اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 11 مئی، 2023

صبر

 

خطبہ جمعہ    :          صبر                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنُؤْمِنُ بِه وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِيَ لَهُونَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِيْكَ لَهٗ۞وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُه،أَمَّا بَعْدُ: فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِِْ،

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [آل عمران102]{

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1]

 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (71)} [الأحزاب: 70،
صبر کی شروط :  برادران اسلام ! آپ نے اب تک صبر کے فوائد اور مختلف آزمائشوں میں اس کی اہمیت وضرورت کے بارے میں ہماری چند گذارشات سماعت کیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ صحیح معنوں میں صبر کیسے ہوتا ہے ؟ صبر کے فوائد سے حقیقی معنوں میں مستفید ہونے کیلئے اس میں تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے :

1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ صابر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے صبر کرے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً وَّیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ﴾[ الرعد13 : 22]

’’ اور جنھوں نے اپنے رب کی رضا کو طلب کرتے ہوئے صبر کیا ، نماز قائم کی اور ہم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس سے پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کیا ۔ اور وہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں ( یا گناہ کے بعد نیکی کرتے ہیں ) تو انہی لوگوں کیلئے آخرت کا گھر ہے ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ﴾[ المدثر73 : 7]  ’’ اور اپنے رب کی خاطر ہی صبر کیجئے ۔ ‘‘

2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن ہر قسم کی آزمائش میں اپنی زبان پر کوئی حرفِ شکایت نہ لائے اور کسی کے سامنے اللہ کا شکوہ نہ کرے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِی الْمُؤْمِنَ وَلَمْ یَشْکُنِی إِلیٰ عُوَّادِہٖ أَطْلَقْتُہُ مِنْ إِسَارِیْ، ثُمَّ أَبْدَلْتُہُ لَحْمًا خَیْرًا مِّنْ لَحْمِہٖ ، وَدَمًا خَیْرًا مِّنْ دَمِہٖ، ثُمَّ یَسْتَأْنِفُ الْعَمَلَ )) [الحاکم:349/1: صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی]

’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں جب اپنے بندۂ مومن کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ عیادت کیلئے آنے والوں کے سامنے میری شکایت نہیں کرتا تو میں اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہوں ، پھر اسے پہلے سے بہتر گوشت اور بہتر خون عطا کرتا ہوں ۔ پھر وہ نئے سرے سے عمل کرنا شروع کردیتا ہے ۔ ‘‘

3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ بندۂ مومن ابتدائے آزمائش سے ہی صبر کرے ، نہ یہ کہ ابتداء میں تو وہ خوب رو پیٹ لے اور پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعوی کرے کہ میں صابر ہوں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گذرے جو ایک قبر کے پاس

بیٹھی رو رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ )) ’’ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو ۔‘‘

اس نے کہا : آپ جائیں اپنا کام کریں ، آپ کو کیا معلوم کہ مجھ پر کتنی بڑی مصیبت آئی ہے!

پھر اسے بتایا گیا کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ تو وہ فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچی ، اسے وہاں کوئی پہرے دار نہ ملا اور وہ سیدھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئی اور کہنے لگی : میں آپ کو نہیں پہچان سکی تھی ( اس لئے مجھے معاف کردیں ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأوْلیٰ[صحیح البخاری : 1283/

’ ’صبر تو ابتدائے صدمہ میں ہی ہوتا ہے ۔ ‘‘

بھی اسی کی تلقین کی ۔۔۔۔۔۔کاش اِس دور کی خواتین بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے مواقع پر بے صبری ، سینہ کوبی اور اونچی اونچی آواز سے رونے پیٹنے سے پرہیز کریں !

جسمانی تکلیفوں پر صبر:                    مختلف آزمائشوں میں سے ایک آزمائش جسمانی بیماریوں کی شکل میں آتی ہے۔ ( نسأل اللّٰه  العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ) لہٰذا جو لوگ اس قسم کی آزمائش میں مبتلا ہوں انھیں بھی صبر وتحمل ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی جسمانی بیماری میں ‘ جو تقریبا بارہ تیرہ سال جاری رہی ‘ صبر کرتے تھے اور اس دوران بار بار یہی دعا کرتے تھے کہ

﴿ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ﴾

’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی اور انھیں صحت وتندرستی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ۔

جسمانی بیماریوں میں مبتلا حضرا ت کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہنوں میں رکھنی چاہئے کہ بیماری سے شفا دینے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ۔ لہٰذا ہر وقت اسی کے سامنے عاجزی ، انکساری اور محتاجی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے عافیت کا سوال کرتے رہیں ۔ نیز انھیں اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس عظیم خوشخبری کے ساتھ تسلی دینی چاہئے جو آپ نے ایک بیمار عورت کو دی تھی ۔

عطاء بن ابی رباح جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد تھے ، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : کیا میں تمھیں ایک جنتی خاتون نہ دکھلاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا : یہ جو کالے رنگ کی عورت ہے ، یہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی : مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میں بے پردہ ہو جاتی ہوں ۔ لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے ۔ تو آپ نے فرمایا :

(( إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَکِ الْجَنَّۃُ ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّعَافِیَکِ ))

’’ اگر تم چاہو تو صبر کرو ( اور اگر صبر کروگی تو ) تمھارے لئے جنت ہے ۔ اور اگر چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمھیں عافیت دے ۔ ‘‘

( اب اس خاتون نے سوچا کہ ایک طرف صبر کرنے پر آخرت میں جنت کی ضمانت ہے اور دوسری طرف

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عافیت کیلئے دعا کرنے کی پیش کش فرما رہے ہیں اور اس میں جنت کی ضمانت نہیں ہے ۔)

تو اس نے کہا : میں صبر ہی کرتی ہوں ، تاہم میں مرگی کے دورہ میں بے پردہ ہو جاتی ہوں تو آپ بس یہ دعا کر دیجئے کہ میں کم از کم بے پردہ نہ ہوں ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا فرمائی ۔[ صحیح البخاری :5652،صحیح مسلم :2576]

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ : إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِیْ بِحَبِیْبَتَیْہِ فَصَبَرَ ، عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ )) یُرِیْدُ عَیْنَیْہِ [صحیح البخاری :5653]

’’ بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندے کو اس کی آنکھوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالتا ہوں ( یعنی اس کی بینائی چھین لیتا ہوں ) پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں اس کی آنکھوں کے بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہوں ۔ ‘‘

لوگوں کی اذیتوں پر صبر:                               آزمائش بعض اوقات یوں بھی آتی ہے کہ لوگ خواہ مخواہ کسی مسلمان کو پریشان کرتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگاتے ہیں یا طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ یا برا بھلا کہتے ہیں اور مختلف القاب سے اس کا ذکر کرکے اس کی اذیت کا سبب بنتے ہیں ۔ تو اِس قسم کی آزمائش میں بھی مسلمان کو صابر ہونا چاہئے اور اسے یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لوگوں نے تو امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاف نہیں کیا ۔ کسی نے آپ کو ’’ مجنون ‘‘ کہا ، کسی نے ’’ دیوانہ شاعر ‘‘ کہا اور کسی نے ’’ ساحر ‘‘ کہا ۔اور زبانی اذیتوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اذیتیں بھی پہنچائیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر کہ ﴿ فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُوْلُوْنَ﴾ [۔طہ 20: 130 ]      ’’ آپ ان کی باتوں پر صبر ہی کیجئے ‘‘ ہمیشہ صبر وتحمل کا ہی مظاہر ہ کیا ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال تقسیم کیا، ایک شخص نے کہا: یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والی نہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اُس شخص کی اِس بات کے بارے میں مطلع کیا ۔ تب میں نے آپ کے چہرۂ انور پر غصے کے آثار دیکھے ۔ پھر آپ نے فرمایا :

(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِیَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ [صحیح البخاری :3405، صحیح مسلم :1062]))

’’ اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ، انھیں اِس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا ۔ ‘‘

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ،أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ [سنن الترمذی :2507، سنن ابن ماجہ :4032 ۔ وصححہ الألبانی]))

’’ جو مومن لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اُس مومن سے زیادہ اجروثواب کا مستحق ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘

(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِیَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ [

’’ اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ، انھیں اِس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی لیکن انھوں نے صبر کیا ۔ ‘‘

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ،أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلیٰ أَذَاہُمْ

’’ جو مومن لوگوں میں گھل مل جاتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے وہ اُس مومن سے زیادہ اجروثواب کا مستحق ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘

حکمرانوں کے ظلم پر صبر:                         آزمائشوں میں سے ایک آزمائش رعایا پر حکمرانوں کے ظلم کی صورت میں آتی ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات وہ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام کو نافذ کرکے عوام پر ظلم کرتے ہیں ۔ بعض اوقات بے گناہ لوگوں کو ناجائز مقدمات میں ملوث کرکے پریشان کرتے ہیں ۔ بعض اوقات مجرم پیشہ لوگوں کو چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہیں، جب چاہیں اور جہاں چاہیں لوگوں کی عزتوں اور ان کے اموال کو لوٹیں اور ان کی جانوں سے کھیلتے رہیں ۔ بعض اوقات اہل اور باصلاحیت افراد کو ان کے حقوق سے محروم کرکے سفارشوں اور رشوت کے ذریعے نا اہل لوگوں کو نوازا جاتا ہے اور بعض اوقات اربابِ اقتدار اور اصحابِ اختیار غریب عوام کا خون پسینہ چوستے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے پر ہی تلے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سو اِس قسم کی آزمائشوں میں بھی انسان کو دامن ِ صبر نہیں چھوڑنا چاہئے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ رَأَی مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ )) [ صحیح مسلم : 1849)

’’ جو شخص اپنے حکمران سے کوئی نا پسندیدہ چیز دیکھے تو اس پر صبر کرے ۔ ‘

بیٹیوں کی آزمائش پر صبر:               بعض اوقات انسان اپنی بیٹیوں کی وجہ سے بھی آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے ، مناسب تعلیم وتربیت نہ ہونے

کی وجہ سے ، یا ان کیلئے مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے ، یا اولاد میں صرف بیٹیاں ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ تو اس قسم کی آزمائش میں بھی والدین کو مکمل صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور انہیں اپنے لئے باعث ِ خیر وبرکت تصور کرتے ہوئے اور روزِ قیامت انھیں اپنے لئے باعث ِ نجات سمجھتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت پر پوری توجہ دینی چاہئے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْیٍٔ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ [سنن الترمذی :1913۔ وصححہ الألبانی]))

’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح سے آزمائش میں ڈالا جائے ، پھر وہ ان پر صبر کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘

اور صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے آئی، اس نے مجھ سے کچھ مانگا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ ملا ۔ چنانچہ میں نے وہی کھجور اس کو دے دی ۔ اس نے اس کے دو حصے کئے اور دونوں بیٹیوں کو آدھی آدھی کھجور دے دی اور خود اس نے کچھ نہ کھایا اور چلی گئی ۔ پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو اُس کے بارے میں بتایا ۔ تب آپ نے ارشاد فرمایا :

(( مَنِ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْیٍٔ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ [البخاری:1418،5995، مسلم :2629]))

’’ جس شخص کو بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح آزمایا جائے ، پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَا وَہُوَ )) وَضَمَّ أَصَابِعَہُ

’’ جو آدمی دو بچیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں تو قیامت کے روز وہ اور میں ایسے اکٹھے ہونگے جیسے یہ انگلیاں اکٹھی ہیں ۔ ‘‘[صحیح مسلم :2631]

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

اللّٰهمَّ صلِّ على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما صليتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔
اللّٰهمَّ بارِك على محمَّد وعلى آل محمَّد، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم؛ إنَّك حميدٌ مجيد۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں