سلام و مصافحہ کے احکام و مسائل
سلام کے فضائل
عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ ﷺ:)لاتدخلون الجنة حتی تؤمنوا،ولا تؤمنوا حتی تحابوا،أو لا أدلُّکم علی شيء إذا فعلتموہ تحاببتم؟ اَفشوا السلام بینکم) 1
''سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ''تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم ایمان نہیں لاسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جسے اپنا کرتم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو عام کرو۔'' یعنی ایک دوسرے کو خوب سلام کیا کرو۔
عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ ﷺ: (للمؤمن علی المؤمن ست خصال: یعودہ إذا مرض ویشھدہ إذا مات ویُجیـبه إذا دعاہ ویُسلِّم علیه إذا لقِیَه ویشمته إذا عطس وینصح له إذا غاب أو شھد) 2
''سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پرچھ حقوق ہیں : جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمارپُرسی کرےجب وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، جب اسے چھینک آئے (اور وہ الحمدﷲکہے) تو اسے یرحمک اﷲ (اللہ آپ پررحم فرمائے) کہہ کررحمت کی دعا دے اور اس کی غیر حاضری یا موجودگی میں اس کی خیرخواہی کرے۔
عن عبداﷲ بن عمرو أن رجلا سأل رسول اﷲ ﷺ أي الإسلام خیر؟ قال: (تطعم الطعام وتقرأ السلام علی من عرفتَ ومن لم تَعرف) 3
''سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کون سا اسلام بہتر ہے (یعنی اسلام میں خیروخوبی کی بات کون سی ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کھاناکھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا چاہے وہ واقف ہو یا ناواقف''
عن أبي أمامة قال قال رسول اﷲ ﷺ: (إن أولیٰ الناس باﷲ تعالیٰ مَن بَدَأھم بالسلام) 4
''لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو اُنہیں سلام کہنے میں ابتداکرے۔''
عن عبد اﷲ یعني ابن مسعود عن النبي ﷺ قال: (السلام اسم من أسمآء اﷲ تعالیٰ وضعه في الأرض فأفشوہ بینکم فإن الرجل المسلم إذا مرَّ بقوم فسلَّم علیھم فردوہ علیه کان له علیهم فضل درجة بتذکیرہ إیاھم السلام فإن لم یردوا ردّ علیه من ھو خیر منھم) 5
''سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس نے زمین پررکھ دیا ہے۔ پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ کیونکہ مسلمان شخص جب کسی قوم پر گزرتاہے اور انہیں سلام کرتاہے اور وہ اس کو سلام کا جواب دیتے ہیں تو اس کے لیے ان پر ایک درجہ فضیلت ہے کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد کرایا ہے اور اگر وہ لوگ اس کے سلام کا جواب نہ دیں تو اسے وہ جواب دے گا جو ان سے بہتر ہے۔''
سیدنا انسؓ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دیا ہے۔پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ۔
سیدنا انسؓ کی یہ حدیث مختصر ہے اور اس کی سند صحیح ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث بھی شواہد کی وجہ سے 'حسن' ہے۔
عن البراء بن عازب، قال قال رسول اﷲ! (أفشوا السلام تسلموا والأشرة شر) 6
''سیدنا براء بن عازبؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''سلام کو پھیلاتے رہو تو تم سلامتی میں رہو گے اورتکبر اور حق کاانکار شر کا باعث ہے۔''
یعنی تکبر و بطرکی وجہ سے سلام کا جواب نہ دینا شر کا سبب ہے۔بطر کامطلب 'حق کا انکار کرنا' ہے۔
عن أبي الدرداء قال:قال رسول اﷲ!: (أفشوا السلام کي تعلوا) 7
سیدنا ابودردائؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''سلام کو پھیلاؤ تاکہ تم سربلند ہوجاؤ۔
سیدنا عبداللہ بن سلامؓ اِرشاد فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ تشریف لے آئے ہیں ۔ لوگوں کیساتھ میں بھی آپ کی زیارت کے لیے گیا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ اقدس کو توجہ سے دیکھاتومجھے یقین ہوگیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جوکلام فرمایا وہ یہ تھا:
یأیھا الناس أفشوا السلام،وأطعموا الطعام وصلُّوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام 8
''لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلایا کرو، رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔''
عن أبي هریرة قال قال رسول اﷲ ﷺ :(أعجز الناس من عجز في الدعاء وأبخل الناس من بخل بالسلام) 9
''سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''لوگوں میں عاجز ترین شخص وہ ہے کہ جودعاء سے عاجز آگیاہو اورلوگوں میں بخیل و کنجوس ترین شخص وہ ہے کہ جو سلام میں بخل کرے۔''
فوائد
ان اَحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیات عطا فرما رکھی ہیں ان میں سے ایک اہم خصوصیت سلام کی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کو یہ عظیم تحفہ عنایت کیاگیا ہے ۔ سلام کے مندرجہ ذیل فوائد ان احادیث میں بیان کئے گئے ہیں :
سلام کے احکام ومسائل
احادیث میں سلام کے متعلق متعدد احکامات ثابت ہیں جن کا مختصرا ًیہاں ذکر کیاجاتا ہے:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو اُنہیں حکم دیا کہ وہ فرشتوں کی جماعت کو سلام کہیں اور فرمایا کہ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا۔ 10
ایک حدیث میں ہے کہ سوار پیادہ کو ، پیادہ بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ لوگوں کو سلام کیا کریں۔ 11
چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل کثیر کو سلام کیاکریں۔ 12
یہودی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر''السّام علیکم'' (یعنی تمہیں موت آئے) کہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل پر اُنہیں یہ جواب دیا گیا کہ جب اہل کتاب سلام کریں توجواب میں اُنہیں وعلیکم کہا جائے۔ 13
کسی مجلس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہودی مشترک ہوں تو اُنہیں سلام کہا جائے۔ 14
السلام علیکم کہنے والے کو دس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة اﷲ کہنے والے کو بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ کہنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں 15 ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ ومغفرتہ کے الفاظ کہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چالیس نیکیاں ملی ہیں ۔ 16
ایک جماعت اگر کسی شخص کے پاس سے گزرے تو ایک شخص کا سلام کہنا سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص جواب دے تو وہ جوابِ سلام سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔ 17
البتہ بہت سے افراد بیک وقت بھی ایک آدمی کو سلام کرسکتے ہیں ۔ 18
اُنگلیوں کے ساتھ اشارہ کرکے سلام کہنا عیسائیوں کا سلام ہے اور ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا یہودیوں کا سلام ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے غیر کے ساتھ مشابہت کرتاہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔19 البتہ ضرورت کے تحت ہاتھ سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ 20
نوٹ:آج کل اکثر مسلمان سلام کے وقت 'السلام علیکم' کہنے کے بجائے ہاتھ اُٹھا کر سلام کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ کی سنت ہے اور یہود و نصاریٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہماری فوج میں بھی سیلوٹ کا طریقہ رائج ہے لہٰذا اس طریقے سے اجتناب کرناچاہئے۔ ضروری ہے کہ ان غیر اسلامی چیزوں کو فوج سے بھی ختم کیا جائے تاکہ ہماری فوج کامیاب و کامران ہو۔
اگر کسی مسلمان سے ملاقات ہو تو پھر اسے سلام کہے اورچلتے وقت درمیان میں کوئی درخت، دیوار یاچٹان حائل ہوجائے اور دوبارہ ملاقات ہو تو پھر اسے سلام کرے۔ 21
کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کہے اور جب وہاں سے رخصت ہو تو سلام کہے۔22
عورتوں کو بھی سلام کرے۔ 23
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے تو اُنہیں سلام کیا۔ 24
بول و براز کے وقت نہ سلام کرے اورنہ سلام کا جواب دے۔ 25
نمازی ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے۔ 26
جب کوئی شخص کسی کا سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے: علیك وعلیه السلام ورحمة اﷲ و برکاته 27
رات کے وقت اتنی آواز سے سلام کرے کہ جاگنے والا سن لے اور سونے والا بیدار نہ ہو۔ 28
مصافحہ
دائیں ہاتھ کی ہتھیلی (جسے صفحہ کہتے ہیں ) کو دوسرے مسلمان کی ہتھیلی (صفحہ) کے ساتھ ملانے کو مصافحہ کہتے ہیں اور جب کسی مسلمان سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرنے کے بعد اس سے مصافحہ بھی کرناچاہئے اورمصافحہ کرنے کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے:
حدثنا محمد بن بکر حدثنا میمون المرئي حدثنا میمون ابن سیاہ عن أنس بن مالك عن النبي اﷲ ﷺ قال: (ما من مسلمین التقیا فأخذ أحدھما بید صاحبه إلا کان حقًّا علی اﷲ أن یحضر دعآء ھما ولا یفرق بین أیدیھما حتی یغفرلھما)29
''سیدنا انس بن مالک ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشادفرمایا: ''جب دو مسلم آپس میں ملاقات کرتے ہیں پھر ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے (اور اس سے مصافحہ کرتا ہے) تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ ان کی دعا کوقبول فرمائے اور ان دونوں کے ہاتھوں میں جدائی نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ ان کی بخشش فرمادیتا ہے''۔
حدثنا الحسین بن إسحاق التستري ثنا عبید اﷲ بن القواریري ثنا سالم بن غیلان قال سمعت جعدًا أبا عثمان یقول حدثني أبوعثمان النهدي عن سلمان الفارسي أن النبي ﷺ قال: (إن المسلم إذا لقي أخاہ المسلم فأخذ بیدہٖ تحاتت عنهما ذنوبھما کما تتحات الورق مِنَ الشجرة الیابسة في یوم ریح عاصف وإلا غفرلھما ولو کانت ذنوبھما مثل زبد البحر) 30
''سیدنا سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''جب کوئی مسلم اپنے مسلم بھائی سے ملاقات کرتاہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے تو ان دونوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں کہ جیسے پتے خشک درخت سے تیز و تند ہوا والے دن جھڑ جاتے ہیں اور ان کی بخشش کردی جاتی ہے۔اگرچہ ان کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔''
ان دونوں احادیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ مصافحہ ایک ہی ہاتھ سے مسنون ہے اور دونوں کے ساتھ مصافحہ کا ذکر کسی صحیح حدیث میں ہی نہیں بلکہ کسی ضعیف روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔
عن عبد اﷲ بن هشام قال کُنَّا مع النبي ﷺ وھو آخذ بید عمر ابن الخطاب... 31
''سیدناعبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں کہ '' ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطابؓ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے'' ...
عن أبي هریرة قال لقیني رسول اﷲ ﷺ وأنا جنب فأخذ بیدي... 32
''سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ''میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور میں جنبی تھا، پس آپ نے میرا ہاتھ پکڑا...''
عن أنس قال: ما مسِسْتُ حریرًا ولا دیباجًا ألین من کف النبي ولا شممت ریحا قط أو عرفا قط أطیب من ریح أوعرف النبي ! 33
''سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی موٹا ریشم اور باریک ریشم نہیں چھوا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و ملائم ہو اور نہ کوئی بُو یا خوشبو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بُویا خوشبو سے میں نے بہتر اور عمدہ سونگھی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی کا نرم و ملائم معلوم ہونا مصافحہ ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا تھا۔''
وقال کعب بن مالك: دخلت المسجد فإذا برسول اﷲ ﷺ فقام إليَّ طلحة بن عبید اﷲ یھرول حتی صافحني وھنأني 34
''سیدنا کعب بن مالکؓ (غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ جانے اور اپنی توبہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طویل حدیث میں ) فرماتے ہیں کہ میں (توبہ قبول کئے جانے کی خوشخبری سن کر مسجد کی طرف آیا اور )مسجد میں داخل ہوا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ پس طلحہ بن عبیداللہؓ تیزی سے میری طرف کھڑے ہوئے اور مجھ سے مصافحہ کیااور مجھے(توبہ قبول ہونے کی) مبارک باد دی۔
حدثنا حسان بن نوح حمصيٌّ قال سمعت عبداﷲ بن بُسر یقول: ترون کفي ھذہ فأشھد أني وضعتُھا علی کف محمد! 35
''سیدنا حسان بن نوح حمصیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن بُسر ؓکو سناوہ فرما رہے تھے : تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اسی ایک ہتھیلی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔''
یہ حدیث صراحت کے ساتھ ثابت کررہی ہے کہ مصافحہ دائیں ہتھیلی(صفحہ)کو دائیں ہتھیلی(صفحہ) پررکھنے کا ہی نام ہے۔ فافہم
أخبرنا الحسین بن حریث أنا عیسیٰ عن عبد العزیز بن عمر بن عبدالعزیز حدثني إسماعیل بن محمد بن سعد عن قزعة قال أتیت ابن عمر أودعه فقال أودعك کما ودعني رسول اﷲ ﷺ فأخذ بیدي فحرکھا وقال: (أستودع اﷲ دینك وأمانتك وخواتيم عملك) 36
شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے مسافر کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کی حدیث کو ابن عساکر سے صحیح سند سے نقل کیا ہے:
کما ودعني رسول اﷲ ﷺ فأخذ بیدي یصافحني 37
''سیدنا فزعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمیرؓ کے پاس ان سے رخصت ہونے کے لیے آیا،پس اُنہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اسی طرح رخصت کرتاہوں جس طرح مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت فرمایاتھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلایااور فرمایا: ''میں تیرا دین، تیری امانت اور تیرے کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتاہوں ۔''
عن عبد اﷲ بن عمر قال وکانت بيعة الرضوان بعد ما ذھب عثمان إلی مكة فقال رسول اﷲ ﷺ بیدہ الیمنیٰ (ھٰذہ ید عثمان) فضرب بها علی یدہ فقال (ھٰذا لعثمان) 38
''سیدنا عبداللہ بن عمرؓ (ایک طویل حدیث میں ) بیان فرماتے ہیں :سیدناعثمان ؓ (کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفیربناکرمکہ روانہ فرمایاچنانچہ ان کے)مکہ چلے جانے کے بعد (اور ان کی شہادت کی افواہ کے بعد) بیعت رضوان ہوئی ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ میرا داہنا ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے پھر آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایاکہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے بیعت لیا کرتے تھے تو اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلا دیتے اور بیعت کرنے والا بھی اپنادایاں ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں ہاتھ پررکھ کر مصافحہ کیا کرتاتھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عمرو بن العاصؓ جب اسلام پر بیعت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپؐ سے بیعت کرلوں ، چنانچہ آپؐ نے اپنادایاں ہاتھ بڑھایا... 39
اَحادیث ِصحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ مصافحہ بیعت ہمیشہ دائیں ہاتھ ہی سے ہوتاتھا، اس طرح عام مصافحہ بھی دائیں ہاتھ ہی سے ثابت ہے۔
دائیں ہاتھ کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنادایاں ہاتھ کھانے، پینے اور پہننے میں استعمال کیا کرتے تھے اور بایاں ہاتھ اس کے علاوہ دوسرے کاموں (مثلاً استنجا وغیرہ میں استعمال کیا کرتے تھے۔ 40ایک حدیث میں ہے: ''بائیں ہاتھ سے کسی سے کوئی چیز نہ لے اورنہ کسی کو بائیں ہاتھ سے کوئی چیزدے۔ٌ 41 اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مصافحہ بھی بائیں ہاتھ سے جائز نہیں بلکہ صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ جائز ہے، کیونکہ بائیں ہاتھ سے کوئی چیز پکڑنا ہی جائز نہیں تو ہاتھ کو پکڑنا کیسے جائز ہوگا؟ فافهم
سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں : بایعت رسول اﷲ ! بیدي ھذہ یعني الیمنیٰ علی السمع والطاعة فیما استطعت 42
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس ایک ہاتھ یعنی داہنے ہاتھ سے بیعت کی۔سننے اور اطاعت کرنے پر، جس قدر کہ استطاعت ہوگی۔
سیدنا یونس بن رزین رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی حج کے ارادہ سے نکلے اور الربذہ مقام پر اُترے، اُن سے کہاگیا کہ یہ سلمہ بن الاکوعؓ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ہم نے اُنہیں سلام کیا اور ان سے سوال کیا:
فقال بایعت رسول اﷲ! بیدي ھٰذہ، وأخرج لنا کفًا کفًا ضخمة قال فقمنا إلیه،فقبلنا کفیه جمیعًاَ 43
''پس آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اس ہاتھ سے اور اُنہوں نے ہمیں دکھانے کے لیے اپنی کشادہ، موٹی اور پرگوشت ہتھیلی نکالی پس ہم سب اس ہتھیلی کے لیے کھڑے ہوئے پھر ہم سب نے ان کی ہتھیلی کوچوما۔''
سیدنا سلمہ بن الاکوع ؓکا حدیبیہ کے موقع پر بیعت کا واقعہ مسنداحمد میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ 44
حدثني أبو راشد الحبراني قال أخذ بیدي أبو أمامة الباھلي قال أخذ بیدي رسول اﷲ ﷺ فقال لي: (یا أبا أمامة! إن من المؤمنین من یلین لي قلبه) 45
''سیدنا ابوراشد حبرانی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوامامہ الباہلی ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میرا ہاتھ تھاما تھا اورفرمایا: اے ابوامامہ! ایمان والوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کادل میرے لیے نرم ہے۔'' (یعنی آپ سے وہ محبت کرتے ہیں )
حدثنا یحییٰ بن إسحاق،قال حدثنا یحییٰ بن أیوب عن حمید قال سمعت أنس بن مالك یقول: قال رسول اﷲ ﷺ: (یقدم علیکم غدًا أقوام هم أرق قلوبًا للإسلام منکم) قال: فقدم الأشعریون فیھم أبو موسی الأشعري فلما دنوا من المدينة جعلوا یرتجزون یقولون:غدًا نلقی الأحبة ... محمداً وحزبه فلما أن قدموا تصافحوا، فکانوا ھم أوّل من أحدث المصافحة 46
سیدنا انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتمہارے پاس کل ایک ایسی قوم آرہی ہے کہ جن کے دل تم میں سے بہت زیادہ اسلام کی طرف مائل ہیں ۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ پس اشعری لوگ آئے جن میں ابوموسیٰ الاشعریؓ بھی شامل تھے، پس جب وہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو وہ یہ شعر پڑھتے ہوئے آئے۔''
کل ہم اپنے محبوب لوگوں سے ملاقات کریں گے
محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی جماعت سے
پس جب وہ لوگ آئے تو انہوں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے) مصافحے کئے اور یہ سب سے پہلے لوگ ہیں جنہوں نے مصافحہ کاطریقہ رائج کیا (اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی وجہ سے یہ سنت قرار پایا)۔
عن عطاء الخراساني أن رسول اﷲ ﷺ: قال تصافحوا یذھب الغل وتھادوا تحابوا وتذھب الشحناء ... 47
''سیدنا عطاء خراسانی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم مصافحہ کیا کرو، یہ بغض، کینہ کو دور کرتا ہے اور آپس میں تحائف دیا کرو، اس سے محبت اُجاگر ہوگی اوردشمنی ختم ہوجائے گی۔''
عن قتادة قال قلت لأنس أکانت المصافحة في أصحاب رسول اﷲ ﷺ قال: نعم 48
''سیدنا قتادہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انسؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ مصافحہ کیاکرتے تھے، انہوں نے فرمایا:جی ہاں !''
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب فاطمہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ ان کے لیے کھڑے ہوجاتے،ان کا ہاتھ پکڑتے، ان کابوسہ لیتے اور اُنہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپؐ کے لیے کھڑی ہوجاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ پکڑتیں ، آپؐ کابوسہ لیتیں اور آپؐ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ 49
عن أنس کان أصحاب النبي ﷺ إذا تلاقوا تصافحوا وإذا قدموا من سفرتعانقوا (رواہ الطبراني في الأوسط و رجالہ رجال الصحیح) 50
''سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے اور جب وہ سفر سے آتے تو باہم معانقہ کرتے۔''
سیدنا حنظلہ اسیدیؓ کو اپنے اوپر نفاق کاخدشہ ہوگیااور وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے خدشہ کااظہار فرمایا:
فقال رسول اﷲﷺ: (والذي نفسی بیدہ إن لو تدومون علی ما تکونون عندي وفي الذکر لصافحتکم الملئكة علی فرشکم وفي طرقکم ولکن یا حنظلة! ساعةً وساعةً،ثلاث مرات—) 51
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تمہاری سدا وہی کیفیت رہے جومیرے پاس ہوتی ہے یاتم ذکر میں رہو تو البتہ تم سے ملائکہ مصافحے کریں تمہارے بستروں پر اور راستوں پرلیکن اے حنظلہ! یہ کیفیت تو کبھی کبھی ہوتی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔''
عورتوں کی بیعت اور اس کاطریقہ کار
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مؤمن عورتیں جب ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپ قرآنِ مجید کی اس آیت ِمبارکہ کے مطابق ان سے اقرارلیتے تھے: {يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ...﴿١٢﴾...سورة الممتحنہ) سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:جس مؤمنہ عورت نے ان چیزوں کااقرار کرلیا،اس نے آزمائش (میں پورااُترنے)کااقرار (اور وعدہ) کرلیا جب عورتیں (ان سے بول کر )ان کااقرار کرلیتی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں فرماتے: ''جاؤ میں نے تم سے بیعت لے لی۔''
واﷲ ما مسّت ید رسول اﷲ ﷺ ید امرأة قط غیر أنه بایعهن بالکلام 52
''اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی (اجنبی) عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا بلکہ آپؐ زبانی طور پر ان سے بیعت لیتے تھے۔'' اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف وہی عہد لیا جس کا اللہ نے حکم دیاتھا۔(سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ بھی ہیں ، آپ کی ہتھیلی کبھی کسی (غیر محرم) عورت کی ہتھیلی سے نہيں چھوئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے عہدلیتے تو اُنہیں زبان سے فرماتے: ''میں نے تم سے بیعت لے لی ہے۔''
سیدہ اُمیمہ بنت رُقیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں چند خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم (عورتوں )سے کہا: ''جہاں تک تم سے ہوسکے اور جتنی تم طاقت رکھو'' (تو اتنا ہی عمل کرو) ۔ اُمیمہؓ نے (دل میں ) کہا: ''اللہ اور اس کے رسولؐ ہماری جانوں پر ہم سے زیادہ رحیم ہیں ۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم سے بیعت لیں (یعنی ہم سے مصافحہ فرمائیں )آپؐنے فرمایا: (إني لا أصافح النسآء) میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔اور میرا ایک سو عورتوں سے زبانی بیعت لینا اسی طرح ہے جیسے ایک عورت سے بیعت لینا۔ 53
نسائی کی روایت میں ہے کہ اُمیمہؓ نے سورة الممتحنہ کی آیت تلاوت کی اور اس آیت کے مطابق بیعت کی۔اس آیت میں چھ باتوں سے روکاگیا ہے: (1)شرک(2)چوری(3) زنا (4) قتل اولاد (5) کسی پربہتان گھڑنا اور (6)معروف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اجتناب۔(الممتحنہ: آیت 12) ان باتوں کے علاوہ آپ عورتوں سے نوحہ نہ کرنے، غم میں گریبان چاک نہ کرنے، سر کے بال نہ نوچنے اور جاہلیت کی طرح بین نہ کرنے پربھی بیعت لیا کرتے تھے۔ 54
قرآن مجید میں سلام کے اَحکامات
قرآنِ مجید کے مطالعے سے بھی سلام کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے :
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام 'السلام' بھی ہے جس کا مطلب''امن و سلامتی عطا کرنے والا ہے۔'' (الحشر:23)
نبی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں : (اللھم أنت السلام ومنك السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام) 55
''اے اللہ! تو ہی سلامتی عطا کرنے والا اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے۔ تو بہت بابرکت ہے،اے صاحب ِجلال و اکرام!''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو فرض نماز کے بعدپڑھا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کہنے کا حکم دیا ہے :
فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُواعَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُبَـٰرَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْءَايَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٦١﴾...سورة النور
''پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہواکرو تو اپنے لوگوں (گھر والوں ) کو سلام کہاکرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔''
کسی کے گھر جائے تو اس سے اجازت لے اور اسے سلام کہے اور بغیراجازت اس کے گھر میں داخل نہ ہو:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰٓ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٢٧﴾...سورة النور
''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔یہی بات تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تاکہ تم سبق حاصل کرلو۔''
حدیث شریف میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سے کوئی تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور گھر سے اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ آئے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے۔ 56
اللہ تعالیٰ نے سلام کے جواب میں اس سے بہتر کلمات کہنے کا حکم دیاہے یا پھر کم از کم وہی کلمہ جواب میں پیش کردیاجائے:
وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ حَسِيبًا ﴿٨٦﴾...سورة النساء
''جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو۔ یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔''
سلام پیش کرنے والے کو بلا وجہ، بغیر تحقیق کے غیر مؤمن خیال نہیں کرنا چاہئے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰٓ إِلَيْكُمُ ٱلسَّلَـٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا...﴿٩٤﴾...سورة النساء
''اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کرو (جہاد پر نکلو) تو اگر کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے(بلاتحقیق) یہ نہ کہاکرو کہ تم مؤمن نہیں ہو بلکہ اس کی تحقیق کرلیاکرو۔''
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ایمان کوسلام کرنے کاحکم دیا ہے۔
وَإِذَا جَآءَكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَـٰتِنَا فَقُلْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَ ۖ...﴿٥٤﴾...سورة الانعام
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پرایمان لاتے ہیں تو آپ انہیں کہئے:سلام علیکم (یعنی تم پرسلامتی ہو) تمہارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت کو لازم کرلیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے انبیاے کرام پرسلامتی بھیجتا ہے:
قُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَـٰمٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَىٰٓ ۗ...﴿٥٩﴾...سورہ النمل
آپ ان سے کہئے کہ سب طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے اور اس کے بندوں پر سلامتی ہو، جنہیں اس نے برگزیدہ کیا
نیز فرمایا:
وَسَلَـٰمٌ عَلَى ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾...سورة الصافات
''اورسلامتی ہے اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام پر۔''
اللہ تعالیٰ اور فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجتے رہتے ہیں اور ایمان والوں کو حکم فرمایا کہ تم لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہو:
إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواصَلُّواعَلَيْهِ وَسَلِّمُواتَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾...سورة الاحزاب
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی اس پردرود وسلام بھیجاکرو۔
کافروں ، مشرکوں اورجاہلوں سے سلام کاطریقہ یہ ہے:
وَإِذَا سَمِعُوا ٱللَّغْوَ أَعْرَضُواعَنْهُ وَقَالُوا لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِى ٱلْجَـٰهِلِينَ ﴿٥٥﴾...سورہ القصص
''اور جب (اہل ایمان) مشرکین سے کوئی لغو بات سنتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ تم پرسلام! ہم جاہلوں سے تعلق رکھنانہیں چاہتے۔''
یہ سلام،سلامِ تحیہ نہیں ہے کہ جس میں اہل ایمان کے لیے سلامتی اور رحمت کی دعائیں کی جاتی ہیں بلکہ یہ سلامِ مبارکہ ہے اورجاہلوں سے مراد جاہل وبے علم مرادنہیں بلکہ جوشخص جہالت اور کٹ حجتی پر اُتر آئے۔اہل ایمان کو ایمان اختیارکرنے کی وجہ سے طعنہ دے اور لعنت وملامت کرے اور بدتمیزی پراُتر آئے۔ ایسے لوگوں سے یہ کہنے کاحکم دیا جارہا ہے کہ ہم تم جیسے جاہلوں سے اُلجھنا نہیں چاہتے کیونکہ تم حق کو سمجھنے کے روادار ہی نہیں ہو۔ اُردو زبان میں محاورہ ہے کہ جاہلوں کو دور سے سلام۔ ظاہر ہے کہ یہاں سلام سے مراد ترک ِمخاطبت اور ان جاہلوں سے جان چھڑانا مراد ہے۔ ان آیات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دشمنانِ حق پرامن و سلامتی کی دعائیں بھیجی جائیں ۔ اس آیت کا یہ مطلب اس آیت کے سیاق و سباق اور شانِ نزول کونظر انداز کردینے کی وجہ سے ہے اور صاف واضح ہورہا ہے کہ یہ منکر ِحق قرآنِ مجیدمیں تحریف کا روادار ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ ٱلْجَـٰهِلُونَ قَالُوا سَلَـٰمًا ﴿٦٣﴾...سورة الفرقان
''اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام کہہ کر کنارہ کش رہتے ہیں ۔''
ظاہر ہے کہ اس آیت میں بھی اہل ایمان جاہلوں کی بدتمیزی، لغویات اور بے ہودہ باتوں کاجواب دینے کے بجائے اُنہیں سلام مذکورہ کرکے ان سے دور ہوجاتے ہیں ۔ موجودہ دور کے بعض منکرین حدیث نے ان آیات سے مشرکوں اورکافروں کوسلام کرنے کاجواز پیش کیاہے۔
اُنہوں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعے سے بھی استدلال کیا ہے کہ جب ان کے والد نے ان کوگھر سے نکال دیا تو جاتے ہوئے اُنہوں نے بھی سلام علیک کہا تھااور ملت ِابراہیمی کی پیروی کاقرآنِ مجید میں ہمیں حکم دیاگیا ہے۔ حالانکہ اس سلام میں بھی ترکِ مخاطبت کا اظہار ہے جیسا کہ اوپر کی آیات میں اس بات کاذکر ہوا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے یہ وعدہ کیاتھاکہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتارہوں گا۔لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ ان کی وفات کفر پر ہوئی تو ابراہیم علیہ السلام نے اس سے براء ت کااظہار فرما دیا۔ (التوبہ:114)
ان آیات میں مشرکوں اورکافروں کو کہاں سلام کرنے کاحکم دیاگیا ہے؟ پھر قولِ لغو اور سلام دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور اہل جنت ، جنت میں لغو اور گناہ کی کوئی بات نہیں سنیں گے بلکہ اُنہیں وہاں سلام ہی سلام سننے کو ملے گا۔(الواقعہ:26 نیز سورۂ مریم:62) احادیث کے انکار کے ساتھ ساتھ منکرین کی مت بھی ماری جاچکی ہے اور یہ قرآنِ مجید پر تدبر اور غوروفکر سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔ ان منکرین کو اگر کوئی گالیوں سے نوازے اور بُرا بھلا کہے تو کیا یہ اُنہیں سلام کا تحفہ پیش کریں گے یا مرنے مارنے پر تیار ہوجائیں گے؟ اگر یہ منکرین ان آیات کے سیاق و سباق کو بھی غوروفکر سے پڑھتے تو کبھی بھی اتنی بڑی جہالت کا مظاہرہ نہ کرتے۔
یہی مضمون ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان ہوا ہے:
فَٱصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَـٰمٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٨٩﴾...سورة الزخرف
''پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں : اچھا بھائی سلام! اُنہیں عنقریب (خود ہی)معلوم ہوجائے گا۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں سے منہ پھیرنے کاحکم دیاجارہا ہے اور کافروں کو یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا اور اصل حقیقت بھی ان پر عنقریب کھل جائے گی۔
ظاہر ہے کہ کافروں کی ریشہ دوانیوں اور اسلام سے ان کی بیزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخی اور ان کی لغویات پر ان سے الگ ہونے اور سلام مفارقت کہنے کا کہا گیا ہے نہ کہ ان آیات میں انہیں سلام کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ نیز ملت ابراہیمی سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید کواختیار کرنا اور شرک سے بیزاری کا اعلان کرنا ہے نہ کہ ان مشرکوں کو سلام کا تحفہ پیش کرنا ہے۔ فافہم وتدبَّر
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ایمان کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔(الانعام:54) اسی طرح جو تمہیں سلام پیش کرے تو اسے بلا تحقیق غیر مؤمن قرار نہ دیا جائے بلکہ مؤمن سمجھ کر اس کے سلام کو قبول کرلیاجائے۔(النساء :94) اورکافروں اور مشرکوں کو سلام کہنے کا قرآن مجید میں کہیں بھی حکم نہیں دیا گیا ہے۔
جنت میں سلام کا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا نام ہی 'دارالسلام' رکھا ہے:
لَهُمْ دَارُ ٱلسَّلَـٰمِ عِندَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢٧﴾...سورة الانعام
''ایسے لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں سلامتی کاگھر (جنت) ہے اور ان کے نیک اعمال کرنے کی وجہ سے وہ ان کا سرپرست ہوگا۔''
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاإِلَىٰ دَارِ ٱلسَّلَـٰمِ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢٥﴾...سورة یونس
''اور اللہ تعالیٰ تمہیں سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔''
جس وقت فرشتے مؤمنوں کی جان قبض کرتے ہیں اس وقت بھی وہ انہیں سلام کرتے ہیں ۔
ٱلَّذِينَ تَتَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمُ ٱدْخُلُوا ٱلْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾...سورة النحل
''وہ پرہیزگار جو پاک سیرت ہوتے ہیں ، فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں : ''سلام علیکم'' تم پرسلام ہو جو اچھے عمل کرتے رہے۔ اس کے صلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔''
جنتیوں کو جنت میں داخل کرتے وقت کہا جائے گا:
ٱدْخُلُوهَا بِسَلَـٰمٍ ءَامِنِينَ ﴿٤٦﴾...سورہ الحجر
''امن و سلامتی کے ساتھ ان جنتوں میں داخل ہوجاؤ''
اور دوسرے مقام پرارشاد ہے:
ٱدْخُلُوهَا بِسَلَـٰمٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ ٱلْخُلُودِ ﴿٣٤﴾...سورة ق
'' تم اس جنت میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ یہ ہمیشہ کا دن ہے۔'' 2
اور اصحابُ الاعراف بھی جنتیوں پرسلام بھیجیں گے :
وَعَلَى ٱلْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّۢا بِسِيمَىٰهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَـٰبَ ٱلْجَنَّةِ أَن سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ ﴿٤٦﴾...سورة الاعراف
اور اعراف (جنت و جہنم کی بلندیوں )پرکچھ لوگ ہوں گے یہ ہرایک (جنتی و جہنمی)کو اس کی علامت سے پہچانیں گے اورجنت والوں کوآواز دے کر کہیں گے تم پر سلامتی ہو'' یہ لوگ (اب تک)جنت میں داخل تو نہیں ہوئے ہوں گے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ بھی جنتیوں کوسلام کہے گا
سَلَـٰمٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ﴿٥٨﴾...سورة یس
''مہربان پروردگار فرمائے گا (تم پر) سلامتی ہو۔''
ایک اور مقام پرارشاد ہے:
تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُۥ سَلَـٰمٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا ﴿٤٤﴾...سورة الاحزاب
''جس دن وہ(جنتی) اللہ سے ملاقات کریں گے تو ان کا استقبال لفظ 'سلام' سے ہوگا۔''
سلام کہنے کی جنت میں تین صورتیں ہوں گی:
جَنَّـٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ ءَابَآئِهِمْ وَأَزْوَٰجِهِمْ وَذُرِّيَّـٰتِهِمْ ۖ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿٢٣﴾ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ ﴿٢٤﴾...سورة الرعد
''وہ گھر جو ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے آباؤ اجداد ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں وہ بھی داخل ہوں گے اور فرشتے (جنت کے) ہردروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے اورکہیں گے تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم (دنیا میں مصائب پر) صبر کرتے رہے۔ سو یہ آخرت کاگھر کیاہی اچھا ہے۔''
وَأُدْخِلَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ ﴿٢٣﴾...سورة ابراھیم
اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ گروہ بنا کر بہشت کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے داروغہ ان سے کہیں کہ تم پر سلام تم بہت اچھے رہے۔ اب اس میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ
جنتی آپس میں ملتے وقت سلام کہیں گے
دَعْوَىٰهُمْ فِيهَا سُبْحَـٰنَكَ ٱللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ ۚ وَءَاخِرُ دَعْوَىٰهُمْ أَنِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٠﴾...سورة یونس
''جنت میں صالحین کی پکار یہ ہوگی،اے اللہ تو پاک ہے'' اور ان کی آپس میں (ملاقات کے وقت) دعا ہوگی ''تم پرسلامتی ہو'' اور ان کا خاتمہ کلام یہ ہوگا کہ سب طرح کی تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔''
ان وضاحتوں سے ثابت ہوگیا کہ 'سلام' کااسلام میں کیامقام ہے اور قرآن مجیدمیں سلام کی اہمیت پر کس قدر وضاحت سے روشنی ڈالی گئی ہے اوربالخصوص جنت میں سلام کے متعلق جو وضاحتیں گزری ہیں ، اس سے سلام کی اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے۔نیز سلام کے بعدمصافحہ کرنا سونے پر سہاگہ کامصداق ہے اور اس سے دوسرے مصافحہ کرنے والوں کے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو پورے اسلام پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
حوالہ جات
1. صحیح مسلم:54
2. سنن نسائی:1940،سنن ترمذی:2737، وقال الأستاذ حافظ زبیر علي زئي: إسنادہ حسن،أضواء المصابیح في تحقیق وتخریج مشکوٰة المصابیح:4230
3. صحیح بخاری:6236،صحیح مسلم:39
4. سنن ابوداؤد:5197 وقال الأستاذ حافظ زبیر علي زئي:إسنادہ صحیح،سنن ترمذی:2694
5. الترغیب والترھیب:4273 قال المنذر: رواہ البزار والطبران، وأحد إسناد البزار جید قوي، فالحدیث صحیح لا شك فیه (الصحیحة: 3081، 309، ج 184)
6. مسنداحمد:2864 و اسنادہ حسن (الموسوعة الحدیثیة:49530) ورجاله ثقات :298
7. الترغیب والترھیب:3 426) وقال المنذر: رواہ الطبران بإسناد حسن وقال الھیثم: رواہ الطبران وإسنادہ جید (مجمع الزوائد: 308)إ رواء الغلیل:2413
8. سنن ابن ماجہ :1334، سنن ترمذی:2485، وقال:صحیح،وقال الأستاذ زبیر علي زئي: إسنادہ صحیح
9. الترغیب والترهیب:ج3ص430، وقال المنذر رواہ الطبراني في الأوسط وقال لایروی عن النبي ۖ لا بھذا الإسناد (قال الحافظ) وهو إسناد جید قوی
10. صحیح بخاری :3326،صحیح مسلم:2841
11. صحیح بخاری:6233،صحیح مسلم:2160
12. صحیح بخاری:6234
13. صحیح مسلم:2164
14. صحیح بخاری:6254،صحیح مسلم:1798
15. سنن ترمذی :2689، سنن ابوداؤد:5195
16. سنن ابوداؤد:5196، وإسنادہ حسن، و قال الشیخ الألباني : ضعیف الإسناد
17. سنن ابوداؤد:5210
18. مسنداحمد، بلوغ الأماني 30019، موطأ إمام مالك جامع السلام
19. سنن ترمذی:2695
20. سنن ترمذی:2697 وقال حدیث حسن
21. سنن ابوداؤد:5200،قال الشیخ الألباني :صحیح موقوفاً ومرفوعاً
22. سنن ترمذی:2706، قال الألباني: حسن صحیح
23. سنن ابوداؤد:5204، قال الألباني :صحیح
24. صحیح مسلم:2168
25. سنن ترمذی:2720،سنن ابن ماجہ:350، الصحیحة:197
26. سنن نسائی:1186،قال الشیخ الألباني:صحیح
27. مسنداحمد، بلوغ الامانی12522 و سندہ صحیح
28. صحیح مسلم
29. مسنداحمد:1423،مسندأبویعلی موصلي: 1604، ح4125، طبع مؤسسة علوم القرآن بیروت، مسندالبزار: 2004، الکامل ابن عدی: 24096، وقال شعیب الأرناؤوط وزبیر علي زئي: و إسنادہ حسن (43619) وقال الالبانی، فن الطریق لی میمون المرئ صحیح (الصحیحة: 472)
30. المعجم الکبیر:2566، ح:6150۔ وقال الهیثم:و رجاله رجال الصحیح غیر سالم بن غیلان وھو ثقة (المجمع:388) وقال المنذر:رواہ الطبراني بإسناد حسن (الترغیب:4023)(اس روایت کی سند حسن ہے)۔ ان مضامین کی روایات اگرچہ ابوداؤد:5211،5212، ترمذی :2727، ابن ماجہ:3703 ) وغیرہ میں موجود ہیں، لیکن یہ روایات ضعیف ہیں۔
31. صحیح بخاری، کتاب الاستیذان ،باب المصافحة، ح6264
32. صحیح بخاری:285
33. صحیح بخاری: 3561، صحیح مسلم 2330
34. صحیح بخاری،کتاب الاستیذان باب المصافحة قبل:6263 تعلیقاً
35. مسنداحمد:1894 و اسنادہ صحیح ، التمهید لابن عبدالبر وإسنادہ صحیح (عون المعبود:5214 )طبع بیروت
36. السنن الکبریٰ النسائی:1326، ح:13048، عمل الیوم واللیلة للنسائي:ح514، و سندہ صحیح
37. السلسلة الصحیحة:201
38. صحیح بخاری کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشي، ج3699 وکتاب المغازي باب19 ح4066
39. صحیح مسلم، کتاب الإیمان باب 54: کون السلام یھدم ماقبله... ح121
40. سنن ابوداؤد :32
41. صحیح مسلم:2020
42. مسنداحمد:1723 وأخرجه أیضا في المختارة:2316 وإسنادہ حسن (الموسوعة الحدیثیة:16620)
43. مسنداحمد:544،55 و إسنادہ محتمل للتحسین : 8327
44. دیکھئے مسند احمد:474،48،49
45. مسنداحمد:2675 قلت:إ سنادہ حسن وفي سندہ بقیة من الولید وھو صدوق کثیر التدلیس من الضعفاء وقد صرح سماع عن محمد بن زیاد فحدیثه حسن
46. مسنداحمد:1553، المختارة للضیاء المقدسي (1945) ، صحیح ابن حبان (7193) وإسنادہ حسن (الموسوعة الحدیثیة: 4020)
47. رواہ مرسلا۔ وقال الأستاذ حافظ زبیر علي زئي: إسنادہ حسن، رواہ مالك :9082، ح:1750، وسندہ ضعیف وله شاھد في جامع عبد اﷲ بن وھب ص38، ح246۔ مشکوٰة :4693
48. صحیح بخاری:ح6263،مشکوٰة المصابیح:4677
49. سنن ابوداؤد:5217، قال الألباني'صحیح'
50. مجمع الزوائد:368، الترغیب والترهیب:2719، الصحیحة:2647
51. صحیح مسلم:2750
52. صحیح بخاری: 5288، مسلم: الأمارة، باب کیفیة بیعة النساء،ح:1866، ابن ماجہ:2875
53. مسنداحمد: 3576، مسندالحمیدی:341، الترمذی:1597، والنسائي في المجتبیٰ4181، وفي الکبریٰ: 7813، ابن ماجہ: 2874 وإسنادہ صحیح
54. صحیح بخاری وصحیح مسلم
55. صحیح مسلم:591
56. صحیح بخاری:6245، مسنداحمد:
عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ ﷺ:)لاتدخلون الجنة حتی تؤمنوا،ولا تؤمنوا حتی تحابوا،أو لا أدلُّکم علی شيء إذا فعلتموہ تحاببتم؟ اَفشوا السلام بینکم) 1
''سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ''تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم ایمان نہیں لاسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جسے اپنا کرتم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو عام کرو۔'' یعنی ایک دوسرے کو خوب سلام کیا کرو۔
عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ ﷺ: (للمؤمن علی المؤمن ست خصال: یعودہ إذا مرض ویشھدہ إذا مات ویُجیـبه إذا دعاہ ویُسلِّم علیه إذا لقِیَه ویشمته إذا عطس وینصح له إذا غاب أو شھد) 2
''سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پرچھ حقوق ہیں : جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمارپُرسی کرےجب وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، جب اسے چھینک آئے (اور وہ الحمدﷲکہے) تو اسے یرحمک اﷲ (اللہ آپ پررحم فرمائے) کہہ کررحمت کی دعا دے اور اس کی غیر حاضری یا موجودگی میں اس کی خیرخواہی کرے۔
عن عبداﷲ بن عمرو أن رجلا سأل رسول اﷲ ﷺ أي الإسلام خیر؟ قال: (تطعم الطعام وتقرأ السلام علی من عرفتَ ومن لم تَعرف) 3
''سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کون سا اسلام بہتر ہے (یعنی اسلام میں خیروخوبی کی بات کون سی ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کھاناکھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا چاہے وہ واقف ہو یا ناواقف''
عن أبي أمامة قال قال رسول اﷲ ﷺ: (إن أولیٰ الناس باﷲ تعالیٰ مَن بَدَأھم بالسلام) 4
''لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو اُنہیں سلام کہنے میں ابتداکرے۔''
عن عبد اﷲ یعني ابن مسعود عن النبي ﷺ قال: (السلام اسم من أسمآء اﷲ تعالیٰ وضعه في الأرض فأفشوہ بینکم فإن الرجل المسلم إذا مرَّ بقوم فسلَّم علیھم فردوہ علیه کان له علیهم فضل درجة بتذکیرہ إیاھم السلام فإن لم یردوا ردّ علیه من ھو خیر منھم) 5
''سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس نے زمین پررکھ دیا ہے۔ پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ کیونکہ مسلمان شخص جب کسی قوم پر گزرتاہے اور انہیں سلام کرتاہے اور وہ اس کو سلام کا جواب دیتے ہیں تو اس کے لیے ان پر ایک درجہ فضیلت ہے کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد کرایا ہے اور اگر وہ لوگ اس کے سلام کا جواب نہ دیں تو اسے وہ جواب دے گا جو ان سے بہتر ہے۔''
سیدنا انسؓ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دیا ہے۔پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ۔
سیدنا انسؓ کی یہ حدیث مختصر ہے اور اس کی سند صحیح ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث بھی شواہد کی وجہ سے 'حسن' ہے۔
عن البراء بن عازب، قال قال رسول اﷲ! (أفشوا السلام تسلموا والأشرة شر) 6
''سیدنا براء بن عازبؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''سلام کو پھیلاتے رہو تو تم سلامتی میں رہو گے اورتکبر اور حق کاانکار شر کا باعث ہے۔''
یعنی تکبر و بطرکی وجہ سے سلام کا جواب نہ دینا شر کا سبب ہے۔بطر کامطلب 'حق کا انکار کرنا' ہے۔
عن أبي الدرداء قال:قال رسول اﷲ!: (أفشوا السلام کي تعلوا) 7
سیدنا ابودردائؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''سلام کو پھیلاؤ تاکہ تم سربلند ہوجاؤ۔
سیدنا عبداللہ بن سلامؓ اِرشاد فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ تشریف لے آئے ہیں ۔ لوگوں کیساتھ میں بھی آپ کی زیارت کے لیے گیا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ اقدس کو توجہ سے دیکھاتومجھے یقین ہوگیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جوکلام فرمایا وہ یہ تھا:
یأیھا الناس أفشوا السلام،وأطعموا الطعام وصلُّوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام 8
''لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلایا کرو، رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔''
عن أبي هریرة قال قال رسول اﷲ ﷺ :(أعجز الناس من عجز في الدعاء وأبخل الناس من بخل بالسلام) 9
''سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''لوگوں میں عاجز ترین شخص وہ ہے کہ جودعاء سے عاجز آگیاہو اورلوگوں میں بخیل و کنجوس ترین شخص وہ ہے کہ جو سلام میں بخل کرے۔''
فوائد
ان اَحادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس اُمت کو اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیات عطا فرما رکھی ہیں ان میں سے ایک اہم خصوصیت سلام کی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کو یہ عظیم تحفہ عنایت کیاگیا ہے ۔ سلام کے مندرجہ ذیل فوائد ان احادیث میں بیان کئے گئے ہیں :
- مسلمانوں کاآپس میں پیار ومحبت کارشتہ سلام کی وجہ سے قائم ہوگا۔
- ایک مسلمان کا دوسرے کوسلام کرنامسلمانوں کے حقوق میں شامل ہے۔لہٰذا ہرمسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو سلام کرے اور اسی طرح وہ اپنے مسلمان بھائی کے سلام کا جواب دے۔
- سلام ہرمسلمان کو کرنا ہے، چاہے وہ واقف ہو یا ناواقف
- اسلام کی خوبی میں یہ بات شامل ہے کہ سلام کو رواج دیا جائے۔
- وہ شخص اللہ تعالیٰ کے قریب ہے کہ جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
- سلام اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دیا ہے لہٰذا سلام کو آپس میں خوب عام کرناچاہئے۔
- سلام کرنے والا سلامتی میں رہے گا کیونکہ جب وہ دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی سلامتی میں رکھے گا نیز سلام کرنے والا تکبر سے بھی محفوظ رہے گا۔
- سلام کو عام کرنا مسلمانوں کی سربلندی کازینہ ہے۔
- سلام ایک ایسا عمل ہے جو جنت میں داخلہ کا ذریعہ بھی ہے۔
- سب سے بڑابخیل وہ ہے جو سلام میں بخل کرتا ہے۔
سلام کے احکام ومسائل
احادیث میں سلام کے متعلق متعدد احکامات ثابت ہیں جن کا مختصرا ًیہاں ذکر کیاجاتا ہے:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو اُنہیں حکم دیا کہ وہ فرشتوں کی جماعت کو سلام کہیں اور فرمایا کہ یہی آپ کا اور آپ کی اولاد کا سلام ہوگا۔ 10
ایک حدیث میں ہے کہ سوار پیادہ کو ، پیادہ بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ لوگوں کو سلام کیا کریں۔ 11
چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور قلیل کثیر کو سلام کیاکریں۔ 12
یہودی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر''السّام علیکم'' (یعنی تمہیں موت آئے) کہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل پر اُنہیں یہ جواب دیا گیا کہ جب اہل کتاب سلام کریں توجواب میں اُنہیں وعلیکم کہا جائے۔ 13
کسی مجلس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہودی مشترک ہوں تو اُنہیں سلام کہا جائے۔ 14
السلام علیکم کہنے والے کو دس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة اﷲ کہنے والے کو بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ کہنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں 15 ۔اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ ومغفرتہ کے الفاظ کہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چالیس نیکیاں ملی ہیں ۔ 16
ایک جماعت اگر کسی شخص کے پاس سے گزرے تو ایک شخص کا سلام کہنا سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص جواب دے تو وہ جوابِ سلام سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔ 17
البتہ بہت سے افراد بیک وقت بھی ایک آدمی کو سلام کرسکتے ہیں ۔ 18
اُنگلیوں کے ساتھ اشارہ کرکے سلام کہنا عیسائیوں کا سلام ہے اور ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا یہودیوں کا سلام ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے غیر کے ساتھ مشابہت کرتاہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔19 البتہ ضرورت کے تحت ہاتھ سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ 20
نوٹ:آج کل اکثر مسلمان سلام کے وقت 'السلام علیکم' کہنے کے بجائے ہاتھ اُٹھا کر سلام کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ کی سنت ہے اور یہود و نصاریٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہماری فوج میں بھی سیلوٹ کا طریقہ رائج ہے لہٰذا اس طریقے سے اجتناب کرناچاہئے۔ ضروری ہے کہ ان غیر اسلامی چیزوں کو فوج سے بھی ختم کیا جائے تاکہ ہماری فوج کامیاب و کامران ہو۔
اگر کسی مسلمان سے ملاقات ہو تو پھر اسے سلام کہے اورچلتے وقت درمیان میں کوئی درخت، دیوار یاچٹان حائل ہوجائے اور دوبارہ ملاقات ہو تو پھر اسے سلام کرے۔ 21
کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کہے اور جب وہاں سے رخصت ہو تو سلام کہے۔22
عورتوں کو بھی سلام کرے۔ 23
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے تو اُنہیں سلام کیا۔ 24
بول و براز کے وقت نہ سلام کرے اورنہ سلام کا جواب دے۔ 25
نمازی ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے۔ 26
جب کوئی شخص کسی کا سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے: علیك وعلیه السلام ورحمة اﷲ و برکاته 27
رات کے وقت اتنی آواز سے سلام کرے کہ جاگنے والا سن لے اور سونے والا بیدار نہ ہو۔ 28
مصافحہ
دائیں ہاتھ کی ہتھیلی (جسے صفحہ کہتے ہیں ) کو دوسرے مسلمان کی ہتھیلی (صفحہ) کے ساتھ ملانے کو مصافحہ کہتے ہیں اور جب کسی مسلمان سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرنے کے بعد اس سے مصافحہ بھی کرناچاہئے اورمصافحہ کرنے کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے:
حدثنا محمد بن بکر حدثنا میمون المرئي حدثنا میمون ابن سیاہ عن أنس بن مالك عن النبي اﷲ ﷺ قال: (ما من مسلمین التقیا فأخذ أحدھما بید صاحبه إلا کان حقًّا علی اﷲ أن یحضر دعآء ھما ولا یفرق بین أیدیھما حتی یغفرلھما)29
''سیدنا انس بن مالک ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشادفرمایا: ''جب دو مسلم آپس میں ملاقات کرتے ہیں پھر ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے (اور اس سے مصافحہ کرتا ہے) تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ ان کی دعا کوقبول فرمائے اور ان دونوں کے ہاتھوں میں جدائی نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ ان کی بخشش فرمادیتا ہے''۔
حدثنا الحسین بن إسحاق التستري ثنا عبید اﷲ بن القواریري ثنا سالم بن غیلان قال سمعت جعدًا أبا عثمان یقول حدثني أبوعثمان النهدي عن سلمان الفارسي أن النبي ﷺ قال: (إن المسلم إذا لقي أخاہ المسلم فأخذ بیدہٖ تحاتت عنهما ذنوبھما کما تتحات الورق مِنَ الشجرة الیابسة في یوم ریح عاصف وإلا غفرلھما ولو کانت ذنوبھما مثل زبد البحر) 30
''سیدنا سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''جب کوئی مسلم اپنے مسلم بھائی سے ملاقات کرتاہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے تو ان دونوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں کہ جیسے پتے خشک درخت سے تیز و تند ہوا والے دن جھڑ جاتے ہیں اور ان کی بخشش کردی جاتی ہے۔اگرچہ ان کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔''
ان دونوں احادیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ مصافحہ ایک ہی ہاتھ سے مسنون ہے اور دونوں کے ساتھ مصافحہ کا ذکر کسی صحیح حدیث میں ہی نہیں بلکہ کسی ضعیف روایت میں بھی موجود نہیں ہے۔
عن عبد اﷲ بن هشام قال کُنَّا مع النبي ﷺ وھو آخذ بید عمر ابن الخطاب... 31
''سیدناعبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں کہ '' ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطابؓ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے'' ...
عن أبي هریرة قال لقیني رسول اﷲ ﷺ وأنا جنب فأخذ بیدي... 32
''سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ''میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور میں جنبی تھا، پس آپ نے میرا ہاتھ پکڑا...''
عن أنس قال: ما مسِسْتُ حریرًا ولا دیباجًا ألین من کف النبي ولا شممت ریحا قط أو عرفا قط أطیب من ریح أوعرف النبي ! 33
''سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی موٹا ریشم اور باریک ریشم نہیں چھوا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و ملائم ہو اور نہ کوئی بُو یا خوشبو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بُویا خوشبو سے میں نے بہتر اور عمدہ سونگھی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی کا نرم و ملائم معلوم ہونا مصافحہ ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا تھا۔''
وقال کعب بن مالك: دخلت المسجد فإذا برسول اﷲ ﷺ فقام إليَّ طلحة بن عبید اﷲ یھرول حتی صافحني وھنأني 34
''سیدنا کعب بن مالکؓ (غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ جانے اور اپنی توبہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس طویل حدیث میں ) فرماتے ہیں کہ میں (توبہ قبول کئے جانے کی خوشخبری سن کر مسجد کی طرف آیا اور )مسجد میں داخل ہوا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ پس طلحہ بن عبیداللہؓ تیزی سے میری طرف کھڑے ہوئے اور مجھ سے مصافحہ کیااور مجھے(توبہ قبول ہونے کی) مبارک باد دی۔
حدثنا حسان بن نوح حمصيٌّ قال سمعت عبداﷲ بن بُسر یقول: ترون کفي ھذہ فأشھد أني وضعتُھا علی کف محمد! 35
''سیدنا حسان بن نوح حمصیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن بُسر ؓکو سناوہ فرما رہے تھے : تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو میں نے اسی ایک ہتھیلی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔''
یہ حدیث صراحت کے ساتھ ثابت کررہی ہے کہ مصافحہ دائیں ہتھیلی(صفحہ)کو دائیں ہتھیلی(صفحہ) پررکھنے کا ہی نام ہے۔ فافہم
أخبرنا الحسین بن حریث أنا عیسیٰ عن عبد العزیز بن عمر بن عبدالعزیز حدثني إسماعیل بن محمد بن سعد عن قزعة قال أتیت ابن عمر أودعه فقال أودعك کما ودعني رسول اﷲ ﷺ فأخذ بیدي فحرکھا وقال: (أستودع اﷲ دینك وأمانتك وخواتيم عملك) 36
شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے مسافر کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کی حدیث کو ابن عساکر سے صحیح سند سے نقل کیا ہے:
کما ودعني رسول اﷲ ﷺ فأخذ بیدي یصافحني 37
''سیدنا فزعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمیرؓ کے پاس ان سے رخصت ہونے کے لیے آیا،پس اُنہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اسی طرح رخصت کرتاہوں جس طرح مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت فرمایاتھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلایااور فرمایا: ''میں تیرا دین، تیری امانت اور تیرے کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتاہوں ۔''
عن عبد اﷲ بن عمر قال وکانت بيعة الرضوان بعد ما ذھب عثمان إلی مكة فقال رسول اﷲ ﷺ بیدہ الیمنیٰ (ھٰذہ ید عثمان) فضرب بها علی یدہ فقال (ھٰذا لعثمان) 38
''سیدنا عبداللہ بن عمرؓ (ایک طویل حدیث میں ) بیان فرماتے ہیں :سیدناعثمان ؓ (کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفیربناکرمکہ روانہ فرمایاچنانچہ ان کے)مکہ چلے جانے کے بعد (اور ان کی شہادت کی افواہ کے بعد) بیعت رضوان ہوئی ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ میرا داہنا ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے پھر آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایاکہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے بیعت لیا کرتے تھے تو اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلا دیتے اور بیعت کرنے والا بھی اپنادایاں ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں ہاتھ پررکھ کر مصافحہ کیا کرتاتھا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عمرو بن العاصؓ جب اسلام پر بیعت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپؐ سے بیعت کرلوں ، چنانچہ آپؐ نے اپنادایاں ہاتھ بڑھایا... 39
اَحادیث ِصحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ مصافحہ بیعت ہمیشہ دائیں ہاتھ ہی سے ہوتاتھا، اس طرح عام مصافحہ بھی دائیں ہاتھ ہی سے ثابت ہے۔
دائیں ہاتھ کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنادایاں ہاتھ کھانے، پینے اور پہننے میں استعمال کیا کرتے تھے اور بایاں ہاتھ اس کے علاوہ دوسرے کاموں (مثلاً استنجا وغیرہ میں استعمال کیا کرتے تھے۔ 40ایک حدیث میں ہے: ''بائیں ہاتھ سے کسی سے کوئی چیز نہ لے اورنہ کسی کو بائیں ہاتھ سے کوئی چیزدے۔ٌ 41 اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مصافحہ بھی بائیں ہاتھ سے جائز نہیں بلکہ صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ جائز ہے، کیونکہ بائیں ہاتھ سے کوئی چیز پکڑنا ہی جائز نہیں تو ہاتھ کو پکڑنا کیسے جائز ہوگا؟ فافهم
سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں : بایعت رسول اﷲ ! بیدي ھذہ یعني الیمنیٰ علی السمع والطاعة فیما استطعت 42
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس ایک ہاتھ یعنی داہنے ہاتھ سے بیعت کی۔سننے اور اطاعت کرنے پر، جس قدر کہ استطاعت ہوگی۔
سیدنا یونس بن رزین رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی حج کے ارادہ سے نکلے اور الربذہ مقام پر اُترے، اُن سے کہاگیا کہ یہ سلمہ بن الاکوعؓ ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ہم نے اُنہیں سلام کیا اور ان سے سوال کیا:
فقال بایعت رسول اﷲ! بیدي ھٰذہ، وأخرج لنا کفًا کفًا ضخمة قال فقمنا إلیه،فقبلنا کفیه جمیعًاَ 43
''پس آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اس ہاتھ سے اور اُنہوں نے ہمیں دکھانے کے لیے اپنی کشادہ، موٹی اور پرگوشت ہتھیلی نکالی پس ہم سب اس ہتھیلی کے لیے کھڑے ہوئے پھر ہم سب نے ان کی ہتھیلی کوچوما۔''
سیدنا سلمہ بن الاکوع ؓکا حدیبیہ کے موقع پر بیعت کا واقعہ مسنداحمد میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ 44
حدثني أبو راشد الحبراني قال أخذ بیدي أبو أمامة الباھلي قال أخذ بیدي رسول اﷲ ﷺ فقال لي: (یا أبا أمامة! إن من المؤمنین من یلین لي قلبه) 45
''سیدنا ابوراشد حبرانی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوامامہ الباہلی ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میرا ہاتھ تھاما تھا اورفرمایا: اے ابوامامہ! ایمان والوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کادل میرے لیے نرم ہے۔'' (یعنی آپ سے وہ محبت کرتے ہیں )
حدثنا یحییٰ بن إسحاق،قال حدثنا یحییٰ بن أیوب عن حمید قال سمعت أنس بن مالك یقول: قال رسول اﷲ ﷺ: (یقدم علیکم غدًا أقوام هم أرق قلوبًا للإسلام منکم) قال: فقدم الأشعریون فیھم أبو موسی الأشعري فلما دنوا من المدينة جعلوا یرتجزون یقولون:غدًا نلقی الأحبة ... محمداً وحزبه فلما أن قدموا تصافحوا، فکانوا ھم أوّل من أحدث المصافحة 46
سیدنا انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتمہارے پاس کل ایک ایسی قوم آرہی ہے کہ جن کے دل تم میں سے بہت زیادہ اسلام کی طرف مائل ہیں ۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ پس اشعری لوگ آئے جن میں ابوموسیٰ الاشعریؓ بھی شامل تھے، پس جب وہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو وہ یہ شعر پڑھتے ہوئے آئے۔''
کل ہم اپنے محبوب لوگوں سے ملاقات کریں گے
محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی جماعت سے
پس جب وہ لوگ آئے تو انہوں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے) مصافحے کئے اور یہ سب سے پہلے لوگ ہیں جنہوں نے مصافحہ کاطریقہ رائج کیا (اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی وجہ سے یہ سنت قرار پایا)۔
عن عطاء الخراساني أن رسول اﷲ ﷺ: قال تصافحوا یذھب الغل وتھادوا تحابوا وتذھب الشحناء ... 47
''سیدنا عطاء خراسانی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تم مصافحہ کیا کرو، یہ بغض، کینہ کو دور کرتا ہے اور آپس میں تحائف دیا کرو، اس سے محبت اُجاگر ہوگی اوردشمنی ختم ہوجائے گی۔''
عن قتادة قال قلت لأنس أکانت المصافحة في أصحاب رسول اﷲ ﷺ قال: نعم 48
''سیدنا قتادہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انسؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ مصافحہ کیاکرتے تھے، انہوں نے فرمایا:جی ہاں !''
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب فاطمہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ ان کے لیے کھڑے ہوجاتے،ان کا ہاتھ پکڑتے، ان کابوسہ لیتے اور اُنہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپؐ کے لیے کھڑی ہوجاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ پکڑتیں ، آپؐ کابوسہ لیتیں اور آپؐ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ 49
عن أنس کان أصحاب النبي ﷺ إذا تلاقوا تصافحوا وإذا قدموا من سفرتعانقوا (رواہ الطبراني في الأوسط و رجالہ رجال الصحیح) 50
''سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے اور جب وہ سفر سے آتے تو باہم معانقہ کرتے۔''
سیدنا حنظلہ اسیدیؓ کو اپنے اوپر نفاق کاخدشہ ہوگیااور وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے خدشہ کااظہار فرمایا:
فقال رسول اﷲﷺ: (والذي نفسی بیدہ إن لو تدومون علی ما تکونون عندي وفي الذکر لصافحتکم الملئكة علی فرشکم وفي طرقکم ولکن یا حنظلة! ساعةً وساعةً،ثلاث مرات—) 51
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تمہاری سدا وہی کیفیت رہے جومیرے پاس ہوتی ہے یاتم ذکر میں رہو تو البتہ تم سے ملائکہ مصافحے کریں تمہارے بستروں پر اور راستوں پرلیکن اے حنظلہ! یہ کیفیت تو کبھی کبھی ہوتی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔''
عورتوں کی بیعت اور اس کاطریقہ کار
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مؤمن عورتیں جب ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپ قرآنِ مجید کی اس آیت ِمبارکہ کے مطابق ان سے اقرارلیتے تھے: {يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ...﴿١٢﴾...سورة الممتحنہ) سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:جس مؤمنہ عورت نے ان چیزوں کااقرار کرلیا،اس نے آزمائش (میں پورااُترنے)کااقرار (اور وعدہ) کرلیا جب عورتیں (ان سے بول کر )ان کااقرار کرلیتی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں فرماتے: ''جاؤ میں نے تم سے بیعت لے لی۔''
واﷲ ما مسّت ید رسول اﷲ ﷺ ید امرأة قط غیر أنه بایعهن بالکلام 52
''اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی (اجنبی) عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا بلکہ آپؐ زبانی طور پر ان سے بیعت لیتے تھے۔'' اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف وہی عہد لیا جس کا اللہ نے حکم دیاتھا۔(سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ بھی ہیں ، آپ کی ہتھیلی کبھی کسی (غیر محرم) عورت کی ہتھیلی سے نہيں چھوئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے عہدلیتے تو اُنہیں زبان سے فرماتے: ''میں نے تم سے بیعت لے لی ہے۔''
سیدہ اُمیمہ بنت رُقیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں چند خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے بیعت کی۔ آپ نے ہم (عورتوں )سے کہا: ''جہاں تک تم سے ہوسکے اور جتنی تم طاقت رکھو'' (تو اتنا ہی عمل کرو) ۔ اُمیمہؓ نے (دل میں ) کہا: ''اللہ اور اس کے رسولؐ ہماری جانوں پر ہم سے زیادہ رحیم ہیں ۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم سے بیعت لیں (یعنی ہم سے مصافحہ فرمائیں )آپؐنے فرمایا: (إني لا أصافح النسآء) میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔اور میرا ایک سو عورتوں سے زبانی بیعت لینا اسی طرح ہے جیسے ایک عورت سے بیعت لینا۔ 53
نسائی کی روایت میں ہے کہ اُمیمہؓ نے سورة الممتحنہ کی آیت تلاوت کی اور اس آیت کے مطابق بیعت کی۔اس آیت میں چھ باتوں سے روکاگیا ہے: (1)شرک(2)چوری(3) زنا (4) قتل اولاد (5) کسی پربہتان گھڑنا اور (6)معروف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے اجتناب۔(الممتحنہ: آیت 12) ان باتوں کے علاوہ آپ عورتوں سے نوحہ نہ کرنے، غم میں گریبان چاک نہ کرنے، سر کے بال نہ نوچنے اور جاہلیت کی طرح بین نہ کرنے پربھی بیعت لیا کرتے تھے۔ 54
قرآن مجید میں سلام کے اَحکامات
قرآنِ مجید کے مطالعے سے بھی سلام کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے :
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام 'السلام' بھی ہے جس کا مطلب''امن و سلامتی عطا کرنے والا ہے۔'' (الحشر:23)
نبی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں : (اللھم أنت السلام ومنك السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام) 55
''اے اللہ! تو ہی سلامتی عطا کرنے والا اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے۔ تو بہت بابرکت ہے،اے صاحب ِجلال و اکرام!''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو فرض نماز کے بعدپڑھا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کہنے کا حکم دیا ہے :
فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُواعَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُبَـٰرَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْءَايَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٦١﴾...سورة النور
''پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہواکرو تو اپنے لوگوں (گھر والوں ) کو سلام کہاکرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔''
کسی کے گھر جائے تو اس سے اجازت لے اور اسے سلام کہے اور بغیراجازت اس کے گھر میں داخل نہ ہو:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوالَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰٓ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٢٧﴾...سورة النور
''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔یہی بات تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تاکہ تم سبق حاصل کرلو۔''
حدیث شریف میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سے کوئی تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور گھر سے اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ آئے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے۔ 56
اللہ تعالیٰ نے سلام کے جواب میں اس سے بہتر کلمات کہنے کا حکم دیاہے یا پھر کم از کم وہی کلمہ جواب میں پیش کردیاجائے:
وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ حَسِيبًا ﴿٨٦﴾...سورة النساء
''جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو۔ یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔''
سلام پیش کرنے والے کو بلا وجہ، بغیر تحقیق کے غیر مؤمن خیال نہیں کرنا چاہئے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰٓ إِلَيْكُمُ ٱلسَّلَـٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا...﴿٩٤﴾...سورة النساء
''اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کرو (جہاد پر نکلو) تو اگر کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے(بلاتحقیق) یہ نہ کہاکرو کہ تم مؤمن نہیں ہو بلکہ اس کی تحقیق کرلیاکرو۔''
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ایمان کوسلام کرنے کاحکم دیا ہے۔
وَإِذَا جَآءَكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَـٰتِنَا فَقُلْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَ ۖ...﴿٥٤﴾...سورة الانعام
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پرایمان لاتے ہیں تو آپ انہیں کہئے:سلام علیکم (یعنی تم پرسلامتی ہو) تمہارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت کو لازم کرلیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے انبیاے کرام پرسلامتی بھیجتا ہے:
قُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَـٰمٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَىٰٓ ۗ...﴿٥٩﴾...سورہ النمل
آپ ان سے کہئے کہ سب طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے اور اس کے بندوں پر سلامتی ہو، جنہیں اس نے برگزیدہ کیا
نیز فرمایا:
وَسَلَـٰمٌ عَلَى ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾...سورة الصافات
''اورسلامتی ہے اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام پر۔''
اللہ تعالیٰ اور فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجتے رہتے ہیں اور ایمان والوں کو حکم فرمایا کہ تم لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہو:
إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواصَلُّواعَلَيْهِ وَسَلِّمُواتَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾...سورة الاحزاب
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی اس پردرود وسلام بھیجاکرو۔
کافروں ، مشرکوں اورجاہلوں سے سلام کاطریقہ یہ ہے:
وَإِذَا سَمِعُوا ٱللَّغْوَ أَعْرَضُواعَنْهُ وَقَالُوا لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِى ٱلْجَـٰهِلِينَ ﴿٥٥﴾...سورہ القصص
''اور جب (اہل ایمان) مشرکین سے کوئی لغو بات سنتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ تم پرسلام! ہم جاہلوں سے تعلق رکھنانہیں چاہتے۔''
یہ سلام،سلامِ تحیہ نہیں ہے کہ جس میں اہل ایمان کے لیے سلامتی اور رحمت کی دعائیں کی جاتی ہیں بلکہ یہ سلامِ مبارکہ ہے اورجاہلوں سے مراد جاہل وبے علم مرادنہیں بلکہ جوشخص جہالت اور کٹ حجتی پر اُتر آئے۔اہل ایمان کو ایمان اختیارکرنے کی وجہ سے طعنہ دے اور لعنت وملامت کرے اور بدتمیزی پراُتر آئے۔ ایسے لوگوں سے یہ کہنے کاحکم دیا جارہا ہے کہ ہم تم جیسے جاہلوں سے اُلجھنا نہیں چاہتے کیونکہ تم حق کو سمجھنے کے روادار ہی نہیں ہو۔ اُردو زبان میں محاورہ ہے کہ جاہلوں کو دور سے سلام۔ ظاہر ہے کہ یہاں سلام سے مراد ترک ِمخاطبت اور ان جاہلوں سے جان چھڑانا مراد ہے۔ ان آیات کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ دشمنانِ حق پرامن و سلامتی کی دعائیں بھیجی جائیں ۔ اس آیت کا یہ مطلب اس آیت کے سیاق و سباق اور شانِ نزول کونظر انداز کردینے کی وجہ سے ہے اور صاف واضح ہورہا ہے کہ یہ منکر ِحق قرآنِ مجیدمیں تحریف کا روادار ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ ٱلْجَـٰهِلُونَ قَالُوا سَلَـٰمًا ﴿٦٣﴾...سورة الفرقان
''اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام کہہ کر کنارہ کش رہتے ہیں ۔''
ظاہر ہے کہ اس آیت میں بھی اہل ایمان جاہلوں کی بدتمیزی، لغویات اور بے ہودہ باتوں کاجواب دینے کے بجائے اُنہیں سلام مذکورہ کرکے ان سے دور ہوجاتے ہیں ۔ موجودہ دور کے بعض منکرین حدیث نے ان آیات سے مشرکوں اورکافروں کوسلام کرنے کاجواز پیش کیاہے۔
اُنہوں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے واقعے سے بھی استدلال کیا ہے کہ جب ان کے والد نے ان کوگھر سے نکال دیا تو جاتے ہوئے اُنہوں نے بھی سلام علیک کہا تھااور ملت ِابراہیمی کی پیروی کاقرآنِ مجید میں ہمیں حکم دیاگیا ہے۔ حالانکہ اس سلام میں بھی ترکِ مخاطبت کا اظہار ہے جیسا کہ اوپر کی آیات میں اس بات کاذکر ہوا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے یہ وعدہ کیاتھاکہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کرتارہوں گا۔لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ ان کی وفات کفر پر ہوئی تو ابراہیم علیہ السلام نے اس سے براء ت کااظہار فرما دیا۔ (التوبہ:114)
ان آیات میں مشرکوں اورکافروں کو کہاں سلام کرنے کاحکم دیاگیا ہے؟ پھر قولِ لغو اور سلام دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور اہل جنت ، جنت میں لغو اور گناہ کی کوئی بات نہیں سنیں گے بلکہ اُنہیں وہاں سلام ہی سلام سننے کو ملے گا۔(الواقعہ:26 نیز سورۂ مریم:62) احادیث کے انکار کے ساتھ ساتھ منکرین کی مت بھی ماری جاچکی ہے اور یہ قرآنِ مجید پر تدبر اور غوروفکر سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔ ان منکرین کو اگر کوئی گالیوں سے نوازے اور بُرا بھلا کہے تو کیا یہ اُنہیں سلام کا تحفہ پیش کریں گے یا مرنے مارنے پر تیار ہوجائیں گے؟ اگر یہ منکرین ان آیات کے سیاق و سباق کو بھی غوروفکر سے پڑھتے تو کبھی بھی اتنی بڑی جہالت کا مظاہرہ نہ کرتے۔
یہی مضمون ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان ہوا ہے:
فَٱصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَـٰمٌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٨٩﴾...سورة الزخرف
''پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں : اچھا بھائی سلام! اُنہیں عنقریب (خود ہی)معلوم ہوجائے گا۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں سے منہ پھیرنے کاحکم دیاجارہا ہے اور کافروں کو یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا اور اصل حقیقت بھی ان پر عنقریب کھل جائے گی۔
ظاہر ہے کہ کافروں کی ریشہ دوانیوں اور اسلام سے ان کی بیزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخی اور ان کی لغویات پر ان سے الگ ہونے اور سلام مفارقت کہنے کا کہا گیا ہے نہ کہ ان آیات میں انہیں سلام کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ نیز ملت ابراہیمی سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید کواختیار کرنا اور شرک سے بیزاری کا اعلان کرنا ہے نہ کہ ان مشرکوں کو سلام کا تحفہ پیش کرنا ہے۔ فافہم وتدبَّر
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ایمان کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔(الانعام:54) اسی طرح جو تمہیں سلام پیش کرے تو اسے بلا تحقیق غیر مؤمن قرار نہ دیا جائے بلکہ مؤمن سمجھ کر اس کے سلام کو قبول کرلیاجائے۔(النساء :94) اورکافروں اور مشرکوں کو سلام کہنے کا قرآن مجید میں کہیں بھی حکم نہیں دیا گیا ہے۔
جنت میں سلام کا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا نام ہی 'دارالسلام' رکھا ہے:
لَهُمْ دَارُ ٱلسَّلَـٰمِ عِندَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢٧﴾...سورة الانعام
''ایسے لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں سلامتی کاگھر (جنت) ہے اور ان کے نیک اعمال کرنے کی وجہ سے وہ ان کا سرپرست ہوگا۔''
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاإِلَىٰ دَارِ ٱلسَّلَـٰمِ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢٥﴾...سورة یونس
''اور اللہ تعالیٰ تمہیں سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔''
جس وقت فرشتے مؤمنوں کی جان قبض کرتے ہیں اس وقت بھی وہ انہیں سلام کرتے ہیں ۔
ٱلَّذِينَ تَتَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمُ ٱدْخُلُوا ٱلْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾...سورة النحل
''وہ پرہیزگار جو پاک سیرت ہوتے ہیں ، فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں : ''سلام علیکم'' تم پرسلام ہو جو اچھے عمل کرتے رہے۔ اس کے صلے میں جنت میں داخل ہوجاؤ۔''
جنتیوں کو جنت میں داخل کرتے وقت کہا جائے گا:
ٱدْخُلُوهَا بِسَلَـٰمٍ ءَامِنِينَ ﴿٤٦﴾...سورہ الحجر
''امن و سلامتی کے ساتھ ان جنتوں میں داخل ہوجاؤ''
اور دوسرے مقام پرارشاد ہے:
ٱدْخُلُوهَا بِسَلَـٰمٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ ٱلْخُلُودِ ﴿٣٤﴾...سورة ق
'' تم اس جنت میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ یہ ہمیشہ کا دن ہے۔'' 2
اور اصحابُ الاعراف بھی جنتیوں پرسلام بھیجیں گے :
وَعَلَى ٱلْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّۢا بِسِيمَىٰهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَـٰبَ ٱلْجَنَّةِ أَن سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ ﴿٤٦﴾...سورة الاعراف
اور اعراف (جنت و جہنم کی بلندیوں )پرکچھ لوگ ہوں گے یہ ہرایک (جنتی و جہنمی)کو اس کی علامت سے پہچانیں گے اورجنت والوں کوآواز دے کر کہیں گے تم پر سلامتی ہو'' یہ لوگ (اب تک)جنت میں داخل تو نہیں ہوئے ہوں گے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ بھی جنتیوں کوسلام کہے گا
سَلَـٰمٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ﴿٥٨﴾...سورة یس
''مہربان پروردگار فرمائے گا (تم پر) سلامتی ہو۔''
ایک اور مقام پرارشاد ہے:
تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُۥ سَلَـٰمٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا ﴿٤٤﴾...سورة الاحزاب
''جس دن وہ(جنتی) اللہ سے ملاقات کریں گے تو ان کا استقبال لفظ 'سلام' سے ہوگا۔''
سلام کہنے کی جنت میں تین صورتیں ہوں گی:
- اللہ تعالیٰ انہیں سلام کہے گا۔
- فرشتے انہیں سلام کہیں گے۔
- جنتی ایک دوسرے سے ملتے وقت سلام کہیں گے۔
جَنَّـٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ ءَابَآئِهِمْ وَأَزْوَٰجِهِمْ وَذُرِّيَّـٰتِهِمْ ۖ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿٢٣﴾ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ ﴿٢٤﴾...سورة الرعد
''وہ گھر جو ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے آباؤ اجداد ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں وہ بھی داخل ہوں گے اور فرشتے (جنت کے) ہردروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے اورکہیں گے تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم (دنیا میں مصائب پر) صبر کرتے رہے۔ سو یہ آخرت کاگھر کیاہی اچھا ہے۔''
وَأُدْخِلَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ ﴿٢٣﴾...سورة ابراھیم
اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کیے وہ بہشتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ وہاں ان کی صاحب سلامت سلام ہوگا
وَسِيقَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى ٱلْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَٰبُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَٱدْخُلُوهَا خَـٰلِدِينَ ﴿٧٣﴾...سورة الزمراور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ گروہ بنا کر بہشت کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے داروغہ ان سے کہیں کہ تم پر سلام تم بہت اچھے رہے۔ اب اس میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ
جنتی آپس میں ملتے وقت سلام کہیں گے
دَعْوَىٰهُمْ فِيهَا سُبْحَـٰنَكَ ٱللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ ۚ وَءَاخِرُ دَعْوَىٰهُمْ أَنِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٠﴾...سورة یونس
''جنت میں صالحین کی پکار یہ ہوگی،اے اللہ تو پاک ہے'' اور ان کی آپس میں (ملاقات کے وقت) دعا ہوگی ''تم پرسلامتی ہو'' اور ان کا خاتمہ کلام یہ ہوگا کہ سب طرح کی تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔''
ان وضاحتوں سے ثابت ہوگیا کہ 'سلام' کااسلام میں کیامقام ہے اور قرآن مجیدمیں سلام کی اہمیت پر کس قدر وضاحت سے روشنی ڈالی گئی ہے اوربالخصوص جنت میں سلام کے متعلق جو وضاحتیں گزری ہیں ، اس سے سلام کی اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے۔نیز سلام کے بعدمصافحہ کرنا سونے پر سہاگہ کامصداق ہے اور اس سے دوسرے مصافحہ کرنے والوں کے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو پورے اسلام پرعمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
حوالہ جات
1. صحیح مسلم:54
2. سنن نسائی:1940،سنن ترمذی:2737، وقال الأستاذ حافظ زبیر علي زئي: إسنادہ حسن،أضواء المصابیح في تحقیق وتخریج مشکوٰة المصابیح:4230
3. صحیح بخاری:6236،صحیح مسلم:39
4. سنن ابوداؤد:5197 وقال الأستاذ حافظ زبیر علي زئي:إسنادہ صحیح،سنن ترمذی:2694
5. الترغیب والترھیب:4273 قال المنذر: رواہ البزار والطبران، وأحد إسناد البزار جید قوي، فالحدیث صحیح لا شك فیه (الصحیحة: 3081، 309، ج 184)
6. مسنداحمد:2864 و اسنادہ حسن (الموسوعة الحدیثیة:49530) ورجاله ثقات :298
7. الترغیب والترھیب:3 426) وقال المنذر: رواہ الطبران بإسناد حسن وقال الھیثم: رواہ الطبران وإسنادہ جید (مجمع الزوائد: 308)إ رواء الغلیل:2413
8. سنن ابن ماجہ :1334، سنن ترمذی:2485، وقال:صحیح،وقال الأستاذ زبیر علي زئي: إسنادہ صحیح
9. الترغیب والترهیب:ج3ص430، وقال المنذر رواہ الطبراني في الأوسط وقال لایروی عن النبي ۖ لا بھذا الإسناد (قال الحافظ) وهو إسناد جید قوی
10. صحیح بخاری :3326،صحیح مسلم:2841
11. صحیح بخاری:6233،صحیح مسلم:2160
12. صحیح بخاری:6234
13. صحیح مسلم:2164
14. صحیح بخاری:6254،صحیح مسلم:1798
15. سنن ترمذی :2689، سنن ابوداؤد:5195
16. سنن ابوداؤد:5196، وإسنادہ حسن، و قال الشیخ الألباني : ضعیف الإسناد
17. سنن ابوداؤد:5210
18. مسنداحمد، بلوغ الأماني 30019، موطأ إمام مالك جامع السلام
19. سنن ترمذی:2695
20. سنن ترمذی:2697 وقال حدیث حسن
21. سنن ابوداؤد:5200،قال الشیخ الألباني :صحیح موقوفاً ومرفوعاً
22. سنن ترمذی:2706، قال الألباني: حسن صحیح
23. سنن ابوداؤد:5204، قال الألباني :صحیح
24. صحیح مسلم:2168
25. سنن ترمذی:2720،سنن ابن ماجہ:350، الصحیحة:197
26. سنن نسائی:1186،قال الشیخ الألباني:صحیح
27. مسنداحمد، بلوغ الامانی12522 و سندہ صحیح
28. صحیح مسلم
29. مسنداحمد:1423،مسندأبویعلی موصلي: 1604، ح4125، طبع مؤسسة علوم القرآن بیروت، مسندالبزار: 2004، الکامل ابن عدی: 24096، وقال شعیب الأرناؤوط وزبیر علي زئي: و إسنادہ حسن (43619) وقال الالبانی، فن الطریق لی میمون المرئ صحیح (الصحیحة: 472)
30. المعجم الکبیر:2566، ح:6150۔ وقال الهیثم:و رجاله رجال الصحیح غیر سالم بن غیلان وھو ثقة (المجمع:388) وقال المنذر:رواہ الطبراني بإسناد حسن (الترغیب:4023)(اس روایت کی سند حسن ہے)۔ ان مضامین کی روایات اگرچہ ابوداؤد:5211،5212، ترمذی :2727، ابن ماجہ:3703 ) وغیرہ میں موجود ہیں، لیکن یہ روایات ضعیف ہیں۔
31. صحیح بخاری، کتاب الاستیذان ،باب المصافحة، ح6264
32. صحیح بخاری:285
33. صحیح بخاری: 3561، صحیح مسلم 2330
34. صحیح بخاری،کتاب الاستیذان باب المصافحة قبل:6263 تعلیقاً
35. مسنداحمد:1894 و اسنادہ صحیح ، التمهید لابن عبدالبر وإسنادہ صحیح (عون المعبود:5214 )طبع بیروت
36. السنن الکبریٰ النسائی:1326، ح:13048، عمل الیوم واللیلة للنسائي:ح514، و سندہ صحیح
37. السلسلة الصحیحة:201
38. صحیح بخاری کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمرو القرشي، ج3699 وکتاب المغازي باب19 ح4066
39. صحیح مسلم، کتاب الإیمان باب 54: کون السلام یھدم ماقبله... ح121
40. سنن ابوداؤد :32
41. صحیح مسلم:2020
42. مسنداحمد:1723 وأخرجه أیضا في المختارة:2316 وإسنادہ حسن (الموسوعة الحدیثیة:16620)
43. مسنداحمد:544،55 و إسنادہ محتمل للتحسین : 8327
44. دیکھئے مسند احمد:474،48،49
45. مسنداحمد:2675 قلت:إ سنادہ حسن وفي سندہ بقیة من الولید وھو صدوق کثیر التدلیس من الضعفاء وقد صرح سماع عن محمد بن زیاد فحدیثه حسن
46. مسنداحمد:1553، المختارة للضیاء المقدسي (1945) ، صحیح ابن حبان (7193) وإسنادہ حسن (الموسوعة الحدیثیة: 4020)
47. رواہ مرسلا۔ وقال الأستاذ حافظ زبیر علي زئي: إسنادہ حسن، رواہ مالك :9082، ح:1750، وسندہ ضعیف وله شاھد في جامع عبد اﷲ بن وھب ص38، ح246۔ مشکوٰة :4693
48. صحیح بخاری:ح6263،مشکوٰة المصابیح:4677
49. سنن ابوداؤد:5217، قال الألباني'صحیح'
50. مجمع الزوائد:368، الترغیب والترهیب:2719، الصحیحة:2647
51. صحیح مسلم:2750
52. صحیح بخاری: 5288، مسلم: الأمارة، باب کیفیة بیعة النساء،ح:1866، ابن ماجہ:2875
53. مسنداحمد: 3576، مسندالحمیدی:341، الترمذی:1597، والنسائي في المجتبیٰ4181، وفي الکبریٰ: 7813، ابن ماجہ: 2874 وإسنادہ صحیح
54. صحیح بخاری وصحیح مسلم
55. صحیح مسلم:591
56. صحیح بخاری:6245، مسنداحمد:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں