جمعہ، 1 جولائی، 2016

"لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ میں سے آئندہ سال کے امور لکھ لیے جاتے

سوال: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ: "اللہ تعالی اس رات میں رزق اور لوگوں کے دیگر معاملات لکھ دیتا ہے اور پھر ان صحیفوں کو فرشتے لے جاتے ہیں اور ایک لیلۃ القدر سے دوسری لیلۃ القدر تک [اس میں معلومات ہوتی ہیں]، اللہ تعالی اس رات میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے کی سالانہ تفصیلات لکھ دیتا ہے" تو کیا جب فرشتے ان صحیفوں کو لے جاتے ہیں تو ان میں درج شدہ معلومات دیکھتے بھی ہیں؟ اور کیا فرشتوں کو پورے سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے؟ اور کیا یہ فرشتوں کیلیے عطائی علم غیب ہوتا ہے یا کچھ اور؟
الحمد للہ:
فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: بیشک ہم نے اس [قرآن ]کو بابرکت رات میں اتارا ہے، بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں، [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  3- 4] مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو لوح محفوظ میں سے آئندہ ایک سال کے معاملات لکھنے کا حکم دیتا ہے، یہ بات کچھ سلف صالحین سے بھی منقول ہے، اور مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (18527) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آیت: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) کا مطلب یہ ہے کہ: "لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ  میں سے آئندہ سال  کے امور لکھ لیے جاتے ہیں جس میں رزق، اموات، ولادت، بارش وغیرہ سمیت تمام امور ہوتے ہیں حتی کہ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس سال فلاں فلاں شخص حج کریگا"
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ حدیث نمبر: (3678) میں  روایت کر کے اسے صحیح بھی کہتے ہیں کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "تمہیں کوئی شخص بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر آئے گا حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھا جا چکا ہے، پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں: ( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) یعنی: لیلۃ القدر میں آئندہ لیلۃ القدر تک دنیاوی امور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے"
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آئندہ ایک سال تک کے معاملات محرر فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، اس میں واقع ہونے والی اموات اور دیے جانے والے رزق کی وغیرہ ہر چیز کی تفصیلات دے دی جاتی ہیں، اس آیت کا یہی مفہوم ابن عمر ، ابو مالک، مجاہد، ضحاک اور دیگر متعدد سلف صالحین سے منقول ہے، اس آیت میں " حَكِيمٍ " کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ معاملات محکم  ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی" انتہی
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: (7/246) اسی سے ملتی جلتی بات الطاہر ابن عاشور نے "التحرير والتنوير" (6/422) شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ  نے اپنے "فتاوی" (20/344) میں بھی لکھی ہے۔
دوم:
غیب کے معاملات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے، ان [دیگروں] کو تو اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کا ہی علم نہیں ہے![النمل:65]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ: تمام مخلوقات کو سکھانے کیلیے بتلا دیں کہ: اللہ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا؛ کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالی کی امتیازی صفت ہے، اس میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں " انتہی
"تفسیر ابن کثیر" (6 /207)
البتہ اتنا ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے جسے چاہے غیب کی کچھ چیزوں پر مطلع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا [26] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا )
ترجمہ: وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا  [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن:26-27]
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"غیبی چیزوں کے بارے میں علم رکھنا صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے، چنانچہ غیبی چیزوں کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، چاہے کوئی جن ہو یا انسان، البتہ اللہ تعالی جسے  چاہے کسی فرشتے یا نبی کو وحی کر کے بتلا سکتا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /346)
پورے سال میں رونما ہونے والے معاملات کا محرر فرشتوں کی جانب سے لکھنا  اس بات کا شاہد ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے معاملات سے متعلق مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے تفصیلات لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیلۃ القدر  کی وجہ تسمیہ یہ ہے  کہ فرشتے اس رات میں اموات اور رزق سمیت دیگر تمام ایسے امور جو آئندہ سال میں رونما ہونے ہیں ان سب کو لکھ لیتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں واضح ہے:
(فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  4]
اسی طرح :
{تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ}
ترجمہ: روح اور فرشتے اس رات اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر حکم لے کر نازل  ہوتے ہیں [القدر : 4] مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال میں جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ فرشتوں کیلیے عیاں کر دیا جاتا ہے اور پھر ہر فرشتے کی ذمہ داری کے مطابق اسے کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، نیز یہ سب معاملات اللہ تعالی کے علم اور تقدیر میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں" انتہی
"شرح مسلم" از نووی رحمہ اللہ:  (8/ 57)
سوم:
کچھ علمائے کرام نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب فرشتے آئندہ سال میں ہونے والے معاملات لکھ لیتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں حکم دیتا ہے کہ ہر فرشتے کو اس کے متعلقہ امور تحریری شکل میں سپرد کر دیے جائیں ، تاہم انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
جیسے کہ شیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: اللہ تعالی ہر سال لیلۃ القدر  میں فرشتوں کیلیے آئندہ لیلۃ القدر تک کے تمام معاملات واضح کر دیتا ہے نیز فرشتوں کو یہ تمام امور تحریری شکل میں دے دیے جاتے ہیں۔
اس تحریر میں اموات، رزق، ناداری و مالداری، خشک سالی  و بارشیں، صحت و بیماری، جنگیں اور زلزلے الغرض آئندہ سال میں کچھ بھی ہونے والا ہے سب کچھ واضح کر دیا جاتا ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر "الکشاف" میں کہتے ہیں:
" يُفْرَقُ" کا معنی ہے تفصیل سے لکھ دیا جاتا ہے، " كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ" سے مراد  یہ ہے کہ لوگوں کا رزق، اموات، اور آئندہ لیلۃ القدر تک جو بھی امور ہیں سب تحریر کر دیے جاتے ہیں۔
آگے چل کر انہوں نے لکھا کہ: رزق کے متعلق صحیفوں کا نسخہ میکائیل کو دے دیا جاتا ہے، جنگوں، زلزلوں، بجلی گرجنے اور دھنسائے جانے  سے متعلق نسخہ جبرائیل کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح اعمال کا نسخہ اسماعیل کو جو کہ آسمانِ دنیا  کا ذمہ دار ہے، وہ بہت بڑا فرشتہ ہے، مصیبتوں کا نسخہ ملک الموت کے سپرد کر دیا جاتا ہے"
ہمارا مقصد آیت کا مطلب واضح کرنا ہے مذکورہ فرشتوں کو تھمائے جانے والے نسخوں کی صحیح معلومات دینا مقصد نہیں ہے؛ کیونکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "أضواء البيان" (7/271).
جواب کا خلاصہ:
اللہ تعالی چند فرشتوں یعنی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے واقعات کے بارے میں مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
اس کے علاوہ مزید تفصیلات کہ کس فرشتے کو کون سا نسخہ تھمایا جاتا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم.



سوال: میری کاسمٹیک اور ہیئر ڈریسنگ کے لوازمات فروخت کرنے کی دکان ہے، تو کیا یہ پیشہ حلال ہے یا حرام؟

سوال: میری کاسمٹیک اور ہیئر ڈریسنگ کے لوازمات فروخت کرنے کی دکان ہے، تو کیا یہ پیشہ حلال ہے یا حرام؟
الحمد للہ:
اس پیشے کے بارے میں قدرے تفصیل ہے:
1- اگر آپ یہ اشیاء ایسے  کسمٹر کو فروخت کرتے ہیں جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ  اسے حرام بے پردگی میں استعمال   کریگا تو یہ جائز نہیں ہے۔
2- اگر آپ یہ اشیاء ایسے کسٹمر کو فروخت کریں جو  جائز بناؤ سنگھار کیالئے استعمال کریگا تو یہ جائز ہے۔
3- اور اگر آپ کو کسٹمر کے بارے میں علم نہیں ہے کہ کس چیز میں اسے استعمال کیا جائے گا، تو براءت اصلیہ کے اعتبار سے  ان اشیاء کی فروخت جائز ہوگی۔
دائمی فتوی کمیٹی کا کہنا ہے کہ:
"اگر دکاندار کو یہ علم ہو کہ  خریدار ان اشیاء کو  اللہ کی حرام کردہ  جگہوں میں استعمال کریگا تو ایسے کسٹمر کو مطلوبہ اشیاء مہیا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت ہے، اور اگر خریدار کے بارے میں علم ہے کہ ان اشیاء کو اپنے خاوند کیلئے بناؤ سنگھار میں استعمال کریگی ،  یا آپکو اس خاتون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے تو پھر ان چیزوں کی تجارت کرنا جائز ہے"
"فتاوى اللجنة الدائمة "(13/67)
واللہ اعلم.
whatsapp no. 8494090342


جمعرات، 9 جون، 2016

مسجد حرام میں ۲۰ رکعات تراویح ادا کیو ں کرتے ہیں

سوال :  گروپ اقرا دارالقرآن و الحدیث        :    مسجد حرام میں ۲۰ رکعات تراویح  ادا کیو ں کرتے ہیں ؟
جواب       ::: ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم
 .


بدھ، 8 جون، 2016

گاڑی میں نیچے کی طرف بنے ٹیپ  ریکارڈ سے تلاوت قرآن سننا؟   
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین "  المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
نشر و اشاعت : عبد المومن سلفئ
مصدر: ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ۔ سماع القرآن إذا كانت سماعة السيارة محاذية للأقدام ؟
پیشکش:www.mominsalafi.blogspot.com

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ حفظہ اللہ بعض کاروں میں ٹیپ ریکارڈ نیچے قدموں کی طرف بنا ہوا ہوتا ہے اور کبھی تواس پر پیر یا جوتے تک لگتے ہيں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم قرآن کریم کی تلاوت چلاتے ہیں تو اس صورت میں یہ کتاب اللہ کی توہین نہیں ہوگی۔ کیا اس فعل کو آپ کے سابقہ فتویٰ پر قیاس کیا جاسکتاہے کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا اس شخص کے بارے میں کہ جو کتاب اللہ کے سامنے پاؤں دراز کرکے لیٹتا ہے؟ ہم آپ سے وضاحت چاہتے ہیں، اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے؟
جواب: اگر ٹیپ ریکارڈ/آڈیو پلئیر جیسا کہ آپ نے ذکر کیا قدموں کے نیچے ہے یا ان کے برابر ہے تو اسے اس حال میں اس پر قرآن کریم نہیں چلانا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کریم کو انسان کےقدم تلے سے یا قدم کے برابر میں سے سننا بلاشبہ قرآن کی اہانت میں سے ہے۔ اگر کسی کو ضروری سننا ہی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس ٹیپ ریکارڈ کو اوپر کردے یا اوپر رکھ دے۔


مضان کی مبارکباد دینے کا حکم؟

مضان کی مبارکباد دینے کا حکم؟   
مختلف علماء کرام
ترجمہ و ترتیب: طارق علی بروہی
نشر و اشاعت : عبد المومن سلفی
مصدر: مختلف مصادر
www.mominsalafi.blogspot.com
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’قَدْ جَاءَكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، يُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَيُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ‘‘([1])
(تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آن پہنچا ہے، جو کہ مبارک مہینہ ہے، اللہ تعالی نے اس کا روزہ تم پر فرض قرار دیا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اورشیطانوں کو جکڑ لیا جاتا ہے،اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے جو اس کی خیر سے محروم رہا تو واقعی وہ محروم ہی رہا)۔
امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ حدیث ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دینے کے بارے میں اصل ہے (یعنی بنیادی حیثیت رکھتی ہے)۔۔۔‘‘([2]
اور مسلمان آپس میں اس ماہ مبارک کی ایک دوسرے کو مبارکباد وبشارت دیتے چلے آئے ہیں، کیونکہ کسی خاص موقع وموسم کی مبارکباد دینا عادات کے باب سے تعلق رکھتا ہے اور اہل علم کے یہاں یہ شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ:
’’أن الأصل في العادات الإباحة فلا ينكر منها إلا ما نهى عنه الشارع‘‘
(بلاشبہ عادات کے بارے میں اصل اباحت یعنی جائز ہونا ہے، ان میں سے کسی پر نکیر نہیں کی جائے گی سوائے اس کے جس سےشارع نے منع فرمایا ہے)۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بدعت کے تعلق سے مشہور حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘
(جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے)
اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا، اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔
آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فلاں کام عبادت ہے یا عادت، مثلاً اگر کوئی اپنے دوست کو جو مرتے مرتے بچا ہو کہے کہ: ماشاء اللہ تمہیں مبارک ہو۔ تو اسے کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ تو بدعت ہے! دراصل یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ امور عادات میں سے ہے نہ کہ عبادات میں سے۔اور خود شریعت میں اس کی دلیل موجود ہے کہ ایک طویل حدیث میں ہے  جب سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ([3]) کی توبہ قبول ہوئی تھی  تو سب انہیں مبارکباد دے رہے تھے۔ لہذا بہت سی مبارکبادیں جو لوگوں کے درمیان رائج ہیں ان کے بارے میں کوئی بغیر دلیل کے یہ گمان نہ کرے کہ یہ بدعت ہیں ، کیونکہ یہ امور عادات میں سے ہے ناکہ عبادات میں سے۔  جیسا کہ کوئی شخص امتحان میں کامیاب ہوجائے تو اس کا ساتھی اسے کہتا ہے مبارک ہو۔ اس پر جو یہ کہے کہ یہ بدعت ہے تو اسے اس کا حق حاصل نہیں۔ اور اگر کسی پر کسی عمل کا حکم مشتبہ ہوجائے کہ آیا یہ عادت ہے یا عبادت تو اصل یہی ہے کہ وہ عادت ہے جب تک دلیل نہ ہو اسے عبادت ثابت کرنے کی([4]



Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...