جمعہ، 5 فروری، 2016

نشید (نظم) یا طیبہ یا طیبہ/یامکہ یا مکہ پڑھنے وسننے کا حکم

نشید (نظم) یا طیبہ یا طیبہ/یامکہ یا مکہ پڑھنے وسننے کا حکم   
فضیلۃ الشیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ
ترجمہ: طارق علی بروہی
نشر و اشاعت : عبدالمومن سلفی
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سوال: سوال ہے کہ ایک اسلامی نشید (نظم/ترانہ/گیت) کہ یہ الفاظ ہیں کہ ’’ألا يا الله بنظرة من العين الرحيمة تداوي كل ما بي من أمراض سقيمة‘‘ (اے اللہ! اپنے آنکھ کی ایسی نظر رحمت بھیج جو میرے تمام امراض کا علاج بن جائے) کیا ان الفاظ میں کوئی مضائقہ ہے؟
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ ’’من عین رحیمۃ‘‘ (رحمت والی آنکھ سے) اس کی کیا مراد ہے، آیا وہ اللہ کو پکار رہا ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو مسخر کردے یا پھر اس سے مراد اللہ تعالی کو پکارنا ہے۔ بہرحال اگرچہ اس کی مراد اللہ تعالی ہی کو پکارنا کیوں نہ ہو پھر بھی اس قسم کی عبارات سے تعبیر کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کی صفات کو نہیں پکارا جاتا (بلکہ اس کی ذات کو پکارا جاتا ہے)۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ اللہ تعالی کی دو آنکھیں ہیں جیسا کہ اس کی شان وعظمت کے لائق ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یا عین اللہ (اے اللہ تعالی کی آنکھ) بلکہ بعض علماء تو یہاں تک کہتے ہيں کہ اگر صفات الہیہ کو پکارا تو یہ کفر ہے۔ یعنی اگر کہا یا قدرۃ اللہ (اے اللہ تعالی کی قدرت)، يا رحمة الله (اے اللہ تعالی کی رحمت) يا يدالله (اے اللہ تعالی کے ہاتھ) يا نعمة الله (اے اللہ تعالی کی نعمت) تو یہ کفر ہے اور یہ بہت سے علماء کرام کی رائے ہے۔
مگر میرے بھائی تمہیں چاہیے کہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ صریح دعائوں کے ساتھ دعاء کرو کیوں ان موہوم قسم کے الفاظ کو استعمال کرتے ہو، جو ہوسکتا ہے کہ تمہیں بدعت یا شرک میں مبتلا کردیں۔ ان تمام باتوں سے اجتناب کرو اور ہر لفظ کو کتاب وسنت پر پیش کرو اور ہر اناشید جیسا کہ وہ اس کے لئے اصطلاح استعمال کرتے ہیں (اسے بھی کتاب وسنت پر پیش کرو)۔
بلکہ میں آپ کو اس سے بھی خطرناک چیز پر تنبیہ کرتا ہوں جس کا ابھی ابھی مجھے خیال آیا کہ آجکل حرم کے برابر ہی میں ’’یا طیبہ ! یا طیبہ!‘‘ (اے مدینہ ! اے مدینہ!) کیسٹیں فروخت ہوتی ہیں، حالانکہ یہ شرک ہے، یہ بعینہ شرک ہے۔ کیا طیبہ کو اللہ کے علاوہ پکارا جارہا ہے! آگے کہتے ہیں ’’يا دوى العيان!‘‘ (یعنی شفاء طلب کی جارہی ہے) کون مریضوں کو شفاء دیتا ہے اللہ تعالی یا طیبہ!؟ اگر آپ طیبہ کو پکاریں کہ وہ آپ کو شفاء دے تو آپ مشرک ہیں۔ یہ نشید ونظم تو ہر جگہ اتنی عام ہوچکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے تک اپنے موبائلوں میں لئے لئے پھرتے ہیں۔ یا طیبہ !یا طیبہ! کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں ریکارڈنگ سینٹروں میں خود یہاں حرم کے بغل تک میں۔ اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے نفس کو چوکس وخبردار رکھو کہ بہت سے الفاظ جو لوگ دہراتے وگنگناتے رہتے ہیں کفر ہوتے ہیں لیکن انہیں شعور ہی نہیں ہوتا۔ وہ نہ اس کا شعور رکھتے ہیں اور نہ جانتے ہیں کہ یہ کفر ہے۔ اب اللہ تعالی کے یہاں یہ لوگ معذور ہیں یا نہیں ؟ ہم نہیں جانتے مگر یہ الفاظ بہرحال شرک ہیں اور کہنے والا مشرک ہے، پس ہوشیار رہیں۔ میرے پاس ایک کیسٹ ہے کہ جس میں سینکڑوں ایسے جملے ہیں جو لوگ دہراتے یا گنگناتے رہتے ہیں خصوصاً عرب ممالک میں، پس اس بارے میں چوکنا رہیے۔
| الشیخ صالح بن سعد السحیمی, |
 
 
 

فرقہ ناجیہ کونسا ہے؟

الحمد للہ:

پہلی بات:
اختلاف اور تفرقہ اس امت میں ہوکر رہے گا اس بات کی گواہ تاریخ بھی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بھی اسکا ثبوت ہیں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو میرے بعد زندہ رہے گا ، وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا) أبو داود ( 4067 ) البانی نے اسے " صحيح أبی داود "میں صحیح کہا ہے۔
چنانچہ جیسے سیاسی زندگی میں بھی اختلاف پایا گیا، اسی طرح عقائد اور نظریات میں بھی پایا گیا، اور یہ فرقے عہد خلفائے راشدین کے آخری زمانے میں نمودار ہوئے ، جیسے مرجئہ، شیعہ، اور خوارج۔
یہ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے کہ اس نے سچے مسلمانوں کے بعد ہی اختلاف اور فرقے بنائے، پہلے عقائد درست تھے بعد میں اس میں خرابیاں پیدا ہوئیں، ان کے نام بھی اہل السنۃ سے علیحدہ ہی تھے، اور کبھی بھی یہ خرابیاں اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد میں خلط ملط نہیں ہوئیں، عام مسلمانوں کا عقیدہ اور گمراہ لوگوں کے عقائد یکسر مختلف رہے، حتی کہ آپس میں دوری کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی گمراہ فرقے نے اپنے آپ کو اہل السنۃ والجماعۃ سے موسوم نہیں کیا، بلکہ اپنی ایجاد کردہ بدعت کی طرف ہی منسوب رہے، یا اس فرقہ کے بانی کی طرف انکی نسبت رہی، آپ اس بات کو تمام گمراہ فرقوں کے ناموں میں بالکل واضح پاؤ گے۔
اور وہ مشہور حدیث جس میں امت کے 73 فرقوں کا ذکر ہے ؛ اس بات پر شاہد ہے۔
چنانچہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: (تم سے پہلے اہل کتاب 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور یہ امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی، 72 ان میں سے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور وہ ہے جماعت)
ابو داود ( 4597 ) وغيرہ نے اسے روایت کیا ہےاور اسے امام حاكم نے صحیح قرار دیا ( 1 / 128 ) بلکہ انہوں نے کہا: عقائد میں یہ بہت ہی عظیم حدیث ہے، ابن حجر نے " تخريج الكشاف " ( 63 ) میں اسے حسن قرار دیا، اور ابن تيمیہ " مجموع الفتاوى " ( 3 / 345 ) میں اسے صحیح کہا، اور شاطبی نے " الاعتصام " ( 1 / 430 ) ، اور عراقی نے" تخريج الإحياء " ( 3 / 199 ) میں اسے صحیح کہا ہے ، اہل علم نے اس روایت کو کتب احادیث میں کثرت سے بیان کیا ہےاور اس سے استدلال بھی کیا ہے، جبکہ متعدد صحابہ کرام سے یہ روایت مروی ہے، جن میں سے صحیح ترین اور اکثر احادیث 73 فرقوں والی بات پر متفق ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں فرقہ ناجیہ کی صفت بیان کی کہ وہ "جماعت" ہے، جسکا مطلب ہے جس بات پر مسلمان علماء کا اجماع ہو، جیسے کہ کچھ روایات میں "سوادِ اعظم"کا وصف آیا ہے، جیسے کہ ابو امامہ کی روایت ابن ابی عاصم کی کتاب " السنَّة " ( 1 / 34 ) اور طبرانی کی " المعجم الكبير " ( 8 / 321 ) میں حسن لغیرہ سند کے ساتھ موجود ہے۔
ایسے ہی ایک حدیث میں انکی صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ یوں بیان فرمائی: (میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی سب کےسب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک ملت )سب نے کہا: اللہ کے رسول وہ کون سی ملت ہے؟ آپ نے فرمایا: (جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں)
یہ روایت ترمذی ( 2641 )نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کی ہے اور اسے حسن بھی قرار دیا، ایسے ہی ابن العربی نے " أحكام القرآن " ( 3 / 432 )میں ، اورعراقی نے " تخريج الإحياء " ( 3 / 284 ) ، اور البانی نے" صحيح الترمذی " میں اسے حسن کہاہے۔
چنانچہ یہ ایک واضح ترین علامت ہے جس سے مسلمان فرقہ ناجیہ کے بارے میں استدلال کر سکتا ہے، لہذا اس راستے پر چلے جہاں ساری امت کے علماء چل رہے ہوں، جن علماء کے بارے میں تمام لوگ امانت اور دیانت داری کی گواہی دیتے ہوں، اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلے جو پہلے گزر چکے ہیں جیسے کہ صحابہ کرام ، تابعین، اور ائمہ اربعہ اور دیگر اہل علم ، اور ہر ایسے گروہ اور جماعت سے بچے جو مسلمانوں سے کسی بدعت کی بنیاد پر علیحدہ ہونے کی کوشش کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل بدعت کی علامت ہے کہ سلف کی اتباع سے بھاگتے ہیں" انتہی " مجموع الفتاوى " ( 4 / 155 )
ایک اور جگہ (3/346) کہا:" ان فرقوں کی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ-یعنی اہل السنۃ و الجماعۃ کے مخالف72 فرقے- کتاب و سنت اور اجماع کو ٹھکرادینگے، جو کوئی بھی کتاب وسنت اور اجماع کی بات کرے وہ اہل السنۃ و الجماعۃ سے ہے"
لہذا اب کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ تصور کرے کہ شیعہ یا گمراہ صوفی ، یا خوارج اور احباش فرقہ ناجیہ میں سے ہیں، بلکہ یہ تمام نئے فرقے ہیں ، انکے افکار نئے ایجاد شدہ ہیں، اہل علم اور تمام مسلمان انہیں یکسر مسترد کرتے ہیں، بلکہ انکے دلوں میں انکے بارے میں نفرت بھی پائی جاتی ہے، انکے گمراہ کن افکار کبھی بھی ابو بکر، عمر، عثمان، یا علی رضی اللہ عنہم کے عقائد میں شامل نہیں تھے، اور نہ ہی یہ عقائد ابو حنیفہ ، مالک، شافعی، اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے عقائد میں شامل تھے۔
تو کیا کوئی عقل مند یہ سوچ سکتا ہے کہ سچا عقیدہ ان علماء سے مخفی رہ گیا اور انہیں پتہ ہی نہیں چلا؟!
محترم بھائی میرے خیال میں اہل السنۃ و الجماعۃ (فرقہ ناجیہ)اور دیگر گمراہ فرقوں کے مابین جو واضح ترین فرق ہے ؛ وہ واضح ہوچکا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی لئے فرقہ ناجیہ کا وصف ہے کہ وہ اہل السنۃ و الجماعۃ ہیں، اور یہی لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، جبکہ باقی فرقے شاذ و نادر ہیں اور بدعات و خواہش پرست ہیں، ان تمام فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ناجی فرقہ کے قریب تک نہیں پھڑکتا، ان کے برابر ہونا تو دور کی بات ہے، بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ فرقوں کے ماننے والے انتہائی قلیل مقدار میں ہوں، ان فرقوں کی علامت کتاب وسنت اور اجماع کی مخالفت ہے، چنانچہ جو شخص بھی کتاب وسنت اور اجماع کا قائل ہو گا وہ اہل السنۃ و الجماعہ میں سے ہوگا"" مجموع الفتاوى " ( 3 / 346 )
گمراہ فرقوں کی علامات کے بارے میں شاطبی رحمہ اللہ نے " الاعتصام " ( 1 / 453 – 460 ) میں بہت کھل کر بحث کی ہے۔
دوسری بات:
علمائے اہل السنۃ والجماعۃ نے اپنی کتب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہےکہ انکے علاوہ دیگر فرقے ہی گمراہ ، بدعتی اور ہلاک ہونے والے ہیں، اللہ کے دین میں نامناسب باتیں اور بدعات ایجاد کرنے کی وجہ سے انکا ٹھکانا جہنم ہے، لیکن ان میں سے اکثر کو کافر نہیں کہا جاسکتا، بلکہ انہیں اسلامی فرقوں میں ہی شمار کیا جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے ہی تمام کے تمام بہتّر فرقےہیں، ان میں سے کچھ منافق ہیں، جو کہ باطنی طور پر کافر ہوتے ہیں، اور کچھ منافق نہیں ہیں، بلکہ باطنی طور پر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بعض باطنی طور پر کافر نہیں ہیں، چاہے تاویل کرتے ہوئےکتنی ہی گھناؤنی غلطی کر بیٹھے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں میں نفاق کی کچھ جزئیات پائی جائیں، لیکن ایسا نفاق ان میں نہیں ہے جسکی وجہ سے انسان جہنم کے آخری گڑھے میں جاگرے۔
اور جو شخص ان بہتّر فرقوں کے بارے میں کفر کا حکم لگائے تو یقینا اس نے قرآن، حدیث اور اجماع ِصحابہ کرام کی مخالفت کی، بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے اجماع کی بھی مخالفت کی؛ اس لئے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان تمام بہتّر فرقوں کی تکفیر نہیں کی، ہاں کچھ فرقے آپس میں ایک دوسرے کو بعض نظریات کی بنا پر کافر قرار دیتے ہیں" انتہی، "مجموع الفتاوی" (7/218)
اور اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں جو فرقہ بھی اسلام کی طرف منسوب ہو وہ مسلمان ہے، بلکہ اسلام کی طرف نسبت رکھنے والا فرقہ بھی کافر اور مرتد ہو سکتا ہےجیسے کہ غالی قسم کے شیعہ اور صوفی ، اسی طرح باطنی فرقے دروز، نصیری وغیرہ، کچھ علماء نے جہمی فرقہ کو بھی انہیں میں شامل کیا ہے، تو یہ سب کے سب ملتِ اسلامیہ سے خارج ہیں، اور انہیں حدیث میں وارد فرقوں میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
تیسری بات:
حدیث مبارکہ میں مذکور فرقوں کے مابین اختلاف کی وجہ عقائد عامہ اور دین کے مسائلِ کلّیہ میں اختلاف ہے، فقہی اختلافات اسکی وجہ نہیں ہیں، شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"گمراہ فرقے ، فرقہ ناجیہ سے شرعی قواعد یا دین کے کلی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے جُدا ہوتے ہیں، جزئی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے علیحدہ نہیں ہوتے، اس لئے کہ جزئی اور فرعی شذوذ کی وجہ سے اس طرح کا اختلاف ہرگز پیدا نہیں ہوتا کہ جس سے تفرقہ پیدا ہو جائے، بلکہ تفرقہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کلی مسائل میں مخالفت پائی جائے، اس لئے کہ کلّی مسائل کے تحت غیر معمولی تعداد میں جزئی مسائل آتے ہیں، اور ان میں سے شاذ کا تعلق کسی مسئلہ سے ہوتا ہے اور کسی سے نہیں ہوتا"
" الاعتصام " ( 1 / 439 )
چنانچہ اگر کچھ اسلامی جماعتیں دیگر جماعتوں سے دعوتی طور طریقے یا اسلام کیلئے کام کرنے کے انداز میں امتیاز رکھتی ہیں، اور انکے عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے مخالفت نہیں رکھتے، تو انہیں گمراہ فرقہ تصور نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں ان شاء اللہ فرقہ ناجیہ ہی میں سے شمار کیا جائے گا، بشرطیکہ عقیدہ اور عبادات میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے منہج پر چلتے ہوں۔
تحرير،، شيخ الصالح المنجد
ترجمه، و اشاعت، عبدالمومن سلفي

جمعرات، 4 فروری، 2016

۔دنیامیں موجود ادیان کی کتنی قسمیں ہیں

 
                                                     بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
الحمد للہ
انسا نیت ادیان کے اعتبارسےدوقسموں میں تقسیم ہوتی ہے :
 
پہلی قسم : ایک قسم تووہ ہے کہ جس کے پاس اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب ہے جیساکہ یہودی اورعیسائی اورمسلمان ہیں ۔
 
یہودی اورعیسایوں کی کتاب میں جو کچھ نازل کیاگیااس پران کےعمل نہ کرنے اوراللہ تعالی کے علاوہ ان کاانسان کورب بنالینے اوران کےعہدکے لمباہونے کی بناپران کی وہ کتا بیں جوکہ اللہ تعالی نے ان کے انبیا ء پرناز ل فر ما ئیں تھیں گم ہو گئیں تو ا ن کے پادریوں اور درویشوں نے ان کے لۓ اپنی طرف سے کتابیں لکھیں جن کے متعلق ان کاگما ن ہے کہ یہ اللہ تعا لی کی طر ف سے ناز ل کر د ہ ہیں ۔
 
حا لا نکہ یہ کتا بیں جوکہ انہوں نے خود لکھیں ہیں اللہ تعا لی کی طر ف سے نہیں بلکہ یہ باطل لوگوں کی طر ف سےمنسو ب کی گئیں اور غا لی قسم کے لوگوں کی تحر یف ہے ۔
 
اور مسلمانوں کی کتاب قرآن کریم ہے جوکہ کتب الہیہ میں عہدکے لحاظ سے آخری اور ان میں سب سےزیادہ موثوق کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نےخود لے رکھی ہے اورکسی انسان کےذمہ نہیں لگائی ۔
 
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے :
 
{ بیشک ہم نےہی اس ذکر کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت بھی کرنے والےہیں } الحجر ( 9 )
 
لھذا یہ کتاب سینوں اورسطروں میں محفوظ ہے اس لیےکہ یہ آخری کتاب ہے اللہ تعالی نے جس کے ضمن میں ساری بشریت اورانسانیت کی ھدایت رکھی ہے ،اورقیامت تک کے لۓ اسے لوگوں پرحجت بنایا ہے اور اس کا باقی رہنالکھ دیا ہے اور ہرزمانے میں اس کےلۓ ایسےلوگ پیدافرمائے جوکہ اس کے حروف اورحدودکی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی شریعت پرعمل پیرا ہونے کے ساتھ اس پر ایمان بھی رکھتے ہیں ۔
 
اس کتاب عظیم قرآن مجیدکے متعلق مزید تفصیل آ گے چندسطور کے بعدآ رہی ہے -
 
اسی کتاب کاصفحہ ( 113 - 119 - 143 - 137 - ) بھی دیکھیں ۔
 
اور دوسری قسم : یہ وہ قسم ہے جن کے پاس کوئی ایسی کتاب نہیں جو کہ اللہ تعالی کی طر ف سے ناز ل کی گئی ہواگر چہ ان کے پاس ایسی کتاب پائی جاتی ہے جوکہ نسل در نسل ان کے پاس آرہی ہے اور یہ کتاب ان کے دین کے دعوے داروں کی طرف منسوب کی جاتی ہے مثلام ہندو اور مجوسی اور بوذی اور کنفو شیسیین اور اسی طرح محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سےقبل عرب بھی ۔
 
 
اور ہرایک قوم اور امت کے لۓ اس کی دنیا وی مصلحتوں کے حساب سےعلم وعمل ہو تاہے اور یہی وہ ھدایت عامہ ہے جسے اللہ تعالی نے ہرانسان کے لۓ بنایا ہے بلکہ اس میں انسان کے علاوہ حیوان بھی شامل ہیں جس طرح کہ حیوان اور جانورکو جواس کے نفع مندہواس کی راہ دکھائی ہے مثلا کھانا پینا اورجواس کے لۓ نقصان دہ ہے اس کا بھی اسے بتایاگیاہےاوراللہ تعالی نےاس کےاندرنفع مندکی محبت اورنقصان دہ کا بغض پیدا کردیاہے۔
 
اللہ سبحانہ وتعالی کاارشادہے ۔
 
{ اپنے بہت ہی بلند وبالا رب کی پا کیزگی بیان کر، جس نے پیدکیااورصحیح سالم بنایا } الا علی / ( 1 - 3)
 
اور موسی علیہ السلام نے فرعون کوکہاتھا:
 
{ ہمارارب وہ ہے جس نے ہرایک کو اس کی خاص صورت عنایت فرمائی اورپھراس کوھدایت سےنوازا } / طہ / ( 50 )
 
اور ابراہیم خلیل علیہ السلام نے فرمایاتھا :
 
{ جس نے مجھے پیدافر مایا وہی مجھے ھدایت دیتاہے } /الشعراء/ (87 )
 
دیکھیں کتاب : الدین الصحیح فیمن بدل دین المسیح جلد نمر (4) صفحہ نمبر(97)
 
اور ہراس عقل وا لے کوجس میں تھوڑا سابھی غورفکرکر نے کاما دہ پایا جاتا یہ معلوم ہے کہ اہل ملل کے نفع مند علوم مکمل پائے جاتے ہیں اوراعمال صالحہ کے لحاظ سے وہ کامل ہیں جوکہ اہل ملل نہیں تو جتنے بھی اہل ملل میں سے غیرمسلموں کے پاس بھلائی کے کام ہیں مسلمانوں کے پاس وہ اعمال اس سے بہتراوراچھے اندازمیں موجود ہیں اورمسلمانوں کے پاس اہل ادیان میں سے سب سے اچھے اوربھلائی کےکام مکمل اور اکمل پائے جاتے ہیں جو کہ کسی اور کے پاس اوراہل ادیان میں سے بھی کسی کے ہاں نہیں ہیں ۔
 
اوراس لۓ کہ علوم اور اعمال کی دوقسمیں ہیں :
 
پہلی قسم : جوکہ عقل سے حاصلی ہوتے ہیں ۔
 
مثلا : علم طب ، اور علم حساب اور صنعت وحرفت ، تواہل ملل کے ہاں یہ اموراسی طرح ہیں جس طرح کہ دو سروں کے پاس ہیں بلکہ وہ ان علوم میں کامل ہیں ۔
 
لیکن وہ جوکہ صرف عقل سے ہی نہیں حاصلی ہوتے مثلاعلوم الہیہ اور علوم دیانات تواہل ادیان کے ساتھ خاص ہیں اوراس امور میں سے ہیں جن پرعقلی دلائل قائم کرنے ممکن نہیں ، اور رسولوں نے مخلوق کوراہ دکھایااورانہیں اس پرعقل کی دلالت کی راہنمائی فرمائی جو عقلی شرعی دلائل ہیں ۔
 
دوسری قسم : وہ علوم جن کا علم صرف اور صرف رسولوں کے بتانے سے ہو -
 
تویہ ایسے علوم ہیں جو کہ عقل سے حاصل نہیں ہو سکتے مثلا اللہ تعالی کے متعلق اور اس کے اسما ء وصفات اورآخرت میں اس کے لۓ نعمتیں جواطاعت اور فرمانبرداری کر ے اور اس کے لۓ عذاب جوکہ نافرمانی اور گناہ کرتاہے اس کے متعلق خبریں بتانا اور شرع کا بیان کرنا ۔
 
اوراسی طرح سابقہ انبیاء کی ان کے امت کے ساتھ واقعات کی خبریں وغیرہ بتانا ۔
 
دیکھیں مجوع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔جلدنمبر۔(4) صفحہ نمبر (210)۔(211)
 
یہ مضمون کتاب : محمدبن عبداللہ بن صالح السحیم کی کتاب : اسلامی اصول اور اس کی مبادیات سےلیاگیاہے ۔
 
 
 
واللہ اعلم .
 
تحریر
 
شیخ محمد صالح المنجد
 
نشر و ااشاعت ۔ عبدالمومن سلفی

سورة الكهف كا مكامل ترجمه ، خادم عبدالمومن سلفي

سورة الکهف
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سب تعریف الله کے لیے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی (۱) ٹھیک اتاری تاکہ اس سخت عذاب سے ڈراوے جو اس کے ہاں ہے اورایمان داروں کو خوشخبری دے جو اچھے کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے (۲) جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے (۳) اور انہیں بھی ڈرائے جو کہتے ہیں کہ الله اولاد رکھتا ہے (۴) ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کے پاس تھی کیسی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے وہ لوگ بالکل جھوٹ کہتے ہیں (۵) پھر شایدتو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان ہلاک کر دے گا اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے (۶) جو کچھ زمین پر ہے بے شک ہم نے اسے زمین کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں کون اچھے کام کرتا ہے (۷) اورجو کچھ اس پر ہے بے شک ہم سب کو چٹیل میدان کر دیں گے (۸) کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں والے عجیب چیز تھے (۹) جب کہ چند جوان اس غار میں آ بیٹھے پھر کہا اے ہمارے رب ہم پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور ہمارے اس کام کے لیے کامیابی کا سامان کر دے (۱۰) پھر ہم نے کئی سال تک غار میں ان کے کان بند کر دیے (۱۱) پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ دونوں جماعتوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے جتنی مدت وہ رہے (۱۲) ہم تمہیں ان کا صحیح حال سناتے ہیں بے شک وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں اور زيادہ ہدایت دی (۱۳) اورہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے جب وہ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے ورنہ ہم نے بڑی ہی بیجا بات کہی (۱۴) یہ ہماری قوم ہے انہوں نے الله کے سوا اورمعبود بنا لیے ہیں ان پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے پھر اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے الله پر جھوٹ باندھا (۱۵) اور جب تم ان سے الگ ہو گئے ہواور الله کے سوا جنہیں وہ معبود بناتے ہیں تب غار میں چل کر پناہ لو تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لیے تمہارےاس کام میں آرام کا سامان کر دے گا (۱۶) اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کے غار کے دائیں طرف سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو ان کی بائیں طرف سے کتراتا ہو گزر جاتا ہے وہ اس کے میدان میں ہیں یہ الله کی نشانیوں میں سے ہے جسے الله ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے تمہیں کوئی بھی کارساز پر لانے والا نہیں ملے گا (۱۷) اور تو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں اورہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو اورالبتہ تم پر ان کی دہشت چھا جائے (۱۸) اوراسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹہرے ہو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھیرے ہیں کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے (۱۹) بے شک وہ لوگ اگر تمہاری اطلاع پائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گےیا اپنے دین میں لوٹا لیں گے پھر تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے (۲۰) اور اسی طرح ہم نے ان کی خبر ظاہر کر دی تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ الله کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں جبکہ لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے پھر کہا ان پر ایک عمارت بنا دو انکا رب ان کا حال خوب جانتا ہے ان لوگوں نے کہا جو اپنے معاملے میں غالب آ گئے تھے کہ ہم ان پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (۲۱) بعض کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعض اٹکل پچو سے کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے اور بعض کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کرو ان میں سے کسی سےبھی انکا حال دریافت نہ کر (۲۲) اورکسی چیز کے متعلق یہ ہر گز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا (۲۳) مگر یہ کہ الله چاہے اور اپنے رب کو یاد کر لے جب بھول جائے اور کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے (۲۴) اور وہ اپنے غار میں تین سو سے زائد نو برس رہے ہیں (۲۵) کہہ دو الله بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت رہے تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے کیا عجیب دیکھتا اور سنتا ہے ان کا الله کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے (۲۶) اور اپنے رب کی کتاب سے جو تیری طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کرو اس کی باتوں کوکوئی بدلنے والا نہیں ہے اور تو اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائے گا (۲۷) تو ان لوگو ں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں اور تو اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹا کہ دنیا کی زندگی کی زینت تلاش کرنے لگ جائے اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیاہے اور اپنی خواہش کے تابع ہو گیا ہے اور ا سکا معاملہ حد سے گزر ا ہوا ہے (۲۸) اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد رسی کیے جائیں گے جو تانبے کی طرح پگھلا ہوا ہو گا مونہوں کو جھلس دے گا کیا ہی برا پانی ہو گا او رکیا ہی بری آرام گاہ ہو گی (۲۹) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم بھی اس کا اجر ضائع نہیں کریں گے جس نے اچھے کام کیے (۳۰) وہی لوگ ہیں جن کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی انہیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور باریک اور موٹے ریشم کا سبز لباس پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگانے والے ہوں گے کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرام گا ہے (۳۱) اور انہیں دو شحصوں کی مثال سنا دو ان دونوں میں سے ایک لیے ہم نے انگور کے دو باغ تیار کیے اور ان کے گرد اگرد کھجوریں لگائیں اوران دونو ں کے درمیان کھیتی بھی لگا رکھی تھی (۳۲) دونوں باغ اپنے پھل لاتے ہیں اور پھل لانے میں کچھ کمی نہیں کرتے اور ان دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کردی ہے (۳۳) اور اسے پھل مل گیا پھر اس نے اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زيادہ ہوں اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ معزز ہوں (۳۴) اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے حال میں کہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا کہا میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہو گا (۳۵) اورمیں قیامت کو ہونے والی خیال نہیں کرتا اور البتہ اگر میں اپنے رب کے ہاں لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر جگہ پاؤں گا (۳۶) اسے اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران میں کہا کیا تو اس کا منکر ہو گیا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے بنایا پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا (۳۷) لیکن میرا تو الله ہی رب ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا (۳۸) اور جب تو اپنے باغ میں آیا تھا تو نے کیوں نہ کہا جو الله چاہے تو ہوتا ہے اور الله کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں (۳۹) پھر امید ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس پر لو کا ایک جھونکا آسمان سے بھیج دے پھر وہ چٹیل میدان ہوجائے (۴۰) یا اس کا پانی خشک ہوجائے پھر تو اسے ہرگز تلاش کرکے نہ لاسکے گا (۴۱) اور اس کا پھل سمیٹ لیا گیا پھر وہ اپنے ہاتھ ہی ملتا رہ گیا اس پر جو اس نے اس باغ میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتریوں پر گرا پڑا تھا اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (۴۲) اور اس کی کوئی جماعت نہ تھی جو الله کےسوا اس کی مدد کرتے اور نہ وہ خود ہی بدلہ لے سکا (۴۳) یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیاہوا بدلہ اچھا ہے (۴۴) اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کرو مثل ایک پانی کے ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا پھر زمین کی روئیدگی پانی کے ساتھ مل گئی پھر وہ ریزہ ریز ہ ہو گئی کہ اسے ہوا ئیں اڑاتی پھرتی ہیں اور الله ہر چیز پر قدرت رکنے والا ہے (۴۵) مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں (۴۶) اورجس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے (۴۷) اور سب تیرے رب کے سامنے صف باندھ کر پیش کیے جائیں گے البتہ تحقیق تم ہمارے پاس آئے ہو جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ ہم تمہارے لیے کوئی وعدہ مقرر نہ کریں گے (۴۸) اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا پھر مجرموں کو دیکھے گا اس چیز سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہے اور کہیں گے افسوس ہم پر یہ کیسا اعمال نامہ ہے کہ اس نے کوئی چھوٹی یا بڑی بات نہیں چھوڑی مگر سب کو محفوظ کیا ہوا ہے اورجو کچھ انہوں نے کیا تھا سب کو موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا (۴۹) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا سو اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں بے انصافوں کو برا بدل ملا (۵۰) نہ تو آسمان اور زمین کے بناتے وقت اور نہ انہیں بناتے وقت میں نے انہیں بلایا اورمیں گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنانے والا نہ تھا (۵۱) اورجس دن فرمائے گا میرے شریکوں کو پکارو جنہیں تم مانتے تھے پھر وہ انہیں پکاریں گے سو وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم نے ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دی ہے (۵۲) اور گناہگار آگ کو دیکھیں گے اور سمجھیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے (۵۳) اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن میں ان لوگوں کے لیے ہر ایک مثال کو کئی طرح سے بیان کیا ہے اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے (۵۴) اور جب ان کے پاس ہدایت آئی تو انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہیں پہلی امتوں کا سا معاملہ پیش آئے یا عذاب ان کے سامنے آجائے (۵۵) اور ہم رسولوں کو صرف خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجتے ہیں اور کافر نا حق جھگڑا کرتے ہیں تاکہ ا س سے سچی بات کو ٹلا دیں اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس سے انہیں ڈرایا گیا ہے مذاق بنا لیا ہے (۵۶) اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے پھر ان سے منہ پھیر لے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے بھول جائے بے شک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور اگر تو انہیں ہدایت کی طرف بلائے تو بھی وہ ہر گز کبھی راہ پر نہ آئیں گے (۵۷) اور تیرا رب بڑا بخنشے والا رحمت والا ہے اگر ان کے کیے پر انہیں پکڑنا چاہتا تو فوراً ہی عذاب بھیج دیتا بلکہ ان کے لیے ایک معیاد مقرر ہے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے (۵۸) اور یہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا ہے جب انہوں نے ظلم کیا تھا اور ہم نے ان کی ہلاکت کا بھی ایک وقت مقرر کیا تھا (۵۹) اورجب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا کہ میں نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں یا سالہا سال چلتا جاؤں (۶۰) پھر جب وہ دو دریاؤں کے جمع ہونے کی جگہ پر پہنچے دونوں اپنی مچھلی کو بھول گئے پھر مچھلی نے دریا میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا (۶۱) پھر جب وہ دونوں آگے بڑھ گئے تو اپنے جوان سے کہا کہ ہمارا ناشہ لے آ۔ البتہ تحقیق ہم نے اس سفر میں تکلیف اٹھائی ہے (۶۲) کہا کیا تو نے دیکھا جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھرے تومیں مچھلی کو وہیں بھول آیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلایا ہے کہ اس کا ذکر کروں اور اس نے اپنی راہ سمندر میں عجیب طرح سے بنا لی (۶۳) کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے پھر اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہی الٹے پھرے (۶۴) پھر ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے رحمت دی تھی اوراسے ہم نے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا (۶۵) اسے موسیٰ نے کہا کیا میں تیرے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تو مجھے سکھائے اس میں سے جو تجھے ہدایت کا طریقہ سکھایا گیا ہے (۶۶) کہا بے شک تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکے گا (۶۷) اورتو صبر کیسے کرے گا اس بات پر جو تیری سمجھ میں نہیں آئے گی (۶۸) کہا انشاالله تو مجھے صابر ہی پائے گا اور میں کسی بات میں بھی تیری مخالفت نہیں کروں گا (۶۹) کہا پس اگر تو میرے ساتھ رہے تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کر یہاں تک کہ میں تیرے سامنے اس کا ذکر کروں پس دونوں چلے (۷۰) یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو اسے پھاڑ دیا کہا کیا تو نے اس لیے پھاڑا ہے کہ کشتی کے لوگوں کو غرق کر دے البتہ تو نے خطرناک بات کی ہے (۷۱) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۲) کہا میرے بھول جانے پر گرفت نہ کر اورمیرے معاملہ میں سختی نہ کر (۷۳) پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑکا ملا تو اسے مار ڈالا کہا تو نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا البتہ تو نے برُی بات کی (۷۴) کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا (۷۵) کہا اگراس کے بعدمیں آپ سے کسی چیز کا سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیں آپ میری طرف سے معذوری تک پہنچ جائیں گے (۷۶) پھر ودنوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزرے توان سے کھانا مانگا انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کر دیا پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرنےہی والی تھی تب اسے سیدھا کر دیا کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کوئی اجرت ہی لے لیتے (۷۷) کہا اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اب میں تجھے ان باتوں کا راز بتاتا ہوں جن پر تو صبر نہ کر سکا (۷۸) جو کشتی تھی سو وہ محتاج لوگوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے پھر میں نے اس میں عیب کر دینا چاہا اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا (۷۹) اور رہا لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم ڈرے کہ انہیں بھی سر کشی اور کفر میں مبتلا نہ کرے (۸۰) پھر ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلہ میں انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو (۸۱) اور جو دیوار تھی سو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا پس تیرے رب نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنا خزانہ تیرے رب کی مہربانی سے نکالیں اور یہ کام میں نے اپنے ارادے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے اس کی جس پر تو صبر نہیں کر سکا (۸۲) اور آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اب میں تمہیں اس کا حال سناتا ہوں (۸۳) ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی اور اسے ہر طرح کا سازو سامان دیا تھا (۸۴) تو اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۵) یہاں تک کہ جب سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا تو اسے ایک گرم چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا اور وہاں ایک قوم بھی پائی ہم نے کہااے ذوالقرنین یا انھیں سزا دے اور یا ان سے نیک سلوک کر (۸۶) کہا جو ان میں ظالم ہے اسے تو ہم سزا ہی دیں گے پھر وہ اپنے رب کے ہاں لوٹایا جائے گا پھر وہ اسے اوربھی سخت سزا دے گا (۸۷) اور جو کوئی ایمان لائے گا اور نیکی کرے گا تو اسے نیک بدلہ ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملے میں اسے آسان ہی حکم دیں گے (۸۸) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۸۹) یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو ایک ایسی قوم پر نکلتے ہوئے پایا کہ جس کے لیے ہم نے سورج کے ادھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی (۹۰) اسی طرح ہی ہے اور اس کے حال کی پوری خبر ہمارےہی پاس ہے (۹۱) پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا (۹۲) یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ان دونوں سے اس طرف ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بات نہیں سمجھ سکتی تھی (۹۳) انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بے شک یاجوج ماجوج اس ملک میں فساد کرنے والے ہیں پھر کیا ہم آپ کے لیے کچھ محصول مقرر کر دیں اس شرط پر کہ آپ ہمارےاور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں (۹۴) کہا جو میرے رب نے قدرت دی ہے کافی ہے سو طاقت سے میری مدد کرو کہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں (۹۵) مجھے لوہے کے تختے لا دو یہاں تک کہ جب دونوں سروں کے بیچ کو برابر کر دیا تو کہا کہ دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں (۹۶) پھر وہ نہ اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے (۹۷) کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے (۹۸) اور ہم چھوڑدیں گے بعض ان کے اس دن بعض میں گھسیں گے اور صورمیں پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کر یں گے (۹۹) اور ہم دوزخ کو اس دن کافروں کے سامنے پیش کریں گے (۱۰۰) جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہ سکتے تھے (۱۰۱) پھر کافر کیا خیال کرتے ہیں کہ میرے سوا میرےبندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کو مہمانی بنایاہے (۱۰۲) کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں (۱۰۳) وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھوئی گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں (۱۰۴) یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس کے روبرو جانے کا انکار کیا ہے پھر ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے سو ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے (۱۰۵) یہ سزا ا ن کی جہنم ہے ا سلیے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق بنایا تھا (۱۰۶) بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان کی مہمانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے (۱۰۷) ان میں ہمیشہ رہیں گے وہاں سے جگہ بدلنی نہ چاہیں گے (۱۰۸) کہہ دو اگر میرے رب کی باتیں لکھنےکے لئے سمندر سیاہی بن جائے تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے اور اگرچہ اس کی مدد کے لیے ہم ایسا ہی اور سمندر لائیں (۱۰۹) کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے (۱۱۰)

 

تلاوت القران علم وقف و ابتدا کیلئے


منگل، 2 فروری، 2016

ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل


یهان کشمیر مین جو لوگ ( دراز) وغیره استعمام کرتی هین وه تو مجبوری هین اور اس وقت الله بهی ماف کرتا هہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث ميں ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے سے منع فرمايا ہے ان احاديث ميں سے چند ايك احاديث درج ذيل ہيں:
صحيح بخارى ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" چادر كا جو حصہ ٹخنوں سے نيچے ہے وہ آگ ميں ہے "
www.mominsalafi.blogspot.com
www.talashhaq.blogspot.com

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5787 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اس طرح ہے:
" روز قيات اللہ تعالى تين قسم كے افراد كى جانب نہ تو ديكھے گا اور نہ ہى انہيں پاك كريگا، اور انہيں دردناك عذاب ہو گا، ان ميں ايك تو ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے والا ہے، اور دوسرا احسان جتلانے والا، اور تيرا اپنا سامان جھوٹى قسم سے فروخت كرنے والا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 106 ).
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى اس طرح ہے:
" قميص اور پگڑى اور تہ بند ميں اسبال ہے، جس نے بھى اس سے كچھ بھى تكبر كے ساتھ لٹكا كر كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4085 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5334 ) صحيح سند كے ساتھ مروى ہے.
اور ايك حديث ميں نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ٹخنوں سے نيچے چادر لٹكانے والے كى طرف اللہ تعالى نہيں ديكھےگا "
نسائى كتاب الزينۃ باب اسبال الازار حديث نمبر ( 5332 ).
اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرى يا اپنى پنڈلى كے عضل ( گوشت والا حصہ ) كو پكڑ كر فرمايا:
" چادر كى يہ جگہ ہے، اگر تم انكار كرو تو پھر اس سے نيچے، اور اگر اس سے بھى انكار كرو تو پھر چادر كو ٹخنوں ميں كوئى حق نہيں ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1783 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے.
اوپر جتنى بھى احاديث گزرى ہيں وہ ٹخنوں سے كپڑا نيچے ركھنے كى ممانعت ميں عام ہيں، چاہے اس كا مقصد تكبر ہو يا نہ ہو، ليكن اگر مقصد تكبر ہو تو بلا شك گناہ اور جرم زيادہ ہو گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے اپنى چادر تكبر سے نيچے ركھ كر كھينچى تو اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5788 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2087 ).
اور ايك حديث ميں ہے جابر بن سليم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
" تم چادر ٹخنوں سے نيچے ركھنے بچا كرو، كيونكہ يہ چيز تكبر ميں سے ہے، اور اللہ تعالى تكبر كو پسند نہيں كرتا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2722 ) اسے ترمذى نے صحيح قرار ديا ہے.
پھر يہ بھى ہے كہ انسان اپنے آپ كو تكبر سے برى نہيں كر سكتا چاہے وہ اس كا دعوى بھى كرے تو بھى اس سے قبول نہيں كيا جائيگا كيونكہ يہ اس كا خود اپنى جانب سے تزكيہ نفس ہے، ليكن جس كے متعلق اس كى گواہى وحى نے دى تو وہ ٹھيك ہے، جيسا كہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اور لٹكايا تو اللہ تعالى روز قيامت اسے ديكھے گا بھى نہيں "
تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميرى چادر ڈھيلى ہو جاتى ہے، ليكن ميں اس كا خيال ركھتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" يقينا تم ان ميں سے نہيں جو اسے بطور تكبر كرتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5784 ).
ٹخنوں سے نيچے كپڑا اور چادر يا سلوار وغيرہ ركھنا چاہے وہ تكبر كى بنا پر نہ بھى ہو يہ بھى منع ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مسلمان كا لباس نصف پنڈلى تك ہے، نصف پنڈلى اور ٹخنوں كے درميان ہونے ميں كوئى حرج نہيں، اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، اور جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر سے كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4093 ) اس كى سند صحيح ہے.
دونوں حديثوں ميں مختلف عمل بيان ہوا ہے، اور اس كى سزا بھى مختلف بيان كى گئى ہے.
اور امام احمد نے عبد الرحمن بن يعقوب سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا: كيا آپ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے چادر كے متعلق كچھ سنا ہے ؟
تو انہوں نے فرمايا: جى ہاں سنا ہے، تم بھى اسے معلوم كر لو، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" مومن كا لباس اس كى آدھى پنڈليوں تك ہے، اور اس كے ٹخنوں اور نصف پنڈليوں كے درميان ركھنےميں كوئى حرج نہيں، اور جو ٹخنوں سے نيچے ہو وہ آگ ميں ہے، آپ نے يہ تين بار فرمايا "
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے گزار تو ميرى چادر ڈھيلى ہو كر نيچے ہوئى ہوئى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اے عبد اللہ اپنى چادر اوپر اٹھاؤ، تو ميں نے اسے اوپر كر ليا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور زيادہ كرو، تو ميں نے اور اوپر كر لى.
اس كے بعد ميں ہميشہ اس كا خيال ركھتا ہوں، لوگوں ميں سے كسى نے دريافت كيا: كہاں تك ؟ تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: آدھى پنڈليوں تك "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2086 ) كتاب الكبائر للذھبى ( 131 - 132 ).
تو اسبال جس طرح مردوں ميں ہے اسى طرح عورتوں ميں بھى ہو گا، جس كى دليل ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى اپنا كپڑا تكبر كے ساتھ كھينچا اللہ تعالى اس كى جانب نہيں ديكھےگا "
تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: تو پھر عورتيں اپنے چادروں كا كيا كريں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ ايك بالشت نيچے لٹكا ليا كريں "
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اس طرح تو عورتوں كے پاؤں نظر آيا كرينگے.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اس سے زيادہ نہيں "
سنن نسائى كتاب الزينۃ باب ذيول النساء.
اور ہو سكتا ہے تكبر كرنے والے كو آخرت سے قبل اس كى سزا دنيا ميں بھى مل جائے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك شخص تكبر كے ساتھ اتراتا ہوا اپنى دو چادروں ميں چلا جا رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند اور اچھا لگا، تو اللہ تعالى نے اسے زمين ميں دھنسا ديا، تو وہ قيامت تك اس ميں دھنستا ہى چلا جائيگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2088 ).
واللہ

پیر، 1 فروری، 2016

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ) کے مختصر حالات زندگی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
· نام:
صالح بن فوزان بن عبداللہ آل فوزان
· نسب:
آپ کا تعلق اہل شماسیہ الوداعین میں قبیلۂ  دواسر  سے ہے۔
·------------------------------------------
www.mominsalafi.blogspot.com
------------------------------------------
· تعلیم:
بچپن ہی میں آپ کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا پس آپ نے اپنے خاندان میں پرورش پائی۔ آپ نے قرآن کریم اور ابتدائی قرات وکتابت اپنے شہر کے امامِ مسجد سے حاصل کی۔
پھر 1369ھ میں اپنے شہر شماسیہ میں کھلنے والے گورنمنٹ اسکول میں داخل ہوئے اور اپنی ابتدائی تعلیم کی تکمیل بریدہ میں واقع مدرسہ فیصلیہ سے 1371ھ میں کی۔ پھر بریدہ ہی میں 1373ھ میں معھد العلمی کھلنے پر اس میں داخل ہوئے جس سے  1377ھ میں فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد ریاض یونیورسٹی میں کلیۃ الشریعۃ میں داخل ہوئے اور 1381ھ میں اس سے فراغت حاصل کی ۔
· اعلی تعلیم:
اعلی تعلیم میں آپ نے فقہ میں ماسٹرز کیا اور اسی فقہ میں آپ نے ڈاکٹریٹ کیا اور یہ دونوں مراحل آپ نے کلیۃ  الشریعۃ ، ریاض یونیورسٹی سے مکمل کئے۔
· مناصب:
1372ھ میں بریدہ میں معھد العلمی میں داخلہ سے قبل آپ ابتدائیہ میں مدرس مقرر ہوئے۔کلیۃ الشریعۃ  ریاض یونیورسٹی سے فراغت کے بعد خود ریاض یونیورسٹی کے معھد العلمی میں مدرس مقرر ہوئے۔پھر کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہوئے اور پھر دراسات علیا کے شعبۂ اصول دین میں مدرس مقرر ہوئے۔اس کے بعد قضاء (کورٹ وعدالت) کی معھدالعالی میں مدرس ہونے کے بعد 1396ھ میں وہاں مدیر بھی مقرر ہوئے ۔ پھر آخر میں وہاں اداراتی سیشن ختم ہونے پر دوبارہ تدریس کے فرائض منصبی سنبھالے۔ اس کے علاوہ آپ کبار علماء کمیٹی کے 1407ھ میں رکن بنے اور ساتھ ہی 1411ھ میں فتوی وریسرچ کی مستقل کمیٹی کے رکن بنے۔اور آپ اب تک مکہ مکرمہ میں واقع مجمع الفقہی جو کہ رابطہ العالم الاسلامی کے تحت ہے کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ حج میں داعیان پر مقرر نگرانوں کی کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔  آپ جامع الامیر متعب بن عبدالعزیز، ملز ریاض میں امام، خطیب ومدرس ہیں اور سعودی عرب ریڈیو سے نشر ہونے والے دینی سوال وجواب کے مشہور پروگرام "نور علی الدرب" میں بھی اسی طرح  شرکت فرماتے رہتے ہیں جیسا کے علمی مجلات، رسائل، ریسرچ وفتاوی نویسی میں باقاعدہ مشارکت فرماتے ہیں۔ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی سطح پر لکھے جانے والے بہت سے رسائل کی نگرانی کرتے ہیں اور ان کے سامنے بہت سے طالبعلموں نے علمی حلقات، دروس اور مجالس میں زانوئےتلمذ طے کئے ہیں۔
· مشا‏ئخ:
آپ نےبہت سے مشہور علماء کرام وقضاۃ کرام سے حصول علم کیا جن میں سب سے نمایاں اور مشہور سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز (رحمہ اللہ) ہیں۔ سماحۃ الشیخ بڑے اور اہم امور میں آپ  پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور اپنی تالیف کردہ بعض کتب مراجعت اور رائے حاصل کرنے کے لئے آپ کے حوالے کیا کرتے تھے۔الشیخ عبداللہ بن حمید (رحمہ اللہ) بھی آپ کے مشائخ میں سے ہیں آپ کثرت سے ان کے دروس میں شرکت فرماتے تھے جبکہ آپ بریدہ کے معھد العلمی میں زیر تعلیم تھے۔اسی طرح مفسر قرآن الشیخ محمد امین الشنقیطی (رحمہ اللہ) اور شیخ عبدالرزاق العفیفی- رحمہ اللہ- بھی آپ کے مشائخ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ  کے آبائی شہر  کی مسجد کے امام حمود بن سلیمان التلال جو بعد میں ضربہ شہر (جو قصیم میں ہے) کے  قاضی بھی مقرر ہوئے تھے، آپ نے یہاں ابتدائی قرات اور کتابت سیکھی پھر شیخ ابراہیم بن ضیف اللہ الیوسف سے بھی اس وقت تعلیم حاصل کی جب وہ مدرسہ شماسیہ میں مدرس تھے۔ آپ کے دیگر مشائخ کرام یہ ہیں: الشیخ صالح بن عبدالرحمن السکیتی، الشیخ صالح بن ابراہیم البلیھی، الشیخ محمد بن سبیل، الشیخ عبداللہ بن صالح الخلیفی، الشیخ ابراہیم بن عبید العبدالمحسن، الشیخ حمود بن عقلاء الشعیبی، الشیخ صالح العلی الناصر ۔
· تالیفات:
آپ کی بہت سے تالیفات ہیں جن میں نمایاں یہ ہیں:
1- التحقيقات المرضية في المباحث الفرضية في المواريث، جو آپ کا ماسٹرز میں رسالہ تھا۔ (ایک جلد)
2- أحكام الأطعمة في الشريعة الإسلامية،جو کہ آپ کا ڈاکٹریٹ میں رسالہ تھا، (ایک جلد)
3- الإرشاد إلى صحيح الاعتقاد، (ایک جلد)
4- شرح العقيدة الواسطية، (ایک جلد)
5- البيان فيما أخطأ فيه بعض الكتاب، (دوجلدیں)
6- مجموع محاضرات في العقيدة والدعوة، (چار جلدیں)
7- الخطب المنبرية في المناسبات العصرية، (چھ جلدیں)
8- من أعلام المجددين في الإسلام
9-  مباحث فقهية في مواضيع مختلفة
10- مجموع فتاوى في العقيدة والفقه, (پانچ جلدیں)
11-  نقد كتاب الحلال والحرام في الإسلام، رد على يوسف القرضاوي.
12- الملخص في شرح كتـاب التوحيد، للشيخ محمد بن عبدالوهاب – شرح مدرسي-
13-  إعانة المستفيد شرح كتاب التوحيد, (دوجلدیں)
14-  التعقـيب على ما ذكـره الخطيب في حق الشيخ محمـد بن عبدالوهاب
15- الملخص الفقهي، (دوجلدیں)
16-  إتحاف أهل الإيمان بدروس شهر رمضان
17-  الضياء اللامع مع الأحاديث القدسية الجوامع
18- بيان ما يفعله الحاج والمعتمر
19-  كتاب عقيدة التوحيد– (اس کتاب کی اصل وزارۃ معارف کے مرحلہ ثانویہ کے سلیبس میں مقرر ہے)
20-  فتاوى ومقالات جو مجلة الدعوة میں نشر ہوئے
21-  دروس من القرآن الكريم
22- الأجوبـة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة
23- البدع والمحدثات وما لا أصل له
24- مجالس شهر رمضان المبارك
25- عقيدة التوحيد
26- أضواء من فتاوى ابن تيمية
27- بحوث فقهية في قضايا  عصرية
28- شرح كتاب كشف الشبهات
29- فقه وفتاوى البيوع
30- زاد المستقنع
31- شرح مسائل الجاهلية
32- حكم الاحتفال بذكرى المولد النبوي
33- المنتقى
34- لمحة عن الفرق
35- الإيمان بالملائكة وأثره في حياة الأمة
36- مجمل عقيدة السلف الصالح
37- البيان بالدليل لما في نصيحة الرفاعي ومقدمة البوطي من الكذب الواضح والتضليل
38- حقيقة التصوف
39- من مشكلات الشباب
40- وجوب التحاكم  إلى ما أنزله الله
41- الفرق بين البيع والربا
42- مسائل في الإيمان
43- التعليقات المختصرة على متن العقيدة الطحاوية
44- تدبر القرآن
45- وجوب التثبت في الأخبار واحترام العلماء
46- من أصول عقيدة أهل السنة والجماعة
47- دور المرأة في تربية الأسرة
48- معنى لا إله إلا الله
اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت سے کتابین تحت طبع ہیں۔
·   شیخ کے محاضرات:
a.شرح لمعة الاعتقاد (12 کیسٹیں)
a. شرح نونية ابن القيم (64 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة السفارينية للإمام السفاريني (15 کیسٹیں)
a.شرح منظومة الآداب (16 کیسٹیں)
a.شرح عمدة الأحكام (11 کیسٹیں)
a.شرح الأصول الثلاثة (10 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة الطحاوية (14 کیسٹیں)
a.اللقاء الأسبوعی المفتوح (12 کیسٹیں)
a.شرح رسائل من مجموعة التوحيد (9 کیسٹیں)
a.شرح كشف الشبهات (9 کیسٹیں)
a.شرح العقيدة الواسطية (31 کیسٹیں)
a.شرح مسائل الجاهلية (14 کیسٹیں)
a.شرح نواقض الإسلام (5 کیسٹیں)
a.شرح بلوغ المرام (168 کیسٹیں)
a.شرح زاد المستقنع (69 کیسٹیں)
a.شرح قرة عيون الموحدين (60 کیسٹیں)
a.شرح العدة الثاني (43 کیسٹیں)
اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے محاضرات اور خطبات ہیں۔ امت کے نوجوانوں کو صحیح دعوت سے متعارف کروانے اور ہر قسم کی گمراہی کی رد میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں جن کے ذریعہ بدعتیوں اور گمراہوں کا قلع قمع ہوا اور بہت سوں کو راہ حق وصواب کی جانب ہدایت ہوئی۔  اللہ تعالی آپ کو جزائےخیر دے، اور آپ  کے اعمال کو خالصتاً لوجہ اللہ بنادے اور آپ کے میزان حسنات میں انہیں جگہ دے۔
· شیخ کا فون نمبر:
(ریاض کے کوڈ 01 کے ساتھ) 4588570/4787840/4767420/01
· ویب سائٹ:
www.alfawzan.af.org.sa
والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين

Featured Post

آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت بتاۓ.... طالبہ طس بنت قیوم

 الحمد للہ. ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ...