بدھ، 23 نومبر، 2022

کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم


 

کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم

عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) کو مضبوطی سے تھام لے ، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کو سیکھیں ، پڑھیں ، اس میں غور وفکر کریں اور اس پر عمل کریں ۔

لیکن افسوس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکیدِ شدید کے باوجود آپ کی امت آج قرآن مجید سے دور ہو چکی ہے اور قرآن مجید محض الماریوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ بہت سارے مسلمان اسے پڑھنا تک نہیں جانتے اور جو پڑھنا جانتے ہیں ان میں سے اکثر کو پورا قرآن مجید تو کجا سورت فاتحہ تک کا معنی ومفہوم بھی معلوم نہیں۔ حفاظِ قرآن مجید تو ما شاء اللہ بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے اور اسے اپنی زندگی کا دستور بنانے والے بہت کم ہیں !

عزیزان گرامی!قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی سب سے افضل کتاب ہے اور اپنی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بے مثال ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں بار بار یہ چیلنج فرمایاکہ تمام فصحاء وبلغاء اکٹھے مل کر اس جیسی ایک سورت بھی لا کے دکھائیں ۔ پھر اس نے یہ کھلا اعلان کیا کہ تمام جن وانس مل کر بھی اس جیسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ۔

{قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُوا بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا}[1]

’’ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمام انس وجن مل کر اس قرآن جیسا لاناچاہیں تو اس جیسا نہیں لا سکیں گے ، چاہے وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں ۔ ‘‘

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی عظیم الشان کتاب‘ اللہ تعالیٰ نے کیوں نازل فرمائی ؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خود ارشاد فرمایا:

{کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ}[2]

’’ یہ بابرکت کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کی کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقل وخرد والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ ‘‘

[1] الإسراء17:88 [2] ص38:29

اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے خود بھی سیکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھلائیں ۔خود بھی اس میں غور فکر کریں اور اولاد کو بھی حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ وتفسیر بھی پڑھائیں تاکہ اس سے نصیحت حاصل ہو سکے ، کیونکہ قرآن مجید کا معنی ومفہوم معلوم کئے بغیر اس سے نصیحت حاصل کرنا ناممکن ہے ۔

قرآن مجید دنیوی اور اخروی بھلائیوں کی طرف انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور ایسا مضبوط راستہ دکھلاتا ہے جو انسان کو جنت تک پہنچا دیتا ہے ۔

فرمان الٰہی ہے :{ إِنَّ ہَـذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْرًا کَبِیْرًا }[1]

’’ یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کیلئے بہت بڑا اجر ہے ۔ ‘‘

یاد رہے کہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) میں دیگر احکامات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اطاعت کی جائے اور وہ جس بات کا حکم دیں اس پر عمل کیا جائے اور جس سے منع کریں اس سے پرہیز کیا جائے ۔ فرمان الٰہی ہے:

{ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ}[2]

’’ اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو‘‘

اس آیت کریمہ سے اور اس کے علاوہ دیگر کئی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں کتاب اللہ (قرآن مجید) کو مضبوطی سے تھامنا اور اسے اپنا دستورِ حیات بنانا فرض ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرنا بھی فرض ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دیا اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا :

(( فَاعْقِلُوْا أَیُّہَا النَّاسُ قَوْلِیْ،فَإِنِّیْ قَدْ بَلَّغْتُ،وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہٖ : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم [3]))

’’ اے لوگو ! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو ، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے : اللہ کی کتاب

[1] الإسراء17 :10 [2] محمد47 :33 [3] السنۃ للمروزی:68 من حدیث ابن عباس رضی اﷲ عنہ

اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہدایت کے چشمے ہیں اور انہی دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے سے ہی گمراہی سے بچا جا سکتا ہے ۔

(۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت تک دین ِ کامل پہنچایا

عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع ارشاد فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخرمیں لوگوں سے پوچھا کہ لوگو ! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ لوگوں کے جمِ غفیر نے بیک زباں ہو کر کہا کہ آپ نے ہمیں دینِ الٰہی پہنچا دیا ، اللہ کی امانت ادا کردی اور ہماری خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بھی تین مرتبہ گواہ بنایا ۔۔۔۔۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دینِ الٰہی مکمل طور پر امانت داری کے ساتھ اپنی امت تک پہنچا یا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس بات کی طرف اپنی امت کی راہنمائی فرمائی جس میں اس کی خیر وبھلائی تھی ۔ ارشاد نبوی ہے :

(( مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِہٖ،وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْہُ)) [1]

’’ میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کرنے والی ہے۔ ‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی کام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو ۔ تواس حقیقت کو جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ دین میں کسی قسم کی کمی بیشی ، یا نئے نئے کام ایجاد کرنے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ، ورنہ نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( معاذ اللہ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اولیں ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے !

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’مَنِ ابْتَدَعَ فِیْ الْإِسْلاَمِ بِدْعَۃً یَرَاہَا حَسَنَۃً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا  صلي اللّٰه  عليه وسلم خَانَ الرِّسَالَۃَ،اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی{الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ

[1] حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی،ص103

وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا}وَلاَ یَصْلُحُ آخِرُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ إِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ أَوَّلُہَا ، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا ‘‘

’’ جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی ، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوی کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت ( اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی ( یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا ۔) اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو : ’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا ، اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا‘‘

پھر امام مالک رحمہ اللہ نے کہا : اس امت کے آخری لوگ بھی اسی چیز کے ساتھ درست ہو سکتے ہیں جس کے ساتھ اس امت کے پہلے لوگ درست ہوئے تھے اورجو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘

اور اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر اور میدانِ عرفات ہی میں یوں کھول کر بیان فرمایا : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں اپنی اونٹنی پر سوار تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( …أَلاَ وَإِنِّیْ فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ،وَأُکَاثِرُ بِکُمُ الْأُمَمَ،فَلاَ تُسَوِّدُوْا وَجْہِیْ،أَلا وَإِنِّیْ مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا،وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّیْ أُنَاسٌ،فَأَقُوْلُ:یَا رَبِّ، أُصَیْحَابِیْ؟فَیَقُوْلُ:إِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ[1]))

’’ خبردار ! میں حوضِ ( کوثر ) پر تمھارا استقبال کرونگا اور تمھارے ذریعے دوسری امتوں پر اپنی امت کی کثرت ثابت کرونگا ۔ لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرنا ۔ خبردار ! میں لوگوں کو بچاؤں گا اور کچھ لوگوں کو مجھ سے دور رکھا جائے گا ۔ میں کہونگا : اے میرے رب ! یہ تو میرے چند ساتھی ہیں ؟ تو وہ جواب دے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیاایجاد کیا تھا ! ‘‘

لہٰذا دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا چاہئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنے ہر خطبۂ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے:

(( أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ،وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا،وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ [2]))

’’حمد وثناء کے بعد ! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور امور

[1] سنن ابن ماجہ:3057۔وصححہ الألبانی [2] صحیح مسلم:867:

میں سب برا امر وہ ہے جسے ایجاد کیا گیا ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘

نیز فرمایا:(( عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ،تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ،وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ [1]))

’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا ۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا ۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ [2]))

’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا وہ مردود ہے ۔ ‘‘

جبکہ مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ))

’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین نہیں وہ مردود ہے ۔ ‘‘

عزیزان گرامی ! یہ تھا میدانِ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبۂ حجۃ الوداع ۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمین

سنن أبی داؤد:4607 ۔وصححہ الألبانی

پیر، 21 نومبر، 2022

الموت


 





*ڪلیجہ پھاڑ دیا اس تحریر نے*



*جب موت آئے گی تو یقین جانیں کہ کچھ بھی کام نہ آئے گا،*


• آپ کے دنیا سے جانے پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا،


•  اور اس دنیا کے سب کام کاج جاری رہیں گے،


•  آپ کی ذمہ داریاں کوئی اور لے لے گا،


•  آپ کا مال وارثوں کی طرف چلا جائے گا،


•  اور آپ کو اس مال کا حساب دینا ہوگا،


• موت کے وقت سب سے پہلی چیز جو آپ سے چلی جائے گی وہ نام ہوگا،


• لوگ کہیں گے کہ dead body کہاں ہے؟


• جب وہ جنازہ پڑھنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ جنازہ لائیں،


• جب دفن کرنا شروع کریں گے تو کہیں گے کہ میت کو قریب کر دیں،


• آپ کا نام ہرگز نہ لیا جائے گا،


•  مال، حسب و نسب، منصب اور اولاد کے دھوکے میں نہ آئیں۔


• یہ دنیا کس قدر زیادہ حقیر ہے اور جس کی طرف ہم جا رہے ہیں وہ کس قدر عظیم ہے،


• آپ پر غم کرنے والوں کی تین اقسام ہوں گی: 


*(1)۔* جو لوگ آپ کو سرسری طور پر جانتے ہیں وہ کہیں گے ہائے مسکین! اللہ اس پر رحم کرے۔


*(2)۔* آپ کے دوست چند گھڑیاں یا چند دن غم کریں گے پھر وہ اپنی باتوں اور ہنسی مذاق کی طرف لوٹ جائیں گے۔


*(3)۔* آپ کے گھر کے افراد کا غم گہرا ہوگا، وہ کچھ ہفتے، کچھ مہینے یا ایک سال تک غم کریں گے اور اس کے بعد وہ آپ کو یاداشتوں کی ٹوکری میں ڈال دیں گے،


• لوگوں کے درمیان آپ کی کہانی کا اختتام ہو جائے گا اور آپ کی حقیقی کہانی شروع ہو جائے گی اور وہ آخرت ہے۔


• آپ سے زائل ہوجائے گا آپ کا:

*(1)۔* حسن،

*(2)۔* مال،

*(3)۔* صحت،

*(4)۔* اولاد،

*(5)۔* آپ اپنے مکانوں اور محلات سے دور ہو جائیں گے،

*(6)۔* شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جدا ہو جائے گی،


• آپ کے ساتھ صرف آپ کا عمل باقی رہ جائے گا۔


• *یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی قبر اور آخرت کے لیے ابھی سے کیا تیاری کی ہے؟*


• یہ وہ حقیقت ہے جو غور و فکر کی محتاج ہے اس لیے آپ اس کی طرف توجہ کریں:

*(1)۔* فرائض،

*(2)۔* نوافل،

*(3)۔* پوشیدہ صدقہ،

*(4)۔* نیک اعمال، 

*(5)۔* تہجد کی نماز،

*(6)۔* اور اچھے اخلاق کی طرف،

• شاید کہ نجات ہو جائے!

• مرنے والے کو اگر دنیا میں واپس لوٹایا جائے تو وہ صدقہ کرنے کو ترجیح دے گا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: *رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ ...*(المنافقون:10) اے میرے رب ! تو نے مجھے قریب مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا۔


• وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں نماز ادا کر لوں یا میں روزہ رکھ لوں یا میں حج اور عمرہ کرلوں۔


• علماء کہتے ہیں کہ میت صرف صدقے کا ذکر اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی موت کے بعد اس کے عظیم اثرات دیکھتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کریں۔


• اور بہترین چیز جس کا آپ ابھی صدقہ کر سکتے ہیں وہ آپ کے وقت میں سے دس سیکنڈ ہیں۔ آپ خیر خواہی اور اخلاص کی نیت کے ساتھ اس تحریر کو دوسروں تک پہنچائیں کیونکہ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ 


• اگر آپ اس تحریر کے ذریعے لوگوں کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کریں گے تو قیامت کے دن اسے اپنے ترازو میں پائیں گے:

*وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ*

(الذاريات:55)

اور نصیحت کیجیے، کیونکہ یقینا نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے۔۔

پیر، 18 اپریل، 2022

عظمت القرآن


 بسم اللّٰه الرحمن الرحيم

اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا،مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِيَ لَہٗ،وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ أَ نَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔۔اَمَّا بَعْدُ!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ  

اس میں کسی مسلمان کو ذرہ برابر بھی شک و شبہہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم:اللہ تعالیٰ کا کلام پاک ہے جو مصادرِ شریعت میں سے اوّلین مصدر بھی ہے۔{الٓمّٓ.ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}[البقرۃ:۱،۲]یہ اہلِ تقویٰ کے لیے کتابِ ہدایت ہے:{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}[البقرۃ:۲]یہ قرآنِ کریم تمام جن وانس کے لیے خزینۂ رحمت اور شفاء و علاج ہے:{وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآئٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ}[الإسراء:۸۲]جو اس کے احکام پر عمل پیرا ہو اُسے اللہ تعالیٰ عروج و ترقی کی رفعتوں سے نوازتا ہے اور اسے پسِ پشت ڈالنے والوں کو تنزّل و ادبار سے دوچار کر دیتا ہے:((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(مختصر صحیح مسلم،برقم:۲۱۰۲)قرآنِ کریم سیکھنے والے کیلئے جنت کی راہیں آسان کردی جاتی ہیں:

{وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا}[العنکبوت:۶۹]قرآنِ کریم حصولِ اجر وثواب کا ذریعہ ہے کہ اس کا صرف ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں۔(سنن الترمذي:)قرآنِ کریم زہریلے جانوروں کے زہر کا تریاق ہے۔(مصنف ابن أبي شیبۃ،مسند بزّار،طحاوي)یہ آسیب ومِرگی اور نظرِ بد زائل کرنے کا تیر بہ ہدف نسخہ اور تعویذ گنڈوں،جادو ٹونوں اور شیطانی وساوس کا رحمانی علاج ہے۔ابلیسِ لعین سے انسان کو بچانے کے لیے یہ قرآن محافظ(Guard)کا کام کرتا ہے(آیۃ الکرسی)۔یہ قرآنِ کریم حصولِ خیر وبرکت کا دروازہ،اللہ سے اپنی حاجات پوری کروانے کا ذریعہ اور فراوانیِ رزق کا باعث ہے۔یہ قرآن دنیوی وبرزخی اور اخروی زندگی کی تمام مشکلات سے نجات دہندہ ہے۔قرآنِ کریم کے اتنے فضائل وبرکات اور فوائد وثمرات ہیں کہ .سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیےاللہ تعالیٰ کی توفیق اور اسی کا فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنے کلامِ پاک کی خدمت کے لیے بے شمار علمائِ کرام کو منتخب فرمایا،جنھوں نے تفسیر و اعجازِ قرآن کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا اور خوب علمی لعل وجواہر بکھیرے۔

عظمتِ قرآن؛ بزبانِ قرآن     :                       قرآنِ کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کا تذکرہ پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}[الحجر:۹]’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘اس کی عظمت اور شان کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ ہر دور میں مسلمان تو مسلمان،خود کفار بھی اس کی عظمت کے قائل رہے ہیں۔سب سے پہلے ہم قرآن کی عظمت کلامِ الٰہی کی روشنی میں پیش کرتے ہیں،چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں اپنی کتابِ عزیز کی تعریف بیان کی ہے جو اس کتاب کی عظمت کی دلیل ہے۔

1۔قرآن عظیم:اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتابِ مقدس کا ایک وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ’’قرآنِ عظیم‘‘ ہے۔چنانچہ سورۃ الحجر،آیت(۸۷)میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ}’’اور ہم نے تمھیں سات(آیتیں)جو(نماز میں)دہرا کر پڑھی جاتیہیں(یعنی سورئہ فاتحہ)اور’’عظمت والا قرآن‘‘ عطا فرمایا ہے

2۔محکم:سورہ ہود کی پہلی آیت ہی میں اس کتاب کا’’محکم‘‘ ہونا بیان فرمایا ہے،چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:{الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ}’’الٓر،یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم و خبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کر دی گئی ہیں

 3۔مھیمن:اس کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ یہ کتاب پچھلی تمام الہامی کتابوں پر’’مُہَیْمِن‘‘ یعنی نگران و محافظ ہے،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ}[المائدۃ:۴۸]‘’اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان(سب)پر نگران و محافظ ہے۔‘‘گویا یہ کتابِ مقدس،سابقہ نازل شدہ تمام کتابوں کے مقاصد کی’’مُہَیْمِن‘‘ یعنی محافظ و نگران اور ان میں درج شدہ باتوں کی معتبر گواہ ہے،جو ان کی صحیح باتوں کی تصدیق و اثبات کرتی ہے اور(لوگوں کی طرف سے تحریف کردہ یا بڑھائی ہوئی)غلط باتوں کی تردید وتصحیح کرتی ہے

4۔’’علي حکیم‘‘:اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اپنی اس کتاب کا ایک وصف’’عَلِيٌّ حَکِیْمٌ‘‘

بھی بیان فرمایا ہے۔یعنی وہ بہت بلند،برگزیدہ اور نہایت محکم کتاب ہے،جیسا کہ سورۃ الزخرف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{وَاِِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ}[الزخرف:۴]’’اور یہ بڑی کتاب(یعنی لوحِ محفوظ)میں ہمارے پاس(لکھی ہوئی اور)بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے۔‘‘یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم اور اس کی حکمت کے بارے میں نہایت اعلیٰ درجے کی گواہی ہے۔اور امام رازی کے بقول:بلا شبہ یہ عظمتِ قرآن کا ایک پہلو ہے کہ یہ کتاب اپنے مقام و مرتبہ اور شرف و منزلت کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ ہے،اس لیے یہ تمام سابقہ آسمانی کتب پر غالب و برتر ہے،مزید اس وجہ سے بھی کہ روئے زمین پر بطورِ معجزہ برقرار ہے۔(التفسیر الکبیر:۲۷/ ۱۶۷)اور’’حکیم‘‘ کے معنی ہیں:نہایت محکم۔یعنی ایک مضبوط نظم میں پروئی ہوئی کتاب جس میں کسی بھی اعتبار سے کوئی خلل نہیں۔پس یہ کتاب بذاتِ خود حکیم ہے اور دوسروں پر حاکم و غالب ہے۔’’حکیم‘‘ کے دوسرے معنی’’حکمت والا‘‘ بھی ہیں۔اور علامہ سعدی نے بجا طور پر اپنی تفسیر میں لکھا ہے:’’قرآنِ کریم جن اوامر اور نواہی اور جن خبروں پر مشتمل ہے،ان میں کوئی حکم اور کوئی خبر حکمت اور عدل و میزان کے خلاف نہیں ہے۔‘‘(تفسیر السعدي:۴/ ۴۳۷)

5۔’’کتاب مبارک‘‘:قرآنِ کریم کی تعریف میں ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین سورتوں میں اس کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ یہ’’کِتَابٌ مُبَارَکٌ‘‘ یعنی بڑی برکت والی کتاب ہے۔تفصیل کے طالب سورۃ الانعام،آیت(۹۲،۱۵۵)سورۃ الانبیاء،آیت(۵۰)اور سورہ صٓ،آیت(۲۹)کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ فرمالیں۔علاوہ ازیں قرآنِ کریم کے دیگر بے شمار اوصاف بھی ہیں جن کا احاطۂ تحریر میں لانا کارے دارد۔

قرآنِ عظیم کا نزول،بہترین زمانے میں:

قرآنِ عظیم کی عظمت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سب سے بہترین زمانے یعنی رمضان المبارک میں نازل فرمایا،جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ}[البقرۃ:۱۸۵]’’(روزوں کا مہینہ)رمضان کا مہینہ(ہے)جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا راہنما ہے اور(جس میں)ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور(جو حق و باطل کو)الگ الگ کرنے والا ہے۔‘‘قرآن مجید کو اس مبارک مہینے کی اس رات میں نازل فرمایا گیا جو بہت بابرکت رات ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ الدخان کی آیت(۳،۴،۵)میں ارشاد فرمایا ہے:{اِِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ . فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ . اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ}’’ہم نے اس(قرآن)کو مبارک رات میں نازل فرمایا ہم تو راستہ دکھانے والے ہیں۔اسی رات میں ہمارے حکم سے تمام حکمت کے کام فیصل کیے جاتے ہیں،(یعنی)ہمارے ہاں سے حکم ہو کر،بیشک ہم ہی(پیغمبر کو)بھیجتے ہیں۔یہ برکتوں والی رات کون سی ہے؟ یہ شرف و مجد اور بلند رتبے والی وہ رات ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر میں فرمایا ہے:{اِِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ . وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ . لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ}[القدر:۱ تا ۳]’’ہم نے اس(قرآن)کو شبِ قدر میں نازل کیا اور تمھیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘قرآن مجید کے نزول کی رات(لیلۃ القدر)میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ(یا ۸۳ سال ۴ ماہ)کی عبادت کے ثواب سے زیادہ ہے۔لیلۃ القدر کا نام لیلۃ القدر اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا غیر معمولی شرف و مجد اور زبردست فضیلت ہے۔اس رات کی بے مثال فضیلت اس لیے ہے کہ اس میں بہت سے ایسے اہم امور سر انجام پائے جو نہایت عظیم الشان اور بہت عالی مرتبت ہیں۔امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ دین کا درجہ دنیا کے منصب و مقام سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور ارفع ہے،اور خود دین میں منصب و مقام کے اعتبار سے جو متاع سب سے اعلیٰ اور اشرف ہے وہ قرآنِ عظیم ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکرم کی نبوت کا اثبات ہوا،اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ساری کتابوں میں حق و باطل کے درمیان فرق ظاہر ہوا،اور اسی سے اہلِ سعادت کے درجات بلند ہونے اور اہلِ شقاوت کے مواخذہ و احتساب کا پتہ چلتا ہے۔اس اعتبار سے بلا شبہ قرآن سے بڑھ کر کوئی چیز عظیم القدر نہیں ہے۔ذکر میں کوئی چیز اس سے اعلیٰ ہے نہ منصب و مقام میں عظیم تر۔(التفسیر الکبیر للرازي:۲۷/ ۲۰۳۔۲۰۴)

 

حفاظتِ قرآن کا وعدۂ الٰہی:

قرآنِ کریم کی آیات یا الفاظ میں رد و بدل قیامت تک ممکن نہیں،کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}[الحجر:۹]’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘یہ اللہ ہی کی حفاظت کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم اب تک اپنی اصلی شکل میں باقی ہے اور ہر وہ کوشش جو اسے بدلنے کے لیے کی گئی اس طرح ناکام و نا مراد ہوئی کہ اس کا ایک حرف بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ھُمْ وَاِِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ . لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ}[حمٓ سجدۃ:41,42]’’ان لوگوں نے نصیحت کو نہ مانا جب وہ ان کے پاس آئی اور یہ تو ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔(اور)یہ دانا(اور)خوبیوں والے(اللہ)کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘غرض قرآنِ کریم ام الکتاب میں درج اور لوحِ محفوظ میں بہ حفاظت موجود ہے۔وہ آسمانوں میں بھی ہر اس چیز سے محفوظ رہا جس سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتا اور جو اس کی شان سے فروتر تھی۔یہ سب کچھ سراسر اللہ تعالیٰ کا کمال اور قرآن پر اس کی خصوصی عنایت و توجہ کے باعث ہے۔(عنایۃ اللّٰه و عنایۃ رسولہ بالقرآن الکریم،ص:۹۔۱۱) سورۃ الواقعہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ . فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ . لاَ یَمَسُّہٗٓ اِِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ}[الواقعۃ:۷۷ تا ۷۹]’’یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔(جو)کتابِ محفوظ میں(لکھا ہوا)ہے۔اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صفت{مَکْنُوْنٍ} بیان فرمائی،جس کے معنی پردے میں ہونے کے ہیں،یعنی یہ کتاب لوگوں کی نظروں سے محجوب(چھپی ہوئی)ہے۔اس لحاظ سے یہ عالمِ غیب کا ایک پوشیدہ معاملہ ہے جس کی کنہ اور حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآنِ کریم جو لوگوں تک پہنچا اور جسے انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنا،یہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کے مطابق ہے جس سے وہ لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کا یہ وصف مکمل ہوجائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں کسی انسان کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔(التحریر و التنویر:۲۷/ ۳۰۴۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزات شیخ محمود الدوسری،ترجمہ پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر،طبع دار السلام لاہور)

تمام کتبِ سماویہ کا جامع:

معجم طبرانی،شرح معانی الآثار طحاوی،شعب الایمان بیہقی اور مسند طیالسی میں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((أُعْطِیْتُ مَکَانَ التَّورَاۃِ السَّبْعَ الطِّوَالَ وَمَکَانَ الزَّبُوْرِ الْمِئِیْنَ وَمَکَانَ الْاِنْجِیْلِ الْمَثَانِیْ وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ))(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:۱۴۸۰،صحیح الجامع الصغیر:۱۰۵۹) ’تورات کی جگہ مجھے سبع طوال سورتیں دی گئی ہیں،زبور کی جگہ مئین سورتیں دی گئی ہیں،اور انجیل کی جگہ سورہ فاتحہ دی گئی ہے اور مفصل سورتیں(زائد دے کر)مجھے فضیلت عطا کی گئی ہے۔‘‘تو گویا قرآنِ کریم تورات،انجیل اور زبور سب کا جامع اور ان پر حاوی ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح کردیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کو درج ذیل متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:سبع طوال سے مراد یہ سات سورتیں ہیں:سورۃ البقرہ۔سورۃ آل عمران۔سورۃ النساء۔سورۃ المائدہ۔سورۃ الانعام۔سورۃ الاعراف۔سورۃ الانفال۔مئین سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کی تعداد سو سے دو سو تک ہے۔ان میں سورہ یونس سے لے کر سورہ شعرآء تک سورتیں شامل ہیں۔مثانی وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کم ہیں۔ان میں سورۃ النمل سے لے کر سورۃ الحجرات تک کی سورتیں شامل ہیں۔مفصل سورتوں میں سورہ قٓ سے لے کر سورۃ الناس تک کی تمام سورتیں شامل ہیں۔مفصل سورتیں آیات کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں،مضامین کے اعتبار سے مکمل ہیں،لہٰذا انھیں مفصل کہا گیا ہے۔مفصل سورتوں کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:1۔طوال مفصل:سورۂ قٓ سے لیکر سورۃ البروج تک۔2۔اوساط مفصل:سورۃ الطارق سے سورۃ البینہ تک۔3۔قصار مفصل:سورۃ الزلزال سے سورۃ الناس تک۔

قرآن کی سفارش                    :قیامت کے روز قرآنِ مجید اہلِ قرآن کی بخشش کے لیے سفارش کرے گا۔چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:((اِقْرَأُوا الْقُرْآنَ فَاِنَّہٗ یَأتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیعاً لِأَصْحَابِہٖ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن،حدیث ۱۸۷۴) ’قرآن پڑھا کرو،قیامت کے روز یہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔

پیروی میں راستی:قرآنِ کریم کی پیروی کرنے والے ہمیشہ راہ راست پر رہیں گے،جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اَلَا وَ اِنِّيْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ أَحَدُہُمَا کِتٰبُ اللّٰہِ،ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ،مَنِ اتَّبَعَہٗ کَانَ عَلَی الْہُدٰی،وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلٰی الضَّلَالَۃِ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ:۶۲۲۵)’’آگاہ رہو! میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے،جو اللہ کی رسی ہے۔جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوگا۔‘‘جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُمَا:کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِي))(مستدرک الحاکم،صحیح الجامع الصغیر:۲۹۳۷،الصحیحۃ:۱۷۶۱) ’’میں تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر ان پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے:ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔‘‘اسی معنی ومفہوم کی بعض دیگر احادیث سنن ترمذی،مسند احمد اور معجم طبرانی کبیر میں بھی مروی ہیں۔(دیکھیں:صحیح الجامع:۲۴۵۷،۲۴۵۸)

دنیاوی غلبہ و عروج:قرآنِ کریم پر عمل کرنے والوں کو دنیا میں غلبہ اور عروج حاصل ہوگا۔جس کی دلیل صحیح مسلم اور سنن ابن ماجہ کی وہ حدیث ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آگاہ رہو! تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَاماً،وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن،صحیح الجامع:۱۸۹۶)’بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بعض لوگوں کو غلبہ اور عروج عطا فرماتے ہیں اور بعض لوگوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔‘‘دنیا میں عزت و عروج اور غلبہ کا وعدہ قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنے اور اس پر عمل کرنے سے مشروط ہے۔آج اگر ہم دنیا میں مغلوب و بے توقیر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کردیا ہے۔ہمارا معاشرہ ایمان،نیکی،تقویٰ،امانت،دیانت،صداقت اور شجاعت کی بجائے شرک،بدعات،ظلم،بے رحمی،قتل و غارت،لوٹ کھسوٹ،اغوا،شراب،زنا،جوا،فحاشی،بے حیائی،بدامنی،اور بد حالی میں مبتلا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے قرآنِ مجید کو ترک کردیا ہے۔بقول حکیم الامت علامہ اقبال

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

  تحریر   الشیخ عبد المومن السلفی       قسط اول  جاری۔۔۔۔۔۔۔۔

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...