( 5 / 395 ).

اور امام بغوى رحمہ اللہ نے گانے بجانے كے تمام آلات مثلا ڈھول، بانسرى باجا، اور سب آلات گانے بجانے كى خريد و فروخت حرام كا فتوى دينے كے بعد كہا ہے:

" تو جب تصويريں مٹا دى جائيں، اور گانے بجانے كے آلات كو اپنى حالت سے تبديل كر ديا جائے، تو اس كى اصل چيز اور سامان فروخت كرنا جائز ہے، چاہے وہ چاندى ہو يا لوہا، يا لكڑى وغيرہ "

ديكھيں: شرح السنۃ ( 8 / 28 ).

استثناء حق:

اس ميں سے جس چيز كا استنثاء حق ہے وہ صرف دف ہے ـ اور دف بھى وہ جس ميں كوئى كڑا اور چھلا وغيرہ نہ لگا ہو ـ اور پھر يہ دف شادى بياہ اور عيد كے موقع پر بجائى جائے، اور صرف عورتيں ہى استعمال كريں اس پر صحيح دلائل ملتے ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى وغيرہ كے موقع پر لہو كى ايك قسم كى رخصت دى ہے، كہ صرف عورتيں شادى بياہ كے موقع پر دف بجا سكتى ہيں، ليكن مرد حضرات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نہ تو دف بجاتے تھے، اور نہ ہى ہاتھ سے تالى، بلكہ صحيح بخارى ميں ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے، اور سبحان اللہ كہنا مردوں كے ليے "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مردوں كے ساتھ مشابہت كرنے والى عورتوں اور عورتوں سے مشابہت كرنے والے مردوں پر لعنت فرمائى ہے "

اور جب گانا اور دف بجانا عورتوں كا عمل تھا، تو سلف رحمہ اللہ مردوں ميں سے ايسا كام كرنے والوں كو مخنث اور ہيجڑا كے نام سے موسوم كرتے تھے، اور گانے والے مردوں كو ہيجڑے كا نام ديتے تھے، ـ آج كے ہمارے اس دور ميں يہ تو بہت زيادہ ہو چكے ہيں ـ اور سلف رحمہ اللہ كى كلام ميں يہ مشہور ہے، اس باب ميں سب سے مشہور حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ہے، جس ميں وہ بيان كرتى ہيں:

عيد كے ايام ميں ان كے والد ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے گھر آئے تو ان كے پاس انصار كى دو چھوٹى بچياں وہ اشعار گا رہى تھيں جو انصار نے يوم بعاث كے موقع پر كہے تھے ـ اور شائد كوئى عقل مند شخص اس كا ادراك كرے كہ لوگ جنگ ميں كيا كہا كرتے تھے ـ تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر ميں شيطان كى سر اور مزمار ميں سے ايك سر ؟

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ ان دونوں بچيوں سے پھير كر دوسرى طرف ديوار كى جانب كيا ہوا تھا ـ اس ليے بعض علماء كا كہنا ہے، ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے كسى شخص كو ڈانٹنے اور اس پر انكار كرنے والے نہيں تھے، ليكن انہوں نے يہ خيال اور گمان كيا كہ جو كچھ ہو رہا ہے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم نہيں ہے، اگر علم ہوتا تو ايسا نہ ہوتا، و اللہ اعلم ـ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كہنے لگے:

اے ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى اہل اسلام كى عيد يہ ہے "

تو اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام كى عادت ميں يہ چيز شامل نہ تھى، اسى ليے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے شيطان كى آواز اور مزمار قرار ديا ـ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس نام كو برقرار ركھا، اور اس سے انكار اور منع نہ كيا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ فرمايا تھا:

" انہيں رہنے دو اور كچھ نہ كہو، كيونكہ ہر قوم كى عيد ہوتى ہے، اور ہمارى عيد يہ ہے "

تو اس ميں اشارہ كيا كہ اس كے مباح ہونے كا سبب عيد كا وقت ہونا ہے، تو اس سے يہ سمجھ آتى ہے كہ عيد كے علاوہ باقى آيام ميں يہ حرام ہے، ليكن دوسرى احاديث ميں اس سے شادى بياہ كا موقع مستثنى كيا گيا ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " تحريم الآت الطرب " ميں اس كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے موقع پر بچيوں كو اس كى اجازت دى ہے، جيسا كہ حديث ميں ہے "

تا كہ مشركوں كو علم ہو جائے كہ ہمارے دين ميں وسعت ہے "

اور ان بچيوں كے قصہ والى حديث ميں يہ نہيں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كان لگا كر سنا تھا، كيونكہ نيكى كا دينا، اور برائى سے منع كرنے كا تعلق تو استماع يعنى كان لگا كر سننے سے ہے، نا كہ صرف سماع اور كان ميں پڑنے كے متعلق، جيسا كہ ديكھنے ميں ہے، كيونكہ اس كا تعلق بھى قصدا ديكھنے سے ہے، نہ كہ جو بغير كسى ارادہ و قصد كے ہو "

تو اس سے يہ ظاہر ہوا كہ يہ صرف عورتوں كے ليے ہے، حتى كہ امام ابو عبيد رحمہ اللہ نے تو دف كى تعريف كرتے ہوئے يہ كہا ہے:

" دف وہ ہے جو عورتيں بجائيں "

ديكھيں: غريب الحديث ( 3 / 64 ).

تو ان ميں سے بعض كو چاہيے كہ وہ شرعى پردہ ميں باہر نكليں .

باطل استثناء:

بعض افراد نے جنگ ميں ڈھول كو مستثنى كيا ہے، اور بعض معاصرين حضرات نے اس سے فوج بينڈ اور موسيقى اس سے ملحق كى ہے، حالانكہ بالكل اس كى كوئى وجہ نہيں ہے، اس كى كئى ايك وجوہات ہيں:

پہلى وجہ:

يہ حرمت والى احاديث كو بلا كسى مخصص كے خاص كرنا ہے، صرف ايك رائے اور استحسان ہے، اور يہ باطل ہے.

دوسرى:

جنگ كى حالت ميں مسلمانوں پر فرض تو يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنے دلوں و جان كے ساتھ اپنے پروردگار كے طرف متوجہ ہوں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

وہ آپ سے غنيمتوں كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ غنيمت اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ليے ہے، تو تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور آپس ميں اصلاح كرو "

اور موسيقى كا استعمال تو انہيں خراب كريگا، اور انہيں اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے دور كريگا.

تيسرى:

موسيقى كا استعمال كفار كى عادت ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے ان سے مشابہت اختيار كرنا جائز نہيں، اور خاص كر اس ميں جو اللہ تعالى نے حرام كيے ہيں، اور يہ حرمت عمومى ہے، مثلا موسيقى وغيرہ "

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 1 / 145 ).

حديث ميں وارد ہے:

" ہدايت پر ہونے كے بعد قوم كبھى گمراہ نہيں ہوئى، الا يہ كہ وہ جھگڑا كرنے لگے "

صحيح.

اور بعض افراد نے مسجد نبوى شريف ميں حبشيوں كے كھيل والى حديث سے گانے بجانے كى اباحت پر استدلال كيا ہے! امام بخارى رحمہ نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں يہ باب باندھا ہے: " عيد كے روز نيزہ بازى اور ڈھال استعمال كرنے كا باب "

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس ميں آلات حرب كے ساتھ مسجد ميں كھيلنے كا جواز پايا جاتا ہے، اور اس كے ساتھ ان اسباب كو بھى ملحق كيا جائيگا جو جھاد ميں ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں "

ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.

ليكن جيسا كہ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو شخص اپنے فن كے علاوہ كسى اور كے متعلق بات كريگا تو وہ اس طرح كے عجائبات ہى لائيگا "

اور بعض افراد نے ان بچيوں كے اشعار گانے والى حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس پر پہلے كلام كى جا چكى ہے، ليكن يہاں ہم ابن قيم رحمہ اللہ كى كلام ذكر كرتے ہيں، كيونكہ يہ كلام بہت اچھى اور قيمتى ہے:

" اور اس سے بھى زيادہ تعجب والى چيز تو آپ لوگوں كا ايك كم عورت كے ہاں دو چھوٹى اور نابالغ بچيوں كے عيد و خوشى والے دن عرب كے ان اشعار كے پڑھنے سے جن ميں شجاعت و بہادرى، اور مكارم اخلاق كا بيان ہے، اس مركب گانے بجانے پر استدلال ہے جس كى اجتماعى شكل و ہئيت ہم بيان كر چكے ہيں، كہاں يہ گانے اور كہاں وہ اشعار، عجيب تو يہ ہے كہ يہ حديث تو ان كے خلاف دلائل ميں سب سے بڑى حجت ہے.

اس ليے كہ صديق اكبر رضى اللہ تعالى عنہ نے تو ان اشعار كو بھى مزمار شيطان قرار ديا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے اس نام كو برقرار ركھا، اور ان دو غير مكلف بچيوں كو اس كى رخصت دى، نہ تو ان كے اشعار پڑھنے ميں اور نہ ہى انہيں سننے ميں كوئى خرابى ہے.

تو كيا يہ حديث اس كى اباحت اور جواز پر دلالت كرتى ہے جو آپ لوگ سماع كى محفل ميں اور گانے بجانے كا كام كرتے ہو جو ايسى اشياء پر مشتمل ہے جو مخفى نہيں ؟!

سبحان اللہ عقليں اور سمجھ كيسے گمراہ ہو چكے ہيں "

ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 493 ).

اور ابن جوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بھى اس وقت چھوٹى عمر كى تھيں، اور بلوغت كے بعد ان سے بھى گانے بجانے كى مذمت ہى ثابت ہے، ان كے بھانجے قاسم بن محمد گانے بجانے كى مذمت كيا كرتے تھے، اور اسے سننے سے منع كيا كرتے تھے، اور انہوں نے علم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حاصل كيا تھا "

ديكھيں: تلبيس ابليس ( 229 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صوفيوں نے اس باب والى حديث سے گانے بجانے كے آلات اور آلات كے بغير محفل سماع سننے اور منعقد كرنے پر استدلال كيا ہے، اس كے رد كے ليے اسى باب كى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث ہى كافى ہے جس ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى صريح موجود ہے كہ " وہ دونوں بچياں گانے بجانے والى نہ تھيں "

تو ان دونوں سے معنى كے اعتبار سے اس كى نفى ہو گئى جو الفاظ سے ثابت كيا گيا ہے... تو اصل ( يعنى حديث ) كے مخالف ہونے كى وجہ سے اسے نص ميں وارد وقت اور كيفيت اور قلت پر ہى مقتصر ركھا جائيگا، واللہ اعلم "

ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 442 - 443 ).

اور بعض نے تو اتنى جرات كى ہے كہ گانے بجانے كى سماعت كو صحابہ كرام كى طرف منسوب كر ديا ہے، اور يہ كہا ہے كہ وہ اس ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے تھے !!

شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" ہم مطالبہ كرتے ہيں كہ جو كچھ ان كى طرف منسوب كيا گيا ہے اس كى ان صحابہ كرام اورتابعين تك صحيح سند ثابت كي جائے "

پھر شيخ كہتے ہيں:

" امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم كے مقدمہ ميں عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے كہ: اسناد بيان كرنا دين ميں شامل ہے، اور اگر سند نہ ہوتى تو جو كوئى شخص جو چاہتا كہتا پھرتا "

اور بعض كا كہنا ہے كہ: گانے بجانے كو حرام كرنے والى جتنى بھى احاديث ہيں، ان سب پر جرح كى گئى ہے، اور ان ميں سے كوئى حديث بھى فقھاء حديث اور علماء كے ہاں طعن سے خالى نہيں!!

ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گانے بجانے كى حرمت ميں وارد شدہ احاديث ميں كوئى حديث بھى جرح شدہ نہيں، جيسا كہ آپ گمان كرتے ہيں، بلكہ ان ميں سے كچھ احاديث تو صحيح بخارى ميں ہيں، جو كہ كتاب اللہ كے بعد صحيح ترين كتاب ہے، اور كچھ احاديث حسن ہيں، اور كچھ ضعيف، اور يہ احاديث كثرت اور كئى ايك طرق اور كتب ميں ہونے كى بنا پر ظاہر حجت اور قطعى برھان ہيں كہ گانا بجانا حرام ہے "

( اور ابو حامد الغزالى كے علاوہ باقى سب آئمہ كرام گانے بجانے كى حرمت ميں آنے والى احاديث كے صحيح ہونے پر متفق ہيں، اور غزالى كو علم حديث كا پتہ ہى نہيں، اور ابن حزم، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس غزالى كى غلطى كو بڑى وضاحت كے ساتھ بيان كيا ہے، اور ابن حزم خود كہتے ہيں: اگر اس ميں سے كچھ صحيح ہوتا تو وہ اس كا كہتے، ليكن اس دور ميں كچھ ايسے بھى ہيں جنہيں اہل علم كى كتب كى كثرت كى ساتھ اس كى صحت كا ثبوت ملا ہے، اور ان سے ان احاديث كى صحت تواتر سے ملى ہے، ليكن اس كے باوجود انہوں نے اس سے اعراض كيا ہے، تو يہ ابن حزم سے بھى سخت ہيں، اور اس جيسے نہيں، تو يہ لوگ نہ تو اہليت كے قابل ہيں، اور نہ ہى ان كى طرف رجوع كيا جا سكتا ہے "

اور بعض كا كہنا ہے كہ: علماء كرام نے گانا بجانا حرام كيا ہے، كيونكہ يہ شراب نوشى اور رات كو حرام كام كے ليے جاگنے كے ساتھ ہوتا ہے !

امام شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كا جواب يہ ديا جائيگا كہ اس كے ساتھ ملا ہوا ہونا اس پر دلالت نہيں كرتا كہ صرف جمع ہونا حرام ہے، وگرنہ يہ لازم آئيگا كہ احاديث ميں جس زنا كے حرام ہونے كى صراحت ہے وہ بھى صرف اس وقت حرام ہو گا جب شراب نوشى كى جائے، اور گانے بجانا استعمال ہو، تو اجماع سے لازم باطل ہے، تو اسى طرح ملزوم بھى باطل ہوگا، اور پھر يہى نہيں بلكہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان ميں بھى اسى طرح لازم آئيگا:

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ بلا شبہ يہ اللہ عظيم الشان پر ايمان نہ ركھتا تھا، اور مسكين كو كھلانے كى رغبت نہ دلاتا تھا ﴾الحاقۃ ( 33 - 34 ).

تو پھر يہ لازم آئيگا كہ اللہ تعالى پر عدم ايمان حرام تو اس وقت ہو گا جب مسكينوں كو كھلانے كى رغبت نہ دلائى جائے، اور اگر يہ كہا جائے اس طرح كے مذكورہ الزام والے امور كى حرمت دوسرى دليل سے ثابت ہے تو اس كا جواب يہ ہے كہ: گانے بجانے كى حرمت بھى دوسرى دليل سے ثابت ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے "

ديكھيں: نيل الاوطار ( 8 / 107 ).

اور بعض لوگ يہ كہتے ہيں كہ: لھو الحديث سے مراد گانا بجانا نہيں، تو اس كا رد اوپر بيان ہو چكا ہے، قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ ـ يعنى اس سے مراد گانا بجانا ہے والا قول ـ اس آيت كى تفسير ميں جو كچھ كہا گيا ہے اس ميں سب سے اعلى يہى ہے، اور اس پر ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے تين بار حلف اور قسم اٹھائى ہے كہ اس ذات كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، كہ اس سے مراد گانا بجانا ہے "

پھر قرطبى نے اس ميں آئمہ كرام كے اقوال نقل كيے ہيں، اور اس كے علاوہ دوسرے اقوال بھى ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:

اس مسئلہ ميں جتنے بھى اقوال ہيں ان ميں سے سب اولى اور بہتر پہلا قول ہے، اس كى دليل مرفوع حديث اور صحابہ كرام اورتابعين عظام كے اقوال ہيں "

ماخوذ از: تفسير قرطبى.

اس تفسير كو ذكر كرنے كے بعد ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابو عبد اللہ الحاكم نے اپنى كتاب مستدرك حاكم ميں تفسير كے باب ميں كہا ہے كہ: طالب علم كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ صحابى كى تفسير شيخين كے ہاں مسند حديث ہے، كيونكہ صحابى نے قرآن مجيد كى وحى كا مشاہدہ كيا ہے "

اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:

" اور ہمارے نزديك يہ مرفوع كے حكم ميں ہے "

اگرچہ اس ميں كچھ اختلاف ہے، ليكن بعد والوں كى تفسير كى بجائے صحابى كى تفسير كو قبول كرنے كے اعتبار سے يہ اولى ہے، كيونكہ صحابہ كرام امت ميں سے سب زيادہ اللہ تعالى كى كتاب كى مراد كو سمجھنے والے تھے، كيونكہ ان كے دور ميں صحابہ كرام پر قرآن مجيد نازل ہوا اور امت ميں سے سب سے پہلے انہيں كو مخاطب كيا گيا، اور انہوں نے اس كى علمى اور عملى تفسير كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مشاہدہ بھى كيا اور حقيقتا وہ فصيح عرب تھے، اس ليے ان كى تفسير ملنے كى صورت ميں اسے چھوڑ كر كسى اور طرف جانا صحيح نہيں "

ماخوذ از: اغاثۃ

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...