بدھ، 23 نومبر، 2022

کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم


 

کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم

عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) کو مضبوطی سے تھام لے ، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کو سیکھیں ، پڑھیں ، اس میں غور وفکر کریں اور اس پر عمل کریں ۔

لیکن افسوس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تاکیدِ شدید کے باوجود آپ کی امت آج قرآن مجید سے دور ہو چکی ہے اور قرآن مجید محض الماریوں کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ بہت سارے مسلمان اسے پڑھنا تک نہیں جانتے اور جو پڑھنا جانتے ہیں ان میں سے اکثر کو پورا قرآن مجید تو کجا سورت فاتحہ تک کا معنی ومفہوم بھی معلوم نہیں۔ حفاظِ قرآن مجید تو ما شاء اللہ بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے اور اسے اپنی زندگی کا دستور بنانے والے بہت کم ہیں !

عزیزان گرامی!قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی سب سے افضل کتاب ہے اور اپنی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے بے مثال ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں بار بار یہ چیلنج فرمایاکہ تمام فصحاء وبلغاء اکٹھے مل کر اس جیسی ایک سورت بھی لا کے دکھائیں ۔ پھر اس نے یہ کھلا اعلان کیا کہ تمام جن وانس مل کر بھی اس جیسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ۔

{قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُوا بِمِثْلِ ہَـذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا}[1]

’’ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمام انس وجن مل کر اس قرآن جیسا لاناچاہیں تو اس جیسا نہیں لا سکیں گے ، چاہے وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں ۔ ‘‘

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی عظیم الشان کتاب‘ اللہ تعالیٰ نے کیوں نازل فرمائی ؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خود ارشاد فرمایا:

{کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ}[2]

’’ یہ بابرکت کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کی کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقل وخرد والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔ ‘‘

[1] الإسراء17:88 [2] ص38:29

اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے خود بھی سیکھیں اور اپنی اولاد کو بھی سکھلائیں ۔خود بھی اس میں غور فکر کریں اور اولاد کو بھی حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ وتفسیر بھی پڑھائیں تاکہ اس سے نصیحت حاصل ہو سکے ، کیونکہ قرآن مجید کا معنی ومفہوم معلوم کئے بغیر اس سے نصیحت حاصل کرنا ناممکن ہے ۔

قرآن مجید دنیوی اور اخروی بھلائیوں کی طرف انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور ایسا مضبوط راستہ دکھلاتا ہے جو انسان کو جنت تک پہنچا دیتا ہے ۔

فرمان الٰہی ہے :{ إِنَّ ہَـذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْرًا کَبِیْرًا }[1]

’’ یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ان مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کیلئے بہت بڑا اجر ہے ۔ ‘‘

یاد رہے کہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) میں دیگر احکامات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اطاعت کی جائے اور وہ جس بات کا حکم دیں اس پر عمل کیا جائے اور جس سے منع کریں اس سے پرہیز کیا جائے ۔ فرمان الٰہی ہے:

{ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ}[2]

’’ اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو‘‘

اس آیت کریمہ سے اور اس کے علاوہ دیگر کئی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں کتاب اللہ (قرآن مجید) کو مضبوطی سے تھامنا اور اسے اپنا دستورِ حیات بنانا فرض ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرنا بھی فرض ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دیا اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا تھا :

(( فَاعْقِلُوْا أَیُّہَا النَّاسُ قَوْلِیْ،فَإِنِّیْ قَدْ بَلَّغْتُ،وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہٖ : کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم [3]))

’’ اے لوگو ! میری باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لو ، میں نے یقینا اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہے : اللہ کی کتاب

[1] الإسراء17 :10 [2] محمد47 :33 [3] السنۃ للمروزی:68 من حدیث ابن عباس رضی اﷲ عنہ

اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہدایت کے چشمے ہیں اور انہی دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے سے ہی گمراہی سے بچا جا سکتا ہے ۔

(۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت تک دین ِ کامل پہنچایا

عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع ارشاد فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخرمیں لوگوں سے پوچھا کہ لوگو ! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ لوگوں کے جمِ غفیر نے بیک زباں ہو کر کہا کہ آپ نے ہمیں دینِ الٰہی پہنچا دیا ، اللہ کی امانت ادا کردی اور ہماری خیرخواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو بھی تین مرتبہ گواہ بنایا ۔۔۔۔۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دینِ الٰہی مکمل طور پر امانت داری کے ساتھ اپنی امت تک پہنچا یا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس بات کی طرف اپنی امت کی راہنمائی فرمائی جس میں اس کی خیر وبھلائی تھی ۔ ارشاد نبوی ہے :

(( مَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلَّا أَمَرْتُکُمْ بِہٖ،وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا یُقَرِّبُکُمْ إِلَی النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللّٰہِ إِلَّا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْہُ)) [1]

’’ میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کرنے والی ہے۔ ‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبھلائی کا کوئی کام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے امت کو حکم نہ دیا ہو اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے امت کو روک نہ دیا ہو ۔ تواس حقیقت کو جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ دین میں کسی قسم کی کمی بیشی ، یا نئے نئے کام ایجاد کرنے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ، ورنہ نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( معاذ اللہ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اولیں ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے !

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’مَنِ ابْتَدَعَ فِیْ الْإِسْلاَمِ بِدْعَۃً یَرَاہَا حَسَنَۃً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا  صلي اللّٰه  عليه وسلم خَانَ الرِّسَالَۃَ،اِقْرَؤُا قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی{الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ

[1] حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی،ص103

وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا}وَلاَ یَصْلُحُ آخِرُ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ إِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ أَوَّلُہَا ، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا ‘‘

’’ جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی ، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوی کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت ( اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی ( یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا ۔) اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو : ’’ آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا ، اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لئے پسند کرلیا‘‘

پھر امام مالک رحمہ اللہ نے کہا : اس امت کے آخری لوگ بھی اسی چیز کے ساتھ درست ہو سکتے ہیں جس کے ساتھ اس امت کے پہلے لوگ درست ہوئے تھے اورجو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘

اور اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر اور میدانِ عرفات ہی میں یوں کھول کر بیان فرمایا : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں اپنی اونٹنی پر سوار تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( …أَلاَ وَإِنِّیْ فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ،وَأُکَاثِرُ بِکُمُ الْأُمَمَ،فَلاَ تُسَوِّدُوْا وَجْہِیْ،أَلا وَإِنِّیْ مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا،وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّیْ أُنَاسٌ،فَأَقُوْلُ:یَا رَبِّ، أُصَیْحَابِیْ؟فَیَقُوْلُ:إِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ[1]))

’’ خبردار ! میں حوضِ ( کوثر ) پر تمھارا استقبال کرونگا اور تمھارے ذریعے دوسری امتوں پر اپنی امت کی کثرت ثابت کرونگا ۔ لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرنا ۔ خبردار ! میں لوگوں کو بچاؤں گا اور کچھ لوگوں کو مجھ سے دور رکھا جائے گا ۔ میں کہونگا : اے میرے رب ! یہ تو میرے چند ساتھی ہیں ؟ تو وہ جواب دے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیاایجاد کیا تھا ! ‘‘

لہٰذا دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا چاہئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اپنے ہر خطبۂ جمعہ میں فرمایا کرتے تھے:

(( أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ،وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا،وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ [2]))

’’حمد وثناء کے بعد ! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور امور

[1] سنن ابن ماجہ:3057۔وصححہ الألبانی [2] صحیح مسلم:867:

میں سب برا امر وہ ہے جسے ایجاد کیا گیا ہو اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘

نیز فرمایا:(( عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ،تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ،وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ [1]))

’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا ۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا ۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ [2]))

’’ جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا وہ مردود ہے ۔ ‘‘

جبکہ مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ))

’’ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین نہیں وہ مردود ہے ۔ ‘‘

عزیزان گرامی ! یہ تھا میدانِ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبۂ حجۃ الوداع ۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمین

سنن أبی داؤد:4607 ۔وصححہ الألبانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...