اپنی زبان منتخب کریں

اتوار، 15 مارچ، 2020

بدعات کا پوسٹ ماٹم


بدعات کا پوسٹ ماٹم
تالف: عبدالمومن سلفی
نشرواشاعت :مقامی دارلھدی کنزر
IMG_20200126_205249.jpg
سرخی شامل کریں

ماہ شعبان اسلامی سن ہجری کا آٹھواں مہینہ ہے، اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ"(بخاری: 1969) یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم لگاتار روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور آپ لگاتار روزے چھوڑتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے کبھی آپ کو سوائے رمضان کے پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں(نفلی) روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا. ایک حدیث میں اس کی حکمت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں" قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ. قَالَ : " ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ ".(نسائی:2357) یعنی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے کسی مہینہ میں نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اس میں اعمال اللہ رب العالمین کے دربار میں پیش کئے جاتے ہیں پس میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں پیش کئے جائیں. البتہ امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا چنانچہ ابوداؤد میں ایک روایت ہے " إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا " (أبو داود :2337) یعنی جب شعبان آدھا ہو جائے تو تم روزہ مت رکھو، البتہ سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہر سوموار یا جمعرات کا روزہ ہے تو اس کی اجازت ہے. واللہ اعلم بالصواب
اس تفصیل سے یہ بات تو طے ہے کہ روزے کے لئے پندرہ شعبان کو خاص کرنے کی کوئی خصوصیت اور دلیل نہیں ہے بلکہ شعبان کے مہینہ میں بلا کسی تاریخ کی قید اور اہتمام کے بغیر، پندرہ شعبان تک روزے رکھے جا سکتے ہیں یا صرف ایام بیض (13/14/15 تاریخ) کے روزے رکھے جائیں تو یہ بھی سنت سے ثابت ہے پندرہ شعبان کی الگ سے کوئی خصوصیت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے.
پندرہ شعبان کی رات میں کی جانے والی بدعات ]
اس رات میں بہت ساری بدعات نکال لی گئی ہیں ان میں سے بعض کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جا رہا ہے:
(1)[پندرہ شعبان کو برات کی رات سمجھنا :]اس رات کے متعلق مسلمانوں میں بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر عام رجحان پایا جاتا ہے کہ یہ بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے اس لئے بڑے اہتمام کے ساتھ جوق در جوق شب بیداری کی جاتی ہے اور ہجوم کی شکل میں قبرستانوں کی زیارت کی جاتی ہے، بڑے زور و شور کے ساتھ گھروں اور قبرستانوں میں چراغاں کیا جاتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ سب کو معاف کر دیتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ "(إبن ماجہ :1390)حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نصف شعبان کی رات جلوہ افروز ہوتا ہے پس اپنی ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے، اس روایت میں زیادہ سے زیادہ اس رات اللہ کی عام بخشش کا ذکر ہے جو اس میں کی جانے والی کسی خاص عبادت سے مشروط نہیں ہے اور نا ہی اس بنیاد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح روایات کے مطابق کبھی بھی خصوصیت کے ساتھ رت جگا کیا اور نا ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی، شیطان کی چالیں بھی عجیب ہیں اس نے اس رات میں جس کی عبادت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں مصنوعی عبادتوں میں لگا کر مسلمانوں کو ان راتوں سے غافل کر دیا جن میں اللہ اپنے بندے کو آواز لگا لگا کر پکارتا ہے حدیث میں ہے "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ " حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہمارا رب آسمان دنیا پر ہر رات نزول فرماتا ہے جب آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی مجھے پکارنے والا میں اس کی پکار سنوں؟ ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ آج کا جاہل اور بدعتی مسلمان اسی رات کی عبادت کو اپنے لئے کافی سمجھتا ہے حتی کہ اس کو فرائض کی بھی پرواہ نہیں ہے اور جہاں تک قبرستان کی زیارت کی بات ہے تو اس رات میں خصوصی زیارت پر دلالت کرنے والی روایات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شعبان کی راتوں کی قید کے حسب موقع قبرستان کی زیارت کو جاتے تھے اور ہمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں زیارت قبور کرنا چاہیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقُولُ : " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ " (مسلم :974) یعنی جب کبھی نبی صلی کی باری ان کے یہاں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری پہر میں جنت البقیع چلے جاتے، پس وہاں آپ" دعا کہتے" السلام علیکم دار قوم مؤمنين.......، اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات میں زیارتِ قبور کی عام عادت تھی اس میں شعبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے یہاں بھی شیطان کی ہوشیاری ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اہل بدعت کو کس طرح ہر رات کی سنت نبی سے ثابت شدہ زیارت قبور اور نفع بخش دعا سے محروم کردیا اور صرف ایک رات کی بدعات و خرافات سے لبریز مزعومہ عبادت میں مست کر دیا جو سنت نبی کے خلاف ہونے کے باعث سراسر خسارے کا سبب ہے! فانا للہ و انا الیہ راجعون
(4)چراغاں کرنا:
پندرہ شعبان کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور ہندوؤں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔ مشہور حنفی عالم بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة القاری 11/117) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔
(5)حلوہ پکانا:
اس موقع پر بعض لوگ حلوہ پکاکر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے نام کی نیاز لگاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے یہ نا تو آپ کی ولادت کا دن ہے اور ناہی آپ کی وفات کا بلکہ آپ کی شہادت شوال کے مہینہ میں واقع جنگ احد میں ہوئی ہے اور پھر شہداء یا کسی بھی ولی کی نیاز لگانا حرام ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس رات حلوہ پکانے کا بھی کوئی ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھیں کوئی بھی کام جس کو دین سمجھ کر کیا جا رہا ہے اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مردود ہے۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام کے آثار، تابعین
و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں مشرک اور کینہ توز کے علاوہ اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے تو شیطان سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو غیر اللہ کی نیاز میں لگا کر مشرکین کی صف میں کھڑا کردیا اور ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا بلکہ اللہ کے مومن بندوں سے کینہ و حسد میں مبتلا کردیا، إنا لله وإنا إليه راجعون.
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
(6) گھروں کی صفائی ستھرائی اور روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا:
اس رات میں گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی بعض لوگ کیا کرتے ہیں، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، لہذا ان کے استقبال میں ایسا کیا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛کیوں کہ کوئی بھی انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں نہیں آتا ہے مومن ہے تب بھی اور مشرک، کافر ہے تب بھی چنانچہ ترمذی حدیث نمبر 1071 میں اس کی وضاحت موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میت کو قبر میں داخل کردیا جاتا ہے تو دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے سوال جواب کرتے ہیں اگر بندہ مومن ہوتا ہے تو ان کے جوابات صحیح صحیح دیتا ہے اور اس کی قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اور فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ تو سو جا اس دلہن کی طرح جس کے گھر کے افراد میں سب سے زیادہ محبوب اس کو جگاتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کو قیامت کے دن اٹھائے گا اور اگر بندہ منافق ہوتا ہے تو وہ ان کے سوالات کے جواب میں کہتا ہے ہائے! ہائے میں نہیں جانتا، اس کی قبر کو تنگ کردیا جاتا یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو اٹھائے گا. اس سے معلوم ہوا کہ بندہ مومن ہو یا کافر و مشرک یا منافق کسی بھی صورت میں وہ دنیا میں نہیں آتا، لگتا ہے یہ عقیدہ بھی ہندوؤں کے باطل عقیدے آوا گبن سے جاہل مسلمانوں میں در آیا ہے! غرض یہ کہ اس قبیل کی تمام رسمیں خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہی مضمر ہے.

آخری بات: تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات مخفی نا ہوگی کہ پندرہ شعبان کی بدعات بھی رجب اور محرم کی بدعات کی طرح روافض و شیعوں کی دین ہے، ان کے یہاں یہ رات بہت متبرک اور پاکیزہ تصور کی جاتی ہے کیونکہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی تاریخ ہے، چنانچہ ایک شیعہ مصنف لکھتا ہے "پندرہ شعبان إمام مہدی آخر الزماں علیہ السلام کا روز ولادت شیعوں کو ایسا قد آور آئینہ عطا کرتا ہے جب وہ اس میں دیکھتا ہے اسے اپنے مذہب کی تمام خصوصیات کا عکس اس میں واضح طور پر نمایاں نظر آتا ہے اسی لئے وہ اس بات کی بھرپور کوشش کرتا ہے کہ وہ اس نور کو ہمیشہ زندہ رکھے اور اس خوشی کو ہمیشہ تازہ رکھے........ اس بنا پر ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کا روز ولادت (پندرہ شعبان) نہایت احترام و تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے کیونکہ یہ خوشی مذہب کی ابدیت کی دلیل ہے جہاں تمام امیدیں مستقبل میں عملی ہو جائیں گی یہی سبب ہے کہ شیعہ اپنے اور انسانی معاشرے کے گرد نور کا دائرہ دیکھ رہے ہیں اور اسی دائرہ میں مہدویت کا اعتقاد "تعمیری اور زندگی اور زندگی کو متحرک بنانے والا" أمام مہدی علیہ السلام کا اسم گرامی جد و جہد اور اس سمت لے جانے والی ہر تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والا اور "انتظار" تحریک کو آگے بڑھانے کا آلہ اور متحرک وسیلہ ہے یہ باتیں اس وقت اور زیادہ اہم ہوجاتی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں دنیا کا عظیم ترین آخری انقلاب الہی قوانین الہی ہدایت اور الہی رہبر کے زیر سایہ رونما ہوگا " (نور کائنات : 8) یہ عبارت شیعہ حضرات کی اس تاریخ سے ان کی والہانہ محبت و عقیدت کو صاف بیان کر رہی ہے ممکن ہے رجب کے کونڈوں کی طرح اصل مقصد کو صیغہ راز میں رکھ کر پندرہ شعبان کی فضیلت کو من گھڑت اور بناوٹی احادیث کے ذریعے بڑا چڑھا کر بیان کیا ہو اور مسلم معاشرے میں اس کو پھیلا دیا ہو؟ بہرحال معاملہ جو بھی ہو ایک سچے مسلمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی إتباع میں صرف اتنی ہی بات کرنی چاہیے جتنی اس کے نبی نے کی ہے جس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں