اپنی زبان منتخب کریں

پیر، 5 دسمبر، 2016

وطن كا دفاع كرتے ہوئے مر جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا ؟

كيا اگر كوئى غير مسلم شخص اپنے وطن كا دفاع كرتے ہوئے مر جائے تو وہ شہيد شمار ہو گا ؟ 
الحمد للہ:
جو بھى فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے، اور ( فى سبيل اللہ ) كا معنى يہ ہے كہ وہ اعلائے كلمۃ اللہ كے ليے لڑائى كرے، يہ معركہ ميں لڑ كر مرنے والے كى تعريف ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زبان مبارك سے كى ہے.
بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ ايك اعرابى شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
آدمى مال غنيمت حاصل كرنے كے ليے لڑتا ہے، اور ايك شخص اپنا نام بنانے كے ليے لڑے، اور ايك شخص اپنا مقام و مرتبہ دكھانے كے ليے لڑتا ہے تو ان ميں سے فى سبيل اللہ كون ہو گا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑے تو وہ فى سبيل اللہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2126 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1904 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كرتے ہوئے فرمايا:
" تم شہيد كسے شمار كرتے ہو ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جو شخص فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے تو وہ شہيد ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے:
پھر تو ميرى امت كے شہيد بہت ہى كم ہونگے.
صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كون لوگ ہيں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے وہ شہيد ہے، اور جو فى سبيل اللہ فوت ہو جائے تو وہ شہيد ہے، اور جو شخص طاعون ميں فوت ہو جائے تو وہ شہيد ہے، اور جو شخص پيٹ كى بيمارى سے شہيد ہو جائے وہ شہيد ہے، اور جو شخص غرق ہو كر فوت ہو وہ شہيد ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1915 ).
تو اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معركہ ميں شہيد ہونے والے اور جو اشخاص شہادت كى فضيلت كو پہنچتے ہيں انہيں جمع كر كے بيان كيا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( علماء كرام كا كہنا ہے: فى سبيل اللہ قتل ہونے والے كے علاوہ باقى سب كى شہادت سے مراد يہ ہے كہ ان كے ليے آخرت ميں شہداء كا اجر و ثواب ہو گا، ليكن دنيا ميں انہيں غسل بھى ديا جائيگا، اور ان كى نماز جنازہ بھى ادا ہو گى.
اور كتاب الايمان ميں اس كا بيان ہو چكا ہے، اور شہداء كى تين اقسام ہيں، دنيا و آخرت ميں شہيد وہ شخص ہے جو كفار كے خلاف جنگ كرتا ہوا فى سبيل اللہ قتل كر ديا جائے، اور آخرت ميں شہيد وہ ہيں جو يہاں مذكور ہيں، ليكن انہيں دنياوى احكام ميں شہيد نہيں كہا جائيگا، اور دنياوى شہيد ليكن وہ آخرت ميں شہيد نہيں وہ شخص ہے جو مال غنيمت ميں خيانت كا مرتكب ہو، يا پيٹھ پھير كر بھاگتے ہوئے قتل كر ديا جائے ( يعنى ميدان جنگ سے فرار ہوتے ہوئے ) انتہى.
شہادت ايك عظيم اور على مرتبہ اور درجہ ہے جو صرف اہل ايمان ہى كو حاصل ہوتا ہے، اس كے علاوہ كسى اور كو نہيں.
اور جس شخص كو نبى كريم محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى دعوت پہنچ چكى ہو اور وہ اسے تسليم كرتے ہوئے اس پر ايمان نہ لايا ہو تو وہ اللہ كے ساتھ كفر كا مرتكب ہوا ہے، اور وہ جہنمى ہے چاہے وہ معركہ ميں قتل ہوا ہو يا پھر اپنے بستر پر ہى مرے، چاہے يہودى ہو يا عيسائى، يا كسى اور شركيہ اور كفريہ مذہب سے تعلق ركھتا ہو.
عيسائى و نصارى اس ليے كافر ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تسليم نہيں كيا اور انہيں جھٹلايا ہے، اور انہوں نے مسيح عيسى بن مريم صلى اللہ عليہ وسلم كى الوہيت كا دعوى كيا ہے، اور ان كا يہ بھى دعوى ہے كہ اللہ تعالى كى بيوى اور اولاد بھى ہے، اللہ تعالى ان كے اس قول سے بہت بلند و بالا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسولوں كے ساتھ كفر كرتے ہيں اور جو لوگ يہ چاہتے ہيں كہ اللہ تعالى اور اس كے رسولوں كے درميان فرق ركھيں، اور جو لوگ كہتے ہيں كہ بعض انبياء پر تو ہمارا ايمان ہے اور بعض پر نہيں، اور وہ چاہتے ہيں كہ اس كے اور اس كے بين بين كوئى اور راہ نكال ليں ﴾.
﴿ يقين جانيں يہ سب لوگ اصلى اور پكے كافر ہيں، اور كافروں كے ليے ہم نے اہانت آميز سزا تيار كر ركھى ہے ﴾النساء ( 150 - 151 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:
﴿ اور يہودى كہتے ہيں كہ عزير عليہ السلام اللہ كا بيٹا ہے، اور نصرانى كہتے ہيں كہ مسيح اللہ كا بيٹا ہے، يہ قول صرف ان كے منہ كى بات ہے، اگلے منكروں كى بات كى يہ بھى نقل كرنے لگے ہيں، اللہ انہيں غارت كرے وہ كيسے پلٹائے جاتے ہيں ﴾التوبۃ ( 30 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد اسطرح ہے:
﴿ بے شك وہ لوگ كافر ہوئے جن كا قول يہ ہے كہ مسيح ابن مريم ہى اللہ ہے، حالانكہ خود مسيح نے ان سے كہا تھا كہ اے بنى اسرائيل! اللہ ہى كى عبادت كرو جو ميرا اور تمہارا سب كا رب ہے، يقين جانو كہ جو شخص اللہ كے ساتھ شريك كرتا ہے اللہ تعالى نے اس پر جنت حرام كر دى ہے، اوراس كا ٹھكانہ جہنم ہى ہے، اور گنہگاروں كى مدد كرنے والا بھى كوئى نہيں ہو گا ﴾المآئدۃ ( 72 ).
اور اس سے اگلى آيت ميں فرمان ربانى كچھ اس طرح ہے:
﴿ وہ لوگ بھى قطعى اور يقنى كافر ہو گئے جنہوں نے كہا كہ: اللہ تين ميں تيسرا ہے، دراصل اللہ تعالى كے سوا كوئى بھى معبود نہيں، اگر يہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ آئے تو اميں سے جو كفر پر رہينگے انہيں المناك عذاب ضرور ديا جائيگا ﴾المآئدۃ ( 73 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے، اس امت ميں سے كوئى يہودى اور عيسائى ميرا سن كر ميرى رسالت پر ايمان لائے بغير مر گيا تو وہ جہنمى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 153 ).
مندرجہ بالا سابقہ كلام آخرت كے احكام كے بارہ ميں ہے اور وہ بھى اس صورت ميں جب وہ قتل كر ديا جائے، ليكن دنياوى احكام ميں يہ ہے كہ اگر كوئى غير مسلم شخص مسلمان ملك كے دفاع ميں شريك ہو اور مسلمان حق سے كسى بھى قسم كا پيچھے نہ ہٹيں تو اس غير مسلم كا شكريہ ادا كرنے اور اس كا بدلہ دينے ميں كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .

جمعہ، 2 دسمبر، 2016

میلاد

سوال: کچھ لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں: (جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد دے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی) کیا یہ حدیث صحیح ہے۔

Published Date: 2016/Dec/02

الحمد للہ:

ذکر شدہ حدیث  کی ہمیں کوئی سند نہیں ملی، اور خود ساختہ  ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لئے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ کے بارے میں جھوٹ باندھنے  کے زمرے میں آتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری طرف منسوب کوئی حدیث بیان کی، اور وہ خدشہ بھی رکھتا تھا  یہ جھوٹ ہے، تو بیان کرنے والا بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے) مسلم نے اسے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ  بولنے کی سنگینی بیان کی گئی ہے، اور جس شخص کو اپنے ظنِ غالب کے مطابق  کوئی حدیث  جھوٹی لگی لیکن پھر بھی وہ آگے بیان کر دے تو وہ بھی جھوٹا ہوگا،  جھوٹا کیوں نہ ہو؟!  وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمائی" انتہی
" شرح صحيح مسلم " (1/65)

اور اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماہِ ربیع الاول  کی جس شخص نے مبارکباد دی تو صرف اسی عمل سے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی، یہ بات حد سے تجاوز، اور مبالغہ آرائی پر مشتمل ہے، جو کہ اس حدیث کے باطل اور خود ساختہ ہونے کی علامت ہے۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"خود ساختہ احادیث میں اندھا پن ، بے ڈھب  الفاظ، اور حد سے زیادہ تجاوز ہوتا ہے، جو ببانگ دہل  ان احادیث کے خود ساختہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے نام پر خود گھڑی گئی ہے" انتہی

" المنار المنيف " (ص 50)

Www.mominsalafi.blogspot.com

منگل، 5 جولائی، 2016

عيد كي مبارك بادي

عید سے ایک دو دن پہلے مبارکباد دینا
=====================
سنت سے عید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دن عید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔
شیخ صالح فوزان نے عید سے چند دن پہلے یا چند گھنٹہ پہلے یہاں تک کہ عید کی نماز سے پہلے مبارکباد دینا خلاف سنت کہا ہے اور مسلمانوں کو اتباع سنت کی تلقین کی ہے

جمعہ، 1 جولائی، 2016

"لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ میں سے آئندہ سال کے امور لکھ لیے جاتے

سوال: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ: "اللہ تعالی اس رات میں رزق اور لوگوں کے دیگر معاملات لکھ دیتا ہے اور پھر ان صحیفوں کو فرشتے لے جاتے ہیں اور ایک لیلۃ القدر سے دوسری لیلۃ القدر تک [اس میں معلومات ہوتی ہیں]، اللہ تعالی اس رات میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے کی سالانہ تفصیلات لکھ دیتا ہے" تو کیا جب فرشتے ان صحیفوں کو لے جاتے ہیں تو ان میں درج شدہ معلومات دیکھتے بھی ہیں؟ اور کیا فرشتوں کو پورے سال میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے؟ اور کیا یہ فرشتوں کیلیے عطائی علم غیب ہوتا ہے یا کچھ اور؟
الحمد للہ:
فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: بیشک ہم نے اس [قرآن ]کو بابرکت رات میں اتارا ہے، بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں، [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  3- 4] مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو لوح محفوظ میں سے آئندہ ایک سال کے معاملات لکھنے کا حکم دیتا ہے، یہ بات کچھ سلف صالحین سے بھی منقول ہے، اور مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (18527) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آیت: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) کا مطلب یہ ہے کہ: "لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ  میں سے آئندہ سال  کے امور لکھ لیے جاتے ہیں جس میں رزق، اموات، ولادت، بارش وغیرہ سمیت تمام امور ہوتے ہیں حتی کہ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس سال فلاں فلاں شخص حج کریگا"
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ حدیث نمبر: (3678) میں  روایت کر کے اسے صحیح بھی کہتے ہیں کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "تمہیں کوئی شخص بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر آئے گا حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھا جا چکا ہے، پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں: ( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) یعنی: لیلۃ القدر میں آئندہ لیلۃ القدر تک دنیاوی امور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے"
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آئندہ ایک سال تک کے معاملات محرر فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، اس میں واقع ہونے والی اموات اور دیے جانے والے رزق کی وغیرہ ہر چیز کی تفصیلات دے دی جاتی ہیں، اس آیت کا یہی مفہوم ابن عمر ، ابو مالک، مجاہد، ضحاک اور دیگر متعدد سلف صالحین سے منقول ہے، اس آیت میں " حَكِيمٍ " کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ معاملات محکم  ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی" انتہی
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: (7/246) اسی سے ملتی جلتی بات الطاہر ابن عاشور نے "التحرير والتنوير" (6/422) شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ  نے اپنے "فتاوی" (20/344) میں بھی لکھی ہے۔
دوم:
غیب کے معاملات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے، ان [دیگروں] کو تو اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کا ہی علم نہیں ہے![النمل:65]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ: تمام مخلوقات کو سکھانے کیلیے بتلا دیں کہ: اللہ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا؛ کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالی کی امتیازی صفت ہے، اس میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں " انتہی
"تفسیر ابن کثیر" (6 /207)
البتہ اتنا ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے جسے چاہے غیب کی کچھ چیزوں پر مطلع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا [26] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا )
ترجمہ: وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا  [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن:26-27]
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"غیبی چیزوں کے بارے میں علم رکھنا صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے، چنانچہ غیبی چیزوں کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، چاہے کوئی جن ہو یا انسان، البتہ اللہ تعالی جسے  چاہے کسی فرشتے یا نبی کو وحی کر کے بتلا سکتا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /346)
پورے سال میں رونما ہونے والے معاملات کا محرر فرشتوں کی جانب سے لکھنا  اس بات کا شاہد ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے معاملات سے متعلق مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے تفصیلات لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیلۃ القدر  کی وجہ تسمیہ یہ ہے  کہ فرشتے اس رات میں اموات اور رزق سمیت دیگر تمام ایسے امور جو آئندہ سال میں رونما ہونے ہیں ان سب کو لکھ لیتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں واضح ہے:
(فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  4]
اسی طرح :
{تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ}
ترجمہ: روح اور فرشتے اس رات اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر حکم لے کر نازل  ہوتے ہیں [القدر : 4] مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال میں جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ فرشتوں کیلیے عیاں کر دیا جاتا ہے اور پھر ہر فرشتے کی ذمہ داری کے مطابق اسے کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، نیز یہ سب معاملات اللہ تعالی کے علم اور تقدیر میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں" انتہی
"شرح مسلم" از نووی رحمہ اللہ:  (8/ 57)
سوم:
کچھ علمائے کرام نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب فرشتے آئندہ سال میں ہونے والے معاملات لکھ لیتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں حکم دیتا ہے کہ ہر فرشتے کو اس کے متعلقہ امور تحریری شکل میں سپرد کر دیے جائیں ، تاہم انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
جیسے کہ شیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: اللہ تعالی ہر سال لیلۃ القدر  میں فرشتوں کیلیے آئندہ لیلۃ القدر تک کے تمام معاملات واضح کر دیتا ہے نیز فرشتوں کو یہ تمام امور تحریری شکل میں دے دیے جاتے ہیں۔
اس تحریر میں اموات، رزق، ناداری و مالداری، خشک سالی  و بارشیں، صحت و بیماری، جنگیں اور زلزلے الغرض آئندہ سال میں کچھ بھی ہونے والا ہے سب کچھ واضح کر دیا جاتا ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر "الکشاف" میں کہتے ہیں:
" يُفْرَقُ" کا معنی ہے تفصیل سے لکھ دیا جاتا ہے، " كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ" سے مراد  یہ ہے کہ لوگوں کا رزق، اموات، اور آئندہ لیلۃ القدر تک جو بھی امور ہیں سب تحریر کر دیے جاتے ہیں۔
آگے چل کر انہوں نے لکھا کہ: رزق کے متعلق صحیفوں کا نسخہ میکائیل کو دے دیا جاتا ہے، جنگوں، زلزلوں، بجلی گرجنے اور دھنسائے جانے  سے متعلق نسخہ جبرائیل کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح اعمال کا نسخہ اسماعیل کو جو کہ آسمانِ دنیا  کا ذمہ دار ہے، وہ بہت بڑا فرشتہ ہے، مصیبتوں کا نسخہ ملک الموت کے سپرد کر دیا جاتا ہے"
ہمارا مقصد آیت کا مطلب واضح کرنا ہے مذکورہ فرشتوں کو تھمائے جانے والے نسخوں کی صحیح معلومات دینا مقصد نہیں ہے؛ کیونکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از: "أضواء البيان" (7/271).
جواب کا خلاصہ:
اللہ تعالی چند فرشتوں یعنی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے واقعات کے بارے میں مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے لکھنے کا حکم دیتا ہے۔
اس کے علاوہ مزید تفصیلات کہ کس فرشتے کو کون سا نسخہ تھمایا جاتا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم.



سوال: میری کاسمٹیک اور ہیئر ڈریسنگ کے لوازمات فروخت کرنے کی دکان ہے، تو کیا یہ پیشہ حلال ہے یا حرام؟

سوال: میری کاسمٹیک اور ہیئر ڈریسنگ کے لوازمات فروخت کرنے کی دکان ہے، تو کیا یہ پیشہ حلال ہے یا حرام؟
الحمد للہ:
اس پیشے کے بارے میں قدرے تفصیل ہے:
1- اگر آپ یہ اشیاء ایسے  کسمٹر کو فروخت کرتے ہیں جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ  اسے حرام بے پردگی میں استعمال   کریگا تو یہ جائز نہیں ہے۔
2- اگر آپ یہ اشیاء ایسے کسٹمر کو فروخت کریں جو  جائز بناؤ سنگھار کیالئے استعمال کریگا تو یہ جائز ہے۔
3- اور اگر آپ کو کسٹمر کے بارے میں علم نہیں ہے کہ کس چیز میں اسے استعمال کیا جائے گا، تو براءت اصلیہ کے اعتبار سے  ان اشیاء کی فروخت جائز ہوگی۔
دائمی فتوی کمیٹی کا کہنا ہے کہ:
"اگر دکاندار کو یہ علم ہو کہ  خریدار ان اشیاء کو  اللہ کی حرام کردہ  جگہوں میں استعمال کریگا تو ایسے کسٹمر کو مطلوبہ اشیاء مہیا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت ہے، اور اگر خریدار کے بارے میں علم ہے کہ ان اشیاء کو اپنے خاوند کیلئے بناؤ سنگھار میں استعمال کریگی ،  یا آپکو اس خاتون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے تو پھر ان چیزوں کی تجارت کرنا جائز ہے"
"فتاوى اللجنة الدائمة "(13/67)
واللہ اعلم.
whatsapp no. 8494090342


جمعرات، 9 جون، 2016

مسجد حرام میں ۲۰ رکعات تراویح ادا کیو ں کرتے ہیں

سوال :  گروپ اقرا دارالقرآن و الحدیث        :    مسجد حرام میں ۲۰ رکعات تراویح  ادا کیو ں کرتے ہیں ؟
جواب       ::: ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم
 .