تحریر: حافظ زبیر علی زئی
وعن ابن عمر، قال : قال رسول اللہ ﷺ :((کل شئ بقدرٍ حتی العجز و الکیس۔))رواہ مسلم (سیدنا) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور دانائی بھی تقدیر سے ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۵۵/۱۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۵۱)
فقہ الحدیث:
۱: عقیدۂ تقدیر برحق ہے ۔
۲: ہر چیز اپنے وجود سے پہلے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے علم و مشیٔت میں ہے ۔
۳:ہر مخلوق کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔
۴:یہ صحیح حدیث موطأ الامام مالک (روایۃ یحییٰ ۸۹۹/۲ ح ۱۷۲۸، روایۃ عبدالرحمٰن بن القاسم بتحقیقی : ۱۸۷) میں بھی موجود ہے اور امام مالکؒ کی سند سے امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی ہے ۔
۵:موطا ٔ امام مالک اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ یہ اضافہ بھی ہے کہ طاؤس الیمانیؒ نے فرمایا:”میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے “
۶:عاجزی سے مراد دنیاوی عاجزی یا بقولِ بعض : نافرمانی ہے اور دانائی سے مراد دنیاوی دانائی یا اللہ و رسول کی اطاعت ہے ۔ واللہ اعلم
۷: سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : “العجز و الکیس بقدر“
عاجزی اور دانائی تقدیر سے ہے ۔ (کتاب القدر للامام جعفر بن محمد الفریابی : ۳۰۴ و سندہ صحیح)
۸: امام احمد بن حنبلؒ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تقدیر کے منکر کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور نہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے۔ (دیکھئے کتاب السنۃ للخلال : ۹۴۸ وسندہ صحیح)
۸۱: وعن أبي ھریرۃ، قال : قال رسول اللہ ﷺ:
((احتج آدم و موسیٰ عند ربھما ، فحج آدم موسیٰ؛ قال موسیٰ: أنت آدم الذي خلقک اللہ بیدہ، ونفخ فیک من روحہ، و أسجد لک ملائکتہ، وأسکنک في جنتہ، ثم أھبطت الناس بخطیئتک إلی الأرض؟ قال آدم أنت موسی الذي اصطفاک اللہ برسالتہ و بکلامہ، و أعطاک الألواح فیھا تبیانُ کل شئ، وقربک نجیاً، فبکم و جدت اللہ کتب التوراۃ قبل أن أخلق؟ قال موسیٰ: بأربعین عاماً. قال آدم: فھل و جدت فیھا “وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی”؟ قال: نعم، قال : أفتلو مُني علیٰ أن علمتُ عملاً کتبہ اللہ عليَّ أن أعملہ قبل أن یخلقني بأربعین سنۃ؟ قال رسول اللہ ﷺ فحجَّ آدمُ موسیٰ.)) رواہ مسلم
(سیدنا) ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے پاس (آسمانوں پر عالم ارواح میں) بحث و مباحثہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام)پر غالب ہوئے ۔ موسیٰ(علیہ السلام) نے (آدم علیہ السلام سے ) کہا : آپ وہ آدم ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی (پیدا کردہ) روح پھونکی اور آپ کو اپنے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی غلطی کی وجہ سے لوگوں کو (جنت سے ) زمین پر اتار دیا ؟
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا: تم وہ موسیٰ ہو جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ چُنا اور تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے اور تمہیں سر گوشی کے لئے (اللہ نے) اپنے قریب کیا، پس تمہارے نزدیک میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے اللہ نے تورات لکھی؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا: چالیس سال پہلے۔
آدم(علیہ السلام) نے فرمایا : کیا تم نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا ہے کہ “اور آدم نے اپنے رب کے حکم کو ٹالا تو وہ پھسل گئے “؟
موسیٰ(علیہ السلام) نے جواب دیا : جی ہاں ، (آدم علیہ السلام نے )کہا : کیا تم مجھے اس عمل پر ملامت کرتے ہو جو میری پیدائش سے چالیس سال پہلے اللہ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پس آدم(علیہ السلام) موسیٰ(علیہ السلام) پر غالب ہوئے۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۲/۱۵ ۶۷۴۴)
فقہ الحدیث:
۱:آدم(علیہ السلام) اور موسیٰ(علیہ السلام) کے درمیان یہ بحث و مباحثہ اور مناظرہ عالم برزخ میں آسمانوں پر ہواتھا۔ ایک دفعہ محدث ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر (متوفی ۱۹۵ھ) نے اس مناظرے والی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: آدم او رموسیٰ علیہما السلام کی ملاقات کہاں ہوئی تھی ؟ یہ سن کر عباسی خلیفہ ہارون الرشیدؒ سخت ناراض ہوئے اور اس شخص کو قید کردیا۔ وہ اس شخص کے کلام کو ملحدین اور زنادقہ کا کلام سمجھتے تھے۔ (دیکھئے کتاب المعرفۃ و التاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ۱۸۱/۲ ، ۱۸۲ و سندہ صحیح ، تاریخ بغداد ۲۴۳/۵ و سندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ حدیث کا مذاق اڑانا ملحدین اور زنادقہ کا کام ہے ۔
۲: اللہ تعالیٰ نے آدم(علیہ السلام) کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا (دیکھئے سورۃ صٓ : ۷۵) جیسا کہ اس کی شان و جلالت کے لائق ہے ۔
اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ یہاں ہاتھ سے مراد قدرت لینا سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ باطل و مردود ہے ۔
امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب، غیر ثابت کتاب “الفقہ الاکبر” میں لکھا ہوا ہے کہ
“فما ذکرہ اللہ تعالیٰ فی القرآن من ذکر الوجہ والید والنفس فھولہ صفات بلا کیف و لا یقال إن یدہ قدرتہ أو نعمتہ لأن فیہ إبطال الصفۃوھو قول أھل القدر و الإعتزال ولکن یدہ صفتہ بلا کیف“اور اس کے لئے ہاتھ منہ اور نفس ہے جیساکہ قرآن کریم میں آتا ہے لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ید سے قدرت اور نعمت مراد ہے کیونکہ ایسا کہنے سے اس کی صفت کا ابطال لازم آتا ہے اور یہ منکرینِ تقدیراور معتزلہ کا مذہب ہے ، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہاتھ اس کی مجہول الکیفیت صفت ہے “ (الفقہ الاکبر مع شرح ملا علی قاری ص ۳۷،۳۶ ، البیان الازہر ، اردو ترجمہ صوفی عبدالحمید سواتی دیوبندی ص ۳۲)
مجہول الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے ۔
تنبیہ: یہ حوالہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ حنفی و غیر حنفی علماء کا ایک گروہ اس کتاب کو امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف مانتا ہے ۔ دیکھئے مقدمۃ البیان الازہر از قلم محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی (ص ۱۶ تا ۲۳)
سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:“غرضیکہ فقہ اکبر حضرت امام ابوحنیفہؒ ہی کی تصنیف ہے لَا رَیْبَ فِیْہِ” (مقدمۃ البیان الازہر ص ۲۳)
اس دیوبندی “لَارَیْبَ فِیْہِ” کتاب کا راوی ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے ۔ اس کے بارے میں امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: “لا ینبغي أن یروی عنہ…. شئ” اس سے کوئی چیز بھی روایت نہیں کرنی چاہئے ۔ (کتاب العلل ۲۵۸/۲ ت ۱۸۶۴)
اسماء الرجال کے جلیل القدر امام یحییٰ بن معینؒ نے فرمایا: “وأبو مطیع الخراساني لیس بشيءٍ” اور ابو مطیع الخراسانی کچھ چیز نہیں ہے ۔ (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری : ۴۷۶۰)
ان کے علاوہ دوسرے محدثین مثلاً امام نسائی، ابوحاتم الرازی اور حافظ ابن حبان وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے ۔ متاخرین میں سے حافظ ذہبی ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:“فھذا وضعہ أبو مطیع علیٰ حماد” پس اس کو ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے ۔ (میزان الاعتدال۴۲/۳)
معلوم ہواکہ حافظ ذہبی کے نزدیک ابو مطیع مذکورو ضاع (جھوٹا ، حدیثیں گھڑنے والا) تھا۔ اس جرح کے باوجود بعض الناس کا “الفقہ الأکبر” نامی رسالے کو “لَارَیْبَ فِیْہِ” کہنا انتہائی عجیب و غریب ہے ۔
۳: تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے ۔
۴: جو لوگ کہتے ہیں کہ “ابھی تک جنت پیدا نہیں ہوئی” ان کا قول باطل و مردود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھا تھا۔ اہل سنت کے نزدیک جنت اور جہنم دونوں پیداشدہ ہیں اور دونوں ہمیشہ رہیں گی اور یہی عقیدہ حق ہے ۔
۵: غلطی اور گناہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں:
اول: جوغلطی اور گناہ کرنے کے بعد بھی اسی پر ڈٹے رہتے ہیں، توبہ نہیں کرتے اور نہ نادم و پشیمان ہوتے ہیں اور نہ صلاح کی کوشش کرتے ہیں۔اول الذکر کےلئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز ہے اور ثانی الذکر کے لئے تقدیر سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے شفاء العلیل لابن القیم (ص ۳۵، ۳۶) و شرح حدیث جبریل (عربی ص ۶۵۔۶۷، اردو ص ۱۰۴ تا ۱۰۷)
دوم: جو شخص گناہ اور کفر کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتا اور پھر تقدیر سے استدلال کرتا ہے تو یہ طریقہ مشرکین و کفار کا ہے ۔ دیکھئے سورۃ الانعام (آیت: ۱۴۸) اور سورۃ النحل (آیت : ۳۵)
۶: صحیح مسلم والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مختصراً موجود ہے ۔ (ح ۳۴۰۹، ۴۷۳۶، ۷۵۱۵)
۷: بحث و مباحثہ میں فریق مخالف کے خلاف وہ دلیل پیش کرنا جسے وہ صحیح برحق تسلیم کرتا ہے ، بالکل صحیح ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں