لحمد للہ:
جمہور علماء
كرام ( جن ميں ابو حنيفہ، مالك اور شافعى رحمہم اللہ شامل ہيں ) كا كہنا ہے كہ
پاؤں دھونے افضل ہيں، كيونكہ پاؤں دھونا اصل ہے تو اس طرح افضل بھى يہى ہوگا.
ديكھيں:
المجموعا للنووى ( 1 / 502 ).
اور امام
احمد كہتے ہيں كہ موزوں پر مسح كرنا افضل ہے، اور انہوں درج ذيل دلائل سے استدلال
كيا ہے:
1 - يہ زيادہ
آسان ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:
" رسول
كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب بھى دو امروں ميں اختيار ديا گيا تو رسول كريم صلى
اللہ عليہ وسلم نے سب سے زيادہ آسان كو ليا، جبكہ وہ گناہ نہ ہوتا، اور اگر وہ
گناہ ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں اس سے سب سے زيادہ دور
بھاگنے والے ہوتے "
صحيح بخارى
حديث نمبر ( 3560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2327)
2 - يہ رخصت
ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:
" جس
طرح اللہ تعالى اپنى معصيت كرنے كو ناپسند فرماتا ہے، اسى طرح اسے يہ پسند ہے كہ
اس كى رخصتوں پر عمل كيا جائے "
مسند احمد حديث
نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل ( 564 ) ميں صحيح
قرار ديا ہے.
3 - موزوں پر
مسح كرنے ميں ان بدعتيوں كى مخالفت ہوتى ہے جو مسح كرنے كے منكر ہيں، مثلا خوارج
اور رافضى شيعہ.
پاؤں دھونے
اور موزوں پر مسح كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت سارى احاديث مروى
ہيں، جن كى بنا پر بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: دھونا اور مسح كرنا برابر ہے،
اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.
شيخ الاسلام
ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن القيم رحمہما اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے كہ:
ہر ايك ميں
افضل يہى ہے كہ وہ اس پر عمل كرے جو اس كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ اگر تو اس نے
موزے پہن ركھے ہوں تو اس كے ليے مسح كرنا افضل ہے، اور اگر اس كے پاؤں ننگے ہيں تو
دھونا افضل ہے، اور پھر موزے تو پہنے ہى اس ليے جاتے ہيں كہ ان پر مسح كيا جائے.
اس كى دليل
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جب انہوں نے وضوء ميں پاؤں دھونے كے
ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے موزے اتارنا چاہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ
وسلم نے انہيں فرمايا تھا:
" رہنے
دو، كيونكہ ميں نے يہ موزے طہارت كے بعد پہنے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ
وسلم نے ان پر مسح كيا "
صحيح بخارى
حديث نمبر ( 206 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 274 ).
يہ حديث اس
كى دليل ہے كہ موزے پہننے والے كے حق ميں مسح كرنا افضل ہے.
اس كى دليل
ترمذى شريف كى درج ذيل حديث بھى ہے:
صفوان بن
عسال رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول
كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حكم ديا كرتے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين
رات اور تين نہ اتارا كريں، پيشاب پاخانہ اور نيند كى بنا پر نہيں بلكہ جنابت كى
وجہ سے اتار ديں "
سنن ترمذى
حديث نمبر ( 96 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 104 ) ميں اس
حديث كو حسن قرار ديا ہے.
چنانچہ مسح
كرنے كا حكم افضليت پر دلالت كرتا ہے، ليكن يہ اس كے حق ميں افضل ہے جس نے موزے
پہن ركھے ہوں.
شيخ الاسلام
ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور
فيصلہ كن بات يہ ہے كہ:
دونوں كے حق
ميں افضل يہ ہے كہ جو اس كے قدم كى حالت كے موافق ہو، چنانچہ ننگے پاؤں والے كے حق
ميں دھونا افضل ہے، وہ موزے نہ تلاش كرتا پھرے تا كہ اس پر مسح كر سكے، جس طرح كہ
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں جب ننگے ہوتے تو آپ دھوتے، اور جب موزے پہن
ركھے ہوتے تو ان پر مسح كرتے " انتہى.
ماخوذ از:
الانصاف ( 1 / 378 ).
اور زاد
المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ لكھتے ہيں:
" رسول
كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے قدموں كى حالت كے مخالف تكلف نہيں كرتے تھے، بلكہ جب
موزے پہنے ہوتے تو انہيں اتارتے نہيں تھے بلكہ ان پر مسح كرتے، اور اگر پاؤں ننگے
ہوتے تو اپنے پاؤں دھو ليتے، اور موزے نہيں پہنتے تھے كہ اس پر مسح كريں.
مسح كرنا يا
دھونے كى افضليت كے مسئلہ ميں يہ سب سے بہتر اور عدل و انصاف والا قول ہے، ہمارے
شيخ ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ ) كا يہى قول ہے " انتہى.
ديكھيں: زاد
المعاد ( 1 / 199 ).
واللہ اعلم .
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں