سوال : کیا بیماری ایک شخص سے دوسرے
شخص میں منتقل ہوسکتی ہے؟؟
جواب:
الحمدللہ والصلوات والسلام علیٰ رسول اللہ۔ اما بعد:
موجودہ وقت (کرونا وائرس) وبائی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں،اور بار بار شرعی نقطہ نگاہ دریافت کر رہے ہیں کہ، کیا بیماری ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے یا نہیں؟؟
بعض جذباتی مولوی صاحبان یہی نظریہ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر مت اختیار کریں بیماری ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی، ساتھ میں ضد بھی کر رہے ہیں ہم مصافحہ بھی کریں گے چاہے مریض ہی ہو۔۔۔ وغیرہ۔
اور ساتھ میں لوگوں کا یہ ذہن بنا رہے ہیں جو شخص کہتا ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اس شخص کا اللہ پہ مکمل بھروسہ نہیں۔
قارئین کرام ! یاد رکھیں بیماری اللہ کے حکم کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اور یہ بات قطعا توکل کے منافی نہیں کیونکہ اس دنیا میں سب سے بڑی توکل کرنے والی ذات محمد رسول اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے، آپ نے خود ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے اور متعدی امراض والے مر یضوں سے دور رہنے کا حکم جاری فرمایا ہے۔ اس حوالے سے چند اھم دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل نمبر ایک:
قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جذامی ( کوڑھی )شخص سے ایسے بھاگ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
رواہ البخاری:5707۔
دلیل نمبر دو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»
ترجمہ:
عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کی ،کہا : ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیغام بھیجا :" ہم نےہم تمھاری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔"
صحیح مسلم حدیث نمبر: 5822۔
وضاحت::
اس حدیث سے پتہ چلا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کوڑھی شخص سے ہاتھ ملائے بغیر بیعت لی جو واضح دلیل ہے کہ کچھ بیماریاں اللہ کے حکم کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہیں لہذا احتیاط کرنا چاہیے اور جسے متعدی بیماری ہو اس سے دور رہنا چاہیے مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
دلیل نمبر تین:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے.
بخارى= 5771.
دليل نمبر چار:
قال النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا، وَلاَ يُنْكِرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 5728۔
وضاحت: اس حدیث سے پتہ چلا کہ جس علائقے میں وبائی بیماری پھیل چکی ہے وہاں سے نکلنے اور داخل ہونے کی ممانعت اسی وجہ سے ہے کہ، کہیں وہ بیماری اس مریض کی وجہ سے اللہ کے حکم کے ساتھ دوسرے علاقوں یا افراد میں منتقل نہ ہو جائے۔
اھم وضاحت::
کچھ احادیث کے اندر اس طرح کا مفہوم موجود ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتی۔ جیساکہ بخاری وغیرہ کے اندر روایت موجود ہے (لاعدوی).
تو دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یہی ہے کہ ایک مریض سے دوسرے مریض میں بیماری بذات خود منتقل نہیں ہوسکتی مگر اللہ کے حکم کے بعد، جن احادیث میں ہے ہیں کہ بیماری منتقل نہیں ہو سکتی ،ان روایات میں ان لوگوں کی اصلاح کرنا مقصد ہے جو بیماری کو ہی اصل مؤثر قرار دیتے۔
نوٹ::
جو لوگ بیماری منتقل ہونے والے نظریے کو توکل کے منافی قرار دے رہے ہیں وہی لوگ علاج کروانے کے قائل ہیں اور علاج کرواتے بھی ہیں حالانکہ انکے مزعومہ اصول کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی توکل کے منافی ہے کیونکہ شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے،وہ احباب اس اشکال کا جواب یہی دیں گے کہ شفا تو اللہ دیتا ہے لیکن دوائی اللہ کے حکم کے بعد ذریعہ اور سبب بنتی ہے !!
تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ بیماری دینے والا اللہ ہی ہے لیکن اللہ کے حکم کے بعد سبب اور ذریعہ دوسرے مریض بن سکتے ہیں۔
تمام مسلمان بھائیوں سے التماس :::
اولا===
اللہ رب العالمین کی طرف انابت اور رجوع کریں، نماز کو قائم کریں، استغفار کثرت سے کریں خصوصاً شرک بدعات اور نافرمانیوں سے توبہ کریں اور دعا کریں کہ اللہ اس وبا کا خاتمہ فرمائے۔
ثانیا==
کرونا کے حوالے سے حکومت اور ڈاکٹروں کی طرف سے پیش کردہ احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کریں۔
مثلاً: ماسک پہنیں ، باہر سے آنے کے بعد اپنے ہاتھ منہ کو اچھی طرح دھوئیں،بلکہ بہتر یہی ہے وضو کریں،عوامی ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں، اور کوشش کر کے گھر سے باہر مت نکلیں ،اگر کسی کو یہ بیماری لگ گئی ہے تو فوراً علاج کروائے۔
کتبہ/ عبدالرزاق دل رحمانی۔
جواب:
الحمدللہ والصلوات والسلام علیٰ رسول اللہ۔ اما بعد:
موجودہ وقت (کرونا وائرس) وبائی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے لوگ پریشانی کا شکار ہیں،اور بار بار شرعی نقطہ نگاہ دریافت کر رہے ہیں کہ، کیا بیماری ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے یا نہیں؟؟
بعض جذباتی مولوی صاحبان یہی نظریہ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر مت اختیار کریں بیماری ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی، ساتھ میں ضد بھی کر رہے ہیں ہم مصافحہ بھی کریں گے چاہے مریض ہی ہو۔۔۔ وغیرہ۔
اور ساتھ میں لوگوں کا یہ ذہن بنا رہے ہیں جو شخص کہتا ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اس شخص کا اللہ پہ مکمل بھروسہ نہیں۔
قارئین کرام ! یاد رکھیں بیماری اللہ کے حکم کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہے اور یہ بات قطعا توکل کے منافی نہیں کیونکہ اس دنیا میں سب سے بڑی توکل کرنے والی ذات محمد رسول اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے، آپ نے خود ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے اور متعدی امراض والے مر یضوں سے دور رہنے کا حکم جاری فرمایا ہے۔ اس حوالے سے چند اھم دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل نمبر ایک:
قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جذامی ( کوڑھی )شخص سے ایسے بھاگ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔
رواہ البخاری:5707۔
دلیل نمبر دو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»
ترجمہ:
عمرو بن شرید نے اپنے والد سے روایت کی ،کہا : ثقیف کے وفد میں کوڑھ کا ایک مریض بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیغام بھیجا :" ہم نےہم تمھاری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔"
صحیح مسلم حدیث نمبر: 5822۔
وضاحت::
اس حدیث سے پتہ چلا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کوڑھی شخص سے ہاتھ ملائے بغیر بیعت لی جو واضح دلیل ہے کہ کچھ بیماریاں اللہ کے حکم کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتی ہیں لہذا احتیاط کرنا چاہیے اور جسے متعدی بیماری ہو اس سے دور رہنا چاہیے مصافحہ وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
دلیل نمبر تین:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے.
بخارى= 5771.
دليل نمبر چار:
قال النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا» فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا، وَلاَ يُنْكِرُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 5728۔
وضاحت: اس حدیث سے پتہ چلا کہ جس علائقے میں وبائی بیماری پھیل چکی ہے وہاں سے نکلنے اور داخل ہونے کی ممانعت اسی وجہ سے ہے کہ، کہیں وہ بیماری اس مریض کی وجہ سے اللہ کے حکم کے ساتھ دوسرے علاقوں یا افراد میں منتقل نہ ہو جائے۔
اھم وضاحت::
کچھ احادیث کے اندر اس طرح کا مفہوم موجود ہے کہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتی۔ جیساکہ بخاری وغیرہ کے اندر روایت موجود ہے (لاعدوی).
تو دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یہی ہے کہ ایک مریض سے دوسرے مریض میں بیماری بذات خود منتقل نہیں ہوسکتی مگر اللہ کے حکم کے بعد، جن احادیث میں ہے ہیں کہ بیماری منتقل نہیں ہو سکتی ،ان روایات میں ان لوگوں کی اصلاح کرنا مقصد ہے جو بیماری کو ہی اصل مؤثر قرار دیتے۔
نوٹ::
جو لوگ بیماری منتقل ہونے والے نظریے کو توکل کے منافی قرار دے رہے ہیں وہی لوگ علاج کروانے کے قائل ہیں اور علاج کرواتے بھی ہیں حالانکہ انکے مزعومہ اصول کو دیکھا جائے تو یہ بات بھی توکل کے منافی ہے کیونکہ شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے،وہ احباب اس اشکال کا جواب یہی دیں گے کہ شفا تو اللہ دیتا ہے لیکن دوائی اللہ کے حکم کے بعد ذریعہ اور سبب بنتی ہے !!
تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ بیماری دینے والا اللہ ہی ہے لیکن اللہ کے حکم کے بعد سبب اور ذریعہ دوسرے مریض بن سکتے ہیں۔
تمام مسلمان بھائیوں سے التماس :::
اولا===
اللہ رب العالمین کی طرف انابت اور رجوع کریں، نماز کو قائم کریں، استغفار کثرت سے کریں خصوصاً شرک بدعات اور نافرمانیوں سے توبہ کریں اور دعا کریں کہ اللہ اس وبا کا خاتمہ فرمائے۔
ثانیا==
کرونا کے حوالے سے حکومت اور ڈاکٹروں کی طرف سے پیش کردہ احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کریں۔
مثلاً: ماسک پہنیں ، باہر سے آنے کے بعد اپنے ہاتھ منہ کو اچھی طرح دھوئیں،بلکہ بہتر یہی ہے وضو کریں،عوامی ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں، اور کوشش کر کے گھر سے باہر مت نکلیں ،اگر کسی کو یہ بیماری لگ گئی ہے تو فوراً علاج کروائے۔
کتبہ/ عبدالرزاق دل رحمانی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں