پیر، 23 مارچ، 2020

کرونا 19 کے بارے میں قرآن کے ساتھ گفتگو



👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇

پوچھا:اس منحوس کرونا 19 وائرس سے دنیا کب نجات حاصل کر سکے گی؟

📖 کہا:أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ
بس کچھ دنوں میں .(بقره ايه
184)


پوچھا : ڈاکٹر اور حکما صاحبان صرف نصیحتیں اور نسخے دیتے رہتے ہیں.

📖 کہا: وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ .

جاننے والے سے بہتر جانکاری کوئی نہیں دے سکتے ہیں. (فاطر آیه ١٤)

پوچھا : صحت عامہ محکموں کی نصیحتوں اور احکامات کا کیا کروں؟

📖 کہا:وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا

انکی سنو اور اطاعت کرو (تغابن آیه ١٦)

              🥀 🥀


پوچھا: اس منحوس کرونا سے بچنے کے لئے کیا کروں؟

📖 کہا: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ
اپنے گھروں میں محصور ہو کر آرام سے رہو. (احزاب آیه٣٣)

📖بُيُوتًا آمِنِينَ
(ایسے) گھر جو حفاظت کے اعتبار سے قابل اطمینان ہوں. (حجر آیه ٨٢)

پوچھا: یعنی اس بیماری سے بچنے کے لئے عمومی صحت و صفائی لازمی ہے لیکن اپنی سلامتی کے لئے کیا کروں؟

📖 کہا: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ

اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھو لو. (مائده آیه ٦)

پوچھا : ہمارے کپڑے بھی تو بیماری پھیلا سکتے ہیں ان کا کیا کروں؟

📖 کہا: وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
اور اپنے کپڑوں کو صاف و پاک کرو.(مدثر آیه٤)

پوچھا : کیا غیر ضروری کام کے لئے  گھر سے باہر نکل سکتا ہوں؟

📖 کہا:وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ.

اپنے آپ کو خود ہی ہلاکت میں نہیں ڈالو. (بقره آیه١٩٥)

پوچھا: اگر کسی میں تپ و لرزہ یا سانس لینے میں مشکل دیکھوں اس کو کیا سمجھوں؟

📖 کہا: وَهُوَ سَقِيمٌ
وہ بیمار ہے .(صافات١٤٥)

پوچھا: ایسے میں کیا کریں؟

📖 کہا: فَلَا تَقْرَبُوهَا
ان کے قریب مت ہونا. (بقره آیه١٨٧)

پوچھا : لیکن یہ وائرس بیمار سے ہم میں کیسے منتقل ہو جاتا ہے؟

📖 کہا: تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ
ان کے منہ سے نکلتا ہے. (کهف آیه٥)

پوچھا : کیا ان دنوں رشتہ داروں اور دوستوں کو ملنے کے لئے جا سکتے ہیں؟

📖 کہا: لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ.

نہیں اپنے گھر کے بغیر کہنی نہیں جاؤ. (نور آیه ٢٧)

پوچھا : کیا قرنطینه کے دنوں میں گھر والوں کے ساتھ خرید کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل سکتے ہیں؟

📖 کہا : فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ

ایسے میں کوئی ایک پیسے لے کے بازار چلا جائے اور (جس دکان پر) صحیح و سالم غذا ہو خرید کرکے لے آئے اسے کھائیں.(کهف آیه ١٩)

پوچھا: کچھ لوگ صحت و صفائی سے متعلق نصیحتوں اور احکامات کو رعایت کیوں نہیں کرتے ہیں؟

📖 کہا: ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے ہیں.(حشر آیه١٣)

پوچھا : ہم کیا کریں؟

📖 کہا: وَلَا تَمَسُّوهَا
انہیں مت چھو لیں.(اعراف ایه ٧٣)

📖 فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ
ان کے ساتھ مت بیٹھیں.(نساء١٤٠)

پوچھا: کیا قرنطینه میں رہنے اور صحت و صفائی کا خیال رکھنے سے ہماری ان دنوں کی مشکل آسان ہوجائے گی؟

📖کہا: فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ

اس میں لوگوں کی شفا ہے.(نحل آیه ٦٩)

              🥀 🥀


پوچھا : اس طرح گھروں میں اور قرنطینه میں محصور رہنے سے ہمارے لئے اقتصادی مشکلات پیدا ہونگے غربت اور تنگدستی پیش آئے گی .

📖 کہا:وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ.

اور اگر غربت اور تنگدستی سے ڈر رہے ہو الله اپنے فضل و کرم سے آپ کو بے نیاز کر دے گا. (توبه آیه٢٨)

پوچھا : کچھ ایسے حالات میں جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں جس سے لوگ پریشان اور ہمت ہار جاتے ہیں، یہ کون لوگ ہیں؟

📖 کہا: الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ

منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے شہروں میں پریشان کن جھوٹے افواہیں پھیلاتے ہیں. (احزاب آیه ٦٠)

پوچھا : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وائرس عالمی استکباری طاقتوں نے اپنے حریفوں کو راستے سے ہٹانے کے لئے بنایا ہے.

📖 کہا : وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ

اور اگر صبر و تقوی سے کام لیں ان کی سازشیں آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں، الله اس سب پر احاطہ رکھتا ہے جو کچھ وہ انجام دے رہے ہیں.(آل عمران آیه١٢٠)

پوچھا : آخر کار ہمیں اس تکلیف سے کون نجات دے گا؟

📖 کہا: اللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ

الله آپ کو اس تکلیف اور ہر پریشانی سے نکال دے گا. (انعام آیه ٦٤)

              🥀 🥀


پوچھا : گھروں اور قرنطینه میں محصور ہو کر رہنے والے افراد کے ساتھ کیسا سلوک کریں؟

📖 کہا: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آئیں. (نساء آیه١٩)

📖 وَلْيَتَلَطَّفْ
لطف و کرم کا مظاہرہ کریں.(کهف آیه ١٩)

پوچھا : ہمیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے؟

📖کہا:قُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
ان کے ساتھ شائستگی کے ساتھ بات کریں.(نساء آیه٥)

پوچھا : اگر گھر میں بیٹھے بیٹھے آپس میں تو تو میں میں ہوا تو ایسے میں کیا کریں؟

📖 کہا: وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ.

چاہئے کہ معاف اور درگذر کریں؛ کیا آپ نہیں چاہتے ہو کہ الله تمہیں معاف کرے؟(نور آیه ٢٢)

پوچھا : گھر میں بیٹھے بیٹھے وقت کیسے اچھی طرح گزاروں؟

📖 کہا: وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ.

بہت زیادہ اپنے پروردگار کو یاد کرو اور صبح و شام اسکی تسبیح بجا لاو.(آل عمران آیه٤١)

📖وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ

اور رات کو نماز شب اور عبادت و بندگی کرنے کے لئے بیدار رہنا. (اسراء آیه ٧٩)

📖اقْرَأْ كِتَابَكَ
کتاب پڑھنا.(اسراء آیه ١٤)

پوچھا؛ گھروالوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کیا کریں؟

📖کہا: فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ

جو کچھ قرآن میں تمہارے لئے پڑھنا آسان ہے وہ پڑھیں.(مزمل آیه ٢٠)

📖كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا

پاکیزہ اور حلال پکوان کھائیں اور صالح کاموں کو انجام دیں. (مؤمنون آیه ۵۱)


پوچھا؛ لگتا ہے کہ تمہاری سفارشات پر عمل کرنے سے گھر والوں کے ساتھ اچھی طرح سے دن گزریں گے؟

📖کہا: رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

تم پر اور تمہارے گھر والوں پر الله کی رحمت و برکات ہوں یقیناً وہ حمید و مجید ہے.  .(هود آیه ٧٣)

              🥀 🥀


پوچھا : ان دنوں مدافعان سلامت اور صحت عامہ محکموں پر انسانی جانیں بچانے کے لئے بڑی زمہ داریاں عائد ہیں.

📖 کہا:مَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا.

اور جس کسی نے بھی انسان کو بچایا گویا اس نے سبھی انسانوں کو بچایا ہے. (مائده آیه ٣٢)

پوچھا :ان کی جان توڑ کوشش کے بارے میں کیا کہتے ہو؟

📖 کہا: كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ان کی صالح عمل ان کے نامہ اعمال میں ثبت کئے جائیں گے، کیونکہ الله نیکی کرنے والوں کے انعام کو ضائع نہیں ہونے دیتا ہے .(توبه آیه١٢٠)

پوچھا : کچھ ڈاکٹروں اور پرستاروں نے کرونا سے بچانے کے لئے اپنی جان گنوا دی اور الله کو پیارے ہو گئے.

📖 کہا:أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ

وہ الله کی بارگاہ میں صدیقین و شہداء ہیں اور ان کے لئے ان کا انعام ہے.(حدید آیه ١٩)

              🥀 🥀


پوچھا : منحوس کرونا شیطان پر غالب آنے کے لئے صحت عامہ سے متعلق نکات رعایت کرنے اور گھروں میں محصور ہو کر رہنے کے علاوہ اور کوئی سفارش ہے؟

📖کہا :وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

اور بیم و امید کے ساتھ دعا کریں، یقیناً الله کی رحمت نیک افراد کے پاس ہے. (اعراف آیه٥٦)

پوچھا : کیا الله کی طرف سے ہماری مشکلیں آسان ہونے کے لئے ہماری دعائیں کارگر ہیں؟

📖کہا: مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں میرا پروردگار بھی تمہاری توجہ نہیں کرے گا. (فرقان آیه ٧٧)

پوچھا :اس وبا کے چلتے اضطراب اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے.

📖کہا: أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ

وہی( الله) تو ہے جسے جب مضطرب پکارے وہ اسکی دعا سنتا اور اسکی پریشانی کو دور کرتا ہے.(نمل آیه٦٢)

پوچھا : کیا حضرت انسان سے کوئی گلہ یا شکایت ہے؟

📖کہا: وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ

اور جب انسان کو کوئی تکلیف و نقصان پہنچے تو ہم سے ہر حال میں مدد طلب کرتے اور جب تکلیف و نقصان کا علاج کریں تو ایسے ناشکری اور گناہ کا رخ کرتے ہیں گویا تکلیف و نقصان کا علاج کرنے کے لئے ہم سے مدد طلب نہیں کی ہو! (یونس آیه ١٢)

پوچھا : کیا ہمیں ایسی دعا سکھائیں گے جس سے الله کی بارگاہ میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لئے معافی مانگیں اور اس مشکل سے نکلنے کے لئے مدد کی درخواست کریں؟

📖کہا: رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى

الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ أَنتَ مَوْلاَنَا

اے پالنے والے! اگر ہم بھول گئے یا غلطی کر گئے، ہمیں سزا نہیں دینا!
اے پالنے والے! ہم پر ذمہ داریوں کا سنگین بوجھ نہیں ڈالنا جس طرح (گناہ و طغیانی کرنے والوں پر) ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا!
اے پالنے والے! جسے تحمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں اسے ہمارے لئے مقرر نہیں کرنا! اور ہمارے گناہوں کے آثار کو دھو ڈالنا! ہمیں معاف کرنا اور اپنی رحمت میں جگہ دے! تو ہمارا مولا و سرپرست ہو، (بقره آیه ۲۸۶)


              🥀 🥀


پوچھا:الله کی بارگاہ میں دعاؤں اور منتوں کے علاوه اس منحوس وائرس سے بچنے کیلئے کس کا سہارا لیں؟

📖 کہا: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ

صبر اور نماز سے کام لیں. (بقره آیه ٤٥)

پوچھا: اس بحران سے دلوں کا سکون چھین گیا ہے بے چینی اور اضطراب سے بچنے کے لئے کیا کریں؟

📖گفت: الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

جنہوں نے ایمان لایا ہے اور الله کی یاد سے ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے، جان لیں! صرف الله کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے.(رعد آیه ٢٨)

پوچھا: کیا پھر اس وائرس کے پھیلنے سے پیدا شدہ صورتحال کے اضطرابی کیفیت سے بچنے اور سکون و اطمنان حاصل کرنے کے لئے بھی الله سے درخواست کرنی ہے؟

📖گفت: هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ

وہی تو ہے جو مؤمنین کے دلوں پر سکون اور اطمینان نازل کرتا ہے.(فتح آیه ٤)

پوچھا :کیا کرونا وائرس سے پیدا شدہ مشکلات اور سختیوں کا خاتمہ ہو گا؟

📖کہا: سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا

الله جلدی ہی سختیوں اور مشکلات کے بعد آسائش و آسانیاں عطا کرے گا.(طلاق آیه٧)
پوچھا :کیا پھر اس بیماری کے بعد مؤمنین کیلئے خوشی اور مسرتیں لوٹ آئیں گے؟

📖کہا: بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

الله کے فضل اور رحمت سے خوش و خرم ہونگے جو کہ ہر کمائی سے زیادہ فائدہ مند ہے.(یونس آیه ٥٨)

💥الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ
*Ommeee*

اتوار، 15 مارچ، 2020

بدعات کا پوسٹ ماٹم


بدعات کا پوسٹ ماٹم
تالف: عبدالمومن سلفی
نشرواشاعت :مقامی دارلھدی کنزر
IMG_20200126_205249.jpg
سرخی شامل کریں

ماہ شعبان اسلامی سن ہجری کا آٹھواں مہینہ ہے، اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(بخاری: 1969) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم لگاتار روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور آپ لگاتار روزے چھوڑتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے کبھی آپ کو سوائے رمضان کے پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں(نفلی) روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا. ایک حدیث میں اس کی حکمت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں" قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ. قَالَ : " ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ".(نسائی:2357) یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے کسی مہینہ میں نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اس میں اعمال اللہ رب العالمین کے دربار میں پیش کئے جاتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں پیش کئے جائیں. البتہ امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا چنانچہ ابوداؤد میں ایک روایت ہے " إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا " (أبو داود :2337) یعنی جب شعبان آدھا ہو جائے تو تم روزہ مت رکھو، البتہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہر سوموار یا جمعرات کا روزہ ہے تو اس کی اجازت ہے. واللہ اعلم بالصواب
اس تفصیل سے یہ بات تو طے ہے کہ روزے کے لئے پندرہ شعبان کو خاص کرنے کی کوئی خصوصیت اور دلیل نہیں ہے بلکہ شعبان کے مہینہ میں بلا کسی تاریخ کی قید اور اہتمام کے بغیر، پندرہ شعبان تک روزے رکھے جا سکتے ہیں یا صرف ایام بیض (13/14/15 تاریخ) کے روزے رکھے جائیں تو یہ بھی سنت سے ثابت ہے پندرہ شعبان کی الگ سے کوئی خصوصیت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے.
پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات ]
اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے:
(1)[پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا :]اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ "(إبن ماجہ :1390)حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے، اس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی، شیطان کی چالیں بھی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر پکارتا ہے حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ " حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعتی مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے اور جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ " (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ" دعا کہتے" السلام علیکم دار قوم مؤمنين.......، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات میں زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون
(4)چراغاں کرنا:
پندرہ شعبان کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور ہندوؤں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔ مشہور حنفی عالم بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة القاری 11/117) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔
(5)حلوہ پکانا:
اس موقع پر بعض لوگ حلوہ پکاکر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے نام کی نیاز لگاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے یہ نا تو آپ کی ولادت کا دن ہے اور ناہی آپ کی وفات کا بلکہ آپ کی شہادت شوال کے مہینہ میں واقع جنگ احد میں ہوئی ہے اور پھر شہداء یا کسی بھی ولی کی نیاز لگانا حرام ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس رات حلوہ پکانے کا بھی کوئی ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھیں کوئی بھی کام جس کو دین سمجھ کر کیا جا رہا ہے اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مردود ہے۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام کے آثار، تابعین
و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے تو شیطان سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو غیر اللہ کی نیاز میں لگا کر مشرکین کی صف میں کھڑا کردیا اور ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا بلکہ اللہ کے مومن بندوں سے کینہ و حسد میں مبتلا کردیا، إنا لله وإنا إليه راجعون.
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
(6) گھروں کی صفائی ستھرائی اور روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا:
اس رات میں گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی بعض لوگ کیا کرتے ہیں، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، لہذا ان کے استقبال میں ایسا کیا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛کیوں کہ کوئی بھی انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں نہیں آتا ہے مومن ہے تب بھی اور مشرک، کافر ہے تب بھی چنانچہ ترمذی حدیث نمبر 1071 میں اس کی وضاحت موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میت کو قبر میں داخل کردیا جاتا ہے تو دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے سوال جواب کرتے ہیں اگر بندہ مومن ہوتا ہے تو ان کے جوابات صحیح صحیح دیتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اور فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ تو سو جا اس دلہن کی طرح جس کے گھر کے افراد میں سب سے زیادہ محبوب اس کو جگاتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کو قیامت کے دن اٹھائے گا اور اگر بندہ منافق ہوتا ہے تو وہ ان کے سوالات کے جواب میں کہتا ہے ہائے! ہائے میں نہیں جانتا، اس کی قبر کو تنگ کردیا جاتا یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو اٹھائے گا. اس سے معلوم ہوا کہ بندہ مومن ہو یا کافر و مشرک یا منافق کسی بھی صورت میں وہ دنیا میں نہیں آتا، لگتا ہے یہ عقیدہ بھی ہندوؤں کے باطل عقیدے آوا گبن سے جاہل مسلمانوں میں در آیا ہے! غرض یہ کہ اس قبیل کی تمام رسمیں خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہی مضمر ہے.

آخری بات: تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات مخفی نا ہوگی کہ پندرہ شعبان کی بدعات بھی رجب اور محرم کی بدعات کی طرح روافض و شیعوں کی دین ہے، ان کے یہاں یہ رات بہت متبرک اور پاکیزہ تصور کی جاتی ہے کیونکہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی تاریخ ہے، چنانچہ ایک شیعہ مصنف لکھتا ہے "پندرہ شعبان إمام مہدی آخر الزماں علیہ السلام کا روز ولادت شیعوں کو ایسا قد آور آئینہ عطا کرتا ہے جب وہ اس میں دیکھتا ہے اسے اپنے مذہب کی تمام خصوصیات کا عکس اس میں واضح طور پر نمایاں نظر آتا ہے اسی لئے وہ اس بات کی بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس نور کو ہمیشہ زندہ رکھے اور اس خوشی کو ہمیشہ تازہ رکھے........ اس بنا پر ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کا روز ولادت (پندرہ شعبان) نہایت احترام و تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے کیونکہ یہ خوشی مذہب کی ابدیت کی دلیل ہے جہاں تمام امیدیں مستقبل میں عملی ہو جائیں گی یہی سبب ہے کہ شیعہ اپنے اور انسانی معاشرے کے گرد نور کا دائرہ دیکھ رہے ہیں اور اسی دائرہ میں مہدویت کا اعتقاد "تعمیری اور زندگی اور زندگی کو متحرک بنانے والا" أمام مہدی علیہ السلام کا اسم گرامی جد و جہد اور اس سمت لے جانے والی ہر تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والا اور "انتظار" تحریک کو آگے بڑھانے کا آلہ اور متحرک وسیلہ ہے یہ باتیں اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں دنیا کا عظیم ترین آخری انقلاب الہی قوانین الہی ہدایت اور الہی رہبر کے زیر سایہ رونما ہوگا " (نور کائنات : 8) یہ عبارت شیعہ حضرات کی اس تاریخ سے ان کی والہانہ محبت و عقیدت کو صاف بیان کر رہی ہے ممکن ہے رجب کے کونڈوں کی طرح اصل مقصد کو صیغہ راز میں رکھ کر پندرہ شعبان کی فضیلت کو من گھڑت اور بناوٹی احادیث کے ذریعے بڑا چڑھا کر بیان کیا ہو اور مسلم معاشرے میں اس کو پھیلا دیا ہو؟ بہرحال معاملہ جو بھی ہو ایک سچے مسلمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صرف اتنی ہی بات کرنی چاہیے جتنی اس کے نبی نے کی ہے جس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین

بدھ، 4 مارچ، 2020

کامیاب استاد

بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين
        *اساتذہ سے سرزد ہونے والی غلطیاں*
*ازقلم:عبیداللہ بن شفیق الرحمٰن اعظمی محمدی مہسلہ*
*.........................................................*
       درس وتدریس سے بہتر کوئی مشغلہ نہیں اور استاد سے بہتر کسی کا مرتبہ نہیں ہے، لیکن ضروری ہے کہ استاد مخلص ہو، باعمل ہو، بااخلاق اور باکردار ہو، معصوم تو نہیں لیکن غلطیوں اور گناہوں سے دور رہنے والا ہو، اس لیے کہ اگر استاد میں خامی اور غلطی ہوگی تو بچوں کی تربیت پر اس کا بڑا گہرا اثر پڑے گا، آئیے آج دیکھتے ہیں کہ بعض اساتذہ سے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوتی ہیں-
1) بغیر مطالعہ کے پڑھانا-
2) کلاس میں لیٹ جانا، اور وقت سے پہلے نکل آنا-
3) تعلیم اور تدریس چھوڑ کر کلاس میں موبائل استعمال کرنا، مطالعہ کرنا، اخبار چاٹنا، سونا، مضمون لکھنا وغیرہ-
4) طلبہ کے سوالات کا جواب نہ دینا، یا سوال کرنے پر ناراض ہونا-
5) انصاف نہ کرنا، کسی طالب کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا-
6) طلبہ کی حاضری نہ لینا-
7) امتحان کے سوالات بہت مشکل بنانا-
8) مارنے میں اعتدال نہ برتنا، جانوروں کی طرح پیٹنا-
9) اسباق صحیح سے نہ سننا-
10) طلبہ کو گالی دینا-
11) غريب، یتیم کمزور سمجھ کر ظلم ڈھانا، کسی کو حقیر سمجھنا-
12) نام بگاڑنا-
13) کلاس روم میں داخل ہوتے وقت سلام نہ کرنا الٹا بچوں کو بطور استقبال کھڑے کرانا-
14) امتحان کا پیپر بتا دینا-
15) کورس اور نصاب مکمل نہ کرنا-
16) طلبہ سے مشکل کام کرانا-
17) مدرسے کے اصول و ضوابط کی پابندی نہ کرنا-
18) مدرسے سے غائب رہنا، اپنا زیادہ وقت تقریر اور تبلیغ میں لگانا-
19) بچوں میں برائی دیکھنے کے باوجود خاموش رہنا-
20) جس فن میں مہارت نہ ہو پھر بھی زبردستی تدریس کے لیے اس کتاب کو طلب کرنا-
21) بچوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہ دینا اور باہر ٹیوشن خوب پڑھانا-
22) اچانک بیچ سال میں موٹی تنخواہ کے واسطے مستعفی ہوجانا-
23) نمازوں میں سستی کرنا-
24) طلبہ پر اپنا رعب جمانا، طلبہ کے سامنے ہمیشہ اپنی بڑائی بیان کرنا-
25) مدرسے کے خادموں اور عاملوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا-
26) اپنی گھنٹی ختم ہو جانے کے باوجود بھی کلاس سے نہ نکلنا اور دوسرے کا وقت چاٹ جانا-
27) امتحان ہال میں ہنگامہ کرنا، شور مچانا، چیخنا چلانا-
28) صفائی کا خیال نہ رکھنا، گندے خراب کپڑے پہن کر کلاس میں پڑھانے آنا-
29) بچوں سے محبت کرنے میں غلو کرنا-
30) ناجائز طریقے سے بچوں سے پیسے کھانا-
31) بچوں کے سامنے منشیات کا استعمال کرنا-
32) داڑھی چھیلنا کترنا یا کاٹنا-
       یہ چھوٹی بڑی کچھ غلطیاں ہیں جو عام طور پر مدارس کے اساتذہ سے سرزد ہوتی ہیں، اساتذہ کو چاہیے کہ ان غلطیوں سے اور تمام غلطیوں سے بچیں، اساتذہ مثالی بنیں، طلبہ کے لیے آئیڈیل اور نمونہ بنیں، خوش اخلاق بنیں، اس لیے کہ طلبہ اپنے اساتذہ کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اپنے اساتذہ کی نقالی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے گناہ سے بچائے اور ہم سب کو معاف فرمائے اور اساتذہ کی خدمات کو قبول فرمائے آمین-   
═════ ❁✿❁ ══════
21 /02/2020

جمعرات، 6 فروری، 2020

صبح شام کے اذکار

الحمد للہ:
"وضو کے بغیر صبح اور شام کے اذکار پڑھنا جائز ہے؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔)
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اور درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔" انتہی
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔۔۔ الشیخ عبد اللہ بن غدیان۔۔۔ الشیخ صالح الفوزان۔۔۔ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ۔۔۔ الشیخ بکر ابو زید۔
"فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" (24/233)

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...