منگل، 28 مارچ، 2017

کیا مقتدی سمع الله لمن حمده کہے گا


 کیا مقتدی سمع الله لمن حمده کہے گا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة يكبر حين يقوم، ‏‏‏‏‏‏ثم يكبر حين يركع، ‏‏‏‏‏‏ثم يقول:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده حين يرفع صلبه من الركعة، ‏‏‏‏‏‏ثم يقول وهو قائم ربنا لك الحمد 


 
”رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع جاتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے، پھر کھڑے کھڑے ربنا لك الحمد . کہتے۔“ [صحیح البخاری : 789]
اس حدیث کی روشنی میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی پیروی اسی میں ہے کہ نمازی خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، ہر صورت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سمع الله لمن حمده کہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : صلوا كما رايتموني اصلي ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔“ [صحیح البخاری : 931]
جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سمع الله لمن حمده کے الفاظ فرماتے تھے تو ہر نمازی کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ کی پیروی میں سمع الله لمن حمده کے الفاظ کہنے چاہیں۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اسی حدیث کو اسی مسئلے میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فيقتضى هذا مع ما قبله أن كل مصل يجمع بينهما، ولأنه ذكر يستحب للإمام فيستحب لغيره كالتسبيح فى الركوع وغيره، ولأن الصلاة مبنية على أن لا يفتر عن الذكر فى شيء منها فان لم يقل بالذكرين فى الرفع والاعتدال بقي أحد الحالين خاليا عن الذكر .
”یہ حدیث پہلی ذکر کردہ احادیث سے مل کر یہ تقاضاکرتی ہے کہ ہر نمازی سمع الله لمن حمده اور ربنا لك الحمد دونوں کو جمع کرے۔ نیز سمع الله لمن حمده ایک ذکر ہے جو امام کے لیے مستحب ہے لہذا یہ مقتدی کے لیے بھی مستحب ہو گا جیسا کہ رکوع وغیرہ میں تسبيح امام بھی پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ اس ليے بھی مقتدیسمع الله لمن حمده کہے گا کہ نماز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ذکر سے خالی نہ ہو۔ اگر نمازی سر اٹھاتے اور سیدھا کھڑا ہوتے وقت دونوں حالتوں میں دو ذکر نہ کرے گا تو اس کی ایک حالت ذکر سے خالی رہ جائے گی۔۔۔“ [المجموع شرح المہذب للنووی : 20/3]

معلوم ہوا کہ جس طرح امام کی نماز ہے، اسی طرح مقتدی کی نماز ہے سوائے ان چیزوں کے جن میں کوئی استثنيٰ ثابت ہو جائے۔ سمع الله لمن حمده کے متعلق کوئی استثنيٰ ثابت نہیں۔ بعض لوگ محض قیاسات سے کام چلاتے ہوئے مقتدی کو ان الفاظ کی ادائیگی سے روکتے ہیں۔ ان کی دلیل ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا قال:‏‏‏‏ الإمام سمع الله لمن حمده فقولوا:‏‏‏‏ اللهم ربنا لك الحمد . 
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو پھر تم اللهم ربنا لك الحمد کہو۔“ [صحیح البخاری : 796، صحیح مسلم : 4090]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه : اللَّهُمْ ربنا ولك الحمد
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے مقتدی اللَّهُمْ ربنا ولك الحمد کہیں۔“ [سن الدارقطنی : 338/1، ح : 1271، وسندہ حسن]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، قال من خلفه : اللهم ربنا لك الحمد.
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو مقتدی اللهم ربنا لك الحمد کہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 252/1، سندہ صحيح]
لیکن اس حدیث اور اس اثر میں مقتدی کو سمع الله لمن حمده کہنے سے روکا قطعاً نہیں گیا بلکہ اس میں تو مقتدی کو ربنا ولك الحمد کہنے کا وقت اور مقام بتایا گیا ہے کہ وہ امام کے سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد ربنا ولك الحمد کہے جیسے مقتدی کو آمین کہنے کا وقت اور مقام بتانے کے لئے فرمایا گیا کہ جب امامغير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو۔ [صحيح البخاري : 782]
بعینہ یہی صورت حال اس مسئلے کی بھی ہے۔ لہذا مذکورہ حدیث و اثر سے یہ مسئلہ کشید کرنا درست نہیں کہ اماماللّٰهم ربنا لك الحمد نہ کہے یا مقتدی سمع الله لمن حمده نہ کہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس استدلال کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما الجواب عن قوله : صلى الله عليه وسلم ”وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا : ربنا لك الحمد“ فقال أصحابنا : فمعناه قولوا : ربنا لك الحمد مع ما قد علمتموه من قول : سمع الله لمن حمده، وإنما خص هذا بالذكر ; لأنهم كانوا يسمعون جهر النبى صلى الله عليه وسلم بسمع الله لمن حمده، فإن السنة فيه الجهر، ولا يسمعون قوله : ربنا لك الحمد، لأنه يأتي به سرا كما سبق بيانه، وكانوا يعلمون قوله : صلى الله عليه وسلم ”صلوا كما رأيتموني أصلي“ مع قاعدة التأسي به صلى الله عليه وسلم مطلقا، وكانوا يوافقون فى سمع الله لمن حمده، فلم يحتج إلى الأمر به، ولا يعرفون ربنا لك الحمد، فأمروا به، والله أعلم .
”رہی اس فرمان نبوی کی بات کہ جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا لك الحمد کہو تو ہمارے اصحاب کے بقول اس کا معنی یہ ہے کہ سمع الله لمن حمده کہنے کے بارے میں تو تمہیں معلوم ہی ہے، ساتھ ہی ربنا لك الحمد بھی کہو۔ اس حدیث میں مقتدی کے لئے صرف ربنا لك الحمد کا ذکر اس لئے ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع الله لمن حمده تو سن ہی لیتے تھے کیونکہ اس بارے میں طریقہ بلند آواز کا ہے لیکن وہ ربنا لك الحمد نہیں سنتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سری طور پر پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی معلوم تھا کہ نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔ پھر وہ اس قانون سے بھی متعارف تھے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی اقتدا مطلق طور پر ضروری ہے۔ ان امور کی بنا پر صحابہ کرام آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمع الله لمن حمدهکہتے تھے، لہذا اس کا حکم دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ربنا لك الحمد کا انہیں علم نہیں تھا، اس لئے اس کا حکم دے دیا گیا۔ واللہ اعلم ! “ [المجموع شرح المهذب للنووي : 420/3]    { جاری}
شارح بخاری حافظ ابن حجر (۷۷۳۔ ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں :
استدل به على أن الإمام لا يقول ”ربنا لك الحمد“ وعلى أن المأموم لا يقول : سمع الله لمن حمده لكون ذلك لم يذكر فى هذه الرواية كما حكاه الطحاوي، وهو قول مالك وأبي حنيفة، وفيه نظر، لأنه ليس فيه ما يدل على النفي، بل فيه أن قول المأموم : ربنا لك الحمد يكون عقب قول الإمام : سمع الله لمن حمده، والواقع فى التصوير ذلك لأن الإمام يقول التسميع فى حال انتقاله والمأموم يقول التحميد فى حال اعتداله، فقوله يقع عقب قول الإمام كما فى الخبر، وهذا الموضع يقرب من مسألة التأمين كما تقدم من أنه لا يلزم من قوله إذا قال : ولا الضالين، فقولوا : آمين، أن الإمام لا يؤمن بعد قوله ولا الضالين . . . 
”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ امام ربنا لك الحمد نہیں کہے گا اور مقتدی سمع الله لمن حمده نہیں کہے گا کیونکہ اس روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ امام طحاوی نے یہ بات نقل کی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے (امام کے لئے ربنا لك الحمد کی اور مقتدی کے لئے سمع الله لمن حمده کی) نفی معلوم ہو بلکہ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مقتدی ربنا لك الحمد اس وقت کہے جب امام سمع الله لمن حمده کہہ چکا ہو۔ حقیقت میں ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ امام سمع الله لمن حمده رکوع سے اٹھتے وقت کہتا ہے اور مقتدی ربنا لك الحمد اس کے سیدھا کھڑا ہونے کے وقت کہتا ہے۔ چنانچہ اس کا ربنا لك الحمد کہنا امام کے سمع الله لمن حمدهکہنے کے بعد ہی واقع ہوتا ہے، یہی بات اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ آمین والے مسئلے کے قریب قریب ہے۔ یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، یہ لازم نہیں آتا کہ امام ولا الضالين کہنے کے بعد آمین نہیں کہہ سکتا۔۔۔“ [فتح الباري لابن حجر : 283/2]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی (32/1)
ہمارے موقف کی تائید اسی حدیث کے دوسرے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔
ایک روایت میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں :
إذا قال الإمام : سمع الله لمن حمده، فليقل من وراءه : سمع الله لمن حمده
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہیں۔“ [سنن الدارقطني : 338/1، ح : 127، وسندهٔ حسن]
اسی طرح عظیم تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (۳۳۔ ۱۱۰ ھ) فرماتے ہیں :
إذا قال : سمع الله لمن حمده، قال من خلفه : سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد.
”جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اس کے پیچھے والے لوگ یہ کہیں سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد . ۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 252/1، سنن الدارقطني : 344/1، و سندهٔ صحيح]
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وبه يقول الشافعي وإسحاق .
”امام شافعی (۱۵۰۔ ۲۰۴ ھ ) اور امام اسحاق بن راہویہ (۱۶۱۔ ۲۳۸ ھ) کا یہی مذہب ہے۔“ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 267]
اس کے برعکس امام عامرشعبی رحمہ اللہ (توفی بعد : ۱۰۰ ھ) فرماتے ہیں :
لا يقل القوم خلف الإمام : سمع الله لمن حمده، ولكن ليقولوا : اللّهم ربنا لك الحمد.
”لوگ امام کے پیچھے سمع الله لمن حمده نہ کہیں بلکہ وہ اللّهم ربنا لك الحمد ہی کہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 225/1، و سنده صحيح]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۶۴۔ ۲۴۱ ھ) کا بھی یہی مذہب ہے۔ [مسائل الإمام أحمد وإسحاق : 852]
ہماری ذکر کروہ تحقیق کے مطابق امام عامر شعبی اور امام احمد بن حنبل رحمها اللہ کا یہ اجتہاد مرجوح ہے۔ یہ دونوں ائمہ کرام اپنے اجتہاد پر ماجور اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور ہیں۔ ثقہ ائمہ دین کے مرجوح اجتہادات بارے میں مسلمانوں کا یہی نظریہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ حق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
الحاصل : احادیث کی روشنی میں صحیح اور راجح موقف یہی ہے کہ مقتدی بھی سمع الله لمن حمده کہیں گے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک جھوٹ!
ابو الحسن محمدی
علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم بن احمد شہرستانی (م : ۵۴۸ ھ) ایک رافضی کذاب ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام کے حالات لکھتے ہوئے اس کی بدعقیدگی کے پول بھی کھولتے ہیں۔
اس کا ایک جھوٹ علامہ شہرستانی نے یوں بیان کیا ہے کہ اس رافضی کذاب نے کہا:
إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها، وكان يصيح : أحرقوا دارها بمن فيها، وما كان فى الدار غير على وفاطمة والحسن والحسين عليهم السلام .
”( سیدنا ) عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے بیعت والے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پیٹ پر مارا اور ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔ عمر ( رضی اللہ عنہ ) پکار کر کہہ رہے تھے کہ اس (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے گھر کو گھر والوں سمیت جلا دو۔ گھر میں سوائے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے کوئی نہ تھا۔“ [الملل والنحل للشهرستاني : 57/1، الوافي بالوفيات للصفدي (م : ۷۶۴ ه ) ۳۴۷/۵]
رافضی شیعہ اس روایت کو بنیاد بنا کر خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر تبرا بازی کرتے ہیں، لیکن اس روایت کی نہ تو ابراہیم بن یسار تک کوئی سند مذکور ہے نہ ابراہیم سے آگے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک کوئی سند دنیا کی کسی کتاب میں موجود ہے۔ یہ روایت دنیا کا سفید جھوٹ اور شیطان لعین کی کارستانی ہے۔ اس طرح کی جھوٹی بےسند اور بےسروپا روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔
ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام گندے عقیدے کا حامل تھا اور یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ معتزلی مذہب رکھتا تھا اور اس کے نام پر فرقہ نظامیہ نےجنم لیا۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (۶۷۳۔ ۷۴۸ ھ) نے احمد بن محمد بن ابی دارم ابوبکر کوفی (م : ۳۵۱ ھ) کے ترجمہ میں ابوالحسن محمد بن احمد بن حماد بن سفیان کوفی حافظ (م : ۳۸۴ ھ) کے حوالے سے اس کے بارے میں لکھا ہے :
كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم فى آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه : إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.
”وہ ساری عمر درست نظریے اور عقیدے پر رہا، لیکن اس کی عمر کے آخری دور میں اس کے پاس عام طور پر صحابہ کرام کے خلاف ہرزہ سرائیاں ہی پڑھی جاتی تھیں۔ میں ایک دن اس کے پاس آیا تو ایک آدمی اس کے پاس یہ روایت پڑھ رہا تھا کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کیا حتی کہ ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 139/1، ت : 552، آحمد بن محمد بن السري]
یاد رہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس ابن ابی دارم کے بارے میں لکھا ہے :
الرافضي الكذاب . ”یہ رافضی اور سخت جھوٹا آدمی تھا۔“ [ميزان الاعتدال للذهبي : 139/1]
امام حاکم رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
رافضي، غير ثقة. ”یہ شخص رافضی اور غیر معتبر تھا۔“ [ايضاً]
وہ شخص شیطان ہی ہو سکتا ہے جو اس جھوٹے رافضی کے پاس جھوٹ پڑھ رہا تھا۔ دنیا میں اس کی کوئی سند موجود نہیں، نہ رافضیوں کی کتب میں نہ اہل سنت کی کتب میں۔ رافضی شیعوں کو چاہیے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹ کی سند پیش کریں، ورنہ توبہ کر لیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اس کا عذاب بہت دردناک ہے۔


: ابو سعید سلفی

ہفتہ، 11 فروری، 2017

فضائل ازکار

ام المومنین جویریہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز کے وقت یا اس کے بعد ان (جویریہؓ) کے پاس سے گزرے اور وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں، پھر آپﷺ چاشت کے بعد آئے اور وہ (اسی جگہ) بیٹھی ہوئی تھیں تو آپﷺ نے فرمایا: کیا  تم ابھی تک اسی طرح (بیٹھی ہوئی) ہو جس طرح میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ انہوں (جویریہؓ) نے کہا:  جی ہاں!نبی کریم ﷺ نے فرمایا : البتہ تمہارے بعد میں نے چار کلمات تین بار کہے ہیں ، اگر اِن (کلمات ) کا موازنہ ان سے کیا جائے جو تم نے اب تک کہا ہے تو (یہ) بھاری ہوں گے:((سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَ رِضٰی نَفْسِہٖ وَ زِنَۃَ عَرْشِہٖ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ))ایک روایت میں ہے ((سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَ رِضٰی نَفْسِہٖ وَ زِنَۃَ عَرْشِہٖ،سُبْحَانَ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ) 
(صحیح مسلم : ۲۷۲۶)
فوائد:
          بہت سے ایسے اعمال ہیں کہ جن میں محنت و مشقت کم ہوتی ہے لیکن ان کا اجر و ثواب زیادہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے ۔ مذکورہ کلمات انہی اعمال میں سے ہیں۔
          دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ ذکرِ الہٰی کے لئے جگہ مخصوص کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ چل پھر کر بھی یہ عمل سر انجام دیا جاسکتا ہے ۔
      سیدنا ابوامامہ الباہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ اپنے دونوں ہونٹوں کو حرکت دے رہے تھے ۔ آپﷺ نے فرمایا: اے ابو امامہ! کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں (ابوامامہ) نے کہا: میں اپنے رب کا ذکر کر رہا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں (ایسے ذکر کے بارے میں) نہ بتاؤں جو دن رات کے ذکر سے افضل ہے ۔ یہ کہ تم کہو : ((سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ، وَ سُبْحَانَ اللہِ مِلْ ءَ مَا خَلَقَ، وَ سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللہِ مِلْ ءَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا اَحْصٰی کِتَابَہٗ، وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ کُلِّ شَيْءٍ، وَسُبْحَانَ اللہِ مِلْءَ کُلِّ شَيْءٍ)) اور اسی طرح تم کہو ((اَلْحَمْدُ للہِ)) ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ)) اور ((اَللہُ اَکْبَرُ)) 
(النسائی فی عمل الیوم واللیلہ: ۱۶۶)
فوائد:
          یہ روایت محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ یہ روایت عن سے ہے اور مدلس کی روایت صراحتِ سماع  کے بغیر ضعیف ہوتی ہے ۔
بازار میں تہلیل کی فضیلت
     سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بازار میں داخل ہو اور  یہ دعا پڑھے : ((لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ، یُحْیِيْ وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَيُّ لَّا یَمُوْتُ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ)) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے ، ایک لاکھ خطائیں معاف کردیتا ہے اور ایک لاکھ درجات بلند کردیتا ہے ۔ (سنن ترمذی: ۳۴۲۹، سنن ابن ماجہ : ۲۲۳۵)
فوائد:
          یہ روایت کئی طریق سے مروی ہے لیکن تمام طرق ضعیف ہیں۔ سنن ترمذی کی روایت میں ازہر بن سنان راوی ضعیف ہے اور سنن ابن ماجہ میں حماد بن عمرو ضعیف ہے ۔ اس کے علاوہ یہ روایت کتاب الدعاء للطبرانی (۷۹۳،۷۹۲) مستدرک حاکم (۵۳۹/۱ ح ۱۹۷۵) وغیرہ میں بھی ضعیف سندوں کے ساتھ موجود ہے ۔الغرض مذکورہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے ۔
کفارۂ مجلس کی دعا
     سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس میں بہت لغو باتیں کیں، وہ اپنی اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے (یہ دعا) پڑھے: ((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ، اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ)) تو جو (خطائیں ) اس مجلس میں ہوئی ہیں، وہ معاف کردی جاتی ہیں۔ (سنن ترمذی: ۳۴۳۳، صحیح)
فوائد:   
لغویات و فضولیات سے کلی طور پر اجتناب کرناچاہئے اور ایسی مجالس میں جانے سے احتراز بھی ضروری ہے لیکن کسی مجلس میں نادانستہ غلطی کا ارتکاب یا سبقتِ لسانی کی وجہ سے لغزش وغیرہ ہوجائے تو مذکورہ دعا پڑھنے سے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔
استغفار کی فضیلت
۱۰۴:     سیدنا شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو: ((اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّيْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، خَلَقْتَنِيْ وَ اَنَا عَبْدُکَ وَ اَنَا عَلیٰ عَھْدِکَ وَ وَ عْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُلَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَيَّ، وَ اَبُوْءُ بِذَنْبِيْ فَاغْفِرْلِيْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ)) اگر اس کو شام کے بعد پڑھے (اور ) اسی رات کو مرگیا تو جنت میں داخل ہوگا اور اگر بعد از صبح پڑھے (اور) اسی دن مرگیا تو جنت میں داخل ہوگا ۔ (بخاری : ۶۳۰۶، ۶۳۲۳)
فوائد:    مذکورہ کلمات بہت زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کو سید الاستغفار کہا جاتا ہے ۔

ہفتہ، 4 فروری، 2017

سینے پر ہاتھ باندھنا

تحریر:حافظ زبیر علی زئی


حدیث : ((عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیاجاتاتھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)
فوائد:


۱:        اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :
“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)


۲:        سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
          مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے ۔


۳:       یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے او رعورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے ، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیاجاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر ، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں ،یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہﷺ کی تعلیم سے نماز کی ہیئت ، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے ، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہوجائے تو برحق ہے ، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔


۴:       سیدنا انسؓ سے منسوب تحت السرۃ (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے کہا : منکر الحدیث (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)
(دیکھئے مختصر الخلافیات للبیہقی: ۳۴۲/۱، تالیف ابن فرح الاشبیلی و الخلافیات مخطوط ص ۳۷ ب و کتب اسماء الرجال)

۵: بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے “تحت السرۃ” والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں “تحت السرۃ” کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا (کذاب بقول البقاعی / الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
“پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے” (فیض الباری ۲۶۷/۲)


۶:        حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۲۵۱/۱)!!


۷:       تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب “المدونۃ” میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالکؒ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا :”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں” امام مالکؒ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس طرح و ہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے ۔ (دیکھئے المدونۃ ۷۶/۱) اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالکؒ کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعدؓ ہی کافی ہے ۔


۸:       جولوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی (۷۴/۲۰ ح ۱۳۹) کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر کذاب ہے ۔ (دیکھئے مجمع الزوائد ۱۰۲/۲) معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذااس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے ۔


۹:        سعید بن جبیر (تابعی) فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر (سینے پر ) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )


۱۰:       سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب “نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام”ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ!

جمعہ، 3 فروری، 2017

ہمارے بارے میں

/
https://sites.google.com/view/kashmir-india

عالَمِ برزخ کا ایک مناظرہ


تحریر: حافظ زبیر علی زئی
وعن ابن عمر، قال : قال رسول اللہ ﷺ :((کل شئ بقدرٍ حتی العجز و الکیس۔))رواہ مسلم          (سیدنا) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور دانائی بھی تقدیر سے ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۵۵/۱۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۵۱)
فقہ الحدیث:
۱: عقیدۂ تقدیر برحق ہے ۔
۲: ہر چیز اپنے وجود سے پہلے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے علم و مشیٔت میں ہے ۔
۳:ہر مخلوق کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔
۴:یہ صحیح حدیث موطأ الامام مالک (روایۃ یحییٰ ۸۹۹/۲ ح ۱۷۲۸، روایۃ عبدالرحمٰن بن القاسم بتحقیقی : ۱۸۷) میں بھی موجود ہے اور امام مالکؒ کی سند سے امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی ہے ۔
۵:موطا ٔ امام مالک اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ یہ اضافہ بھی ہے کہ طاؤس الیمانیؒ نے فرمایا:”میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے “
۶:عاجزی سے مراد دنیاوی عاجزی یا بقولِ بعض : نافرمانی ہے اور دانائی سے مراد دنیاوی دانائی یا اللہ و رسول کی اطاعت ہے ۔ واللہ اعلم
۷:       سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : “العجز و الکیس بقدر
عاجزی اور دانائی تقدیر سے ہے ۔ (کتاب القدر للامام جعفر بن محمد الفریابی : ۳۰۴ و سندہ صحیح)
۸:       امام احمد بن حنبلؒ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تقدیر کے منکر کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور نہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے۔ (دیکھئے کتاب السنۃ للخلال : ۹۴۸ وسندہ صحیح)
۸۱:      وعن أبي ھریرۃ، قال : قال رسول اللہ ﷺ:
((احتج آدم و موسیٰ عند ربھما ، فحج آدم موسیٰ؛ قال موسیٰ: أنت آدم الذي خلقک اللہ بیدہ، ونفخ فیک من روحہ، و أسجد لک ملائکتہ، وأسکنک في جنتہ، ثم أھبطت الناس بخطیئتک إلی الأرض؟ قال آدم أنت موسی الذي اصطفاک اللہ برسالتہ و بکلامہ، و أعطاک الألواح فیھا تبیانُ کل شئ، وقربک نجیاً، فبکم و جدت اللہ کتب التوراۃ قبل أن أخلق؟ قال موسیٰ: بأربعین عاماً. قال آدم: فھل و جدت فیھا “وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی”؟ قال: نعم، قال : أفتلو مُني علیٰ أن علمتُ عملاً کتبہ اللہ عليَّ أن أعملہ قبل أن یخلقني بأربعین سنۃ؟ قال رسول اللہ ﷺ فحجَّ آدمُ موسیٰ.)) رواہ مسلم
(سیدنا) ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے پاس (آسمانوں پر عالم ارواح میں) بحث و مباحثہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام)پر غالب ہوئے ۔ موسیٰ(علیہ السلام) نے (آدم علیہ السلام سے ) کہا : آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی (پیدا کردہ) روح پھونکی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی غلطی کی وجہ سے لوگوں کو (جنت سے ) زمین پر اتار دیا ؟
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا: تم وہ موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ چُنا اور تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور تمہیں سر گوشی کے لئے (اللہ نے) اپنے قریب کیا، پس تمہارے نزدیک میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے اللہ نے تورات لکھی؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا: چالیس سال پہلے۔
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تم نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ “اور آدم نے اپنے رب کے حکم کو ٹالا تو وہ پھسل گئے “؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا : جی ہاں ، (آدم علیہ السلام نے )کہا : کیا تم مجھے اس عمل پر ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے چالیس سال پہلے اللہ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پس آدم(علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام) پر غالب ہوئے۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۲/۱۵ ۶۷۴۴)

فقہ الحدیث:
۱:آدم(علیہ السلام) اور موسیٰ(علیہ السلام) کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہواتھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی ۱۹۵؁ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم او رموسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی ؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کردیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ (دیکھئے کتاب المعرفۃ و التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ۱۸۱/۲ ، ۱۸۲ و سندہ صحیح ، تاریخ بغداد ۲۴۳/۵ و سندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے ۔
۲:        اللہ تعالیٰ نے آدم(علیہ السلام) کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا (دیکھئے سورۃ صٓ : ۷۵) جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے ۔
          اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ باطل و مردود ہے ۔
امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب “الفقہ الاکبر” میں لکھا ہوا ہے کہ
          “فما ذکرہ اللہ تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ والید والنفس فھولہ صفات بلا کیف و لا یقال إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ لأن فیہ إبطال الصفۃوھو قول أھل القدر و الإعتزال ولکن یدہ صفتہ بلا کیف“اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیساکہ  قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرینِ تقدیراور معتزلہ کا مذہب ہے ، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے “ (الفقہ الاکبر مع شرح ملا علی قاری ص ۳۷،۳۶ ، البیان الازہر ، اردو ترجمہ صوفی عبدالحمید سواتی دیوبندی ص ۳۲)

مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے ۔
   تنبیہ:    یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی و غیر حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف مانتا ہے ۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص ۱۶ تا ۲۳)
سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:“غرضیکہ فقہ اکبر حضرت امام ابوحنیفہؒ ہی کی تصنیف ہے لَا رَیْبَ فِیْہِ” (مقدمۃ البیان الازہر ص ۲۳)
اس دیوبندی “لَارَیْبَ فِیْہِ” کتاب کا راوی ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے ۔ اس کے بارے میں امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: “لا ینبغي أن یروی عنہ…. ‎شئ” اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرنی چاہئے ۔ (کتاب العلل ۲۵۸/۲ ت ۱۸۶۴)
          اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معینؒ نے فرمایا:          “وأبو مطیع الخراساني لیس بشيءٍ” اور ابو مطیع الخراسانی کچھ چیز نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری : ۴۷۶۰)
ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلاً امام نسائی، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے ۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:فھذا وضعہ أبو مطیع علیٰ حماد” پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے  ۔ (میزان الاعتدال۴۲/۳)
          معلوم ہواکہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابو مطیع مذکورو ضاع (جھوٹا ، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا “الفقہ الأکبر” نامی رسالے کو “لَارَیْبَ فِیْہِ” کہنا انتہائی عجیب و غریب ہے ۔
۳:       تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ۔

۴:       جو لوگ کہتے ہیں کہ “ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی” ان کا قول باطل و مردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہل سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیداشدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے ۔

۵:       غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول:     جوغلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر ڈٹے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نہ نادم و پشیمان ہوتے ہیں اور نہ صلاح کی کوشش کرتے ہیں۔
اول الذکر کےلئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے شفاء العلیل لابن القیم (ص ۳۵، ۳۶) و شرح حدیث جبریل (عربی ص ۶۵۔۶۷، اردو ص ۱۰۴ تا ۱۰۷)
        دوم: جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین و کفار کا ہے ۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: ۱۴۸) اور سورۃ النحل (آیت : ۳۵)

۶:        صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے ۔ (ح ۳۴۰۹، ۴۷۳۶، ۷۵۱۵)

۷:       بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح برحق تسلیم کرتا ہے ، بالکل صحیح ہے ۔ 

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...