احکام الجنائ
احکام الجنائز
استاذ ناصر الدین البانی علمی دُنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا اسلوب تحریر او رطرز استدلال صرف کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ ﷺ پر مبنی ہے او ریہی مسلک اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے۔زیر نظر مقالہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ہدایت اور ثابت قدمی عطا فرمائے۔ آمین!
واجبات مریض :
مندرجہ ذیل ہدایت پر عمل کرنا ہرمریض کے لیے انتہائی ضروری ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہے، تقدیر پر صبر کرے او راپنے رب کے بارے میں حسن ظن رکھے، کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
''مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، اس کے لیے ہر حال میں بہتری ہے او ریہ مومن کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں۔ اگر خوشی ملے، شکر کرتا ہے تو اس کے لیے بہتر، اگر تکلیف ہو، صبر کرتا ہے تو اس کے لیےبہتر!'' 1
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
''تم میں سے جو کوئی اس دنیا سےرخصت ہوا وہ اپنے اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھے'' 2
2۔ خدا کی سزا کا خوف اور اس کی رحمت کی امید بیک وقت اس کے دل میں موجود ہو۔ اس کی بنیاد حضرت انسؓ کی مندرجہ ذیل حدیث ہے:
''نبی اکرمﷺ ایک نوجوان کے پاس آئے جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ آپؐ نے سوال فرمایا: تم کیسے ہو؟'' اس نے جواباً کہا، ''اے اللہ کے رسولؐ، بخدا، اللہ تعالیٰ سے امیدبھی ہے او راپنے گناہوں کا ڈر بھی!''
آپﷺ نے فرمایا:
''جس بندے کے دل میں یہ صورت پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی آرزو پوری کردیتا ہے اور ڈر سے نجات دے دیتا ہے۔'' 3
3۔ مرض خواہ کتنا ہی بڑھ جائے موت کی تمنا ہرگز جائز نہیں!
حضرت ام فضل ؓ روایت فرماتی ہیں:
''رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے اور حضرت عباسؓ (آپﷺ کے چچا) کو سخت تکلیف تھی۔ حضرت عباسؓ موت کی تمنا کرنے لگے، آپﷺ نے انہیں مخاطب ہوکر فرمایا، ''اے چچا! موت کی تمنا نہ کیجئے کیونکہ اگر اپ نیک ہوں پھر آپ کو موقع مل جائے، تو اپنی نیکیوں میں اضافہ کرلیں گے، یہ آپ کے لیے بہتر ہے اگر آپ میں کوتاہی ہو اور آپ کوموقع مل جائے تو توبہ کرلیں، یہ بھی آپ کے لیے بہتر ہے، چنانچہ آپ موت کی تمنا ہرگز نہ کریں۔'' 4
اور بخاری و مسلم میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے:
''او راگر انتہائی ضرورت کے طور پر موت کی تمنا ناگزیر ہوجائے تو یوں دُعا کرے:
''اللهم أحیني ما کانت الحیاة خیرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خیرالي''
''اے اللہ! جب تک زندگی میں میرے لیے بہتری ہے تو زندہ رکھ اور جب موت میں مرے لیےبھلائی ہوتو مجھے موت عطا کردے۔'' 5
4۔ اگر اس کے ذمے حقوق ہوں تو اداکردے ورنہ کم از کم ان کی وصیت کردے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
''جس کسی کے ذمے اس کے بھائی کی عزت یا کسی چیز (مال وغیرہ) کا حق ہو وہ آج اس سے خلاصی کرلے، دینار و درہم نہ ہونےکے دن سے پہلے پہلے (قیامت کا دن) اگر اس کے ذمے نیکی ہوگی تو (اس کے ساتھی) کے حق کے لحاظ سے لے لی جائے گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہ ہوں گی تو اس کے ساتھی کی برائیاں اس پر لاد دی جائیں گی۔'' 6
اسی حکم کی مزید احادیث مندرجہ ذیل مقامات پر ملاحظہ فرمالیں:
(الف) صحیح، مسلم کتاب البروالصلة والآداب، باب تحریم الظلم
(ب) مستدرک الحاکم، ج2 ص27
(ج) ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب التشدید في الدین
5۔ اپنی وصیت کو جلدی سے تیار کرکے اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''جب کوئی مسلمان وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزار دے، مگر اس کی وصیت تحریری شکل میں اس کے تکیے کے نیچے ہو۔'' 7
6۔ اسے ایک تہائی وصیت کرنے کا حق ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس سے کم مقدار کی ہی کرے۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت سعدؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
''ایک تہائی کی وصیت کرو، حالانکہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔''8
7۔ اس وصیت پردو مسلم عادل مرد، یا کسی وجہ سے نہ ملنے پر دو غیر مسلم قابل اعتباد مرد گواہ ہوں۔
فرمان ربّانی ہے:
''اے اہل ایمان! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کررہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عادل آدمی گواہ بنائے جائیں۔یا اگر تم سفر کی حالت میں ہواور وہاں موت کی مصیبت آجائے تو غیر مسلموں میں سے ہی دو گواہ لے لیے جائیں۔'' (المائدہ، آیت 106)
8۔ والدین او رقریبی رشتہ دار (جو کہ شرعاً وارث ہوں)کے حق میں وصیت جائز نہیں۔9
9۔ کسی وارث کو بذریعہ وصیت محروم کردینا یا حصہ کم کردینا بھی جائز نہیں ، ارشاد خداوندی ہے:
''مردوں کے لیے اس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ حصہ ہے۔'' (سورة النساء آیت7)
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
''نہ نقصان دینا ہے او رنہ برداشت کرنا، جس نے کسی کا نقصان کیا اللہ اس کا نقصان کرے گا ، او رجس نے تکلیف دی اللہ اسے تکلیف دے گا۔'' 10
10۔ ظالمانہ وصیت ناقابل عمل ہے:
ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردیے، دیہات سے اس کے ورثاء آئے، انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو اس کے فعل سے آگاہ کیا، آپؐ نے فرمایا: ''کیا واقعة اس نے اس طرح ہی کیا ہے؟ اگر ہمیں علم ہوتا تو ان شاء اللہ اس پر جنازہ نہ پڑھتے!'' راوی کہتا ہے: ''پھر آپﷺ نےاس کے درمیان قرعہ ڈالا پھر دو کو آزاد کردیا او رباقی چار کو غلامی میں پلٹا دیا۔'' 11
11۔ اس دور میں لوگ بدعتوں اور خلاف شریعت کاموں کے عادی ہوگئے ہیں، تو مرنے والے کو چاہیے کہ اپنی تجہیز و تکفین کے ہر پہلو کے بارے میں وصیت کرکے جائے، تاکہ ورثاء کم اس کم وصیت کا لحاظ کرتے ہوئے ہی غلط رسم و رواج سے پرہیز کریں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
''اے اہل ایمان اپنے آپ کو او راپنے اہل و عیال کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان او رپتھر ہوں گے۔'' (سورة التحریم آیت 6)
اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے وفات سے پہلے اپنے بارے میں واضح الفاظ میں وصیت فرما دی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
حضرت عامر بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعدؓ نے اپنے مرض وفات میں یہ وصایت فرمائی کہ میرے لیے لحد بنائی جائے اور اسے کچھ اینٹوں سے بند کیا جائے، جیسا کہ حضور اکرمﷺ کی بنائی گئی تھی۔'' 12
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ:
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے قرب وفات ، مندرجہ ذیل وصیت فرمائی:
1۔ میرا جنازہ تیز تیز لے کر چلنا۔
2۔ میرے پیچھے خوشبودار دھونی نہ ہو۔
3۔ لحد پر کوئی ایسی چیز نہ رکھنا جو کہ میرے او رمٹی کے درمیان حائل ہو۔
4۔ میری قبر پرکوئی تعمیر نہ کی جائے۔
5۔ مزید تم کو گواہ بنا کرکہتا ہوں کہ میں منہ نوچنے والی ، مصیبت پر واویلا کرنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی سے بے زار ہوں۔
ساتھی پوچھنے لگے، ''کیا آپ نے اس بابت کچھ سنا ہے؟ کہنے لگے ''ہاں! رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔'' 13
حضرت حذیفہ بن ایمان ؓ فرماتے ہیں کہ:
''جب میں مرجاؤں تو میرے بارے میں کسی کو تکلیف نہ دینا، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ نعیٰ15کے حکم میں نہ آجائے جبکہ حضور اکرمﷺ نے نعیٰ سے روکا ہے۔''14 ( جاری ہے)
استاذ ناصر الدین البانی علمی دُنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کا اسلوب تحریر او رطرز استدلال صرف کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ ﷺ پر مبنی ہے او ریہی مسلک اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے۔زیر نظر مقالہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ہدایت اور ثابت قدمی عطا فرمائے۔ آمین!
واجبات مریض :
مندرجہ ذیل ہدایت پر عمل کرنا ہرمریض کے لیے انتہائی ضروری ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہے، تقدیر پر صبر کرے او راپنے رب کے بارے میں حسن ظن رکھے، کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
''مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، اس کے لیے ہر حال میں بہتری ہے او ریہ مومن کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں۔ اگر خوشی ملے، شکر کرتا ہے تو اس کے لیے بہتر، اگر تکلیف ہو، صبر کرتا ہے تو اس کے لیےبہتر!'' 1
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
''تم میں سے جو کوئی اس دنیا سےرخصت ہوا وہ اپنے اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھے'' 2
2۔ خدا کی سزا کا خوف اور اس کی رحمت کی امید بیک وقت اس کے دل میں موجود ہو۔ اس کی بنیاد حضرت انسؓ کی مندرجہ ذیل حدیث ہے:
''نبی اکرمﷺ ایک نوجوان کے پاس آئے جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ آپؐ نے سوال فرمایا: تم کیسے ہو؟'' اس نے جواباً کہا، ''اے اللہ کے رسولؐ، بخدا، اللہ تعالیٰ سے امیدبھی ہے او راپنے گناہوں کا ڈر بھی!''
آپﷺ نے فرمایا:
''جس بندے کے دل میں یہ صورت پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی آرزو پوری کردیتا ہے اور ڈر سے نجات دے دیتا ہے۔'' 3
3۔ مرض خواہ کتنا ہی بڑھ جائے موت کی تمنا ہرگز جائز نہیں!
حضرت ام فضل ؓ روایت فرماتی ہیں:
''رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے اور حضرت عباسؓ (آپﷺ کے چچا) کو سخت تکلیف تھی۔ حضرت عباسؓ موت کی تمنا کرنے لگے، آپﷺ نے انہیں مخاطب ہوکر فرمایا، ''اے چچا! موت کی تمنا نہ کیجئے کیونکہ اگر اپ نیک ہوں پھر آپ کو موقع مل جائے، تو اپنی نیکیوں میں اضافہ کرلیں گے، یہ آپ کے لیے بہتر ہے اگر آپ میں کوتاہی ہو اور آپ کوموقع مل جائے تو توبہ کرلیں، یہ بھی آپ کے لیے بہتر ہے، چنانچہ آپ موت کی تمنا ہرگز نہ کریں۔'' 4
اور بخاری و مسلم میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے:
''او راگر انتہائی ضرورت کے طور پر موت کی تمنا ناگزیر ہوجائے تو یوں دُعا کرے:
''اللهم أحیني ما کانت الحیاة خیرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خیرالي''
''اے اللہ! جب تک زندگی میں میرے لیے بہتری ہے تو زندہ رکھ اور جب موت میں مرے لیےبھلائی ہوتو مجھے موت عطا کردے۔'' 5
4۔ اگر اس کے ذمے حقوق ہوں تو اداکردے ورنہ کم از کم ان کی وصیت کردے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
''جس کسی کے ذمے اس کے بھائی کی عزت یا کسی چیز (مال وغیرہ) کا حق ہو وہ آج اس سے خلاصی کرلے، دینار و درہم نہ ہونےکے دن سے پہلے پہلے (قیامت کا دن) اگر اس کے ذمے نیکی ہوگی تو (اس کے ساتھی) کے حق کے لحاظ سے لے لی جائے گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہ ہوں گی تو اس کے ساتھی کی برائیاں اس پر لاد دی جائیں گی۔'' 6
اسی حکم کی مزید احادیث مندرجہ ذیل مقامات پر ملاحظہ فرمالیں:
(الف) صحیح، مسلم کتاب البروالصلة والآداب، باب تحریم الظلم
(ب) مستدرک الحاکم، ج2 ص27
(ج) ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب التشدید في الدین
5۔ اپنی وصیت کو جلدی سے تیار کرکے اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''جب کوئی مسلمان وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزار دے، مگر اس کی وصیت تحریری شکل میں اس کے تکیے کے نیچے ہو۔'' 7
6۔ اسے ایک تہائی وصیت کرنے کا حق ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس سے کم مقدار کی ہی کرے۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت سعدؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
''ایک تہائی کی وصیت کرو، حالانکہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔''8
7۔ اس وصیت پردو مسلم عادل مرد، یا کسی وجہ سے نہ ملنے پر دو غیر مسلم قابل اعتباد مرد گواہ ہوں۔
فرمان ربّانی ہے:
''اے اہل ایمان! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کررہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عادل آدمی گواہ بنائے جائیں۔یا اگر تم سفر کی حالت میں ہواور وہاں موت کی مصیبت آجائے تو غیر مسلموں میں سے ہی دو گواہ لے لیے جائیں۔'' (المائدہ، آیت 106)
8۔ والدین او رقریبی رشتہ دار (جو کہ شرعاً وارث ہوں)کے حق میں وصیت جائز نہیں۔9
9۔ کسی وارث کو بذریعہ وصیت محروم کردینا یا حصہ کم کردینا بھی جائز نہیں ، ارشاد خداوندی ہے:
''مردوں کے لیے اس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ حصہ ہے۔'' (سورة النساء آیت7)
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
''نہ نقصان دینا ہے او رنہ برداشت کرنا، جس نے کسی کا نقصان کیا اللہ اس کا نقصان کرے گا ، او رجس نے تکلیف دی اللہ اسے تکلیف دے گا۔'' 10
10۔ ظالمانہ وصیت ناقابل عمل ہے:
ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردیے، دیہات سے اس کے ورثاء آئے، انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو اس کے فعل سے آگاہ کیا، آپؐ نے فرمایا: ''کیا واقعة اس نے اس طرح ہی کیا ہے؟ اگر ہمیں علم ہوتا تو ان شاء اللہ اس پر جنازہ نہ پڑھتے!'' راوی کہتا ہے: ''پھر آپﷺ نےاس کے درمیان قرعہ ڈالا پھر دو کو آزاد کردیا او رباقی چار کو غلامی میں پلٹا دیا۔'' 11
11۔ اس دور میں لوگ بدعتوں اور خلاف شریعت کاموں کے عادی ہوگئے ہیں، تو مرنے والے کو چاہیے کہ اپنی تجہیز و تکفین کے ہر پہلو کے بارے میں وصیت کرکے جائے، تاکہ ورثاء کم اس کم وصیت کا لحاظ کرتے ہوئے ہی غلط رسم و رواج سے پرہیز کریں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
''اے اہل ایمان اپنے آپ کو او راپنے اہل و عیال کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان او رپتھر ہوں گے۔'' (سورة التحریم آیت 6)
اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے وفات سے پہلے اپنے بارے میں واضح الفاظ میں وصیت فرما دی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
حضرت عامر بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعدؓ نے اپنے مرض وفات میں یہ وصایت فرمائی کہ میرے لیے لحد بنائی جائے اور اسے کچھ اینٹوں سے بند کیا جائے، جیسا کہ حضور اکرمﷺ کی بنائی گئی تھی۔'' 12
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ:
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے قرب وفات ، مندرجہ ذیل وصیت فرمائی:
1۔ میرا جنازہ تیز تیز لے کر چلنا۔
2۔ میرے پیچھے خوشبودار دھونی نہ ہو۔
3۔ لحد پر کوئی ایسی چیز نہ رکھنا جو کہ میرے او رمٹی کے درمیان حائل ہو۔
4۔ میری قبر پرکوئی تعمیر نہ کی جائے۔
5۔ مزید تم کو گواہ بنا کرکہتا ہوں کہ میں منہ نوچنے والی ، مصیبت پر واویلا کرنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی سے بے زار ہوں۔
ساتھی پوچھنے لگے، ''کیا آپ نے اس بابت کچھ سنا ہے؟ کہنے لگے ''ہاں! رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔'' 13
حضرت حذیفہ بن ایمان ؓ فرماتے ہیں کہ:
''جب میں مرجاؤں تو میرے بارے میں کسی کو تکلیف نہ دینا، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ نعیٰ15کے حکم میں نہ آجائے جبکہ حضور اکرمﷺ نے نعیٰ سے روکا ہے۔''14 ( جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں