وبا میں اذان کی شرعی حیثیت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِذَا اَذَّنَ فِیْ قَرِیَةٍ اٰمَنَھَا اللہُ مِنْ عَذَابِهٖ فِیْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ"
جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ
[المعجم الکبیر مرویات انس بن مالك، جلد 1، صفحہ257، حدیث:746، مطبوعہ المکتبة الفیصلیه بیروت]
[فتاوی رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور]
وبا کے زمانہ میں اذان دینا ایک مستحب امر ہے کہ فقیہِ اجَلّ ، محققِ بےبدل ، صاحب العلم وبالفضل ، امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
”وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے“
[فتاویٰ رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاجور]
[بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ سوم، صفحہ 466، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی]
کیونکہ اس وبا کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے جسکی وجہ سے عوام بھی پریشان ہے۔ اور گھبراہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ان حالات میں بھی اذان سکونِ قلب اور خوف و ہراس دور کرنے کا سبب ہے۔
ابونعیم و ابن عساکر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
نَزَلَ آدَمُ بِالْھِندِ فَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فَنَادیٰ بِالْاَذَاَنِ
یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔
[حلیة الاولیاء مرویات عمرو بن قیس الملائی ، جلد 2، صفحہ 107، رقم:299 ، مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت]
مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرُ المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے:
قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ
یعنی: مولا علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔
[مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان]
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں اب جبکہ علماء و مشائخ کی جانب سے اپیل کی گئی ہے تو بتاۓ وقت کیمطابق اسپر عمل کیا جاۓ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاءاللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے۔ اور اللہ کریم ﷻ امان نصیب فرمائے گا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا و آفت سے محفوظ رکھے آمین۔وَبا کے زمانے میں بھی اذان دینا مُسْتَحَب ہے
(بہارِ شریعت جـ1، صـ466. فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جـ5، صـ370)
دنیا بھر کے مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے ملکوں، شہروں، گھر کی چھتوں پر بلند آواز سے اذان کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے کان میں اذان دی جائے۔
جن جگہوں پر کرونا کی شدت ہے وہاں مساجد کے ذریعے اذان دی جائے۔
اذان ذکر خدا و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم) کی بہت ہی پیاری اور پُر رحمت صورت ہے۔
جہاں کفار کے ممالک میں ذکر خدا و رسول بلند ہوگا وہیں اسکی برکات بھی ظاہر ہونگی۔
یہ سب حدیثیں بے بنیاد ہیں انکی طرف مت جانا.. اس کے رد کے بارے میں علماء کی یہ رای.. ہیں..
"کرونا کی وباء اور بعض تنبیہات" (چوتھی قسط)
✍️ تحریر: حافظ محمد طاہر بن محمد حفظه الله( تلمیز رشید شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظه الله)
"وباء کے ایام میں بے وقت آذانیں دینے کا حکم"
کرونا کی وباء سے بچنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک وقت مقرر کر کے گھروں اور مساجد میں آذانیں دینے کا رواج اپنایا ہے ، حالانکہ اس طرح وباء میں آذانیں دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سلف صالحین (صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ )سے بالکل ثابت نہیں ہیں ، لہذا یہ بدعت ہے، جس سے اجتناب کرنا لازم ہے، بعض الناس نے اپنی اس بدعت کو سہارا دینے کے لیے بعض سخت ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ ایسی تمام روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں ، ذیل میں ان روایات کی تفصیل کا ذکر ہے۔
پہلی روایت :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»
"جب کسی بستی میں آذان دے دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ۔"
(المعجم الکبیر للطبرانی : 1/ 257، المعجم الاوسط : 4/ 83، المعجم الصغیر : 1/ 301)
یہ روایت ثابت نہیں ۔
1۔ اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار القرظ "ضعیف" ہے۔
اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر : 5/ 287) اور امام یحیی بن معین (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 5/ 238) نے جرح کر رکھی ہے ، اسی طرح اسے حافظ ذھبی (دیوان الضعفاء : 2447) نے "منکر الحدیث" اور حافظ ابن حجر (تقریب التہذیب : 3873)نے" ضعیف" کہا ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فيه عبد الرحمن بن سعد بن عمار ضعفه ابن معين۔
اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار ہے، جسے یحیی بن معین نے ضعیف کہا ہے۔
(مجمع الزوائد : 1/ 328)
2۔ اسی طرح بکر بن محمد القرشی "مجہول "ہے.
حافظ ہیثمی اس کے متعلق فرماتے ہیں :
لم اعرفہ۔
"مجھے نہیں پتا یہ کون ہے۔"
(مجمع الزوائد : 3/ 242)
دوسری روایت :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَنَادَى بِالْأَذَانِ۔
"جب آدم علیہ السلام ہندوستان اترے تو گھبراہٹ محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہوکر آذان دی۔"
(حلیۃ الاولیاءلابی نعیم : 5/ 17، تاریخ دمشق : 437، الفردوس بماثور الخطاب :4/ 271)
اس کی سند میں علی بن یزید بن بہرام مجہول ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم أجد من ترجمه۔
یعنی مجھےاس کے حالات ہی نہیں ملے۔
(مجمع الزوائد : 3/ 282)
حافظ خطیب بغدادی نے اسے بلا جرح و تعدیل ذکر کیا ہے۔(تاریخ بغداد :13/ 271)
اور مجہول راویوں کی روایت ضعیف و ناقبل ِ قبول ہوتی ہے۔
تنبیہ :
1۔ بعض احباب نے اس کی سند کے راوی محمد بن عبد اللہ بن سلیمان کو ایک دوسرا راوی سمجھ کر ان پرمیزان الاعتدال (2/ 601)وغیرہ سے امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی مجہول کی جرح نقل کر دی ۔
جبکہ اس سند میں تو ثقہ امام و محدث محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی کوفی مطین ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء للذھبی : 11/ 28وٖغیرہ )اس روایت کو حلیۃ الاولیاء میں ان سے مشہور امام سلیمان بن احمد الطبرانی رحمہ اللہ روایت کر رہے ہیں اور تاریخ دمشق میں ان سے روایت کرنے والے ان کے معروف شاگرد ابوبکر احمد بن سلمان النجاد ہیں۔ و اللہ اعلم
2۔ اسی طرح بعض احباب نے ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابۃ لابن حجر:5/ 343) کے حوالے سےبالکل مختلف سند و متن والی روایت میں سیف بن عمر کی جرح اس حدیث پر لگا دی ہےحالانکہ سیف بن عمر کا اس روایت سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے۔
تیسری روایت :
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ فِيهِمْ بِالْأَذَانِ صَبَاحًا إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُمْسُوا، وَأَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ عَلَيْهِمْ بِالْأَذَانِ مَسَاءً إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُصْبِحُوا۔
"جس قوم میں صبح کے وقت آذان دے دی جائے تو شام تک وہ اللہ کی امان میں ہوتی ہے،اور جس قوم میں شام کے وقت آذان دےدی جائے وہ صبح تک اللہ کی امان میں ہوتی ہے۔"
(المعجم الکبیر للطبرانی :20/ 215)
اس کی سند تین وجوہ کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔
1۔ حبان بن اغلب بن تمیم ضعیف ہے۔امام ابو حاتم رحمہ اللہ (الجرح و التعدیل : 3/ 297)نے اسے ضعیف الحدیث کہا ہے۔(نیز دیکھئے :میزان الاعتدال للذھبی : 1/ 448، لسان المیزان لابن حجر :2/ 540)
2۔اغلب بن تمیم بھی ضعیف ہے، اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر :2/ 70)، امام یحیی بن معین (تاریخہ بروایۃ الدوری : 3513) ،امام نسائی (الضعفاء والمتروکون : 61) امام ابن حبان (المجروحین : 1/ 175) اور حافظ ا بن حجر (نتائج الافکار :2/ 426) وغیرہم رحمہم اللہ نے جرح کر رکھی ہے۔
(نیز دیکھئے : لسان المیزان لابن حجر : 2/ 215)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
فيه أغلب بن تميم وهو ضعيف.
اس کی سند میں اغلب بن تمیم ہے جو کہ ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد :1/ 328)
3۔ داود بن بکر تستری کے حالات نہیں مل سکے۔(الضعیفہ للالبانی :6/ 114)
چوتھی روایت :
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا :
يا ابن أبي طالب أراك حزينا، فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك فإنه دواء للهم۔
"ابن ابی طالب ! آپ مجھے غمگین لگ رہے ہیں ، اپنے گھر میں کسی سے ہیں وہ آپ کے کان میں آذان دے، یقینا یہ غموں کی دواء ہے۔"
(مسند الدیلمی بحوالہ کنز العمال :2/ 657، المناقب الاسد الغالب لابن الجزری :54،العجالۃ فی الحدیث المسلسلہ للفادانی :84، جامع الاحادیث للسیوطی : 30 / 364 - 365)
اس کی سند کئی وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے۔
1۔ ابو عبد الرحمن محمد بن الحسین السلمی صوفی سخت ضعیف بلکہ متہم بالکذب ہے۔ (میزان الاعتدال للذھبی :3/ 523، لسان المیزان لابن حجر :7/ 92)اس کے بارے یہی راجح موقف ہے۔
2۔ عبد اللہ بن موسی السلامی کے متعلق حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في رواياته غرائب ومناكير وعجائب.(تاریخ بغداد : 11/ 383)
ایسے راوی کی متفرد روایت ہرگز مقبول نہیں ہوتی۔(نیز دیکھئے :میزان الاعتدال : 2/ 509)
3۔الفضل بن عیاش یا الفضل بن عباس یا المفضل بن عباس الکوفی کے متعلق علم نہیں ہوسکا کہ یہ کون ہے۔واللہ اعلم
4۔ حفص بن غیاث مدلس ہیں ۔(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد :1941طبقات المدلسین لابن حجر : 9) ان کے سماع کی تصریح نہیں۔
پانچویں روایت :
عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مَا أُذِّنَ فِي قَوْمٍ بِلَيْلٍ إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُصْبِحُوا، وَلَا نَهَارًا إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُمْسُوا۔
(مصنف عبد الرزاق :1/ 487)
اس کی سند منقطع ہے۔
کیونکہ محمد بن یوسف کی روایات اپنے والد کے واسطے سے ہوتی ہیں ، لیکن یہاں وہ بلا واسطہ اپنے دادا سے بیان کر رہے ہیں، اسی طرح محققین کے نزدیک محمد بن یوسف نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔(نثل النبال :3/ 296) اور سیدنا عبد اللہ بن سلام سیدنا عثمان کے سات آٹھ سال بعد 43 ہجری میں وفات پائی۔معلوم ہوا کہ محمد بن یوسف یا توبہت چھوٹے تھےیا انہوں نے سرے سے اپنے دادا کا زمانہ ہی نہیں پایا، لہذا یہ سند منقطع ہے۔واللہ اعلم
تنبیہ :
محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام کی امام ترمذی نے ضمنا (3617)اور ابن حبان (الثقات :5/ 368)رحمہما اللہ نے توثیق کر رکھی ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔(حاشیہ مسند احمد بتحقیق الارناؤط : 18/ 411)
چھٹی روایت :
سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْغَدَاةِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى اللَّيْلِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى الصُّبْحِ۔
"جو قوم فجر کی آذان دےدیتی ہے تو وہ رات تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے، اور جو قوم مغرب کی آذان دے دیتی ہے صبح تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے۔"
(الامالی لابن بشران :1/ 148 ح :408)
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت کئی ایک وجوہات کی بنا پر موضوع ،من گھڑت ہے۔
1۔ محمد بن حماد بن ماہان الدباغ "ضعیف "ہے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بالقوی ۔(سوالات حاکم :189)
2۔ سلیمان بن عمرو ابو داود النخعی "کذاب" ہے۔ اسے امام احمد (العلل ومعرفۃ الرجال :2/542)، امام بخاری (التاریخ الکبیر : 4/ 28)، امام یحیی ابن معین (تاریخہ بروایۃ الدوری :2716) ، امام حاکم (سوالات السجزی : 69)، امام ابن حبان (المجروحین : 1/ 333)وغیرہم رحمہم اللہ نے اسے "کذاب" اور "احادیث گھڑنے والا" قرار دیا ہے۔بلکہ حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں : كَانَ وضاعا بِإِجْمَاع الْعلمَاء۔ (الموضوعات :1 /228، 2/ 153)
3۔ ابو القاسم نصر بن حریش الصامت بھی ضعیف ہے۔(تاریخ بغداد :13/ 287، میزان الاعتدال للذہبی : 4/ 250)
4۔نصر کا استاذ سہل بن ابی مسلم الخراسانی یا ابو سہل مسلم الخراسانی ہے اس کا کوئی پتا نہیں ۔ واللہ اعلم
5۔ شریک بن عبد اللہ القاضی مدلس ہیں ۔(طبقات المدلسین لابن حجر :56) اور سماع کی تصریح نہیں ہے۔نیز یہ مختلط بھی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس میں صبح اور فجر کی نماز کی آذان کا ذکر ہے جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔
بعض الناس نے "نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا"نامی رسالہ لکھ کر اسے درست قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔(فتاوی رضویہ : 5/ 370) اسی طرح ذکر الہی کے متعلقہ عمومی دلائل سے اسے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔(فتاوی رضویہ : 23/ 175)حالانکہ یہ بالکل درست نہیں اور دلائل شرعیہ سے استنباط کے قواعد سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔
خلاصہ کلام :
ایسی تمام روایات جن سے مروجہ طریقے پر آذان دینے پر استدلال کیا جاتا ہے، وہ ناقابل اعتبار و ناقابل حجت ہیں، لہذا یہ عمل بدعت ہے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ بدعت عذابِ الہی میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بنتی ہیں ،اور شیطان بھی ہی چاہتا ہے کہ امت ِمسلمہ مسنون اعمال چھوڑ کر ایسے بدعی اعمال کو اپنا لے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مسنون و مشروع اعمال کے ذریعے سے ہی اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں اور اس کے عذابوں سے پناہ مانگیں۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔آمین
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِذَا اَذَّنَ فِیْ قَرِیَةٍ اٰمَنَھَا اللہُ مِنْ عَذَابِهٖ فِیْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ"
جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ
[المعجم الکبیر مرویات انس بن مالك، جلد 1، صفحہ257، حدیث:746، مطبوعہ المکتبة الفیصلیه بیروت]
[فتاوی رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور]
وبا کے زمانہ میں اذان دینا ایک مستحب امر ہے کہ فقیہِ اجَلّ ، محققِ بےبدل ، صاحب العلم وبالفضل ، امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
”وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے“
[فتاویٰ رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاجور]
[بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ سوم، صفحہ 466، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی]
کیونکہ اس وبا کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے جسکی وجہ سے عوام بھی پریشان ہے۔ اور گھبراہٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ان حالات میں بھی اذان سکونِ قلب اور خوف و ہراس دور کرنے کا سبب ہے۔
ابونعیم و ابن عساکر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راویت کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
نَزَلَ آدَمُ بِالْھِندِ فَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فَنَادیٰ بِالْاَذَاَنِ
یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔
[حلیة الاولیاء مرویات عمرو بن قیس الملائی ، جلد 2، صفحہ 107، رقم:299 ، مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت]
مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرُ المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے:
قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ
یعنی: مولا علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔
[مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان]
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں اب جبکہ علماء و مشائخ کی جانب سے اپیل کی گئی ہے تو بتاۓ وقت کیمطابق اسپر عمل کیا جاۓ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاءاللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے۔ اور اللہ کریم ﷻ امان نصیب فرمائے گا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا و آفت سے محفوظ رکھے آمین۔وَبا کے زمانے میں بھی اذان دینا مُسْتَحَب ہے
(بہارِ شریعت جـ1، صـ466. فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جـ5، صـ370)
دنیا بھر کے مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اپنے ملکوں، شہروں، گھر کی چھتوں پر بلند آواز سے اذان کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے کان میں اذان دی جائے۔
جن جگہوں پر کرونا کی شدت ہے وہاں مساجد کے ذریعے اذان دی جائے۔
اذان ذکر خدا و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم) کی بہت ہی پیاری اور پُر رحمت صورت ہے۔
جہاں کفار کے ممالک میں ذکر خدا و رسول بلند ہوگا وہیں اسکی برکات بھی ظاہر ہونگی۔
یہ سب حدیثیں بے بنیاد ہیں انکی طرف مت جانا.. اس کے رد کے بارے میں علماء کی یہ رای.. ہیں..
"کرونا کی وباء اور بعض تنبیہات" (چوتھی قسط)
✍️ تحریر: حافظ محمد طاہر بن محمد حفظه الله( تلمیز رشید شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظه الله)
"وباء کے ایام میں بے وقت آذانیں دینے کا حکم"
کرونا کی وباء سے بچنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک وقت مقرر کر کے گھروں اور مساجد میں آذانیں دینے کا رواج اپنایا ہے ، حالانکہ اس طرح وباء میں آذانیں دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سلف صالحین (صحابہ وتابعین ، ائمہ و محدثین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ )سے بالکل ثابت نہیں ہیں ، لہذا یہ بدعت ہے، جس سے اجتناب کرنا لازم ہے، بعض الناس نے اپنی اس بدعت کو سہارا دینے کے لیے بعض سخت ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ ایسی تمام روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں ، ذیل میں ان روایات کی تفصیل کا ذکر ہے۔
پہلی روایت :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»
"جب کسی بستی میں آذان دے دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ۔"
(المعجم الکبیر للطبرانی : 1/ 257، المعجم الاوسط : 4/ 83، المعجم الصغیر : 1/ 301)
یہ روایت ثابت نہیں ۔
1۔ اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار القرظ "ضعیف" ہے۔
اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر : 5/ 287) اور امام یحیی بن معین (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 5/ 238) نے جرح کر رکھی ہے ، اسی طرح اسے حافظ ذھبی (دیوان الضعفاء : 2447) نے "منکر الحدیث" اور حافظ ابن حجر (تقریب التہذیب : 3873)نے" ضعیف" کہا ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فيه عبد الرحمن بن سعد بن عمار ضعفه ابن معين۔
اس کی سند میں عبد الرحمن بن سعد بن عمار ہے، جسے یحیی بن معین نے ضعیف کہا ہے۔
(مجمع الزوائد : 1/ 328)
2۔ اسی طرح بکر بن محمد القرشی "مجہول "ہے.
حافظ ہیثمی اس کے متعلق فرماتے ہیں :
لم اعرفہ۔
"مجھے نہیں پتا یہ کون ہے۔"
(مجمع الزوائد : 3/ 242)
دوسری روایت :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَنَادَى بِالْأَذَانِ۔
"جب آدم علیہ السلام ہندوستان اترے تو گھبراہٹ محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہوکر آذان دی۔"
(حلیۃ الاولیاءلابی نعیم : 5/ 17، تاریخ دمشق : 437، الفردوس بماثور الخطاب :4/ 271)
اس کی سند میں علی بن یزید بن بہرام مجہول ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم أجد من ترجمه۔
یعنی مجھےاس کے حالات ہی نہیں ملے۔
(مجمع الزوائد : 3/ 282)
حافظ خطیب بغدادی نے اسے بلا جرح و تعدیل ذکر کیا ہے۔(تاریخ بغداد :13/ 271)
اور مجہول راویوں کی روایت ضعیف و ناقبل ِ قبول ہوتی ہے۔
تنبیہ :
1۔ بعض احباب نے اس کی سند کے راوی محمد بن عبد اللہ بن سلیمان کو ایک دوسرا راوی سمجھ کر ان پرمیزان الاعتدال (2/ 601)وغیرہ سے امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی مجہول کی جرح نقل کر دی ۔
جبکہ اس سند میں تو ثقہ امام و محدث محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی کوفی مطین ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء للذھبی : 11/ 28وٖغیرہ )اس روایت کو حلیۃ الاولیاء میں ان سے مشہور امام سلیمان بن احمد الطبرانی رحمہ اللہ روایت کر رہے ہیں اور تاریخ دمشق میں ان سے روایت کرنے والے ان کے معروف شاگرد ابوبکر احمد بن سلمان النجاد ہیں۔ و اللہ اعلم
2۔ اسی طرح بعض احباب نے ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابۃ لابن حجر:5/ 343) کے حوالے سےبالکل مختلف سند و متن والی روایت میں سیف بن عمر کی جرح اس حدیث پر لگا دی ہےحالانکہ سیف بن عمر کا اس روایت سے کوئی دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے۔
تیسری روایت :
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ فِيهِمْ بِالْأَذَانِ صَبَاحًا إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُمْسُوا، وَأَيُّمَا قَوْمٍ نُودِيَ عَلَيْهِمْ بِالْأَذَانِ مَسَاءً إِلَّا كَانُوا فِي أَمَانِ اللهِ حَتَّى يُصْبِحُوا۔
"جس قوم میں صبح کے وقت آذان دے دی جائے تو شام تک وہ اللہ کی امان میں ہوتی ہے،اور جس قوم میں شام کے وقت آذان دےدی جائے وہ صبح تک اللہ کی امان میں ہوتی ہے۔"
(المعجم الکبیر للطبرانی :20/ 215)
اس کی سند تین وجوہ کی بنا پر سخت ضعیف ہے۔
1۔ حبان بن اغلب بن تمیم ضعیف ہے۔امام ابو حاتم رحمہ اللہ (الجرح و التعدیل : 3/ 297)نے اسے ضعیف الحدیث کہا ہے۔(نیز دیکھئے :میزان الاعتدال للذھبی : 1/ 448، لسان المیزان لابن حجر :2/ 540)
2۔اغلب بن تمیم بھی ضعیف ہے، اس پر امام بخاری (التاریخ الکبیر :2/ 70)، امام یحیی بن معین (تاریخہ بروایۃ الدوری : 3513) ،امام نسائی (الضعفاء والمتروکون : 61) امام ابن حبان (المجروحین : 1/ 175) اور حافظ ا بن حجر (نتائج الافکار :2/ 426) وغیرہم رحمہم اللہ نے جرح کر رکھی ہے۔
(نیز دیکھئے : لسان المیزان لابن حجر : 2/ 215)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
فيه أغلب بن تميم وهو ضعيف.
اس کی سند میں اغلب بن تمیم ہے جو کہ ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد :1/ 328)
3۔ داود بن بکر تستری کے حالات نہیں مل سکے۔(الضعیفہ للالبانی :6/ 114)
چوتھی روایت :
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا :
يا ابن أبي طالب أراك حزينا، فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك فإنه دواء للهم۔
"ابن ابی طالب ! آپ مجھے غمگین لگ رہے ہیں ، اپنے گھر میں کسی سے ہیں وہ آپ کے کان میں آذان دے، یقینا یہ غموں کی دواء ہے۔"
(مسند الدیلمی بحوالہ کنز العمال :2/ 657، المناقب الاسد الغالب لابن الجزری :54،العجالۃ فی الحدیث المسلسلہ للفادانی :84، جامع الاحادیث للسیوطی : 30 / 364 - 365)
اس کی سند کئی وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے۔
1۔ ابو عبد الرحمن محمد بن الحسین السلمی صوفی سخت ضعیف بلکہ متہم بالکذب ہے۔ (میزان الاعتدال للذھبی :3/ 523، لسان المیزان لابن حجر :7/ 92)اس کے بارے یہی راجح موقف ہے۔
2۔ عبد اللہ بن موسی السلامی کے متعلق حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في رواياته غرائب ومناكير وعجائب.(تاریخ بغداد : 11/ 383)
ایسے راوی کی متفرد روایت ہرگز مقبول نہیں ہوتی۔(نیز دیکھئے :میزان الاعتدال : 2/ 509)
3۔الفضل بن عیاش یا الفضل بن عباس یا المفضل بن عباس الکوفی کے متعلق علم نہیں ہوسکا کہ یہ کون ہے۔واللہ اعلم
4۔ حفص بن غیاث مدلس ہیں ۔(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد :1941طبقات المدلسین لابن حجر : 9) ان کے سماع کی تصریح نہیں۔
پانچویں روایت :
عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مَا أُذِّنَ فِي قَوْمٍ بِلَيْلٍ إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُصْبِحُوا، وَلَا نَهَارًا إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُمْسُوا۔
(مصنف عبد الرزاق :1/ 487)
اس کی سند منقطع ہے۔
کیونکہ محمد بن یوسف کی روایات اپنے والد کے واسطے سے ہوتی ہیں ، لیکن یہاں وہ بلا واسطہ اپنے دادا سے بیان کر رہے ہیں، اسی طرح محققین کے نزدیک محمد بن یوسف نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔(نثل النبال :3/ 296) اور سیدنا عبد اللہ بن سلام سیدنا عثمان کے سات آٹھ سال بعد 43 ہجری میں وفات پائی۔معلوم ہوا کہ محمد بن یوسف یا توبہت چھوٹے تھےیا انہوں نے سرے سے اپنے دادا کا زمانہ ہی نہیں پایا، لہذا یہ سند منقطع ہے۔واللہ اعلم
تنبیہ :
محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام کی امام ترمذی نے ضمنا (3617)اور ابن حبان (الثقات :5/ 368)رحمہما اللہ نے توثیق کر رکھی ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔(حاشیہ مسند احمد بتحقیق الارناؤط : 18/ 411)
چھٹی روایت :
سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْغَدَاةِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى اللَّيْلِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ يُؤَذِّنُونَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا أَمِنُوا الْعَذَابَ إِلَى الصُّبْحِ۔
"جو قوم فجر کی آذان دےدیتی ہے تو وہ رات تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے، اور جو قوم مغرب کی آذان دے دیتی ہے صبح تک عذاب سے محفوظ رہتی ہے۔"
(الامالی لابن بشران :1/ 148 ح :408)
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت کئی ایک وجوہات کی بنا پر موضوع ،من گھڑت ہے۔
1۔ محمد بن حماد بن ماہان الدباغ "ضعیف "ہے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بالقوی ۔(سوالات حاکم :189)
2۔ سلیمان بن عمرو ابو داود النخعی "کذاب" ہے۔ اسے امام احمد (العلل ومعرفۃ الرجال :2/542)، امام بخاری (التاریخ الکبیر : 4/ 28)، امام یحیی ابن معین (تاریخہ بروایۃ الدوری :2716) ، امام حاکم (سوالات السجزی : 69)، امام ابن حبان (المجروحین : 1/ 333)وغیرہم رحمہم اللہ نے اسے "کذاب" اور "احادیث گھڑنے والا" قرار دیا ہے۔بلکہ حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں : كَانَ وضاعا بِإِجْمَاع الْعلمَاء۔ (الموضوعات :1 /228، 2/ 153)
3۔ ابو القاسم نصر بن حریش الصامت بھی ضعیف ہے۔(تاریخ بغداد :13/ 287، میزان الاعتدال للذہبی : 4/ 250)
4۔نصر کا استاذ سہل بن ابی مسلم الخراسانی یا ابو سہل مسلم الخراسانی ہے اس کا کوئی پتا نہیں ۔ واللہ اعلم
5۔ شریک بن عبد اللہ القاضی مدلس ہیں ۔(طبقات المدلسین لابن حجر :56) اور سماع کی تصریح نہیں ہے۔نیز یہ مختلط بھی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس میں صبح اور فجر کی نماز کی آذان کا ذکر ہے جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔
بعض الناس نے "نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوبا"نامی رسالہ لکھ کر اسے درست قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔(فتاوی رضویہ : 5/ 370) اسی طرح ذکر الہی کے متعلقہ عمومی دلائل سے اسے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔(فتاوی رضویہ : 23/ 175)حالانکہ یہ بالکل درست نہیں اور دلائل شرعیہ سے استنباط کے قواعد سے لا علمی کا نتیجہ ہے۔
خلاصہ کلام :
ایسی تمام روایات جن سے مروجہ طریقے پر آذان دینے پر استدلال کیا جاتا ہے، وہ ناقابل اعتبار و ناقابل حجت ہیں، لہذا یہ عمل بدعت ہے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ بدعت عذابِ الہی میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بنتی ہیں ،اور شیطان بھی ہی چاہتا ہے کہ امت ِمسلمہ مسنون اعمال چھوڑ کر ایسے بدعی اعمال کو اپنا لے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مسنون و مشروع اعمال کے ذریعے سے ہی اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں اور اس کے عذابوں سے پناہ مانگیں۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں