شادی بیاہ کی تقریبات کے ضمن میں ایک اصلاحی تحریک کا جائزہ
لفظ ''ولیمہ'' ''ولم'' سے مشتق ہے۔ ''ولم'' یا ''أولم'' کامعنی عربی لغت میں ''مأدبة'' ہوتا ہے۔ جسے اردو زبان میں ''دعوت طعام'' انگریری میں "Feast" یا "Banquet" کہتے ہیں۔1 ولیمہ کی تعریف بیان کرنےمیں علماء مختلف الآراء ہیں، بعض کہتے ہیں کہ ہر خوشی کی تقریب (خواہ شادی بیاہ ہو یا ختنہ و عقیقہ وغیرہ) پر دعوت طعام ولیمہ کہلاتی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ولیمہ صرف طعام العرس کے لیے خاص ہے اور بعض کہتے ہیں ، طعام عندالاملاک ولیمہ ہوتا ہے۔مشہور ائمہ لغت میں سے ازہری کا قول ہے کہ ''ولیمہ'' ''ولم'' سے ماخوذ ہے، یہ جمع ہے کیونکہ اس میں زوجین جمع ہوتے ہیں۔''2 ابن الاعرابی کا قول ہے کہ ''کسی چیز کی تتمیم او راجتماع ولیمہ کی اصل ہے، ہر طعام جو باعث سرور ہو اس پر ولیمہ واقع ہوتا ہے۔ اس کا استعمال ویتمه الاعراس میں بلا تقیید ہوتا ہے لیکن دوسرے مواقع سرور کےلیے تقیید کے ساتھ، مثلاً ولیمة الاغدار یا مادبة وغیرہ۔''3 قاموس میں ہے کہ: ''ولیمہ طعام العرس یا ہر وہ طعام ہے جو دعوت کے لیے بنایا جائے اور اس سے ضیافت کی جائے۔''4 قاموس کی شرح تاج العروس میں ہے: ''ابوعبید نے بیان کیا کہ میں نے ابوزیدکو کہتے ہوئے سنا کہ وہ طعام جوعندالعرس بنایا جائے وہ ولیمہ ہے اور وہ طعام بھی جو عندالاملاک5 یعنی عقد النقیعہ کے وقت ہو۔6 حسن بن عبداللہ العسکری فرماتے ہیں کہ ''ولیمہ وہ دعوت طعام ہے جو عندالاملاک کھلائی جائے، یہ جمع ہے کیونکہ اس میں زوجین کا اجتماع ہوتا ہے۔''7 ابن عبدالبر بیان کرتے ہیں کہ ''اہل لغت میں سے خلیل بن احمد اور ثعلب وغیرہ کا قول ہے کہ ولیمہ وہ طعام ہے جوعرس یعنی شادی بیاہ کے موقع کے لیے خاص ہو۔''8 جوہری او رابن اثیر وغیرہ نے اس قول پر جزم کاموقف اپنایا ہے۔9 ابن رسلان فرماتے ہیں کہ ''اہل لغت کاقول زیادہ قوی ہے کیونکہ وہ اہل زبان ہیں، لغت کے موضوع او راہل عرب کی زبان، ان کے محاورے او ران کے استعمال سےبخوبی واقف ہیں۔''10 صاحب المحکم کا قول ہے کہ ''ولیمة طعام العرس والاملاك ہے۔''11 قاضی عیاضکا قول ہے کہ ''ولیمة طعام النکاح۔''12 امام شافعی او ران کے اصحاب فرماتے ہیں کہ ''ولیمہ ہر اس دعوت کے لیے بولا جاتا ہے جو سرور حادث کے لیے ہو مثلاً نکاح یا ختان وغیرہ، لیکن اس کا مشہور استعمال علی الاطلاق نکاح کے موقع پر ہوتا ہے۔ دوسرے مواقع پر اس کی قید ضروری ہے مثلاً یہ کہا جائے: ولیمہ الختان وغیرہ۔''13 ماوردی اور قرطبی نے اس معاملہ میں کافی شدت اختیار کی ہے۔ان کاقول ہے کہ ''ولیمہ کا اطلاق طعام العرس کے علاوہ کسی دوسرے طعام پرنہیں ہوتا۔ دعوت کا لفظ ولیمہ کےمقابلہ میں بہت زیادہ عام ہے۔''14 لیکن امام نووی فرماتے ہیں کہ ''اس معاملہ میں ان لوگوں نے غلطی کی ہے۔''15 علامہ ابوالطیب شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ ''یہ وہ طعام ہے جو عندالعرس تیار کیا جاتا ہے۔''16 علامہ ابن قدامہ مقدسی بیان کرتے ہیں کہ ''ولیمہ خاص طور پر اس طعام کا نام ہے جو شادی بیاہ کے مواقع پر ہوتا ہے۔ یہ نام دوسرے مواقع و تقاریب کے طعام پر واقع نہیں ہوتا، جیسا کہ ابن عبدالبر نے اہل لغت میں سے ثعلب وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ ہمارے اصحاب میں سےبعض فقہاء کا قول ہے کہ ولیمہ نام کا اطلاق ہراس طعام پر ہوتا ہے جو سرور حادث کے لیے ہو لیکن اس کا بکثرت استعمالطعام العرس کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں اہل لغت کا قول زیادہ قوی ہے کیونکہ وہ اہل زبان ہیں، لغت کے موضوع کو پہچاننےوالے اور اہل عرب کی زبان سے بخوبی واقف ہیں.............. الخ''17
علامہ شوکانی نے ''نیل الاوطار'' میں او رحافظ ابن حجر عسقلانی نے ''فتح الباری''18 میں معروف اصحاب لغت اور مشہور فقہاء کے بہت سے اقوال اس سلسلہ میں نقل کئے ہیں۔ جن حاصل یہ ہے کہ اگرچہ بعض علماء کے نزدیک لفظ ''ولیمہ'' دوسری تمام سرور حادث دعوتوں کے لیے بھی مستعمل ہے، لیکن خاص طور پر اس شرعی اصطلاحی کا استعمال اس طعام کے لیے ہوتا ہے جو عندالعرس ہو، جس کے مختلف مراحل عقد نکاح، املاک، زفاف اور دخول کے نام سے مشہور ہیں او راس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ بلاشبہ یہ دعوت ولائم مشروعہ میں سے ہے۔
اب اس دعوت کے جواز کی علتیں پیش کی جاتی ہیں:
(1) ائمہ لغت و فقہاء کے جتنے بھی اقوال اوپر نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے کوئی قول بھی، اس امر کی وضاحت اور تخصیص نہیں کرتا کہ ولیمہ فقط زوج (یعنی شوہر) کی جانب سے ہی ہونا چاہیے ولہن یا اس کے والیان کی طرف سے نہیں۔
(2) چونکہ یہ دعوت نکاح کے موقع پر ہوتی ہے او رنکاح دونوں جانب سے ہوتا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں جوانب سے، پس یہ طعام بھی نکاح کی طرح عموم کے حکم میں داخل تصور کیاجائے گا۔
(3) چونکہ عرس کا عمومی اطلاق عقد اور دخول دونوں پر ہوتا ہے، لہٰذا جو طعام عندالعقد زوجہ یا اس کے گھر والوں کی طرف سےکیاجائے وہ بھی لغة و شرعاً ولیمہ یاطعام العرس کے عموم میں داخل سمجھا جائے گا، کیونکہ عرس فی الواقع عقد ہی ہے او ریہ دعوت طعام ولیمہ کی تمام لغوی و غیر لغوی شرائط پوری بھی کرتی ہے۔ مثلاً یہ ''ولم'' سے مشتق ہے ، اس میں اجتماع بھی ہوتا ہے، نیز یہ حادث سرور و نکاح بھی ہے نہ کہ برمحل شرور و مصائب، جیسا کہ مذکور ہے: ''لأنه شرع في السرور لا في الشرور''19
(4) اس دعوت کے جواز کی ایک علت شریعت کا وہ کلیہ بھی ہے، جسے علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
'' اگر کسی خاص چیز کے متعلق کوئی مخصوص نص موجود نہ ہو تو وہ چیز بطریق عموم دوسری عام دلیل کے حکم میں داخل سمجھی جائے گی۔''20
پس اس دعوت کو ولیمة العرس ، ولیمة النکاح، طعام العرس یا کچھ او رکہا جائے، اس پر دلائم مشروعہ کے عمومی حکم کا اطلاق ہوگا نہ کہ ولائم مخالف للشرع کا۔
(5) دلہن کے گھر بوقت نکاح جانبین کے جو احباب و رشتہ دار او رباراتی جمع ہوتے ہیں، اکثر ان میں سے کچھ لوگ ایسےبھی ہوتے ہیں جو مسافت بعید طےکرکے آئے ہوتے ہیں، جو شرعاً ''زُور'' کے حکم میں داخل ہیں۔ان کے علاوہ جو لوگ قریبی علاقوں یا اسی شہر کے ہوں وہ تمام بھی مہمان (ضیوف) میں داخل ہیں۔ ''زُور'' ''و ضیف'' کی مہمانی کے لے رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے:
''إن لزورك علیك حقا'' 21
''تمہارے پاس دور سے آنے والے شخص کا (مہمان و مدارت او راکل و شرب میں) تم پر حق ہے۔''
اسی طرح فرمایا:
''من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفه''22
''جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے۔''
''ضیف'' کامہمان داری کا اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہےکہ یہ ایک اہم سنت ابراہیمی ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سےپتہ چلتا ہے:
''کان إبراھیم أوّل الناس ضیف الضیف''23
''حضرت ابراہیم وہ پہلےشخص تھے، جنہوں نےمہمان کی مہمان داری کی تھی۔''
اور سنت ابراہیمؑ کی اتباع کےمتعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا'' 24
''پھر ہم نے وحی نازل کی آپ پر (اےنبیﷺ)ک ہاتباع کیجئے ملت ابراہیمؑ حنیف کی۔''
محدثین کرام نے مہمان کی ضیافت کے متعلق اپنی تصانیف میں مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔مثلاً ''باب إکرام الضیف''25 ، ''باب حق الضیف''26 ، اور ''باب صنع الطعام و التکلف للضیف''27 وغیرہ، ان ابواب کی موجودگی بھی اس چیز کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیےکافی ہے۔
لہٰذا جب مہمانوں کی خاطر و مدارت تقریب شادی کے بغیر بھی سنت و مستحب قرار دی گئی ہے،تو بروقت شادی،جو کہ حادث سرور ہے، مہمانوں کی ضیافت بدرجہ اولیٰ سنت اور اجر و ثواب کا باعث ہوگی۔إن شاء اللہ تعالیٰ!
(6) یہ دعوت طعام اس لحاظ سے بھی مشروع او رباعث خیر و برکت ہے کہ اس میں اپنےمسلم بھائیوں اور دوسرت و احباب کی ضیافت اجتماعی طورپر کی جاتی ہے، جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:
''أحب الطعام إلی اللہ ما کثرت عليه الأیدي''28
''اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ طعام وہ ہے جس کو کھانے والے بکثرت (جمع) ہوں۔''
حضرت جابرؓ کی اس مرفوع حدیث کے متعلق علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ ''اس کی اسناد میں راوی عبدالمجید ابن رواد موجود ہے جو ثقہ تو ہے لیکن اس میں تھوڑا ضعف پایاجاتا ہے۔''29
بعض دوسری احادیث میں بھی بوقت اطعام طعام، اجتماع کی تاکید ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے: ''واجتمعوا إلیٰ طعامکم''30 اور ''کلو جمیعا''31 وغیرہ ، لہٰذا بعض محدثین نے ''باب في الاجتماع علی الطعام''32 کے عنوان سےمستقل ابواب بھی قائم کیے ہیں۔
(7) اس دعوت کی مشروعیت کے لیےمندرجہ ذیل احادیث پر غور کرنابھی مفید ہوگا کیونکہ ان میں اطعام طعام کو جنت میں جگہ حاصل کرنےکا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے:
(الف) ''عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یمکنکم من الجنة إطعام الطعام یابني عبدالمصلب أطعموا
علامہ شوکانی نے ''نیل الاوطار'' میں او رحافظ ابن حجر عسقلانی نے ''فتح الباری''18 میں معروف اصحاب لغت اور مشہور فقہاء کے بہت سے اقوال اس سلسلہ میں نقل کئے ہیں۔ جن حاصل یہ ہے کہ اگرچہ بعض علماء کے نزدیک لفظ ''ولیمہ'' دوسری تمام سرور حادث دعوتوں کے لیے بھی مستعمل ہے، لیکن خاص طور پر اس شرعی اصطلاحی کا استعمال اس طعام کے لیے ہوتا ہے جو عندالعرس ہو، جس کے مختلف مراحل عقد نکاح، املاک، زفاف اور دخول کے نام سے مشہور ہیں او راس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ بلاشبہ یہ دعوت ولائم مشروعہ میں سے ہے۔
اب اس دعوت کے جواز کی علتیں پیش کی جاتی ہیں:
(1) ائمہ لغت و فقہاء کے جتنے بھی اقوال اوپر نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے کوئی قول بھی، اس امر کی وضاحت اور تخصیص نہیں کرتا کہ ولیمہ فقط زوج (یعنی شوہر) کی جانب سے ہی ہونا چاہیے ولہن یا اس کے والیان کی طرف سے نہیں۔
(2) چونکہ یہ دعوت نکاح کے موقع پر ہوتی ہے او رنکاح دونوں جانب سے ہوتا ہے، یعنی مرد اور عورت دونوں جوانب سے، پس یہ طعام بھی نکاح کی طرح عموم کے حکم میں داخل تصور کیاجائے گا۔
(3) چونکہ عرس کا عمومی اطلاق عقد اور دخول دونوں پر ہوتا ہے، لہٰذا جو طعام عندالعقد زوجہ یا اس کے گھر والوں کی طرف سےکیاجائے وہ بھی لغة و شرعاً ولیمہ یاطعام العرس کے عموم میں داخل سمجھا جائے گا، کیونکہ عرس فی الواقع عقد ہی ہے او ریہ دعوت طعام ولیمہ کی تمام لغوی و غیر لغوی شرائط پوری بھی کرتی ہے۔ مثلاً یہ ''ولم'' سے مشتق ہے ، اس میں اجتماع بھی ہوتا ہے، نیز یہ حادث سرور و نکاح بھی ہے نہ کہ برمحل شرور و مصائب، جیسا کہ مذکور ہے: ''لأنه شرع في السرور لا في الشرور''19
(4) اس دعوت کے جواز کی ایک علت شریعت کا وہ کلیہ بھی ہے، جسے علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
'' اگر کسی خاص چیز کے متعلق کوئی مخصوص نص موجود نہ ہو تو وہ چیز بطریق عموم دوسری عام دلیل کے حکم میں داخل سمجھی جائے گی۔''20
پس اس دعوت کو ولیمة العرس ، ولیمة النکاح، طعام العرس یا کچھ او رکہا جائے، اس پر دلائم مشروعہ کے عمومی حکم کا اطلاق ہوگا نہ کہ ولائم مخالف للشرع کا۔
(5) دلہن کے گھر بوقت نکاح جانبین کے جو احباب و رشتہ دار او رباراتی جمع ہوتے ہیں، اکثر ان میں سے کچھ لوگ ایسےبھی ہوتے ہیں جو مسافت بعید طےکرکے آئے ہوتے ہیں، جو شرعاً ''زُور'' کے حکم میں داخل ہیں۔ان کے علاوہ جو لوگ قریبی علاقوں یا اسی شہر کے ہوں وہ تمام بھی مہمان (ضیوف) میں داخل ہیں۔ ''زُور'' ''و ضیف'' کی مہمانی کے لے رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے:
''إن لزورك علیك حقا'' 21
''تمہارے پاس دور سے آنے والے شخص کا (مہمان و مدارت او راکل و شرب میں) تم پر حق ہے۔''
اسی طرح فرمایا:
''من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفه''22
''جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے۔''
''ضیف'' کامہمان داری کا اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہےکہ یہ ایک اہم سنت ابراہیمی ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سےپتہ چلتا ہے:
''کان إبراھیم أوّل الناس ضیف الضیف''23
''حضرت ابراہیم وہ پہلےشخص تھے، جنہوں نےمہمان کی مہمان داری کی تھی۔''
اور سنت ابراہیمؑ کی اتباع کےمتعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا'' 24
''پھر ہم نے وحی نازل کی آپ پر (اےنبیﷺ)ک ہاتباع کیجئے ملت ابراہیمؑ حنیف کی۔''
محدثین کرام نے مہمان کی ضیافت کے متعلق اپنی تصانیف میں مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔مثلاً ''باب إکرام الضیف''25 ، ''باب حق الضیف''26 ، اور ''باب صنع الطعام و التکلف للضیف''27 وغیرہ، ان ابواب کی موجودگی بھی اس چیز کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیےکافی ہے۔
لہٰذا جب مہمانوں کی خاطر و مدارت تقریب شادی کے بغیر بھی سنت و مستحب قرار دی گئی ہے،تو بروقت شادی،جو کہ حادث سرور ہے، مہمانوں کی ضیافت بدرجہ اولیٰ سنت اور اجر و ثواب کا باعث ہوگی۔إن شاء اللہ تعالیٰ!
(6) یہ دعوت طعام اس لحاظ سے بھی مشروع او رباعث خیر و برکت ہے کہ اس میں اپنےمسلم بھائیوں اور دوسرت و احباب کی ضیافت اجتماعی طورپر کی جاتی ہے، جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:
''أحب الطعام إلی اللہ ما کثرت عليه الأیدي''28
''اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ طعام وہ ہے جس کو کھانے والے بکثرت (جمع) ہوں۔''
حضرت جابرؓ کی اس مرفوع حدیث کے متعلق علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ ''اس کی اسناد میں راوی عبدالمجید ابن رواد موجود ہے جو ثقہ تو ہے لیکن اس میں تھوڑا ضعف پایاجاتا ہے۔''29
بعض دوسری احادیث میں بھی بوقت اطعام طعام، اجتماع کی تاکید ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے: ''واجتمعوا إلیٰ طعامکم''30 اور ''کلو جمیعا''31 وغیرہ ، لہٰذا بعض محدثین نے ''باب في الاجتماع علی الطعام''32 کے عنوان سےمستقل ابواب بھی قائم کیے ہیں۔
(7) اس دعوت کی مشروعیت کے لیےمندرجہ ذیل احادیث پر غور کرنابھی مفید ہوگا کیونکہ ان میں اطعام طعام کو جنت میں جگہ حاصل کرنےکا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے:
(الف) ''عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یمکنکم من الجنة إطعام الطعام یابني عبدالمصلب أطعموا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں