اپنی زبان منتخب کریں

جمعہ، 5 فروری، 2016

فرقہ ناجیہ کونسا ہے؟

الحمد للہ:

پہلی بات:
اختلاف اور تفرقہ اس امت میں ہوکر رہے گا اس بات کی گواہ تاریخ بھی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بھی اسکا ثبوت ہیں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو میرے بعد زندہ رہے گا ، وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا) أبو داود ( 4067 ) البانی نے اسے " صحيح أبی داود "میں صحیح کہا ہے۔
چنانچہ جیسے سیاسی زندگی میں بھی اختلاف پایا گیا، اسی طرح عقائد اور نظریات میں بھی پایا گیا، اور یہ فرقے عہد خلفائے راشدین کے آخری زمانے میں نمودار ہوئے ، جیسے مرجئہ، شیعہ، اور خوارج۔
یہ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے کہ اس نے سچے مسلمانوں کے بعد ہی اختلاف اور فرقے بنائے، پہلے عقائد درست تھے بعد میں اس میں خرابیاں پیدا ہوئیں، ان کے نام بھی اہل السنۃ سے علیحدہ ہی تھے، اور کبھی بھی یہ خرابیاں اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد میں خلط ملط نہیں ہوئیں، عام مسلمانوں کا عقیدہ اور گمراہ لوگوں کے عقائد یکسر مختلف رہے، حتی کہ آپس میں دوری کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی گمراہ فرقے نے اپنے آپ کو اہل السنۃ والجماعۃ سے موسوم نہیں کیا، بلکہ اپنی ایجاد کردہ بدعت کی طرف ہی منسوب رہے، یا اس فرقہ کے بانی کی طرف انکی نسبت رہی، آپ اس بات کو تمام گمراہ فرقوں کے ناموں میں بالکل واضح پاؤ گے۔
اور وہ مشہور حدیث جس میں امت کے 73 فرقوں کا ذکر ہے ؛ اس بات پر شاہد ہے۔
چنانچہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: (تم سے پہلے اہل کتاب 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور یہ امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی، 72 ان میں سے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور وہ ہے جماعت)
ابو داود ( 4597 ) وغيرہ نے اسے روایت کیا ہےاور اسے امام حاكم نے صحیح قرار دیا ( 1 / 128 ) بلکہ انہوں نے کہا: عقائد میں یہ بہت ہی عظیم حدیث ہے، ابن حجر نے " تخريج الكشاف " ( 63 ) میں اسے حسن قرار دیا، اور ابن تيمیہ " مجموع الفتاوى " ( 3 / 345 ) میں اسے صحیح کہا، اور شاطبی نے " الاعتصام " ( 1 / 430 ) ، اور عراقی نے" تخريج الإحياء " ( 3 / 199 ) میں اسے صحیح کہا ہے ، اہل علم نے اس روایت کو کتب احادیث میں کثرت سے بیان کیا ہےاور اس سے استدلال بھی کیا ہے، جبکہ متعدد صحابہ کرام سے یہ روایت مروی ہے، جن میں سے صحیح ترین اور اکثر احادیث 73 فرقوں والی بات پر متفق ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں فرقہ ناجیہ کی صفت بیان کی کہ وہ "جماعت" ہے، جسکا مطلب ہے جس بات پر مسلمان علماء کا اجماع ہو، جیسے کہ کچھ روایات میں "سوادِ اعظم"کا وصف آیا ہے، جیسے کہ ابو امامہ کی روایت ابن ابی عاصم کی کتاب " السنَّة " ( 1 / 34 ) اور طبرانی کی " المعجم الكبير " ( 8 / 321 ) میں حسن لغیرہ سند کے ساتھ موجود ہے۔
ایسے ہی ایک حدیث میں انکی صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ یوں بیان فرمائی: (میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی سب کےسب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک ملت )سب نے کہا: اللہ کے رسول وہ کون سی ملت ہے؟ آپ نے فرمایا: (جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں)
یہ روایت ترمذی ( 2641 )نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کی ہے اور اسے حسن بھی قرار دیا، ایسے ہی ابن العربی نے " أحكام القرآن " ( 3 / 432 )میں ، اورعراقی نے " تخريج الإحياء " ( 3 / 284 ) ، اور البانی نے" صحيح الترمذی " میں اسے حسن کہاہے۔
چنانچہ یہ ایک واضح ترین علامت ہے جس سے مسلمان فرقہ ناجیہ کے بارے میں استدلال کر سکتا ہے، لہذا اس راستے پر چلے جہاں ساری امت کے علماء چل رہے ہوں، جن علماء کے بارے میں تمام لوگ امانت اور دیانت داری کی گواہی دیتے ہوں، اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلے جو پہلے گزر چکے ہیں جیسے کہ صحابہ کرام ، تابعین، اور ائمہ اربعہ اور دیگر اہل علم ، اور ہر ایسے گروہ اور جماعت سے بچے جو مسلمانوں سے کسی بدعت کی بنیاد پر علیحدہ ہونے کی کوشش کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل بدعت کی علامت ہے کہ سلف کی اتباع سے بھاگتے ہیں" انتہی " مجموع الفتاوى " ( 4 / 155 )
ایک اور جگہ (3/346) کہا:" ان فرقوں کی علامت یہ ہے کہ یہ لوگ-یعنی اہل السنۃ و الجماعۃ کے مخالف72 فرقے- کتاب و سنت اور اجماع کو ٹھکرادینگے، جو کوئی بھی کتاب وسنت اور اجماع کی بات کرے وہ اہل السنۃ و الجماعۃ سے ہے"
لہذا اب کسی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ یہ تصور کرے کہ شیعہ یا گمراہ صوفی ، یا خوارج اور احباش فرقہ ناجیہ میں سے ہیں، بلکہ یہ تمام نئے فرقے ہیں ، انکے افکار نئے ایجاد شدہ ہیں، اہل علم اور تمام مسلمان انہیں یکسر مسترد کرتے ہیں، بلکہ انکے دلوں میں انکے بارے میں نفرت بھی پائی جاتی ہے، انکے گمراہ کن افکار کبھی بھی ابو بکر، عمر، عثمان، یا علی رضی اللہ عنہم کے عقائد میں شامل نہیں تھے، اور نہ ہی یہ عقائد ابو حنیفہ ، مالک، شافعی، اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے عقائد میں شامل تھے۔
تو کیا کوئی عقل مند یہ سوچ سکتا ہے کہ سچا عقیدہ ان علماء سے مخفی رہ گیا اور انہیں پتہ ہی نہیں چلا؟!
محترم بھائی میرے خیال میں اہل السنۃ و الجماعۃ (فرقہ ناجیہ)اور دیگر گمراہ فرقوں کے مابین جو واضح ترین فرق ہے ؛ وہ واضح ہوچکا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی لئے فرقہ ناجیہ کا وصف ہے کہ وہ اہل السنۃ و الجماعۃ ہیں، اور یہی لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، جبکہ باقی فرقے شاذ و نادر ہیں اور بدعات و خواہش پرست ہیں، ان تمام فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ناجی فرقہ کے قریب تک نہیں پھڑکتا، ان کے برابر ہونا تو دور کی بات ہے، بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ فرقوں کے ماننے والے انتہائی قلیل مقدار میں ہوں، ان فرقوں کی علامت کتاب وسنت اور اجماع کی مخالفت ہے، چنانچہ جو شخص بھی کتاب وسنت اور اجماع کا قائل ہو گا وہ اہل السنۃ و الجماعہ میں سے ہوگا"" مجموع الفتاوى " ( 3 / 346 )
گمراہ فرقوں کی علامات کے بارے میں شاطبی رحمہ اللہ نے " الاعتصام " ( 1 / 453 – 460 ) میں بہت کھل کر بحث کی ہے۔
دوسری بات:
علمائے اہل السنۃ والجماعۃ نے اپنی کتب میں اس بات کا تذکرہ کیا ہےکہ انکے علاوہ دیگر فرقے ہی گمراہ ، بدعتی اور ہلاک ہونے والے ہیں، اللہ کے دین میں نامناسب باتیں اور بدعات ایجاد کرنے کی وجہ سے انکا ٹھکانا جہنم ہے، لیکن ان میں سے اکثر کو کافر نہیں کہا جاسکتا، بلکہ انہیں اسلامی فرقوں میں ہی شمار کیا جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے ہی تمام کے تمام بہتّر فرقےہیں، ان میں سے کچھ منافق ہیں، جو کہ باطنی طور پر کافر ہوتے ہیں، اور کچھ منافق نہیں ہیں، بلکہ باطنی طور پر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بعض باطنی طور پر کافر نہیں ہیں، چاہے تاویل کرتے ہوئےکتنی ہی گھناؤنی غلطی کر بیٹھے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں میں نفاق کی کچھ جزئیات پائی جائیں، لیکن ایسا نفاق ان میں نہیں ہے جسکی وجہ سے انسان جہنم کے آخری گڑھے میں جاگرے۔
اور جو شخص ان بہتّر فرقوں کے بارے میں کفر کا حکم لگائے تو یقینا اس نے قرآن، حدیث اور اجماع ِصحابہ کرام کی مخالفت کی، بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے اجماع کی بھی مخالفت کی؛ اس لئے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان تمام بہتّر فرقوں کی تکفیر نہیں کی، ہاں کچھ فرقے آپس میں ایک دوسرے کو بعض نظریات کی بنا پر کافر قرار دیتے ہیں" انتہی، "مجموع الفتاوی" (7/218)
اور اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں جو فرقہ بھی اسلام کی طرف منسوب ہو وہ مسلمان ہے، بلکہ اسلام کی طرف نسبت رکھنے والا فرقہ بھی کافر اور مرتد ہو سکتا ہےجیسے کہ غالی قسم کے شیعہ اور صوفی ، اسی طرح باطنی فرقے دروز، نصیری وغیرہ، کچھ علماء نے جہمی فرقہ کو بھی انہیں میں شامل کیا ہے، تو یہ سب کے سب ملتِ اسلامیہ سے خارج ہیں، اور انہیں حدیث میں وارد فرقوں میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
تیسری بات:
حدیث مبارکہ میں مذکور فرقوں کے مابین اختلاف کی وجہ عقائد عامہ اور دین کے مسائلِ کلّیہ میں اختلاف ہے، فقہی اختلافات اسکی وجہ نہیں ہیں، شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"گمراہ فرقے ، فرقہ ناجیہ سے شرعی قواعد یا دین کے کلی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے جُدا ہوتے ہیں، جزئی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے علیحدہ نہیں ہوتے، اس لئے کہ جزئی اور فرعی شذوذ کی وجہ سے اس طرح کا اختلاف ہرگز پیدا نہیں ہوتا کہ جس سے تفرقہ پیدا ہو جائے، بلکہ تفرقہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کلی مسائل میں مخالفت پائی جائے، اس لئے کہ کلّی مسائل کے تحت غیر معمولی تعداد میں جزئی مسائل آتے ہیں، اور ان میں سے شاذ کا تعلق کسی مسئلہ سے ہوتا ہے اور کسی سے نہیں ہوتا"
" الاعتصام " ( 1 / 439 )
چنانچہ اگر کچھ اسلامی جماعتیں دیگر جماعتوں سے دعوتی طور طریقے یا اسلام کیلئے کام کرنے کے انداز میں امتیاز رکھتی ہیں، اور انکے عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے مخالفت نہیں رکھتے، تو انہیں گمراہ فرقہ تصور نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں ان شاء اللہ فرقہ ناجیہ ہی میں سے شمار کیا جائے گا، بشرطیکہ عقیدہ اور عبادات میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کے منہج پر چلتے ہوں۔
تحرير،، شيخ الصالح المنجد
ترجمه، و اشاعت، عبدالمومن سلفي

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں