جمعرات، 11 مئی، 2023

صبر

 

خطبہ جمعہ    :          صبر                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُونَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِيْكَ لَهٗ۞وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه،أَمَّا بَعْدُ: فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ،

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران102]{

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1]

 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70،
صبر کی شروط :  برادران اسلام ! آپ نے اب تک صبر کے فوائد اور مختلف آزمائشوں میں اس کی اہمیت وضرورت کے بارے میں ہماری چند گذارشات سماعت کیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ صحیح معنوں میں صبر کیسے ہوتا ہے ؟ صبر کے فوائد سے حقیقی معنوں میں مستفید ہونے کیلئے اس میں تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے :

1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ صابر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے صبر کرے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً وَّیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ﴾[ الرعد13 : 22]

’’ اور جنھوں نے اپنے رب کی رضا کو طلب کرتے ہوئے صبر کیا ، نماز قائم کی اور ہم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس سے پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کیا ۔ اور وہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں ( یا گناہ کے بعد نیکی کرتے ہیں ) تو انہی لوگوں کیلئے آخرت کا گھر ہے ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ﴾[ المدثر73 : 7]  ’’ اور اپنے رب کی خاطر ہی صبر کیجئے ۔ ‘‘

2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن ہر قسم کی آزمائش میں اپنی زبان پر کوئی حرفِ شکایت نہ لائے اور کسی کے سامنے اللہ کا شکوہ نہ کرے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِی الْمُؤْمِنَ وَلَمْ یَشْکُنِی إِلیٰ عُوَّادِہٖ أَطْلَقْتُہُ مِنْ إِسَارِیْ، ثُمَّ أَبْدَلْتُہُ لَحْمًا خَیْرًا مِّنْ لَحْمِہٖ ، وَدَمًا خَیْرًا مِّنْ دَمِہٖ، ثُمَّ یَسْتَأْنِفُ الْعَمَلَ )) [الحاکم:349/1: صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی]

’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں جب اپنے بندۂ مومن کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ عیادت کیلئے آنے والوں کے سامنے میری شکایت نہیں کرتا تو میں اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہوں ، پھر اسے پہلے سے بہتر گوشت اور بہتر خون عطا کرتا ہوں ۔ پھر وہ نئے سرے سے عمل کرنا شروع کردیتا ہے ۔ ‘‘

3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن ابتدائے آزمائش سے ہی صبر کرے ، نہ یہ کہ ابتداء میں تو وہ خوب رو پیٹ لے اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعوی کرے کہ میں صابر ہوں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گذرے جو ایک قبر کے پاس

بیٹھی رو رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ )) ’’ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو ۔‘‘

اس نے کہا : آپ جائیں اپنا کام کریں ، آپ کو کیا معلوم کہ مجھ پر کتنی بڑی مصیبت آئی ہے!

پھر اسے بتایا گیا کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ تو وہ فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچی ، اسے وہاں کوئی پہرے دار نہ ملا اور وہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئی اور کہنے لگی : میں آپ کو نہیں پہچان سکی تھی ( اس لئے مجھے معاف کردیں ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأوْلیٰ[صحیح البخاری : 1283/

’ ’صبر تو ابتدائے صدمہ میں ہی ہوتا ہے ۔ ‘‘

بھی اسی کی تلقین کی ۔۔۔۔۔۔کاش اِس دور کی خواتین بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے مواقع پر بے صبری ، سینہ کوبی اور اونچی اونچی آواز سے رونے پیٹنے سے پرہیز کریں !

جسمانی تکلیفوں پر صبر:                    مختلف آزمائشوں میں سے ایک آزمائش جسمانی بیماریوں کی شکل میں آتی ہے۔ ( نسأل اللّٰه  العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ) لہٰذا جو لوگ اس قسم کی آزمائش میں مبتلا ہوں انھیں بھی صبر وتحمل ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی جسمانی بیماری میں ‘ جو تقریبا بارہ تیرہ سال جاری رہی ‘ صبر کرتے تھے اور اس دوران بار بار یہی دعا کرتے تھے کہ

﴿ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ﴾

’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی اور انھیں صحت وتندرستی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ۔

جسمانی بیماریوں میں مبتلا حضرا ت کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہنوں میں رکھنی چاہئے کہ بیماری سے شفا دینے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ۔ لہٰذا ہر وقت اسی کے سامنے عاجزی ، انکساری اور محتاجی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے عافیت کا سوال کرتے رہیں ۔ نیز انھیں اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس عظیم خوشخبری کے ساتھ تسلی دینی چاہئے جو آپ نے ایک بیمار عورت کو دی تھی ۔

عطاء بن ابی رباح جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا میں تمھیں ایک جنتی خاتون نہ دکھلاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا : یہ جو کالے رنگ کی عورت ہے ، یہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی : مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں ۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے ۔ تو آپ نے فرمایا :

(( إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّعَافِیَکِ ))

’’ اگر تم چاہو تو صبر کرو ( اور اگر صبر کروگی تو ) تمھارے لئے جنت ہے ۔ اور اگر چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھیں عافیت دے ۔ ‘‘

( اب اس خاتون نے سوچا کہ ایک طرف صبر کرنے پر آخرت میں جنت کی ضمانت ہے اور دوسری طرف

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عافیت کیلئے دعا کرنے کی پیش کش فرما رہے ہیں اور اس میں جنت کی ضمانت نہیں ہے ۔)

تو اس نے کہا : میں صبر ہی کرتی ہوں ، تاہم میں مرگی کے دورہ میں بے پردہ ہو جاتی ہوں تو آپ بس یہ دعا کر دیجئے کہ میں کم از کم بے پردہ نہ ہوں ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی ۔[ صحیح البخاری :5652،صحیح مسلم :2576]

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِیْ بِحَبِیْبَتَیْہِ فَصَبَرَ ، عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ )) یُرِیْدُ عَیْنَیْہِ [صحیح البخاری :5653]

’’ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کو اس کی آنکھوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالتا ہوں ( یعنی اس کی بینائی چھین لیتا ہوں ) پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اس کی آنکھوں کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں ۔ ‘‘

لوگوں کی اذیتوں پر صبر:                               آزمائش بعض اوقات یوں بھی آتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ کسی مسلمان کو پریشان کرتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگاتے ہیں یا طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ یا برا بھلا کہتے ہیں اور مختلف القاب سے اس کا ذکر کرکے اس کی اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔ تو اِس قسم کی آزمائش میں بھی مسلمان کو صابر ہونا چاہئے اور اسے یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لوگوں نے تو امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاف نہیں کیا ۔ کسی نے آپ کو ’’ مجنون ‘‘ کہا ، کسی نے ’’ دیوانہ شاعر ‘‘ کہا اور کسی نے ’’ ساحر ‘‘ کہا ۔اور زبانی اذیتوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اذیتیں بھی پہنچائیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر کہ ﴿ فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ﴾ [۔طہ 20: 130 ]      ’’ آپ ان کی باتوں پر صبر ہی کیجئے ‘‘ ہمیشہ صبر وتحمل کا ہی مظاہر ہ کیا ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال تقسیم کیا، ایک شخص نے کہا: یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اُس شخص کی اِس بات کے بارے میں مطلع کیا ۔ تب میں نے آپ کے چہرۂ انور پر غصے کے آثار دیکھے ۔ پھر آپ نے فرمایا :

(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِیَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ [صحیح البخاری :3405، صحیح مسلم :1062]))

’’ اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ، انھیں اِس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا ۔ ‘‘

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ،أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ [سنن الترمذی :2507، سنن ابن ماجہ :4032 ۔ وصححہ الألبانی]))

’’ جو مومن لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اُس مومن سے زیادہ اجروثواب کا مستحق ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘

(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِیَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ [

’’ اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ، انھیں اِس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا ۔ ‘‘

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ،أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ

’’ جو مومن لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اُس مومن سے زیادہ اجروثواب کا مستحق ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘

حکمرانوں کے ظلم پر صبر:                         آزمائشوں میں سے ایک آزمائش رعایا پر حکمرانوں کے ظلم کی صورت میں آتی ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات وہ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام کو نافذ کرکے عوام پر ظلم کرتے ہیں ۔ بعض اوقات بے گناہ لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث کرکے پریشان کرتے ہیں ۔ بعض اوقات مجرم پیشہ لوگوں کو چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں لوگوں کی عزتوں اور ان کے اموال کو لوٹیں اور ان کی جانوں سے کھیلتے رہیں ۔ بعض اوقات اہل اور باصلاحیت افراد کو ان کے حقوق سے محروم کرکے سفارشوں اور رشوت کے ذریعے نا اہل لوگوں کو نوازا جاتا ہے اور بعض اوقات اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار غریب عوام کا خون پسینہ چوستے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے پر ہی تلے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سو اِس قسم کی آزمائشوں میں بھی انسان کو دامن ِ صبر نہیں چھوڑنا چاہئے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ )) [ صحیح مسلم : 1849)

’’ جو شخص اپنے حکمران سے کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھے تو اس پر صبر کرے ۔ ‘

بیٹیوں کی آزمائش پر صبر:               بعض اوقات انسان اپنی بیٹیوں کی وجہ سے بھی آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے ، مناسب تعلیم وتربیت نہ ہونے

کی وجہ سے ، یا ان کیلئے مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے ، یا اولاد میں صرف بیٹیاں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ تو اس قسم کی آزمائش میں بھی والدین کو مکمل صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انہیں اپنے لئے باعث ِ خیر وبرکت تصور کرتے ہوئے اور روزِ قیامت انھیں اپنے لئے باعث ِ نجات سمجھتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت پر پوری توجہ دینی چاہئے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْیٍٔ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ [سنن الترمذی :1913۔ وصححہ الألبانی]))

’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح سے آزمائش میں ڈالا جائے ، پھر وہ ان پر صبر کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘

اور صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے آئی، اس نے مجھ سے کچھ مانگا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ ملا ۔ چنانچہ میں نے وہی کھجور اس کو دے دی ۔ اس نے اس کے دو حصے کئے اور دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی کھجور دے دی اور خود اس نے کچھ نہ کھایا اور چلی گئی ۔ پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو اُس کے بارے میں بتایا ۔ تب آپ نے ارشاد فرمایا :

(( مَنِ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْیٍٔ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ [البخاری:1418،5995، مسلم :2629]))

’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح آزمایا جائے ، پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ )) وَضَمَّ أَصَابِعَہُ

’’ جو آدمی دو بچیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو قیامت کے روز وہ اور میں ایسے اکٹھے ہونگے جیسے یہ انگلیاں اکٹھی ہیں ۔ ‘‘[صحیح مسلم :2631]

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔
اللّٰهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔

جمعرات، 20 اپریل، 2023

عید کی چند مسائل

 الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


عید کی رات:

اس رات میں عبادت کرنے کے متعلق متعدد احادیث مروی ہیں، ایک دو پیش خدمت ہیں:


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔ (ابن ماجه: ص۱۲۸ باب فیمن قام لیلتی العیدین الترغیب والترھیب ج۲ص۶۵۲)


’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا جو شخص ثواب کی نیت سے عیدین راتوں کو زندہ رکھے گا، یعنی عبادت میں لگا رہے گا تو حشر کے روز اس کا دل زندہ رہے گا۔‘‘


۲۔ عیدین کی رات بکثرت عبادت کرنے والے قیامت کے روز عذاب سے مامون وسلامت رہیں گے۔ (طبرانی)


بہرحال اس سلسلہ میں مرفوع حدیثیں بھی آئی ہیں جو ضعیف ہیں۔ (دیکھئے مجمع الزروائد: ص۱۹۹۔ تلخیص الحبیر: ص۸۰ح۲)


غسل:

عیدکے دن غسل مستحب ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین عیدین کے دن غسل کیا کرتے تھے۔ زادالمعاد میں ہے:  وکان یقتسل لعیدین وصح الحدیث فیہ۔


وَلٰکِن ثَبَتَ عَنِ ابْنِ عمر مَعَ شِدَّۃِ اِتباعه لِسُّنَّة انہ کان یغْتَسِلُ یَوْمَ العید۔ (زادالمعاد: ج۱ص۴۴۶)


’’نماز سے رسول اللہﷺ عیدین کی نماز قبل غسل کیا کرتے تھے اس بارے میں صحیح حدیث بھی مروی ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت میں بڑے سخت تھے وہ بھی عیدکی دن غسل کیا کرتے تھے۔‘‘


نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہننا

آنحضرتﷺ سے عیدکے لئے نئے کپڑے رکھنے ثابت ہیں:


جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْبَسُ بُرْدَ حِبَرَةَ فِي كُلِّ عِيدٍ۔ (رواہ الشافعی، نیل الاوطار: ص۳۲۲ج۳)


’’رسول اللہﷺ ہر عید کے موقع پر اچھی قسم کا یمنی لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔‘‘


خوشبو:

عید کے دن خوشبو لگانے کے استحباب میں بہت سی روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے:


عَن حَسَن أَنَّه أَمَرَنَا رَسُولُ اللہﷺ أَن نَّتَطَیّٰبَ ب،أَوجْوَدَمَا نَجِدُ فِی العیدین۔ (تلخیص الحبیر: کتاب صلوة العیدین ج۲ص۸۱)


’’آنحضرتﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم عیدین میں عمدہ ترتین خوشبو لگایا کریں۔‘‘


کچھ کھا کر عید الفطر پڑھنی چاہیے:

اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔ ایک یہ بھی ہے:


عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَغْدُو يَوْمَ الفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا۔ (رواہ احمدوبخاری ج۱ص۱۳۰)


’’حضرت نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن چند کھجوریں تناول فرما کر نماز ادا کرنے کے لئے عید گاہ تشریف لے جاتے۔‘‘


معلوم ہوا کہ عیدالفطر کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھانا سنت ہے، اگرکھجوریں کھائی جائیں تو وتر کھائی جائیں۔


یا پیادہ جانا چاہیے:

نماز عید کی ادائیگی کے لیے پیدل جانا بہتر ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار مروی ہیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:


قَالَ مِنَ السُّنَّة أَنَ یَخْرُجَ أِلَی العید مَا شیا۔وقال الترمذی حدیث حسن۔ (ترمذی مع تحفة الأحوذی، نیل الأوطار ج۳ص۴۲۴)


’’عید پڑھنے کے لئے پیدل جانا سنت ہے۔‘‘


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق لکھا ہے:


كَانَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَیعودُ مَاشِيًا» (سبل السلام: ج۳ص۷۰)


’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے لئے پیدل آیا جایا کرتے تھے۔‘‘


نیل الاوطار میں ہے:


وَقَدْ ذَهَبَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ إلَى أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَأْتِيَ إلَى صَلَاةِ مَاشِيًا۔ (نیل الأوطار: ص۳۲۶ج۳)


’’اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ نماز عید کے لئے پیدل جانا مستحب ہے۔‘‘


عورتیں نماز عید میں ضرور جائیں:

عورتیں نماز عیدمیں ضرور شرکت کریں بلکہ حائضہ عورتیں بھی ضرور جائیں اور مومنین کی دعا میں شرکت کریں۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:


عَنْ أُم عطیة قَالَت أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ نُخْرِجَ العَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حفصه وَيَعْتَزِلْنَ الحُيَّضُ المُصَلَّى۔ (بخاری: ص۴۵ج۱باب شھود الحائض العیدین)


’’حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ہمیں فرمایا کہ ہم نوجوان پردہ داروں حتی کہ حیض والی عورتوں کو بھی لے کر عیدگاہ چلیں تاکہ وہ برکت کے مقام پر حاضر ہوں اور مومنوں کی دعا شرکت کریں، البتہ حائضہ عورتیں نماز عید میں شرکت نہ کریں ۔‘‘


وضاحت:

حنفیہ کے ہاں عورتوں کو عیدگاہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے، لیکن ان کا یہ فتویٰ صحیح احادیث کے خلاف ہے، تاہم محققین حنفیہ نے بھی اب اجازت دے دی ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:


إِستحَبَّ خُرُوجُ الجَمِیْعِ حَتَّی الصِّیبیان والنساء۔ (حجة اللہ البالغة: ج۲ص۲۷)


’’(عید چونکہ اسلام کا شعار ہے لہٰذا) مردوں کے علاوہ سب بچوں اور عورتوں کا بھی عیدگاہ جانا مستحب ہے۔‘‘


حضرت انور شاہ کاشمیری فرماتے ہیں:


أصل مذھبنا جواز خروج النساء إلی العیدین۔ (العرف الشذی: ص۲۴۲)


’’ہمارا اصل مذہب تو یہی ہے کہ عورتیں عید گاہ میں جا سکتی ہیں۔‘‘


عورتوں کو عید کی نماز میں سنگھار وغیرہ کرن کے جانے سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ لازم آتا ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہےکہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضروری ہے کہ عورتیں عید گاہ میں حاضر ہوں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:


أنھما قال حق علی کل ذات نطاق الخروج إلی العیدین۔ (فتح الباری: پ۴ص۵۳۰)


علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


وَالْحَدِيثُ وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ۔ (نیل الاوطار: ص ۳۲۷ج۳)


’’ام عطیہ والی حدیث اور دوسری ہم معنی حدیثوں سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا شرعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے۔ کنواری، بیوہ، جوان، بوڑھی اور حائضہ میں فرق کئے بغیر، مگر یہ کہ وہ عدت گزار رہی ہو یا اس کا نکلنا فتنہ کا باعث ہو اور یا پھر وہ معذور ہو۔‘‘


امام محمد بن اسماعیل الیمانی فرماتے ہیں:


وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى وُجُوبِ إخْرَاجِهِنَّ، وَفِيهِ أَقْوَالٌ ثَلَاثَةٌ (: الْأَوَّلُ) : أَنَّهُ وَاجِبٌ، وَبِهِ قَالَ الْخُلَفَاءُ الثَّلَاثَةُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِيٌّ وَيُؤَيِّدُ الْوُجُوبَ مَا أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ، وَالْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُخْرِجُ نِسَاءَهُ وَبَنَاتَهُ فِي الْعِيدَيْنِ۔ (سبل السلام: ص۶۵ج۲)


’’عورتوں کو عید گاہ لے جانے پر حدیث وال ہے۔ اس میں تین قول ہیں: (۱) عورتوں کا نماز عید میں شریک ہونا واجب ہے، یہ قول تین کلفائے راشدین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے، عورتوں کو عید گاہ لے جانے کے وجوب پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ آنحضرتﷺ امہات المومنین اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جانا کرتے تھے۔‘‘ اور آپ کا یہ عمل ساری زندگی جاری رہا۔‘‘


صدقۃ الفطر کے مختصر احکام:

زَکوٰۃُ الفطر طُھْرَۃُ لِّلصَّائِمِ م،نَ اللَّغوِ والرفث طعمة للمساکین۔ (ابوداؤد، ابن ماجه وغیرہ ص۱۳۲)


’’صدقۃ الفطر روزے دار کے روزہ کو لغو اور بے ہودہ باتوں کے نقصان سے بچانے اور عید کی خوشیوں میں مساکین کو شامل کرنے کا نام ہے۔‘‘


صدقۃ الفطر ہر ایک پر واجب ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ۔ (بخاری: ج۱ص۲۱۴)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صدقہ فطر فرض قرار دیا ہے غلام، آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر۔‘‘


حنفیہ اور بعض دوسرے حلقون کے نزدیک صدقہ فطر کے لئے صاحب زکوٰۃ ہونا ضروری ہے، مگر ان کا یہ کیال درست نہیں۔


چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


ولا یعتبرو فی زکوة الفطر ملک نصاب بل تحب علی من ملک صاعا فاضلا عن قوت یوم العید ولیلة وھو قول الجمھور۔ (اختیارات ابن تیمیة)


’’صدقہ فطر کی ادائیگی کے لئے صاحب نصاب ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ صدقہ فطر ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس عید کے د ن اور رات کی جرورت سے فاضل ایک صاع غلہ ہو۔‘‘


چنانچہ حدیث سابق (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کی شرح میں ہے:


وَفِيهِ دَلِيلٌ لِلشَّافِعِيِّ وَالْجُمْهُورِ فِي أَنَّهَا تَجِبُ عَلَى مَنْ مَلَكَ فَاضِلًا عَنْ قُوتِهِ وَقُوتِ عِيَالِهِ يَوْمَ الْعِيدِ۔ (نووی شرح مسلم: ص۲۱۷ج۱)


۴۔ صدقہ فطر ایک صاع فی کس دینا ضروری ہے، کوئی جنس بھی ہو، گیہوں کے نصف صاع ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں اور ابو سعید کدری رضی اللہ عنہ کی نص صریح کے مقابلہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےقیاس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کسی نے صحیح حدیث کے مقابلہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قیاس پر عمل کرنا ہی ہو تو پھر وہ اچھی قسم کی کشمش یا کھجوروں کا نصف صاع دے۔ کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شامی گندم عربوں کو ایسی ہی مہنگی پرتی تھی جیسے آج کل ہمارے ہاں کھجور اور کشمش مہنگی پرتی ہے۔ بہرحال ہمار فتویٰ صحیح حدیث پر ہے کہ فی کس پورا صاع ادا کیا جائے، احتیاط بھی اسی میں ہے۔


۵۔ ہر چند کے صاع کے وزن میں خاصا اختلاف ہے، تاہم حضرت شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ صاحب رحمہ اللہ کا سند کے مطابق صاع کا وزن تقریباً ۲ سیر گیارہ چھٹانک بنتا ہے۔ (اعشاری نظام کے مطابق صاع کا وزن ٹھیک اڑھائی ۱؍۲-۲کلو ہے۔ عفیف غفرلہ ولوالدیہ)


صدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا چاہیے:

عید الفطر کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا جروری ہے، ورنہ بعد از نماز عید صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا بلکہ وہ عام صدقہ ہوگا۔


۱۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ (ابن ماجة: ص۳۶ باب صدقة الفطر)


۲۔ عن ابن عمر أن رسول اللہﷺ کَانَ یأمُرُ بإخراجِ الزکوة قبل الخروج للصلوة یوم الفطر۔ (تحفة الأحوذی: ص۲۹ج۲)


’’آنحضرتﷺ نماز عید کو جانے سے پہلے صدقہ ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ورنہ بعد میں یہ عام صدقہ  ہوگا۔


عید کھلے میدان میں:


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «أَصَابَ النَّاسَ مَطَرٌ فِي يَوْمِ عِيدٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ فِي الْمَسْجِدِ» (ابن ماجة: ص ۹۴، عون المعبود: ص۴۵۱ج۱)


’’عید کے دن بارش آگئی تو آنحضرتﷺ نے لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھائی۔‘‘


زادالمعاد میں ہے:


وھدية ن فعلھما فی المصلی دائما وَلَمْ يُصَلِّ الْعِيدَ بِمَسْجِدِهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فَصَلَّى بِهِمُ الْعِيدَ فِي الْمَسْجِدِ۔ (زاد المعاد: ص۱۲۱ج۱)


’’آنحضرتﷺ نے نماز عیدین ہمیشہ کھلے میدان میں ادا فرمائی، صرف ایک دفعہ بارش کی وجہ سے مسجد میں پڑھی تھی(بخاری شریف میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو بخاری شریف، ص: ۱۳۱)


عید کی نماز کا وقت:

عیدالاضحیٰ کی نماز کا وقت اگرچہ بہ نسبت عیدالفطر کے پہلے ہوجاتا ہے، تاہم سورج کے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد عیدالفطر کی نماز کا وقت بھی ہوجاتا ہے۔ ابو داؤد میں ہے:


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّاسِ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ: «إِنْ كُنَّا لَقَدْ فَرَغْنَا فِي سَاعَتِنَا ھٰذَا۔ (عون المعبود: ص۴۴۱ ج۱، ابن ماجه، سکت عنه ابو داأد والمنذری ورحال اسنادہ عن ابی داؤد ثقات، نیل الاوطار: ص۳۲۲ج۳)


’’پیش امام نے نماز عیدالفطر یانماز عیدالاضحیٰ میں کر دی تو حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے اس تاخیر پر تنقید کرنے ہوئے کہا کہ ہم چاشت کے وقت نماز عید سے فارغ ہوجایا کرتے تھے۔‘‘


عن جندب رضی اللہ عنہ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُصَلِّي بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ، وَالشَّمْسُ عَلَى قَيْدِ رُمْحَيْنِ وَالْأَضْحَى عَلَى قِيدِ رُمْحٍ۔ (تلخیص الحبیر: ص۱۴۴ج۱)


’’حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ ہمیں عیدالفطر اس وقت پڑھایا کرتے تھے جب سورج دو نیزے پر ہوتا تھا اور نماز عیدالاضحیٰ اس وقت پڑھایا کرتے تھے جب سورج ایک نیزے پر ہوتا تھا۔‘‘


عیدین کے لئے اذان اور تکبیر نہیں:

عیدین کی نمازوں کے لئے اذان کہنی جائز نہیں ہے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:


صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَيْنِ، غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ، بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ۔ (مسلم، ابوداؤد، ترمذی ونیل الاوطار:ص ۳۳۵ج۳)


’’میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ متعدد دفعہ عید کی نمازیں بغیر تکبیر اور اذان کے پڑھی ہیں۔‘‘(بخاری شریف ص۱۳۱ج۱ابھی ملاحظہ فرمائیے)


عیدگاہ مین منبر نہیں چاہیے:

عیدگاہ میں منبر لے جان خلاف سنت ہے، تاہم مروان بن حکم نے سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر عیدگاہ میں منبر کو استعمال کیا تھا جس پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے سخت تنقید فرمائی تھی۔ بخاری شریف (ص۱۳۱ج۱) میں ہے:


فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ - وَهُوَ أَمِيرُ المَدِينَةِ - فِى أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا المُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ


ابو داؤد میں ہے:


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ، خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ فِيهِ،۔ (یون المعبود: ص۴۴۳ج۱)


صاحب عون المعبود کے مطابق ایک اور شخص نے روکا ہوگا جس کا نام عمارہ بن رویبہ ہے۔(عون المعبود جا، ص۴۴۱) مطلب یہ ہے کہ پہلے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ار بعد میں اس شخص (عمارہ) نے مروان کو منع کیا ہوگا۔


عید سےپہلے یا بعد کوئی نماز نہیں:

حدیث شریف کے مطابق عید سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہیں ہے، تاہم گھر واپس آ کر نفلی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الفِطْرِ، وصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا۔ (تحفة الاحوذی: ص۳۷۸ج۱)


’’جناب نبی کریمﷺ عیدک الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی، عید کی دو رکعتوں سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہ پڑھی۔‘‘


طریقہ:

اس نماز کی دو رکعتیں ہیں۔ دونوں رکعتوں میں باقی نمازوں کے برعکس کچھ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں۔ بدیں وجہ ان کو تکبیرات زوائد کہا جاتا ہے۔ ان ی گنتی اور ان کے مقام میں سخت اختلاف ہے۔ بقول امام الحقق شوکانی رحمہ اللہ ان تکبیروں کی تعداد اور مقام کے متعلق علمائے سلف کے دس اقوال ہیں۔ (شوکانی ص ۳۳۹ج۳) ہم ان میں سے صحیح تر اقوال لکھنے پر اکتفا کریں گے۔


صحیح مسلک یہ ہے  کہ انتقال کی تکبیروں کے علاوہ کل بارہ تکبیریں کہنی چاہییں، سات پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے اور پانچ دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے۔ ازروئے دلائل ہمارے نزدیک یہی مسلک راجح ہے، دلائل یہ ہیں؛


عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي عِيدٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً، سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ۔ (نیل الأوطار: ص۳۳۸ج۳ باب عدد تکبیرات)


زائد تکبیروں میں آنحضرتﷺ کا عمل یہ ہے کہ آپﷺ نے پہلی رکعت میں سات اوردوسری میں پانچ تکبیریں کہیں۔


وفی رواية قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا۔ (رواہ احمدوابن ماجة۔ نیل الأوطار: س۳۳۸ج۳، قال المحافظ فی التلخیص صححه احمد وعلی بن المدنی والبخاری وقال العراقی إسنادہ صالح، عون المعبود: ص۴۴۶ج۱)


’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: عیدالفطر میں بارہ تکبیریں ہیں۔ سات پہلی رکعت میں اراء سے پہلے اور پانچ دوسری میں قرأت سے پہلے۔‘‘


۳۔ سنن دار قطنی میں انہی عداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے:


أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً فِي الْأُولَى سَبْعًا وَفِي الْأَخِيِرَةِ خَمْسًا سِوَى تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ۔


قال شمس الحق فی المغنی حدیث عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ۔ (اخرجه ابو داؤد وابن ماجه قال الترمذی فی علله الکبیر قال البخاری حدیث الطائفی ایضا صحیح والطائفی مقارب الحدیث، دار قطنی معنی ج۲ص۴۸ زادالمعاد ج۱ص۴۴۴)


۴۔  مؤطا امام مالک اور مؤطا امام محمد میں ہے:


عن نافع أَنَّهُ قَالَ: شَهِدْتُ الْأَضْحَى وَالْفِطْرَ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ. فَكَبَّرَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ. وَفِي الآخِرَةِ خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ  قَبْلَ الْقِرَاءَةِ۔ (موطا امام مالک ص۱۶۶)


’’نافع کہتے ہیں کہ میں نے دونوں عیدیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھیں، انہوں نے پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہیں اور دونوں میں قرأت سے پہلے۔‘‘ (یہ اثر حکماً مرفوع ہے)


ھٰذَا لَا یَکُونُ رأیَا اِلَّا تَوْقیفا یجب التسْلِیمُ۔ (تعلیق الممجد ص۱۴۱ کشف الغطا حاشیه ۵ ص۱۶۶)


’’یہ اجتہادی بات نہیں ہوسکتی۔ آنحضرتﷺ کا حکم ضرور ہوگا۔ لہٰذایہ واجب التسلیم ہے۔‘‘


امام شوکانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


قَالَ الْعِرَاقِيُّ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَالْأَئِمَّةِ قَالَ وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وبن عمر وبن عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعَائِشَةَ وَهُوَ قَوْلُ الْفُقَهَاءِ السَّبْعَةِ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالزُّهْرِيِّ وَمَكْحُولٍ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ،قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَإِسْحَاقُ إِنَّ السَّبْعَ فِي الْأُولَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ۔ (نیل الاوطار: ص۳۳۹ج۳)


’’امام عراقی بارہ تکبیروں کے متعلق کہتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور ائمہ دین سے اکثر کا مذہب یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ،حضرت علی،حضرت ابوہریرہ،اابوسعید،جابر بنعبداللہ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بنعباس، ابو ایوب، زیدبن ثابت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی قول ہے۔ فقہائے سبعہ، یعنی سعید بن میتب عروی بن زبیر، قاسم بن محمد، ابوبکر بن عبدالرحمان، کارجہ بن زید، سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار کا یہی مذہب ہے(یہ سب اہل مدینہ ہیں) اور یہی مذہب ہے عمر بن عبدالعزیز زہری کا، اور اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہ اللہ سب اسی کے قائل ہیں‘‘

امام محمد حضرت نافع والی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:


قَدِ اخْتُلِفَ النَّاسُ فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ، فَمَا أَخَذْتَ بِهِ فَهُوَ حَسَنٌ وَأَفْضَلُ ذَلِكَ عِنْدَنَا مَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ۔ (مؤطا امام محمد: ص۱۴۱)


’’لوگوں کا عیدین کی تکبیروں میں اختلاف ہے جس پر تو عمل کرے اچھا ہے، لیکن ہمارے نزدیک نو تکبیروں والی روایت جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، افضل ہے۔‘‘


تکبیروں میں رفع یدین:

کسی مرفوع اور صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ آنحضرتﷺ سے زوائد تکبیروں میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ عون المعبود میں ہے:


وَأَمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي تَكْبِيرَاتِ الْعِيدَيْنِ فَلَمْ يَثْبُتْ فِي حَدِيثٍ صَحِيحٍ مَرْفُوعٍ۔ (عون المعبود، ج۱ص۴۴۸)


تاہم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما متبع سنت ہونے کے باوصف زوائد تکبیروں میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ (زاد المعاد ص۱۲۱ج۱)


خطبہ نماز عید کے بعد:

نماز عید ادا کرنے کے بعد خطبہ پڑھنا چاہیے:


عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ۔ رواہ الجماعة إلا اباداؤد۔ (نیل الأوطار: ص۳۳۳ج۳)


’’آنحضرتﷺ، سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ سے پہلے نماز عید ادا فرمایا کرتے تھے۔‘‘


خطبہ :

امام مالک فرماتے ہیں:


لا ینصرف حتی ینصرف الامام۔ (موطا امام مالک: ص۱۶۹)


’’خطبہ سنے بغیر نہ جانا چاہیے۔‘‘


مدد نہ وغیرہ کتب میں ہے کہ آپﷺ خطبہ عید میں تقویٰ، خشیت الہٰی اور اطاعت الہٰی پر زور دیتے اور امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا وعظ فرماتے، جہاد وغیرہ کے لئے چندہ کی اپیل بھی کرتے۔


راستہ بدل کر آنا چاہیے:

بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور دوسری کتب حدیث میں ہے کہ آپﷺ نماز عیدین ادا کرکے راستہ بدل کر تشریف لاتے۔


ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

جمعرات، 2 مارچ، 2023

ج: قیامت کی نشانی

ج: قیامت کی نشانی:   اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَ...

منگل، 21 فروری، 2023

انسان۔ Humans


Humans are an incredibly complex and fascinating species, with an amazing ability to adapt and innovate in order to survive and thrive in different environments. From our unique physical and cognitive abilities, to our social and emotional intelligence, humans are capable of remarkable feats that have helped us to become the dominant species on the planet.

One of the most distinctive features of humans is our large and complex brain, which allows us to think, reason, and solve problems in ways that no other species can. Our ability to process information and learn from experience has enabled us to develop advanced tools and technologies, and to create complex social systems and cultures that have helped us to survive and prosper in a wide variety of environments.

In addition to our cognitive abilities, humans also possess a range of physical and sensory capabilities that allow us to interact with the world around us in a unique and meaningful way. We have a highly developed sense of touch, taste, smell, sight, and hearing, which enables us to perceive and understand our environment in ways that no other species can. We can communicate through speech, writing, and body language, and we can express ourselves through art, music, and other creative endeavors.

At the same time, humans are also deeply social creatures, with a strong need for connection and community. We form strong emotional bonds with others, and we are able to empathize with and understand the feelings and experiences of those around us. Our ability to work together and collaborate has enabled us to achieve remarkable feats, from building great civilizations to exploring the depths of space.

Of course, like all species, humans also have their flaws and weaknesses. We can be selfish, greedy, and violent, and we have caused tremendous harm to each other and to the planet as a whole. But we also have the ability to learn from our mistakes and to work together to create a better world.

In the end, humans are a remarkable and unique species, with the capacity for both great good and great evil. Whether we use our abilities to create a better world for ourselves and for future generations, or to perpetuate the destructive patterns of the past, will depend on the choices we make as individuals and as a society

ہفتہ، 7 جنوری، 2023

Muslim Scientists in Histor

 



Muslim Scientists in History

Islamic Ist scientist

There have been many Muslim scientists throughout history who made significant contributions to the fields of science and technology. Some famous examples include:



Al-Khwarizmi (c. 780-850), a mathematician and astronomer who is considered the "father of algebra" and introduced the Hindu-Arabic numeral system to the Islamic world.



Avicenna (980-1037), a philosopher and scientist who made significant contributions to the fields of medicine, psychology, and natural sciences.


Al-Biruni (973-1050), a polymath who made important contributions to the fields of mathematics, astronomy, and geography.


Al-Zahrawi (936-1013), a physician and surgeon who made important contributions to the fields of surgery and medicine.


Al-Kindi (c. 801-873), a philosopher and mathematician who made important contributions to the fields of mathematics, philosophy, and natural sciences.


These are just a few examples of the many Muslim scientists who have made significant contributions to the fields of science and technology.



جمعہ، 6 جنوری، 2023

What is data science



What is data science 


Data science is a field that uses scientific methods, processes, algorithms and systems to extract knowledge and insights from structured and unstructured data. It involves using a variety of techniques and tools, such as machine learning, statistical analysis, and visualization, to extract useful information from data and communicate it effectively. Data scientists often work on complex, data-rich projects, and may be responsible for collecting, cleaning, and organizing data, as well as building and deploying models to analyze and make predictions from the data.

Islam in Golden Age

 


Islam Golden Age


The Golden Age of Islam, also referred to as the Islamic Golden Age, was a period of cultural, economic, and scientific flourishing in the history of Islam, traditionally dated from the 8th century to the 13th century. During this time, many great scholars and intellectuals made significant advances in various fields such as mathematics, science, medicine, and philosophy, and the Islamic empire expanded to include a large part of the world, including parts of Europe, Africa, and Asia. This period is often cited as a time of great cultural and intellectual achievement, and it has had a lasting influence on the world.


scientific flourishing in the history of Islam, traditionally dated from the 8th 


century to the 13th century. During this time, many great scholars and intellectuals made significant advances in various fields such as mathematics, science, medicine, and philosophy. Some notable figures from this period include Al-Khwarizmi, who is considered the father of algebra and the first to use the term "algebra"; Al-Biruni, who made significant contributions to the fields of mathematics, physics, and astronomy; Al-Razi, who was a pioneer in the field of medicine and made important contributions to the understanding of smallpox and measles; and Avicenna, who was a philosopher and physician known for his contributions to the fields of medicine and philosophy. These scholars and many others made important contributions to the advancement of scientific knowledge and helped to lay the foundations for many of the scientific discoveries and innovations that have been made since.

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...